Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

sirf Ghazal

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #46
    Re: sirf Ghazal

    درد کم ہونے لگا آؤ کہ کچھ رات کٹے
    غم کی معیاد بڑھا جاؤ کہ کچھ رات کٹے

    ہجر میں آہ و بکا رسمِ کہن ہے لیکن
    آج یہ رسم ہی دہراؤ کہ کچھ رات کٹے

    یوں توتم روشنئ قلب و نظر ہو لیکن
    آج وہ معجزہ دکھلاؤ کہ کچھ رات کٹے

    دل دکھاتا ہے وہ مل کر بھی مگر آج کی رات
    اُسی بے درد کو لے آؤ کہ کچھ رات کٹے

    دم گھٹا جاتا ہے ہے افسردہ دلی سے یارو
    کوئی افواہ ہی پھیلاؤ کہ کچھ رات کٹے

    میں بھی بیکار ہوں اور تم بھی ہو ویران بہت
    دوستو آج نہ گھر جاؤ کہ کچھ رات کٹے

    چھوڑ آئے ہو سرشام اُسے کیوں ناصر
    اُسے پھر گھر سے بلا لاؤ کہ کچھ رات کٹے

    Comment


    • #47
      Re: sirf Ghazal

      اے ضبط دیکھ عشق کی اُن کو خبر نہ ہو
      دل میں ہزار درد اُٹھے، آنکھ تر نہ ہو

      مدت میں شامِ وصل ہوئی ہے مُجھے نصیب
      دو چار سو برس تو الہٰی سحر نہ ہو


      فرقت میں یاں سیاہ زمانہ ہے مُجھ کو کیا
      گردوں پہ آفتاب نہ ہو یا قمر نہ ہو

      دیکھی جو صُورتِ ملک الموت نزَع میں
      میں خوش ہوا کہ یار کا یہ نامہ بَِر نہ ہو





      آنکھیں ملیں ہیں اشک بہانے کے واسطے
      بیکار ہے صدف جو صدف میں گہر نہ ہو

      اُلفت کی کیا اُمید، وہ ایسا ہے بے وفا
      صُحبت ہزار سال رہے، کچھ اثر نہ ہو

      طُول شبِ وصال ہو، مِثلِ شبِ فِراق
      نکلے نہ آفتاب، الٰہی سحر نہ ہو

      منہ پھیر کر کہا جو کہا میں نے حال ِدل
      چُپ بھی رہو امیرمجھے دردِ سر نہ ہو

      Comment


      • #48
        Re: sirf Ghazal

        آج بام ِ حرف پر امکان بھر میں بھی تو ہوں
        میری جانب اک نظر اے دیدہ ور، میں بھی تو ہوں

        بے اماں سائے کا بھی رکھ باد ِ وحشت کچھ خیال
        دیکھ کر چل، درمیان ِ بام و در میں بھی تو ہوں

        رات کے پچھلے پہر، پُر شور سنّاٹوں کے بیچ
        تُو اکیلی تو نہیں اے چشم ِ تر، میں بھی تو ہوں

        تُو اگر میری طلب میں پھر رہا ہے دردبدر
        اپنی خاطر ہی سہی، پر دربدر میں بھی تو ہوں

        تیری اس تصویر میں منظر مکمل کیوں نہیں؟
        میں کہاں ہوں یہ بتا اے نقش گر، میں بھِی تو ہوں

        سُن اسیر ِ خوش ادائی، منتشر تُو ہی نہیں
        میں جو خوش اطوار ہوں، زیر و زبر میں بھی تو ہوں

        خود پسندی میری فطرت کا بھی وصف ِ خاص ہے
        بے خبر تُو ہی نہیں ہے، بے خبر میں بھی تو ہوں

        دیکھتی ہے جُوں ہی پسپائی پہ آمادہ مجھے
        رُوح کہتی ہے بدن سے، بے ہُنر، میں بھی تو ہوں

        دشت ِ حیرت کے سفر میں کب تجھے تنہا کیا؟
        اے جُنوں میں بھی تو ہوں، اے ہم سفر میں بھی تو ہوں

        کوزہ گر بے صورتی سیراب ہونے کی نہیں
        اب مجھے بھی شکل دے، اس چاک پر میں بھی تو ہوں

        یوں صدا دیتا ہے اکثر کوئی مجھ میں سے مجھے
        تجھ کو خوش رکھے خدا یوں ہی، مگر میں بھی تو ہوں
        عرفان ستار

