Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

~~ Where there is love there is life ~~ collection from the painful heart of pErIsH_BoY .>>>>>>

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • تم ہر روز کیوں آ جاتے ہو

    تم نے کہا
    بہت سارے ناموں میں لکھا ہوا نام
    محبوب نہیں کہلا سکتا

    اور بہت ساری تصویروں میں لگی ہوئی تصویر
    پسندیدہ ترین
    ثابت نہیں ہوتی

    جبکہ میرا خیال یہ ھے کہ
    بہت سارے نام نہیں ہوں گے تو ایک نام سر فہرست کس طرح آئے گا
    اور سب سے زیادہ اپنا کیسے لگے گا

    اور اگر کافی ساری تصویریں نہیں ہوں گی
    تو ان میں سے ایک کو
    اٹھا کر آنکھوں سے لگا لینے کی لذت
    کیسے نصیب ہو سکتی ھے

    میں کچھ کہہ نہیں سکتا
    کہ میں اپنی بات سمجھانے میں کہاں تک کامیاب ہوا ہوں

    تم یوں کرو
    کہ کسی دن کسی قد آئینے کے سامنے
    دیر تک خاموش بیٹھے خود کو جھانکتے رہو اور آنکھوں کو مل مل کے بار بار جھانکو

    یا کسی گنبد میں
    دیر تک اپنا نام لے کر زور زور سے آوازیں دو

    اور پھر کبھی بہت سارے لوگوں کے درمیان خود کو دیکھو
    اور بہت ساری آوازوں میں
    اپنی آواز سنو

    شاید اس طرح تم
    زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکو
    جو میں تمھیں سمجھانا چاہتا ہوں

    باتوں سے پہلے بھی اور بعد بھی
    باتوں کے درمیان بھی
    اور کہیں باتوں کے پیچھے بہت اندر بھی
    شام ہر روز کیوں آ جاتی ھے
    اداس اور خاموش
    اور سوگوار
    تم ہر روز کیوں آ جاتے ہو
    ہر روز اور بہت زیادہ


    Comment


    • تن، جو اپنی آگ میں بھیگا ہوا تھا


      اُس باغ میں پھیلا ہوا
      وہ دن بھی
      سر سے پاؤں تک بھیگا ہوا تھا
      بارشوں کے بعد کی ٹھنڈی اداسی میں
      چنبیلی کی بہت ہی تیز خوشبو کی طرح
      اک یاد تھی ۔۔۔ جو دل کو شعلاتے ہوئے
      تن سے لپٹتی جا رہی تھی

      تن بہت خاموش تھا ۔۔۔ اور یاد میں
      لپٹا ہوا تھا

      تن، جو اپنی آگ میں بھیگا ہوا تھا


      Comment


      • تمہیں قسم ہے

        مزاج برہم
        خفا سا لہجہ
        اُداس چہرہ
        ناراض آنکھیں
        وجہ جو پوچھی میں نے اُس سے
        ?جان میری۔۔۔! اُداس کیوں ہو
        کیوں ہو برہم
        ناراض کیوں ہو
        بھر کے اُچھلیں آنکھیں اس کی
        لڑکھڑا کے گلے لگا کر
        مجھ سے بولی:
        "کہاں گئے تھے?کیوں گئے تھے?
        مجھے بتاؤ
        تمھارے بن جو بے بسی تھی
        علاج اس کا بتا کے جاتے
        تم جو بچھڑو
        کہاں میں ڈھونڈوں
        سراغ اپنا بتا کے جاتے
        تمہیں پتا تھا
        تمہارے بن میں
        ایک پل بھی رہ نہیں سکتی
        چاہے بچھڑے دنیا ساری
        تیری جدائی سہہ نہیں سکتی
        تمہیں قسم ہے
        اب نہ جانا
        مر جاؤں گی تمہارے بن میں
        چلو اب مجھ سے وعدہ کر لو
        کہیں بھی جاؤ
        کبھی بھی جاؤ
        ساتھ مجھ کو لے کے جانا
        پھر سے مجھ کو سزا نہ دینا
        تمہیں قسم ہے


