Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

sirf Ghazal

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Re: sirf Ghazal


    دل جو اک جائے تھی دنیا ہوئی آباد اس میں
    پہلے سنتے ہیں کہ رہتی تھی کوئی یاد اس میں

    وہ جو تھا اپنا گمان آج بہت یاد آیا
    تھی عجب راحتِ آزادیِ ایجاد اس میں

    ایک ہی تو وہ مہم تھی جسے سر کرنا تھا
    مجھے حاصل نہ کسی کی ہوئی امداد اس میں

    ایک خوشبو میں رہی مجھ کو تلاشِ خدوخال
    رنگ فصیلیں مری یارو ہوئیں برباد اس میں

    باغِ جاں سے تُو کبھی رات گئے گزرا ہے
    کہتے ہیں رات میں کھیلیں ہیں پری زاد اِس میں

    دل محلے میں عجب ایک قفس تھا یارو
    صید کو چھوڑ کے رہنے لگا صیاد اس میں

    Comment


    • Re: sirf Ghazal

      گھر سے ہم گھر تلک گئے ہوں گے
      اپنے ہی آپ تک گئے ہوں گے

      ہم جو اب آدمی ہیں پہلے کبھی
      جام ہوں گے چھلک گئے ہوں گے

      وہ بھی اب ہم سے تھک گیا ہو گا
      ہم بھی اب اس سے تھک گئے ہوں گے

      شب جو ہم سے ہوا معاف کرو
      نہیں پی تھی بہک گئے ہوں گے

      کتنے ہی لوگ حرص شہرت میں
      دار پر خود لٹک گئے ہوں گے

      شکر ہے اس نگاہ کم کا میاں
      پہلے ہی ہم کھٹک گئے ہوں گے

      ہم تو اپنی تلاش میں اکثر
      از سما تا سمک گئے ہوں گے

      اس کا لشکر جہاں تہاں یعنی
      ہم بھی بس بے کمک گئے ہوں گے

      جونؔ ، اللہ اور یہ عالم
      بیچ میں ہم اٹک گئے ہوں گے

      Comment


      • Re: sirf Ghazal

        تم سے جانم عاشقی کی جائے گی
        اور ہاں یکبارگی کی جائے گی

        کر گئے ہیں کوچ اس کوچے کے لوگ
        اب تو بس آوارگی کی جائے گی

        تم سراپا حُسن ہو، نیکی ہو تم
        یعنی اب تم سے بدی کی جائے گی

        یار اس دن کو کبھی آنا نہیں
        پھول جس دن وہ کلی کی جائے گی

        اس سے مِل کر بے طرح روؤں گا میں
        ایک طرفہ تر خوشی کی جائے گی

        ہے رسائی اس تلک دل کا زیاں
        اب تو یاراں نارسی کی جائے گی

        آج ہم کو اس سے ملنا ہی نہیں
        آج کی بات آج ہی کی جائے گی

        ہے مجھے احساس کم کرنا ہلاک
        یعنی اب تو بے حسی کی جائے گی

        Comment


        • Re: sirf Ghazal

          کبھی تو بہت یاد آنے لگتے ہو
          کہ رُوٹھے ہو کبھی اور منانے لگتے ہو

          گِلہ تو یہ ہے تم آتے نہیں کبھی لیکن
          جب آتے بھی ہو تو فورًا ہی جانے لگتے ہو

          یہ بات جونؔ تمہاری مزاق ہے کہ نہیں
          کہ جو پھی ہو اسے تم آزمانے لگتے ہو

          تمہاری شاعری کیا ہے بھلا، بھلا کیا ہے
          تم اپنے دل کی اُداسی کو گانے لگتے ہو

          سرودِ آتشِ زرّینِ صحنِ خاموشی
          وہ داغ ہے جسے ہر شب جلانے لگتے ہو

          سنا ہے کاہکشاؤں میں روز و شب ہی نہیں
          تو پھر تم اپنی زباں کیوں جلانے لگتے ہو

