Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

~~ Where there is love there is life ~~ collection from the painful heart of pErIsH_BoY .>>>>>>

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • تم ملے ہو ، تمہاری محبت نہیں

    کیا اندھیروں کے دکھ، کیا اجالوں کےدکھ
    جب ہرا دیں مقدر کی چالوں کے دکھ

    جن کی آنکھیں نہیں وہ نہ روئیں کبھی
    جان جائیں اگر آنکھ والوں کے دکھ

    میری منزل کہاں، ہمسفر ہے کدھر
    مار ڈالیں گے اب ان سوالوں کے دکھ

    تم ملے ہو ، تمہاری محبت نہیں
    ہجر سے بڑھ گئے ہیں وصالوں کے دکھ

    دو گھڑی کے لئے پاس بیٹھو اگر
    بھول جائیں گے ہم کتنے سالوں کے دکھ

    میری سوچوں کے جلتے ہوئے دشت سے
    چھین لے آ کے اپنے خیالوں کے دکھ


    Comment


    • لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے

      لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
      رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے

      تم نہیں جانتے اب تک یہ تمہارے انداز
      وہ میرے دل میں سمائے ہیں کہ جی جانتا ہے

      انہی قدموں نے تمھارے انہی قدموں کی قسم
      خاک میں اتنی ملائے ہیں کہ جی جانتا ہے

      جو زمانے کے ستم ہیں ، وہ زمانہ جانے
      تو نے دل اتنے ستائے ہیں کہ جی جانتا ہے

      مسکراتے ھوئے وہ مجمعء اغیار کے ساتھ
      آج یوں بزم میں آئے ہیں کہ جی جانتا ہے

      سادگی، بانکپن، اغماض، شرارت، شوخی
      تو نے انداز وہ پائے ہیں کہ جی جانتا ہے

      کعبہ و دیر میں پتھرا گئیں دونوں آنکھیں
      ایسے جلوے نظر آئے ہیں کہ جی جانتا ہے

      دوستی میں تری درپردہ ہمارے دشمن
      اس قدر اپنے پرائے ہیں کہ جی جانتا ہے

      داغ_وارفتہ کو ہم آج تیرے کوچے سے
      اس طرح کھینچ کے لائے ہیں کہ جی جانتا ہے




      Comment


      • عاشق تیرا، رسوا تیرا، شاعر تیرا، انشاء تیرا

        کل چودھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا تیرا
        کچھ نے کہا یہ چاند ہے، کچھ نےکہا چہرا تیرا

        ہم بھی وہیں موجود تھے، ہم سے بھی سب پوچھا کیے
        ہم ہنس دیئے، ہم چپ رہے، منظور تھا پردہ تیرا

        اس شہر میں کس سے ملیں؟ ہم سے تو چھوٹیں محفلیں
        ہر شخص تیرا نام لے، ہر شخص دیوانہ تیرا

        کوچے کو تیرے چھوڑ کر، جوگی ہی بن جائیں مگر
        جنگل تیرے، پربت تیرے، بستی تیری، صحرا تیرا

        ہم اور رسمِ بندگی؟ آشفتگی؟ افتادگی؟
        احساں ہے کیا کیا تیرا، اے حسنِ بے پروا تیرا

        دو اشک جانے کس لئے، پلکوں پر آ کر ٹک گئے
        الطاف کی بارش تیری، اکرام کا دریا تیرا

        اے بے دریغ و بے اماں، ہم نے کبھی کی ہے فغاں؟
        ہم کو تیری وحشت سہی، ہم کو سہی سودا تیرا

        تو بےوفا، تو مہرباں، ہم اور تجھ سے بد گماں
        ہم نے تو پوچھا تھا ذرا، یہ وقت کیوں ٹھہرا تیرا؟

        ہم پر یہ سختی کی نظر؟ ہم ہیں* فقیرِ راہ گزر
        رستہ کبھی روکا تیرا؟ دامن کبھی تھاما تیرا؟

        ہاں ہاں تیری صورت حسیں، لیکن تو ایسا بھی نہیں
        اس شخص کے اشعار سے، شہرہ ہوا کیا کیا تیرا

        بے شک اسی کا دوش ہے، کہتا نہیں خاموش ہے
        تو آپ کر ایسی دوا، بیمار ہو اچھا تیرا

        بے درد سننی ہو تو چل، کہتا ہے کیا اچھی غزل
        عاشق تیرا، رسوا تیرا، شاعر تیرا، انشاء تیرا


        Comment


        • محبت اب نہیں ہوگی

          ستارے جو دمکتے ہیں کسی کی چشم حیراں میں
          ملاقاتیں جو ہوتی ہیں جمال ابرباراں میں
          یہ نا آباد وقتوں میں
          دلِ ناشاد میں ہو گی
          محبت اب نہیں ہوگی
          یہ کچھ دن بعد میں ہو گی
          گزر جائیں گے جب یہ دن
          یہ اُن کی یاد میں ہو گی
          محبت اب نہیں ہوگی
          یہ کچھ دن بعد میں ہو گی


