Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

جنت کے پتے - Jannat key pattey

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #91
    کون جانے کہ اس نئے سفر پہ اسے اس کی بچھڑی ہوئی دوستیں واپس مل جائیں؟
    کون جانے کہ عائشے اور بہارے بھی مصر میں رہتی ہوں؟
    کون جانے کہ عائشے اب بھی ویسی ہی سادہ اور مذہبی سی ہو، جبکہ بہارے ایک خوبصورت ٹین ایج لڑکی میں بدل گئی ہو؟
    جہان کو جاب کی وجہ سے ان سے رابطہ کرنے کی اجازت نہ تھی، مگر۔۔۔ حیا نے اپنے سامنے موجود دونوں نفوس کو دیکھتے ہوئے زیرِلب مسکراتے ہوئے سوچا۔۔۔
    مگر کون جانے کہ حیا نے اُن سے رابطہ کبھی ترک ہی نہ کیا ہو؟

    کیونکہ چیزیں جتنی ناممکن ہوتی ہیں،
    وہ اتنی ہی ممکن بھی تو ہوتی ہیں نا۔
    مگر۔۔۔ کون جانے!
    Never stop learning
    because life never stop Teaching

    Comment


    • #92
      ایسی ہی تو ہوتی ہیں اچھی لڑکیاں۔ عام لڑکیوں سے الگ، منفرد، مختلف۔ وہ دنیا میں گم، بے فکری سے قہقہے لگاتی، کپڑوں، جوتوں اورڈراموں میں مگن لڑکیوں جیسی تو نہیں ہوتیں۔ اجنبیت ہی ان کی شناخت ہوتی ہے۔ وہ ساحل کی کیچڑ پہ چمکنے والا الگ سا موتی ہوتی ہیں۔ اجنبی موتی۔
      وہ دھیرے سے مسکرائی اورہتھیلی کی پشت سے آنسو رگڑے۔ وہ ایک مضبوط لڑکی ہے، اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننی۔ وہ اسی اجنبی طریقے سے اس دنیا میں سر اٹھا کرسب کے درمیان جیے گی اوروہ دنیا والوں کو یہ کرکے دکھائے گی۔ آئندہ۔۔۔ وہ کوئی پارٹی چھوڑ کر نہیں آئے گی، وہ پورے اعتماد سے ان میں بیٹھے گی۔
      وہ اٹھی اوراپنا اسکارف اٹھایا۔ پھر فون پہ عائشے کا نمبر ملانے لگی۔ اجنبی لڑکیوں کو اپنے جیسی ایلینز سے زیادہ سے زیادہ ان ٹچ رہنا چاہیے تاکہ جب خندق کھودتے کوئی اپنے دل پہ رکھا ایک پتھر دکھائے تو آپ اسے اپنے دو پتھر دکھاسکیں۔
      Never stop learning
      because life never stop Teaching

      Comment


      • #93
        ’’ایک بات پوچھوں؟‘‘
        ’’پوچھیے!‘‘ اب کے اس کی آواز میں اجنبیت در آئی تھی۔
        ’’کبھی کوئی آپ کے لیے جنت کے پتے توڑ کر لایا ہے؟‘‘
        ’’ہم دنیا والوں نے جنتیں کہاں دیکھی ہیں میجر احمد!‘‘ اس کے چہرے پہ تلخی رقم تھی۔

        ’’تب ہی تو ہم دنیا والے جانتے ہی نہیں کہ جنت کے پتے کیسے دکھتے ہیں۔ کبھی کوئی آپ کو لا دے تو انہیں تھام لیجئے گا۔ وہ آپ کو رسوا نہیں ہونے دیں گے‘‘۔
        Never stop learning
        because life never stop Teaching

