Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

sirf Ghazal

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Re: sirf Ghazal

    عجب حالت ہماری ہو گئی ہے
    یہ دنیا اب تمہاری ہو گئی ہے

    سخن میرا اداسی ہے سرِ شام
    جو خاموشی پہ طاری ہو گئی ہے

    بہت ہی خوش ہے دل اپنے کیے پر
    زمانے بھر میں خواری ہو گئی ہے

    وہ نازک لب ہے اب جانے ہی والا
    مری آواز بھاری ہو گئی ہے

    دل اب دنیا پہ لعنت کر کہ اس کی
    بہت خدمت گزاری ہو گئی ہے

    یقیں معزور ہے اب اور گماں بھی
    بڑی بے روزگاری ہو گئی ہے

    وہ اک بادِ شمالی رنگ جو تھی
    شمیم اس کی سواری ہو گئی ہے.

    Comment


    • Re: sirf Ghazal

      اک دل ہے جو جو ہر لمحہ جلانے کے لیے ہے
      جو کچھ ہے یہاں آگ لگانے کے لیے ہے

      اک بات ہی کہنی ہے مجھے تجھ سے، بس اک بات
      اس شہر میں تُو صرف گنوانے کے لیے ہے

      ہر شخص مری ذات سے جانے کے لیے تھا
      تُو بھی تو مری ذات سے جانے کے لیے ہے

      جو رنگ ہیں سہہ لے انہیں جو رنگ ہیں سہہ لے
      یاں جو بھی ہنر ہے وہ کمانے کے لیے ہے

      بودش جو ہے وہ ایک تماشہ ہے گماں کا
      ہے جو بھی حقیقت وہ فسانے کے لیے ہے

      ہنسنے سے کبھی خوش نہیں ہوتا ہے میرا دل
      یاں مجھ کو ہنسانا بھی رُلانے کے لیے ہے

      قاتل کو مرے مجھ سے نہیں ہے کوئی پَرخاش
      قاتل تو مرا رنگ جمانے کے لیے ہے

      Comment


      • Re: sirf Ghazal

        اک دل ہے جو جو ہر لمحہ جلانے کے لیے ہے
        جو کچھ ہے یہاں آگ لگانے کے لیے ہے

        اک بات ہی کہنی ہے مجھے تجھ سے، بس اک بات
        اس شہر میں تُو صرف گنوانے کے لیے ہے

        ہر شخص مری ذات سے جانے کے لیے تھا
        تُو بھی تو مری ذات سے جانے کے لیے ہے

        جو رنگ ہیں سہہ لے انہیں جو رنگ ہیں سہہ لے
        یاں جو بھی ہنر ہے وہ کمانے کے لیے ہے

        بودش جو ہے وہ ایک تماشہ ہے گماں کا
        ہے جو بھی حقیقت وہ فسانے کے لیے ہے

        ہنسنے سے کبھی خوش نہیں ہوتا ہے میرا دل
        یاں مجھ کو ہنسانا بھی رُلانے کے لیے ہے

