Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

sirf Ghazal

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #31
    Re: sirf Ghazal

    ے
    شوق ِ بزم آرائی بھی تیری کمی کا جبر ہے
    کون بنتا ہے کسی کی خود ستائی کا سبب؟
    عکس تو بس آئینے پر روشنی کا جبر ہے
    خواب خواہش کا، عدم اثبات کا، غم وصل کا
    زندگی میں جو بھی کچھ ہے، سب کسی کا جبر ہے
    اپنے رد ہونے کا ہر دم خوف رہتا ہے مجھے
    یہ مری خود اعتمادی خوف ہی کا جبر ہے
    کار ِ دنیا کے سِوا کچھ بھی مرے بس میں نہیں
    میری ساری کامیابی بے بسی کا جبر ہے
    میں کہاں، اور بے ثباتی کا یہ ہنگامہ کہاں؟
    یہ مرا ہونا تو مجھ پر زندگی کا جبر ہے
    یہ سخن، یہ خوش کلامی در حقیقت ہے فریب
    یہ تماشا روح کی بے رونقی کا جبر ہے
    جس کا سارا حُسن تیرے ہجر ہی کے دم سے تھا
    وہ تعلق اب تری موجودگی کا جبر ہے
    شہر ِ دل کی راہ میں حائل ہیں یہ آسائشیں
    یہ مری آسودگی کم ہمتّی کا جبر ہے
    جبر کی تابع ہے ہر کیفیّت ِ عمر ِ رواں
    آج کا غم جس طرح کل کی خوشی کا جبر ہے
    کچھ نہیں کھُلتا مرے شوق ِ تصرّف کا سبب
    شوق ِ سیرابی تو میری تشنگی کا جبر ہے
    جو سخن امکان میں ہے، وہ سخن ہے بے سخن
    یہ غزل تو کچھ دنوں کی خامشی کا جبر ہے

    Comment


    • #32
      Re: sirf Ghazal

      غزل از میر تقی میر

      غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
      دم کے جانے کا نہایت غم رہا

      حسن تیرا تھا بہت عالم فریب
      خط کے آنے پر بھی اک عالم رہا





      دل نہ پہنچا گوشہء داماں تلک
      قطرہء خوں تھا مژہ پر جم رہا

      سنتے ہیں لیلٰی کے خیمہ کو سیاہ
      اس میں مجنوں کا ولے ماتم رہا

      جامہء احرامِ زاہد پر نہ جا
      تھا حرم میں لیک نا محرم رہا

      زلفیں کھولے تو ٹک آیا نظر
      عمر بھر یاں کام دل برہم رہا

      اس کے لب سے تلخ ہم سُنتے رہے
      اپنے حق میں آبِ حیواں سَم ریا

      میرے رونے کی حقیقت جس میں تھی
      ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا

      صبحِ پیری شام ہونے آئی میر
      تو نہ جیتا یاں بہت دن کم رہا

      Comment


      • #33
        Re: sirf Ghazal

        بتاتا ہے مجھے آئینہ کیسی بے رُخی سے
        کہ میں محروم ہوتا جا ریا ہوں روشنی سے

        کسے الزام دوں میں رائگاں ہونے کا اپنے
        کہ سارے فیصلے میں نے کیے اپنی خوشی سے

        ہر اک لمحہ مجھے رہتی ہے اک تازہ شکایت
        کبھی تجھ سے، کبھی خود سے، کبھی اِس زندگی سے

        مجھے کل تک بہت خواہش تھی خود سے گفتگو کی
        میں چھپتا پھر رہا ہوں آج اپنے آپ ہی سے

        وہ بے کیفی کا عالم ہے کہ دل یہ چاہتا ہے
        کہیں روپوش ہوجاوٗں اچانک، خامشی سے

        سکون ِ خانہٗ ِ دل کے لیے کچھ گفتگو کر
        عجب ہنگامہ برپا ہے تری لب بستگی سے

        تعلق کی یہی صورت رہے گی کیا ہمیشہ؟
        میں اب اُکتا چکا ہوں تیری اِس وارفتگی سے

