’’تمہیں پتا ہے عائشے! جب میں چھوٹی تھی نا، دس، گیارہ سال کی، تب مجھے اسکارف پہننے کا بہت شوق تھا۔ میرے ابا اور تایا فرقان دونوں مجھے اکثر سر ڈھانپنے کو کہا کرتے تھے۔ انہیں ایسے بہت اچھا لگتا تھا۔ میری اماں بھی چاہتی تھیں کہ میں سر ڈھکا کروں، تاکہ میرے چہرے پہ نور آجائے اور میں اللہ تعالیٰ کے بہت قریب ہو جاؤں، انہوں نے مجھے قرآن حفظ کرنے کے لیے ایک اسلامک اسکول میں بھی داخل کرایا، مگر میں وہاں سے تیسرے روز ہی بھاگ آئی۔ تب میرا اسکارف پہننے کو بہت دل چاہتا تھا‘‘۔
’’تو کیوں نہیں لیا؟‘‘۔
جواباً حیا نے دھیرے سے شانے اُچکائے۔
’’مجھے آہستہ آہستہ سمجھ آگئی کہ میرا فیس کٹ ایسا ہے کہ میں اسکارف میں اچھی نہیں لگوں گی‘‘۔ وہ کہہ کر سر جھکائے کام کرنے لگی۔ عائشے اسی طرح ہاتھ روکے اس کو دیکھ رہی تھی۔
’’کس کو؟‘‘۔
’’ہاں؟‘‘ اس نے ناسمجھی سے سر اُٹھا کر عائشے کو دیکھا۔
’’تم کس کو اسکارف میں اچھی نہیں لگو گی؟‘‘۔
’’لوگوں کو‘‘۔
’’اور۔۔۔؟‘‘
’’اور کیمرے کو۔ مثلاً تصویروں میں‘‘۔
’’اور؟‘‘
’’اور خود کو؟‘‘
’’اور اللہ تعالیٰ کو؟‘‘ عائشے دھیرے سے مسکرائی۔ اس کی سبز آنکھیں نرم دھوپ میں سنہری لگ رہی تھیں۔ ’’ہوسکتا ہے تم اللہ تعالیٰ کو اسکارف میں بہت اچھی لگتی ہو‘‘۔ وہ ایک دم، بالکل سن ہوئی، عائشے کو دیکھے گئی۔
’’تو کیوں نہیں لیا؟‘‘۔
جواباً حیا نے دھیرے سے شانے اُچکائے۔
’’مجھے آہستہ آہستہ سمجھ آگئی کہ میرا فیس کٹ ایسا ہے کہ میں اسکارف میں اچھی نہیں لگوں گی‘‘۔ وہ کہہ کر سر جھکائے کام کرنے لگی۔ عائشے اسی طرح ہاتھ روکے اس کو دیکھ رہی تھی۔
’’کس کو؟‘‘۔
’’ہاں؟‘‘ اس نے ناسمجھی سے سر اُٹھا کر عائشے کو دیکھا۔
’’تم کس کو اسکارف میں اچھی نہیں لگو گی؟‘‘۔
’’لوگوں کو‘‘۔
’’اور۔۔۔؟‘‘
’’اور کیمرے کو۔ مثلاً تصویروں میں‘‘۔
’’اور؟‘‘
’’اور خود کو؟‘‘
’’اور اللہ تعالیٰ کو؟‘‘ عائشے دھیرے سے مسکرائی۔ اس کی سبز آنکھیں نرم دھوپ میں سنہری لگ رہی تھیں۔ ’’ہوسکتا ہے تم اللہ تعالیٰ کو اسکارف میں بہت اچھی لگتی ہو‘‘۔ وہ ایک دم، بالکل سن ہوئی، عائشے کو دیکھے گئی۔
Comment