Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

sirf Amjad Islam Amjad Poetry

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #31
    Re: sirf Amjad Islam Amjad Poetry


    کوئی خواب دشتِ فراق میں سرِشام چہرہ کشا ہُوا
    مِری چشمِ تر میں رُکا نہیں کہ تھا رَتجگوں کا ڈسا ہُوا

    مِرے دِل کو رکھتا ہے شادماں، مرے ہونٹ رکھتا ہے گُل فشاں
    وہی ایک لفظ جو آپ نے مِرے کان میں ہے کہا ہُوا

    ہے نِگاہ میں مِری آج تک وہ نِگاہ کوئی جُھکی ہُوئی
    وہ جو دھیان تھا کِسی دھیان میں، وہیں آج بھی ہے لگا ہُوا

    مِرے رَتجگوں کے فشار میں, مِری خواہشوں کے غبار میں
    وُہی ایک وعدہ گلاب سا سرِ نخل جاں ہے کِھلا ہُوا

    تری چشمِ خُوش کی پناہ میں کِسی خواب زار کی راہ میں
    مِرے غم کا چاند ٹھہر گیا کہ تھا رات بھر کا تھکا ہُوا

    ہے یہ مُختصر، رہِ عشق پر، نہیں آپ ہم، رہے ہم سَفر
    تو لو کس لیے یہ مباحثہ، کہاں, کون, کیسے, جُدا ہُوا

    کِسی دل کُشا سی پُکار سے اُسی ایک بادِ بہار سے
    کہیں برگ برگ نمو مِلی، کہیں زخم زخم ہَرا ہُوا

    ترے شہرِ عَدل سے آج کیا سبھی درد مند چلے گئے
    نہیں کاغذی کوئی پیر ہن، نہیں ہاتھ کوئی اُٹھا ہُوا

    Comment


    • #32
      Re: sirf Amjad Islam Amjad Poetry


      جب تک رستے جائیں یوں ہی چلتے جائیں

      آئینوں سے کیوں؟ عکس مُکر تے جائیں!
      آنکھیں ہیں آباد! خواب اُجڑ تے جائیں

      ایسی آندھی میں ! خاک سنور تے جائیں !!
      اپنی سوچوں سے آپ ہی ڈرتے جائیں

      عکس کریں تو کیا نقش بگڑتے جائیں
      جلتی آنکھوں میں سپنے بُجھتے جائیں

      جتنا دُھتکارے او ر لپٹتے جائیں
      رو لیں خُود پر ہی کُچھ تو کرتے جائیں !

      Comment


      • #33
        Re: sirf Amjad Islam Amjad Poetry



        بیٹھے بیٹھے ہی ہاتھ نہ ملتے جائیں

        ایک چراغ سہی راہ میں دَھرتے جائیں
        سچّی بات لکھیں جب تک لِکھتے جائیں

        جو کچھ بس میں ہے وہ تو کرتے جائیں
        رزمِ ہستی سے لڑتے لڑتے جائیں

        مُرد ہ مٹی کر زند ہ کرتے جائیں
        جب تک زندہ ہیں آگے بڑھتے جائیں

        Comment


        • #34
          Re: sirf Amjad Islam Amjad Poetry



          آؤ ہم او ر تُم ایسا کرتے جائیں
          آنکھوں آنکھوں میں باتیں کرتے جائیں

          باتوں باتوں میں غُنچے کِھلتے جائیں
          رنگوں میں نِکلیں خوشبو ہوتے جائیں

          اُمّید یں پُھوٹیں خدشے مرتے جائیں
          امجد سب کے دل اور نِکھرتے جائیں

          Comment


          • #35
            Re: sirf Amjad Islam Amjad Poetry

            کہتا ہے دَر پن
            میرے جیسا بن!

            تار یکی کی موت!
            ایک نحیف کِرن

            محنت اپنا مال
            وقت ، پریا دَھن

            بات نہ کرنے سے
            بڑھتی ہے اُلجھن

            اپنے دِل جیسا !
            کوئی نہیں دشمن

            دُنیا۔! لو ٹا دے
            میرا اپنا پن

            جُھولے جی اُٹّھے
            جاگ پڑے جامن

            روز وہی قِصّہ!
            روز وہی اُلجھن!

