Re: Aik Sawal Aur Uss ki (10) Mukhtalif Shaklain....!!
اسلام علیکم جواد بھائی !
مجھے افسوس ہوا کہ یہ سوال آپ کی طرفسے آیا آپکو چاہیے تھا کہ ہم نے جو سورہ فاتحہ کی تفسیر سلف سے نقل کی اس کا جواب دیتے مگر ہمیشہ کی طرح اس قسم کی مباحث میں آپ نے بھی خلط مبحث کا ہی فریضہ انجام دیا خیر کوئی بات نہیں تو عرض ہے کہ جس نام نہاد توحید کا ٹھیکہ آپ لوگون نے اٹھایا ہوا ہے یعنی اگر تعظیم انبیاء و سلف و صالحین شرک و بدعت ہے تو جو نام نہاد خارجی توحید آپ بیان کرتے ہیں اس کا ذکر قرآن و احادیث میں کہاں ہے ??? اگر آپ کو تعظیم انبیاء و صالحین سے اس قدر ہی چڑھ ہے تو پھر بیان کیجیئے قرآن سے انبیاء و صالحین کی تنقیص کا کوئی پہلو اور دیجیئے اپنی نام نہاد توحید کو تقویت توہین انبیاء و صالحین کی آڑ میں ۔۔۔
باقی آپ کو جب قرآن سے تعظیم انبیاء کا سبق نہیں ملا تو مجھ سا عامی آپ کا کیا بگاڑسکتا ہے ??? کہ قرآن تو صدائے دلنواز بلند کرتا ہے کہ اے ایمان والو کہ جن کہ دلوں نے حقیقی ایمان کا مزہ چکھا ہے لا تقولوا راعنا ، رعنا ہرگز مت کہنا مگر انظرنا کہنا کہ اے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم ہم نظر لطف و عنائت کیجیئے جب قرآن آپ کا اس باب میں کچھ نہیں بگاڑ سکا کہ وہ پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کہ بلانے کو مومنین کہ ایکدوسرے کہ بلانے ک ہے انداز تشبیہ سے معرا و بلند و منزا و ارفع و اعلٰی فرماتا ہے تو پھر مجھ سا عاصی آپ کہ سامنے کیا تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آڑ میں اداب صحابہ پیش فرمائے کیا بخاری نہیں پڑھی صحابہ تو پسینہ مبارک کو جمع کیا کرتے تھے بدن مبارک سے لگی ہوئی اشیاء سے حصول برکت اور شفاء طلب کیا کرتے وضو مبارک کہ مبارک قطرات کو اپنے چہرون اور جسم پر مل لیتے اور جسے براہ راست حضور صلی اللہ علیہ وسلم کہ وضو کا پانی دستیاب نہ ہوتا وہ دوسرے کہ ہاتھ کی تری ہی کو اپنے لیے غنیمت جانتا عین لڑائی میں بیچ معرکہ کہ اگر کسی کی آنکھ نکل جاتی تو وہ بجائے کسی ماہر جراح کہ پاس جانے کہ سیدے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہ پاس آتا اور زبان حال سے استغاثہ کرتا کہ المدد یارسول اللہ آنکھ واپس دلا دیجیئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا مبارک لعاب دہن لگا کر آنکھ عطا فرماتے کوئی وضو کا پانی فراہم کرتا تو دریائے رحمت جوش میں آجاتا حکم ہوتا مانگ کیا مانگتا ہے وہ تو وہ دست بستہ عرض کرتا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنت میں آپکی رفاقت مانگتا ہوں حکم ہوتا اس کہ سوا بھی کچھ مانگ عرض ہوتی کہ اس کہ سوا کچھ نہیں کہ جسے تو مل جائے اسے کسی سوا کی حاجت ہی کیا کیا مسلم شریف نہیں پڑھی کہ صحابہ تو صحابہ صحابہ کہ غلام بھی پناہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو طلب کیا کرتے کہ ایک صحابی اپنے ایک غلام کو پیٹ رہے تھے کہ وہ بار بار نام خدا کی دہائی دے رہا تھا مگر صحابی اسے نہ چھوڑتے بلکہ مارتے ہی جاتے کہ اتنے میں اس غلام کی نظر بیکسوں کہ والی یتمیوں کہ ملجاء و ماواء پر پڑی اور اس نے اپنے مالک صحابی سے واسطہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہ نام کی دہائی دی تو ان صحابی نے فورا اپنا ہاتھ روک لیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ دیکھا تو نکیر نہیں فرمائی بلکہ حد ادب بیان کی کہ اللہ کا حق مجھ سے کہیں زیادہ تھا کہ تو اسے اللہ کہ نام پر چھوڑ دیتا تو ان صحابی نے اس غلام کو آزاد ہی کردیا ۔۔ کیا واقعہ آپ کہ گوش گزار کروں اور کسے جانے دوں کیا نہیں پڑھا انسان تو انسان خود جانور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب فرماتے اور آپ کے اپس اپنی جاجات لاتے تھے ادب صحابہ کی بات پوچھتے ہو تو کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں کہ نبی کریم اپنے دراز گوش یعنی اپنے مبارک گدھے پر تشریف فرما ہوکر انصار ی ایک بستی میں تشریف لے گئے کہ رئیس المنافقین ابی ابن سلول کا بھی وہی محلہ تھا جب ابی ابن سلول نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حمار پر سوار دیکھا تو فورا ناک چڑھائی اور گویا ہوا کہ آپ کے گدھے کی بدبو نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے اب اس نے تنقید کا نشانہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کو نہیں مگر آپ کی سواری مبارک کو بنایا مگر صحابہ کرام سے یہ بھی برداشت نہ ہوسکا ابن رواحہ فورا پکار اٹھے واللہ لحمار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اطیب ریحا منک یعنی خدا کی قسم ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گدھے کی خوشبو اے ابی ابن سلول تجھ سے کہیں درجہ بہتر ہے دوسری روایات میں آیا ہے کہ واللہ میرے نبی کہ گدھے کا پیشاب بھی تجھ سے کہیں درجہ خوشبو میں زیادہ ہے میرے بھائی آپکو کیا کیا سناؤں اور کیا کیا بتلاؤں فقط یہی عرض کر سکتا ہوں کہ برائے مہربانی امت کو اپنی نام نہاد خارجی توحید کی بھینٹ چڑھانے سے پہلے امہات الکتب کا مطالعہ ضرور کرلیجیئے اور یہ قدرے بہتر کہ انٹرنیٹ پر آکر امت کو کافر و مشرک بنانے کہ آپ اپنے مطالعہ کو وسعت دیں ۔ ۔ ۔ والسلام
beautiful information jazakAllah kash inhay Allah hidyat ki roshni dekhy ameen
Originally posted by aabi2cool
View Post
اسلام علیکم جواد بھائی !
مجھے افسوس ہوا کہ یہ سوال آپ کی طرفسے آیا آپکو چاہیے تھا کہ ہم نے جو سورہ فاتحہ کی تفسیر سلف سے نقل کی اس کا جواب دیتے مگر ہمیشہ کی طرح اس قسم کی مباحث میں آپ نے بھی خلط مبحث کا ہی فریضہ انجام دیا خیر کوئی بات نہیں تو عرض ہے کہ جس نام نہاد توحید کا ٹھیکہ آپ لوگون نے اٹھایا ہوا ہے یعنی اگر تعظیم انبیاء و سلف و صالحین شرک و بدعت ہے تو جو نام نہاد خارجی توحید آپ بیان کرتے ہیں اس کا ذکر قرآن و احادیث میں کہاں ہے ??? اگر آپ کو تعظیم انبیاء و صالحین سے اس قدر ہی چڑھ ہے تو پھر بیان کیجیئے قرآن سے انبیاء و صالحین کی تنقیص کا کوئی پہلو اور دیجیئے اپنی نام نہاد توحید کو تقویت توہین انبیاء و صالحین کی آڑ میں ۔۔۔
باقی آپ کو جب قرآن سے تعظیم انبیاء کا سبق نہیں ملا تو مجھ سا عامی آپ کا کیا بگاڑسکتا ہے ??? کہ قرآن تو صدائے دلنواز بلند کرتا ہے کہ اے ایمان والو کہ جن کہ دلوں نے حقیقی ایمان کا مزہ چکھا ہے لا تقولوا راعنا ، رعنا ہرگز مت کہنا مگر انظرنا کہنا کہ اے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم ہم نظر لطف و عنائت کیجیئے جب قرآن آپ کا اس باب میں کچھ نہیں بگاڑ سکا کہ وہ پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کہ بلانے کو مومنین کہ ایکدوسرے کہ بلانے ک ہے انداز تشبیہ سے معرا و بلند و منزا و ارفع و اعلٰی فرماتا ہے تو پھر مجھ سا عاصی آپ کہ سامنے کیا تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آڑ میں اداب صحابہ پیش فرمائے کیا بخاری نہیں پڑھی صحابہ تو پسینہ مبارک کو جمع کیا کرتے تھے بدن مبارک سے لگی ہوئی اشیاء