’’حیا۔۔۔ بات سنو!‘‘
’’مگر وہ اسے سننا نہیں چاہ رہی تھی۔ وہ اس سے فاصلے پہ کھڑا تھا، پھر بھی پتا نہیں کیسے، وہ اس کاشانہ ہولے سے ہلا رہا تھا۔
’’حیا۔۔۔ اٹھو! میری بات سنو۔‘‘ بہت دھیرے سے وہ کہہ رہا تھا۔ چاندی کے مجسمے پھر سے واپس لوٹ آئے تھے۔ گہرے کنویں کا اندھیرا چھٹتا گیا۔ چاندی کی جھیل ہر سو پھیلتی گئی۔ اس نے ایک جھٹکے سے آنکھیں کھولیں۔
کمرے میں مدھم سی روشنی بکھری تھی۔ اس کے صوفے کے سامنے میز کے کنارے پہ بیٹھا جہان بہت تکان سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اسے آنکھیں کھولتے دیکھ کر وہ تھکے تھکے سے انداز میں مسکرایا۔
’’دیکھ لو۔۔۔ تم میرے لیے کپادوکیہ نہیں آئیں، مگر میں ہر دفعہ تمہارے لیے آ جاتا ہوں۔ پھر بھی کہتی ہو مجھے پروا نہیں ہے؟‘‘
Comment