        Comment


        • اور يونہی ہنسی ہنسی میں ہم دلوں سے کھیل جاتے ہیں

          يونہی ہنسی ہنسی میں
          ہم دلوں سے کھیل جاتے ہیں
          کوئی چھوٹی سی تيکھی بات
          کوئی چبھتا ہوا جملہ
          کوئی زہر آلود لہجہ
          کوئی بے ضرر سي ذو معنی بات
          سننے والے کے دل پر گھاؤ لگا جاتی ہے
          پھر کتنی ہی تلافی کے مرہم لگاؤ
          قطرہ قطرہ خون ٹپکتا ہی رہتا ہے
          وہ آنسو جو آنکھ سے گِرتا ہی نہیں
          اندر ہی اندر جم جاتا ہے
          برف پہ گرے قطرے کی طرح
          اور برف تو شايد وقت کی گرمی سے پگھل جاتي ہے
          مگر وہ قطرہ جب بھی پگھلنے لگتا ہے پھیل جاتا ہے
          بڑھ جاتا ہے
          بس ختم نہیں ہوتا
          اور يونہی ہنسی ہنسی میں ہم دلوں سے کھیل جاتے ہیں




          Comment


          • فقط ایک تم ہی اچھے ہو....


            چلو ہم فرض کرتے ہیں
            وہی باتیں جو دنیا میں نہیں ہوتیں
            چلو ہم فرض کرتے ہیں
            کہ ہر سو نور پھیلا ہے
            نہ دن میں چھایا سناٹا
            نہ راتوں میں اندھیرا ہے
            نہ سورج شب میں سوتا ہے
            نہ دن میں چاند کھوتا ہے
            ہے ہر دل روشنی سے پر
            اور آنکھوں میں اجالے ہیں

            چلو ہم فرض کرتے ہیں
            کہ ہرموسم بہاراں ہے
            خزاں میں پھول کھلتے ہیں
            نگاہیں رنگ سے مہکتی ہیں
            گلوں کی خوشبوؤں سے
            سب نظارے معطر ہیں
            پرندے چہچاتے ہیں
            خوشی کے گیت گاتے ہیں

            چلو ہم فرض کرتے ہیں
            کہ ہر دل میں محبّت ہے
            کہیں جھگڑے نہیں ہوتے
            نہ بارش دکھ کی ہوتی ہے
            نہ آندھی غم کی چلتی ہے
            نہ نفرت پھانس بنتی ہے
            ہیں سبھی چہروں پے مسکانیں
            کہیں جھگڑے نہیں ہوتے

            چلو ہم فرض کرتے ہیں
            کہ غم خوشیوں سے بہتر ہیں
            چلو ہم فرض کرتے ہیں
            یہ دنیا تم سے بہتر ہے

            ذرا ٹہرو
            مگر ہم فرض کیوں کر لیں
            یقیں مجھ کو بتاتا ہے
            حقیقت تو حقیقت ہے
            میں سب کچھ جان سکتا ہوں
            نہ سورج شب میں چمکے گا
            نہ دن میں چاند نکلے گا
            خزاں میں گل نہیں کھلتے
            یہ نفرت مر نہیں سکتی
            نہ غم خوشیوں سے بہتر ہیں
            نہ دنیا تم سے بہتر ہے
            ہے دنیا کی حقیقت کیا
            فقط ایک تم ہی اچھے ہو
            جہانوں سے زمانوں سے
            مکانوں لا مکانوں سے
            یہ سب کچھ ہے وہی جو
            اسی دنیا میں ہوتا ہے

            تو پھر ہم فرض کیوں کرلیں
            فقط ایک تم ہی اچھے ہو....

            (امجد اسلام امجد)


            Comment


            • ”سنو! تم لوٹ آؤ ناں“

              کہ جب شام ڈھلتی ہے
              ہجر میں جان جلتی ہے
              تم اپنی رات کا اکثر
              سکوں برباد کرتے ہو
              سُنا ہے یاد کرتے ہو

              کہ جب پنچھی لوٹ آتے ہیں
              غموں کے گیت گاتے ہیں
              ”سنو! تم لوٹ آؤ ناں“
              یہی فریاد کرتے ہو
              سُنا ہے یاد کرتے ہو

              ستارے جب فلک پہ جگمگاتے ہیں
              وہ بیتے ہوئے پل خوب رُلاتے ہیں
              تم اُس دم اپنی آنکھوں میں
              مجھے آباد کرتے ہو

              سُنا ہے یاد کرتے ہو
              مجھے تم یاد کرتے ہو



              Comment


              • وہی کھو جاتے ہیں جاناں!

