Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

Aik Sawal Aur Uss ki (10) Mukhtalif Shaklain....!!

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #61
    Re: Aik Sawal Aur Uss ki (10) Mukhtalif Shaklain....!!

    اسلام علیکم جواد بھائی !
    آپ نے بہت خوبصورت سوالات اٹھائے اس پر میں آپ کا شکر گزار ہوں اس سے مسئلہ کی مزید وضاحت میں مدد ملے گی۔ لیکن اس سے پہلے ایک گذارش کروں گا کہ اگر ہوسکے تو مزید گفتگو رومن کی بجائے یونی کوڈ اردو میں کیجیئے گا کیونکہ اب اس رومن کو نہ تو پڑھنے کو جی چاہتا ہے اور نہ پڑھا جاتا ہے بلکہ سر دکھنے کو آجاتا ہے لہذا ایک یہ بھی بڑی وجہ ہے میرے پیغام پر کم کم آنے کی اب وہ زمانے نہیں رہے کہ جب اردو کی ترویج رومن سے کی جائے بلکہ اسے یونی کوڈ میں ہی منتقل ہونا چاہیے تھا خیر یہ ایک الگ ٹاپک ہے ۔ تو آپ نے فرمایا کہ ۔ ۔

    Abid aap ki ki tahqeeq parhee...yaqeenan bohut mehnat ki gaee hai iss tahqeeq per..

    Lykin mrea aap sab mudabana guzarish hai..k ager isteghasa ki intamam sahakoon ku maan liya jye..tu iss say tu ye saabit ho ga...ki shirk ka wajood kabhi iss dunya main raha hi nahi aur naooubillah Alah nay khuma khua loogoon ku musahrik qarar day diya...
    Jab k ye baat sabit hai..k Nabi Karim (S.W) k daour k kafir bhi Allah ku haqeqee mushkil kusha aur hajat rawa mantay tha