        قاتل کو مرے مجھ سے نہیں ہے کوئی پَرخاش
        قاتل تو مرا رنگ جمانے کے لیے ہے,,

        Comment


        • Re: sirf Ghazal

          دل گماں تھا گمانیاں تھے ہم
          ہاں میاں داستانیاں تھے ہم

          ہم سُنے اور سُنائے جاتے تھے
          رات بھرکی کہانیاں تھے ہم

          جانے ہم کِس کی بُود کا تھے ثبوت
          جانے کِس کی نشانیاں تھے ہم

          چھوڑتے کیوں نہ ہم زمیں اپنی
          آخرش آسمانیاں تھے ہم

          ذرہ بھر بھی نہ تھی نمود اپنی
          اور پھر بھی جہانیاں تھے ہم

          ہم نہ تھے ایک آن کے بھی مگر
          جاوداں، جاودانیاں تھے ہم

          روز اِک رَن تھا تیر و ترکش بِن
          تھے کمیں اور کمانیاں تھے ہم

          ارغوانی تھا وہ پیالۂ ناف
          ہم جو تھے ارغوانیاں تھے ہم

          نار پستان تھی وہ قتّالہ
          اور ہوس درمیانیاں تھے ہم

          ناگہاں تھی اک آنِ آن کہ تھی
          ہم جو تھے ناگہانیاں تھے ہم

          Comment


          • Re: sirf Ghazal

            ے اب رسم و راہ کی جائے
            لب سے کم ہی نباہ کی جائے

            گفتگو میں ضرر ہے معنی کا
            گفتگو گاہ گاہ کی جائے

            ایک ہی تو ہوس رہی ہے ہمیں
            اپنی حالت تباہ کی جائے

            ہوس انگیز ہوں بدن جن کے
            اُن میں سب سے نباہ کی جائے

            اپنے دل کی پناہ میں آ کر
            زندگی بے پناہ کی جائے

            ذات اپنی گواہ کی جائے
            بند آنکھوں نگاہ کی جائے

            ہم تو بس اپنی چاہ میں ہیں مگن
            کچھ تو اس کی بھی چاہ کی جائے

            ایک ناٹک ہے زندگی جس میں
            آہ کی جائے، واہ کی جائے

            دل! ہے اس میں ترا بَھلا کہ تری
            مملکت بے سپاہ کی جائے

            ملکہ جو بھی اپنے دل کی نہ ہو
            جونؔ ! وہ بے کلاہ کی جائے,,

            Comment


            • Re: sirf Ghazal

              دل سے اب رسم و راہ کی جائے
              لب سے کم ہی نباہ کی جائے

              گفتگو میں ضرر ہے معنی کا
              گفتگو گاہ گاہ کی جائے

              ایک ہی تو ہوس رہی ہے ہمیں
              اپنی حالت تباہ کی جائے

              ہوس انگیز ہوں بدن جن کے
              اُن میں سب سے نباہ کی جائے

              اپنے دل کی پناہ میں آ کر
              زندگی بے پناہ کی جائے

              ذات اپنی گواہ کی جائے
              بند آنکھوں نگاہ کی جائے

              ہم تو بس اپنی چاہ میں ہیں مگن
              کچھ تو اس کی بھی چاہ کی جائے

              ایک ناٹک ہے زندگی جس میں
              آہ کی جائے، واہ کی جائے

              دل! ہے اس میں ترا بَھلا کہ تری
              مملکت بے سپاہ کی جائے

              ملکہ جو بھی اپنے دل کی نہ ہو
              جونؔ ! وہ بے کلاہ کی جائے

              Comment


              • Re: sirf Ghazal

                آ کہ جہانِ بے خبراں میں بے خبرانہ رقص کریں
                خیرہ سرانہ شور مچائیں خیرہ سرانہ رقص کریں

                فن تو حسابِ تنہائی شرط بَھلا کِس شے کی ہے
                یعنی اُٹھیں اور بے خلخال و طبل و ترانہ رقص کریں

                داد سے جب مطلب ہی نہیں تو عذر بَھلا کس بات کا ہے
                ہم بھی بزمِ بے بصراں میں بے بصرانہ رقص کریں

                ہم پہ ہنر کے قدر شناساں ناز کناں ہیں یعنی ہم
                سازِ شکستِ دل کی صدا پر عشوہ گرانہ رقص کریں

                تختۂ گُل ہو عذر انگیز آبلہ پائی اپنے لیے
                ہاں سرِ نشتر ہا ز کرانہ تا بہ کرانہ رقص کریں

                مرضیِ مولا از ہمہ اولیٰ شوق ہمارا مولا ہے
                ہم وہ نہیں جو بزم طرب میں پیشہ ورانہ رقص کریں

                بر سر شور و بر سرِ سورش بر سرِ شبخوں بر سرِ خوں
                چل کہ حصارِ فتنہ گراں میں فتنہ گرانہ رقص کریں

                کوئی نہیں جو آ ٹکرائے سب چوراہے خالی ہیں
                چل کہ سرِ بازارِ تباہی بے خطرانہ رقص کریں

                بعدِ ہنر آموزی ہم کو تھا پندِ استاد کہ ہم
                با ہنرانہ رقص میں آئیں بے ہنرانہ رقص کریں

                اپنے بدن پر اپنے خوں میں غیر کا خوں بھی شامل ہو
                بارگہِ پرویز میں چل کر تیشہ ورانہ رقص کریں,.

                Comment


                • Re: sirf Ghazal

                  خود مست ہوں خود سے آ ملا ہوں
                  اب میں لبِ زخمِ بے گِلہ ہوں

                  میں ہمسفروں کی گرد کے بیچ
                  اک خود سفری کا قافلہ ہوں

                  خوشبو کے بدن میں تیرا ملبوس
                  دم لے کہ ابھی نہیں سِلا ہوں میں

                  میں نشۂ ذات میں نہتا
                  احباب سے اپنے آ مِلا ہوں

                  میں صر صرِ لفظ میں ہوں معنی
                  پس اپنی جگہ سے کب ہِلا ہوں..

