Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

~~ Where there is love there is life ~~ collection from the painful heart of pErIsH_BoY .>>>>>>

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • تم مجھ کو گڑيا کہتے ہو

    تم مجھ کو گڑيا کہتے ہو
    ٹھيک ہي کہتے ہو
    کھيلنے والے سب ہاتھوں کو
    ميں گڑيا ہي لگتي ہوں
    جو پہنا دو ، مجھ پہ سجے گا
    ميرا کوئي رنگ نہيں
    جس بچے کے ہاتھ تھاما دو
    ميري کسي سے جنگ نہيں
    سوچتي جاگتي آنکھيں ميري
    جب چاہے بينائي لے لو
    کوک بھرو اور باتيں سنو
    يا ميري گويائي لے لو
    مانگ بھرو ، سندور لگائو
    پيار کرو ، آنکھوں ميں بساؤ
    اور پھر جب دل بھر جائے
    دل سے اٹھا کے تک پہ رکھ دو
    تم مجھ کو گڑيا کہتے ہو
    ٹھيک ہي کہتے ہو



    Comment


    • Re: اسکے نام

      so nice

      Comment


      • Re: سکھیاں میری

        Beautiful sharing

        Comment


        • خواہشوں کو مرنا ہے ، وقت کو گذرنا ہے

          وقت کو گذرنا ہے

          موت کی حقیقت اور زندگی کے سپنے کی
          بحث گو پرانی ہے، پھر بھی اک کہانی ہے
          اور کہانیاں بھی تو، وقت سے عبارت ہیں
          لاکھ روکنا چاہیں ، وقت کو گذرنا ہے

          ہنستے بستے شہروں کو ایک دن اجڑنا ہے
          راحتیں ہوائیں ہیں، چاہتیں صدائیں ہیں
          کیا کبھی ہوائیں بھی دسترس میں*رہتی ہیں
          کبھی صدائیں بھی کچھ پلٹ کے کہتی ہیں
          بازگشت کو مٹنا ہے، وقت کو گذرنا ہے

          پیار بھی نہیں رہنا اور پیار کا دکھ بھی
          آنسوؤں کے دریا کو ایک دن اترنا ہے
          خواہشوں کو مرنا ہے ، وقت کو گذرنا ہے

          وقت کو گذرنا ہے


          Comment


          • Re: خواب اپنے تو ہیں

            Buhat khoob........umda sharing

            Comment


            • Re: یا مرے خواب، مرے ساتھ ہی مر جائیں گے

              Beautiful sharing

              Comment


              • Re: تم اپنی محبت کی ویرانیاں کیوں بھول جاتے ہو ؟

                Nice sharing

                Comment


                • تم مرے دل کی خلش ہو لیکن ۔۔۔۔۔

                  تم مرے دل کی خلش ہو لیکن ۔۔۔
                  دور ہو جاؤ ۔۔ یہ منظور کہاں
                  ایک سایا، جو کسی سائے سے گہرا بھی نہیں
                  جسم بھی جس کا نہیں ، دل نہیں ، چہرا بھی نہیں
                  خال و خد جس کے مجھے ازبر ہیں ،
                  دید ۔۔۔ جس طرح کوئی دیکھتا ہو
                  راستہ، شیشے کی دیوار کے پار
                  گفتگو ۔۔۔ جیسے کوئی کرتا ہو
                  اپنے ہی کان میں اک سرگوشی
                  لفظ ۔۔۔ جیسے کہ ہو نظمائی ہوئی خاموشی
                  یہ تعلق ہے بس اک نقش کہ جو ریت پہ کھینچا جائے
                  بادِ حیراں سے اڑانے کے لیے
                  موجۂ غم سے مٹانے کے لیے
                  دشت اس دل کی طرح اپنی ہی تنہائی میں یوں سمٹا ہے
                  جیسے پھیلا تو فلک ٹوٹ پڑے گا اس پر
                  کارواں کوئی نہ گزرا کسی منزل کی طرف
                  گھنٹیاں بجتی رہیں ۔۔۔ نیند کی خاموشی میں
                  شام ہر روز اترتی ہے سرِ جادۂ جاں
                  وہی اک کہنہ اداسی لے کر
                  زندگی ڈوبتی جاتی ہے کسی سرد اندھیرے میں ۔۔ مگر
                  جگمگاتی ہے بہت دور کسی گوشے میں
                  ایک چھوٹی سی تمنا کی کرن
                  سائے کا لمس ہے اس دل کی لگن
                  تم مرے ٹوٹے ہوئے خواب کا اک ذرہ ہو
                  جو مری آنکھ میں چبھتا ہے تو خوں بہتا ہے
                  پھر بھی کھو جاؤ یہ منظور کہاں
                  تم مرے دل کی خلش ہو لیکن ۔۔۔۔۔