          Comment


          • ایک سفر اچھا لگا ایک ہمسفر اچھا لگا

            گفتگو اچھی لگی ذوقِ نظر اچھا لگا
            مدتوں کے بعد کوئی ہمسفر اچھا لگا

            زندگی کی بےسرو سامانیوں کے باوجود
            آج تو آیا تو مجھ کو اپنا گھر اچھا لگا

            سوچ کر میں نے چُنی آخری آرام گاہ
            میں تھا مٹی اور مجھے مٹی کا گھر اچھا لگا

            منزلوں کی بات چھوڑو کس نے پائیں منزلیں
            ایک سفر اچھا لگا ایک ہمسفر اچھا لگا


            Comment


            • کیا خدا بھی اُس کا تھا ۔۔۔ ؟

              منزلیں بھی اُس کی تھیں
              راستہ بھی اُس کا تھا
              ایک میں اکیلا تھا
              قافلہ بھی اُس کا تھا
              ساتھ ساتھ چلنے کی سوچ بھی اُس کی تھی
              پھر راستہ بدلنے کا فیصلہ بھی اُس کا تھا
              آج کیوں اکیلا ہوں ۔ ؟
              دل سوال کرتا ہے ۔ !
              لوگ تو اُس کے تھے
              کیا خدا بھی اُس کا تھا ۔۔۔ ؟


              Comment


              • کبھی اس طرف بھی خیال کر

                میرے عشق کو نڈھال کر
                کبھی ھجر کو بھی وصال کر

                میری آنکھ کو بینائی دے
                میرے قلب کو اجال کر

                مجھے درس دے تو فنا کا
                میرا عشق میں برا حال کر

                مجھے دے سزا کوئی سخت سی
                مجھے اس جہاں میں مثال کر

                میری اصل صورت بگاڑ دے
                کسی عشق کی بھٹی میں ڈال کر

                مجھے بھی پلا کوئی ایسی شئے
                کبھی میری آنکھیں بھی لال کر

                وہ جو اُس جہاں میں حلال ہے
                کبھی اس جہاں میں حلال کر

                تیری طلب میں ہوںمیں دربدر
                کبھی اس طرف بھی خیال کر





                Comment


                • یہ پچھلے عشق کی باتیں ہیں

                  یہ پچھلے عشق کی باتیں ہیں

                  یہ پچھلے عشق کی باتیں ہیں
                  جب آنکھ میں خواب دمکتے تھے
                  جب دِل میں داغ چمکتے تھے
                  جب پلکیں شہر کے رستوں میں
                  اشکوں کا نوُر لُٹاتی تھیں
                  جب سانسیں اُجلے چہروں کی
                  تن من میں پھوُل سجاتی تھیں
                  جب چاند کی رِم جھِم کرنوں سے
                  سوچوں میں بھنور پڑ جاتے تھے
                  جب ایک تلاطم رہتا تھا!

                  اپنے بے انت خیالوں میں
                  ہر عہد نبھانے کی قسمیں
                  خط خون سے لکھنے کی رسمیں
                  جب عام تھیں ہم دل والوں میں
                  اب اپنے پھیکے ہونٹوں پر
                  کچھ جلتے بجھتے لفظوں کے
                  یاقُوت پگھلتے رہتے ہیں

                  اَب اپنی گُم سُم آنکھوں میں
                  کچھ دھول ہے بکھری یادوں کی
                  کچھ گرد آلود سے موسم ہیں
                  اَب دُھوپ اُگلتی سوچوں میں
                  کچھ پیماں جلتے رہتے ہیں

                  اب اپنے ویراں آنگن میں
                  جتنی صُبحوں کی چاندی ہے
                  جتنی شاموں کا سونا ہے
                  اُس کو خاکستر ہونا ہے

                  اب یہ باتیں رہنے دیجے
                  جس عُمر میں قصّے پُنتے تھے
                  اُس عُمر کا غم سہنے دیجے
                  اَب اپنی اُجڑی آنکھوں میں
                  جتنی روشن سی راتیں ہیں
                  ُس عمر کی سب سوغاتیں ہیں

                  جس عُمر کے خواب خیال ہوُئے
                  وہ پچھلی عمر تھی بیت گئی
                  وہ عمر بتائے سال ہوئے

                  اَب اپنی دید کے رستے میں
                  کچھ رنگ ہے گزرے لمحوں کا
                  کچھ اشکوں کی باراتیں ہیں
                  کچھ بھولے بسرے چہرے ہیں
                  کچھ یادوں کی برساتیں ہیں

                  یہ پچھلے عشق کی باتیں ہیں
                  !


