Re: Aik Sawal Aur Uss ki (10) Mukhtalif Shaklain....!!
آپ نے فرمایا کہ آپ نے ہماری تحقیق پڑھی لیکن کاش کہ آپ نے پڑھی ہوتی ساتھ تدبر اور غیر جانبداری سے ؟؟؟؟
پوری تحقیق میں حقیقت توحید و شرک پر جو متفقہ نقاط پیش کیئے گئے ان پر آپ نے موافقت یا مخالفت میں کچھ نہیں کہا مگر یہ کہ چند آیات کہ خود ساختہ ذاتی فہم کی بنیاد پر آپ نے چند اشکالات پیش فرمائے خیر انکا جواب بھی ہم عرض کیئے دیتے ہیں شاید کہ ترے دل میں اتر جائے میری بات ۔
گذارش یہ ہے کہ شرک کی جو تعریف بیان کی گئی اور توحید کا جو بیان کیا گیا اگر آپ نے اس کو غور سے پڑھا ہے اور اس پر بظاہر آپ کا کوئی اعتراض بھی نہیں تو پھر آپ کو سمجھ آجانی چاہیے تھی کہ مشرکین کا شرک کیا تھا ۔ ہم نے صاف صاف عرض کی مشرکین ذات و صفات میں شرک کیا کرتے تھے ذات میں خدا کا بیٹا یا بیٹیاں قرار دے کر یا پھر مجوس کی طرح دو مستقل خدا مان کر اور صفات میں غیراللہ کی عبادت کرکے یعنی اپنے بتوں کو الٰہ مان کر ۔ آپ فرماتے ہیں کہ استغاثہ کی ان تمام شکلوں کو مان لیا جائے تو کوئی بھی مشرک نہ رہا ؟؟؟ میرے بھائی مطلقا کسی کو مدد کے لیے پکارنا شرک نہیں اور نہ ہی قرآن و سنت اسے شرک قرار دیا ہے شرک ہے کسی کو مستقل حاجت روا سمجھ کر اسکی عبادت کرنا اور پھر اسکو مشکل کشائی کے لیے پکارنا لہذا یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جگہ جگہ مشرکین کہ بتوں سے نفع و نقصان نہ دینے کی صلاحیت کا انکار کیا ہے اور بطور عقلی استدلال انکو جنجھوڑا ہے کہ جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ تو خود پر بیٹھی مکھی نہیں مارسکتے تمہیں کیا نفع یا نقصان دیں گے پھر انکی عبادت کیوں کرتے ہو یہ قرآن کا عقلی استدلال ہے اس یہ ہرگز نہیں ثابت ہوتا کہ جو مکھی مارسکتا ہے یا بالذات ظاہرا نقصان پہنچا سکتا ہے جیسے آگ یا سانپ یا بچھو وغیرہ یا کوئی انسان وہ الٰہ بھی ہوتا ہے نہیں نہیں ہرگز نہیں بلکہ اس سے تو فقط انکا عقلی رد مقصود ہے کہ جن بے جان بتوں کو تم پوجتے ہو وہ تو اپنی ذات میں خود اپنے لیے بھی نفع و نقصان کہ حامل نہیں چہ جائکہ انکو معبود بنالیا جائے معبود تو وہ ہوتا ہے جو کہ تمام نفع و نقصان کا بالذات بغیر کسی تردد کہ مالک ہوتا ہے اور وہ صرف اللہ ہے
باقی رہ گئی اس کی مخلوق تو وہ اسکے حکم و عطا سے ایکدوسرے کہ کام بھی آتی ہے ایک دوسرے کی مشکل کشائی بھی کرتی ہے اور ایکدوسرے کو نقصان بھی پہنچاتی ہے جیسے حشرات الارض درندے اور خود انسان وغیرہ قرآن نے خود حضرت عیسٰی علیہ السلام کہ بارے میں ماورا قوتوں کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ وہ مادر زاد اندھوں کو شفا دیتے ہیں کوڑہوں اور برص کہ مریضوں پر دست شفاء پھیرتے ہیں لیکن باذن الٰہی یعنی اللہ کی عطا کردہ قوت سے لہذا ثابت ہوا کہ اللہ کی عطا سے مخلوق کا مخلوق سے نفع و ضرر کی امید رکھنا جائز اور قرآن کی رو سے ایک مشروع عمل ہے۔
یاد رکھیئے غیر اللہ سے استغاثہ ایک جائز عمل ہے کوئی فرض یا واجب نہیں لہذا یہی وجہ ہے کہ آپ صحابہ کرام کی ساری سیرت اٹھا کردیکھ لیں وہ بات بات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں استغاثہ کرتے تھے یارسول اللہ ہم ہلاک ہوگئے بارش نہیں ہوتی مدد کیجیئے آپ فرماتے کہ تم ہلاک نہ ہوگئے میں ہوں ناں اور آپ دعا فرماتے کسی آنکھ نکل جاتی کسی کی پنڈلی ٹوٹ جاتی غرض کوئی پناہ طلب کرتا تو آپ کی بارگاہ میں مستغیث ہوتا کیونکہ استغاثہ کرنا فی نفسہ عبادت نہیں ہے ۔ یاد رہے کہ مشرکین کا شرک یہی تھا کہ وہ اپنے بتوں کو ایک تو معبود سمجھتے تھے اور دوسرے بعض معاملات میں بالذات نفع و نقصان کا حامل بھی سمجھتے تھے اسی لیے تو انھوں نے حرم کعبہ میں مختلف ناموں سے مختلف صفات کہ اپنے اپنے معبودون کہ بت سجا رکھے تھے اور یہی وجہ تھی جب ان سے ایک الٰہ کی عبادت کا کہا جاتا تو ان پر گراں گزرتا جیسا کہ قرآن اس پر شاہد ہے اور وہ اس پر تعجب کرتے کہ بھلا ایک الٰہ کیسے ہوسکتا ہے اور یہی کیسے ہوسکتا کہ وہ ایک خدا ہم سب کی بیک وقت سن سکے جیسا کہ حضرت قتادۃ کی روایت سے معتبر امہات التفاسیر میں یہی آیا ہے کہ وہ مشرکین ایک الٰہ کا ہر چیز میں متصرف بالذات ہونے پر تعجب کرتے تھے ۔