    آپ نے فرمایا کہ آپ نے ہماری تحقیق پڑھی لیکن کاش کہ آپ نے پڑھی ہوتی ساتھ تدبر اور غیر جانبداری سے ؟؟؟؟
    پوری تحقیق میں حقیقت توحید و شرک پر جو متفقہ نقاط پیش کیئے گئے ان پر آپ نے موافقت یا مخالفت میں کچھ نہیں کہا مگر یہ کہ چند آیات کہ خود ساختہ ذاتی فہم کی بنیاد پر آپ نے چند اشکالات پیش فرمائے خیر انکا جواب بھی ہم عرض کیئے دیتے ہیں شاید کہ ترے دل میں اتر جائے میری بات ۔
    گذارش یہ ہے کہ شرک کی جو تعریف بیان کی گئی اور توحید کا جو بیان کیا گیا اگر آپ نے اس کو غور سے پڑھا ہے اور اس پر بظاہر آپ کا کوئی اعتراض بھی نہیں تو پھر آپ کو سمجھ آجانی چاہیے تھی کہ مشرکین کا شرک کیا تھا ۔ ہم نے صاف صاف عرض کی مشرکین ذات و صفات میں شرک کیا کرتے تھے ذات میں خدا کا بیٹا یا بیٹیاں قرار دے کر یا پھر مجوس کی طرح دو مستقل خدا مان کر اور صفات میں غیراللہ کی عبادت کرکے یعنی اپنے بتوں کو الٰہ مان کر ۔ آپ فرماتے ہیں کہ استغاثہ کی ان تمام شکلوں کو مان لیا جائے تو کوئی بھی مشرک نہ رہا ؟؟؟ میرے بھائی مطلقا کسی کو مدد کے لیے پکارنا شرک نہیں اور نہ ہی قرآن و سنت اسے شرک قرار دیا ہے شرک ہے کسی کو مستقل حاجت روا سمجھ کر اسکی عبادت کرنا اور پھر اسکو مشکل کشائی کے لیے پکارنا لہذا یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جگہ جگہ مشرکین کہ بتوں سے نفع و نقصان نہ دینے کی صلاحیت کا انکار کیا ہے اور بطور عقلی استدلال انکو جنجھوڑا ہے کہ جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ تو خود پر بیٹھی مکھی نہیں مارسکتے تمہیں کیا نفع یا نقصان دیں گے پھر انکی عبادت کیوں کرتے ہو یہ قرآن کا عقلی استدلال ہے اس یہ ہرگز نہیں ثابت ہوتا کہ جو مکھی مارسکتا ہے یا بالذات ظاہرا نقصان پہنچا سکتا ہے جیسے آگ یا سانپ یا بچھو وغیرہ یا کوئی انسان وہ الٰہ بھی ہوتا ہے نہیں نہیں ہرگز نہیں بلکہ اس سے تو فقط انکا عقلی رد مقصود ہے کہ جن بے جان بتوں کو تم پوجتے ہو وہ تو اپنی ذات میں خود اپنے لیے بھی نفع و نقصان کہ حامل نہیں چہ جائکہ انکو معبود بنالیا جائے معبود تو وہ ہوتا ہے جو کہ تمام نفع و نقصان کا بالذات بغیر کسی تردد کہ مالک ہوتا ہے اور وہ صرف اللہ ہے
    باقی رہ گئی اس کی مخلوق تو وہ اسکے حکم و عطا سے ایکدوسرے کہ کام بھی آتی ہے ایک دوسرے کی مشکل کشائی بھی کرتی ہے اور ایکدوسرے کو نقصان بھی پہنچاتی ہے جیسے حشرات الارض درندے اور خود انسان وغیرہ قرآن نے خود حضرت عیسٰی علیہ السلام کہ بارے میں ماورا قوتوں کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ وہ مادر زاد اندھوں کو شفا دیتے ہیں کوڑہوں اور برص کہ مریضوں پر دست شفاء پھیرتے ہیں لیکن باذن الٰہی یعنی اللہ کی عطا کردہ قوت سے لہذا ثابت ہوا کہ اللہ کی عطا سے مخلوق کا مخلوق سے نفع و ضرر کی امید رکھنا جائز اور قرآن کی رو سے ایک مشروع عمل ہے۔
    یاد رکھیئے غیر اللہ سے استغاثہ ایک جائز عمل ہے کوئی فرض یا واجب نہیں لہذا یہی وجہ ہے کہ آپ صحابہ کرام کی ساری سیرت اٹھا کردیکھ لیں وہ بات بات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں استغاثہ کرتے تھے یارسول اللہ ہم ہلاک ہوگئے بارش نہیں ہوتی مدد کیجیئے آپ فرماتے کہ تم ہلاک نہ ہوگئے میں ہوں ناں اور آپ دعا فرماتے کسی آنکھ نکل جاتی کسی کی پنڈلی ٹوٹ جاتی غرض کوئی پناہ طلب کرتا تو آپ کی بارگاہ میں مستغیث ہوتا کیونکہ استغاثہ کرنا فی نفسہ عبادت نہیں ہے ۔ یاد رہے کہ مشرکین کا شرک یہی تھا کہ وہ اپنے بتوں کو ایک تو معبود سمجھتے تھے اور دوسرے بعض معاملات میں بالذات نفع و نقصان کا حامل بھی سمجھتے تھے اسی لیے تو انھوں نے حرم کعبہ میں مختلف ناموں سے مختلف صفات کہ اپنے اپنے معبودون کہ بت سجا رکھے تھے اور یہی وجہ تھی جب ان سے ایک الٰہ کی عبادت کا کہا جاتا تو ان پر گراں گزرتا جیسا کہ قرآن اس پر شاہد ہے اور وہ اس پر تعجب کرتے کہ بھلا ایک الٰہ کیسے ہوسکتا ہے اور یہی کیسے ہوسکتا کہ وہ ایک خدا ہم سب کی بیک وقت سن سکے جیسا کہ حضرت قتادۃ کی روایت سے معتبر امہات التفاسیر میں یہی آیا ہے کہ وہ مشرکین ایک الٰہ کا ہر چیز میں متصرف بالذات ہونے پر تعجب کرتے تھے ۔لہذا آپکا یہ کہنا بجا نہیں کہ تمام مشرکین اللہ کو ہی حقیقی مشکل کشاء سمجھتے تھے اول تو ہم شرک کی متفق علیہ تعریف میں نقل کر آئے کہ اس دنیا میں بلاشبہ اسیے مشرکین بھی ہوئے کہ جنھوں نے عالم کی خلق سے لیکر تدبیر و تصرف میں دو مستقل خداؤں کا وجود مانا یعنی نیکی کے لیے ایک اور مستقل اور برائی کے لیے الگ اور مستقل دوسرے مشرکین مکہ خدا کو خالق و مالک تو مانتے تھے مگر اس کے ساتھ اپنے معبودوں کو بہت سے کاموں میں اللہ کا شریک اور اللہ کو نعوذباللہ من ذالک ان کا محتاج مانتے تھے یہی وجہ کہ مشرکین سے حج کہ دوران جو تلبیہ معتبر احادیث کی روایات میں آیا ہے اس میں یہ لفظ آئے ہیں اے اللہ ہم حاضر ہیں اور تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ کہ جسے تونے خود شریک ٹھرایا ۔۔۔۔ اس تلبیہ میں اللہ کی طرف خود شریک ٹھرانے کی جو باطل تاویل انھوں نے اختیار کی وہ اسی باب میں تھی کہ مشرکین کہ نزدیک اللہ اکیلا اتنے بڑے جہان کا انتظام و انصرام چلانے کہ قابل نہ تھا سو یہی وجہ تھی کہ انکے نزدیک ان کے معبود اللہ کہ شریک تھے ان معنٰی میں ایک تو اللہ نے خود انھے اپنے ساتھ شریک ٹھرا رکھا تھا کیونکہ وہ اکیلا کاروبار دنیا چلا نہیں سکتا تھا لا حول ولا قوۃ الا باللہ ۔
    یاد رکھیے مشرکین کا شرک ان دونوں طرح سے ثابت تھا ایک مستقل خدا کو تسلیم کرنا اللہ کے علاوہ اور دوسرے اپنے معبودوں کو اللہ کا مددگار اور بعض امور میں متصرف بالذات مان کر انکی عبادت کرنا اگر وہ اپنے معبودوں کو اللہ متصرف بالزات نہ بھی مانتے مگر محض انکی عبادت ہی کرتے تو تب بھی مشرک تھے تو وجوہات کی بنا پر ایک تو غیر اللہ کی عبادت کرنے کی وجہ سے اور دوسرا عبادت کا حق غیراللہ میں تسلیم کرکہ ان کا غیراللہ کو واجب الوجود ماننا لازم آجاتا ہے کہ عبادت کی ہی اس ذات کی جاتی ہے جو کہ واجب الوجود ہو
    ۔

    آپکے اس سوال کا جواب خود آپ کے اسی سوال میں ہے اول تو آپ سے ایک غلطی ہوئی شاید سبقت لسانی ہے کہ مشرکین مشکل پڑھنے پر اپنے خداؤں کو نہیں پکارتے تھے بلکہ اپنے خداؤں کو تو ہر وقت پکارتے تھے مگر مشکل پڑھنے پر مشرکین خالصتا اللہ کو پکارتے تھے اور جب وہ اللہ ان سے اس تکلیف کو دور کردیتا ہے تو پھر لگتے ہیں اپنے باطل معبودوں کی پوجا کرنے ۔۔ لہذا یاد رہے کہ یہاں پر انکا شرک یہی تھا کہ وہ اپنے معبودوں کی عبادت کیا کرتے تھے یہاں پکارنا یعنی یدعون بمعنی یعبدون ہے یعنی مستقل بالذات سمجھ کر معبود جانکر پکارنا یاد رہے کہ قرآن نے مشرکین کا یہ وصف بارہا بیان کیا ہے کہ وہ ایک سے زیادہ خداؤں کو پکارتے تھے بطور عبادت ۔۔
    پھر آپ نے سورہ یوسف کی جو آیت نقل فرمائی ہے وہ خالصتا مشرکین مکہ کی مذمت میں نازل ہوئی ہے کہ وہ اللہ کو خالق و مالک مان کر بھی غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں لہذا اس آیت میں لفظ ایمان اپنے اصطلاحی نہیں بلکہ لغوی معنٰی میں استعمال ہوا ہے ہم نے دیکھا کہ بعض نا عاقبت اندیش حضرات اس آیت کو مومنین پر فٹ کرتے ہیں اور یوں خارجیوں کا سا وطیرہ اپناتے ہیں جبکہ نظم قرآن یعنی ما قبل آیات نیز اسی آیت کہ اگر سیاق و سباق پر اگر سرسری سی بھی نظر دوڑائی جائے تو معاملہ واضح ہے کہ اللہ پاک ان مشرکین پر حجت فرمارہا کہ جب مجھے خالق و مالک مانکر ایک قسم کا ایمان میری خالقیت و مالکیت پر رکھتے بھی ہو تو پھر کیوں میرے علاوہ دوسروں کی بندگی اختیار کرکے شرک کا ارتکاب کرتے ہو ؟؟؟ لہذا یہ آیت مشرکین کی عقل و فہم کو واضح کررہی ہے کہ کس قدر بودھی عقل ہے مشرکین کی خالق و مالک اللہ کو مانتے ہیں اور یوں اسکی خالقیت و مالکیت پر ایمان بھی لاتے ہیں مگر پھر فورا غیر اللہ کی پستش کرکے شرک کا ارتکاب کربیٹھتے ہیں انا للہ وانا الیہ راجعون