          Comment


          • Re: sirf Ghazal

            تجھ بدن پر ہم نے جانیں واریاں
            تجھ کو تڑپانے کی ہیں تیاریاں

            کر رہے ہیں یاد اسے ہم روز و شب
            ہیں بھُلانے کی اسے تیاریاں

            تھا کبھی میں اک ہنسی اُن کے لیے
            رو رہی ہیں اب مجھے مت ماریاں

            جھوٹ سچ کے کھیل میں ہلکان ہیں
            خوب ہیں یہ لڑکیاں بےچاریاں

            شعر تو کیا بات کہہ سکتے نہیں
            جو بھی نوکر جونؔ ہیں سرکاریاں

            جو میاں جاتے ہیں دفتر وقت پر
            اُن سے ہیں اپنی جُدا دشواریاں

            ہم بھلا آئین اور قانون کی
            کب تلک سہتے رہیں غداریاں

            سُن رکھو اے شہر دارو ! خون کی
            ہونے ہی والی ہیں ندیاں جاریاں

            ہیں سبھی سے جن کی گہری یاریاں
            سُن میاں ہوتی ہیں ان کی خواریاں

            ہے خوشی عیاروں کا اک ثمر
            غم کی بھی اپنی ہیں کچھ عیاریاں

            ذرّے ذرّے پر نہ جانے کس لیے
            ہر نفس ہیں کہکشائیں طاریاں

            اس نے دل دھاگے ہیں ڈالے پاؤں میں
            یہ تو زنجیریں ہیں بےحد بھاریاں

            تم کو ہے آداب کا برص و جزام
            ہیں ہماری اور ہی بیماریاں

            خواب ہائے جاودانی پر مرے
            چل رہی ہیں روشنی کی آریاں

            ہیں یہ سندھی اور مہاجر ہڈ حرام
            کیوں نہیں یہ بیچتے ترکاریاں

            یار! سوچو تو عجب سی بات ہے
            اُس کے پہلو میں مری قلقاریاں

            ختم ہے بس جونؔ پر اُردو غزل
            اس نے کی ہیں خون کی گل کاریاں

            Comment


            • Re: sirf Ghazal

              خود میں ہی گزر کے تھک گیا ہوں
              میں کام نہ کر کے تھک گیا ہوں

              اُوپر سے اُتر کے تازہ دم تھا
              نیچے سے اُتر کے تھک گیا ہوں

              اب تم بھی تو جی کے تھک رہے ہو
              اب میں بھی تو مر کے تھک گیا ہوں

              میں یعنی ازل کا آرمیدہ
              لمحوں میں بِکھر کے تھک گیا ہوں

              اب جان کا میری جسم شَل ہے
              میں خود سے ہی ڈر کے تھک گیا ہوں

              Comment


              • Re: sirf Ghazal

                ہے عجب حال یہ زمانے کا
                یاد بھی طور ہے بھُلانے کا

                پسند آیا ہمیں بہت پیشہ
                خود ہی اپنے گھروں کو ڈھانے کا

                کاش ہم کو بھی ہو نصیب کبھی
                عیش دفتر میں گنگنانے کا

                آسمانِ خموشیِ جاوید
                میں بھی اب لب نہیں ہلانے کا

                جان! کیا اب ترا پیالۂ ناف
                نشہ مجھ کو نہیں پِلانے کا

                شوق ہے ِاس دل درندہ کو
                آپ کے ہونٹ کاٹ کھانے کا

                اتنا نادم ہوا ہوں خود سے کہ میں
                اب نہیں خود کو آزمانے کا

                کیا کہوں جان کو بچانے میں
                جونؔ خطرہ ہے جان جانے کا

                یہ جہاں *جون*! اک جہنم ہے
                یاں خدا بھے نہیں ہے آنے کا

                زندگی ایک فن ہے لمحوں کا
                اپنے انداز سے گنوانے کا

                Comment