لہذا آپکا یہ کہنا بجا نہیں کہ تمام مشرکین اللہ کو ہی حقیقی مشکل کشاء سمجھتے تھے اول تو ہم شرک کی متفق علیہ تعریف میں نقل کر آئے کہ اس دنیا میں بلاشبہ اسیے مشرکین بھی ہوئے کہ جنھوں نے عالم کی خلق سے لیکر تدبیر و تصرف میں دو مستقل خداؤں کا وجود مانا یعنی نیکی کے لیے ایک اور مستقل اور برائی کے لیے الگ اور مستقل دوسرے مشرکین مکہ خدا کو خالق و مالک تو مانتے تھے مگر اس کے ساتھ اپنے معبودوں کو بہت سے کاموں میں اللہ کا شریک اور اللہ کو نعوذباللہ من ذالک ان کا محتاج مانتے تھے یہی وجہ کہ مشرکین سے حج کہ دوران جو تلبیہ معتبر احادیث کی روایات میں آیا ہے اس میں یہ لفظ آئے ہیں اے اللہ ہم حاضر ہیں اور تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ کہ جسے تونے خود شریک ٹھرایا ۔۔۔۔ اس تلبیہ میں اللہ کی طرف خود شریک ٹھرانے کی جو باطل تاویل انھوں نے اختیار کی وہ اسی باب میں تھی کہ مشرکین کہ نزدیک اللہ اکیلا اتنے بڑے جہان کا انتظام و انصرام چلانے کہ قابل نہ تھا سو یہی وجہ تھی کہ انکے نزدیک ان کے معبود اللہ کہ شریک تھے ان معنٰی میں ایک تو اللہ نے خود انھے اپنے ساتھ شریک ٹھرا رکھا تھا کیونکہ وہ اکیلا کاروبار دنیا چلا نہیں سکتا تھا لا حول ولا قوۃ الا باللہ ۔
یاد رکھیے مشرکین کا شرک ان دونوں طرح سے ثابت تھا ایک مستقل خدا کو تسلیم کرنا اللہ کے علاوہ اور دوسرے اپنے معبودوں کو اللہ کا مددگار اور بعض امور میں متصرف بالذات مان کر انکی عبادت کرنا اگر وہ اپنے معبودوں کو اللہ متصرف بالزات نہ بھی مانتے مگر محض انکی عبادت ہی کرتے تو تب بھی مشرک تھے تو وجوہات کی بنا پر ایک تو غیر اللہ کی عبادت کرنے کی وجہ سے اور دوسرا عبادت کا حق غیراللہ میں تسلیم کرکہ ان کا غیراللہ کو واجب الوجود ماننا لازم آجاتا ہے کہ عبادت کی ہی اس ذات کی جاتی ہے جو کہ واجب الوجود ہو ۔
یہ آپ نے نہ جانے کس چیز کا جواب دیا ہے مگر آپکی یہ کوشش قیاس پر مبنی ہے اور قیاس بھی مع الفارق کہ جب دو چیزوں کی حقیقت میں ہی فرق ہو تو ان دو کو آپس میں قیاس کرنا عجب مضحکہ خیز ہے ۔ حلال و حرام احکام میں یہ بات درست ہے کہ حلال زرائع کو اختیار کرنا موجب ثواب جبکہ حرام کو اختیار کرنا موجب گناہ ہے جبکہ عقائد کہ معاملہ کو اس پر قیاس کرنا ہرگز درست نہیں اول عقیدہ میں دو راستے بالکل بھی نہیں ہوتے بلکہ عقیدہ بالکل یکتائی پر مبنی ہوتا ہے اور عقیدہ یہ ہے کہ اللہ ہی حقیقی حاجت روا ہے اس کے علاوہ کوئی حقیقی طور پر حاجت روا نہیں مگر اسکے حکم سے مخلوق ایکدوسرے کی مجازی طور پر حاجت روا ہے اور یہ اس کا قائم کردہ نطام ہے اور اسکی سنت ہے کہ اس کہ نظام پر چلا جائے لہزا خود قرآن پھر سنت اور پھر سنت صحابہ سے اس پر بے شمار اور اس قدر تواتر سے شہادتیں موجود ہیں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں استغاثہ کرتے اور اللہ کہ حکم سے آپکو مشکل کشاء مانتے ۔
اس پر میں آپکو ایک دو نہیں دس بیس نہیں سینکڑوں ہزاروں روایات دکھا سکتا ہوں مگر یہ کہ کوئی ماننے والا اور غیر جانبداری سے تدبر سے کام لینے والا ہو تووووووو
ُآپ کا یہ کہنا بہت بڑا اور بے بنیاد اور محتاج دلیل دعوٰی ہے کہ جسکی کوئی ایک دلیل بھی آپ قرآن و سنت سے نہیں پیش فرماسکتے بلکہ یہ آپ کی قرآن و سنت کہ مطالعہ سے بے بہرہ ہونے کی واضح دلیل اور آپکے قلت مطالعہ پر کھلی شہادت ہے وگرنہ آپ ایسا ہرگز نہ کہتے کیونکہ سلف و صالحین سے اس مسئلہ میں اس قدر روایات اور فتاوٰی جات منقول ہیں کہ حساب سے باہر ہیں اگر فقط قرآن کی سورء نساء کی آٰیت نمبر چونسٹھ کو ہی لے لیا جائے تو امہات التفاسیر جیسے ابن کثیر وغیرہ میں اسی آیت کہ تحت اسکے حکم کو قیامت تک کے کہ مسلمین کے لیے ثابت رکھا اور مانا گیا ہے لہزا اسی کہ تحت عتبی کی مشھورحکایت کو نقل کیا گیا ہے اور اس سے استشہاد بطور استدلال پیش کیا گیا ہے ۔
