Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

درد آشوب

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #61
    Re: درد آشوب

    49

    بے سروساماں تھے لیکن اتنا اندازہ نہ تھا
    اِس سے پہلے شہر کے لُٹنے کا آوازہ نہ تھا

    ظرفِ دل دیکھا تو آنکھیں کرب سے پتھرا گئیں
    خون رونے کی تمنّا کا یہ خمیازہ نہ تھا

    آ مرے پہلو میں آ اے رونقِ بزمِ خیال
    لذتِ رخسار و لب کا اب تک اندازہ نہ تھا


    ہم نے دیکھا ہے خزاں میں بھی تری آمد کے بعد
    کون سا گل تھا کہ گلشن میں تروتازہ نہ تھا

    ہم قصیدہ خواں نہیں اُس حسن کے لیکن فرازؔ
    اتنا کہتے ہیں رہینِ سرمہ و غازہ نہ تھا

    Comment


    • #62
      Re: درد آشوب

      50
      تپتے صحراؤں پہ گرجا سر ِ دریا برسا
      تھی طلب کس کو مگر ابر کہاں جا برسا

      کتنے طوفانوں کی حامل تھی لہو کی ایک بوند
      دل میں اک لہر اٹھی آنکھ سے دریا برسا

      کوئی غرقاب کوئی ماہئ بے آب ہوا
      ابرِ بے فیض جو برسا بھی تو کیسا برسا

      چڑھتے دریاؤں میں طوفان اٹھانے والے
      چند بوندیں ہی سرِ دامنِ صحرا برسا

      طنز ہیں سوختہ جانوں پہ گرجتے بادل
      یا تو گھنگھور گھٹائیں نہ اٹھا ، یا برسا
      ابر و باراں کے خدا ، جھومتا بادل نہ سہی
      آگ ہی اب سرِ گلزارِ تمنّا برسا

      اپنی قسمت کہ گھٹاؤں میں بھی جلتے ہیں فرازؔ
      اور جہاں وہ ہیں وہاں ابر کا سایہ برسا

      Comment


      • #63
        Re: درد آشوب

        51
        افعی کی طرح ڈسنے لگی موجِ نفس بھی
        اے زہرِ غمِ یار بہت ہو چکی بس بھی

        یہ حبس تو جلتی ہوئی رُت سے بھی گراں ہے
        اے ٹھہرے ہوئے ابرِ کرم اب تو برس بھی

        آئینِ خرابات ، معطّل ہے تو کچھ روز
        اے رندِ بلا نوش و تہی جام ترس بھی


        صیّاد و نگہبانِ چمن پر ہے یہ روشن
        آباد ہمیں سے ہے نشیمن بھی قفس بھی

        محرومیٴِ جاوید گنہگار نہ کر دے
        بڑھ جاتی ہے کچھ ضبطِ مسلسل سے ہوس بھی

        Comment


        • #64
          Re: درد آشوب

          52
          اے مرے بیدرد شہر

          دل سلگ اٹھتا ہے اپنے بام و در کو دیکھ کر
          پھیلنے لگتی ہیں جب بھی شام کی پرچھائیاں
          اس قدر ویران لمحے اس قدر سنسان رُت
          سوچ میں گم ہیں افق سے تا افق پہنائیاں
          کس لیے روشن کروں دیوار و در کوئی تو ہو
          گنگ دیواروں میں کیا ہوں انجمن آرائیاں



          دور ہر شب جاگ اٹھتے ہیں کئی ماہ و نجوم
          آگ بھڑکاتی ہیں سنگ و خشت کی رعنائیاں
          راستوں سے خوابگاہوں تک مسلسل موجِ رنگ
          جس طرح قوسِ قزح کی ٹوٹتی انگڑائیاں
          زخمِ نظارہ لیے آنکھوں میں چپ تکتا رہا
          گو میری نیندیں بھی مجھ سے لے اڑیں شہنائیاں