        Comment


        • #94
          ’’جہان کہتا ہے کہ قرآن میں پہیلیاں ہوتی ہیں۔ کیا واقعی ایسا ہوتا ہے؟‘‘
          ’’دیکھو بیٹا قرآن بذات خود پہیلی نہیں ہے۔ لیکن اس کے اندر بہت ساری نشانیاں ہیں، ان لوگوں کے لیے جو غورو فکر کرتے ہیں۔ اور یہ تو قرآن خود بھی بار بار کہتا ہے۔ ہاں تم کہہ سکتی ہو کہ قرآن میں بہت ساری پہیلیاں ہیں۔‘‘
          ’’مگر آنٹی قرآن تو آسان بنا کر اتارا گیا ہے نا، تو پھر کیا ضروری ہے کہ ہم اس کی ہر پہیلی ڈھونڈیں؟‘‘
          ’’نہیں قرآن آسان بنا کر نہیں اتارا گیا۔ اس میں غوروفکر کرنا پڑتا ہے۔‘‘ وہ اب مشین کا ٹائمر لگا رہی تھیں۔
          ’’لیکن آنٹی اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اس نے قرآن کو آسان بنا کر اتارا ہے؟‘‘
          ’’اللہ تعالیٰ نے یہ کہا ہے کہ قرآن کو یسیر بنا کر اتارا ہے لیکن آسان نہیں۔ یسیر کا مطلب آسان نہیں ہوتا۔ یہ تو انگریزی اور دوسری زبانوں میں اس کا ترجمہ آسان کر دیا جاتا ہے ورنہ اس کا مطلب آسان نہیں ہوتا۔ یسیر کہتے ہیں کسی چیز کو تمام ضروری لوازمات سے آراستہ کر کے اسے ready to use بنا دینے کو۔‘‘
          ’’مگر آنٹی آسان بھی تو اسی چیز کو کہتے ہیں‘‘ وہ الجھی۔
          ’’نہیں بیٹا، آسان کہتے ہیں پیس آف کیک کو۔ یعنی کسی کو کھانے کے لیے کیک کا ایک ٹکڑا دے دینا۔ اور یسیر کا مطلب ہے کہ کسی کو انڈے، میدہ،گھی،چینی،وغیرہ اور کیک کی ریسیپی دے کر کچن میں بھیج دینا۔ سب اس کے ہاتھ میں ہوگا، مگر کیک اسے خود بنانا ہوگا۔ اب یہ اس پہ منحصر ہے کہ وہ کیک بناتا ہے یا ان اشیاء سے آملیٹ اور میدے کی روٹی بنا کر اصل مقصد سے ہٹ جاتا ہے! انسان کے لیے وہی ہوتا ہے بیٹا جس کی وہ کوشش کرتا ہے!‘‘
          Never stop learning
          because life never stop Teaching

          Comment


          • #95
            حیا : ''اتنے زیادہ کیوں ہوتے ہیں ٹیولپس استنبول میں؟ جہاں دیکھو ٹیولپس ہی نظرآتے ہیں۔''

            دکاندار : ''ٹیولپس تو استنبول کا سمبل ہیں۔ کیا آپ نے ٹیولپ فیسٹول کے بارے میں۔۔۔۔''

            دکاندار جوش و خروش سے اسے فیسٹول کے بارے میں بتانے لگا جس میں اسے قطعاً کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ بظاہر سر جھکا کر سنتی ایک نظر ہوٹل کے عقبی پارکنگ لاٹ پہ ڈال لیتی جہاں پہ ابھی تک جہان کھڑا گارڈ سے کچھ کہہ رہا تھا۔ جب تک وہ واپس پلٹا، حیا سٹول پہ بیٹھ کر میگزین چہرے کے سامنے کیے پھولون میں کیموفلاج ہوئی بیٹھی تھی۔ اب بس جہان چلا جائے تو وہ بھی خاموشی سے نکل جائے گی۔
            کسی نے نرمی سے میگزین اس کے ہاتھ سے کھینچا۔ اس نے چونک کر دیکھا۔

            جہان : ''جب اپنا چہرہ چھپانے کے لیے میگزین اس کے سامنے کرتے ہین تو اس کو الٹا نہیں پکڑتے۔''
            Never stop learning
            because life never stop Teaching