    Ager hum christianaty per ghour karian tu humain wazeh ho jata hai...k Esayoon nay bhi Hazrat Esa (A.S) ku muhabbat aur aqeedat main hi Allah ka beta (son) banaya...(kyon k dunyawee taur per Baap k baaad beta hi baa ikhtiar hota hai)...aaj ka musalman Nabi karim (S.W) ya doosray Olyaa ku Allah ka beta tu nahi kehtay lykin unn ku Mushkil kusha aur hajat rawa aur baa ikhtiar samjhatay hain..(Tu hum main aur chrtians main kia far reh gaya)....aur ye baat musalemma hai...ki unn ki bhi hajat rawai ki jatee hai..TU PHIR HUM YE KISS TERHAN SABIT KARAIN GAY K who GHALT AUR HUM SAHI HAIN..??? Kia Allah sirf Rabbul muslemeen hai...kia Allah Rabbul Alamin nahi...???
    بالکل درست کہ عسائیوں نے عقیدت میں آکر ہی حضرت عیسٰی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دیا مگر اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ اللہ کہ پیاروں سے خوش عقیدگی اور عقیدت رکھنا ہی ممنوع و حرام ہے ؟؟؟؟ بلکہ اس سے یہ تو یہ ثابت ہوا کہ اللہ کہ پیاروں سے عقیدت ضرور رکھو میں اس میں غلو اس حد تک مت اختیار کرو کہ ان کا جو حق نہیں انھے وہ حق بھی دے ڈالو یعنی معبود اور مستقل خدا ہونا جب عسائیوں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دے دیا تو انھوں نے حضرت عیسٰی کو مستقل خدا مان لیا کیوں کہ خدا کا بیٹا خدا ہی ہوسکتا ہے نہ کہ غیر خدا اور یوں وہ ذات میں شرک کہ مرتکب ہوئے جبکہ کوئی بھی مسلمان کسی بھی نبی یا ولی کو نہ تو اللہ کا بیٹا مانتا ہے اور نہ ہی مستقل بالذات متصرف بلکہ ہر ادنٰی سے بھی مسلمان کا یہی عقیدہ ہے کہ اللہ کہ پیارے اللہ کی عطا سے مدد کرتے ہیں لہذا وہ ان سے اپنی حاجت روائی بطور مجاز باذن اللہ کہ مانتا ہے جیسا کہ قرآن میں خود حضرت عیسٰی علیہ السلام کو باذن اللہ مافوق الفطرت طریق پر حاجت روا مانا گیا ہے لہزا اللہ کہ پیاروں کو اللہ کہ حکم سے حاجت روا ماننا شرک ہرگز نہیں الا یہ کہ کوئی حاجت روا باذن اللہ مانکر انکی عبادت نہ شروع کردے کیونکہ کسی کو باذن اللہ حاجت روا ماننا تو شرک نہیں ہان مگر کسی کی عبادت کرنا شرک ضرور ہے ۔ لہذا میرے بھائی آپ پریشان نہ ہوں ہم میں اور عیسائیوں میں بڑے فرق ہیں ۔
    آپ تو عسائیوں کہ اس رونے کو روتے ہیں کہ ہم میں اور ان میں کیا فرق ہے مگر عیسائی تو ان قرآنی آیات پر بغلیں بجاتے ہیں کہ جن میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کی مافوق افطرت قوتوں کا خود اقرار قرآن نے کیا ہے اور انھے علم الغیب کا جاننے والا اور ماروا طریق پر لوگوں کو شفاء دینے والا فرمایا ہے عیسائی کہتے ہیں کہ تمہارے قرآن نے خود حضرت عیٰسی علیہ السلام کی ان خصوصیات کو مانا اور انکا ذکر کیا جبکہ اس کے مقابلے میں تمہارے قرآن میں تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی مافوق الفطرت قوتوں کا صراحت سے ذکر موجود نہیں سو ہمارے نبی تمہارے نبی سے خود قرآن کی رو سے افضل ٹھرے تو آپ ہی بتلایئے کہ ایسے میں ہم کیا قرآن کی ان آیات کا انکار کردیں کہ جن میں اللہ پاک نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی شان بیان فرمائی لاحول ولا قوۃ الاباللہ ۔۔



    Iss ka jawab ye hai..k Allah Raaziq hai...lykin uss insaan ku rizzaq hasil kernay k 02 rasatay batye hain..aik jaiz aur doosara na jaiz...rizzaq tu uss ku bhi mil jata hai..jo na jaiz zarye sa hasil kerta hai...lykin zahir hai..iss main barkaat nahi rehtee aur Allah k ghazab ka shikaar hota hai..jaiz rizzaq main barkata bhi hai aur Allah ki raza bhi....So Allah say mangnay k bhi 02 hi rasaty hain aik jaiz aur doosra Na jaiz ..aap khud samjhdar hain..Nabi Karim (S.W) aur aap k sahaba ka rasat hai jaiz ..aur say kaffir aur mushrik loogoon ka rasta na jaiz...faisala aap nay kerna hai..

