Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

behtreen aqwaal

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #76
    Re: behtreen aqwaal

    حاضر جواب۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    پروفیسر: 'برائی' کیا ہے؟

    شاگرد: سر میں بتاتا ہوں، مگر پہلے مجھے کچھ پوچھنا ہے۔۔۔۔
    "کیا ٹھنڈ کا وجود ہے؟"

    پروفیسر: ہاں
    شاگرد: غلط، 'ٹھنڈ' جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی، بلکہ یہ حرارت کی عدم دستیابی کا نام ہے۔۔۔۔۔۔

    شاگرد نے دوبارہ پوچھا: "کیا اندھیرا ہوتا ہے؟"
    پروفیسر: ہاں

    شاگرد: نہیں سر، اندھیرا خود کچھ نہیں ہے، بلکہ یہ روشنی کی غیر حاضری ہے، جسے ہم اندھیرا کہتے ہیں۔۔۔
    فزکس کے مطابق ہم روشنی اور حرارت کا مطالعہ تو کر سکتے ہیں، مگر ٹھنڈ یا اندھیرے کا نہیں۔۔۔۔

    سو برائی کا بھی کوئی وجود نہیں ہے، یہ دراصل ایمان، محبت اور اللہ پر پختہ یقین کی کمی یا غیر موجودگی ہے۔۔۔جسے ہم برائی کہتے ہیں۔۔۔۔

    یہ شاگرد "البیرونی" تھے۔۔۔۔۔۔۔۔
    اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
    اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

    Comment


    • #77
      Re: behtreen aqwaal

      ﮐﺴﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﺎ ﻭﺯﯾﺮ ﺑﮍﺍ ﮨﻮﺷﯿﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﻋﻘﻠﻤﻨﺪ
      ﺗﮭﺎ۔ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﻭﮦ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﻣﻼﺯﻣﺖ ﭼﮭﻮﮌ
      ﮐﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﻐﻮﻝ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔ ﺍﯾﮏ
      ﺩﻥ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺳﮯ
      ﭘﻮﭼﮭﺎ، ﺗﻢ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﻼﺯﻣﺖ ﮐﯿﻮﮞ ﭼﮭﻮﮌ
      ﺩﯼ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ، ﭘﺎﻧﭻ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ
      ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻣﻼﺯﻣﺖ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯼ۔ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ
      ﻧﮯ ﺍﻥ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﻮ ﻭﺯﯾﺮ
      ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺕ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺑﯿﭩﮭﮯ
      ﺭﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﮔﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍﺍ
      ﺭﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ، ﺍﺏ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ
      ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﺍ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ
      ﮐﺮﺳﮑﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ۔ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮭﮍﮮ
      ﮨﻮﮐﺮ ﭘﮍﮬﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﻨﮯ
      ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺣﮑﻢ ﮨﮯ۔ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ
      ﺁﭖ ﺗﻮ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ
      ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺍﺏ
      ﻣﺠﮭﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﺭﺍﺯﻕ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻣﺠﮭﮯ
      ﮐﮭﻼﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﮯ ﻧﯿﺎﺯ ﮨﮯ۔
      ﺗﯿﺴﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺳﻮﺗﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ
      ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﺎ ﭘﮩﺮﮦ ﺩﯾﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺏ ﻣﯿﮟ
      ﺍﯾﺴﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﺎ ﻏﻼﻡ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺧﻮﺩ
      ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﮕﮩﺒﺎﻧﯽ ﮐﺮﺗﺎ
      ﮨﮯ۔ ﭼﻮﺗﮭﯽ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﮈﺭﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺁﭖ
      ﻓﻮﺕ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺩﺷﻤﻦ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﮑﻠﯿﻒ
      ﺩﯾﮟ ﮔﮯ۔ ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﺫﺍﺕ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ
      ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﺟﻮ ﺳﺪﺍ ﻗﺎﺋﻢ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ
      ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﺧﻮﻑ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﭘﺎﻧﭽﻮﯾﮟ ﺑﺎﺕ
      ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﮈﺭﺗﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻣﺠﮫ
      ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻏﻠﻄﯽ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻣﻌﺎﻑ ﻧﮩﯿﮟ
      ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﻣﮕﺮ ﺍﺏ ﺍﯾﺴﺎ ﺭﺣﻢ ﺩﻝ ﻣﺎﻟﮏ ﻣﻞ
      ﮔﯿﺎﮨﮯ ﮐﮧ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﻮ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﮔﻨﺎﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ
      ﺑﻌﺪ ﺑﮭﯽ ﺗﻮﺑﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﺨﺶ ﺩﯾﺘﺎ
      ﮨﮯ۔
      اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
      اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