                • Re: sirf Ghazal

                  غم ہے بے ماجرا کئی دن سے
                  جی نہیں لگ رہا کئی دن سے

                  بے شمیمِ ملال و حیراں ہے
                  خیمہ گاہِ صبا کئی دن سے

                  دل محلے کی اس گلی میں بَھلا
                  کیوں نہیں غُل مچا کئی دن سے

                  وہ جو خوشبو ہے اس کے قاصد کو
                  میں نہیں مِل سکا کئی دن سے

                  اس سے بھی اور اپنے آپ سے بھی
                  ہم ہیں بےواسطہ کئی دن سے

                  Comment


                  • Re: sirf Ghazal

                    ں موسم رنگ کے کتنے گنوائے، میں نہیں گِنتا
                    ہوئے کتنے دن اس کوچے سے آئی، میں نہیں گِنتا

                    بھلا خود میں کب اپنا ہوں، سو پھر اپنا پرایا کیا
                    ہیں کتنے اپنے اور کتنے پرائے میں نہیں گِنتا

                    لبوں کے بیچ تھا ہر سانس اک گنتی بچھڑنے کی
                    مرے وہ لاکھ بوسے لے کے جائے میں نہیں گِنتا

                    وہ میری ذات کی بستی جو تھی میں اب وہاں کب ہوں
                    وہاں آباد تھے کِس کِس کے سائے میں نہیں گِنتا

                    بھلا یہ غم میں بھولوں گا کہ غم بھی بھول جاتے ہیں
                    مرے لمحوں نے کتنے غم بھُلائے میں نہیں گِنتا

                    تُو جن یادوں کی خوشبو لے گئی تھی اے صبا مجھ سے
                    انہیں تُو موج اندر موج لائے میں نہیں گِنتا

                    وہ سارے رشتہ ہائے جاں کے تازہ تھے جو اس پل تک
                    تھے سب باشندۂ کہنہ سرائے، میں نہیں گِنتا

                    Comment


                    • Re: sirf Ghazal

                      ہر دھڑکن ہیجانی تھی ہر خاموشی طوفانی تھی
                      پھر بھی محبت صرف مسلسل ملنے کی آسانی تھی

                      جس دن اُس سے بات ہوئی تھی اس دن بھی بے کیف تھا میں
                      جس دن اُس کا خط آیا ہے اُس دن بھی ویرانی تھی

                      جب اُس نے مجھ سے کہا تھا عشق رفاقت ہی تو نہیں
                      تب میں نے ہر شخص کی صورت مشکل سے پہچانی تھی

                      جس دن وہ ملنے آئی ہے اس دن کی رُوداد یہ ہے
                      اس کا بلاؤز نارنجی تھا اس کی ساری دھانی تھی

                      اُلجھن سی ہونے لگتی تھی مجھ کو اکثر اور وہ یوں
                      میرا مزاجِ عشق تھا شہری اس کی وفا دہقانی تھی

                      اب تو اس کے بارے میں تم جو چاہو وہ کہہ ڈالو
                      وہ انگڑائی میرے کمرے تک تو بڑی روحانی تھی

                      نام پہ ہم قربان تھے اس کے لیکن پھر یہ طور ہوا
                      اس کو دیکھ کے رُک جانا بھی سب سے بڑی قربانی تھی

                      مجھ سے بچھڑ کر بھی وہ لڑکی کتنی خوش خوش رہتی ہے
                      اس لڑکی نے مجھ سے بچھڑ کر مر جانے کی ٹھانی تھی

                      عشق کی حالت کچھ بھی نہیں تھی بات بڑھانے کا فن تھا
                      لمحے لافانی ٹھیرے تھے قطروں کی طغیانی تھی

                      جس کو خود میں نے بھی اپنی روح کا عرفان سمجھا تھا
                      وہ تو شاید میرے پیاسے ہونٹوں کی شیطانی تھی