    یہ آپ نے نہ جانے کس چیز کا جواب دیا ہے مگر آپکی یہ کوشش قیاس پر مبنی ہے اور قیاس بھی مع الفارق کہ جب دو چیزوں کی حقیقت میں ہی فرق ہو تو ان دو کو آپس میں قیاس کرنا عجب مضحکہ خیز ہے ۔ حلال و حرام احکام میں یہ بات درست ہے کہ حلال زرائع کو اختیار کرنا موجب ثواب جبکہ حرام کو اختیار کرنا موجب گناہ ہے جبکہ عقائد کہ معاملہ کو اس پر قیاس کرنا ہرگز درست نہیں اول عقیدہ میں دو راستے بالکل بھی نہیں ہوتے بلکہ عقیدہ بالکل یکتائی پر مبنی ہوتا ہے اور عقیدہ یہ ہے کہ اللہ ہی حقیقی حاجت روا ہے اس کے علاوہ کوئی حقیقی طور پر حاجت روا نہیں مگر اسکے حکم سے مخلوق ایکدوسرے کی مجازی طور پر حاجت روا ہے اور یہ اس کا قائم کردہ نطام ہے اور اسکی سنت ہے کہ اس کہ نظام پر چلا جائے لہزا خود قرآن پھر سنت اور پھر سنت صحابہ سے اس پر بے شمار اور اس قدر تواتر سے شہادتیں موجود ہیں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں استغاثہ کرتے اور اللہ کہ حکم سے آپکو مشکل کشاء مانتے ۔
    اس پر میں آپکو ایک دو نہیں دس بیس نہیں سینکڑوں ہزاروں روایات دکھا سکتا ہوں مگر یہ کہ کوئی ماننے والا اور غیر جانبداری سے تدبر سے کام لینے والا ہو تووووووو




    بالکل درست اول تو یہ ہمارے دلائل ہیں نہ کہ آپکے اور ہمارا یہی کہنا ہے کہ اللہ ہی غنی العالمین ہے باقی سب اس کہ بندے اور محتاج لہذا آپ کا یہ کہنا بالکل درست کہ ایکدوسرے کی مدد کرنا اور ایکدوسرے کو ایکدوسرے کی مدد پر باذن اللہ قادر سمجھنا اللہ ہی کہ حکم و عطا سے ہے چاہے امور ظاہری ہوں یا باطنی مافوق الاسباب ہوں یا ماتحت الاسباب سب امور میں اللہ خود ذاتی مستقل اور بالذات متصرف ہے جبکہ اسکے بندے بعض امور میں اسکی عطا سے متصرف ہیں لہذا بندوں کا عطائی طور پر اللہ کہ حکم سے ایکدوسرے کی حاجت روائی کرنا تو جائز ہے مگر کوئی بھی بندہ کسی دوسرے بندے کا نہ ذاتی اور نہ ہی عطائی طور پر معبود ہرگز نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اللہ پاک کوئی ایسا حکم فرماتا ہے کہ جس سے غیراللہ کا معبود ہونا لازم آئے سو یہی وجہ ہے کہ ہم نے استدلال کیا غیراللہ کا ایکدوسرے کی مدد کرنا حاجت روائی کرنا اور ایکدوسرے کو حاجت روا سمجھنا چاہے زندہ ہو یا فوت شدہ اگر اللہ کی عطا سے ہوتو ہرگز شرک نہیں مگر اگر مستقل بالذات اور بے عطائے الٰہی ہوتو یقینا شرک ہے اسی طرح غیر اللہ کی عبادت چاہے اللہ کی عطا سے ہو یا بے عطائے الٰہی یہ ہر دو صورتوں میں شرک ہے جبکہ اولذکر فقط دوسری صورت میں شرک ہے ۔

    Qoroon-e-ola main Nabi (S.W) aur Sahab kiram (R.Z) ki wafat k baad aisa koi manzar dekhnay ku nahi milta k loogoon nay unn ki qabar-e-mubarik per ja k istaa'nat hasil ki ho..kyuon k ye unn (R.Z) ki taleemat k manafi tha...

    ُآپ کا یہ کہنا بہت بڑا اور بے بنیاد اور محتاج دلیل دعوٰی ہے کہ جسکی کوئی ایک دلیل بھی آپ قرآن و سنت سے نہیں پیش فرماسکتے بلکہ یہ آپ کی قرآن و سنت کہ مطالعہ سے بے بہرہ ہونے کی واضح دلیل اور آپکے قلت مطالعہ پر کھلی شہادت ہے وگرنہ آپ ایسا ہرگز نہ کہتے کیونکہ سلف و صالحین سے اس مسئلہ میں اس قدر روایات اور فتاوٰی جات منقول ہیں کہ حساب سے باہر ہیں اگر فقط قرآن کی سورء نساء کی آٰیت نمبر چونسٹھ کو ہی لے لیا جائے تو امہات التفاسیر جیسے ابن کثیر وغیرہ میں اسی آیت کہ تحت اسکے حکم کو قیامت تک کے کہ مسلمین کے لیے ثابت رکھا اور مانا گیا ہے لہزا اسی کہ تحت عتبی کی مشھورحکایت کو نقل کیا گیا ہے اور اس سے استشہاد بطور استدلال پیش کیا گیا ہے ۔

