''ہمیں اللہ تعالیٰ کو اپنی کسی بھی سچویشن کی وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ ہمارے حالات ہم سے زیادہ اچھے طریقے سے سمجھتا ہے۔ اس کی شریعت بھلے کتنی بھی سخت ہے، مگر اندھی نہیں ہے۔''
Announcement
Collapse
No announcement yet.
Unconfigured Ad Widget
Collapse
جنت کے پتے - Jannat key pattey
Collapse
X
-
اسکرین پر ٹپ ٹپ اس کے آنسو گرنے لگے- وہ کیوں نہیں سمجھ سکی کہ یہی اجنبی پن تو اسلام تها- ایسی ہی تو ہوتی ہیں اچهی لڑکیاں- عام لڑکیوں سے الگ، منفرد، مختلف- وہ دنیا میں گم، بےفکری سے قہقہے لگاتی، کپڑوں، جوتوں اور ڈراموں میں مگن لڑکیوں جیسی تو نہیں ہوتیں- اجنبیت ہی ان کی شناخت ہوتی ہے- وہ ساحل کی کیچڑ پہ چمکنے والا الگ سا موتی ہوتی ہیں- اجنبی موتی-Never stop learningbecause life never stop Teaching
Comment
-
’’مجھے ابھی تک یقین نہیں آرہا کہ خدیجہ۔۔۔اتنا اچانک کیسے ہوا؟‘‘
’’اللہ کی مرضی تھی معتصم! ڈاکٹر کہہ رہا تھا کہ بیری اینورزم پھٹے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ اچانک سے انسان کو لیپس کرتا ہے اوراچانک مرجاتا ہے۔ بہت کم لوگوں کوچند روز قبل سردرد شروع ہوتا ہے، ڈی جے کو بھی ہوا تھا مگر اس نے میگرین سمجھ کر نظرانداز کیے رکھا اور پھر۔۔۔ پھر سب ختم ہوگیا۔‘‘
’’دوستوں کو کھونا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ میں سمجھ سکتا ہوں۔‘‘ وہ دونوں اسی طرح چوکھٹ پہ کھڑے تھے۔
’’میں تو تب سے یہی سوچ رہی ہوں معتصم! کہ کیا زندگی اتنی غیریقینی چیز ہے؟ ایک لمحے پہلے وہ میرے ساتھ تھی اور اگلے لمحے وہ نہیں تھی۔ موم بتی کے شعلے کی طرح بے ثبات زندگی جو ذرا سی پھونک سے بجھ جائے۔۔۔ لمحے بھر کا کھیل؟‘‘
’’یہی اللہ تعالیٰ کاڈیزائن ہے حیا اور ہمیں اسے قبول کرنا پڑے گا۔''Never stop learningbecause life never stop Teaching
Comment
-
احمد کا جواب آیا تو اسکرین جگمگا اٹھی۔ اس نے پیغام کھولا۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔
اسلام شروع میں اجنبی تھا۔
عنقریب یہ پھر اجنبی ہو جائے گا۔
اور
سلام ہو ان اجنبیوں پہ!‘‘
اسکرین پہ ٹپ ٹپ اس کے آنسو گرنے لگے۔ اوہ اللہ! اس نے بے اختیار دونوں ہاتھوں میں سر گرالیا۔
وہ کیوں نہیں سمجھ سکی کہ یہی اجنبی پن تو اسلام تھا۔
ایسی ہی تو ہوتی ہیں اچھی لڑکیاں۔ عام لڑکیوں سے الگ، منفرد، مختلف۔ وہ دنیا میں گم، بے فکری سے قہقہے لگاتی، کپڑوں، جوتوں اورڈراموں میں مگن لڑکیوں جیسی تو نہیں ہوتیں۔ اجنبیت ہی ان کی شناخت ہوتی ہے۔ وہ ساحل کی کیچڑ پہ چمکنے والا الگ سا موتی ہوتی ہیں۔ اجنبی موتی۔Never stop learningbecause life never stop Teaching
Comment
-