            صدیاں لُوٹ گئی
            پائل کی چَھن چَھن

            یہ تو برسے گا
            ساون ہے، ساون!

            سارے خاک سَمان
            تَن اور مَن اور دَھن

            اپنوں ہی سے تو
            ہوتی ہے اَن بَن

            سب سے اچّھا ہے
            اپنا گھر آنگن!

            پیاس بڑی ہے یا
            سونے کا برتن؟

            کیا اُفتاد پڑی!
            لگتا نہیں مَن

            آدم زاد نہیں ،
            بستی ہے یا بَن!

            کیسا بھی ہو رُوپ!
            مٹی ہے مدفن

            سَکّے کے دو رُخ
            بِرہن اور دُلہن

            دھوکہ دیتے ہیں
            اُجلے پیرا ہن

            راہ میں کِھلتا پُھول
            بیوہ کا جوبن

            دونوں جُھوٹے ہیں
            ساجن اور سَاون

            آہٹ کِس کی ہے
            تیز ہُوئی دھڑکن

            اُتنی خواہش کر
            جِتنا ہے دامن

            ہم تم دونوں ہیں
            دَھرتی اور ساون

            عکس بنے کیسے؟
            دُھند لا ہے درپن

            زیر آب ہُوئے
            خوابوں کے مسکن

            ٹھر گیا ہے کیوں!
            آنکھوں میں ساون !

            (ق)
            کچّا سونا ہی
            بنتا ہے کُندن

            اِک دِنِ نکھرے گا
            سچّا ہے گر، فن!

            کیسے روک سکے!
            خُوشبو کو گلشن

            امجد میرے ساتھ
            اَب تک ہے بچپن

            Comment


            • #36
              Re: sirf Amjad Islam Amjad Poetry


              کہیں سنگ میں بھی ہے روشنی کہیں آگ میں بھی دُھواں نہیں
              یہ عجیب شہرِ طلسم ہے! کہیں آدمی کا نشاں نہیں

              نہ ہی اِس زمیں کے نشیب میں نہ ہی آسماں کے فراز پر
              کٹی عمر اُس کو تلاشتے ، جو کہیں نہیں پر کہاں نہیں؟

              یہ جو زندگانی کا کھیل ہے، غم و انبساط کا میل ہے
              اُسے قدر کیا ہو بہار کی! کبھی دیکھیں جس نے خزاں نہیں

              وہ جو کٹ گرے پہ نہ جُھک سکے’ جو نہ مقتلوں سے بھی رُک سکے
              کوئ ایسا سر نہیں دوش پر، کسی منہ میں ایسی زباں نہیں

              جو تھے اشک میں نے وہ پی لیے، لبِ خشک و سوختہ سی لیے
              مرے زخم پھر بھی عیاں رہے، مرا درد پھر بھی نہاں نہیں

              نہیں اس کو عشق سے واسطہ وہ ہے اور ہی کوئی راستہ
              اگر اِس میں دِل کا لہو نہیں اگر اِس میں جاں کا زیاں نہیں

              Comment


              • #37
                Re: sirf Amjad Islam Amjad Poetry


                کئی آرزو کے سراب تھے، جنہیں تِشنگی نے بُجھا دیا
                میں سفر میں تھا کسی دشت کے، مجھے زندگی نے بُجھا دیا

                وہ جو کچھ حسین سے خواب تھے، میرے آنسوؤں ہی میں گُھل گئے
                جو چمک تھی میری نِگاہ میں، اُسے اِک نمی نے بُجھا دیا

                یہ دُھواں دُھواں جو خیال ہیں، اِسی بات کی تو دلیل ہیں
                کوئی آگ مجھ میں ضرور تھی، جسے بے حسی نے بُجھا دیا

                میرے وسعتوں کی حدوں تلک، میری دھڑکنوں ہی کا شور ہے
                میرے گِرد اِتنی صدائیں تھیں، اُنہیں خامشی نے بُجھا دیا

                کہاں ختم ہے مجھے کیا پتہ، میری کشمکش کا یہ سلسلہ
                میں چراغ بن کے جلا ہی تھا، مجھے پھر کِسی نے بُجھا دیا

