Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

درد آشوب

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #31
    Re: درد آشوب

    20

    ایسے چپ ہیں کہ یہ منزل بھی کڑی ہو جیسے
    تیرا ملنا بھی جدائی کی گھڑی ہو جیسے
    اپنے ہی سائے سے ہر گام لرز جاتا ہوں
    راستے میں کوئی دیوار کھڑی ہو جیسے
    کتنے ناداں ہیں ترے بھولنے والے کہ تجھے
    یاد کرنے کے لیئے عمر پڑی ہو جیسے
    تیرے ماتھے کی شکن پہلے بھی دیکھی تھی مگر
    یہ گرہ اب کے مرے دل میں* پڑی ہو جیسے
    منزلیں دور بھی ہیں منزلیں نزدیک بھی ہیں
    اپنے ہی پاؤں میں* زنجیر پڑی ہو جیسے
    آج دل کھول کے روئے ہیں* تو یوں* خوش ہیں* فرازؔ
    چند لمحوں کی یہ راحت بھی بڑی ہو جیسے


    Comment


    • #32
      Re: درد آشوب

      21

      کیا ایسے کم سُخن سے کوئی گفتگو کرے
      جو مستقل سکوت سے دل کو لہو کرے
      اب تو ہمیں بھی ترکِ مراسم کا دُکھ نہیں
      پر دل یہ چاہتا ہے کہ آغاز تو کرے
      تیرے بغیر بھی تو غنیمت ہے زندگی
      خود کو گنوا کے کون تری جستجو کرے
      اب تو یہ آرزو ہے کہ وہ زخم کھائیے
      تا زندگی یہ دل نہ کوئی آرزو کرے
      تجھ کو بھُلا کے دل ہے وہ شرمندۂ نظر
      اب کوئی حادثہ ہی ترے روبرو کرے
      چپ چاپ اپنی آگ میں جلتے رہو فراز
      دنیا تو عرضِ حال سے بے آبرو کرے

      Comment


      • #33
        Re: درد آشوب

        22


        ہر ایک بات نہ کیوں زہر سی ہماری لگے
        کہ ہم کو دستِ زمانہ کے زخم کاری لگے
        اداسیاں ہوں* مسلسل تو دل نہیں* روتا
        کبھی کبھی ہو تو یہ کیفیت بھی پیاری لگے
        بظاہر ایک ہی شب ہے فراقِ یار مگر
        کوئی گزارنے بیٹھے تو عمر ساری لگے
        علاج اس دلِ درد آشنا کا کیا کیجئے
        کہ تیر بن کے جسے حرفِ غمگساری لگے
        ہماری پاس بھی بیٹھو بس اتنا چاہتے ہیں
        ہمارے ساتھ طبیعت اگر تمہاری لگے
        فرازؔ تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ
        یہ کیا ضرور وہ صورت سبھی کو پیاری لگے

        Comment


        • #34
          Re: درد آشوب

          23
          ہمدرد


          اے دل ان آنکھوں پر نہ جا
          جن میں وفورِ رنج سے
          کچھ دیر کو تیرے لیئے
          آنسو اگر لہرا گئے


          یہ چند لمحوں کی چمک
          جو تجھ کو پاگل کر گئی!
          ان جگنوؤں کے نور سے
          چمکی ہے کب وہ زندگی
          جس کے مقدر میں رہی
          صبحِ طلب سے تیرگی



          کس سوچ میں گم سم ہے تو
          اے بے خبر! ناداں نہ بن
          تیری فسردہ روح کو
          چاہت کے کانٹوں کی طلب
          اور اس کے دامن میں *فقط
          ہمدردیوں کے پھول ہیں

          Comment


          • #35
            Re: درد آشوب

            24

            خواب

            وہ چاند جو میرا ہمسفر تھا
            دوری کے اجاڑ جنگلوں میں
            اب میری نظر سے چھپ چکا ہے


            اِک عمر سے میں ملول و تنہا
            ظلمات کی راھگزرمیں ہوں
            میں آگے بڑھوں کہ لوٹ جاؤں


            کیا سوچ کے انتظار میں ہوں
            کوئی بھی نہیں جو یہ بتائے
            میں کون ہوں کس دیار میں ہوں

            Comment


            • #36
              Re: درد آشوب

              25
              سو دوریوں پہ بھی مرے دل سے جدا نہ تھی
              تو میری زندگی تھی مگر بے وفا نہ تھی


              دل نے ذرا سے غم کو قیامت بنا دیا
              ورنہ وہ آنکھ اتنی زیادہ خفا نہ تھی