امام ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ۔
{ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوۤاْ أَنفُسَهُمْ } الآية، يرشد تعالى العصاة والمذنبين إذا وقع منهم الخطأ والعصيان أن يأتوا إلى الرسول صلى الله عليه وسلم، فيستغفروا الله عنده، ويسألوه أن يستغفر لهم، فإنهم إذا فعلوا ذلك، تاب الله عليهم، ورحمهم، وغفر لهم، ولهذا قال: { لَوَجَدُواْ ٱللَّهَ تَوَّاباً رَّحِيماً } وقد ذكر جماعة منهم الشيخ أبو نصر بن الصباغ في كتابه " الشامل " الحكاية المشهورة عن العتبي، قال: كنت جالساً عند قبر النبي صلى الله عليه وسلم فجاء أعرابي فقال: السلام عليك يا رسول الله، سمعت الله يقول: { وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوۤاْ أَنفُسَهُمْ جَآءُوكَ فَٱسْتَغْفَرُواْ ٱللَّهَ وَٱسْتَغْفَرَ لَهُمُ ٱلرَّسُولُ لَوَجَدُواْ ٱللَّهَ تَوَّاباً رَّحِيماً } وقد جئتك مستغفراً لذنبي، مستشفعاً بك إلى ربي. ثم أنشأ يقول:
يا خَيْرَ مَنْ دُفِنَتْ بِالقاعِ أَعْظُمُهُ فَطابَ مِنْ طِيْبِهِنَّ القاعُ والأَكَمُ
نَفْسِي الفِداءُ لِقَبْرٍ أَنْتَ ساكِنُهُ فيهِ العَفافُ وفيهِ الجُودُ والكَرَمُ
ثم انصرف الأعرابي، فغلبتني عيني، فرأيت النبي صلى الله عليه وسلم في النوم، فقال: يا عتبي الحق الأعرابي، فبشره أن الله قد غفر ليا خَيْرَ مَنْ دُفِنَتْ بِالقاعِ أَعْظُمُهُ فَطابَ مِنْ طِيْبِهِنَّ القاعُ والأَكَمُ
نَفْسِي الفِداءُ لِقَبْرٍ أَنْتَ ساكِنُهُ فيهِ العَفافُ وفيهِ الجُودُ والكَرَمُ
اے ان سب سے افضل ترین ہستی کہ جو یہاں مدفون ہیں کہ آپکی خوشبو سے میدان اور ٹیلے مہک رہے ہیں
میری جان اس قبر پر قربان کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مکین ہیں سو اسی میں پارسائی ہے اور اسی قبر میں جودو سخا ہے ۔
میرے بھائی یہ ایک روایت ہے اور وہ بھی قرآن کی اس معتبر تفسیر سے کہ جو اس مسئلہ میں اختلاف کرنے والوں کی من پسند تفسیر ہے یعنی ابن کثیر اس کے علاوہ بے شمار روایات اور سلف و صالحین کہ فتاوٰی جات ہیں میری آپ سے عاجزانہ گذارش ہے کہ خدارا خارجیت کی اس باطل ہوا کہ زعم سے باہر نکلیئے اور کچھ قرآن و سنت کا براہ راست یا پھر سلف و صالحین کی روشنی میں مطالعہ کیجیئے تو آپ پر امور واضح ہوں۔۔
اسلام علیکم جواد بھائی !
آپ نے بہت خوبصورت سوالات اٹھائے اس پر میں آپ کا شکر گزار ہوں اس سے مسئلہ کی مزید وضاحت میں مدد ملے گی۔ لیکن اس سے پہلے ایک گذارش کروں گا کہ اگر ہوسکے تو مزید گفتگو رومن کی بجائے یونی کوڈ اردو میں کیجیئے گا کیونکہ اب اس رومن کو نہ تو پڑھنے کو جی چاہتا ہے اور نہ پڑھا جاتا ہے بلکہ سر دکھنے کو آجاتا ہے لہذا ایک یہ بھی بڑی وجہ ہے میرے پیغام پر کم کم آنے کی اب وہ زمانے نہیں رہے کہ جب اردو کی ترویج رومن سے کی جائے بلکہ اسے یونی کوڈ میں ہی منتقل ہونا چاہیے تھا خیر یہ ایک الگ ٹاپک ہے ۔ تو آپ نے فرمایا کہ ۔ ۔
آپ نے بہت خوبصورت سوالات اٹھائے اس پر میں آپ کا شکر گزار ہوں اس سے مسئلہ کی مزید وضاحت میں مدد ملے گی۔ لیکن اس سے پہلے ایک گذارش کروں گا کہ اگر ہوسکے تو مزید گفتگو رومن کی بجائے یونی کوڈ اردو میں کیجیئے گا کیونکہ اب اس رومن کو نہ تو پڑھنے کو جی چاہتا ہے اور نہ پڑھا جاتا ہے بلکہ سر دکھنے کو آجاتا ہے لہذا ایک یہ بھی بڑی وجہ ہے میرے پیغام پر کم کم آنے کی اب وہ زمانے نہیں رہے کہ جب اردو کی ترویج رومن سے کی جائے بلکہ اسے یونی کوڈ میں ہی منتقل ہونا چاہیے تھا خیر یہ ایک الگ ٹاپک ہے ۔ تو آپ نے فرمایا کہ ۔ ۔
Abid aap ki ki tahqeeq parhee...yaqeenan bohut mehnat ki gaee hai iss tahqeeq per..