          کل ذرا سی دیر چمکے تھے مرے دیوار و در
          جھلملا اٹھی تھیں میری روح کی گہرائیاں
          چند لمحوں کےلیے لَو دے اٹھا تھا اِک چراغ
          اور دمک اٹھی تھیں کچھ لمحے مری تنہائیاں
          آج اتنا شور کیوں ہے اے مرے بیدرد شہر
          ہر نظر میری طرف ہے اِس قدر رسوائیاں؟

          Comment


          • #65
            Re: درد آشوب

            53
            گھر میں کتنا سناٹا ہے باہر کتنا شور
            یا دنیا دیوانی ہے یا میرا دل ہے چور

            کبھی تو آنکھوں کے گلزاروں میں بھی آکر ناچ
            دل میں کون تجھے دیکھے گا اے جنگل کے مور

            یوں پھرتے ہیں گلیوں میں گَھبرائے گھبرائے سے
            جیسے اِس بستی کے سائے بھی ہوں آدم خور

            سوچ کی چنگاری بھڑکا کر کیا نادانی کی
            اُس لمحے سے لیکر اب تک آگ ہے چاروں اور

            چاک گریباں پھرنا کس کو خوش آتا ہے فرازؔ
            ہم بھی اس کو بھول نہ جائیں دل پہ اگر ہو زور

            Comment


            • #66
              Re: درد آشوب

              54
              پھر اسی رہگزار پر شاید
              ہم کبھی مل سکیں مگر شاید

              جن کے ہم منتظر رہے ان کو
              مل گئے اور ہم سفر شاید

              جان پہچان سے بھی کیا ہو گا
              پھر بھی اے دوست غور کر ، شاید

              اجنبیت کی دھند چھٹ جائے
              چمک اٹھے تری نظر شاید

              زندگی بھر لہُو رلائے گی
              یادِ یارانِ بے خبر شاید

              جو بھی بچھڑے ہیں وہ کب ملے ہیں فرازؔ
              پھر بھی تُو انتظار کر شاید

              Comment


              • #67
                Re: درد آشوب

                55
                اب وہ جھونکے کہاں صبا جیسے
                آگ ہے شہر کی ہوا جیسے

                شب سلگتی ہے دوپہر کی طرح
                چاند ، سورج سے جل بجھا جیسے

                مدتوں بعد بھی یہ عالم ہے
                آج ہی تو جدا ہُوا جیسے

                اس طرح منزلوں سے ہوں محروم
                میں شریکِ سفر نہ تھا جیسے

                اب بھی ویسی ہے دورئ منزل
                ساتھ چلتا ہو راستہ جیسے

                اتفاقاً بھی زندگی میں فرازؔ
                دوست ملتے نہیں ضیاؔ جیسے
                (ضیاء سے مراد ضیاء الدین ضیاء)

                Comment


                • #68
                  Re: درد آشوب

                  56

                  تریاق

                  جب تری اداس انکھڑیوں میں
                  پل بھر کو چمک اٹھے تھے آنسو
                  کیا کیا نہ گزر گئی تھی دل پر
                  جب میرے لیے ملول تھی تُو
                  کہنے کو وہ زندگی کا لمحہ
                  پیمانِ وفا سے کم نہیں تھا
                  ماضی کی طویل تلخیوں کا
                  جیسے مجھے کوئی غم نہیں تھا
                  تُو ،میرے لیے اداس اتنی
                  کیا تھا یہ اگر کرم نہیں تھا





                  تو آج بھی میرے سامنے ہے
                  آنکھوں میں اداسیاں نہ آنسو
                  اَک طنز ہے تیری ہرادا میں
                  چبھتی ہے ترے بدن کی خوشبو
                  یا اب مرے زخم بھر چکے ہیں
                  یا سب مرا زہر پی چکی تُو

                  Comment


                  • #69
                    Re: درد آشوب

                    57


                    مستقل محرومیوں پر بھی تو دل مانا نہیں
                    لاکھ سمجھایا کہ اُس محفل میں اب جانا نہیں

                    خود فریبی ہی سہی کیا کیجیے دل کا علاج
                    تو نظر پھیرے تو ہم سمجھیں کہ پہچانا نہیں