                  Comment


                  • جہاں ایک اک دن

                    مجھے معلوم تھا
                    میری باتیں تمھیں سن رسیدہ لگیں گی
                    مجھ پہ اکثر یہ الزام لگتا رہا ہے
                    کہ میں کم سنی میں، بڑی عمر کی گفتگو کر رہا ہوں
                    اور کئی لوگ تو اس کو شہرت کمانے پہ محمول کرتے رہے ہیں
                    انہیں کیا خبر؟
                    میں نے ان چند برسوں میں کتنا سفر طے کیا ہے
                    عمر کو۔ ۔ ۔ ۔ روز و شب اور مہ و سال سے
                    ماپنے کا طریقہ غلط ہے
                    میں تو ایک ایک دن میں
                    ہزاروں برس بھی جیا ہوں
                    مگر تم نہیں جانتے
                    جان سکتے بھی کیسے
                    کیا کبھی تم کسی پیکرِ خواب کی جستجو میں
                    زمان و مکاں کی حدوں سے ورا بھی گئے ہو؟
                    جہاں ایک اک دن
                    یہاں کے ہزاروں برس سے بڑا ہے
                    کبھی تم زمان و مکاں کی حدوں سے نکل کے تو دیکھو
                    تمہیں میری باتیں بہت چھوٹی محسوس ہوں گی
                    Last edited by pErIsH_BoY; 6 February 2014, 09:13.


                    Comment


                    • اپنے گھر سے کبھی نہ نکلو

                      تم ایسی صبحوں، تم ایسی شاموں میں
                      اپنے گھر سے کبھی نہ نکلو
                      کہ جب ہوائیں
                      سپردگی سے نہال ہوکر
                      تمہارے پہلو میں ڈولتی ہوں
                      تمہارے آنچل سی کھیلتی ہوں
                      تم ایسی صبحوں، تم ایسی شاموں میں
                      اپنے گھر سے کبھی نہ نکلو
                      کہ جب ہوائیں
                      اداس لہجے میں تم سے پوچھیں
                      تمہاری آنکھوں کو کیا ہوا
                      تمہارے چہرے پہ کیا لکھا ہے
                      تمہارے اٹھتے ہوئے قدم پر
                      یہ لڑکھڑاہٹ سی کس لیے ہے
                      تم ایسی صبحوں، تم ایسی شاموں میں
                      اپنے گھر سے کبھی نہ نکلو
                      کہ جب ہوائیں
                      بدلتے موسم کی سازشوں میں شریک ہوکر
                      تمہارے جی میں غلط بیانی کا زہر گھولیں
                      تمہارے بارے میں جھوٹ بولیں
                      سنو اے پیاری سی، پگلی سی، سجیلی لڑکی
                      یہی ہوائیں تو آتے جاتے مسافر ان رہ رہ وفا پر
                      ہزار تہمت اچھالتی ہیں
                      محبتوں پر یقین نہ ہوتو
                      دلوں میں پیہم
                      ہزاروں واہموں کو ڈالتی ہیں
                      تم ایسی صبحوں، تم ایسی شاموں میں
                      اپنے گھر سے کبھی نہ نکلو


                      Comment


                      • “اب کے خواب ٹوٹا ہے

                        کئی بے قرار آنسو
                        آنکھوں سے بہہ نکلے تھے
                        آج کیا ہوا مجھ کو؟
                        اس طرح سے پہلے تو میں کبھی ٹوٹا نہ تھا

                        اس سفر زندگی میں کئی موڑ دیکھے تھے
                        کئی درد کے لمحے، کئی سوگ کی راتیں
                        کئی روگ کی باتیں
                        ہنس کے ہم نے سہہ لی تھیں

                        آنکھیں تب بھی چپ تھیں
                        دل گرچہ ٹوٹا تھا

                        پھر!!!

                        آج کیا ہوا مجھ کو؟
                        اس طرح سے پہلے تو میں کبھی نہ ٹوٹا تھا

                        پر تب کی بات اور تھی شاید

                        “اب کے خواب ٹوٹا ہے“

                        مدتوں جسے میں نے آنکھوں میں بسایا تھا
                        ہاں میرا وہی سپنا
                        مجھ سے آج چھوٹا ہے

                        تب کی بات اور تھی شاید

                        “اب کے خواب ٹوٹا ہے


                        Comment


                        • ستاروں سے کہو، بہتر ہے ہم کو بھول ہی جائیں

                          ستاروں سے کہو
                          اب رات بھر ہم ان سے باتیں کر نہیں سکتے
                          کہ ہم اب تھک گئے جاناں!
                          ہمیں جی بھر کے سونا ہے
                          کسی کا راستہ تکنے کا یارا بھی نہیں ہم کو
                          مسافر آگیا تو ٹھیک ہے لیکن،
                          نہیں آتا تو نہ آئے
                          ان آنکھوں میں ذرا بھی روشنی باقی نہیں شاید
                          وگرنہ تیرگی ہم کو یوں گھیرے میں نہیں لیتی
                          مگر یہ سب،
                          ازل سے لکھ دیا تھا لکھنے والے نے
                          ستاروں سے کہو، بہتر ہے ہم کو بھول ہی جائیں
                          ہمیں آرام کرنا ہے
                          ضروری کام کرنا ہے