                  Comment


                  • Re: sirf Ghazal

                    بڑا احسان ہم فرما رہے ہیں
                    کہ اُن کے خط انہیں لوٹا رہے ہیں

                    نہیں ترکِ محبت پر وہ راضی
                    قیامت ہے کہ ہم سمجھا رہے ہیں

                    یقیں کا راستہ طے کرنے والے
                    بہت تیزی سے واپس آ رہے ہیں

                    یہ مت بھُولو کہ یہ لمحات ہم کو
                    بچھڑنے کے لیے ملوا رہے ہیں

                    تعجب ہے کہ عشق و عاشقی سے
                    ابھی کچھ لوگ دھوکا کھا رہے ہیں

                    تمہیں چاہیں گے جب چھِن جاؤ گی تو
                    ابھی ہم تم کو ارزاں پا رہے ہیں

                    کسی صورت انہیں نفرت ہو ہم سے
                    ہم اپنے عیب خود گِنوا رہے ہیں

                    وہ پاگل مست ہے اپنی وفا میں
                    مری آنکھوں میں آنسو آ رہے ہیں

                    دلیلوں سے اسے قائل کیا تھا
                    دلیلیں دے کے اب پچھتا رہے ہیں

                    تری بانہوں سے ہجرت کرنے والے
                    نئے ماحول میں گھبرا رہے ہیں

                    یہ جذبہ عشق ہے یا جذبۂ رحم
                    ترے آنسو مجھے رُلوا رہے ہیں

                    عجب کچھ ربط ہے تم سے تم کو
                    ہم اپنا جان کر ٹھکرا رہے ہیں

                    وفا کی یادگاریں تک نہ ہوں گی
                    مری جاں بس کوئی دن جا رہے ہیں..

                    Comment


                    • Re: sirf Ghazal

                      جبر پُر اختیار ہے ، اماں ہاں
                      بیقراری قرار ہے ، اماں ہاں

                      ایزدِ یزداں ہے تیرا انداز
                      اہرمن دل فگار ہے ، اماں ہاں

                      میرے آغوش میں جو ہے اُس کا
                      دَم بہ دَم انتظار ہے ، اماں ہاں

                      ہے رقیب اُس کا دوسرا عاشق
                      وہی اِک اپنا یار ہے ، اماں ہاں

                      یار زردی ہے رنگ پر اپنے
                      سو خزاں تو بہار ہے ، اماں ہاں

                      لب و پستان و ناف اس کے نہ پوچھ
                      ایک آشوبِ کار ہے ، اماں ہاں

                      سنگ در کے ہوں یا ہوں دار کے لوگ
                      سب پہ شہوت سوار ہے ، اماں ہاں

                      اب تو انساں کے معجزے ہیں عام
                      اور انسان خوار ہے ، اماں ہاں

                      ایک ہی بار بار ہے ، اماں ہاں
                      اک عبث یہ شمار ہے ، اماں ہاں

                      ذرّہ ذرّہ ہے خود گریزانی
                      نظم ایک انتشار ہے ، اماں ہاں

                      ہو وہ یزداں کہ آدم و ابلیس
                      جو بھے خود شکار ہے ، اماں ہاں

                      وہ جو ہے جو *کہیں* نہیں اس کا
                      سب کے سینوں پہ بار ہے ، اماں ہاں

                      اپنی بے روزگاریِ جاوید
                      اک عجب روزگار ہے ، اماں ہاں

                      شب خرابات میں تھا حشر بپا
                      کہ سخن ہرزہ کار ہے ، اماں ہاں

                      کیا کہوں فاصلے کے بارے میں
                      رہگزر ، رہگزر ہے ، اماں ہاں

                      بھُولے بھُولے سے ہیں وہ عارض و لب
                      یاد اب یادگار ہے ، اماں ہاں

                      Comment


                      • Re: sirf Ghazal

                        دل کتنا آباد ہوا جب دید کے گھر برباد ہوئے
                        وہ بچھڑا اور دھیان میں اس کے سو موسم ایجاد ہوئے

                        ناموری کی بات دگر ہے ورنہ یارو سوچو تو
                        گلگوں اب تک کتنے تیشے بے خونِ فرہاد ہوئے

                        لائیں کہاں سے بول رسیلے ہونٹوں کی ناداری میں
                        سمجھو ایک زمانہ گزرا بوسوں کی امداد ہوئے

                        تم میری اک خود مستی ہو میں ہوں تمہاری خود بینی
                        رشتے میں اس عشق کے ہم تم دونوں بے بنیاد ہوئے

                        میرا کیا اک موجِ ہوا ہوں پر یوں ہے اے غنچہ دہن
                        تُو نے دل کا باغ جو چھوڑا غنچے بے استاد ہوئے

                        عشق محلے میں اب یارو کیا کوئی معشوق نہیں
                        کتنے قاتل موسم گزرے شور ہوئے فریاد ہوئے

                        ہم نے دل کو مار رکھا ہے اور جتاتے پھرتے ہیں
                        ہم دل زخمی مژگاں خونیں ہم نہ ہوئے جلاد ہوئے