                    ایک دنیا منتظر ہے اور تیری بزم میں
                    اِس طرح بیٹھے ہیں ہم جیسے کہیں جانا نہیں

                    جی میں جو آتی ہے کر گزرو کہیں ایسا نہ ہو
                    کل پشیماں ہوں کہ کیوں دل کا کہا مانا نہیں

                    زندگی پر اِس سے بڑھ کر طنز کیا ہوگا فرازؔ
                    اُس کا یہ کہنا کہ تو شاعر ہے دیوانہ نہی


                    مستقل محرومیوں پر بھی تو دل مانا نہیں
                    لاکھ سمجھایا کہ اُس محفل میں اب جانا نہیں

                    خود فریبی ہی سہی کیا کیجیے دل کا علاج
                    تو نظر پھیرے تو ہم سمجھیں کہ پہچانا نہیں

                    ایک دنیا منتظر ہے اور تیری بزم میں
                    اِس طرح بیٹھے ہیں ہم جیسے کہیں جانا نہیں

                    جی میں جو آتی ہے کر گزرو کہیں ایسا نہ ہو
                    کل پشیماں ہوں کہ کیوں دل کا کہا مانا نہیں

                    زندگی پر اِس سے بڑھ کر طنز کیا ہوگا فرازؔ
                    اُس کا یہ کہنا کہ تو شاعر ہے دیوانہ نہیں

                    Comment


                    • #70
                      Re: درد آشوب

                      58

                      تُو پاس بھی ہو تو دل بےقرار اپنا ہے
                      کہ ہم کو تیرا نہیں انتظار اپنا ہے

                      ملے کوئی بھی ترا ذکر چھیڑ دیتے ہیں
                      کہ جیسے سارا جہاں راز دار اپنا ہے

                      وہ دور ہو تو بجا ترکِ دوستی کا خیال
                      وہ سامنے ہو تو کب اختیار اپنا ہے

                      زمانے بھر کے دکھوں کو لگا لیا دل سے
                      اِس آسرے پہ کہ اک غمگسار اپنا ہے

                      بلا سے جاں کا زیاں ہو اِس اعتماد کی خیر
                      وفا کرے نہ کرے پھر بھی یار اپنا ہے

                      فرازؔ راحتِ جاں بھی وہی ہے کیا کیجیے
                      وہ جس کے ہاتھ سے سینہ فگار اپنا ہے

                      Comment


                      • #71
                        Re: درد آشوب

                        59

                        جس سے یہ طبیعت بڑی مشکل سے لگی تھی
                        دیکھا تو وہ تصویر ہر اک دل سے لگی تھی

                        تنہائی میں روتے ہیں کہ یوں دل کو سکون ہو
                        یہ چوٹ کسی صاحبِ محفل سے لگی تھی


                        اے دل ترے آشوب نے پھر حشر جگایا
                        بے درد ابھی آنکھ بھی مشکل سے لگی تھی

                        خلقت کا عجب حال تھا اُس کوئے ستم میں
                        سائے کی طرح دامنِ قاتل سے لگی تھی

                        اترا بھی تو کب درد کا چڑھتا ہوا دریا
                        جب کشتیٴ جاں موت کے ساحل سے لگی تھی

                        Comment


                        • #72
                          Re: درد آشوب

                          60

                          کسی کے تذکرے بستی میں کوبکو جو ہوئے
                          ہمیں خموش تھے موضوعِ گفتگو جو ہوئے

                          نہ دل کا درد ہی کم ہے نہ آنکھ ہی نم ہے
                          نہ جانے کون سے ارمان تھے وہ لہو جو ہوئے

                          نظر اٹھائی تو گم گشتہِ تحیرّ تھے
                          ہم آئینے کی طرح تیرے رُوبرو جو ہوئے


                          ہمیں ہیں وعدہٴِ فردا پہ ٹالنے والے
                          ہمیں نے بات بدل دی بہانہ خُو جو ہوئے