                نہیں کے بعد بھی کہنے کو سُننے کو،
                بہت سے لفظ ہوتے ہیں
                مگر ان کو تلاشے گا وہی جو باہنر ہو گا
                جو لفظوں میں چھپی دھڑکن سے جاناں باخبر ہو گا
                نہیں کے بعد بھی اثبات کا امکان ہوتا ہے
                مگر کچھ لوگ رستے میںہی ہمت ہار دیتے ہیں
                وہ لفظوں میں چھپے معنی، چھپے ارمان کیسے جان سکتے ہیں
                کہ اکثر ہم ” نہیں“ میں ”ہاں“ بھی رکھتے ہیں
                مگر اِک ضد سی ہم کو ٹوک دیتی ہے
                اَنا دیوار بن کر روک دیتی ہے
                اور ہم یہ سوچ کر بھی ہار جاتے ہیں
                کہ شاید سامنے والا،
                ہمارے دل میں جھانکے گا
                ”نہیں“ میں ”ہاں“ کو بھانپے گا
                ہمارا ہاتھ تھامے گا
                گلے ہم کو لگائے گا، ہمیں اپنا بنائے گا
                ہماری مات کو وہ جیت کر دے گا،
                یہ سرگم گیت کر دے گا
                مگر ایسا نہیں ہوتا
                ”نہیں“ کو لے کے کچھ لمحے،
                کہو ہو جاتے ہیں جاناں!
                وہ جن کو ساتھ چلنا ہو
                وہی کھو جاتے ہیں جاناں!
                ”نہیں“ کے بعد بھی کچھ لفظ ہوتے ہیں


                Comment


                • پتا نہیں وہ کون تھا جو میرے ہاتھ

                  پتا نہیں وہ کون تھا ؟
                  پتا نہیں وہ کون تھا جو میرے ہاتھ
                  موتئے کی ڈال ، پنکھ مور کا تھما کے چل دیا
                  پتا نہیں وہ کون تھا
                  ہوا کے جھونکے کی طرح جو آیا اور گزر گیا
                  نظر کو رنگ ، دل کو دکھ کی نکہتوں سے بھر گیا
                  میں کون ہوں ؟ گزرنے والا کون تھا ؟
                  یہ پھول ، پنکھ کیا ہیں ، کیوں ملے ؟
                  یہ سوچتے ہی سوچتے ، تمام رنگ ایک رنگ میں اتر گئے
                  ۔۔۔ سیاہ رنگ
                  تمام نکہتیں ۔۔۔ اِدھر اُدھر بکھر گئیں ، خلاؤں میں
                  یقین ہے ۔۔۔
                  نہیں ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ گمان ہے
                  وہ کوئی میرا دشمنِ قدیم تھا
                  دِکھا کے جو سراب ، میری پیاس اور بھی بڑھا گیا
                  میں بے حساب آرزوؤں کا شکار
                  انتہائے شوق میں فریب اس کا کھا گیا
                  گمان ہے ۔۔۔
                  نہیں ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ یقین ہے
                  وہ کوئی میرا دوست تھا ، جو دو گھڑی کے واسطے ہی کیوں نہ ہو
                  نظر کو رنگ ، دل کو نکہتوں سے بھر گیا
                  پتا نہیں کدھر گیا
                  میں اس کو ڈھوندتا ہوا تمام کائینات میں
                  اِدھر اُدھر بکھر گیا !