Lykin mrea aap sab mudabana guzarish hai..k ager isteghasa ki intamam sahakoon ku maan liya jye..tu iss say tu ye saabit ho ga...ki shirk ka wajood kabhi iss dunya main raha hi nahi aur naooubillah Alah nay khuma khua loogoon ku musahrik qarar day diya...
Jab k ye baat sabit hai..k Nabi Karim (S.W) k daour k kafir bhi Allah ku haqeqee mushkil kusha aur hajat rawa mantay tha
Lykin mrea aap sab mudabana guzarish hai..k ager isteghasa ki intamam sahakoon ku maan liya jye..tu iss say tu ye saabit ho ga...ki shirk ka wajood kabhi iss dunya main raha hi nahi aur naooubillah Alah nay khuma khua loogoon ku musahrik qarar day diya...
Jab k ye baat sabit hai..k Nabi Karim (S.W) k daour k kafir bhi Allah ku haqeqee mushkil kusha aur hajat rawa mantay tha
آپ نے فرمایا کہ آپ نے ہماری تحقیق پڑھی لیکن کاش کہ آپ نے پڑھی ہوتی ساتھ تدبر اور غیر جانبداری سے ؟؟؟؟
پوری تحقیق میں حقیقت توحید و شرک پر جو متفقہ نقاط پیش کیئے گئے ان پر آپ نے موافقت یا مخالفت میں کچھ نہیں کہا مگر یہ کہ چند آیات کہ خود ساختہ ذاتی فہم کی بنیاد پر آپ نے چند اشکالات پیش فرمائے خیر انکا جواب بھی ہم عرض کیئے دیتے ہیں شاید کہ ترے دل میں اتر جائے میری بات ۔
گذارش یہ ہے کہ شرک کی جو تعریف بیان کی گئی اور توحید کا جو بیان کیا گیا اگر آپ نے اس کو غور سے پڑھا ہے اور اس پر بظاہر آپ کا کوئی اعتراض بھی نہیں تو پھر آپ کو سمجھ آجانی چاہیے تھی کہ مشرکین کا شرک کیا تھا ۔ ہم نے صاف صاف عرض کی مشرکین ذات و صفات میں شرک کیا کرتے تھے ذات میں خدا کا بیٹا یا بیٹیاں قرار دے کر یا پھر مجوس کی طرح دو مستقل خدا مان کر اور صفات میں غیراللہ کی عبادت کرکے یعنی اپنے بتوں کو الٰہ مان کر ۔ آپ فرماتے ہیں کہ استغاثہ کی ان تمام شکلوں کو مان لیا جائے تو کوئی بھی مشرک نہ رہا ؟؟؟ میرے بھائی مطلقا کسی کو مدد کے لیے پکارنا شرک نہیں اور نہ ہی قرآن و سنت اسے شرک قرار دیا ہے شرک ہے کسی کو مستقل حاجت روا سمجھ کر اسکی عبادت کرنا اور پھر اسکو مشکل کشائی کے لیے پکارنا لہذا یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جگہ جگہ مشرکین کہ بتوں سے نفع و نقصان نہ دینے کی صلاحیت کا انکار کیا ہے اور بطور عقلی استدلال انکو جنجھوڑا ہے کہ جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ تو خود پر بیٹھی مکھی نہیں مارسکتے تمہیں کیا نفع یا نقصان دیں گے پھر انکی عبادت کیوں کرتے ہو یہ قرآن کا عقلی استدلال ہے اس یہ ہرگز نہیں ثابت ہوتا کہ جو مکھی مارسکتا ہے یا بالذات ظاہرا نقصان پہنچا سکتا ہے جیسے آگ یا سانپ یا بچھو وغیرہ یا کوئی انسان وہ الٰہ بھی ہوتا ہے نہیں نہیں ہرگز نہیں بلکہ اس سے تو فقط انکا عقلی رد مقصود ہے کہ جن بے جان بتوں کو تم پوجتے ہو وہ تو اپنی ذات میں خود اپنے لیے بھی نفع و نقصان کہ حامل نہیں چہ جائکہ انکو معبود بنالیا جائے معبود تو وہ ہوتا ہے جو کہ تمام نفع و نقصان کا بالذات بغیر کسی تردد کہ مالک ہوتا ہے اور وہ صرف اللہ ہے
باقی رہ گئی اس کی مخلوق تو وہ اسکے حکم و عطا سے ایکدوسرے کہ کام بھی آتی ہے ایک دوسرے کی مشکل کشائی بھی کرتی ہے اور ایکدوسرے کو نقصان بھی پہنچاتی ہے جیسے حشرات الارض درندے اور خود انسان وغیرہ قرآن نے خود حضرت عیسٰی علیہ السلام کہ بارے میں ماورا قوتوں کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ وہ مادر زاد اندھوں کو شفا دیتے ہیں کوڑہوں اور برص کہ مریضوں پر دست شفاء پھیرتے ہیں لیکن باذن الٰہی یعنی اللہ کی عطا کردہ قوت سے لہذا ثابت ہوا کہ اللہ کی عطا سے مخلوق کا مخلوق سے نفع و ضرر کی امید رکھنا جائز اور قرآن کی رو سے ایک مشروع عمل ہے۔