      Comment


      • #78
        Re: behtreen aqwaal

        : حکایت شیخ سعدی ؒ - بزدل غلام

        ایک بادشاہ کشتی میں بیٹھ کر دریا کی سیر کر رہا تھا۔ کچھ درباری اور چند غلام بھی ساتھ تھے۔ ان میں ایک غلام ایسا تھا جو پہلے کبھی کشتی میں نہ بیٹھا تھا اس لیے وہ بہت خوفزدہ تھا اور ڈوب جانے کے خوف سے رو رہا تھا۔ بادشاہ کو اس کا اس طرح رونا اور خوف زدہ ہونا بہت ناگوار گزر رہا تھا لیکن غلام پر منع کرنے اور ڈانٹنے ڈپٹنے کا بالکل اثر نہ ہوتا تھا۔

        کشتی میں ایک جہاندیدہ اور دانا شخص بھی سوار تھا۔ اس نے غلام کی یہ حالت دیکھی تو بادشاہ سے کہا کہ اگر حضور اجازت دیں تو یہ خادم اس خوفزدہ غلام کا ڈر دور کر دے؟ بادشاہ نے فوراً اجازت دے دی اور دانشمند شخص نے غلاموں کو حکم دیا کہ اس شخص کو اٹھا کر دریا میں پھینک دو۔

        غلاموں نے حکم کی تعمیل کی اور رونے والے غلام کو اٹھا کر دریا کے اندر پھینک دیا۔ جب وہ تین چار غوطے کھا چکا تو دانا شخص نے غلاموں سے کہا کہ اب اسے دریا سے نکلا کر کشتی میں سوار کر لوَ چنانچہ غلاموں نے اس کے سر کے بال پکڑ کر کشتی میں گھسیٹ لیا اور وہ غلام جو ذرا دیر پہلے ڈوب جانے کے خوف سے بڑی طرح رو رہا تھا بالکل خاموش اور پر سکون ہو کر ایک طرف بیٹھ گیا۔

        بادشاہ نے حیران ہو کر سوال کیا کہ آخر اس بات میں کیا بھلائی تھی کہ تم نے ایک ڈرے ہوئے شخص کو دریا میں پھنکوا دیا تھا اور مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ اب خاموش بھی ہو گیا ہے؟

        دانا شخص نے جواب دیا حضور والا! اصل بات یہ تھی کہ اس نے کبھی دریا میں غوطے کھانے کی تکلیف نہ اٹھائی تھی۔ اس طرح اس کے دل میں اس آرام کی کوئی قدر نہ تھی جو اسے کشتی کے اندر حاصل تھا۔ اب ان دونوں کی حقیقت اس پر روشن ہو گئی اور خاموش ہو گیا۔

        جس نے دیکھی نہ ہو کو ئی تکلیف قدر آرام کی وہ کیا جانے
        نعمتوں سے بھرا ہو جس کا پیٹ جو کی روٹی کو کب غذا مانے

        سبق: حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں انسان کی یہ نفساتی کیفیت بیان فرمائی ہے کہ جس شخص نے کبھی تکلیف دیکھی ہی نہ ہو وہ اس کی قدر و قیمت سے آگاہ نہیں ہوتا جو اسے حاصل ہے۔ اس کے علاوہ ایساشخص جسارت اور قوت برداشت سے بھی محروم ہوتا ہے۔ مسرت اور کامیاب زندگی وہی شخص گزار سکتا ہے جو رنج و راحت دونوں سے بخوبی آگاہ ہو
        اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
        اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