    امام ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ۔

    { وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوۤاْ أَنفُسَهُمْ } الآية، يرشد تعالى العصاة والمذنبين إذا وقع منهم الخطأ والعصيان أن يأتوا إلى الرسول صلى الله عليه وسلم، فيستغفروا الله عنده، ويسألوه أن يستغفر لهم، فإنهم إذا فعلوا ذلك، تاب الله عليهم، ورحمهم، وغفر لهم، ولهذا قال: { لَوَجَدُواْ ٱللَّهَ تَوَّاباً رَّحِيماً } وقد ذكر جماعة منهم الشيخ أبو نصر بن الصباغ في كتابه " الشامل " الحكاية المشهورة عن العتبي، قال: كنت جالساً عند قبر النبي صلى الله عليه وسلم فجاء أعرابي فقال: السلام عليك يا رسول الله، سمعت الله يقول: { وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوۤاْ أَنفُسَهُمْ جَآءُوكَ فَٱسْتَغْفَرُواْ ٱللَّهَ وَٱسْتَغْفَرَ لَهُمُ ٱلرَّسُولُ لَوَجَدُواْ ٱللَّهَ تَوَّاباً رَّحِيماً } وقد جئتك مستغفراً لذنبي، مستشفعاً بك إلى ربي. ثم أنشأ يقول:
    يا خَيْرَ مَنْ دُفِنَتْ بِالقاعِ أَعْظُمُهُ فَطابَ مِنْ طِيْبِهِنَّ القاعُ والأَكَمُ
    نَفْسِي الفِداءُ لِقَبْرٍ أَنْتَ ساكِنُهُ فيهِ العَفافُ وفيهِ الجُودُ والكَرَمُ
    ثم انصرف الأعرابي، فغلبتني عيني، فرأيت النبي صلى الله عليه وسلم في النوم، فقال: يا عتبي الحق الأعرابي، فبشره أن الله قد غفر ل
    يا خَيْرَ مَنْ دُفِنَتْ بِالقاعِ أَعْظُمُهُ فَطابَ مِنْ طِيْبِهِنَّ القاعُ والأَكَمُ
    نَفْسِي الفِداءُ لِقَبْرٍ أَنْتَ ساكِنُهُ فيهِ العَفافُ وفيهِ الجُودُ والكَرَمُ

    اے ان سب سے افضل ترین ہستی کہ جو یہاں مدفون ہیں کہ آپکی خوشبو سے میدان اور ٹیلے مہک رہے ہیں
    میری جان اس قبر پر قربان کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مکین ہیں سو اسی میں پارسائی ہے اور اسی قبر میں جودو سخا ہے ۔

    میرے بھائی یہ ایک روایت ہے اور وہ بھی قرآن کی اس معتبر تفسیر سے کہ جو اس مسئلہ میں اختلاف کرنے والوں کی من پسند تفسیر ہے یعنی ابن کثیر اس کے علاوہ بے شمار روایات اور سلف و صالحین کہ فتاوٰی جات ہیں میری آپ سے عاجزانہ گذارش ہے کہ خدارا خارجیت کی اس باطل ہوا کہ زعم سے باہر نکلیئے اور کچھ قرآن و سنت کا براہ راست یا پھر سلف و صالحین کی روشنی میں مطالعہ کیجیئے تو آپ پر امور واضح ہوں
    ۔۔
    جاری ہے -۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

    Comment


    • #62
      Re: Aik Sawal Aur Uss ki (10) Mukhtalif Shaklain....!!

      ہاہاہاہاہا حنفی کتاب در مختاررررر
      اس کے متعدد جوابات ہیں اول تو مجھے یقین ہے کہ آپ نے آج تک اس کتاب کی شکل تک نہ دیکھی ہوگی بلکہ کسی وہابی مولوی کی کسی اردو کتاب سے اس حوالہ کو پڑھ کر بغیر تحقیق کہ بطور سند یہاں نقل کردیا ۔ میرے بھائی یاد رہے کہ در مختار فقہ کی کتاب ہے عقائد کی نہیں او رپھر فقہ کی کتب کہ جن میں احکامات کہ تفصیل ہوتی ہے ان میں بھی مفتٰی بہ قول اور غیر مفتٰی بہ قول کا فرق روا رکھا جاتا ہے اول جو واقعہ آپ نے نقل کی اس کی مکمل سند کیا ہے وہ کن الفاظ کہ ساتھ نقل ہوا ہے نیز الفاظ صیغہ مجہول ہیں یا معروف کہ ہیں لہذا یہ سب چیزیں دیکھنی پڑیں گی نیز اس کتاب کی حنفی فقہاء نے شروح لکھی ہیں وہاں کیا بیان ہوا ہے وغیرہ ۔ لیکن ان سب سے بڑھ کر جب توسل اور صاحب قبر سے استغاثہ ہم صیحیح حدیث سے ثابت کرسکتے ہیں تو پھر اس مجہول قول کی کیا ضرورت ہے خصوصا ایسے وقت میں کہ جب خود سراج الامہ اور امام الائمہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا اپنا قوم ہو کہ جب صحیح حدیث مل جائے تو میرے قول کو دیوار پر دے مارو لہذا ہماری عرض یہ ہے کہ امام صاحب کی تقلید غیر منصوص مسائل میں امام صاحب کہ اجتہاد کو دیگر فقہاء کہ مقابلے میں مقدم جانتے ہوئے محض فقہی مسائل میں کی جاتی ہے نہ کہ عقائد میں ہم امام صاحب کہ مقلد ہیں دوسرے ہمارے نزدیک مسئلہ استغاثہ کی شرعی حیثیت محض مباح اور ایک امر جائز کی سی ہے سو اس کی حلت کے لیے محض ممانعت کا نہ ہونا اور ظنی الثبوت روایات کا اسکے حق میں ہونا ہی کافی ہے سو ہم نے اوپر تفسیر ابن کثیر سے ایک حوالہ نقل کردیا اور اب ایک اور صحیح حدیث سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا بعد از وفات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپکی قبر انور پر آکر استغاثہ بطور توسل کرنا ثابت کریں گے ۔ ۔

      حضرت مالک دار رضی الّلھ عنہ سے روایت ھے. حضرت عمر (بن خطاب) رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ قحط میں مبتلا ہوگئے- پھر ایک صحابی نبی کریم صلی علیہ وسلم کی قبر اطہر پر آئے اور عرض کیا: یارسول الّلھ! آپ (الّلہ پاک سے) اپنی امت کے لئے سیرابی مانگئے کیونکہ وہ ہلاک ھو گئی- پھر خواب میں آپ صلی علیہ وسلم اس کے پاس آئے اور فرمایا کہ عمر رضی الّلھ عنہ پاس جاکر اسے میرا سلام کہو اور اس سے بتاؤ کہ تم سیراب کئے جاؤ گے- اور عمر رضی الّلھ عنہ سے کہو کہ عقلمندی اختیارکرو- پھر وہ صحابی حضرت عمر رضی الّلھ عنہ کے پاس آئے اور ان کو خبر دی تو حضرت عمر رضی الّلھ عنہ رو پڑے-فرمایا: اے الّلھ! میں کوتاہی نہیں کرتا مگر یہ کہ میں آجز ھوجاؤں۔