سے حصول برکت اور شفاء طلب کیا کرتے وضو مبارک کہ مبارک قطرات کو اپنے چہرون اور جسم پر مل لیتے اور جسے براہ راست حضور صلی اللہ علیہ وسلم کہ وضو کا پانی دستیاب نہ ہوتا وہ دوسرے کہ ہاتھ کی تری ہی کو اپنے لیے غنیمت جانتا عین لڑائی میں بیچ معرکہ کہ اگر کسی کی آنکھ نکل جاتی تو وہ بجائے کسی ماہر جراح کہ پاس جانے کہ سیدے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہ پاس آتا اور زبان حال سے استغاثہ کرتا کہ المدد یارسول اللہ آنکھ واپس دلا دیجیئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا مبارک لعاب دہن لگا کر آنکھ عطا فرماتے کوئی وضو کا پانی فراہم کرتا تو دریائے رحمت جوش میں آجاتا حکم ہوتا مانگ کیا مانگتا ہے وہ تو وہ دست بستہ عرض کرتا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنت میں آپکی رفاقت مانگتا ہوں حکم ہوتا اس کہ سوا بھی کچھ مانگ عرض ہوتی کہ اس کہ سوا کچھ نہیں کہ جسے تو مل جائے اسے کسی سوا کی حاجت ہی کیا کیا مسلم شریف نہیں پڑھی کہ صحابہ تو صحابہ صحابہ کہ غلام بھی پناہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو طلب کیا کرتے کہ ایک صحابی اپنے ایک غلام کو پیٹ رہے تھے کہ وہ بار بار نام خدا کی دہائی دے رہا تھا مگر صحابی اسے نہ چھوڑتے بلکہ مارتے ہی جاتے کہ اتنے میں اس غلام کی نظر بیکسوں کہ والی یتمیوں کہ ملجاء و ماواء پر پڑی اور اس نے اپنے مالک صحابی سے واسطہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہ نام کی دہائی دی تو ان صحابی نے فورا اپنا ہاتھ روک لیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ دیکھا تو نکیر نہیں فرمائی بلکہ حد ادب بیان کی کہ اللہ کا حق مجھ سے کہیں زیادہ تھا کہ تو اسے اللہ کہ نام پر چھوڑ دیتا تو ان صحابی نے اس غلام کو آزاد ہی کردیا ۔۔ کیا واقعہ آپ کہ گوش گزار کروں اور کسے جانے دوں کیا نہیں پڑھا انسان تو انسان خود جانور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب فرماتے اور آپ کے اپس اپنی جاجات لاتے تھے ادب صحابہ کی بات پوچھتے ہو تو کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں کہ نبی کریم اپنے دراز گوش یعنی اپنے مبارک گدھے پر تشریف فرما ہوکر انصار ی ایک بستی میں تشریف لے گئے کہ رئیس المنافقین ابی ابن سلول کا بھی وہی محلہ تھا جب ابی ابن سلول نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حمار پر سوار دیکھا تو فورا ناک چڑھائی اور گویا ہوا کہ آپ کے گدھے کی بدبو نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے اب اس نے تنقید کا نشانہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کو نہیں مگر آپ کی سواری مبارک کو بنایا مگر صحابہ کرام سے یہ بھی برداشت نہ ہوسکا ابن رواحہ فورا پکار اٹھے واللہ لحمار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اطیب ریحا منک یعنی خدا کی قسم ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گدھے کی خوشبو اے ابی ابن سلول تجھ سے کہیں درجہ بہتر ہے دوسری روایات میں آیا ہے کہ واللہ میرے نبی کہ گدھے کا پیشاب بھی تجھ سے کہیں درجہ خوشبو میں زیادہ ہے میرے بھائی آپکو کیا کیا سناؤں اور کیا کیا بتلاؤں فقط یہی عرض کر سکتا ہوں کہ برائے مہربانی امت کو اپنی نام نہاد خارجی توحید کی بھینٹ چڑھانے سے پہلے امہات الکتب کا مطالعہ ضرور کرلیجیئے اور یہ قدرے بہتر کہ انٹرنیٹ پر آکر امت کو کافر و مشرک بنانے کہ آپ اپنے مطالعہ کو وسعت دیں ۔ ۔ ۔ والسلا
Comment