        Comment


        • #79
          Re: behtreen aqwaal

          صوفیاء حقیقت تک رسائی کے لیے عشق کو لازمی سمجھتے ھیں
          اُن کے نزدیک حیات و کائنات کی ساری جلوہ آرائی عشق کا حامل ھے
          عشق اللہ کی ذات سے کرنا ھوتا ھے ۔اگر کوئی مرد کسی عورت سے عشق کرتا ھے تو اس عشق کے پیش نظر اس عورت کا وجود ھوتا ھے
          کیونکہ عشق کرنے کے لئےوجودکا ھونا لازمی ھے اور جب تک عاشق معشوق کا وجود نہ بنائے وہ عشق کر ھی نہیں سکتا ۔چونکہ اللہ کا کوئی وجود نہیں ھے لیکن اس سے کوئی وجود خالی بھی نہیں ھے۔
          یہ وہ اسرار ھیں جن کو ھم یہاں بیان نہیں کرینگے کیونکہ یہ سینے کی باتیں ھیں اور ھم ان کو پوشیدہ تلقین کرتے ھیں اور عام مسلمانوں سے چھپاتے ھیں۔اللہ کہتا ھے " اللہ جانتا ھے جو کچھ تم ظاھر کرتے ھو اور جو کچھ چھپاتے ھو وہ تو سینے والی بات جانتا ھے"

          حضرت بوعلی شاہ قلندر رحمتہ اللہ علیہ
          اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
          اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

          Comment


          • #80
            Re: behtreen aqwaal

            jazaka Allah khair

            Comment


            • #81
              Re: behtreen aqwaal

              ’’شاید قدرت انسانی ذہن کی اڑان وہاں تک رکھتی ہے، جہاں تک اس جہانِ ناتمام میں ممکنات کی حد ہو۔ ورنہ یہ مصنف، رائٹر اور قلمکار وہ سب کچھ کیسے سوچ اور لکھ لیتے ہیں، جو کبھی ان کے ساتھ پیش ہی نہ آیا ہو۔ یہ تخیل کیا بلا ہے، جو انہونی کو بھی ہونی کر کے لکھتا ہے۔‘‘

              (ہاشم ندیم کے ناول ’’پری زاد‘‘ سے اقتباس)
              اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
              اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

              Comment


              • #82
                Re: behtreen aqwaal

                مزیدار کھانا کھانے کے بعد اس نے بل منگوایا، پیسے نکالنے کیلئے جیب میں ہاتھ ڈالا، بٹوا نا پا کر نادیدہ خوف سے اس کی حالت ہی خراب ہو گئی۔ ہسٹیرائی انداز میں اوپر نیچے جیبوں کو ٹٹولا مگر بٹوہ کہاں سے ملتا، وہ تو دفتر سے نکلتے ہوئے میز پر ہی رہ گیا تھا۔ سر جھکائے آنے والی ممکنہ پریشانیوں اور انکے حل پر غور کرتا رہا۔ کوئی راہ نا پا کر کاؤنٹر کی طرف چلدیا تاکہ اپنی گھڑی ضمانت کے طور رکھوا کر جائے اور پیسے لیکر آئے۔

                بل میز پر رکھتے ہوئے کیشیئر کو ابھی کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ وہ خود ہی بول پڑا؛ جائیں جی آپ کا بل ادا ہو چکا ہے۔
                حیرت کے مارے اس نے سوال کیا؛ مگر کس نے ادا کیا ہے؟
                کیشیئر نے کہا ابھی آپ سے پہلے اس باہر جانے والے آدمی نے دیا ہے۔
                اس نے کہا؛ تو میں اسے کیسے واپس لوٹاؤں گا یہ پیسے، میں تو اسے جانتا ہی نہیں؟
                کیشیئر نے کہا؛ کسی کو ایسی صورتحال میں پھنسا مجبور دیکھنا تو آپ بھی آگے بڑھ کر ادا کردینا، نیکی اسی طرح تو آگے چلا کرتی ہے۔
                اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
                اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

                Comment


                • #83
                  Re: behtreen aqwaal

                  جانتی ہو پری! جب میں نے تمہیں مارگلہ کی پہاڑیوں پر پہلی دفعہ دیکھا تھا تو مجھے کیا لگا؟ مجھے لگا میں واقعی کسی پری کو دیکھ رہا ہوں۔ تم نے وائٹ اور پنک رنگ پہن رکھا تھا‘ تمہیں یاد ھے؟ میں یوں کبھی بھی اجنبیوں سے فرینک نھیں ھوتا میری طبیعت کچھ اور ہے۔ موڈی کہ لو‘ اکھڑ کہ لو۔۔۔ مگر تم سے بات کرنے کو میرا دل چاہا تھا۔
                  تمہیں دیکھ کر مجھے یوں لگا تھا جیسے میں تمہیں جانتا ہوں‘ ہزاروں برس سے جانتا ھوں‘ تم میری ذات کا وہ گمشدہ حصہ ہو جو ٹوٹ کر الگ ہو گیا تھا‘ ہم دونوں صدیوں پہلے کسی اور دنیا میں بچھڑے تھے اور اس روز مارگلہ کی پہاڑیوں پرپھر سے مل گئے تھے۔ تمہیں بھی ایسا لگتا ھے پری؟