                  Comment


                  • تیرا یہ پیار بھی دریاہے اترجائے گا

                    وہ تو خوشبوہے ہواؤں میں بکھرجائےگا
                    مسئلہ پھول کاہے پھول کدھرجائےگا

                    ہم توسمجھےتھےکہ ایک زخم ہےبھرجائےگا
                    کیاخبرتھی کہ رگ جاں میں اترجائےگا

                    وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتاہے
                    ایک جھونکاہےجوآئےگاگزرجائےگا

                    وہ جب آئےگاتوپھراس کی رفاقت کےلیے
                    موسم گل میرےآنگن میں ٹھہرجائےگا

                    آخرش وہ بھی کہیں ریت پہ بیٹھی ہوگی
                    تیرا یہ پیار بھی دریاہے اترجائے گا

                    مجھ کو تہذیب کے برزخ کا بنایا وارث
                    جُرم یہ بھی مرے اجداد کے سر جائے گا



                    Comment


                    • میری ذات ذرّہ بے نشان



                      میری ذات ذرّہ بے نشان


                      میں وہ کس طرح سے کرون بیان
                      جو کے گئے ہیں ستم یہاں

                      سنے کون میری یہ داستان
                      کوئی ہم نشین ہے نہ راز دان
                      جو تھا جھوٹ وہ بنا سچ یہاں
                      نہیں کھولی مگر میں نے زبان
                      یہ اکیلا پن یہ اداسیاں
                      میری زندگی کی ہیں ترجمان

                      میری ذات ذرّہ بے نشان

                      کبھی سونی صبح میں ڈھونڈنا
                      کبھی اجڑی شام کو دیکھنا

                      کبھی بھیگی پلکوں سے جاگنا
                      کبھی بیتے لمحوں کو سوچنا
                      مگر ایک پل ہے امید کا
                      ہے مجھے خدا کا جو آسرا
                      نہیں میں نے کوئی گلا کیا
                      نہ ہی میں نے دی ہیں دوہایاں

                      میری ذات ذرّہ بے نشان


                      میں بتاؤں کیا مجھے کیا ملے
                      مجھے صبر ہی کا صلہ ملے

                      کسی یاد ہی کی ردا ملے
                      کسی درد ہی کا صلہ ملے
                      کسی غم کی دل میں جگہ ملے
                      جو میرا ہے وہ مجھے آ ملے
                      رہے شاد یونہی میرا جہاں
                      کہ یقین میں بدلے میرا گمان

                      میری ذات ذرّہ بے نشان


                      عمیرہ احمد





                      Comment


                      • اور اُن کو ہاتھ ہے ملنے کی عادت

                        ہواؤں سے سَدا لڑنے کی عادت

                        چراغو! چھوڑ دو جلنے کی عادت

                        ملے گی تم کو منزل سامنے ہی

                        اگر خاروں پہ ہو چلنے کی عادت

                        کہاں سُورج کو دیکھے گا زمانہ؟

                        بدل دے رات جو ڈھلنے کی عادت

                        اَزل سے تا اَبد کانٹے وہی ہیں

                        گُلوں میں اِن کو ہے پلنے کی عادت

                        یہ دل سمجھا تھا وہ پچھتا رہے ہیں

                        اور اُن کو ہاتھ ہے ملنے کی عادت



                        Comment


                        • کچھ زمانے کے لیے کچھ تنہائی کے نام

                          وہ بھی کیا دن تھے کہ پل میں کر دیا کرتے تھے ہم
                          عمر بھر کی چاھتیں ہر ایک ہرجائی کے نام

                          وہ بھی کیا موسم تھے جن کی نکھتوں کے ذائقے
                          لِکھ دیا کرتے تھے خال و خد کی رعنائی کے نام

                          وہ بھی صحبتیں تھیں جن کی مُسکراھٹ کے فسوں
                          وقف تھے اھل وفا کی بزم آرائی کے نام

                          وہ بھی کیا شامیں تھیں جن کی شُھرتیں منسوب تھیں
                          بے سبب کُھلے ھوئے بالُوں کی رسوائی کے نام

                          اب کے وہ رُت ھے کہ ہر تازہ قیامت کا عذاب
                          اپنے جاگتے زخموں کی گہرائی کے نام

                          اب کے اپنے آنسوؤں کے سب شکستہ آئینے
                          کچھ زمانے کے لیے کچھ تنہائی کے نام


                          Comment


                          • Re: عاشق تیرا، رسوا تیرا، شاعر تیرا، انشاء تیرا

                            یہ عمدہ ترین غزل مکمل فراہم کرنےکا شکریہ

                            کئی فورمز پریہ غزل ملتی ہے لیکن نامکمل

                            آپ کی اس کوشش کو سلام
                            :star1:

                            Comment


                            • Re: محبت رب کی جانب سے حسیں سوغات ہوتی ہے

                              واہ بہت ہی عمدہ

                              :star1:

                              Comment


                              • Re: کچھ زمانے کے لیے کچھ تنہائی کے نام

                                وہ بھی کیا موسم تھے جن کی نکھتوں کے ذائقے
                                لِکھ دیا کرتے تھے خال و خد کی رعنائی کے نام

                                Comment

                                Working...
                                X