Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

درد آشوب

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #46
    Re: درد آشوب

    34

    تو کہ انجان ہے اس شہر کے آداب سمجھ
    پھول روئے تو اُسے خندہِ شاداب سمجھ

    کہیں آسودگی آ جائے میسر تو مقدر تیرا
    ورنہ آسودگیِ دہر کو نایاب سمجھ

    حسرتِ گریہ میں جو آگ ہے اشکوں میں نہیں
    خشک آنکھوں کو مری چشمہِ بے آب سمجھ

    موجِ دریا ہی کو آوارہِ صد شوق نہ کہہ
    ریگِ ساحل کو بھی لب تشنہِ سیلاب سمجھ

    یہ بھی وا ہے کسی مانوس کرن کی خاطر
    روزنِ در کو بھی اک دیدہِ بے خواب سمجھ

    اب کسے ساحلِ امید سے تکتا ہے فرازؔ
    وہ جو ایک کشتیِ دل تھی اُسے غرقاب سمجھ

    Comment


    • #47
      Re: درد آشوب

      35

      خدائے بر تر

      خدائے بر تر
      مری محبت
      تری محبت کی رفعتوں سے عظیم تر ہے
      تری محبت کا درخورِ اعتنا
      فقط بے کراں سمندر
      کہ جس کی خاطر
      سدا تری رحمتوں کے بادل
      کبھی کسی آبشار کی نغمگی کے موتی
      کبھی کسی آبجو کے آنسو
      کبھی کسی جھیل کے ستارے
      کہیں سے شبنم کہیں سے چشمے کہیں سے دریا اڑا کے لائے
      کہ تیرے محبوب کو جلال و جمال بخشیں
      تری محبت تو اس شہنشاہ کی طرح ہے
      جو دوسروں کے ہنر سے ، خونِ جگر سے
      اپنی وفا کو دوام بخشے
      مگر مری بے بساط چاہت
      فقط مرے آنسوؤں سے
      مرے لہو سے ۔۔۔۔ میری ہی آبرو سے
      رہی ہے زندہ
      اگرچہ اس بے بضاعتی نے
      مجھے ہمیشہ شکست دی ہے
      مگر یہ ناکامیِ تماشا بھی
      اس محبت سے کامراں تر عظیم تر ہے
      جو اپنی سطوت کے بل پر
      اوروں کی آہ زاری سے
      اپنے جذبِ وفا کی تشہیر چاہتی ہے
      جو بھی نامِ حبیب سے کردیا معنون
      وہ حرف میرا ہے ، میرا اپنا ہے
      اے خدائے بزرگ و بر تر

      Comment


      • #48
        Re: درد آشوب

        36
        قرب جز داغِ جدائی نہیں دیتا کچھ بھی
        تو نہیں ہے تو دکھائی نہیں دیتا کچھ بھی

        دل کے زخموں کو نہ رو، دوست کا احسان سمجھ
        ورنہ وہ دستِ حنائی نہیں دیتا کچھ بھی

        کیا اِسی زہر کو تریاق سمجھ کر پی لیں
        ناصحوں کو تو سجھائی نہیں دیتا کچھ بھی


        ایسا گم ہوں تری یادوں کے بیابانوں میں
        دل نہ دھڑکے تو سنائی نہیں دیتا کچھ بھی

        سوچتا ہوں تو ہر اک نقش میں دنیا آباد
        دیکھتا ہوں تو دکھائی نہیں دیتا کچھ بھی

        یوسفِ شعر کو کس مصر میں لائے ہو فرازؔ
        ذوقِ آشفتہ نوائی نہیں دیتا کچھ بھی

        Comment


        • #49
          Re: درد آشوب

          37
          دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا
          وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا

          اب اُسے لوگ سمجھتے ہیں گرفتار مرا
          سخت نادم ہے مجھے دام میں لانے والا

          صبحدم چھوڑ گیا نگہتِ گُل کی صورت
          رات کو غنچہِ دل میں سمٹ آنے والا

          کیا کہیں کتنے مراسم تھے ہمارے اس سے
          وہ جو اک شخص ہے منہ پھیر کے جانے والا

          تیرے ہوتے ہوئے آ جاتی تھی ساری دنیا
          آج تنہا ہوں تو کوئی نہیں آنے والا

          منتظر کس کا ہوں ٹوٹی ہوئی دہلیز پہ میں
          کون آئے گا یہاں کون ہے آنے والا

          کیا خبر تھی جو مری جان میں گُھلا ہے اتنا
          وہی ہے مجھ کو سرِ دار بھی لانے والا