                  نمرہ احمد کے ناول ’’قراقرم کا تاج محل‘‘ سے اقتباس
                  اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
                  اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

                  Comment


                  • #84
                    Re: behtreen aqwaal

                    ایک بزرگ کسی شہد بیچنے والے کے قریب سے گزرے . انھوں نے دیکھا کۂ شہد کے برتن پر بے شمار مکھیاں بیٹھی هیں . وه بزرگ وهیں کھڑے هو کر برتن کو دیکھنے لگے .
                    جب شہد پر حد سے زیادہ مکھیاں بیٹھ گئیں تو دکاندار نے حسب معمول مکھیاں اڑانے کیلئے هاتھ والا پنکھا هلایا .
                    جو مکھیاں برتن کے کناروں پر بیٹھی تھیں وه تو فورا اڑ گئیں .
                    لیکن جو حریص مکھیاں شہد کے اوپر بیٹھی تھیں وه پھنس کر ره گئیں .
                    وه بزرگ یه منظر دیکھ کر بےھوش هو گئے . جب هوش میں آئے تو لوگوں نے بے هوشی کی وجه پوچھی .
                    وه فرمانے لگے
                    شہد کی مثال دنیا
                    جیسی هے . مکھیاں ، انسان هیں اور پنکھا ملک الموت هے .
                    جو لوگ قناعت اختیار کریں گے وه موت اور موت کے بعد کی تلخیوں سے نجات پا جائیں گے . لیکن جو لوگ لالچی اور حریص طبیعت کے مالک هوں گے اور دن رات دنیا میں مشغول رهیں گے وه موت کے بعد انھی حریص مکھیوں کی طرح پھنس کر ره جائیں
                    اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
                    اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

                    Comment


                    • #85
                      Re: behtreen aqwaal

                      عرب میں ایک عورت تھی اس کا نام اُم جعفر تھا۔ انتہائی سخی تھی۔ لوگوں میں ایسے تقسیم کرتی تھی کہ دائیں کو بائیں ہاتھ کا پتا نہ چلے۔ کچھ دنوں سے وہ ایک راستے سے گزرنے لگی۔ اس راستے پر دو اندھے بیٹھے ہوتے۔ یہ دونوں صدائیں لگاتے۔ ایک کی صدا ہوتی: "الٰہی! مجھے اپنے فضل و کرم سے روزی عطا کر۔ " دوسرا اندھا کہتا: "یا رب مجھے ام جعفر کا بچا ہوا عطا کر۔"

                      ام جعفر ان دونوں کی صدائیں سنتی اور دونوں کو عطا کرتی۔ جو شخص الله کا فضل طلب کر رہا تھا، اسے دو درہم دیتی جبکہ "ام جعفر" کے فضل کے طلبگار کو ایک بھنی ہوئی مرغی عطا کرتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جسے مرغی ملتی، وہ اپنی مرغی دوسرے اندھے کو دو درہم میں بیچ دیتا۔ کئی دنوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ایک دن ام جعفر اس اندھے کے پاس آئی جو ام جعفر کا فضل طلب کرتا تھا اور اس سے سوال کرتا تھا اور اس سے سوال کیا: "کیا تمہیں سو دینار ملے ہیں؟" اندھا حیران ہو گیا۔ اس نے کہا: "نہیں! مجھے صرف ایک بھنی ہوئی مرغی ملتی تھی جو میں دو درہم میں بیچ دیتا تھا"۔ ام جعفر نے کہا: "جو الله کا فضل طلب کر رہا تھا، میں اسے دو درہم دیتی اور تمہیں بھنی ہوئی مرغی میں دس دینار ڈال کر دیتی رہی۔" اندھے نے اپنا سر پیٹنا شروع کر دیا۔ وہ چیخنے اور چلانے لگا: "ہائے میری کمبختی، کاش میں ایسا نہ کرتا۔ میں مارا گیا۔" ام جعفر نے کہا: "یقینا اللہ کا فضل طلب کرنے والا کامیاب ہے اور انسانوں کے فضل کا طلبگار محروم ہے۔"