        جو چاہے وہ ستم مجھ پر روا رکھے یہ دنیا
        مجھے یوں بھی توقع اب نہیں کچھ بھی کسی سے

        ترے ہونے نہ ہونے پر کبھی پھر سوچ لوں گا
        ابھی تو میں پریشاں ہوں خود اپنی ہی کمی سے

        رہا وہ ملتفت میری طرف، پر اُن دنوں میں
        خود اپنی سمت دیکھے جا رہا تھا بے خودی سے

        کوئی خوش فکر سا تازہ سخن بھی درمیاں رکھ
        کہاں تک دل کو بہلاوں میں تیری دلکشی سے؟

        کرم تیرا، کہ یہ مہلت مجھے کچھ دن کی بخشی
        مگر میں تجھ سے رخصت چاہتا ہوں آج ہی سے

        وہ دن بھی تھے تجھے میں والہانہ دیکھتا تھا
        یہ دن بھی ہیں تجھے میں دیکھتا ہوں بے بسی سے

        ابھی عرفان آنکھوں کو بہت کچھ دیکھنا ہے
        تمہیں بے رنگ کیوں لگنے لگا ہے سب ابھی سے؟

        Comment


        • #34
          Re: sirf Ghazal

          کیا بتاوٗں کہ جو ہنگامہ بپا ہے مجھ میں
          ان دنوں کوئی بہت سخت خفا ہے مجھ میں

          اُس کی خوشبو کہیں اطراف میں پھیلی ہوئی ہے
          صبح سے رقص کناں باد ِ صبا ہے مجھ میں

          تیری صورت میں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں میں بھی
          غالباً تُو بھی مجھے ڈھونڈ رہا ہے مجھ میں

          ایک ہی سمت ہر اک خواب چلا جاتا ہے
          یاد ہے، یا کوئی نقش ِ کف ِ پا ہے مجھ میں؟

          میری بے راہ روی اس لیے سرشار سی ہے
          میرے حق میں کوئی مصروف ِ دعا ہے مجھ میں
          اپنی سانسوں کی کثافت سے گماں ہوتا ہے
          کوئی امکان ابھی خاک ہُوا ہے مجھ میں

          اک چبھن ہے کہ جو بے چین کیے رہتی ہے
          ایسا لگتا ہے کہ کچھ ٹوٹ گیا ہے مجھ میں

          یا تو میں خود ہی رہائی کے لیے ہوں بے تاب
          یا گرفتار کوئی میرے سِوا ہے مجھ میں

          آئینہ اِس کی گواہی نہیں دیتا، تو نہ دے
          وہ یہ کہتا ہے کوئی خاص ادا ہے مجھ میں

          ہوگئی دل سے تری یاد بھی رخصت شاید
          آہ و زاری کا ابھی شور اٹھا ہے مجھ میں

          مجھ میں آباد ہیں اک ساتھ عدم اور وجود
          ہست سے برسر ِ پیکار فنا ہے مجھ میں

          مجلس ِ شام ِ غریباں ہے بپا چار پہر
          مستقل بس یہی ماحول ِعزا ہے مجھ میں

          ہوگئی شق تو بالآخر یہ انا کی دیوار
          اپنی جانب کوئی دروازہ کھلا ہے مجھ میں

          خوں بہاتا ہُوا، زنجیر زنی کرتا ہُوا
          کوئی پاگل ہے جو بے حال ہُوا ہے مجھ میں

          اُس کی خوشبو سے معطر ہے مرا سارا وجود
          تیرے چھونے سے جو اک پھول کِھلا ہے مجھ میں

          مجھ سا بے مایہ کہاں، اور کہاں زعم ِ کلام
          اے مرے ربّ ِ سخن، تیری عطا ہے مجھ میں

          تیرے جانے سے یہاں کچھ نہیں بدلا، مثلاً
          تیرا بخشا ہوا ہر زخم ہرا ہے مجھ میں

          کیسے مل جاتی ہے آواز ِ اذاں سے ہر صبح
          رات بھر گونجنے والی جو صدا ہے مجھ میں