یاد رکھیئے غیر اللہ سے استغاثہ ایک جائز عمل ہے کوئی فرض یا واجب نہیں لہذا یہی وجہ ہے کہ آپ صحابہ کرام کی ساری سیرت اٹھا کردیکھ لیں وہ بات بات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں استغاثہ کرتے تھے یارسول اللہ ہم ہلاک ہوگئے بارش نہیں ہوتی مدد کیجیئے آپ فرماتے کہ تم ہلاک نہ ہوگئے میں ہوں ناں اور آپ دعا فرماتے کسی آنکھ نکل جاتی کسی کی پنڈلی ٹوٹ جاتی غرض کوئی پناہ طلب کرتا تو آپ کی بارگاہ میں مستغیث ہوتا کیونکہ استغاثہ کرنا فی نفسہ عبادت نہیں ہے ۔ یاد رہے کہ مشرکین کا شرک یہی تھا کہ وہ اپنے بتوں کو ایک تو معبود سمجھتے تھے اور دوسرے بعض معاملات میں بالذات نفع و نقصان کا حامل بھی سمجھتے تھے اسی لیے تو انھوں نے حرم کعبہ میں مختلف ناموں سے مختلف صفات کہ اپنے اپنے معبودون کہ بت سجا رکھے تھے اور یہی وجہ تھی جب ان سے ایک الٰہ کی عبادت کا کہا جاتا تو ان پر گراں گزرتا جیسا کہ قرآن اس پر شاہد ہے اور وہ اس پر تعجب کرتے کہ بھلا ایک الٰہ کیسے ہوسکتا ہے اور یہی کیسے ہوسکتا کہ وہ ایک خدا ہم سب کی بیک وقت سن سکے جیسا کہ حضرت قتادۃ کی روایت سے معتبر امہات التفاسیر میں یہی آیا ہے کہ وہ مشرکین ایک الٰہ کا ہر چیز میں متصرف بالذات ہونے پر تعجب کرتے تھے ۔لہذا آپکا یہ کہنا بجا نہیں کہ تمام مشرکین اللہ کو ہی حقیقی مشکل کشاء سمجھتے تھے اول تو ہم شرک کی متفق علیہ تعریف میں نقل کر آئے کہ اس دنیا میں بلاشبہ اسیے مشرکین بھی ہوئے کہ جنھوں نے عالم کی خلق سے لیکر تدبیر و تصرف میں دو مستقل خداؤں کا وجود مانا یعنی نیکی کے لیے ایک اور مستقل اور برائی کے لیے الگ اور مستقل دوسرے مشرکین مکہ خدا کو خالق و مالک تو مانتے تھے مگر اس کے ساتھ اپنے معبودوں کو بہت سے کاموں میں اللہ کا شریک اور اللہ کو نعوذباللہ من ذالک ان کا محتاج مانتے تھے یہی وجہ کہ مشرکین سے حج کہ دوران جو تلبیہ معتبر احادیث کی روایات میں آیا ہے اس میں یہ لفظ آئے ہیں اے اللہ ہم حاضر ہیں اور تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ کہ جسے تونے خود شریک ٹھرایا ۔۔۔۔ اس تلبیہ میں اللہ کی طرف خود شریک ٹھرانے کی جو باطل تاویل انھوں نے اختیار کی وہ اسی باب میں تھی کہ مشرکین کہ نزدیک اللہ اکیلا اتنے بڑے جہان کا انتظام و انصرام چلانے کہ قابل نہ تھا سو یہی وجہ تھی کہ انکے نزدیک ان کے معبود اللہ کہ شریک تھے ان معنٰی میں ایک تو اللہ نے خود انھے اپنے ساتھ شریک ٹھرا رکھا تھا کیونکہ وہ اکیلا کاروبار دنیا چلا نہیں سکتا تھا لا حول ولا قوۃ الا باللہ ۔
یاد رکھیے مشرکین کا شرک ان دونوں طرح سے ثابت تھا ایک مستقل خدا کو تسلیم کرنا اللہ کے علاوہ اور دوسرے اپنے معبودوں کو اللہ کا مددگار اور بعض امور میں متصرف بالذات مان کر انکی عبادت کرنا اگر وہ اپنے معبودوں کو اللہ متصرف بالزات نہ بھی مانتے مگر محض انکی عبادت ہی کرتے تو تب بھی مشرک تھے تو وجوہات کی بنا پر ایک تو غیر اللہ کی عبادت کرنے کی وجہ سے اور دوسرا عبادت کا حق غیراللہ میں تسلیم کرکہ ان کا غیراللہ کو واجب الوجود ماننا لازم آجاتا ہے کہ عبادت کی ہی اس ذات کی جاتی ہے جو کہ واجب الوجود ہو
آپکے اس سوال کا جواب خود آپ کے اسی سوال میں ہے اول تو آپ سے ایک غلطی ہوئی شاید سبقت لسانی ہے کہ مشرکین مشکل پڑھنے پر اپنے خداؤں کو نہیں پکارتے تھے بلکہ اپنے خداؤں کو تو ہر وقت پکارتے تھے مگر مشکل پڑھنے پر مشرکین خالصتا اللہ کو پکارتے تھے اور جب وہ اللہ ان سے اس تکلیف کو دور کردیتا ہے تو پھر لگتے ہیں اپنے باطل معبودوں کی پوجا کرنے ۔۔ لہذا یاد رہے کہ یہاں پر انکا شرک یہی تھا کہ وہ اپنے معبودوں کی عبادت کیا کرتے تھے یہاں پکارنا یعنی یدعون بمعنی یعبدون ہے یعنی مستقل بالذات سمجھ کر معبود جانکر پکارنا یاد رہے کہ قرآن نے مشرکین کا یہ وصف بارہا بیان کیا ہے کہ وہ ایک سے زیادہ خداؤں کو پکارتے تھے بطور عبادت ۔۔
پھر آپ نے سورہ یوسف کی جو آیت نقل فرمائی ہے وہ خالصتا مشرکین مکہ کی مذمت میں نازل ہوئی ہے کہ وہ اللہ کو خالق و مالک مان کر بھی غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں لہذا اس آیت میں لفظ ایمان اپنے اصطلاحی نہیں بلکہ لغوی معنٰی میں استعمال ہوا ہے ہم نے دیکھا کہ بعض نا عاقبت اندیش حضرات اس آیت کو مومنین پر فٹ کرتے ہیں اور یوں خارجیوں کا سا وطیرہ اپناتے ہیں جبکہ نظم قرآن یعنی ما قبل آیات نیز اسی آیت کہ اگر سیاق و سباق پر اگر سرسری سی بھی نظر دوڑائی جائے تو معاملہ واضح ہے کہ اللہ پاک ان مشرکین پر حجت فرمارہا کہ جب مجھے خالق و مالک مانکر ایک قسم کا ایمان میری خالقیت و مالکیت پر رکھتے بھی ہو تو پھر کیوں میرے علاوہ دوسروں کی بندگی اختیار کرکے شرک کا ارتکاب کرتے ہو ؟؟؟ لہذا یہ آیت مشرکین کی عقل و فہم کو واضح کررہی ہے کہ کس قدر بودھی عقل ہے مشرکین کی خالق و مالک اللہ کو مانتے ہیں اور یوں اسکی خالقیت و مالکیت پر ایمان بھی لاتے ہیں مگر پھر فورا غیر اللہ کی پستش کرکے شرک کا ارتکاب کربیٹھتے ہیں انا للہ وانا الیہ راجعون