                      جو الله کے فضل کے سوا دیگر راستے تلاش کرتے ہیں، انھیں دنیا میں گھاٹا ملتا ہے اور آخرت میں رسوائی نصیب ہوتی ہے۔ کم ہی ایسے ہوں گے جو فاقوں سے مر جاتے ہوں گے۔ اس کے باوجود اس دنیا میں ایسوں کی کمی نہیں جو درہم و دینار کی خاطر ایمان تک بیچ دیتے ہیں۔
                      اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
                      اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

                      Comment


                      • #86
                        Re: behtreen aqwaal

                        bohat aala

                        Comment


                        • #87
                          Re: behtreen aqwaal

                          بندے کو اپنے کسی عمل پر پھولنا نہیں چاہئیے۔ اس لیئے کے وہ اس کے رب کی طرف سے ہوتا ہے۔توفیق بھی وہی دیتا ہے۔ قوتِ عمل بھی اس کی دی ہوئی ہے۔ راستہ بھی وہی بناتا ہے۔ اور بندے کے اندر عمل کی تلقین بھی وہی ڈالتا ہے۔ بندے کا تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اچھا عمل کر کے خود پر فخر کر لیا تو سب کچھ تباہ کر لیا۔دوسری بات یہ کے اللہ کے لئے کرو تو اس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔ جتنی بھاری قیمت ادا کرو گے عمل اُتنا ہی مقبول ہو گا۔ مگر قیمت ادا کرنے کے بعد کے آداب بھی ہیں۔ قیمت ادا کر کے پچھتائے، افسوس کیا، غم کیا تو سب کچھ ختم،جتنی بڑی قیمت ادا کرو اُتنی ہی خندہ پیشانی سے رہو۔ اللہ کے عام بندوں میں اور خاص بندوں میں یہ ہی فرق ہے۔

                          اقتباس:
                          عشق کا عین۔
                          اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
                          اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