      بلاشبہ نیک اعمال بھی اللہ پاک کہ قرب کا زریعہ ہیں مگر آپ کا محض نیک اعمال کو ہی بطور حصر اللہ کے قرب کا زریعہ قرار دینا محض قرآن و سنت پر افترا و زیادتی ہے نعوذ باللہ من ذالک قرآن پاک میں خود اللہ نے شعائر اللہ کی تعظیم کو دلوں کی پرہیز گاری فرمایا ہے اور نیز قرآن و حدیث دونوں میں نیکو کار اور صالحین کی سنگت اختیار کرنے کو کہا گیا ہے نیز ان صالحین یعنی انبیاء صدیقین ،شھداء اور صالحین کی سنگت کو اللہ کی قربت کا ایک بڑا زریعہ قرار دیا گیا ہے لہذا محض انسان کہ اپنے صالح اعمال پر اعتماد اور انھے قرب الٰہی کا وسیلہ محض سمجھنا نری جہالت ہے کہ خود ہم اور ہمارے اعمال بھی اللہ ہی کی مخلوق ہیں تو جب ہمارے اعمال بھی اللہ کی مخلوق ہوکر اللہ کی بارگاہ میں وسیلہ بن سکتے ہیں حالانکہ ہمیں انکی قبولیت اور عدم قبولیت کا کوئی ادراک نہیں تو پھر کیوں نہ بدرجہ اولٰی اللہ کی وہ مبارک ہستیاں یعنی انبیاء کرام جو کہ اللہ کی مخلوق ہیں ان کو بطور وسیلہ اللہ کی بارگاہ میں پیش کیا جائے کہ انکی مقبولیت اللہ کی بارگاہ میں ہمارے صالح اعمال کہ مقابلہ میں بالیقین اور قطعی ہے فاعتبروا یااولی الابصار


      Mazeed ye k aap nay misal dee...k shaheed aur ooliya Allah zinda hain (tu unn say isteghasa jaiz hai)...aur ye baat unn ki barzakhi zindagi say sabit hai..tu meray bhai.....iss terhan tu kafir aur fajir bhi zinda hain..khud Allah faramta hai..."koi din aisa nahi jab 'Fero'on aur aly fero'on ku dozakh ki aag per paish na kia jata ho...aur qiyamat k din hukum ho ga k daal do inn ku sakhat azab main"....iss k ilwa Nabi karim (S.W) nay badar k kafir maqtooleen say khitab bhi faramaya tha...k..."yaqeenan tum ku haqeeqat maloom ho gaee"??

      Aap say modabana sawal hai...k kia aap bata saktay hain k inn kafroon ki barzakhi zindagi main aur aik shaheed ki zindagi main kia farq hai...?? aur quran ki kaun see ayat iss baray main hai....jo ye hukum sadir kertee hai...unn ki naik loogoon ki rooh say ita'anat hasil ki ja saktee hai..???
      Waslam....Jawad

      میرے بھائی ہم نے جو صالحین کی برزخی حیات پر استدلال پیش کیا وہ اس لیے نہیں پیش کیا کہ وہ چونکہ برزخ میں زندہ ہیں اس لیے ان سے استغاثہ و توسل جائز ہے بلکہ یہ تو ان لوگوں کا قرآن و سنت سے رد کے لیے پیش کیا گیا جو کہ مر جانے والے کو مردہ سمجھ بیٹھتے ہیں اور یوں اسکی برزخی زندگی کا بھی انکار کرتے ہیں حالانکہ علماء نے لکھا ہے کہ برزخی زندگی میں روح کا بدن کہ ساتھ تعلق زندوں کہ مقابلے میں زیادہ مضبوط ہوجاتا ہے کہ روح بدنی آلائشوں اور تقییدات سے آزاد ہوجاتی ہے نیز ہم نے استغاثہ پر استدلال برزخی حیات سے نہیں کیا بلکہ وہ تو براہ راست قرآن و سنت سے ہے جبکہ مردوں کی برزخی حیات کا ذکر تو ان جاہلوں کہ رد میں ہے جو کہ یہ واویلا کرتے ہیں کہ ایک انسان جب مر گیا تو اس کے سارے قوٰی معطل ہوگئے سو تم اس کی قبر پر جاکر دعا کی درخواست کیوں کرتے ہو وغیرہ ؟؟؟
      تو ہم عرض کرتے ہیں کہ اول تو قرآن و سنت کی رو سے یہی بات غلط ہے کہ جو مرگیا تو اسکی تمام قوٰی معطل ہوگئیں کیونکہ موت کا تعلق انتقال روح سے ہے اور روح کبھی نہیں مرتی بلکہ ایک مقام سے دوسرے میں منتقل ہوجاتی ہے اور روح کو جسم سے ایک گونہ تعلق پھر بھی رہتا ہے بلکہ بعض علماء کہ نزدیک تو روح کا وہ تعلق زندوں کہ مقابلے میں زیادہ مضبوط ہوجاتا ہے سو یہی وجہ ہے کہ مردہ پر ثواب و عذاب کا مزہ روح چکھتی ہے سو مومنین کی روحیں جنت میں انکی حیثیت کہ مطابق یعنی اعلٰی علیین میں جب کہ کفار کی انکے عقائد و اعمال کہ مطابق سجین اور مختلف مقامات میں ہوتی ہیں لہذا یاد رہے کہ ہمارا مردوں کو حیات برزخی کا حامل لکھنا اس لیے نہیں تھا کہ چونکہ وہ زندہ ہی ہیں سو ان سے استغاثہ کرو بلکہ استغاثہ و استعانت پر تو ہمارے دلائل براہ راست قرآن و سنت سے ہیں جبکہ مردوں کی حیات برزخی کا ذکر محض ان لوگوں کی جہالت کا جواب ہے جو کہ اللہ کی قدرت کو محدود کرنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چونکہ فلاں مرگیا سو وہ سن ہی نہیں سکتا تم اسے دعا کے لیے کیوں کہتے ہو تو ہم عرض کرتے ہیں کہ جب تک اس کہ جسم میں روح تھی تب بھی وہ اللہ ہی کی عطا سے سنتا اور بولتا تھا اور اب جب روح اس کہ بدن سے نکل گئی اب بھی وہ اللہ ہی کہ حکم سے سنتا اور بولتا ہے یہ الگ بات ہے کہ ہمیں شعور نہیں ۔ والسلام دعا ہے کہ اللہ حق کو سمجھنے کی توفیق ہر مسلم کو دے آمین
      ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