          میں نے دیکھا ہے بہاروں میں چمن کو جلتے
          ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا


          تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فرازؔ
          دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا

          Comment


          • #50
            Re: درد آشوب

            38
            یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے
            وہ بت ہے یا خدا دیکھا نہ جائے


            یہ کن نظروں سے تونے آج دیکھا
            کہ تیرا دیکھنا دیکھا نہ جائے


            ہمیشہ کے لیے مجھ سے بچھڑ جا
            یہ منظر بارہا دیکھا نہ جائے

            غلط ہے جو سنا ، پر آزما کر
            تجھے اے بیوفا دیکھا نہ جائے

            یہ محرومی نہیں پاسِ وفا ہے
            کوئی تیرے سوا دیکھا نہ جائے


            یہی تو آشنا بنتے ہیں آخر
            کوئی نا آشنا دیکھا نہ جائے

            یہ میرے ساتھ کیسی روشنی ہے
            کہ مجھ سے راستہ دیکھا نہ جائے

            فراز ؔاپنے سوا ہے کون تیرا
            تجھے تجھ سے جدا دیکھا نہ جائے

            Comment


            • #51
              Re: درد آشوب

              39

              خود غرض


              اے دل ، اپنے درد کے کارن تو کیا کیا بیتاب رہا
              دن کے ہنگاموں میں ڈوبا راتوں کو بے خواب رہا
              لیکن تیرےزخم کا مرہم تیرے لیے نایاب رہا



              پھر ایک انجانی صورت نے ترے دکھ کے گیت سنے
              اپنی سندرتا کی کرنوں سے چاہت کے خواب بُنے
              خود کانٹوں کی باڑھ سے گزری تری راہ میں پھول چنے


              اے دل ، جس نے تری محرومی کے داغ کو دھویا تھا
              آج اسکی آنکھیں پرنم تھیں اور تُو سوچ میں کھویا تھا
              دیکھ پرائے دکھ کی خاطر تو بھی تو کبھی یوں رویا تھا؟

              Comment


              • #52
                Re: درد آشوب

                40
                وابستگی

                آ گئی پھر وہی پہاڑ سی رات
                دوش پر ہجر کی صلیب لئے
                ہر ستارہ ہلاکِ صبحِ طلب
                منزلِ خواہشِ حبیب لئے


                اس سے پہلے بھی شامِ وصل کے بعد
                کاروانِ دل و نگاہ چلا
                اپنی اپنی صلیب اٹھائے ہوئے
                ہر کوئی سوئے قتل گاہ چلا


                کتنی بانہوں کی ٹہنیاں ٹوٹیں
                کتنے ہونٹوں کے پھول چاک ہوئے
                کتنی آنکھوں سے چھن گے موتی
                کتنے چہروں کے رنگ خاک ہوئے


                پھر بھی ویراں نہیں ہے کوئے مراد
                پھر بھی شبِ زندہ دار ہیں زندہ
                پھر بھی روشن ہے بزمِ رسمِ وفا
                پھر بھی ہیں کچھ چراغ تابندہ

                وہی قاتل جو اپنے ہاتھوں سے
                ہر مسیحا کو دار کرتے ہیں
                پھر اسی کی مراجعت کےلیے
                حشر تک انتظار کرتے ہیں

                Comment


                • #53
                  Re: درد آشوب

                  41

                  دل بھی بجھا ہو شام کی پرچھایاں بھی ہوں
                  مر جائیے جو ایسے میں تنہائیاں بھی ہوں


                  آنکھوں کی سرخ لہر ہے موجِ سپردگی
                  یہ کیا ضرور ہے کہ اب انگڑائیاں بھی ہوں

                  ہر حُسن سادہ لوح نہ دل میں اتر سکا
                  کچھ تو مزاجِ یار میں گہرائیاں بھی ہوں


                  دنیا کے تذکرے تو طبیعیت ہی لے بجھے
                  بات اسکی ہو تو پھر سخن آرائیاں بھی ہوں


                  پہلے پہل کا عشق ابھی یاد ہے فرازؔ
                  دل خود یہ چاہتا تھا کہ رسوائیاں بھی ہوں