        Comment


        • #49
          Re: sirf Ghazal

          بزعم ِ عقل یہ کیسا گناہ میں نے کیا
          اک آئینہ تھا، اُسی کو سیاہ میں نے کیا

          یہ شہر ِ کم نظراں، یہ دیار ِ بے ہنراں
          کسے یہ اپنے ہنر کا گواہ میں نے کیا

          حریم ِ دل کو جلانے لگا تھا ایک خیال
          سو گُل اُسے بھی بیک سرد آہ میں نے کیا

          وہی یقین رہا ہے جواز ِ ہم سفری
          جو گاہ اُس نے کیا اور گاہ میں نے کیا
          بس ایک دل ہی تو ہے واقف ِ رموز ِ حیات
          سو شہر ِ جاں کا اِسے سربراہ میں نے کیا

          ہر ایک رنج اُسی باب میں کیا ہے رقم
          ذرا سا غم تھا جسے بے پناہ میں نے کیا
          یہ راہ ِ عشق بہت سہل ہوگئ جب سے
          حصار ِ ذات کو پیوند ِ راہ میں نے کیا

          یہ عمر کی ہے بسر کچھ عجب توازن سے
          ترا ہُوا، نہ ہی خود سے نباہ میں نے کیا
          خرد نے دل سے کہا، تُو جنوں صفت ہی سہی
          نہ پوچھ اُس کی کہ جس کو تباہ میں نے کیا

          Comment


          • #50
            Re: sirf Ghazal

            جب کلی نے لیا تیرا نام
            پھول بن کر کھِلا تیرا نام
            جس سے ہے چار سو روشنی
            ہے وہ روشن دیا تیرا نام
            دل میں لاکھوں دئیے جل اٹھے
            جب بھی میں نے لیا تیرا نام
            پھر یہاں میں جہاں بھی گیا
            ساتھ چلتا رہا تیرا نام
            غنچۂ دل سے لپٹا ہوا
            مثلِ موجِ صبا تیرا نام
            یہ جہاں خاک کا ڈھیر ہے
            اس میں رنگ و نوا تیرا نام
            سانس لیتا ہوں بس اس لئے
            ہے ہوا میں گھلا تیرا نام
            تیری تعریف میں کیا کہوں
            ہے خود اپنی ثنا تیرا نام
            ذرّۂ خاک خورشید ہے
            جب سے اس پر کھلا تیرا نام
            سب زمیں آسماں چھوڑ کر
            میں نے اپنا لیا تیرا نام
            ہر مسرت کی تمہید ہے
            ہر مرض کی دوا تیرا نام
            باقی سب نام مر کھپ گئے
            ہر طرف چھا گیا تیرا نام
            رات دن ڈھونڈتا ہوں تجھے
            ہے لبوں پر سدا تیرا نام
            آنسوؤں میں ترا ذکر ہے
            قہقہوں میں ملا تیرا نام

            Comment


            • #51
              Re: sirf Ghazal

              جب کلی نے لیا تیرا نام
              پھول بن کر کھِلا تیرا نام
              جس سے ہے چار سو روشنی
              ہے وہ روشن دیا تیرا نام
              دل میں لاکھوں دئیے جل اٹھے
              جب بھی میں نے لیا تیرا نام
              پھر یہاں میں جہاں بھی گیا
              ساتھ چلتا رہا تیرا نام
              غنچۂ دل سے لپٹا ہوا
              مثلِ موجِ صبا تیرا نام
              یہ جہاں خاک کا ڈھیر ہے
              اس میں رنگ و نوا تیرا نام
              سانس لیتا ہوں بس اس لئے
              ہے ہوا میں گھلا تیرا نام
              تیری تعریف میں کیا کہوں
              ہے خود اپنی ثنا تیرا نام
              ذرّۂ خاک خورشید ہے
              جب سے اس پر کھلا تیرا نام
              سب زمیں آسماں چھوڑ کر
              میں نے اپنا لیا تیرا نام
              ہر مسرت کی تمہید ہے
              ہر مرض کی دوا تیرا نام
              باقی سب نام مر کھپ گئے
              ہر طرف چھا گیا تیرا نام
              رات دن ڈھونڈتا ہوں تجھے
              ہے لبوں پر سدا تیرا نام
              آنسوؤں میں ترا ذکر ہے
              قہقہوں میں ملا تیرا نام