                وہ جو اِک سفر کا جنون تھا، وہ جو منزلوں کی تلاش تھی
                جو تڑپ تھی مجھ میں کہاں گئی، مجھے کِس کمی نے بُجھا دیا

                وہ ہُوا تھا رات جو حادثہ، مجھے شاید اِتنا ہی یاد ہے
                کوئی جگنوؤں کی قطار تھی، جسے روشنی نے بُجھا دیا

                Comment


                • #38
                  Re: sirf Amjad Islam Amjad Poetry


                  وہ دَمکتی ہوئی لَو کہانی ہوئی، وہ چمکدار شعلہ، فسانہ ہُوا
                  وہ جو اُلجھا تھا وحشی ہَوا سے کبھی، اُس دِیے کو بُجھے تو زمانہ ہُوا

                  ایک خُوشبو سی پھیلی ہے چاروں طرف اُسکے امکان کی اُسکے اعلان کی
                  رابطہ پھر بھی اُس حُسنِ بے نام سے، جس کا جتنا ہوا، غائبانہ ہُوا

                  باغ میں پُھول اُس روز جو بھی کِھلا اُسکے بالوں میں سجنے کو بے چین تھا
                  جو ستارہ بھی اُس رات روشن ہُوا، اُسکی آنکھوں کی جانب روانہ ہُوا

                  کہکشاں سے پَرے، آسماں سے پَرے، رہگزارِ زمان و مکاں سے پرے
                  مجھ کو ہر حال میں ڈھونڈنا تھا اُسے، یہ زمین کا سفر تو بہانہ ہُوا

                  اب تو اُسکے دِنوں میں بہت دُور تک، آسماں ہیں نئے اور نئی دُھوپ ہے
                  اب کہاں یاد ہو گی اُسے رات وہ جس کو گزرے ہوئے اِک زمانہ ہُوا

                  موسمِ وصل میں خُوب ساماں ہوئے، ہم جو فصلِ بہاراں کے مہماں ہوئے
                  گھاس قالین کی طرح بِچھتی گئی، سر پہ ابرِ رواں، شامیانہ ہُوا

                  اب تو امجدؔ جُدائی کے اُس موڑ تک درد کی دُھند ہے اور کچھ بھی نہیں
                  جانِ من! اب وہ دن لَوٹنے کے نہیں، چھوڑئیے اب وہ قصّہ پرانا ہُوا

                  Comment


                  • #39
                    Re: sirf Amjad Islam Amjad Poetry


                    ہر پل دھیان میں بسنے والے، لوگ فسانے ہوجاتے ہیں
                    آنکھیں بوڑھی ہوجاتی ہیں،خواب پرانے ہوجاتے ہیں

                    ساری بات تعلق والی،جذبوں کی سچائی تک ہے
                    میل دلوں میں آجائے تو ،گھر ویرانے ہوجاتے ہیں

                    منظر منظر کھل اٹھتی ہے ،پیراہن کی قوسِ قزاح
                    موسم تیرے ہنس پڑنے سے اور سہانے ہوجاتے ہیں

                    جھونپڑیوں میں ہر اک تلخی پیدا ہوتے مل جاتی ہے
                    اس لیئے تو وقت سے پہلے طفل سیانے ہوجاتے ہیں

                    موسمِ عشق کی آہٹ سے ہی ہر اک چیز بدل جاتی ہے
                    راتیں پاگل کردیتی ہیں،دن دیوانے ہوجاتے ہیں

                    دنیا کے اس شور نے امجد کیا کیا ہم سے چھین لیا ہے
                    خود سے بات کیئے بھی اب تو کئی زمانے ہوجاتے ہیں

                    Comment


                    • #40
                      Re: sirf Amjad Islam Amjad Poetry

                      اے صبح کے ستارے
                      ڈوبیں گے ساتھ تیرے
                      کچھ لوگ غم کے مارے
                      اے صبح کے ستارے

                      بھولے ہوئے منظر ، آنکھوں میں تیرتے ہیں
                      کچھ عکس دوستی کے ، سانسوں میں پھیلتے ہیں
                      خوابوں میں ڈولتے ہیں
                      کچھ نقش بے سہارے
                      اے صبح کے ستارے

