Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

درد آشوب

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #76
    Re: درد آشوب

    64
    اتری تھی شہرِ گل میں کوئی آتشیں کرن
    وہ روشنی ہوئی کہ سلگنے لگے بدن

    غارت گر چمن سے عقیدت تھی کس قدر
    شاخوں نے خود اتار دیے اپنے پیرہن

    اِس انتہائے قرب نے دھندلا دیا تجھے
    کچھ دور ہو کہ دیکھ سکوں تیرا بانکپن


    میں بھی تو کھو چلا تھاز مانے کے شور میں
    یہ اتفاق ہے کہ وہ یاد آ گئے معاً

    جس کے طفیل مہر بلب ہم رہے فرازؔ
    اُس کے قصیدہ خواں ہیں سبھی اہلِ انجمن

    Comment


    • #77
      Re: درد آشوب

      65


      کوئی بھٹکتا بادل

      دور اک شہر سے جب کوئی بھٹکتا بادل
      میری جلتی ہوئی بستی کی طرف آئے گا
      کتنی حسرت سے اسے دیکھیں گی پیاسی آنکھیں
      او ر وہ وقت کی مانند گزر جائے گا



      جانے کس سوچ میں کھو جائےگی دل کی دنیا
      جانے کیا کیا مجھے بیتا ہُوا یاد آئے گا
      اور اُس شہر کا بے فیض بھٹکتا بادل
      درد کی آگ کو پھیلا کے چلا جائے گا



      Comment


      • #78
        Re: درد آشوب

        66

        کیسی طلب اور کیا اندازے ، مشکل ہے تقدیر بنے
        دل پر جس کا ہاتھ بھی رکھیو آخر وہ شمشیر بنے

        غم کے رشتے بھی نازک تھے تم آئےاورٹوٹ گئے
        دل سا وحشی اب کیا سنبھلے اب کیا شے زنجیر بنے

        اپنا لہو ، تیری رعنائی تاریکی اِس دنیا کی
        میں نےکیاکیارنگ چُنے ہیں دیکھوںکیا تصویربنے

        اپنا یہ عالم ہے خود سے بھی اپنے زخم چھپاتے ہیں
        لوگوں کو یہ فکر کہ کوئی موضوعِ تشہیر بنے

        تم نے فرازؔ اس عشق میں سب کچھ کھو کر بھی کیا پایا ہے
        وہ بھی تو ناکامِ وفا تھے جو غالبؔ اور میرؔ بنے

        Comment


        • #79
          Re: درد آشوب

          67

          اپنی محبت کے افسانے کب تک راز بناؤ گے
          رسوائی سے ڈرنے والو ، بات تمہیں پھیلاؤ گے

          اس کا کیا ہے تم نہ سہی،تو چاہنےوالے اوربہت
          ترکِ محبت کرنے والو ، تم تنہا رہ جاؤ گے

          ہجرکےماروںکی خوش فہمی،جاگ رہے ہیں پہروںسے
          جیسے یوں شب کٹ جائے گی جیسے تم آ جاؤ گے

          زخمِ تمنا کا بھر جانا گویا جان سے جانا ہے
          اُس کا بُھلانا سہل نہیں ہے خودکوبھی یاد آؤ گے

          چھوڑو عہدِوفاکی باتیں کیوں جھوٹےاقرار کریں
          کل میں بھی شرمندہ ہوں گا کل تم بھی پچھتاؤ گے

          رہنےدویہ پندونصیحت ہم بھی فرازؔ سے واقف ہیں
          جس نے خود سوزخم سہے ہوں اُس کو کیا سمجھاؤ گے

          Comment


          • #80
            Re: درد آشوب

            68

            زندگی ! اے زندگی

            میں بھی چپ ہوجاؤں گا بجھتی ہوئی شمعوں کے ساتھ
            اور کچھ لمحے ٹھہر ! اے زندگی ! اے زندگی!
            جب تلک روشن ہیں آنکھوں کے فسردہ طاقچے
            نیلگوں ہونٹوں سے پھوٹے گی صدا کی روشنی
            جسم کی گرتی ہوئی دیوار کو تھامے ہوئے
            موم کے بُت آتشیں چہرے سُلگتی مُورتیں
            میری بینائی کی یہ مخلوق زندہ ہے ابھی
            اور کچھ لمحے ٹھہر! اے زندگی ! اے زندگی!