                  Comment


                  • #54
                    Re: درد آشوب

                    42

                    جب تری یاد کے جگنو چمکے
                    دیر تک آنکھ میں آنسو چمکے

                    سخت تاریک ہے دل کی دنیا
                    ایسے عالم میں اگر تُو چمکے

                    ہم نے دیکھا سرِ بازارِ وفا
                    کبھی موتی کبھی آنسو چمکے

                    شرط ہے شدتِ احساسِ جمال
                    رنگ تو رنگ ہے خوشبو چمکے

                    آنکھ مجبورِ تماشا ہے فرازؔ
                    ایک صورت ہے کہ ہر سُو چمکے


                    Comment


                    • #55
                      Re: درد آشوب

                      43
                      ممدوح

                      میں نے کب کی ہے ترے کاکل و لب کی تعریف
                      میں نے کب لکھے قصیدے ترے رخساروں کے
                      میں نے کب تیرے سراپا کی حکایات کہیں
                      میں نے کب شعر کہے جھومتے گلزاروں کے
                      جانے دو دن کی محبت میں یہ بہکے ہوے لوگ
                      کیسے افسانے بنا لیتے ہیں دلداروں کے



                      میں کہ شاعر تھا مرے فن کی روایت تھی یہی
                      مجھ کو اک پھول نظر آئے تو گلزار کہوں
                      مسکراتی ہوئی ہر آنکھ کو قاتل جانوں
                      ہر نگاہِ غلط انداز کو تلوار کہوں
                      میری فطرت تھی کہ میں حسنِ بیاں کی خاطر
                      ہر حسیں لفظ کو درِ مدحِ رخِ یار کہوں



                      میرے دل میں بھی کھلے ہیں تری چاہت کے کنول
                      ایسی چاہت کہ جو وحشی ہو تو کیا کیا نہ کرے
                      مجھے گر ہو بھی تو کیا زعمِ طوافِ شعلہ
                      تو ہے وہ شمع کہ پتھر کی بھی پرواہ نہ کرے
                      میں نہیں کہتا کہ تجھ سا ہے نہ مجھ سا کوئی
                      ورنہ شوریدگئِ شوق تو دیوانہ کرے

                      Comment


                      • #56
                        Re: درد آشوب

                        44
                        پیام آئے ہیں اس یارِ بے وفا کے مجھے
                        جسے قرار نہ آیا کہیں بھلا کے مجھے

                        جدائیاں ہوں تو ایسی کہ عمر بھر نہ ملیں
                        فریب دو تو ذرا سلسلے بڑھا کے مجھے

                        نشے سے کم تو نہیں یادِ یار کا عالم
                        کہ لے اڑا ہے کوئی دوش پر ہوا کے مجھے


                        میں خود کو بھول چکا تھا مگر جہاں والے
                        اداس چھوڑ گے آئینہ دکھا کے مجھے

                        تمہارے بام سے اب کم نہیں ہے رفعتِ دار
                        جو دیکھنا ہو تو دیکھو نظر اٹھا کے مجھے

                        کھنچی ہوئی ہے مرے آنسوؤں میں اک تصویر
                        فرازؔ دیکھ رہا ہے وہ مسکرا کے مجھے

                        Comment


                        • #57
                          Re: درد آشوب

                          45
                          بے نیازِ غمِ پیمانِ وفا ہو جانا
                          تم بھی اوروں کی طرح مجھ سے جدا ہوجانا

                          میں بھی پلکوں پہ سجا لوں گا لہو کی بوندیں
                          تم بھی پا بستہِ زنجیرِ حنا ہو جانا

                          گرچہ اب قرب کا امکاں ہےبہت کم پھربھی
                          کہیں مل جائیں تو تصویر نما ہو جانا

                          صرف منزل کی طلب ہو تو کہاں ممکن ہے
                          دوسروں کے لیے خود آبلہ پا ہو جانا

                          خلق کی سنگ زنی میری خطاؤں کا صلہ
                          تم تو معصوم ہو ، تم دور ذرا ہو جانا

                          اب مرے واسطے تریاق ہے الحاد کا زہر
                          تم کسی اور پجاری کے خدا ہو جانا

                          Comment


                          • #58
                            Re: درد آشوب

                            46

                            اے نگارِ گُل

                            نگارِ گل تجھے وہ دن بھی یاد ہوں شاید
                            کہ جن کے ذکر سے اب دل پہ تازیانہ لگے
                            تری طلب میں وہ دار و رسن کے ہنگامے
                            کہ جن کی بات کریں بھی تو اب فسانہ لگے
                            بقدرِ ذوق جلاتے رہے لہو کے چراغ
                            کہ تُو جب آئے تو یہ گھر نگار خانہ لگے
                            اِسی خیال سے ہر زخم اپنے دل پہ سہا
                            کہ تجھ کو گردشِ ایّام کی ہوا نہ لگے
                            مگر جو گزری ہے ہم پر ترے حصول کے بعد
                            وہ حالِ غم بھی کہیں ، گر تجھے بُرا نہ لگے