                      تھا دربارِ کلاں بھی اس کا نوبت خانہ اس کا تھا
                      تھی میرے دل کی جو رانی امروہے کی رانی تھی

                      Comment


                      • Re: sirf Ghazal

                        کب پتا یار کو ہم اپنے لکھا کرتے ہیں
                        جانے ہم خود میں کہ نا خود میں رہا کرتے ہیں

                        اب تم شہر کے آداب سمجھ لو جانی
                        جو مِلا ہی نہیں کرتے وہ مِلا کرتے ہیں

                        جہلا علم کی تعظیم میں برباد گئے
                        جہل کا عیش جو ہے وہ علما کرتے ہیں

                        لمحے لمحے میں جیو جان اگر جینا ہے
                        یعنی ہم حرصِ بقا کو بھی فنا کرتے ہیں

                        جانے اس کوچۂ حالت کا ہے کیا حال کہ ہم
                        اپنے حجرے سے بہ مشکل ہی اُٹھا کرتے ہیں

                        میں جو کچھ بھی نہیں کرتا ہوں یہ ہے میرا سوال
                        اور سب لوگ جو کرتے ہیں وہ کیا کرتے ہیں

                        اب یہ ہے حالتِ احوال کہ اک یاد سے ہم
                        شام ہوتی ہے تو بس رُوٹھ لیا کرتے ہیں

                        جس کو برباد کیا اس کے فدا کاروں نے
                        ہم اب اس شہر کی رُوداد سنا کرتے ہیں

                        شام ہو یا کہ سحر اب خس و خاشاک کو ہم
                        نذرِ پُر مایگیِ جیبِ صبا کرتے ہیں

                        جن کو مُفتی سے کدورت ہو نہ ساقی سے گِلہ
                        وہی خوش وقت مری جان رہا کرتے ہیں

                        ایک پہنائے عبث ہے جسے عالم کہیے
                        ہو کوئی اس کا خدا ہم تو دعا کرتے ہیں

                        Comment


                        • Re: sirf Ghazal

                          عیشِ اُمید ہی سے خطرہ ہے
                          دل کو اب دل دہی سے خطرہ ہے

                          ہے کچھ ایسا کہ اس کی جلوت میں
                          ہمیں اپنی کمی سے خطرہ ہے

                          جس کے آغوش کا ہوں دیوانہ
                          اس کے آغوش ہی سے خطرہ ہے

                          یاد کی دھوپ تو ہے روز کی بات
                          ہاں مجھے چاندنی سے خطرہ ہے

                          ہے عجب کچھ معاملہ درپیش
                          عقل کو آگہی سے خطرہ ہے

                          شہر غدار جان لے کہ تجھے
                          ایک امروہوی سے خطرہ ہے

                          ہے عجب طورِ حالتِ گریہ
                          کہ مژہ کو نمی سے خطرہ ہے

                          حال خوش لکھنو کا دلّی کا
                          بس انہیں مصحفی سے خطرہ ہے

                          آسمانوں میں ہے خدا تنہا
                          اور ہر آدمی سے خطرہ ہے

                          میں کہوں کس طرح یہ بات اس سے
                          تجھ کو جانم مجھی سے خطرہ ہے

                          آج بھی اے کنارِ بان مجھے
                          تیری اک سانولی سے خطرہ ہے

                          ان لبوں کا لہو نہ پی جاؤں
                          اپنی تشنہ لبی سے خطرہ ہے

                          جونؔ ہی تو ہے جونؔ کے درپے
                          *میر* کو *میر* ہی سے خطرہ ہے

                          اب نہیں کوئی بات خطرے کی
                          اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے

                          Comment


                          • Re: sirf Ghazal

                            دل جو دیوانہ نہیں آخر کو دیوانہ بھی تھا
                            بھُولنے پر اس کو جب آیا تو پہچانا بھی تھا