            ہو تو جانے دے مرے لفظوں کو معنی سے تہی
            میری تحریریں ، دھوئیں کی رینگتی پرچھائیاں
            جن کے پیکر اپنی آوازوں سے خالی ہے لہو
            محو ہو جانے تو دے یا دوں سے خوابوں کی طرح
            رک جائیں تو آخری سانسوں کی وحشی آندھیاں
            پھر ہٹا لینا مرے ماتھے سے تو بھی اپنا ہاتھ
            میں بھی چپ ہوجاؤںگا بجھتی ہوئی شمعوں کے ساتھ
            اور کچھ لمحے ٹھہر ! اے زندگی ! اے زندگی!

            Comment


            • #81
              Re: درد آشوب

              69

              چند لمحوں کے لیے تُو نے مسیحائی کی
              پھر وہی میں ہوں وہی عمر ہے تنہائی کی

              کس پہ گزری نہ شبِ ہجر ، قیامت کی طرح
              فرق صرف اتنا ہے کہ ہم نے سخن آرائی کی

              اپنی بانہوں میں سمٹ آئی ہے وہ قوسِ قزح
              لوگ تصویر ہی کھینچا کیے انگڑائی کی


              غیرتِ عشق بجا ، طعنہٴِ یاراں تسلیم
              بات کرتے ہیں مگر سب اُسی ہرجائی کی

              اُن کو بھولے ہیں تو کچھ اور پریشاں ہیں فرازؔ
              اپنی دانست میں دل نے بڑی دانائی کی

              Comment


              • #82
                Re: درد آشوب

                70

                زعم ایسا کیا کہ لطفِ دوست ٹھکرانا پڑے
                یہ طبیعت ہے تو شاید جاں سے بھی جانا پڑے

                خانہ ویرانی تو ہوتی ہے مگر ایسی کہاں
                اپنی آنکھوں سے خود اپنا گھر نہ جلانا پڑے

                رسم چل نکلی عجب اب مے کدے کی خیر ہو
                ہے وہی جمشید جس کے ہاتھ پیمانہ پڑے

                سوچ لو اُس بزم سے اٹھنے سے پہلے سوچ لو
                یہ نہ ہو پھر دل کے ہاتھوں لوٹ کر آنا پڑے

                لے چلے ہیں حضرت ناصح مجھے جس راہ سے
                لطف آئے جب اُدھر بھی کوئے جانانہ پڑے

                غم ہی ایسا تھا کہ دل شَق ہو گیا ورنہ فرازؔ
                کیسے کیسے حادثے ہنس ہنس کے سہہ جانا پڑے

                Comment


                • #83
                  Re: درد آشوب

                  71

                  اب فرصت ہے نہ احساس ہے غم سے اپنے
                  ورنہ ہم روز ہی ملتے تھے صنم سے اپنے

                  دل نہ مانا کہ کسی اور کے راستے پہ چلیں
                  لاکھ گمراہ ہوئے نقشِ قدم سے اپنے

                  جی چکے ہم جو یہی شوق کی رسوائی ہے
                  تم سے بیگانے ہوئے جاتے ہیں ہم سے اپنے

                  ہم نہیں پھر بھی تو آباد ہے محفل اُن کی
                  ہم سمجھتے تھے کہ رونق ہے تو دم سے اپنے

                  میرے دامن کے مقدر میں ہے خالی رہنا
                  آپ شرمندہ نہ ہوں دستِ کرم سے اپنے

                  رہ چکے مرگِ تمنا پہ بھی اک عمر فرازؔ
                  اب جو زندہ ہیں تو شعروں کے بھرم سے اپنے

                  Comment


                  • #84
                    Re: درد آشوب

                    72

                    پھر چلے آئے ہیں ہمدم لے کے ہمدردی کے نام
                    آہوئے رَم خوردہ کی وحشت بڑھانے کے لیے
                    میرے دل سے تیری چاہت کو مٹانے کے لیے
                    یہ تو جب ممکن ہے۔۔۔


                    چھیڑ کر افسانہٴ ناکامیٴ اہلِ وفا
                    تیری مجبوری کے قصے میری بربادی کی بات
                    اپنی اپنی سرگزشتیں دوسروں کے تجربات