                          فرازؔ ہو کہ وہ فرہادؔ ہو کہ ہو منصورؔ
                          انہیں کا نام ہے ناکامِ آرزو جو ہوئے

                          Comment


                          • #73
                            Re: درد آشوب

                            61

                            مجھ سے پہلے

                            مجھ سے پہلے جس شخص نے تجھے چاہا اُس نے
                            شاید اب بھی ترا غم دل سے لگا رکھا ہو
                            ایک بے نام سی امید پہ اب بھی شاید
                            اپنے خوابوں کے جزیروں کو سجا رکھا ہو


                            میں نے مانا کہ وہ بیگانہٴِ پیمانِ وفا
                            کھو چکا ہے جو کسی اور کی رعنائی میں
                            شاید اب لوٹ کے آئے نہ تری محفل میں
                            اور کوئی دکھ نہ رلائے تجھے تنہائی میں


                            میں نے مانا کہ شب و روز کے ہنگاموں میں
                            وقت ہر غم کو بُھلا دیتا ہے رفتہ رفتہ
                            چاہے امید کی شمعیں ہوں کہ یادوں کے چراغ
                            مستقل بُعد بُجھا دیتا ہے رفتہ رفتہ

                            پھر بھی ماضی کا خیال آتا ہے گاہے گاہے
                            مدتیں درد کی لو کم تو نہیں کر سکتیں
                            زخم بھر جائیں مگر داغ تو رہ جاتے ہیں
                            دوریوں سے کبھی یادیں تو نہیں مر سکتیں


                            یہ بھی ممکن ہے کہ اک دن وہ پشیمان ہوکر
                            تیرے پاس آئے زمانے سے کنارا کر لے
                            تو کہ معصوم بھی ہے، زود فراموش بھی ہے
                            اُس کی پیماں شکنی کو بھی گوارا کر لے


                            اور میں،جس نے تجھے اپنا مسیحا سمجھا
                            ایک زخم اور بھی پہلے کی طرح سہہ جاؤں
                            جس پہ پہلے بھی کئی عہدِ وفا ٹوٹے ہیں
                            اِسی دوراہے پہ چپ چاپ کھڑا رہ جاؤں

                            Comment


                            • #74
                              Re: درد آشوب

                              62
                              کروں نہ یاد مگر کس طرح بھلاؤں اسے
                              غزل بہانہ کروں اور گنگناؤں اسے

                              وہ خار خار ہے شاخِ گلاب کی مانند
                              میں زخم زخم ہوں پھر بھی گلے لگاؤں اسے

                              یہ لوگ تذکرے کرتےہیں اپنے لوگوں کے
                              میں کیسے بات کروں،اب کہاں سے لاؤں اسے

                              مگر وہ زود فراموش ، زود رنج بھی ہے
                              کہ روٹھ جائے ، اگر یاد کچھ دلاؤں اسے

                              وہی جو دولتِ دل ہے وہی جو راحتِ جاں
                              تمہاری بات پہ اے ناصحو ، گنواؤں اسے

                              جو ہم سفر سرِ منزل بچھڑ رہا ہے فرازؔ
                              عجب نہیں ہے اگر یاد بھی نہ آؤں اسے

                              Comment


                              • #75
                                Re: درد آشوب

                                63
                                اب اور کیا کسی سے مراسم بڑھائیں ہم
                                یہ بھی بہت ہے تجھ کو اگر بھول جائیں ہم

                                صحرائے زندگی میں کوئی دوسرا نہ تھا
                                سنتے رہے ہیں آپ ہی اپنی صدائیں ہم

                                اس زندگی میں اتنی فراغت کسے نصیب
                                اتنا نہ یاد آ کہ تجھے بھول جائیں ہم

                                تو اتنی دل زدہ تو نہ تھی اے شبِ فراق
                                آ تیرے راستے میں ستارے لٹائیں ہم

                                وہ لوگ اب کہاں ہیں جو کہتے تھے کل فرازؔ
                                ہے ہے ، خدا نہ کرے تجھے بھی رلائیں ہم

                                Comment

                                Working...
                                X