              یوں دل لرز اٹھا ہے کسی کو پکار کر
              میری صدا بھی جیسے کہ میری صدا نہ تھی


              برگ خزاں جو شاخ سے ٹوٹا وہ خاک تھا
              اس جاں سپردگی کے تو قابل ہوا نہ تھی

              جگنو کی روشنی سے بھی کیا کیا بھڑک اٹھی
              اس شہر کی فضا کہ چراغ آشنا نہ تھی


              مرہونِ آسماں جو رہے ان کو دیکھ کر
              خوش ہوں کہ میرے ہونٹوں پہ کوئی دعا نہ تھی



              ہر جسم داغ داغ تھا لیکن فرازؔ ہم
              بدنام یوں ہوئے کہ بدن پر قبا نہ تھی

              Comment


              • #37
                Re: درد آشوب

                26
                جو بھی دکھ یاد نہ تھا یاد آیا
                آج کیا جانیے کیا یاد آیا

                پھر کوئی ہاتھ ہے دل پر جیسے
                پھر ترا عہد وفا یاد آیا

                جس طرح دھند میں*لپٹے ہوئے پھول
                ایک اک نقش ترا یاد آیا

                ایسی مجبوری کے عالم میں* کوئی
                یاد آیا بھی تو کیا یاد آیا


                اے رفیقو سر منزل جا کر
                کیا کوئی آبلہ پا یاد آیا

                یاد آیا تھا بچھڑنا تیرا
                پھر نہیں* یاد کہ کیا یاد آیا

                جب کوئی زخم بھرا داغ بنا
                جب کوئی بھول گیا یاد آیا

                یہ محبت بھی ہے کیا روگ فرازؔ
                جس کو بھولے وہ سدا یاد آیا

                Comment


                • #38
                  Re: درد آشوب

                  27
                  سوال


                  ایک سنگ تراش جس نے برسوں
                  ہیروں کی طرح صنم تراشے
                  آج اپنے صنم کدے میں تنہا
                  مجبور، نڈھال ، زخم خوردہ
                  دن رات پڑا کراہتا ہے




                  چہرے پہ اجاڑ زندگی کے
                  لمحات کی ان گنت خراشیں
                  آنکھوں کے شکستہ مرقدوں میں
                  روٹھی ہوئی حسرتوں کی لاشیں



                  سانسوں کی تھکن بدن کی ٹھنڈک
                  احساس سے کب تلک لہو لے
                  ہاتھوں میں کہاں سکت کے بڑھ کر
                  خود ساختہ پیکروں کو چھو لے




                  یہ زخمِ طلب یہ نامرادی
                  ہر بت کے لبوں پہ ہے تبسم
                  اے تیشہ بدست دیوتاؤ !
                  تخلیق عظیم ہے کہ خالق؟
                  انسان جواب چاہتا ہے!

                  Comment


                  • #39
                    Re: درد آشوب

                    28


                    غریب شہر کے نام

                    غریب شہر تری دکھ بھری نوا پہ سلام
                    تری طلب، تیری چاہت، تری وفا پہ سلام
                    ہر ایک حرفِ تمنائے دل ربا پہ سلام
                    حدیثِ درد و سکوتِ سخن ارا پہ سلام



                    دریدہ دل، ترے آہنگ ساز غم پہ نثار
                    گہر فروش! ترے رنگ چشم نم پہ نثار


                    جنوں کا شہر ہے آباد فصل دار کی خیر
                    ہر ایک دل ہے گریبان بھری بہار کی خیر
                    بجے یہں بام مگر شمع رہگزار کی خیر
                    تمام عمر تو گزرے اس انتظار کی خیر

                    رخِ نگار و غمِ یار کو نظر نہ لگے
                    گلہ نہیں اگر آنکھ عمر بھر نہ لگے


                    دل و نظر کی شکستوں کا کیا شمار کریں
                    شمارِ زخم عبث ہے نجات سے پہلے
                    کچھ اور دیدہ خوں رنگ کو گلاب کریں
                    صبا کا ذکر قیامت ہے، رات سے پہلے


                    ابھی لبوں پہ حکایتِ خوں کچیدہ سہی
                    بہ سینہ رہ سپرم و پا بریدہ سہی



                    Comment


                    • #40
                      Re: درد آشوب

                      29
                      زخم کو پھول تو صَرصَر کو صبا کہتے ہیں
                      جانے کیا دور ہے ، کیا لوگ ہیں، کیا کہتے ہیں