            Comment


            • #96
              ’’ویسے اب بتاؤ، دنیا کا سب سے خوبصورت شہر کون سا ہے؟‘‘ وہ اسے چھیڑ رہا تھا۔
              ’’اسلام آباد!‘‘ وہ بے نیازی سے بولی۔
              ’’اچھا!‘‘ اسٹیرنگ وہیل گھماتے ہوئے جہان نے اثبات میں سرہلایا۔ ’’اور ہیلین آف ٹرائے کے ’’ٹرائے‘‘ کا ذکر تو سنا ہو گا تم نے؟‘‘
              ’’ہاں، اس کا یہاں کیا ذکر؟‘‘ وہ دور نظر آتے پہاڑوں کو دیکھ کر بولی۔
              ’’ٹرائے کا تاریخی شہر ترکی میں ہی واقع ہے۔ ہاں، وہ ہیلن آف ٹرائے کی کہانی ترکی کی ہی ہے۔‘‘
              ’’اچھا!‘‘ جہان نے اپنے تئیں اسے متاثر کرنے کی کوشش کی مگر حیا نے ذرا اثر نہیں لیا۔ وہ ابھی ڈی جے کی دوست ہونے کا حق ادا کرنا چاہتی تھی۔
              Never stop learning
              because life never stop Teaching

              Comment


              • #97
                ’’اتنا چھوٹا سا اسٹور ہے، تمہیں کیسے پتہ کہ اتنا مہنگا پرفیوم جو لے رہے ہو وہ اوریجینل ہے یا نقل؟ ’’جہان کو ٹوکنا تو قومی فریضہ تھا اس کے لیے۔
                جہان نے بقایا پیسے واپس پکڑتے ہوئے مڑ کر سنجیدگی سے اسے دیکھا اور پھر لفافے سے پرفیوم نکال کر، ڈبی سے شیشی باہر نکالی۔ پھر شیشی کی اسپرے نوزل اپنی انگلی کے قریب لے جا کر اسپرے کیا۔
                ’’دیکھو، یہ کتنا فائن اور برابر اسپرے ہوا ہے۔ اگر نقلی ہوتا تو ذرا پچکڑی کی صورت اسپرے ہوتا۔ اور میں نے کئی بار پریس کر کے دیکھا ہے کیونکہ پہلی دفعہ میں تو اوریجنل پرفیوم پریس کرنے پہ بھی اسپرے اتنا فائن نہیں ہوتا۔‘‘ اس نے ہاتھ پہ لگی خوشبو کو انگلیوں سے مسلا، پھر شیشی کا نوزل حیا کے سامنے کیا۔ ’’دیکھو یہ نوزل کتنا پتلا ہے، اوریجنل پرفیوم کا ہمیشہ پتلا ہوتا ہے، جبکہ اسی برانڈ کے نقلی پرفیوم کا نوزل ذرا کھلا ہو گا۔‘‘ پھر وہ شاپر میں پرفیوم ڈالتا پلٹ گیا۔

                اس نے بس اثبات میں سرہلا دیا۔ اس آدمی کے پاس ہر مسئلے کا حل ہوتا تھا!
                Never stop learning
                because life never stop Teaching

                Comment


                • #98

                  کیلیس قریب آیا تو نمروت داغ (کوہِ نمرود) دور ہوتا گیا، مگر اس کا سحر ابھی تک قائم تھا۔ جہان بتا رہا تھا کہ نمروت داغ پہ نمرود کے بڑے بڑے مجمسے بنے ہیں، جن کے سر کاٹ دیے گئے ہیں۔ اب وہ کٹے ہوئے سر پہاڑ کے قدموں میں جا بجا پڑے ہیں، اور سیاح ان پہ اسٹول کی طرح بیٹھ کر تصاویر بنواتے ہیں، جو سر جھکتے نہیں وہ اسی طرح کاٹ دیے جاتے ہیں۔ چلو، وقت انسان سے جو بھی چھینے، کم از کم اس بات کا فیصلہ تو کر ہی دیا کرتا ہے کہ کون تاریخ کے درست طرف تھا اور کون غلط طرف۔
                  Never stop learning
                  because life never stop Teaching

                  Comment


                  • #99
                    'ویسے ضروری نہیں تھا کہ آپ جہان سکندر کو میرے بارے میں بتاتیں۔ انسان کو کچھ باتیں اپنے تک بھی رکھنی چاہئیں۔''
                    ''میں نہیں چاہتی تھی کہ کوئی میرے اور آپ کے اس رابطے کو کبھی بھی غلط طریقے سے استعمال کر کے مجھے رسوا کر سکے۔''