      Comment


      • #63
        Re: Aik Sawal Aur Uss ki (10) Mukhtalif Shaklain....!!

        اسلام علیکم مسئلہ کی مزید وضاحت علامہ غلام رسول سعیدی مد ظلہ العالی کہ قلم سے ۔

        عطائے الٰہی سے انبیاء و اولیاء کے اختیارات

        از قلم
        علامہ غلام رسول سعیدی مدظلہ العالی

        اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اور (اے مخاطب!) اگر اللہ تمہیں کوئی ضرر پہنچائے تو اس کے سوا اس ضرر کو دور کرنے والا نہیں، اور اگر وہ تمہیں کوئی نفع پہنچائے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے، اور وہی اپنے تمام بندوں پر غالب ہے اور وہ بہت حکمت والا بہت خبر رکھنے والا ہے۔ (الانعام: 18-17)


        اس آیت میں یہ فرمایا کہ اللہ کے سوا کوئی مصیبت اور ضرر کو دور نہیں کرسکتا، حالانکہ انسان کبھی خود اپنی کوشش سے مصیبت کو دور کرلیتا ہے، کبھی اس کے دوست اور رشتہ دار اس مصیبت کو دور کردیتے ہیں، انسان بیمار پڑ جاتا ہے تو ڈاکٹر دوا کے ذریعہ اس کی بیماری اور تکلیف کو دور کردیتا ہے، قیامت کے دن انبیاء علیہم السلام عموماً اور ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم خصوصاً گناہ گاروں کی شفاعت فرما کر ان سے عذاب کی مصیبت کو دور کریں گے، بلکہ آپ نے دو گناہ گاروں کی قبر شاخ کے دو ٹکڑے نصب کرکے ان سے برزخ کا عذاب دور کردیا۔ (صحیح بخاری:216) حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دکھتی ہوئی آنکھ میں، حضرت سلمہ بن اکوع کی ٹوٹی ہوئی پنڈلی میں اور حضرت زید بن معاذ کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ میں لعاب دہن لگایا اور ان سے دنیا کی تکلیف کو دور کردیا اور وہ شفایاب ہوگئے۔ (شفاء، ج 1، ص213) امام بخاری نے بھی حضرت علی کی آنکھوں کی شفا کی حدیث روایت کی ہے۔ (صحیح البخاری، ج4، رقم الحدیث: 3701) نیز امام بخاری نے حضرت سلمہ بن اکوع کی ٹوٹی ہوئی پنڈلی کی حدیث بھی روایت کی ہے۔ (ج5، رقم الحدیث: 4206) اور امام بخاری نے روایت کیا ہے کہ ابو رافع یہودی کو قتل کرنے کے لئے حضرت عبداللہ بن عتیک گئے اور اس مہم میں ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ہاتھ پھیرا تو وہ اس طرح درست ہوگئی کہ کبھی ٹوٹی ہی نہ تھی۔ (صحیح البخاری، ج 5، رقم الحدیث: 4039)

        ایسے بہ کثرت واقعات ہیں، اسی طرح اولیاء اللہ کی کرامتوں سے بھی لوگوں کی بیماریاں اوران کے مصائب دور ہوجاتے ہیں اور یہ تمام امور اس آیت کے مخالف ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذاتی قدرت سے اپنے بندوں کے مصائب اور تکلیفوں کو دور کرتا ہے، اس کے برخلاف لوگ جو ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور ان کی مشکلات میں کام آتے ہیں اور ان کے مصائب کو دور کرتے ہیں، وہ اللہ کی توفیق اور اس کی دی ہوئی طاقت سے کرتے ہیں اور دواؤں میں شفا کی تاثیر اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے۔ وہ محض سبب ہیں شفا دینے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ چاہے تو بغیر دوا کے شفا دے دے اور اگر وہ نہ چاہے تو کسی دوا سے شفا نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام، اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی طاقت اور اس کے اذن سے تصرف کرتے ہیں۔ بیماروں کو شفا دیتے ہیں اور گناہ گاروں کی شفاعت کرتے ہیں اور تنگ دستوں کو غنی کرتے ہیں اور ان افعال کی ان کی طرف نسبت کرناجائز ہے۔ قرآن مجید میں ہے:

        ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

        Comment


        • #64
          Re: Aik Sawal Aur Uss ki (10) Mukhtalif Shaklain....!!

          Aslam-o-alikum Abid bhai...umeed kerta hoon bakhiriyat hon gay..!!

          Aap opper diye gaye comments parhay..kafi detail main aur mudalil andaz main diye gaye hain..Yahan sirf intan kahoon ga..k aaj kal masroofiyat k wajah say foree taur per apnay comments nahi day paoonga..!!

          Aur doosray main sirf roman urdu hai..main comments day sakoon ga..k normal urdu main abhi itna frequently nahi likh pata...(Mauzarat k saath)..

          Aap ka khair andesh...Jawad..!!


          Allah-o-Akbar Kabeera, Wal Hamdulillaah-e-Kaseera, Subhan Allah-e-Bukratan-wa-Aseela

          Comment


          • #65
            Re: Aik Sawal Aur Uss ki (10) Mukhtalif Shaklain....!!