                      کیا قیامت ہے کہ جن کے لئے رک رک کے چلے
                      اب وہی لوگ ہمیں آبلہ پا کہتے ہیں
                      کوئی بتلاؤ کہ اک عمر کا بچھڑا محبوب
                      اتفاقا ً کہیں*مل جائے تو کیا کہتے ہیں

                      یہ بھی اندازِ سخن ہے کہ جفا کو تیری
                      غمزہ و عشوہ و انداز و ادا کہتے ہیں
                      جب تلک دور ہے تو تیری پرستش کر لیں
                      ہم جسے چھو نہ سکیں اس کو خدا کہتے ہیں

                      کیا تعجب ہے کہ ہم اہل تمنا کو فراز
                      وہ جو محرومِ تمنا ہیں*برا کہتے ہیں

                      Comment


                      • #41
                        Re: درد آشوب

                        30
                        گل ہوا چراغ مے تو سزوار سنگ ہیں
                        مینا سرشت ہم بھی شہیدان رنگ ہیں

                        مطرب کی بے دلی ہے کہ محفل کی بے حسی
                        کس تیغ سے ہلاک نواہائے چنگ ہیں

                        دل خلوت خیال کی آرائشوں میں گم
                        آنکھیں نگار خانہ ہستی پہ دنگ ہیں

                        تاب و تواں نہیں ہے مگر حوصلے تو دیکھ
                        شیشہ صفات پھر بھی حریفانِ سنگ ہیں

                        اے حسن سادہ دل تری رسوائیاں نہ ہوں
                        کچھ لوگ کشتہ ہوسِ نام و ننگ ہیں

                        معذور ہیں تلون خاطر کو کیا کریں
                        ہم خود فراز ؔ اپنی طبیعیت سے تنگ ہیں

                        Comment


                        • #42
                          Re: درد آشوب

                          101

                          میں کہ پرشور سمندر تھے مرے پاؤں میں​
                          اب کہ ڈوبا ہوں تو سوکھے ہوئے دریاؤں میں​

                          نامرادی کا یہ عالم ہے کہ اب یاد نہیں​
                          تو بھی شامل تھا کبھی میری تمناؤں میں​

                          دن کے ڈھلتے ہی اُجڑ جاتی ہیں آنکھیں ایسے​
                          جس طرح شام کو بازار کسی گاؤں میں​

                          چاک دل سی کہ نہ سی زخم کی توہین نہ کر​
                          ایسے قاتل تو نہ تھے میرے مسیحاؤں میں​

                          ذکر اُس غیرتِ مریم کا جب آتا ہے فراز​
                          گھنٹیاں بجتی ہیں لفظوں کے کلیساؤں میں​

                          احمد فراز​
                          اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
                          اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

                          Comment


                          • #43
                            Re: درد آشوب

                            31

                            وہی جنوں ہے ، وہی کوچہِ ملامت ہے
                            شکستِ دل پہ بھی عہدِ وفا سلامت ہے

                            یہ ہم جو باغ و بہاراں کا ذکر کرتے ہیں
                            تو مدّعا گلِ تر وہ سرو قامت ہے

                            بجا یہ فرصتِ ہستی مگر دلِ ناداں
                            نہ یاد کر کے اُسے بھولنا قیامت ہے

                            چلی چلے یونہی رسمِ وفا و مشقِ ستم
                            کہ تیغِ یار و سرِ دوستاں سلامت ہے

                            سکوتِ بحر سے ساحل لرز رہا ہے مگر
                            یہ خامشی کسی طوفان کی علامت ہے

                            عجیب وضع کا احمد فرازؔ ہے شاعر
                            کہ دل دریدہ مگر پیرہن سلامت ہے

                            Comment


                            • #44
                              Re: درد آشوب

                              32

                              پیغام بر


                              میں کوئی کرنوں کا سوداگر نہیں
                              اپنے اپنے دکھ کی تاریکی لیے
                              تم آگئے کیوں مرے پاس
                              غم کے انبار کو کاندھوں پر دھرے
                              بوجھل صلیبوں کی طرح
                              آشفتہ مُو اَفسردہ رُو خونیں لباس
                              ہونٹ محرومِ تکلم پر سراپا التماس
                              اس تمنا پر کہ تم کو مل سکے
                              غم کے انباروں کے بدلے
                              مسکراہٹ کی کرن۔۔۔۔۔۔۔ جینے کی آس
                              میں مگر کرنوں کا سودا گر نہیں
                              میں نہیں جوہر شناس