                  Comment


                  • مجبوری یا مجبوری کی

                    اس نے کہا سن
                    عہد نبھانے کی خاطر مت آنا
                    عہد نبھانے والے اکثر
                    مجبوری یا مجبوری کی
                    تھکان سے لوٹا کرتے ھیں
                    تم جاؤ اور دریا دریا پیاس بجھاؤ
                    جن آنکھوں میں ڈوبو
                    جس دل میں بھی اترو
                    میری جلن آواز نہ دے گی
                    لیکن
                    جب میری چاھت اور میری خواھش کی لو
                    اتنی تیز اور اتنی اونچی ھو جائے
                    جب دل رو جائے
                    تب لوٹ آنا


                    Comment


                    • میری ضِد ریزہ ریزہ۔۔۔

                      وقت کٹتا رہا درد بڑھتا رہا

                      کچھ کہنا تھا اُسے بھی
                      اور مجھے بھی
                      اس نے چاہا میں کُچھ کہوں
                      میری یہ ضِد بات وہ کرے
                      یہی سوچتے سوچتے زمانے بیت گئے
                      نہ اس کی انا ٹوٹی نہ میری ضِد
                      اس کی انا فصیل تھی
                      تو میری ضِد چٹان
                      انا اور ضِد کے اِسی تضاد میں
                      سفرِزندگی یونہی رواں رہا
                      وقت کٹتا رہا
                      درد بڑھتا رہا
                      اور سفر اختتام کو پہنچا
                      اختتامِ سفر یہ رہا
                      میری آنکھوں میں ہلکی سی نمی
                      اور شاید اسکی زندگی میں تھوڑی سی کمی
                      اس کی انا شکست خوردہ
                      میری ضِد ریزہ ریزہ۔۔۔


                      Comment


                      • اسکے نام

                        اسکے نام


                        میں نے خوشبو کو چھو کر دیکھا ہے

                        میں نے مٹھی میں کرنیں سمیٹی

                        میں نے بوسے لیے چاندنی کے

                        میں نے سورج میں سائے کو دیکھا

                        میں ھوا سے کروں گفتگو بھی

                        میں صدیوں کا ہر روپ دیکھوں

                        میں نے سوچوں کے نغمیں سنے ہیں

                        میں نے لفظوں سے چہرے بنے ہیں

                        رنگ کا عکس دیکھا ہے میں نے

                        عکس کا رنگ پہنا ہے میں نے

                        میں نے قطرے میں دجلے کو دیکھا

                        میں نے دجلے میں قطرہ نہ پایا

                        میں جو سوچوں تو کیا کیا نہ دیکھوں

                        میں جو دیکھوں تو کیا کیا نہ سوچوں

                        میں وہ قادر کہ گم قدرتوں میں

                        میں وہ شاعر کہ چپ حیرتوں میں

                        تجھ کو سوچوں تو کچھ بھی نہ دیکھوں

                        تجھکو دیکھوں تو کچھ بھی نہ سوچوں


                        Comment


                        • سکھیاں میری

                          سکھیاں میری
                          کُھلے سمندر بیچ کھڑی ہنستی ہیں
                          اور میں سب سے دور ، الگ ساحل پر بیٹھی
                          آتی جاتی لہروں کو گنتی ہوں
                          یا پھر
                          گیلی ریت پہ تیرا نام لکھے جاتی ہوں
                          !


                          Comment


                          • ذرا دیر کی زندگی کے لیے خواب سب اک طرف رکھ دئیے

                            ذرا دیر کی زندگی کے لیے خواب سب اک طرف رکھ دئیے
                            خواب سوچوں میں تھے
                            خواب آنکھوں میں تھے
                            خواب لفظوں میں تھے
                            خواب رنگوں میں تھے
                            خواب تھے جو مری چار سمتوں میں تھے

                            زندگی عمر بھر
                            چار سمتوں سے یہ دھوپ سہتی رہی
                            یوں ہی رہتی رہی

                            اور پھر ایک دن یوں ہوا
                            سبز خوابوں کی ٹھنڈی تپش چھوڑ کر
                            ایک موہوم سی روشنی کے لیے
                            اک ہمکتی چھلکتی ہنسی کے لیے
                            زندگی کے لیے
                            جو نہیں مل سکی اس خوشی کے لیے

                            اک ذرا دیر کی زندگی کے لیے
                            خواب سب اک طرف رکھ دئیے


                            Comment


                            • Re: کہیں چھوڑ دور نکل جائیں

                              کچھ یادیں جگنو جیسی ہیں
                              جوپلکوں پہ آرکتی ہیں
                              zbr10

                              Comment


                              • Re: ہم اس پر کچھ نہیں لکھیں گے

                                ہم لوگ تو جو سرکار لکھیں

                                اک بار لکھیں

                                kya kehnay

                                Comment

                                Working...
                                X