پھر آپ نے سورہ یوسف کی جو آیت نقل فرمائی ہے وہ خالصتا مشرکین مکہ کی مذمت میں نازل ہوئی ہے کہ وہ اللہ کو خالق و مالک مان کر بھی غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں لہذا اس آیت میں لفظ ایمان اپنے اصطلاحی نہیں بلکہ لغوی معنٰی میں استعمال ہوا ہے ہم نے دیکھا کہ بعض نا عاقبت اندیش حضرات اس آیت کو مومنین پر فٹ کرتے ہیں اور یوں خارجیوں کا سا وطیرہ اپناتے ہیں جبکہ نظم قرآن یعنی ما قبل آیات نیز اسی آیت کہ اگر سیاق و سباق پر اگر سرسری سی بھی نظر دوڑائی جائے تو معاملہ واضح ہے کہ اللہ پاک ان مشرکین پر حجت فرمارہا کہ جب مجھے خالق و مالک مانکر ایک قسم کا ایمان میری خالقیت و مالکیت پر رکھتے بھی ہو تو پھر کیوں میرے علاوہ دوسروں کی بندگی اختیار کرکے شرک کا ارتکاب کرتے ہو ؟؟؟ لہذا یہ آیت مشرکین کی عقل و فہم کو واضح کررہی ہے کہ کس قدر بودھی عقل ہے مشرکین کی خالق و مالک اللہ کو مانتے ہیں اور یوں اسکی خالقیت و مالکیت پر ایمان بھی لاتے ہیں مگر پھر فورا غیر اللہ کی پستش کرکے شرک کا ارتکاب کربیٹھتے ہیں انا للہ وانا الیہ راجعون
Ager hum christianaty per ghour karian tu humain wazeh ho jata hai...k Esayoon nay bhi Hazrat Esa (A.S) ku muhabbat aur aqeedat main hi Allah ka beta (son) banaya...(kyon k dunyawee taur per Baap k baaad beta hi baa ikhtiar hota hai)...aaj ka musalman Nabi karim (S.W) ya doosray Olyaa ku Allah ka beta tu nahi kehtay lykin unn ku Mushkil kusha aur hajat rawa aur baa ikhtiar samjhatay hain..(Tu hum main aur chrtians main kia far reh gaya)....aur ye baat musalemma hai...ki unn ki bhi hajat rawai ki jatee hai..TU PHIR HUM YE KISS TERHAN SABIT KARAIN GAY K who GHALT AUR HUM SAHI HAIN..??? Kia Allah sirf Rabbul muslemeen hai...kia Allah Rabbul Alamin nahi...???
بالکل درست کہ عسائیوں نے عقیدت میں آکر ہی حضرت عیسٰی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دیا مگر اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ اللہ کہ پیاروں سے خوش عقیدگی اور عقیدت رکھنا ہی ممنوع و حرام ہے ؟؟؟؟ بلکہ اس سے یہ تو یہ ثابت ہوا کہ اللہ کہ پیاروں سے عقیدت ضرور رکھو میں اس میں غلو اس حد تک مت اختیار کرو کہ ان کا جو حق نہیں انھے وہ حق بھی دے ڈالو یعنی معبود اور مستقل خدا ہونا جب عسائیوں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دے دیا تو انھوں نے حضرت عیسٰی کو مستقل خدا مان لیا کیوں کہ خدا کا بیٹا خدا ہی ہوسکتا ہے نہ کہ غیر خدا اور یوں وہ ذات میں شرک کہ مرتکب ہوئے جبکہ کوئی بھی مسلمان کسی بھی نبی یا ولی کو نہ تو اللہ کا بیٹا مانتا ہے اور نہ ہی مستقل بالذات متصرف بلکہ ہر ادنٰی سے بھی مسلمان کا یہی عقیدہ ہے کہ اللہ کہ پیارے اللہ کی عطا سے مدد کرتے ہیں لہذا وہ ان سے اپنی حاجت روائی بطور مجاز باذن اللہ کہ مانتا ہے جیسا کہ قرآن میں خود حضرت عیسٰی علیہ السلام کو باذن اللہ مافوق الفطرت طریق پر حاجت روا مانا گیا ہے لہزا اللہ کہ پیاروں کو اللہ کہ حکم سے حاجت روا ماننا شرک ہرگز نہیں الا یہ کہ کوئی حاجت روا باذن اللہ مانکر انکی عبادت نہ شروع کردے کیونکہ کسی کو باذن اللہ حاجت روا ماننا تو شرک نہیں ہان مگر کسی کی عبادت کرنا شرک ضرور ہے ۔ لہذا میرے بھائی آپ پریشان نہ ہوں ہم میں اور عیسائیوں میں بڑے فرق ہیں ۔
آپ تو عسائیوں کہ اس رونے کو روتے ہیں کہ ہم میں اور ان میں کیا فرق ہے مگر عیسائی تو ان قرآنی آیات پر بغلیں بجاتے ہیں کہ جن میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کی مافوق افطرت قوتوں کا خود اقرار قرآن نے کیا ہے اور انھے علم الغیب کا جاننے والا اور ماروا طریق پر لوگوں کو شفاء دینے والا فرمایا ہے عیسائی کہتے ہیں کہ تمہارے قرآن نے خود حضرت عیٰسی علیہ السلام کی ان خصوصیات کو مانا اور انکا ذکر کیا جبکہ اس کے مقابلے میں تمہارے قرآن میں تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی مافوق الفطرت قوتوں کا صراحت سے ذکر موجود نہیں سو ہمارے نبی تمہارے نبی سے خود قرآن کی رو سے افضل ٹھرے تو آپ ہی بتلایئے کہ ایسے میں ہم کیا قرآن کی ان آیات کا انکار کردیں کہ جن میں اللہ پاک نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی شان بیان فرمائی لاحول ولا قوۃ الاباللہ ۔۔
