Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

درد آشوب

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #91
    Re: درد آشوب

    79

    (بطرزِ بیدل)
    جنبشِ مژگاں کہ ہردم دل کشائے زخم ہے
    جو نظر اٹھتی ہے گویا آشنائے زخم ہے

    دیکھنا آئینِ مقتل ، دلفگارانِ وفا
    التفاتِ تیغِ قاتل خوں بہائے زخم ہے

    بسکہ جوشِ فصلِ گل سے کھل گئےسینوں کےچاک
    خندہٴِ گل بھی ہم آہنگِ صدائے زخم ہے

    ہم نفس،ہرآستیں میں دشنہ پنہاں ہےتوکیا
    ہم کو پاسِ خاطرِ یاراں بجائے زخم ہے

    آ تماشا کر کبھی اے بےنیازِ شامِ غم
    دیدہٴ بے خواب بھی چاکِ قبائے زخم ہے

    کس سے جز دیوارِ مژگاں،سیلِ دردِدل رُکے
    ساحلِ دریائے خوں لب آشنائے زخم ہے

    ضبطِ گریہ ، چشمِ خوں بستہ کو تھا عقدہ کشا
    رہ گیا تھا دل میں جو آنسو بِنائے زخم ہے

    شعلہٴِ افسردگی ہے شمعِ فانوسِ خیال
    داغ کیا ہے دل سے پیمانِ وفائے زخم ہے

    اب تو دامن تک پہنچ آیا سرِ چاکِ جنوں
    ہم تو سمجھے تھے کہ بس دل انتہائے زخم ہے

    سلسلہ ہائے طلب سے رُستگاری ہے کسے
    دل ہلاکِ ناوک و ناوک فدائے زخم ہے

    چارہ گر نے بہرِ تسکیں رکھ دیاہےدل پہ ہاتھ
    مہرباں ہے وہ مگر نا آشنائے زخم ہے

    میری وحشت کب ہوئی رسوائے عریانی فرازؔ
    کل بدن پر پیرہن تھا اب ردائے زخم ہے

    Comment


    • #92
      Re: درد آشوب

      80

      المیہ

      کس تمنا سے یہ چاہا تھا کہ اک روز تجھے
      ساتھ اپنے لیے اس شہر کو جاؤں گا جسے
      مجھ کو چھوڑےہوئےبھولےہوئےاک عمرہوئی


      ہائے وہ شہر کہ جو میرا وطن ہے پھر بھی
      اُس کی مانوس فضاؤں سے رہا بیگانہ
      میرا دل میرے خیالوں کی طرح دیوانہ


      آج حالات کا یہ طنز جگر سوز تو دیکھ
      تو مرے شہر کے اک حجلہٴ زریں میں مکیں
      اور میں پردیس میں جاں دادہٴ یک نانِ جویں


      Comment


      • #93
        Re: درد آشوب

        81

        ملکیت

        سسکیاں لینے سے کیا فائدہ اے زینتِ شب
        دیکھ اس ہنستی ہوئی رات کو افسردہ نہ کر
        تیرا رونا تجھے تسکین تو دے سکتا ہے
        لیکن اس انجمنِ عیش کو آزردہ نہ کر


        مجھ پرروشن ہےترے سوئےہوئےدردکی آگ
        جبر کی بادہ گساری سے بھڑک اٹھی ہے
        تیری کچلی ہوئی غیرت تری روندی ہوئی روح
        اک حقارت بھری ٹھوکر سے پھڑک اٹھی ہے


        اور یہ توہین ترے جسم کی توہین نہ تھی
        ورنہ یہ زہر تو ہنس ہنس کے پیا ہے تُونے
        وقفِ گردش رہی ساغر کی طرح دست بدست
        بزم کی بزم کو سرشار کیا ہے تُونے

        تُو نے ہر جلتی ہوئی روح کو گلزار کیا
        تُو ہر اک ہاتھ میں غنچے کی طرح چٹکی ہے
        تُو نے ہر دوش پہ بکھرائی ہیں اپنی زلفیں
        تُو ہر آغوش میں خوشبو کی طرح بھٹکی ہے


        مگر امشب ترے احساس پہ وہ چوٹ پڑی
        تلخ فاقوں کی اذیت بھی بھلا دی جس نے
        تیرے کردار کے صحرا سے وہ آندھی اٹھی
        فکر فردا کی بھی دیوار گرا دی جس نے