                              صورتِ انبوہِ دریوزہ گراں
                              سب کے دل ہیں قہقہوں سے چُور
                              لیکن آنکھ سے آنسو رواں
                              سب کے سینوں میں امیدوں کے چراغاں
                              اور چہروں پر شکستوں کا دھواں
                              زندگی سب سے گریزاں
                              سوے مقتل سب رواں
                              سب نخیف و ناتواں
                              سب کے سب اک دوسرے کے ہم سفر
                              اک دوسرے سے بدگھماں
                              سب کی آنکھوں میں خیالِ مرگ سے خوف و ہراس


                              میری باتوں سے مری آواز سے
                              تم نے یہ جانا کہ میں بھی
                              لے کے آیا ہوں تمہارے واسطے وہ معجزے
                              جن سے بھر جائیں گے پل بھر میں تمہارے
                              اَن گنت صدیوں کے لاتعداد زخم
                              دم بخود سانسوں کو ٹھہرائے ہوئے بے جان جسم
                              منتظر ہیں قُم بِاِذنِی کی صدائے سحر کے


                              ایشیا پیغمبروں کی سرزمیں
                              اور تم اس کے زبوں قسمت مکیں۔۔۔۔ تیرہ جبیں
                              من و سلوٰی کےلیے دامن کشا
                              قحط خوردہ زار و بیمار و حزیں
                              صرف تقدیر و توکل پر یقیں


                              تم کو شیرینِ طرب کی چاہ لیکن بےستونِ غم کی سِل کو
                              چیرنے کا حوصلہ ، یارا نہیں
                              تم یدِ بیضا کےقائل،بازوئے فرہاد کی قوت سے بہرہ ور نہیں
                              تم کہ ہو کوہہ گرفتہ۔۔۔۔ زندگی سے دور
                              مردہ ساحروں کی بےنشاں قبروں کے سجادہ نشیں
                              خاکداں کی اس گِل تاریک کا
                              میں بھی اک پیکر ہوں ، پیکر گر نہیں
                              میں کوئی کرنوں کا سوداگر نہیں

                              ریت کے تپتے ہوے ٹیلوں پہ استادہ ہو تم
                              سایہِ ابرِ رواں کو دیکھتے رہنا تمہارا جزوِ دیں
                              سات قلزم موجزن چاروں طرف
                              اور تمہارے بخت میں شبنم نہیں



                              اپنے اپنے دکھ کی بوجھل گٹھڑیوں کو
                              تم نے کھولا ہے کبھی؟
                              اپنے ہم جنسوں کے سینوں کو ٹٹولا ہے کبھی؟
                              سب کی روحیں گرسنہ ۔۔۔۔ سب کی متاعِ درد میں
                              دوسروں کا خون پینے کی ہوس
                              ایک دوسرے کا دکھ کم نہیں
                              ایک کا دکھ تشنگی ، بیچارگی
                              دوسروں کا دکھ مگر افراطِ مے ۔۔۔۔ دیوانگی




                              پیاس اور نشے کا دکھ
                              اپنے انباروں سے مل کر چھانٹ لو
                              پیاس اور نشے کا دکھ ایک دوسرے میں بانٹ لو
                              پھر تمہاری زندگی شاید نہ ہو
                              شاکیِ عرشِ بریں و رحمت اللعالمین
                              میں کوئی کرنوں کا سوداگر نہیں

                              Comment


                              • #45
                                Re: درد آشوب

                                33
                                روز کی مسافت سے چُور ہو گئے دریا
                                پتھروں کے سینوں پر تھک گئے، سو گئے دریا

                                جانے کون کاٹے کا فصل لعل و گوہر کی
                                رتیلی زمینوں میں سنگ بو گئے دریا
                                اے سحابِ غم کب تک یہ گریز آنکھوں سے
                                انتظارِ طوفان میں خشک ہو گئے دریا


                                چاندنی میں آتی ہے کس کو ڈھونڈنے خوشبو
                                ساحلوں کے پھولوں کو کب سے رو گئے دریا
                                بجھ گئی ہیں قندیلیں خواب ہو گئے چہرے
                                آنکھ کے جزیروں کو پھر ڈبو گئے دریا

                                دل چٹان کی صورت سیلِ غم پہ ہنستا ہے
                                جب نہ بن پڑا کچھ بھی داغ دھو گئے دریا
                                زخمِ نامرادی سے ہم فرازؔ زندہ ہیں
                                دیکھنا سمندر میں غرق ہو گئے دریا

                                Comment

                                Working...
                                X