                        برق کیا ہے عکسِ بدن نے تیرے ہمیں اے تنگ قبا
                        تیرے بدن پر جتنے تِل ہیں سارے ہم کو یاد ہوئے

                        تُو نے کبھی سوچا تو ہو گا۔۔سوچا بھی اے مست ادا
                        تیری ادا کی آبادی پر کتنے گھر برباد ہوئے

                        جو کچھ بھی رودادِ سخن تھی ہونٹوں کی دُوری سے تھی
                        جب ہونٹوں سے ہونٹ ملے تو یکدم بے رُوداد ہوئے

                        خاک نشینوں سے کوچے کے کیا کیا نخوت کرتے ہیں
                        جاناں جان! ترے درباں تو فرعون و شدّاد ہوئے

                        شہروں میں ہی خاک اُڑا لو شور مچا لو بے حالو
                        جن دَشتوں کی سوچ رہے ہو وہ کب کے برباد ہوئے

                        سمتوں میں بکھری وہ خلوت۔۔وہ دل کی رنگ آبادی
                        یعنی وہ جو بام و دَر تھے یکسر گرد و باد ہوئے

                        تُو نے رندوں کا حق مارا مے خانے میں رات گئے
                        شیخ!! کھرے سیّد ہیں ہم تو ہم نے سُنا ناشاد ہوئے

                        Comment


                        • Re: sirf Ghazal

                          شام تک میری بے کلی ہے شراب
                          شام کو میری سر خوشی ہے شراب

                          جہل واعظ کا اُس کو راس آئے
                          صاحبو! میری آگہی ہے شراب

                          رَنگ رَس ہے میری رگوں میں رواں
                          بخدا میری زندگی ہے شراب

                          ناز ہے اپنی دلبری پہ مجھے
                          میرا دل ، میری دلبری ہے شراب

                          ہے غنیمت جو ہوش میں نہیں میں
                          شیخ! میری بے حسی ہے شراب

                          حِس جو ہوتی تو جانے کیا کرتا
                          مفتیو! میری بےحسی ہے شراب

                          Comment


                          • Re: sirf Ghazal

                            دل کی تکلیف کم نہیں کرتے
                            اب کوئی شکوہ ہم نہیں کرتے

                            جانِ جاں تجھ کو اب تری خاطر
                            یاد ہم کوئی دَم نہیں کرتے

                            دوسری ہار کی ہوس ہے سو ہم
                            سرِ تسلیم خم نہیں کرتے

                            وہ بھی پڑھتا نہیں ہے اب دل سے
                            ہم بھی نالے کو نم نہیں کرتے

                            جرم میں ہم کمی کریں بھی تو کیوں
                            تم سزا بھی تو کم نہیں کرتے..

                            Comment


                            • Re: sirf Ghazal

                              و کوئی مَن چلا ہی نہیں
                              کہ جیسے یہ شہرِ بَلا ہی نہیں

                              ترے حسرتی کے ہے دل پر یہ داغ
                              کوئی اب ترا مبتلا ہی نہیں

                              ہوئی اُس گلی میں فضیحت بہت
                              مگر میں وہاں سے ٹَلا ہی نہیں

                              نِکل چل کبھی آپ سے جانِ جاں
                              ترے دل میں تو ولولہ ہی نہیں

                              دمِ آخر جو بچھڑے تو بس
                              پتا بھی کسی کا چَلا ہی نہیں

                              قیامت تھی اُس کے شکم کی شکن
                              کوئی بس مرا پھر چلا ہی نہیں

                              اُسے خون سے اپنے سینچا مگر
                              تمنا کا پودا پَھلا ہی نہیں

                              کہاں جا کے دنیا کو ڈالوں بَھلا
                              ادھر تو کوئی مزبلہ ہی نہیں

                              اک انبوہِ خونیں دلاں ہے مگر
                              کسی میں کوئی حوصلہ ہی نہیں.

                              Comment


                              • Re: sirf Ghazal

                                رہن سرشاریِ فضا کے ہیں
                                آج کے بعد ہم ہوا کے ہیں

                                ہم کو ہر گز نہیں خدا منظور
                                یعنی ہم بے طرح خدا کے ہیں

                                کائناتِ سکوت بس خاموش
                                ہم تو شوقِ سخن سرا کے ہیں

                                جتنے بھی اہلِ فن ہیں دنیا کے
                                ملتمس بابِ التجا کے ہیں

                                باز آ جایئے کہ سب فتنے
                                آپ کی کیوں کے اور کیا کے ہیں

                                اب کوئی گفتگو نہیں ہوگی
                                ہم فنا کے تھے ہم فنا کے ہیں

                                ہم کہ ہیں جونؔ حاصلِ ایجاد
                                کیا ستم ہے کہ ہم فنا کے ہیں..

                                Comment

                                Working...
                                X