                          Comment


                          • #88
                            Re: behtreen aqwaal

                            ایران کا بادشاہ دارا اپنے محافظ فوجی دستے کے ہمرا٥ جنگل میں شکار کھیلنے گیا. شکار کے دوران بادشاہ ایک ہرن کا تعاقب کرنے لگا. ہرن نہایت ہی تیز رفتار تھا اور دوڑنے میں بادشا٥ کا گھوڑا اس کا مقابلہ نہ کرسکتا تھا. پھر بھی دارا بادشا٥ نے ہرن کا پیچھا نہ چھوڑا. کافی دیر بادشاہ اس کا پیچھا کرتا رہا مگر ہرن ہاتھ نہ آیا. دارا تھک گیا تو اس نے ہرن کو شکار کرنے کا خیال دل سے نکال دیا. مگر ہرن کے چکر میں وہ اپنے لشکر سے بچھڑ چکا تھا. وہ ایک جگہ رک گیا اور اندازہ لگانے لگا کہ اس کے ساتھی کس سمت گئے ہیں. لیکن اسے کچھ سمجھ نہ آیا.
                            اچانک اس نے ایک آدمی کو دیکھا وہ دوڑتا ہوا بادشا٥ کی طرف آرہا تھا بادشا٥ سمجھا کوئی دشمن ہے جو اسے تنہا پاکر حملہ کرنے کی نیت سے دوڑا چلا آرہا ہے. بادشاہ نے جلدی سے تیر کمان میں جوڑ لیا. وہ جانتا تھا کہ گھروں میں عام طور پر ایسے پھول ہوتے ہیں جن پر کانٹے ہوتے ہیں لیکن جنگل میں زیادہ تر خاردار پھول ہیں. اس لئے احتیاط کا تقاضا یہی تھا کہ وہ دشمن کو قریب آنے سے پہلے ہی شکار کرلیتا لیکن آنے والا ایک چرواہا تھا اس نے دور سے دیکھ لیا کہ ایک اجنبی نے اس پر تیر برسانے کے لئے نشانہ باندھ رکھا ہے تو وہ گھبرا گیا.
                            مجھے تیر نہ مارو میں دشمن نہیں دوست ہوں چرواہے نے کہا.
                            پھر قریب آکر اس نے بادشا٥ کو پہچان لیا اور کہنے لگا عالی جاہ میں تو آپ کا غلام ہوں آپ کے گھوڑوں کی دیکھ بھال کرتا ہوں.
                            دارا بادشاہ اسے دشمن سمجھ کر خوفزدہ تھا مگر جب اس نے چرواہے کی بات سنی تو اس کا خوف جاتا رہا. اس نے ہنستے ہوئے چرواہے سے کہا تیری قسمت اچھی تھی تو بچ گیا اگر غیبی فرشتے نے تیری مدد نہ کی ہوتی تو اب تک میرے تیر سے ہلاک ہوچکا ہوتا کیونکہ میں تیر چھوڑنے ہی والا تھا.
                            دارا بادشاہ کی بات سن کر چرواہا بھی ہنس پڑا. پھر ادب سےکہنے لگا
                            حضور میری ایک نصیحت سن لیں تو آپ کی مہربانی ہوگی.
                            بولو کیا کہنا چاہتے ہو بادشاہ نے حیران ہوتے ہوئے کہا
                            چرواہا کہنے لگا میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں جناب کہ جو بادشاہ دوست اور دشمن کی تمیز نہیں لا سکتا بھلا وہ بھی کوئی بادشاہ ہے.
                            بادشاہ نے کہا اپنی بات کی وضاحت کرو.. عالی جاہ حقیقت میں بڑا وہی ہے جو آپنے ہر چھوٹے کو پہچانتا اور اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتا ہوں.
                            میں آپ کے لیے کوئی اجنبی تو نہیں ہوں. آپ کے گھوڑوں کی دیکھ بھال کرنے والے سائیس کی حیثیت سے آپ کے دربار میں اکثر حاضر ہوتا ہوں. آپ بھی اکثر اوقات مجھ سے گھوڑوں اور چراگاہوں کے بارے میں سوال و جواب کرتےجواب رہتے ہیں. اس کے باوجود آپ مجھے اپنا دشمن سمجھ کر مجھ پر تیر چلانے کا ارادہ کرلیا
                            اور مجھے پہچاننے کی کوشش تک نہیں کی حالانکہ میں اپنے مالک اور اپنے کام سے کبھی غافل نہیں رہتا. میری تو حالت یہ ہے کہ آپ کے حکم میں لاکھ گھوڑوں میں سے آپکا پسندیدہ اور مطلوبہ گھوڑا نکال کر دکھا سکتا ہوں.
                            چرواہے کی بات سن کر بادشاہ کو کچھ ندامت ہوئی.
                            چرواہا کہہ رہا تھا
                            بادشاہ سلامت جس طرح میں اپنے فرض کو پہچانتا اور ادا کرتا ہوں اور پوری ہوشیاری اور عقل مندی سے تیرے گھوڑوں کی دیکھ بھال کرتا ہوں. اسی طرح آپ کو بھی ہوشیاری سے حکومت کرنی چاہیے اور اپنی رعایا کی دیکھ بھال کرنی چاہیے
                            ورنہ یاد جس بادشاہ کا انتظام سلطنت کے چرواہوں سے بھی بدتر ہو اور وہ اپنی رعایا کی حفاظت نہ کرسکتا ہو اس کا تاج و تخت بھلا کیسے محفوظ رہ سکتا ہے..
                            ماخوذ حکایت سعدی.
                            اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
                            اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

                            Comment


                            • #89
                              Re: behtreen aqwaal

                              صبح سرسبز اور لہلہلاتی سی اتر رہی تھی۔ ٹھنڈی ہوا سرسراتی ہوئی اسکے کانوں سے ٹکرا رہی تھی۔ وہ سب ہوا، پہاڑ، درخت گواہ تھے بھائی جی کی موت کے۔ مگر کاش اُن سب کو انسان کی بولی سمجھ آتی یا انسان اُنکی اور یہ ہمیں اپنے ساتھ بیتنے والے تمام واقعات، دھوکے، سب بتا دیا کریں۔ ہر شے صاف صاف معلوم ہو جاتی، نہ لوگ جھگڑتے، نہ جھوٹ بولتے، نہ عدالت میں مقدمے جیتنے کے لیے وکیل ہائر کرتے، کتنا امن، سکون ہوتا۔ جب کوئی راز، راز نہ رہتا۔ مگر شاید اللہ کو ان پتھر اور پتوں پہ انسان سے زیادہ بھروسا ہے تبھی ان کی گواہی کو اس دنیا میں انسان کے سامنے بیان کرنے اور انسان کو اسکو توڑ موڑ کر اپنے فائدے کے لئے استعمال کر کے اسکی توہین کرنے سے بچانے کے لیے اس نے انہیں قیامت کے بڑے دن تک مؤخر کر دیا ہے۔ کہ جس روز دنیا سے ’’راز‘‘ ختم ہو گئے وہ قیامت کا پہلا دن ہوگا۔