          کتنی صدیوں سے اُسے ڈھونڈ رہے ہو بے سُود
          آوٗ اب میری طرف آوٗ، خدا ہے مجھ میں

          مجھ میں جنّت بھی مِری، اور جہنّم بھی مِرا
          جاری و ساری جزا اور سزا ہے مجھ میں

          روشنی ایسے دھڑکتے تو نہ دیکھی تھی کبھی
          یہ جو رہ رہ کے چمکتا ہے، یہ کیا ہے مجھ میں؟

          Comment


          • #35
            Re: sirf Ghazal

            اِک خواب ہے اس خواب کو کھونا بھی نہیں*ہے۔
            تعبیر کے دھاگے میں*پرونا بھی نہیں*ہے۔

            ہے لپٹا ہوا دل سے کسی راز کی صورت،
            وہ شخص کہ جس کو میرا ہونا بھی نہیں*ہے۔

            یہ عشق و محبت کی روایت بھی عجب ہے،
            پیار نہیں*جس کو اُسے کھونا بھی نہیں*ہے۔





            جس شخص کی خاطر تیرا یہ حال ہے،
            اُس نے تیرے مر جانے پر رونا بھی نہیں*ہے
            ۔

            Comment


            • #36
              Re: sirf Ghazal

              احساس کمتری کی جس میں مقدار زیادہ ہو گی
              اُس شخص میں غصہ کی رفتار زیادہ ہو گی

              بے اثر ہونگی جس شخص کی تمام باتیں
              اُس شخص میں قوتِ گفتار زیادہ ہو گی

              جو سمجھتا ہے کہ میں بڑا عقل مند ہوں
              اُس شخص میں عادتِ انکار زیادہ ہو گی

              جس کو اپنی بات منوانے کی پڑ جائے عادت
              اُس شخص کی بات بے کار زیادہ ہو گی

              لینے کو ہمدردیاں ہر وقت جو جو بولتا رہے گا
              اُس شخص کی طبیعت بیمار زیادہ ہو گی

              جو ہر کام چپکے سے کر گزرتا ہے فرازی
              اُس شخص میں قوتِ ایثار زیادہ ہو گی

              Comment


              • #37
                Re: sirf Ghazal

                کب اس سے دل کی بات نہیں ، کب یادوں کی بارات نہیں
                ہم اس کو نہ بھول سکے ، گو اب ہیں وہ جذبات نہیں

                کوئی دیوانوں سے بات کرے ، کوئی پوچھے یہ دل والوں سے
                کیوں جاگتی آنکھوں سوتے ہیں ، کیوں سوتے ساری رات نہیں

                جس شخص کی خاطر دکھ جھیلے ، اس نے ہی ہمیں بدنام کیا
                نہ اپنے لب پر شکوہ ھے ، اور آنکھوں میں برسات نہیں

                جب باغ کو خون سے سینچا ہے ، اور کانٹوں کو اپنایا ہے
                پھولوں میں بھی اپنا حصہ ہے ، ہم حق لیں گے خیرات نہیں

                جب چاہا اس کو ٹھکرایا ، جب چاہا اس کو توڑ دیا
                ظالم کچھ تو سوچ ذرا ، یہ دل ہے کوئی سوغات نہیں

                ہم نے تو عشق کی بازی میں ، جو کچھ تھا سب ہی وار دیا
                “گر جیت گئے تو کیا کہنا ، ہارے بھی تو بازی مات نہیں”

                Comment


                • #38
                  Re: sirf Ghazal

                  جہان ِ شب ہے دھواں صبح ِ انقلاب بنو
                  جلا دو تخت ِ بتاں دست ِ احتساب بنو






                  لہو کے دیپ جلاؤ کہ شب طویل ہوئی
                  محل سے روشنی چھینو سحر کی تاب بنو


                  چراغِ زخم سے جب نور کی ندی پھوٹے
                  شبوں کے چاند، سحر خیز آفتاب بنو


                  تڑپ رہے ہو جزیرہ نما تنوروں میں
                  ہوا کے دوش پہ اڑتے ہوئے سحاب بنو


                  اگر ہو لیلیٰ تو صحرا میں چھوڑ دو محمل
                  بنو جو قیس تو پھرعشق کی کتاب بنو