                    ''الله آپ کو رسوا نہیں کرے گا حیا!جنّت کے پتے تھامنے والوں کو الله رسوا نہیں کرتا۔''
                    اسی لمحے دور سمندر کے کناروں پر بگلوں کا ایک غول پھڑپھڑاتا ہوا اڑا تھا -وہ نگاہیں
                    ان کے بھورے سفید پروں پہ مرکوز کیے بلکل ٹھر سی گئی تھی.
                    Never stop learning
                    because life never stop Teaching

                    Comment


                    • ’میں پناہ مانگتا ہوں الله تعالیٰ کی دھتکارے ہوئے شیطان سے۔اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان , بار بار رحم کرنے والا ہے‘‘۔
                      قرأت کرنے والا بچہ سنہرے بالوں والا ترک تھا، جس نے سر پہ جالی دار ٹوپی لے رکھی تھی۔ باقی بچے خاموش تھے۔ وہ اپنی باریک، مدھر آواز میں پڑھ رہا تھا۔

                      ’’آپ ایمان لانے والی عورتوں سے کہہ دیں کہ وہ اپنی نگاہیں جھکا کر رکھا کریں اور اپنے قابل ستر اعضا کی حفاظت کیا کریں‘‘۔
                      وہ جو جماہی روکتی ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی، ایک دم گڑبڑا کر سیدھی ہو بیٹھی۔

                      ’’اور وہ اپنی زینت ظاہر نہ کیا کریں، سوا اس کے جو خود ظاہر ہو جائے‘‘۔
                      کم سن بچے کی آواز نے سارے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ہر سو ایک سحر سا طاری ہو رہا تھا۔ حیا نے بے اختیار سر پر اوڑھے دوپٹے سے کان ڈھکے، جن میں اس نے موتی والی بالیاں پہن رکھی تھیں۔ وہی موتی جو جہان کے سیپ سے نکلے تھے۔ بہارے نے اسے ایک ایک موتی دونوں بالیوں میں پرو دیا تھا۔ تیسرا موتی حیا نے سنبھال رکھا تھا۔

                      ’’اور انہیں چاہیے کہ اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پہ ڈالے رکھا کریں‘‘۔
                      کسی معمول کی سی کیفیت میں اس نے گردن جھکا کر دیکھا۔ اس کا شیفون کا دوپٹا سر پہ تو تھا مگر گردن پہ اس نے مفلر کی طرح لپیٹ رکھا تھا۔ قدرے خفت سے اس نے دوپٹہ کھول کر شانوں پہ ٹھیک سے پھیلا کر لپیٹا، اس وقت سوائے حکم ماننے کے اسے کوئی چارہ نظر نہیں آیا تھا۔ یہ عائشے گل کی باتیں نہیں تھیں، جن پہ اُلجھ کر ان کو ذہن سے جھٹکا جا سکتا تھا۔ یہ حکم بہت اوپر آسمانوں سے آیا تھا۔ وہاں سے، جہاں انکار نہیں سنا جاتا تھا، جہاں صرف سر جھکایا جاتا تھا۔
                      Never stop learning
                      because life never stop Teaching

                      Comment


                      • ’’جہان کو بورک بہت پسند ہے اور ایران بھی۔ تمہاری پسند کانہیں پتہ تھا۔ کیا تم یہ کھا لو گی؟‘‘
                        ’’جی بالکل۔‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔پہلی دفعہ اسے احساس ہوا تھا کہ اسے جہان کی پسند ناپسند کا علم نہیں، کھانے کے بارے میں ہی سہی۔
                        (ایران ترک لسی تھی اور بورک سموسے یا کچوری کی ہی ایک جدید شکل تھی)۔ جہان بہت شوق سے کھا رہا تھا، گو بہت زیادہ نہیں مگر خلوص اور محبت کا بھی اپنا ذائقہ ہوتا ہے۔
                        Never stop learning
                        because life never stop Teaching