                      ہر راہ ڈھونڈتی ہے ، گزرے مسافروں کو
                      لمحے ترس رہے ہیں ، مانوس اۤہٹوں کو
                      ہم اور سجن ہیں جیسے
                      دریا کے دو کنارے
                      اے صبح کے ستارے
                      ڈوبیں گے ساتھ تیرے
                      کچھ لوگ غم کے مارے

                      Comment


                      • #41
                        Re: sirf Amjad Islam Amjad Poetry

                        "ہوائے شہر وفا شعاراں"

                        ہوائے شہر وفا شعاراں
                        ہماری بستی کے پاس آئی تو ہم نے دیکھا
                        کہ اُسکے دامن میں بوئے مقتل بسی ہوئی تھی
                        اور اُسکی پھیلی ہوئی نگاہوں میں خوں کی سرخی
                        چھلک رہی تھی۔
                        ہماری بستی کے پیڑ ششدر تھے، سرد گلیاں،
                        مکاں دریچےسبھی تعجب سے تک رہے تھے
                        عجیب طرز خرام تھا وہ کہ چلنے والے ٹھٹھک رہے تھے!
                        ہوا چھتوں کے سپاٹ ماتھوں کو چھوکر گزری
                        تو کھڑکیوں کے نصیب جاگے
                        کہ آج بستی کی ساری خلقت کواڑ کھولے ہوئے کھڑی تھی
                        ہر ایک نتھنے پھلا پھلا کر ہوا کی خوشبو کو سونگھتا تھا
                        کہ جس میں خون کی مہک رچی تھی
                        تمام سینوں میں ایک خدشہ سوال بن کر دھڑک رہا تھا
                        تو آج شہر وفا شعاراں نے جو کہا تھا وہ کردکھایا؟
                        ہوا نے چپکے سے سر ہلایا،
                        ہوانے چپکے سے سر ہلایا تو کھڑکیوں کے کواڑ کانپے
                        تو بیبیوں نے کھلے سروں سے امیر مقتل کو بددعا دی
                        کہ جس کا خوف مہیب بستی کے چہار جانب تنا ہوا تھا
                        اور اپنے مردوں کو چوڑیاں دیں
                        کہ انکے ہاتھوں میں کچھ نہیں تھا

                        ہوا کی پاگل بنانے والی مہک نے دیوارودر سے پوچھا
                        تمہاری غیرت کو کیا ہوا ہے؟
                        یہ کن مکینوں میں رہ رہے ہو؟
                        تمام بستی پکار اٹھی!!!!!
                        قسم شہیدوں کے بہتے خوں کی
                        قسم سویروں کی، چاند راتوں کی
                        آبشاروں کی اور بچوں کی ہم نے مقتل کو چن لیا ہے
                        قسم ہے ان کی کہ جن کے آنسو ہماری ہستی سے معتبر ہیں
                        اور جن کے بدن ہمارے لہو سے تخلیق پارہے ہیں
                        اور ان کی جن کے جوان بوسوں میں سرخ پھولوں کی تازگی ہے
                        کہ ہم نے مقتل کو چن لیا ہے
                        ہوائے شہر وفاشعاراں، گواہ رہنا
                        گواہ رہنا کہ ہم نے خوف مہیب بستی کے بام ودر سے ہٹادیا ہے
                        ہمارے خوں سے مہک کے اٹھے تو اگلے شہروں کی سمت جانا
                        انھیں بتانا
                        وفا کا رستہ سروں کی کثرت سے پٹ گیا ہے
                        کہ سرفروشی کی ابتدا ہے
                        انھیں بتانا کہ صحن مقتل بنا ہوا ہےکوئے نگارا
                        ہوائے شہر وفا شعاراں، ہوائے شہر وفا شعاراں

                        Comment


                        • #42
                          Re: sirf Amjad Islam Amjad Poetry

                          یہی بہت ہے کہ دل اس کو ڈھونڈ لایا ہے
                          کسی کے ساتھ سہی، وہ نظر تو آیا ہے

                          کروں شکایتیں، تکتا رہوں کہ پیار کروں؟
                          گئی بہار کی صُورت وہ لَوٹ آیا ہے