        تجھ کو معلوم نہیں ہے مگر اے دشمنِ جاں
        اس تجارت سے عبارت تری شخصیت ہے
        جسم سے لیکر تری روح تلک آج کی رات
        یا مری یا مرے احباب کی ملکیت ہے

        Comment


        • #94
          Re: درد آشوب

          82

          منتظر کب سے تحیرّ ہے تری تقریر کا
          بات کر،تجھ پر گماں ہونے لگا تصویر کا

          رات کیا سوئے کہ باقی عمر کی نیند اڑ گئی
          خواب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا
          کیسے پایا تھا تجھے،پھر کس طرح کھویا تجھے
          مجھ سا منکر بھی تو قائل ہو گیا تقدیر کا

          جس طرح بادل کا سایہ پیاس بھڑکاتا رہے
          میں نے یہ عالم بھی دیکھا ہے تری تصویر کا

          جانے کس عالم میں تو بچھڑا کہ ہے ترے بغیر
          آج تک ہر نقش فریادی مری تحریر کا
          عشق میں سر پھوڑنا بھی کیا کہ یہ بےمہرلوگ
          جوئے خوں کو نام دےدیتے ہیں جوئے شِیر کا

          جس کو بھی چاہا اُسے شدت سے چاہا ہے فرازؔ
          سلسلہ ٹوٹا نہیں ہے درد کی زنجیر کا

          Comment


          • #95
            Re: درد آشوب

            83


            اہلِ غم جاتے ہیں ناامید تیرے شہر سے
            جب نہیں تجھ سے تو کیا امید تیرے شہر سے

            دیدنی تھی سادگی ان کی جو رکھتے تھےکبھی
            اے وفا نا آشنا امید تیرے شہر سے

            تیرے دیوانوں کے حق میں زہرِقاتل ہوگئی
            نا امیدی سے سوا امید تیرے شہر سے

            پابجولاں دل گرفتہ پھر رہے ہیں کُو بکو
            ہم جو رکھتے تھے سوا امید تیرے شہر سے

            تُو تو بے پرواہی تھا اب لوگ بھی پتھر ہوئے
            یا ہمیں تجھ سے تھی یا امید تیرے شہر سے

            راستے کیا کیا چمک جاتے ہیں اے جانِ فرازؔ
            جب بھی ہوتی ہے ذرا امید تیرے شہر سے

            Comment


            • #96
              Re: درد آشوب

              84

              تمثیل

              کتنی صدیوں کے انتظار کے بعد
              قربتِ یک نفس نصیب ہوئی
              پھر بھی تو چُپ ،اداس،کم آمیز


              اے سلگتے ہوئے چراغ بھڑک
              درد کی روشنی کو چاند بنا
              کہ ابھی آندھیوں کا شور ہے تیز


              ایک پل مرگِ جاوداں کا صلہ
              اجنبیت کے زہر میں مت گھول
              مجھ کو مت دیکھ لیکن آنکھ تو کھول

              Comment


              • #97
                Re: درد آشوب

                85


                آنکھوں میں چبھ رہے ہیں در و بام کے چراغ
                جب دل ہی بجھ گیا ہو تو کس کام کے چراغ

                کیا شام تھی کہ جب ترے آنے کی آس تھی
                اب تک جلا رہے ہیں ترے نام کے چراغ

                شاید کبھی یہ عرصہٴِ یک شب نہ کٹ سکے
                تو صبح کی ہوا ہے تو ہم شام کے چراغ

                اِس تیرگی میں لغزشِ پا بھی ہے خود کشی
                اے رہ نوردِ شوق ذرا تھام کے چراغ

                ہم کیا بجھے کہ جاتی رہی یادِ رفتگاں
                شاید ہمیں تھے گردشِ ایّام کے چراغ

                ہم درخورِ ہوائے ستم بھی نہیں فرازؔ
                جیسے مزار پر کسی گمنام کے چراغ

                Comment


                • #98
                  Re: درد آشوب

                  86


                  نظر کی دھوپ میں سائے گھلے ہیں شب کی طرح
                  میں کب اداس نہیں تھا مگر نہ اب کی طرح

                  پھر آج شہرِ تمنا کی رہگزاروں سے
                  گز ر رہے ہیں کئی لوگ روز و شب کی طرح