              Comment


              • #52
                Re: sirf Ghazal

                ہمیں اُس کو بھلانا تھا، سو ہم یہ کام کر آئے
                کہا اب اُس کی مرضی ہے اِدھر آئے اُدھر آئے

                کہا اُس سنگدل کے واسطے کیوں جان دیتے ہو؟
                کہا کچھ تو کروں ایسا کہ اُس کی آنکھ بھر آئے

                کہا ہر راہ میں کیوں گھر بنانے کی تمنّا ہے؟
                کہا وہ جس طرف جائے، اُدھر میرا ہی گھر آئے

                کہا تعبیر پوچھی ہے بتاؤ خواب کیا دیکھا؟
                کہا گزرا جدھر سے میں اُسی کے بام و در آئے

                کہا دیدار کرنے کی تمنّا ہے تو کتنی ہے؟
                کہا میں جس طرف دیکھوں وہی مجھ کو نظر آئے





                کہا مرنے سے پہلے کون سے منظر کی خواہش ہے؟
                کہا آنکھوں کی پُتلی پر ترا چہرہ اُتر آئے

                Comment


                • #53
                  Re: sirf Ghazal

                  خود ہی کانٹوں کا تمنائی رہا یہ دل مرا
                  چن کہ مانگے درد وہ سارے نہیں جن کی دوا

                  ہے بہت بے رحم عالم تم رہو بچ کر یہاں
                  بھولتا کوئی نہیں ہو جائے گر کوئی خطا

                  ہوں ازل سے میں اسی منجدھار میں ٹھہرا ہوا
                  دے خبر اچھی کوئی اب ہو چکی کافی سزا

                  خوش گمانی تھی میری یا تھا تیرا جادو چلا
                  زندگی کہتا رہا مجھ کو ملی جب بھی قضا

                  زہر دیتا ہے مجھے اور ساتھ جینے کی دعا
                  منفرد سارے جہاں سے ہے مجھے قاتل ملا

                  Comment


                  • #54
                    Re: sirf Ghazal

                    یہ آرزُو ہے کہ اس شکل میں اُبھر آئیں
                    تُمھیں ہی آئیں کِسی کو اگر نظر آئیں


                    تو پُوچھتے ہو کہ کیا کیا مُحبّتیں ہیں ہمیں
                    تو چاہتے ہو کہ آنکھیں ہماری بھر آئیں


                    نہ جانے کون زمانوں کی دُوری رہتی ہے
                    نہ جانے کون کہیں کہتا ہے کہ گھر آئیں


                    مَیں جانتا ہُوں کہ تُو نے مُجھے پُکارا ہے
                    یہ گھن گرج ہے جو کہتی ہے بام پر آئیں


                    تو کِتنی دیر ہمیں رکھ رکھاؤ رکھّے گا
                    جو کہتے ہو تو حدِ وَجد سے گُذر آئیں


                    نوید ہم تو بہت بچ بچا کے رہتے ہیں
                    نہیں خیال کہ جھگڑے ہمارے سَر آئیں





                    افضال نوید

                    Comment


                    • #55
                      Re: sirf Ghazal

                      بہت آئیں گے لوگ سمجھانے نہ رونا
                      بناتے ہیں سب ہی افسانے نہ رونا

                      وہ آزما کر بھی راضی نہیں ہے
                      جو ہم بھی لگے آزمانے نہ رونا





                      بہت بیتاب ہونگے آنکھوں میں آنسو
                      مگر تم کسی بھی بہانے نہ رونا

                      پی کر جام فرقت ہم جا رہے ہیں
                      ساقی تم نہ رونا مے خانے نہ رونا

                      بہت ہنس لئے تم اب جا رہا ہوں
                      ہمیں یاد کر کے زمانے نہ رونا

                      چلن ہے یہاں کا سب ساتھ چھوڑیں
                      جو ٹوٹے یارانے پرانے نہ رونا

                      میں برسوں سے پیاسا اور ہیں چند قطرے
                      میرے لب پہ آ کر پیمانے نہ رونا

                      جس راہگزر پہ چلا ہے تو مظہر
                      کٹھن تو ہے پر دیوانے نہ رونا

                      Comment


                      • #56
                        Re: sirf Ghazal

                        کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
                        کہیں زمیں تو کہیں آسماں نہیں ملتا