آپ تو عسائیوں کہ اس رونے کو روتے ہیں کہ ہم میں اور ان میں کیا فرق ہے مگر عیسائی تو ان قرآنی آیات پر بغلیں بجاتے ہیں کہ جن میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کی مافوق افطرت قوتوں کا خود اقرار قرآن نے کیا ہے اور انھے علم الغیب کا جاننے والا اور ماروا طریق پر لوگوں کو شفاء دینے والا فرمایا ہے عیسائی کہتے ہیں کہ تمہارے قرآن نے خود حضرت عیٰسی علیہ السلام کی ان خصوصیات کو مانا اور انکا ذکر کیا جبکہ اس کے مقابلے میں تمہارے قرآن میں تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی مافوق الفطرت قوتوں کا صراحت سے ذکر موجود نہیں سو ہمارے نبی تمہارے نبی سے خود قرآن کی رو سے افضل ٹھرے تو آپ ہی بتلایئے کہ ایسے میں ہم کیا قرآن کی ان آیات کا انکار کردیں کہ جن میں اللہ پاک نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی شان بیان فرمائی لاحول ولا قوۃ الاباللہ ۔۔
Iss ka jawab ye hai..k Allah Raaziq hai...lykin uss insaan ku rizzaq hasil kernay k 02 rasatay batye hain..aik jaiz aur doosara na jaiz...rizzaq tu uss ku bhi mil jata hai..jo na jaiz zarye sa hasil kerta hai...lykin zahir hai..iss main barkaat nahi rehtee aur Allah k ghazab ka shikaar hota hai..jaiz rizzaq main barkata bhi hai aur Allah ki raza bhi....So Allah say mangnay k bhi 02 hi rasaty hain aik jaiz aur doosra Na jaiz ..aap khud samjhdar hain..Nabi Karim (S.W) aur aap k sahaba ka rasat hai jaiz ..aur say kaffir aur mushrik loogoon ka rasta na jaiz...faisala aap nay kerna hai..
یہ آپ نے نہ جانے کس چیز کا جواب دیا ہے مگر آپکی یہ کوشش قیاس پر مبنی ہے اور قیاس بھی مع الفارق کہ جب دو چیزوں کی حقیقت میں ہی فرق ہو تو ان دو کو آپس میں قیاس کرنا عجب مضحکہ خیز ہے ۔ حلال و حرام احکام میں یہ بات درست ہے کہ حلال زرائع کو اختیار کرنا موجب ثواب جبکہ حرام کو اختیار کرنا موجب گناہ ہے جبکہ عقائد کہ معاملہ کو اس پر قیاس کرنا ہرگز درست نہیں اول عقیدہ میں دو راستے بالکل بھی نہیں ہوتے بلکہ عقیدہ بالکل یکتائی پر مبنی ہوتا ہے اور عقیدہ یہ ہے کہ اللہ ہی حقیقی حاجت روا ہے اس کے علاوہ کوئی حقیقی طور پر حاجت روا نہیں مگر اسکے حکم سے مخلوق ایکدوسرے کی مجازی طور پر حاجت روا ہے اور یہ اس کا قائم کردہ نطام ہے اور اسکی سنت ہے کہ اس کہ نظام پر چلا جائے لہزا خود قرآن پھر سنت اور پھر سنت صحابہ سے اس پر بے شمار اور اس قدر تواتر سے شہادتیں موجود ہیں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں استغاثہ کرتے اور اللہ کہ حکم سے آپکو مشکل کشاء مانتے ۔
اس پر میں آپکو ایک دو نہیں دس بیس نہیں سینکڑوں ہزاروں روایات دکھا سکتا ہوں مگر یہ کہ کوئی ماننے والا اور غیر جانبداری سے تدبر سے کام لینے والا ہو تووووووو
بالکل درست اول تو یہ ہمارے دلائل ہیں نہ کہ آپکے اور ہمارا یہی کہنا ہے کہ اللہ ہی غنی العالمین ہے باقی سب اس کہ بندے اور محتاج لہذا آپ کا یہ کہنا بالکل درست کہ ایکدوسرے کی مدد کرنا اور ایکدوسرے کو ایکدوسرے کی مدد پر باذن اللہ قادر سمجھنا اللہ ہی کہ حکم و عطا سے ہے چاہے امور ظاہری ہوں یا باطنی مافوق الاسباب ہوں یا ماتحت الاسباب سب امور میں اللہ خود ذاتی مستقل اور بالذات متصرف ہے جبکہ اسکے بندے بعض امور میں اسکی عطا سے متصرف ہیں لہذا بندوں کا عطائی طور پر اللہ کہ حکم سے ایکدوسرے کی حاجت روائی کرنا تو جائز ہے مگر کوئی بھی بندہ کسی دوسرے بندے کا نہ ذاتی اور نہ ہی عطائی طور پر معبود ہرگز نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اللہ پاک کوئی ایسا حکم فرماتا ہے کہ جس سے غیراللہ کا معبود ہونا لازم آئے سو یہی وجہ ہے کہ ہم نے استدلال کیا غیراللہ کا ایکدوسرے کی مدد کرنا حاجت روائی کرنا اور ایکدوسرے کو حاجت روا سمجھنا چاہے زندہ ہو یا فوت شدہ اگر اللہ کی عطا سے ہوتو ہرگز شرک نہیں مگر اگر مستقل بالذات اور بے عطائے الٰہی ہوتو یقینا شرک ہے اسی طرح غیر اللہ کی عبادت چاہے اللہ کی عطا سے ہو یا بے عطائے الٰہی یہ ہر دو صورتوں میں شرک ہے جبکہ اولذکر فقط دوسری صورت میں شرک ہے ۔
Qoroon-e-ola main Nabi (S.W) aur Sahab kiram (R.Z) ki wafat k baad aisa koi manzar dekhnay ku nahi milta k loogoon nay unn ki qabar-e-mubarik per ja k istaa'nat hasil ki ho..kyuon k ye unn (R.Z) ki taleemat k manafi tha...