                        Comment


                        • "یہ رہا وہ انت۔۔۔۔ غلطہ ٹاور۔ جسے جاننے کا تمہیں تجسس تھا۔"

                          اس نے ٹاور کی طرف اشارہ کیا۔

                          "اور انت جاننے کا سب سے بڑا نقصان پتا ہے کیا ہوتا ہے جہان؟"

                          جہان نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا۔

                          "انسان کا سفر ختم ہو جاتا ہے۔"
                          Never stop learning
                          because life never stop Teaching

                          Comment


                          • " تمہارا مسلہ پتا ہے کیا ہےحیا ؟ تم ایک بات سمجھ نہیں پارہیں ' کہ تم کسی چیز کی کتنی ہی صفائی کیوں نہ کرلو' اس پے جالے پھر سے بن جاینگے .. یہ جو تم بار باراسٹرگل کرتے کرتے تھکنے اور اداس ہونےلگتی ہونا 'یہ اسی وجہ سے ہے.. اور یہ سب کے ساتھ ہوتا ہے .. اس فیزمیں یوں بیزار ہوکر بیٹھ نہیں جاتے' بلکے خود کو منفی رد عمل سے بچاۓ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں.. صبر اسی چیز کا نام ہے..خود کو منفی رد عمل سے روکنا اور مثبت سوچ پہ جماۓ رکھنا "

                            ''حیا ! قرآن اور نماز ' یہ دو وہ چیزیں ہیں جو ہر انسان کو اپنے لئے خود ہی کرنا ہوتی ہیں_ یہ کبھی کوئی دوسرا آپ کے لئے نہیں کر سکتا_''

                            چاندی کا ورق ان کے قدموں کو چھوتا ان کو بھی خود لپیٹنے لگا_ چاندی کے مجسمے پھر سے لوٹ آئے تھے_
                            Never stop learning
                            because life never stop Teaching

                            Comment




                            • "ہم بہت ترقی یافتہ نہیں ہیں ‘بہت پڑھے لکھے بھی نہیں ہیں ۔ دھوکہ دہی‘رشوت زنی‘قتل وغارت اور بہت سی برائیوں میں بھی ملوث ہیں۔ ہمارے ہاں ظلم کھلے عام کیا جاتا ہے اور مظلوم بھی ہم ہی ہوتے ہیں ہم پسماندہ بھی ہیں اور پست ذہن کے بھی ‘ مگر اس سب کے باوجود جہان سکندر ! ہم دل کے برے نہیں ہیں۔

                              ہمارے دل بہت سادہ‘ بہت معصوم‘ بہت پیارے ہوتے ہیں۔‘‘
                              Never stop learning
                              because life never stop Teaching

                              Comment


                              • ''جہان سکندر کون تھا؟
                                اسکا منکوح،کزن،شوہر....وہ شخص جس کے خواب اس نے ساری عمر دیکھے تھے، اتنی آسانی سے وہ کیسے اس سے دستبردار ہوجائے؟کیا ابا‘اماں نہیں جانتے تھے کہ خواب اگر اپنے ہاتھوں سے توڑے جائیں تو انگلیاں بھی زخمی ہوجاتی ہیں ، پھر کیسے وہ خود کو زخم دے ؟ اگر وہ جہان یا سبین پھپھو کے لیے کوئی ان چاہا رشتہ تھی تو بھی ان کو صفائی کا ایک موقع دیے بغیر ہی کیسے خود کو ان سب سے الگ کر لے؟یہ مکھن نیہں تھا جس سے بال نکالنا تھا۔ یہ تو کانٹوں سے الجھا دامن تھا۔اگر کھینچ کر الگ کیا تو دامن پھٹ جائگا اور اگر کانٹے نکالنے کی کوشش کی تو انگلیاں زخمی ہو جائیں گی۔ مگر کیا پتہ اس کانٹوں کے پودے پہ گلاب بھی کھلتے ہوں .... سرخ گلاب ....سبز پتے .... رنگوں خوشیوں اور خوابوں کے۔"
                                Never stop learning
                                because life never stop Teaching

                                Comment

                                Working...
                                X