                  عتابِ زرد میں خاموشی خودکشی ہو گی
                  سکوتِ مرگ میں نعرہء اضطراب بنو

                  Comment


                  • #39
                    Re: sirf Ghazal

                    بس اِک شخص ہی کُل کائنات ہو جیسے
                    نظر نہ آۓ تو دن میں بھی رات ہو جیسے





                    میرے لبوں پہ تبسم موجزن ہے اب تک
                    کہ دل کاٹوٹنا چھوٹی سی بات ہو جیسے

                    شبِ فراق مجھےآج یوں ڈراتی ہے
                    تیرے بغیر میری پہلی رات ہو جیسے

                    اُسکی یاد کی یہ بھی تو ایک کرامت ہے
                    ہزار میل پہ ہو کہ بھی ساتھ ہو جیسے

                    تیرا سلوک مجھے روز زخم تازە دے
                    کسی کو پہلی محبت میں مات ہو جیسے

                    ہمارے دل کو کوئ مانگنے نہ آیا محسن
                    کسی "غریب" کی بیٹی کا ہاتھ ہو جیسے

                    Comment


                    • #40
                      Re: sirf Ghazal

                      مناظر، شہر، قصبے اجنبی ہیں
                      تخاطب، لفظ، لہجے اجنبی ہیں

                      یہ کیسی بے مروت سرزمیں ہے
                      یہاں سب کے رویے اجنبی ہیں

                      سمندر لگ رہا ہے اپنا اپنا
                      مگر اس کے جزیرے اجنبی ہیں

                      زمانے ہو گئے ہیں ساتھ رہتے
                      مگر ہم پھر بھی کتنے اجنبی ہیں

                      وہی الفاظ ہیں مانوس سارے
                      مگر مفہوم اب کے اجنبی ہیں

                      لکیریں اپنے ہاتھوں کی پریشاں
                      مقدر کے ستارے اجنبی ہیں





                      ہوئی منزل گریزاں جب سے انور
                      زمیں ناراض، رستے اجنبی ہیں

                      Comment


                      • #41
                        Re: sirf Ghazal

                        اور اُس کا نہ انتظار کرو
                        جو بھی مل جائے اُس سے پیار کرو
                        چاند کے ساتھ شب میں سویا تھا
                        آؤ سب مجھ کو سنگسار کرو
                        صرف دامن کا چاک کیا معنی
                        سب لباس اپنا تار تار کرو
                        عشق سودا ہے صرف گھاٹے کا
                        اب کوئی اور کاروبار کرو
                        جس پہ رکھّا نہ ہو کسی نے قدم
                        راستہ ایسا اختیار کرو
                        تم بھی جھوٹے ہو وہ بھی جھوٹا ہے
                        اب کسی کا نہ اعتبار کرو
                        چاک دامن یہاں ہزاروں ہیں
                        تم سے جو بھی کہے بہار کرو

                        Comment


                        • #42
                          Re: sirf Ghazal

                          یہ نگاہ شرم جھکی جھکی، یہ جبینِ ناز دھواں دھواں
                          مرے بس کی اب نہیں داستاں، مرا کانپتا ہے رواں رواں





                          یہ تخیلات کی زندگی، یہ تصورات کی بندگی
                          فقط اک فریبِ خیال پرمری زندگی ہے رواں رواں
                          ...
                          مرے دل پہ نقش ہے آج تک وہ باحتیاط نوازشیں
                          وہ غرورو ضبط عیاں عیاں، وہ خلوص و ربط نہاں نہاں

                          نہ سفر بشرطِ مآل ہےنہ طلب بقیدسوال ہے
                          فقط ایک سیری ذوق کو میں بھٹک رہا ہوں کہاں کہاں

                          ہو طلسم عالم رنگ و بو کہ حریم انجم و کہکشاں
                          مرا ساتھ دے گی نظر مری، وہ چھپیں گے جا کے کہاں کہاں

                          مری خلوتوں کی یہ جنتیں کئی بار سج کے اجڑ گئیں
                          مجھے بارہا یہ گماں ہوا کہ تم آرہے ہو کشاں کشاں.