                  تجھے تو میں نے بڑی آرزو سے چاہا تھا
                  یہ کیا کہ چھوڑ چلا تو بھی اور سب کی طرح


                  فسردگی ہے مگر وجہِ غم نہیں معلوم
                  کہ دل پہ بھی بوجھ سا ہے رنجِ بےسبب کی طرح

                  کِھلے تو اب کے بھی گلشن میں پھول ہیں لیکن
                  نہ میرے زخم کی صورت ، نہ تیرے لب کی طرح



                  Comment


                  • #99
                    Re: درد آشوب

                    87


                    ہم کیا کہ اسی سوچ میں بادِ چمنی تھی
                    وہ گل کی چٹک تھی کہ تری کم سخنی تھی

                    آنسو کی وہ اک بوند جو آنکھوں سے نہ ٹپکی
                    آئینہ دل کے لیے ہیرے کی کَنی تھی

                    پیمانے کو ہم منہ سے لگاتے نہ لگاتے
                    ساقی کی ملاقات ہی توبہ شکنی تھی

                    اب صورتِ دیوار ہیں چپ چاپ کہ تجھ سے
                    کچھ اور تعلق نہ سہی ہم سخنی تھی

                    یہ جاں جو کڑی دھوپ میں جلتی رہی برسوں
                    اوروں کے لیے سایہٴ دیوار بنی تھی

                    دنیا سے بچھڑتے کہ فرازؔ اُن کو بھلاتے
                    ہر حال میں اپنے لیے پیماں شکنی تھی

                    Comment


                    • Re: درد آشوب

                      88

                      نیند

                      سرد پلکوں کی صلیبوں سےاتارےہوئےخواب
                      ریزہ ریزہ ہیں مرے سامنے شیشوں کی طرح
                      جن ٹکڑوں کی چبھن،جن کی خراشوں کی جلن
                      عمر بھر جاگتے رہنے کی سزا دیتی ہے
                      شدتِ کرب سے دیوانہ بنا دیتی ہے



                      آج اِس قرب کے ہنگام وہ احساس کہاں
                      دل میں وہ دردنہ آنکھوںمیں چراغوںکادھواں
                      اور صلیبوں سے اتارے ہوئے خوابوں کی مثال
                      جسم گرتی ہوئی دیوار کی مانند نڈھال
                      تو مرے پاس سہی اے مرے آزردہ جمال

                      Comment


                      • Re: درد آشوب

                        89

                        خوشبو کا سفر

                        چھوڑ پیمانِ وفا کی بات شرمندہ نہ کر
                        دوریاں ، مجبوریاں ،رسوائیاں ، تنہائیاں
                        کوئی قاتل ، کوئی بسمل ، سسکیاں ، شہنائیاں
                        دیکھ یہ ہنستا ہوا موسم ہے موضوعِ نظر

                        وقت کی رَو میں ابھی ساحل ابھی موجِ فنا
                        ایک جھونکا،ایک آندھی،اک کرن،اک جوئے خوں
                        پھر وہی صحرا کا سناٹا وہی مرگِ جنوں
                        ہاتھ ہاتھوں کا اثاثہ ، ہاتھ ہاتھوں سے جدا
                        جب کبھی آئے گا ہم پر بھی جدائی کا سماں

                        ٹوٹ جائے گا مرے دل میں کسی خواہش کا تیر
                        بھیگ جائے گی تری آنکھوں میں کاجل کی لکیر

                        کل کے اندیشوں سے اپنے دل کو آزردہ نہ کر
                        دیکھ یہ ہنستا ہوا موسم یہ خوشبو کا سفر

                        Comment


                        • Re: درد آشوب

                          90

                          اب کے برس بھی

                          لب و تشنہ و نومید ہیں ہم اب کے برس بھی
                          اے ٹھہرے ہوئے ابرِکرم اب کے برس بھی

                          کچھ بھی ہو گلستاں میں مگر کنجِ چمن سے
                          ہیں دور بہاروں کے قدم اب کے برس بھی


                          اے شیخِ کرم ، دیکھ کہ باوصفِ چراغاں
                          تیرہ ہیں دروبامِ حرم اب کے برس بھی

                          اے دل ز َدَگاں ، خیر مناؤ کہ ہیں نازاں
                          پندارِ خدائی پہ صنم ، اب کے برس بھی