                        جسے بھی دیکھئیے وہ اپنے آپ میں گم ہے
                        زباں ملی ہے مگر ہم زباں نہیں ملتا


                        بجھا سکا ہے بھلا کون وقت کے شعلے
                        یہ ایسی آگ ہے جس میں دھواں نہیں ملتا


                        تیرے جہان میں ایسا نہیں کہ پیار نہ ہو
                        جہاں امید ہو اس کی وہاں نہیں ملتا

                        Comment


                        • #57
                          Re: sirf Ghazal

                          بے کراں تنہائیوں کا سلسلہ رہ جائے گا
                          تیرے میرے درمیاں بس اک خلا رہ جائے گا


                          عکس بہہ جائیں گے سارے درد کے سیلاب میں
                          اور کوئی پانیوں میں جھانکتا رہ جائے گا


                          مجھ کو میرے ہمسفر ایسا سفر درپیش ہے
                          راستہ کٹ بھی گیا تو فاصلہ رہ جائے گا






                          لوگ سو جائیں گے خاموشی کی چادر اوڑھ کر
                          چاند سونے آنگنوں میں جاگتا رہ جائے گا


                          جو کبھی اس نے پڑھی تھیں مجھ سے ناصر مانگ کر
                          نام میرا ان کتابوں میں لکھا رہ جائے گا

                          Comment


                          • #58
                            Re: sirf Ghazal

                            کہیں عشق کا تقاضا کہیں حسن کے اشارے
                            نہ بچا سکے گے دامن غم زندگی کے مارے


                            شبِ غم کی تیرگی میں میری آہ کے شرارے
                            کبھی بن گئے ہیں آنسو کبھی بن گئے ہیں تارے


                            نہ خلش رہی وہ مجھ میں نہ کشش رہی وہ تجھ میں
                            جسے زعمِ عاشقی ہو وہی اب تجھے پکارے






                            جنہیں ہو سکا نہ حاصل کبھی کیف قرب منزل
                            وہی دو قدم ہیں مجھ کو تیری جستجو سے پیارے


                            میں شکیل ان کا ہو کر بھی نہ پا سکا ہوں ان کو
                            میری طرح زندگی میں کوئی جیت کر نہ ہارے

                            Comment


                            • #59
                              Re: sirf Ghazal

                              تم مری آنکھ کے تیور نہ بھلا پاؤ گے،
                              ان کہی بات کو سمجھو گے تو یاد آؤں گا۔

                              ہم نے خوشیوں کی طرح دکھ بھی اکٹھے دیکھے،
                              صفحہء زیست کو پلٹو گے تو یاد آؤں گا۔

                              میری خوشبو تمہیں کھولے گی گلابوں کی طرح،
                              تم اگر خود سے نا بولو گے تو یاد آؤں گا۔

                              آج تو محفل یاراں پہ ہو مغرور بہت،
                              جب کبھی ٹوٹ کے بکھرو گے تو یاد آوں گا۔

                              شال پہنائے گا اب کون دسمبر میں تمہیں،
                              بارشوں میں*کبھی بھیگو گے تو یاد آوں گا۔





                              حادثے آیئں گے جیون میں تو تم ہو کے نڈھال،
                              کسی دیوار کو تھامو گے تو یاد آؤں گا۔

                              اس میں شامل ہے میرے بخت کی تاریکی بھی،
                              تم سیاہ رنگ جو پہنو گے تو یاد آؤں گا

                              Comment


                              • #60
                                Re: sirf Ghazal

                                نہ مجھے بھول سکے اور نہ اسے یاد رہے
                                تجربے عہدِ محبت کے خداداد رہے


                                رونقِ شہر سے آگے کوئی ویرانہ تھا
                                اس میں کچھ لوگ رہے، خوش رہے، آباد رہے


                                ایک دنیا تھی جسے عشق سے عرفان ملا
                                ایک ہم ایسے کہ برباد تھے، برباد رہے


                                شہرِ یاراں میں عجب چھب تھی دلِ وحشی کی
                                جیسے کعبے میں کوئی بندۂ آزاد رہے


                                کسے یارا ہے محبت کے ستم سہنے کا؟
                                دل تو چاہے گا ہمیشہ یہی افتاد رہے


                                یا تو مل جائے مجھے شانۂ ہمدم راحیل
                                ورنہ پھر دوشِ ہوا پر یہی فریاد رہے
                                ٭٭٭

                                Comment

                                Working...
                                X