کون جانے کہ اس نئے سفر پہ اسے اس کی بچھڑی ہوئی دوستیں واپس مل جائیں؟
کون جانے کہ عائشے اور بہارے بھی مصر میں رہتی ہوں؟
کون جانے کہ عائشے اب بھی ویسی ہی سادہ اور مذہبی سی ہو، جبکہ بہارے ایک خوبصورت ٹین ایج لڑکی میں بدل گئی ہو؟
جہان کو جاب کی وجہ سے ان سے رابطہ کرنے کی اجازت نہ تھی، مگر۔۔۔ حیا نے اپنے سامنے موجود دونوں نفوس کو دیکھتے ہوئے زیرِلب مسکراتے ہوئے سوچا۔۔۔
مگر کون جانے کہ حیا نے اُن سے رابطہ کبھی ترک ہی نہ کیا ہو؟
کیونکہ چیزیں جتنی ناممکن ہوتی ہیں،
وہ اتنی ہی ممکن بھی تو ہوتی ہیں نا۔
مگر۔۔۔ کون جانے!Never stop learningbecause life never stop Teaching
Comment
-
’’مگر کب سر؟ کب میں تبدیلی دیکھوں گی؟‘‘ اس کی آواز میں نمی تھی۔
’’مزدور کو اُجرت مزدوری شروع کرتے ہی نہیں ملتی حیا! بلکہ جب مطلوبہ کام لے لیا جاتا ہے تب ملتی ہے، شام ڈھلے، مگر کام ختم ہوتے ہی مل جاتی ہے، اس کے پسینے کے خشک ہونے کا انتظار کیے بغیر۔ ابھی آپ نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا صرف تمنا اور خواہش سے نہیں مل جاتی۔ اس کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے راستے میں تھکنا پڑتا ہے، پھر ہی اُجرت ملتی ہے۔''Never stop learningbecause life never stop Teaching
Comment
-
''حیا! یہ جو چھوٹے چھوٹے طنز اور طعنے ہوتے ہیں نا، ان سے بچا کرو ۔ مکہ میں چند بڑے بڑے سردار تھے ..جو یونہی چھوٹے چھوٹے طنز کرجاتے تھے۔۔۔۔پھر کیا ہوا ؟ وہ بدر سے پہلے چھوٹی چھوٹی تکلیفوں سے مر گئے۔۔۔کوئی خراش سے مرا تو کوئی چھوٹے سے پھوڑے سے''Never stop learningbecause life never stop Teaching
Comment
-
’’سات دن۔۔۔ سات شہر! کتنا مزا آئے گانا!‘‘ ڈی جے نے چشم تصور سے خوب صورت ترکی کو دیکھتے آنکھیں بند کرکے کھولیں۔
’’مزا تو چھوٹا لفظ ہے ڈی جے! مجھے تو خود پہ رشک آنے لگا ہے۔ کیا زندگی اتنی حسین بھی ہوسکتی ہے۔؟‘‘
وہ دونوں استقلال اسٹریٹ میں داخل ہوگئی تھیں۔ وہاں ہمیشہ کی طرح رش تھا۔ دونوں اطراف میں بنے ریسٹورنٹس اوردکانوں کی رونق عروج پہ تھی۔
’’ترکی کا نقشہ ہمارے پاس ہے۔ ہم روز ایک شہر جائیں گے۔ ایک رات ادھر قیام کریں گے اورپھر وہاں سے قریبی شہر کی بس پکڑ کر آگے چلے جائیں گے۔ یوں سات دنوں میں ہمارے سات شہر ہوجائیں گے۔‘‘
’’اورکپادوکیہ میں ہاٹ ایربیلون کی فلائٹ بھی لیں گے۔ کتنا مزا آئے گا حیا! جب ہم بیلون کی ٹوکری میں بیٹھے اوپر فضا میں تیر رہے ہوں گے اور پورا ترکی ہمارے قدموں تلے ہوگا۔‘‘Never stop learningbecause life never stop Teaching
Comment
-
’’مجھے ابھی تک یقین نہیں آرہا کہ خدیجہ۔۔۔اتنا اچانک کیسے ہوا؟‘‘