                          پہلے بھی قیامت تھی ستم کاریٴ ایّام
                          ہیں کشتہٴ غم،کشتہٴ غم اب کے برس بھی

                          لہرائیں گے ہونٹوں پہ دکھاوے کے تبسم
                          ہو گا یہ نظارہ کوئی دم اب کے برس بھی

                          ہو جائے گا ہر زخمِ کہن پھر سے نمایاں
                          روئے گا لہو دیدہٴ نم اب کے برس بھی

                          پہلے کی طرح ہوں گے تہی جامِ سفالیں
                          چھلکے گا ہر اک ساغرِ جم اب کے برس بھی


                          مقتل میں نظر آئیں گے پابستہٴ زنجیر
                          اہلِ نظر و اہلِ قلم ، اب کے برس بھی

                          Comment


                          • Re: درد آشوب

                            91

                            تجھ سے مل کر بھی کچھ خفا ہیں ہم
                            بے مروّت نہیں تو کیا ہیں ہم

                            ہم غمِ کارواں میں بیٹھے تھے
                            لوگ سمجھے شکستہ پا ہیں ہم

                            اس طرح سے ہمیں رقیب ملے
                            جیسے مدت کے آشنا ہیں ہم

                            راکھ ہیں ہم اگر یہ آگ بجھی
                            جز غمِ دوست اور کیا ہیں ہم

                            خود کو سنتے ہیں اس طرح جیسے
                            وقت کی آخری صدا ہیں ہم

                            کیوں زمانے کو دیں فرازؔ الزام
                            وہ نہیں ہیں تو بے وفا ہیں ہم

                            Comment


                            • Re: درد آشوب

                              92

                              تجھے اداس کیا خود بھی سوگوار ہوئے
                              ہم آپ اپنی محبت سے شرمسار ہوئے

                              بلا کی رَو تھی ، ندیمانِ آبلہ پا کو
                              پلٹ کے دیکھنا چاہا کہ خود غبار ہوئے

                              گلہ اُسی کا کیا جس سے تجھ پہ حرف آیا
                              وگرنہ یوں تو ستم ہم پہ بے شمار ہوئے


                              یہ انتقام بھی لینا تھا زندگی کو ابھی
                              جو لوگ دشمنِ جاں تھے وہ غمگسار ہوئے

                              ہزار بار کیا ترکِ دوستی کا خیال
                              مگر فرازؔ پشیمان ہر اک بار ہوئے

                              Comment


                              • Re: درد آشوب

                                93


                                اَن دیکھے دیاروں کے سفیر

                                اور جب ہو گا ترازو ہجر کے ترکش کا تیر
                                مختلف ہوں گے تو کتنے دوسرے لوگوں سے ہم
                                جو چلے تھے کوچہٴ جاناں سے مقتل کی طرف
                                بے نیازِ سنگِ خلقت، بے غمِ تیغِ ستم
                                اپنے اپنے شوقِ بے پرواہ کی باراتیں لیے
                                دردِ وارفتہ کی شمعوں کو جلائے ہر قدم
                                اُن میں ہراک باوفا ،ثابت قدم،زندہ ضمیر

                                اُن کی آنکھیں ریزہ ریزہ اُن کی جانیں زخم زخم
                                اُن کے آنسو کانچ کے تابوت ریشم کے کفن
                                اُن میں خوابیدہ کسی لیلا کسی شیریں کا خواب
                                اُن میں آسودہ جنونِ قیس و خونِ کوہکن
                                اُن کے ماتھوں پر شکستوں کے نشاں ضربِ عدو
                                اُن کے ہاتھوں کی لکیروں میں جوانمرگوں کا فن
                                اُن میں ہر اک تھا کسی دامِ تمنّا کا اسیر

                                اُن پہ جو گزری وہ گزرے گی ہراہلِ درد پر
                                اور ہم دووں بھی اپنے جرم سے غافل نہیں
                                تری پیشانی کی سج دھج،میری چاہت کا غرور
                                گو یا وہ زندہ ہیں جو شرمندہٴ قاتل نہیں
                                پھر بھی کس دامن دریدہ کو یہاں بخشش ملی
                                اس سفر میں راستوں کے زخم ہیں منزل نہیں
                                اور ہم دونوں ہیں اَن دیکھے دیاروں کے سفیر

                                Comment

                                Working...
                                X