                            نگارِ گُل وہ ہمیں تھے ترے تمنائی
                            کہ جن کے خوں سے ترے رنگ تابناک ہوئے
                            ہمیں ہیں جن سے قبا تیری لالہ رنگ ہوئی
                            ہمیں ہیں وہ جو تری رہگزر میں خاک ہوئے
                            خزاں تو خیر ستم کیشیوں کی رُت تھی مگر
                            بہار میں بھی ہمارے جگر ہی چاک ہوئے
                            ہمیں منارہِ کسریٰ کو توڑنے والے
                            ترے حریم میں آ کر ہمیں ہلاک ہوئے


                            نگارِ گُل یہ تقاضا مگر وفا کا ہے
                            کہ اب بھی ہم ترے وعدوں کا اعتبار کریں
                            گز ر گیٴ جو گزرنی تھی سخت جانوں پر
                            پھر آج تیری جفاؤں کا کیا شمار کریں
                            الم گزیدہ سہی پیرہن دریدہ سہی
                            مگر لبوں پہ غمِ دل نہ آشکار کریں
                            یہی اصول رہا ہے وفا پرستوں کا
                            ہر ایک حال میں توصیفِ حسنِ یار کریں
                            جبیں سے دھو کے ہر اک نقش نامرادی کا
                            نگارِ گُل ترے جلووں کا انتظار کریں

                            Comment


                            • #59
                              Re: درد آشوب

                              47


                              گُلشدہ شمعوں کا ماتم نہ کرو

                              عمر گزری ہے سجاتے ہوئے بام و در کو
                              اس تمنا پہ کہ وہ جانِ بہار آےٴ گی
                              فرشِ رہ دیدہ و دل تھے کہ وہ آسودہ خرام
                              درد کی آگ کو گلزار بنا جاےٴ گی
                              اس توقع پہ خرابے رہے آغوش کشا
                              کھل کے برسےگی اگر اب کے گھٹا چھاےٴ گی


                              ایک اک لمحہ قیامت کی طرح گزرا ہے
                              آخر کار وہ محبوب ِ نظر بھی آئی
                              منتظر آنکھیں تو پتھرا ہی چکی تھیں لیکن
                              کشتگانِ شبِ فرقت کی سحر بھی آئی
                              جسم کیوں شل ہیں دھڑکتے ہوےٴ دل کیوں چپ ہیں
                              جرسِ گل کی تو آواز ادھر بھی آئی


                              آج پھر کرتے ہو کس زعم پہ زخموں کا شمار
                              سر پھرو ، وادیٴ پُرخار میں یہ تو ہو گا
                              کیوں نگاہوں میں ہے افسردہ چراغوں کا دُھواں
                              آرزوےٴ لب و رخسار میں یہ تو ہو گا
                              ایک سے ایک کڑی منزلِ جاں آےٴ گی
                              رہگزارِ طلبِ یار میں یہ تو ہو گا


                              ہونٹ سِل جائیں مگر جراٴتِ اظہار رہے
                              دل کی آواز کو مدھم نہ کرو دیوانو
                              ڈھل چکی رات تو اب کہر بھی چھٹ جائے گی
                              اب بھی امید کی لو کم نہ کرو دیوانو
                              آندھیاں آیا ہی کرتی ہیں ہر اک حبس کے بعد
                              گلشدہ شمعوں کا ماتم نہ کرو دیوانو

                              Comment


                              • #60
                                Re: درد آشوب

                                48
                                دل میں اب طاقت کہاں خوننابہ افشانی کرے
                                ورنہ غم وہ زہر ہے پتھر کو بھی پانی کرے

                                عقل وہ ناصح کہ ہر دم لغزشِ پا کا خیال
                                دل وہ دیوانہ یہی چاہے کہ نادانی کرے

                                ہاں مجھے بھی ہو گلہ بےمہریٴ حالات کا
                                تجھ کو آزردہ اگر میری پریشانی کرے

                                یہ تو اک شہرِ جنوں ہے چاک دامانو ، یہاں
                                سب کے سب وحشی ہیں کس کو کون زندانی کرے

                                موسمِ گل ہے مگر بے رنگ ہے شاخِ مژہ
                                کتنا شرمندہ ہمیں آنکھوں کی ویرانی کرے
                                ہنستے چہروں سے دلوں کے زخم پہچانے گا کون
                                تجھ سے بڑھ کر ظلم اپنی خندہ پیشانی کرے

                                ناصحوں کو کون سمجھائے ، نہ سمجھے گا فرازؔ
                                وہ تو سب کی بات سن لے اور من مانی کرے

                                Comment

                                Working...
                                X