                              (نمرہ احمد کے ناول "پارس" سے اقتباس)
                              اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
                              اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

                              Comment


                              • #90
                                Re: behtreen aqwaal

                                وہ ایک جبس بھری سی شام تھی۔ایسا لگ رہا تھا جیسے ہوا کا دم گھٹ کر رہ گیا ہو۔
                                فضاؤں میں عجیب سی اداسی تھی۔سکینہ نے کھڑکی کھولی تو اسی لمحے بجلی کے ایک تار پر کرنٹ لگنے سے ایک معصوم فاختہ زمین پر گری اور اسنے تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔سکینہ کو لگا جیسے کسی نے اسکا دل مٹھی میں پکڑ کر مسل دیا ہو۔ اسی لمحے ڈاکٹر خاور اسکے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے ۔
                                “کیا ہوا سکینہ۔۔۔۔۔طبیعت ٹھیک ہے۔“ انہون نے اس کا پسینے سے شرابور چہرہ دیکھا۔
                                “ ڈاکٹر صاحب! وہ فاختہ مر گئی۔اس نے ہاتھ کی انگلی سے باہر کی جانب اشارہ کیا۔ڈاکٹر خاور نے اسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھا۔
                                “اوہ سو سیڈ۔“وہ ہمدردی سے بولے۔
                                “ نروس کیوں ہو سکینہ ! الله بہت بہتر کرے گا۔“
                                ڈاکٹر خاور آج خصوصی طور پر وقت نکال کر اس کے پاس آئے تھے تاکہ اسکا حوصلہ بڑھا سکیں۔صبح سات بجے اسے آپریشن تھیٹر میں لے جانا تھا۔
                                “ پتا نہیں ۔۔“ اسکی اداس آنکھوں میں عجیب سی وحشت ابھری۔
                                انہوں نے مسکرا کر اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔

                                “مجھے معلوم ہے کہ یہ جسمانی بیماری میرا کچھ نہیں بگاڑے گی لیکن میری بد قسمتی کے جالے میں پھنسی میری محبت کسی مکڑی کی طرح زیادہ دیر سانسیں نہیں لے سکے گی۔ حبس کے موسم بھلا کب کسی کو راس آتے ہیں۔وہ پھر پھیکے سے انداز سے مسکرائی۔ڈاکٹر خاور کو پہلی دفعہ اس کی آنکھوں سے چھلکتے جذبوں سے خوف آیا۔

                                “ پتا ہے ڈاکٹر خاور ! مجھے آپ کی مسیحائی سے کوئی گلہ نہیں۔آپ نے میرا اس وقت ساتھ دیا۔جب ساری دنیا مجھے دھتکار چکی تھی۔آپ نے اس وقت مجھے عزت و احترام بخشا۔جب سب کی آنکھوں میں میرے لیے تمسخر جھلکتا تھا۔آپ نے اس وقت میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ کے پھول کھلائے جب میری زندگی میں ہر طرف خزاں ڈیرے ڈالے ہوئے تھی۔میں ٹھیک ہوتی ہوں یا نہیں ، مجھے ساری زندگی اس کوہان کے ساتھ رہنا ہوگا یا نہیں؟ میرا دل ان تمام چیزوں سے بےنیاز ہوچکا ہے۔مجھے بس اس چیز پر فخر ہے کہ آپ نے مجھے کبھی مایوسی کے سمندر میں دھکیلنے کی کوشش نہیں کی۔دوسرے مسیحاؤں کی طرح مجھے کبھی نہیں کہا کہ۔۔۔۔۔۔ سکینہ تمھارا مرض لاعلاج ہے۔میں آپکا احسان زندگی بھر نہیں اتار سکوں گی۔“
                                سکینہ کی آنکھوں میں آنسو ایک لڑی کی صورت میں بہہ نکلے۔

                                صائمہ اکرم چوہدری کے ناول “ دیمک زدہ محبت “ سے اقتباس
                                اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
                                اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

                                Comment

                                Working...
                                X