                          وہ سامنے تھا مگر یہ یقیں نہ آتا تھا
                          وہ آپ ہے کہ میری خواہشوں کا سایا ہے

                          عذاب دھوپ کے کیسے ہیں، بارشیں کیا ہیں؟
                          فصیلِ جسم گری جب تو ہوش آیا ہے

                          میں کیا کروں گا اگر وہ نہ مِل سکا امجد؟
                          ابھی ابھی میرے دل میں خیال آیا ہے

                          Comment


                          • #43
                            Re: sirf Amjad Islam Amjad Poetry

                            کوئی موسم ہو دل میں ہے تمھاری یاد کا موسم
                            کے بدلہ ہی نہیں جاناں تمہارے بعد کا موسم

                            نہیں تو آزما کر دیکھ لو ، کیسے بدلتا ہے
                            تمہارے مسکرانے سے دل نشاد کا موسم

                            کہیں سے اس حسیں آواز کی خوشبو پکارے گی
                            تو اس کے ساتھ بدلے گا دل برباد کا موسم

                            قفس کے بام و در میں روشنی سی آئی جاتی ہے
                            چمن میں آ گیا شاید لب آزاد کا موسم

                            میرے شہر پریشان میں تیری بے چاند راتوں میں
                            بہت ہی یاد کرتا ہوں تیری بنیاد کا موسم

                            نا کوئی غم خزاں کا ہے نا خواہش ہے بہاروں کی
                            ہمارے ساتھ ہے امجد کسی کی یاد کا موسم

                            Comment


                            • #44
                              Re: sirf Amjad Islam Amjad Poetry

                              بارش کی آواز کو سن کر

                              ,پیڑوں کی آغوش میں سہمی شاخیں جھومنے لگتی ہیں
                              گردِ ملال میں لپٹے پتے، جاگ اٹھتے ہیں
                              اور ہوا کی پینگوں میں سرگوشیاں جھولنے لگتی ہیں
                              کھڑکی کی شیشوں پر جس دم پہلی بوندیں پڑتی ہیں تو
                              بارش کی آواز گھروں میں خوشبو بن کر در آتی ہے
                              دنیا کے بے انت دکھ اور اندیشوں کی
                              اُڑتی مٹی بیٹھتی ہے اور
                              بجھے دلوں کی اقلیموں میں شمعیں جلنے لگتی ہیں
                              راہیں چلنے لگتی ہیں
                              بارش کی آواز کو سن کر
                              سینے کے آنگن میں رکھے بوجھ کی ڈھیری
                              ہولے ہولے گھٹتی ہے تو سانسیں ہلکی ہوجاتی ہیں
                              رم جھم کی آواز میں جیسے سب آوازیں کھو جاتی ہیں
                              بارش کی آواز کو سن کر
                              جاگتی آنکھیں
                              سپنوں کی دہلیز سے اپنے ریزہ ریزہ خواب اٹھائے
                              اور انہیں ترتیب میں لانے لگتی ہیں
                              مٹتی بنتی تصویریں، پھر دھیان میں آنے لگتی ہیں
                              !بارش کی آواز کو سن کر

                              Comment


                              • #45
                                Re: sirf Amjad Islam Amjad Poetry

                                دنیا کا کچھ برا بھی تماشا نہیں رہا
                                دل چاہتا تھا جس طرح ویسا نہیں رہا

                                تم سے ملے بھی ہم تو جدائی کے موڑ پر
                                کشتی ہوئی نصیب تو دریا نہیں رہا

                                کہتے تھے ایک پل نہ جیئیں گے ترے بغیر
                                ہم دونوں رہ گئے ہیں وہ وعدہ نہیں رہا

                                کاٹے ہیں اس طرح سے ترے بغیر روز و شب
                                میں سانس لے رہا تھا پر زندہ نہیں رہا

                                آنکھیں بھی دیکھ دیکھ کے خواب آ گئی ہیں تنگ
                                دل میں بھی اب وہ شوق، وہ لپکا نہیں رہا

                                کیسے ملائیں آنکھ کسی آئنے سے ہم
                                امجد ہمارے پاس تو چہرہ نہیں رہا

                                Comment

                                Working...
                                X