ُآپ کا یہ کہنا بہت بڑا اور بے بنیاد اور محتاج دلیل دعوٰی ہے کہ جسکی کوئی ایک دلیل بھی آپ قرآن و سنت سے نہیں پیش فرماسکتے بلکہ یہ آپ کی قرآن و سنت کہ مطالعہ سے بے بہرہ ہونے کی واضح دلیل اور آپکے قلت مطالعہ پر کھلی شہادت ہے وگرنہ آپ ایسا ہرگز نہ کہتے کیونکہ سلف و صالحین سے اس مسئلہ میں اس قدر روایات اور فتاوٰی جات منقول ہیں کہ حساب سے باہر ہیں اگر فقط قرآن کی سورء نساء کی آٰیت نمبر چونسٹھ کو ہی لے لیا جائے تو امہات التفاسیر جیسے ابن کثیر وغیرہ میں اسی آیت کہ تحت اسکے حکم کو قیامت تک کے کہ مسلمین کے لیے ثابت رکھا اور مانا گیا ہے لہزا اسی کہ تحت عتبی کی مشھورحکایت کو نقل کیا گیا ہے اور اس سے استشہاد بطور استدلال پیش کیا گیا ہے ۔
امام ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ۔
{ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوۤاْ أَنفُسَهُمْ } الآية، يرشد تعالى العصاة والمذنبين إذا وقع منهم الخطأ والعصيان أن يأتوا إلى الرسول صلى الله عليه وسلم، فيستغفروا الله عنده، ويسألوه أن يستغفر لهم، فإنهم إذا فعلوا ذلك، تاب الله عليهم، ورحمهم، وغفر لهم، ولهذا قال: { لَوَجَدُواْ ٱللَّهَ تَوَّاباً رَّحِيماً } وقد ذكر جماعة منهم الشيخ أبو نصر بن الصباغ في كتابه " الشامل " الحكاية المشهورة عن العتبي، قال: كنت جالساً عند قبر النبي صلى الله عليه وسلم فجاء أعرابي فقال: السلام عليك يا رسول الله، سمعت الله يقول: { وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوۤاْ أَنفُسَهُمْ جَآءُوكَ فَٱسْتَغْفَرُواْ ٱللَّهَ وَٱسْتَغْفَرَ لَهُمُ ٱلرَّسُولُ لَوَجَدُواْ ٱللَّهَ تَوَّاباً رَّحِيماً } وقد جئتك مستغفراً لذنبي، مستشفعاً بك إلى ربي. ثم أنشأ يقول:
يا خَيْرَ مَنْ دُفِنَتْ بِالقاعِ أَعْظُمُهُ فَطابَ مِنْ طِيْبِهِنَّ القاعُ والأَكَمُ
نَفْسِي الفِداءُ لِقَبْرٍ أَنْتَ ساكِنُهُ فيهِ العَفافُ وفيهِ الجُودُ والكَرَمُ
ثم انصرف الأعرابي، فغلبتني عيني، فرأيت النبي صلى الله عليه وسلم في النوم، فقال: يا عتبي الحق الأعرابي، فبشره أن الله قد غفر ليا خَيْرَ مَنْ دُفِنَتْ بِالقاعِ أَعْظُمُهُ فَطابَ مِنْ طِيْبِهِنَّ القاعُ والأَكَمُ
نَفْسِي الفِداءُ لِقَبْرٍ أَنْتَ ساكِنُهُ فيهِ العَفافُ وفيهِ الجُودُ والكَرَمُ
اے ان سب سے افضل ترین ہستی کہ جو یہاں مدفون ہیں کہ آپکی خوشبو سے میدان اور ٹیلے مہک رہے ہیں
میری جان اس قبر پر قربان کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مکین ہیں سو اسی میں پارسائی ہے اور اسی قبر میں جودو سخا ہے ۔
میرے بھائی یہ ایک روایت ہے اور وہ بھی قرآن کی اس معتبر تفسیر سے کہ جو اس مسئلہ میں اختلاف کرنے والوں کی من پسند تفسیر ہے یعنی ابن کثیر اس کے علاوہ بے شمار روایات اور سلف و صالحین کہ فتاوٰی جات ہیں میری آپ سے عاجزانہ گذارش ہے کہ خدارا خارجیت کی اس باطل ہوا کہ زعم سے باہر نکلیئے اور کچھ قرآن و سنت کا براہ راست یا پھر سلف و صالحین کی روشنی میں مطالعہ کیجیئے تو آپ پر امور واضح ہوں
جاری ہے -۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comment