                    اُن کو کیا معلوم لیکن تیری چاہت کے کرم
                    میری تنہائی کے دوزخ میری جنت کے بھرم
                    تیری آنکھوں کا وفا آمیز افسردہ خیال







                    کاش اتنا سوچ سکتے غم گساروں کے دماغ
                    یہ تو جب ممکن ہے جب بجھ جائے ہرآنسو ہر چراغ
                    خود کو اِن میں دفن کردوں بھول جاؤں اپنا نام

                    Comment


                    • #85
                      Re: درد آشوب

                      73

                      تم بھی خفا ہو لوگ بھی برہم ہیں دوستو
                      اب ہو چلا یقیں کہ بُرے ہم ہیں دوستو

                      کس کو ہمارے حال سے نسبت ہے ، کیا کہیں
                      آنکھیں تو دشمنوں کی بھی پُرنم ہیں دوستو

                      اپنے سوا ہمارے نہ ہونے کا غم کسے
                      اپنی تلاش میں تو ہمیں ہم ہیں دوستو

                      کچھ آج شام ہی سے ہے دل بھی بجھابجھا
                      کچھ شہر کے چراغ بھی مدھم ہیں دوستو

                      اِس شہرِ آرزو سے بھی باہر نکل چلو
                      اب دل کی رونقیں بھی کوئی دم ہیں دوستو

                      سب کچھ سہی فرازؔ پر اتنا ضرور ہے
                      دنیا میں ایسے لوگ بہت کم ہیں دوستو

                      Comment


                      • #86
                        Re: درد آشوب

                        74

                        تو کہاں تھا زندگی کے روزوشب آنکھوں میں تھے
                        آج یاد آیا کہ آنسو بےسبب آنکھوں میں تھے

                        رات بھر تاروں کی صورت جاگتے رہنا ہمیں
                        صبحدم کہنا کہ کیا کیا خوابِ شب آنکھوں میں تھے

                        تیری یادوں کی مہک ہر درد کو بِسرا گئی
                        ورنہ ترے دکھ بھی اے شہرِطرب آنکھوں میں تھے


                        اب تلک جن کی جدائی کا قَلق جی کو نہ تھا
                        آج تُو بچھڑا تو وہ بھی سب کےسب آنکھوں میں تھے

                        اب تو ضبطِ غم نے پتھر کر دیا ورنہ فرازؔ
                        دیکھتا کوئی کہ دل کے زخم جب آنکھوں میں تھے

                        Comment


                        • #87
                          Re: درد آشوب

                          75


                          لمحے وفورِ شوق کے ایسے نہ آئے تھے
                          یوں چپ ہیں ترے پاس ہی جیسے نہ آئے تھے

                          ساقی شکستِ جام سے چہروں پہ دیکھنا
                          وہ رنگ بھی کہ شعلہٴ مے سے نہ آئے تھے

                          دل پر لگی خراش تو چہرے شفق ہوئے
                          اب تک تو زخم راس کچھ ایسے نہ آئے تھے


                          پہلے بھی روئے ہیں مگر اب کے وہ کرب ہے
                          آنسو کبھی بھی آنکھوں میں جیسے نہ آئے تھے

                          جب صبح ہو چکی ہے تو کیا سوچنا فرازؔ
                          وہ رات کیوں نہ آئے تھے کیسے نہ آئے تھے

                          Comment


                          • #88
                            Re: درد آشوب

                            76

                            شہدائے جنگِ آزادی ١۸۵۷ء کے نام

                            تم نے جس دن کےلیے اپنے جگر چاک کیے
                            سو برس بعد سہی دن تو وہ آیا آخر
                            تم نے جس دشتِ تمنا کو لہو سے سینچا
                            ہم نے اُس کو گل و گلزار بنایا آخر
                            نسل در نسل رہی جہدِ مسلسل کی تڑپ
                            ایک اک بُوند نے طوفان اٹھایا آخر
                            تم نے اک ضرب لگائی تھی حصارِ شب پر
                            ہم نے ہر ظلم کی دیوار کو ڈھایا آخر


                            وقت تاریک خرابوں کا وہ عفریت ہے جو
                            ہر گھڑی تازہ چراغوں کا لہو پیتا ہے
                            زلفِ آزادی کے ہر تار سے دستِ ایّام
                            حریت کیش جوانوں کے کفن سیتا ہے
                            تم سے جس دورِ المناک کا آغاز ہُوا
                            ہم پہ وہ عہدِ ستم ایک صدی بیتا ہے
                            تم نے جو جنگ لڑی ننگِ وطن کی خاطر
                            مانا اس جنگ میں تم ہارے عدو جیتا ہے


