Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

sirf Ghazal

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #16
    Re: sirf Ghazal

    کہیں عشق کا تقاضا کہیں حسن کے اشارے
    نہ بچا سکے گے دامن غم زندگی کے مارے


    شبِ غم کی تیرگی میں میری آہ کے شرارے
    کبھی بن گئے ہیں آنسو کبھی بن گئے ہیں تارے


    نہ خلش رہی وہ مجھ میں نہ کشش رہی وہ تجھ میں
    جسے زعمِ عاشقی ہو وہی اب تجھے پکارے






    جنہیں ہو سکا نہ حاصل کبھی کیف قرب منزل
    وہی دو قدم ہیں مجھ کو تیری جستجو سے پیارے


    میں شکیل ان کا ہو کر بھی نہ پا سکا ہوں ان کو
    میری طرح زندگی میں کوئی جیت کر نہ ہارے

    Comment


    • #17
      Re: sirf Ghazal

      ‫بھول جانے کا حوصلہ تھا مگر
      مجھ میں اک شخص چیختا تھا مگر

      بات ہوتی تو حل نکل آتا
      بات کرنا ہی مسئلہ تھا مگر

      میں نے پتھر اٹھا لیا ہوتا
      میرے اندر جو آئینہ تھا مگر

      دور تک تیرگی مسلط تھی
      ایک جگنو چمک رہا تھا مگر

      بند لگتے تو تھے سبھی رستے
      تیسرا راستہ کھلا تھا مگر





      میں کہاں ہار مان سکتا تھا
      اُس کی آنکھوں نے کہہ دیا تھا مگر

      یک پل، ایک جست اور منزل
      ایک وہ پل ٹھہر گیا تھا مگر

      میں بھی ہٹ تو گیا نشانے سے
      تیر بھی رخ بدل چکا تھا مگر

      آپ جو کہہ رہے تھے ٹھیک تھا وہ
      مسئلہ میرا دوسرا تھا مگر

      جاں تو جانی ہی تھی وہاں ا
      ایک عزت کا راستہ تھا مگر‬

      Comment


      • #18
        Re: sirf Ghazal

        میں محبت زدہ ہوں ویسے ہی
        پھر کسی کا ہوا ہوں ویسے ہی

        آج میرا بہت برا دن تھا
        یار سے لڑ پڑا ہوں ویسے ہی

        ایک رہرو سے پوچھتے کیا ہو
        میں یہاں رک گیا ہوں ویسے ہی

        پھول یوں ہی یہ پاس ہیں میرے
        راستے میں کھڑا ہوں ویسے ہی





        مجھ کو لا حاصلی میں رہنا ہے
        میں تجھے سوچتا ہوں ویسے ہی

        اس لئے آنکھ میں تھکاوٹ ہے
        ہر طرف دیکھتا ہوں ویسے ہی

        Comment


        • #19
          Re: sirf Ghazal

          ہمیشہ کیلئے جیون سے لڑ جانے کی جلدی تھی
          نجانے کیوں تجھے جڑ سے اکھڑجانے کی جلدی تھی





          ابھی تو ہم ملے ہی تھے ، ابھی تو گل کھلے ہی تھے
          تجھے کیا اسقدر جاناں بچھڑ جانے کی جلدی تھی

          فقظ تُو ہی نہیں بدلی ، نئی رت سے بہت پہلے
          یہاں پرتو درختوں کو بھی جھڑ جانے کی جلدی تھی

          مجھے تو ہجر میں رہنے کی عادت ہے مگر جاناں
          تجھے بھی ایسا لگتا ہے اجڑ جانے کی جلدی تھی

          بجا ہے ہاتھ کو میرے تمنا تیری تھی لیکن
          ترے دامن کو بھی شاید ادھڑ جانے کی جلدی تھی

          Comment


          • #20
            Re: sirf Ghazal

            سحر پھونکتی ہوئی اُس کی ساحر آنکھیں
            جادو کر کے کہاں گئیں وہ جادوگر آنکھیں

            دو موسم اِک پل میں کیسے آ سکتے ہیں
            وہ شاداب چہرہ، میری پت جھڑ آنکھیں

            دل سینے میں ہے، لاج بچا لیتا ہے
            عشق کو رُسوا کرتی ہیں، اکثر آنکھیں





            بے فصل سے موسم تن بدن پہ ٹھہر گئے
            خواب کہاں اُگیں، سیم زدہ بنجر آنکھیں

            کون سہے گا عذاب ہجر کا پوچھا تھا
            رونے والے نے کہا تھا ہنس کر، آنکھیں

            کانچ جذبے، موم دل، محبت والوں کے
            آگ سی باتیں اہلِ جہاں کی، پتھر آنکھیں

            Comment


            • #21
              Re: sirf Ghazal

              ﺍﺳﮯ ﮐﮩﻨﺎ ﮐﮩﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ
              ﮐﺴﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﺩﺭ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ

              ﺑﺪﻥ ﭘﺮ ﺗُﮩﻤﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﺷﯿﮟ ﮨﯿﮟ
              ﮨﻤﯿﮟ ﺗﻮ ﻋﺸﻖ ﻣﺤﺸﺮ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ

              ﺗُﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟﺐ ﭘﮧ ﺍﮎ ﺣﺮﻑِ ﺗﺴّﻠﯽ
              ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺩﻝ ﭘﮧ ﻧﺸﺘﺮ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ

              ﮐﻤﺎﻝِ ﻭﺭﺩِ ﺍﺳﻢِ ﺁﮔﮩﯽ ﮬﮯ
              ﮐﮧ ﻗﻄﺮﮦ ﺑﮭﯽ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ





              ﺯﻣﯿﮟ ﭘﺮ ﭼﺎﻧﺪﻧﯽ ﮐﺎ ﺭﻗﺺِ ﻣﺴﺘﯽ
              ﯾﮧ ﮐﯿﺴﺎ ﺷﺐ ﮐﺎ ﻣﻨﻈﺮ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ

              Comment


              • #22
                Re: sirf Ghazal

                خوف آتا تھا کبھی جس کے تصور سے مجھے

                روبرو آج مرے وقت وہ آیا آخر
                جس کے ہونے سے تسلسل تھا مری سانسوں میں
                ہو گیا مجھ سے وہی شخص پرایا آخر
                مَیں تو سمجھا تھا کہ سچ ہے یہ محبت اُس کی
                میری خاطر وہ جہاں چھوڑ کے آ سکتا ہے
                کیا خبر تھی کہ وہ دولت کی ہوس میں اِک دن
                پیار میرا بھی گھڑی بھر میں بھلا سکتا ہے

                Comment


                • #23
                  Re: sirf Ghazal

                  نزع کی اور بھی تکلیف بڑھا دی تو نے
                  کچھ نہ بن آیا تو آواز سنا دی تو نے

                  اس کرم کو مری مایوس نظر سے پوچھو
                  ساقی بیٹھا رہا اور اٹھ کے پلا دی تم نے

                  مجھ پہ احسان نہ رکھو جان بچا لینے کا
                  مرنے دیتے مجھے کاہے کو دعا دی تم نے

                  یہ کہو پیش خدا حشر میں منثا کیا تھا
                  میں کوئی دور کھڑا تھا جو صدا دی تم نے

                  ان کے آتے ہی مزہ جب ہے مرا دم نکلے
                  وہ یہ کہتے ہوئے رہ جائیں کہ دغا دی تم نے

                  کھلبلی مچ گئی تاروں میں قمر نے دیکھا
                  شب کو یہ چاند سی صورت جو دکھا دی تم نے

                  Comment


                  • #24
                    Re: sirf Ghazal

                    اُس سنگ سے بھی پھوٹی ہے کیا آبشار دیکھ


                    آنکھیں نہ موند اُس کو ذرا اشکبار دیکھ

                    وابستہ تیرے ساتھ ہیں اِس دل کی دھڑکنیں
                    کتنا ہے دِل پہ میرے تجھے اختیار دیکھ





                    ہوتا نہیں ہے یہ بھی تری یاد میں مخل
                    زنجیر ہو گیا ہے غمِ روزگار دیکھ

                    مجبورِ عشق‘ سایۂ دیوار ہوں پڑا
                    شامِ فراقِ یار مجھے بے قرار دیکھ

                    تصویر کھینچ دی ہے تری حرف حرف میں
                    ہم نے بنا دیا ہے تجھے شاہکار دیکھ

                    Comment


                    • #25
                      Re: sirf Ghazal

                      دل کی منزل اُس طرف ہے گھر کا رستہ اِس طرف

                      ایک چہرہ اُس طرف ہے ایک چہرہ اس طرف


                      روشنی کے اِستعارے اس کنارے رہ گئے
                      اب تو شب میں کوئی جگنو ہے نا تارا اس طرف

                      تُم ہَوا ان کھڑکیوں سے صرف اِتنا دیکھنا
                      اُس نے کوئی خط کِسی کے نام لَکھا اِس طرف





                      یہ محبّت بھی عیب تقسیم کے موسم میں ہے
                      سارا جذبہ اُس طرف ہے صرف لہجہ اس طرف

                      ماں نے کوئی خوف ایسا رکھ دیا دل میں مِرے
                      سچ کبھی میں بول ہی پائی نہ پُورا اِس طرف

                      ایک ہلکی سی چبھن احساس کو گھیرے رہی
                      گفتگو میں جب تُمھارا ذِکر آیا اِس طرف

                      صرف آنکھیں کانچ کی باقی بدن پتَھر کا ہے
                      لڑکیوں نے کس طرح رُوپ دھارا اِس طرف

                      اے ہَوا اے میرے دِل کے شہر سے آتی ہَوا
                      تجھ کو کیا پیغام دے کر اُس نے بھیجا اَس طرف

                      کِس طرح کے لوگ ہیں یہ کُچھ پتہ چلتا نہیں
                      کون کِتنا اُس طرف ہے کون کتنا اِس طرف

                      Comment


                      • #26
                        Re: sirf Ghazal

                        آپ کو بھول جائیں ہم ، اتنے تو بےوفا نہیں
                        آپ سے کیا گلہ کریں آپ سے کچھ گلہ نہیں