’’اللہ کی مرضی تھی معتصم! ڈاکٹر کہہ رہا تھا کہ بیری اینورزم پھٹے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ اچانک سے انسان کو لیپس کرتا ہے اوراچانک مرجاتا ہے۔ بہت کم لوگوں کوچند روز قبل سردرد شروع ہوتا ہے، ڈی جے کو بھی ہوا تھا مگر اس نے میگرین سمجھ کر نظرانداز کیے رکھا اور پھر۔۔۔ پھر سب ختم ہوگیا۔‘‘
’’دوستوں کو کھونا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ میں سمجھ سکتا ہوں۔‘‘ وہ دونوں اسی طرح چوکھٹ پہ کھڑے تھے۔
’’میں تو تب سے یہی سوچ رہی ہوں معتصم! کہ کیا زندگی اتنی غیریقینی چیز ہے؟ ایک لمحے پہلے وہ میرے ساتھ تھی اور اگلے لمحے وہ نہیں تھی۔ موم بتی کے شعلے کی طرح بے ثبات زندگی جو ذرا سی پھونک سے بجھ جائے۔۔۔ لمحے بھر کا کھیل؟‘‘
’’یہی اللہ تعالیٰ کاڈیزائن ہے حیا اور ہمیں اسے قبول کرنا پڑے گا۔''Never stop learningbecause life never stop Teaching
Comment
-
’’میں پناہ مانگتا ہوں اللہ تعالیٰ کے دھتکارے ہوئے شیطان سے۔ اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان اور بار بار رحم کرنے والا ہے‘‘۔
قرأت کرنے والا بچہ سنہرے بالوں والا ترک تھا، جس نے سر پہ جالی دار ٹوپی لے رکھی تھی۔ باقی بچے خاموش تھے۔ وہ اپنی باریک، مدھر آواز میں پڑھ رہا تھا۔
’’آپ ایمان لانے والی عورتوں سے کہہ دیں کہ وہ اپنی نگاہیں جھکا کر رکھا کریں اور اپنے قابل ستر اعضا کی حفاظت کیا کریں‘‘۔
وہ جو جماہی روکتی ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی، ایک دم گڑبڑا کر سیدھی ہو بیٹھی۔
’’اور وہ اپنی زینت ظاہر نہ کیا کریں، سوا اس کے جو خود ظاہر ہو جائے‘‘۔
کم سن بچے کی آواز نے سارے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ہر سو ایک سحر سا طاری ہو رہا تھا۔ حیا نے بے اختیار سر پر اوڑھے دوپٹے سے کان ڈھکے، جن میں اس نے موتی والی بالیاں پہن رکھی تھیں۔ وہی موتی جو جہان کے سیپ سے نکلے تھے۔ بہارے نے اسے ایک ایک موتی دونوں بالیوں میں پرو دیا تھا۔ تیسرا موتی حیا نے سنبھال رکھا تھا۔
’’اور انہیں چاہیے کہ اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پہ ڈالے رکھا کریں‘‘۔
کسی معمول کی سی کیفیت میں اس نے گردن جھکا کر دیکھا۔ اس کا شیفون کا دوپٹا سر پہ تو تھا مگر گردن پہ اس نے مفلر کی طرح لپیٹ رکھا تھا۔ قدرے خفت سے اس نے دوپٹہ کھول کر شانوں پہ ٹھیک سے پھیلا کر لپیٹا، اس وقت سوائے حکم ماننے کے اسے کوئی چارہ نظر نہیں آیا تھا۔ یہ عائشے گل کی باتیں نہیں تھیں، جن پہ اُلجھ کر ان کو ذہن سے جھٹکا جا سکتا تھا۔ یہ حکم بہت اوپر آسمانوں سے آیا تھا۔ وہاں سے، جہاں انکار نہیں سنا جاتا تھا، جہاں صرف سر جھکایا جاتا تھا۔Never stop learningbecause life never stop Teaching
Comment
Comment