                            جانیے کس شوق میں رشتے بچھڑ کر رہ گئے
                            کام تو کوئی نہیں تھا پر ہمیں جانا بھی تھا

                            اجنبی سا ایک موسم ایک بے موسم سی شام
                            جب اُسے آنا نہیں تھا جب اُسے آنا بھی تھا

                            جانیے کیوں دل کی وحشت درمیاں میں آ گئی
                            بس یونہی ہم کو بہکنا بھی تھا بہکانا بھی تھا

                            اک مہکتا سا وہ لمحہ تھا کہ جیسے اک خیال
                            اک زمانے تک اسی لمحے کو تڑپانا بھی تھا

                            Comment


                            • Re: sirf Ghazal

                              چلو بادِ بہاری جا رہی ہے
                              پِیا جی کی سواری جا رہی ہے

                              شمالِ جاودانِ سبز جاں سے
                              تمنا کی عماری جا رہی ہے

                              فغاں اے دشمنی دارِ دل و جاں
                              مری حالت سُدھاری جا رہی ہے

                              جو اِن روزوں مرا غم ہے وہ یہ ہے
                              کہ غم سے بُردباری جا رہی ہے

                              ہے سینے میں عجب اک حشر برپا
                              کہ دل سے بے قراری جا رہی ہے

                              میں پیہم ہار کر یہ سوچتا ہے
                              وہ کیا شہ ہے جو ہاری جا رہی ہے

                              دل اُس کے رُو برو ہے اور گُم صُم
                              کوئی عرضی گزاری جا رہی ہے

                              وہ سید بچہ ہو اور شیخ کے ساتھ
                              میاں عزت ہماری جا رہی ہے

                              ہے برپا ہر گلی میں شورِ نغمہ
                              مری فریاد ماری جا رہی ہے

                              وہ یاد اب ہو رہی ہے دل سے رُخصت
                              میاں پیاروں کی پیاری جا رہی ہے

                              دریغا ! تیری نزدیکی میاں جان
                              تری دوری پہ واری جا رہی ہے

                              بہت بدحال ہیں بستی ترے لوگ
                              تو پھر تُو کیوں سنواری جا رہی ہے

                              تری مرہم نگاہی اے مسیحا!
                              خراشِ دل پہ واری جا رہی ہے

                              خرابے میں عجب تھا شور برپا
                              دلوں سے انتظاری جا رہی ہے

                              Comment


                              • Re: sirf Ghazal

                                نہیں نباہی خوشی سے غمی کو چھوڑ دیا
                                تمہارے بعد بھی میں نے کئی کو چھوڑ دیا

                                ہوں جو بھی جان کی جاں وہ گمان ہوتے ہیں
                                سبھی تھے جان کی کی جاں اور سبھی کو چھوڑ دیا

                                شعور ایک شعورِ فریب ہے سو تو ہے
                                غرض کہ آگہی، ناآگہی کو چھوڑ دیا

                                خیال و خواب کی اندیشگی کے سُکھ جھیلے
                                خیال و خواب کی اندیشگی کو چھوڑ دیا
                                *
                                مہک سے اپنی گَلِ تازہ مست رہتا ہے
                                وہ رنگِ رُخ ہے کہ خود غازہ مست رہتا ہے

                                نگاہ سے کبھی گزرا نہیں وہ مست انداز
                                مگر خیال سے، اندازہ مست رہتا ہے

                                کہاں سے ہے رَسدِ نشہ، اس کی خلوت میں
                                کہ رنگ مست کا اندازہ مست رہتا ہے

                                یہاں کبھی کوئی آیا نہیں مگر سرِ شام
                                بس اک گمان سے دروازہ مست رہتا ہے

                                مجھے خیال کی مستی میں کس کا اندازہ
                                خدا نہیں جو باندازہ مست رہتا ہے..

                                Comment

                                Working...
                                X