                        شیشہِ دل کو توڑنا اُن کا تو ایک کھیل ہے
                        ہم سے ہی بھول ہوگئی اُن کی کوئی خطا نہیں

                        کاش وہ اپنے غم مجھے دے دے تو کچھ سکون ملے
                        وہ کتنا بدنصیب ہے غم ہی جسے ملا نہیں





                        جرم ہےگر وفا تو کیا ، کیوں بےوفا کو چھوڑ دوں
                        کہتے ہیں اس گناہ کی ہوتی کوئی سزا نہیں

                        Comment


                        • #27
                          Re: sirf Ghazal

                          دِل کی چوکھٹ جو اِک دیپ جلا رکھا ہے
                          تِرے لوٹ آنے کا اِمکان سجا رکھا ہے





                          سانس تک بھی نہیں لیتے ہیں تجھے سوچتے وقت
                          ہم نے اِس کام کو بھی کل پہ اُٹھا رکھا ہے

                          رُوٹھ جاتے ہو تو کچھ اور حسیں لگتے ہو
                          ہم نے یہ سوچھ کے ہی تم کو خفا رکھا ہے

                          تم جسے رُوٹھا ہوا چھوڑ گئے تھے اِک دِن
                          ہم نے اُس شام کو سینے سے لگا رکھا ہے

                          چین لینے نہیں دیتے کسی طور مجھے
                          تِری یادوں نے جو طُوفان اُٹھا رکھا ہے

                          جانے والے نے کہا تھا کہ وہ لوٹے گا ضرُور
                          اِک اِسی آس پہ دروازہ کھلا رکھا ہے

                          مجھ کو کل شام سے وہ یاد بہت آنے لگا
                          دِل نے مُدت سے جو اِک شخص بھلا رکھا ہے

                          Comment


                          • #28
                            Re: sirf Ghazal

                            ہلے تُم نے سارے شہر کی سانسوں میں گرداب بھرے
                            راہ دکھاتے پھرتے ہو اب ، جیبوں میں مہتاب بھرے





                            ساری عمر حساب نہ آیا ، بچپن سے لیکر اب تک
                            سارے ٹھیک سوال اُتارے، سارے غلط جواب بھرے

                            سچّی بات تو میٹھی بات بھی ہو سکتی ہے میرے دوست
                            کتنے دھبّے چھوڑ گۓ ہیں، حرف تیرے تیزاب بھرے

                            میرے لڑکپن کی یادوں کی چوکھٹ پر، کوئ لڑکی
                            اب تک بیٹھی ہے، آنچل میں، جُگنو اور گُلاب بھرے

                            Comment


                            • #29
                              Re: sirf Ghazal

                              مسافروں میں ابھی تلخیاں پُرانی ہیں
                              سفر نیا ہے، مگر کشتیاں پُرانی ہیں

                              یہ کہہ کے اس نے شجر کو تنے سے کاٹ دیا
                              کہ اس درخت میں کچھ ٹہنیاں پُرانی ہیں

                              ہم اسلۓ بھی نۓ ہمسفر تلاش کریں
                              ہمارے ہا تھ میں بیساکھیاں پُرانی ہیں

                              پرانی باتیں ہیں، اخبار سب پرانے ہیں
                              پرانے چہرے ہیں، اور کُرسیاں پُرانی ہیں





                              پلٹ کے گاؤں میں ، میں اسلۓ نہیں آیا
                              میرے بدن پہ ابھی دھجّیاں پُرانی ہیں

                              Comment


                              • #30
                                Re: sirf Ghazal

                                محبت میں اُف کیا سے کیا ہو گئے ہم
                                خود اپنے سے جیسے جدا ہو گئے ہم

                                دمِ نزع بالیں پہ آنے کا حاصل
                                چلو اب ہٹو بھی ، خفا ہو گئے ہم

                                گراں ہے نزاکت پہ لفظِ تمنا
                                دھڑکتے دلوں کی صدا ہو گئے ہم

                                دمِ نزع بھی عشق رُسوا ہے توبہ
                                یہ لیجئے اب ان پہ فدا ہو گئے ہم

                                ارے جُرمِ اُلفت نے کیا کر دکھایا
                                خود اپنے کئے کی سزا ہو گئے ہم

                                اشاروں پہ چلنے لگے کسی اور کے
                                بڑے ہی نظر آشنا ہو گئے ہم

                                کہیں کیا بس اب آپ خود ہی سمجھ لیں
                                سراپا یہ لو التجا ہو گئے ہم

                                اثر ہے فُغاں میں نہ تاثیرِ غم میں
                                خود اپنے لئے بدعا ہو گئے ہم

                                بڑھی ہے غمِ ہجر سے اور چاہت
                                زمانہ یہ سمجھا جُدا ہو گئے ہم

                                وفاؤں کے بدلے جفا کرنے والے
                                ارے بے وفا باوفا ہو گئے ہم





                                نگاہِ محبت یہ کہتی ہے مخفی
                                سزا دیجئے پُر خطا ہو گئے ہم

                                Comment

                                Working...
                                X