                          Comment


                          • تجھ سے ہاریں کہ تجھے مات کریں

                            تجھ سے ہاریں کہ تجھے مات کریں
                            تجھ سے خوشبو کے مراسم تجھے کیسے کہیں
                            میری سوچوں کا اُفق تیری محبت کا فسوں
                            میرے جذبوں کا دل تیری عنایت کی نظر
                            کیسے خوابوں کے جزیروں کو ہم تاراج کریں
                            تجھ کو بھولیں کہ تجھے یاد کریں
                            اب کوئی اور نہیں میری تمنا کا دل
                            اب تو باقی ہی نہیں کچھ
                            جسے برباد کریں
                            تیری تقسیم کسی طور ہمیں منظور نہ تھی
                            پھر سرزم جو آئے تو تہی داماں آئے
                            چن لیا دردٍ مسیحائی
                            تیری دلدار نگاہی کے عوض
                            ہم نے جی ہار دیئے، لُٹ بھی گئے
                            کیسےممکن ہے بھلا
                            خود کو تیرے سحر سے آزاد کریں
                            تجھ کو بھولیں کہ تجھے یاد کریں
                            اس قدر سہل نہیں میری چاہت کا سفر
                            ہم نے کانٹے بھی چنے روح کے آزار بھی سہے
                            ہم سے جذبوں*کی شرح نہ ہو سکی کیا کرتے
                            بس تیری جیت کی خواہش نے کیاہم کونڈھال
                            اب اسی سوچ میں گذریں گے مہ و سال مرے
                            تجھ سے ہاریں کہ تجھے مات کریں



                            Comment


                            • اے تیشہ بدست دیوتاؤ !

                              ایک صنم تراش جس نے برسوں
                              ہیروں کی طرح صنم تراشے
                              آج اپنے صنم کدے میں تنہا
                              مجبور نڈھال زخم خوردہ

                              دن رات پڑا کراہتا ہے

                              چہرے اجاڑ زندگی کے
                              لمحات کی ان گنت خراشیں
                              آنکھوں کے شکستہ مرقدوں میں
                              روٹھی ہوئی حسرتوں کی لاشیں
                              سانسوں کی تھکن بدن کی ٹھنڈک
                              احساس سے کب تلک لہو لے

                              ہاتھوں میں کہاں سکت کے بڑھ کر
                              خود ساختہ پیکروں کو چھو لے
                              یہ زخمِ طلب یہ نامرادی
                              ہر بت کے لبوں پہ ہے تبسم

                              اے تیشہ بدست دیوتاؤ !
                              انسان جواب چاہتا ہے


                              Comment


                              • یہ مرا سفر۔۔۔۔نہیں مختصر۔۔۔۔۔۔


                                یہ مرا سفر۔۔۔۔۔۔!!!
                                مری روح کا
                                تیری ذات تک۔۔۔۔
                                یہ مرا سفر۔۔۔۔
                                نہیں مختصر۔۔۔۔۔۔۔
                                مرے اجنبی مرے ٓا شنا۔۔۔
                                مرے بے خبرّّّّّ۔۔۔۔۔۔
                                یہاں ھر قدم پہ ھیں۔۔۔۔وحشتیں
                                یہاں سانس سانس میں خار ھیں۔۔۔۔
                                تیری سرد مہری و بے رخی کے۔۔۔
                                ھزاروں تیر۔۔۔۔۔ زہر بجھے۔۔۔۔
                                جو ۔۔۔۔۔جگر سے روح کے پار ھیں۔۔۔
                                مرا بس نہیں کے پلٹ سکوں۔۔۔۔۔
                                کسی موڑ پر۔۔۔۔
                                کچھ پل! کو رک کے ھی سوچ لوں
                                تجھے جزب دل سے پکار لوں
                                تجھے دور جانے سے روک لوں۔۔۔۔
                                تجھے اپنے دل کے تمام رنگ۔۔
                                حسین جذبے۔۔۔۔ خلو ص پل۔۔۔
                                جو امانتاً ۔۔۔۔۔مرے پاس ھیں۔۔۔۔
                                سب۔۔۔۔ ایک بار ھی سونپ دوں۔۔۔
                                پر کیا کروں۔۔۔۔؟؟
                                تری ذات سے مری ذات تک۔۔۔۔
                                یہ مرا سفر۔۔۔۔نہیں مختصر۔۔۔۔۔۔


                                Comment

                                Working...
                                X