                          Comment


                          • #43
                            Re: sirf Ghazal

                            اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں
                            اب میں کچھ اور بھی آسان ہوں دشواری میں
                            کتنی زرخیز ہے نفرت کے لیے دل کی زمیں
                            وقت لگتا ہی نہیں فصل کی تیاری میں
                            اک تعلق کو بکھرنے سے بچانے کے لیے
                            میرے دن رات گزرتے ہیں اداکاری میں
                            وہ کسی اور دوا سے مرا کرتا ہے علاج
                            مبتلا ہوں میں کسی اور ہی بیماری میں
                            اے زمانے میں ترے اشک بھی رو لوں گا ، مگر
                            ابھی مصروف ہوں خود اپنی عزاداری میں
                            اس کے کمرے سے اٹھا لایا ہوں یادیں اپنی
                            خود پڑا رہ گیا لیکن کسی الماری میں
                            اپنی تعمیر اٹھاتے تو کوئی بات بھی تھی
                            تم نے اک عمر گنوادی مری مسماری میں
                            ہم اگر اور نہ کچھ دیر ہوا دیں ، تو یہ آگ
                            سانس گھٹنے سے ہی مر جائے گی چنگاری میں
                            تم بھی دنیا کے نکالے ہوئے لگتے ہو ظہیر
                            میں بھی رہتا ہوں یہیں ، دل کی عملداری میں

                            Comment


                            • #44
                              Re: sirf Ghazal

                              عجیب کُرب میں گزری، جہاں گزری
                              اگرچہ چاہنے والوں کے درمیاں گزری

                              تمام عمر جلاتے رہے چراغ ِامید
                              تمام عمر اُمیدوں کے درمیاں گزری

                              گزر گئی جو تیرے ساتھ، یادگار ہے وہ
                              تیرے بغیر جو گزری، بلائے جاں گزری

                              مجھے سکون میّسر نہیں تو کیا غم ہے
                              گُلوں کی عمر تو کانٹوں کے درمیاں گزری

                              عجیب چیز ہے یہ گردش ِزمانہ بھی
                              کبھی زمیں پہ، کبھی مثل ِآسماں گزری

                              Comment


                              • #45
                                Re: sirf Ghazal

                                اِک بُت مُجھے بھی گوشئہ دل میں پڑا مِلا
                                واعظ کو وہم ہے کہ اُسی کو خُدا مِلا

                                حیرت ہے، اس نے اپنی پرستش ہی کیوں نہ کی
                                جب آدمی کو پہلے پہل آئینہ مِلا

                                خورشیدِ زندگی کی تمازت غضب کی تھی
                                تو راہ میں مِلا تو شجر کا مزا مِلا

                                دیکھا جو غور سے تو مجسّم تجھی میں تھا
                                وہ حُسن جو خیال سے بھی ماورا مِلا

                                سینے میں تیری یاد کے طوفان جب اُٹھے
                                ذہن اِک بگولا بن کے ستاروں سے جا مِلا

                                مُجھ سے بچھڑ کے، یوسفِ بے کارواں ہے تو
                                مُجھ کو تو، خیر، درد مِلا، تُجھ کو کیا مِلا

                                دن بھر جلائیں مَیں نے اُمیدوں کی مشعلیں
                                جب رات آئی، گھر کا دِیا تک بُجھا مِلا

                                یارب، یہ کس نے ٹکڑے کیے روز حشر کے
                                مُجھ کو تو گام گام پہ محشر بپا مِلا

                                محکوم ہو کچھ ایسا کہ آزاد سا لگے
                                انساں کو دَورِ نَو میں یہ منصب نیا مِلا

                                ماضی سے مُجھ کو یوُں تو عقیدت رہی، مگر
                                اس راستے میں جو بھی نگر تھا، لُٹا مِلا

                                دشتِ فراق میں وہ بصیرت مِلی، ندیم
                                جو مُجھ سے چھن گیا تھا، وہی جا بجا مِلا

                                احمد نديم قاسمى

                                Comment

                                Working...
                                X