                            لیکن اے جذبِ مقدس کے شہیدانِ عظیم
                            کل کی ہار اپنے لیے جیت کی تمہید بنی
                            ہم صلیبوں پہ چڑھے زندہ گڑے پھر بھی بڑھے
                            وادیٴ مرگ بھی منزل گہہِ امید بنی
                            ہاتھ کٹتے رہے پر مشعلیں تابندہ رہیں
                            رسم جو تم سے چلی باعثِ تقلید بنی
                            شب کے سفّاک خداؤں کو خبر ہو کہ نہ ہو
                            جو کرن قتل ہوئی شعلہٴ خورشید بنی

                            Comment


                            • #89
                              Re: درد آشوب

                              77

                              پیمبرِ مشرق

                              وہ شب کہ جس میں ترا شعلہٴ نوا لپکا
                              ڈھلی تو ماتمِ یک شہرِ آرزو بھی ہُوا
                              وہ رُت کہ جس میں ترا نغمہٴ جنوں گونجا
                              کئی تو سازِ تمنا لہُو لہُو بھی ہوا




                              یہی بہت تھا کوئی منزلِ طلب تو ملی
                              کہیں تو مژدہٴ قربِ حریمِ یار ملا
                              ہزار شکر کہ طعنِ برہنگی تو گیا
                              اگرچہ پیرہنِ شوق تار تار ملا



                              خیال تھا کہ شکستِ قفس کے بعد بھی ہم
                              ترے پیام کے روشن چراغ دیکھیں گے
                              رہے گا پیشِ نظر تیرا آئینہ جس میں
                              ہم اپنے ماضی و فردا کے داغ دیکھیں گے


                              مگر جو حال طلوعِ سحر کے بعد ہُوا
                              جو تیرے درس کی تحقیر ہم نے دیکھی ہے
                              بیاں کریں بھی تو کس ،کہیں تو کس سے کہیں
                              جو تیرے خواب کی تعبیر ہم نے دیکھی ہے



                              مدبروں نے وفا کے چراغ گُل کر کے
                              دراز دستیٴ جاہ و چشم کو عام کیا
                              مفکروں نے فقیہوں کی دل دہی کےلیے
                              خودی کی مے میں تصوف کا زہر گھول دیا


                              وہ کم نظر تھے کہ نادان تھے کہ شعبدہ گر
                              جو تجھ کو جن و ملائک کا ترجماں سمجھے
                              تری نظر میں ہمیشہ زمیں کے زخم رہے
                              مگر یہ تجھ کو مسیحائے آسماں سمجھے




                              عروجِ عظمتِ آدم تھا مدّعا تیرا
                              مگر یہ لوگ نقوشِ فنا اُبھارتے ہیں
                              کس آسماں پہ ہے تُو اے پیمبرِ مشرق
                              زمیں کے زخم آج بھی تجھے پکارتے ہیں

                              Comment


                              • #90
                                Re: درد آشوب

                                78

                                اسی خیال میں تاروں کو رات بھر دیکھوں
                                کہ تجھ کو صبحِ قیامت سے پیشتر دیکھوں

                                اِس اک چراغ کی لَو چبھ رہی ہےآنکھوںمیں
                                تمام شہر ہو روشن تو اپنا گھر دیکھوں
                                مجھے خود اپنی طبیعت پہ اعتماد نہیں
                                خدا کرے کہ تجھے اب نہ عمربھر دیکھوں

                                صدائے غولِ بیاباں نہ ہو یہ آوازہ
                                مرا وجود ہے پتّھر جو لوٹ کر دیکھوں

                                نظر عذاب ہے اب پاؤں میں ہو اگر زنجیر
                                فضا کے رنگ کو دیکھوں کہ بال و پر دیکھوں

                                جدا سہی مری منزل بچھڑ نہیں سکتا
                                میں کس طرح تجھے اوروں کا ہمسفر دیکھوں

                                وہ لب فرازؔ اگر کر سکیں مسیحائی
                                بقولِ دردؔ میں سو سو طرح سے مر دیکھوں

                                Comment

                                Working...
                                X