            Aslam-o-alikum Abid bhai...umeed kerta hoon bakhiriyat hon gay..!!

            Please read below artical in response of your above comments...!!






            Allah-o-Akbar Kabeera, Wal Hamdulillaah-e-Kaseera, Subhan Allah-e-Bukratan-wa-Aseela

            Comment


            • #66
              Re: Aik Sawal Aur Uss ki (10) Mukhtalif Shaklain....!!

              Originally posted by Muhammad Ali Jawad View Post
              Aslam-o-alikum Abid bhai...umeed kerta hoon bakhiriyat hon gay..!!

              Please read below artical in response of your above comments...!!



              وعلیکم السلام جواد بھائی !
              جواد بھائی اس قسم کہ گھسے پٹے مضامین میں اپنے اوائیل لڑکپن میں پڑھ آیا اور انکا رد بھی کر چکا یہیں پیغام پر بھی آپکو میرا اس قسم کہ مضامین کا رد بطور زاتی تحقیق کہ مل جائے گا ویسے جواد بھائی یہ کیا اندھی تقلید آپ نے وہابیہ کی اختیار کررکھی ہے کہ انکے گھسے ہوئے اور میدان استدلال میں بارہا پٹے ہوئے مہروں کو آپ فقط کاپی پیسٹ کی زحمت سے ہمارے مقالہ کہ جواب میں رقم فرمارہے ہیں یہ کوئی اصول گفتگو اور طریق استدلال نہیں اصول یہ تھا کہ آپ پہلے ہمارے مضمون کا تفصیلی رد کرتے پھر اپنے عقیدہ پیش کرکے اس قسم کہ کسی مضمون کو بطور ضمنی دلائل کہ نقل کرتے ساتھ اپنے ذاتی فہم و اخذ و استنباط کے مگر افسوس آپ نے ایسا نہیں کیا میں تو اس مضمون کا تفصیلی رد بھی کرسکتا ہوں اپنے ذاتی خود کہ مطالعہ کی قوت استدلال سے کرسکتا ہوں مگر اس کیا حاصل ہوگا میں ایک کا رد لکھوں گا آپ پھر سے کاپی پیسٹ کرتے ہوئے اپنے تئییں کسی نئے مگر گھسے پٹے وہابی استدلال کو میرے سامنے لاکھڑا کریں گے اگر ایسا ہی کرنا ہے تو آپ یہان پر تمام وہابی کتب کاپی پیست کردیجیئے اور میں انکے جواب میں سنی علماء کی کاوشات کو نقل کرتا چلا جاتا ہوں مگر اس سے کیا حاصل ہوگا ؟؟؟ میرے بھائی میں نے آپ کے سامنے اپنی ذاتی تحقیق رکھی تھی ساتھ اس چیلنج کہ اس کو پڑھ کر یا تو آپ لوگ اس کا علمی رد کریں یا پھر اگر کوئی بھئ شئے سمجھ میں نہ آئے تو بلاجھجھک مجھ سے سوالات کریں مگر آپ میں سے کسی نے بھی ہماری تحقیق کا رد نہیں کیا مگر چند سوالات آئے جنکا ہم نے مدلل جواب دیا تو جوابا آپ نے بجائے ان سوالوں کہ جوابوں سے مطمئن ہونے یا نہ مطمئن ہونے کا عندیہ دیئے بغیر یہ مضمون کاپی پیسٹ کر ڈالا این چہ بوالعجبی است؟؟؟ میرے بھائی اب آپ کیا چاہتے ہیں ؟؟' کیا میں اسکا تفصیلی رد کروں یا پھر آپ اپنے اس پیش کیئے گئے مضمون کی ایک ایک سطر کہ زمہ دار ہیں ؟؟ اگر ہیں تو پھر مجھے اجازت دیجیئے کہ میں اس پر آپ سے چند سوالات کروں تاکہ معلوم ہوسکے کہ آپ نے اس مضمون سے کس قدر اخذ و استنباط کیا ہے اور کیا استدلال کیا ہے اور آپ اپنے استدلال میں کس قدر مضبوط ہیں وغیرہ وغیرہ ؟؟؟ آپ کے جواب کا انتظار رہے گا والسلام
              ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

              Comment


              • #67
                Re: Aik Sawal Aur Uss ki (10) Mukhtalif Shaklain....!!

                اسلام علیکم جواد بھائی !
                آپ نے بات چونکہ اب براہ راست توسل پر چھیڑ دی ہے تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ جو مضمون آپ نے نقل فرمایا ہے میں اسی پیغام پر اس کا رد کر چکا ہوں لیکن مصیبت یہ ہے کہ اسکا ربط نہیں مل رہا خیر درج زیل میں پیغام پر میری ذاتی تحقیق اور شئر کردہ تحقیق کے لنکس موجود ہیں جنکو میں بالترتیب ایک بار پھر آُ کے ساتھ شئر کررہا ہوں آپ انکو پڑھ لیجیئے امید ہے انھی میں آپ کو آپکے تمام سوالوں کا جواب بھی مل جائے گا اور جو مضمون آپ نے شئر کیا ہے اسکا جواب بھی مل جائے گا ۔ ۔ ۔۔

                وسیلہ پر میرا پہلا مضمون درج زیل ہے ۔۔


                وسیلہ کے دلائل

                پھر اسکے مزید دلائل میرا شئر کردہ لنک اور ساتھ شاکر صاحب کہ اعتراضات

                شرعی وسیلہ

                یاد رہے کہ شاکر صاحب نے بھی ہمارے اول مضمون کہ جواب میں آپ کا شئر کردہ مضمون ہی شئر کیا تھا جس کا جواب ہم نے دیا تو انھون نے مزید اعتراضات کیئے جو کہ اوپر والے لنک میں موجود ہیں پھر انکے جوابات کا جواب ہم نے درج زیل لنک میں دیا تب سے ابتک شاکر صاحب مفقود الخبر ہیں ۔۔


                شاکر کو جواب وسیلہ اور رد شبہات

                پھر اسکے بعد ہمارے شئر کردہ مزید دلائل وسیلہ اور اس پر اعتراضات
                ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                Comment

                Working...
                X