Re: تھوڑی سیاست ہو جائے
محترم ساز صاحب اگر بات سارا خاتون کے تھریڈ سے تھوڑی ہٹ ہی گئی ہے تو چلیں میں بھی آپ کی باتوں کا جواب دیتا ہوں۔
میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے سوا کسی کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کرتا۔ مگر افسوس کہ اللہ کی حاکمیت دنیا میں کہیں بھی رائج نہیں اور موجودہ حالات کے مطابق کبھی ہو بھی نہیں پائے گی، تب تک جب تک ہم مسلمان قرآن کو سمجھ کر پڑھنا شروع نہیں کریں گے۔ لہذا دنیاوی نظام نہ مجھے اٹریکٹ کرتے ہیں نہ میں ان کے حق میں ہوں، نہ میں ووٹ ڈالنے والوں میں ہوں، نہ میں سیاست لڑنے والوں میں سے!۔
چلیں یہ تو تسلیم کرتے ہیں آپ کہ ان گیارہ سالوں کی جمہوریت نے(اوراب موجودہ حکومت کے سال بھی شامل کر لیجیے) ہمیں تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ مگر آپ اس پر بات کیوں نہیں کرنا چاہتے، آپ کے چہیتے لیڈر کا بھیانک چہرہ اسی دور کی عکاسی تو کرتا ہے جب پاکستانی عوام آٹے کے لیے بھٹکتی تھی اور شریف صاحب نے آٹا سٹاک کر لیا اور بُورا بھرا آٹا مارکیٹوں میں لایا گیا۔اپنے مفاد کے لیے پاکستان اسٹیل مل جو پاکستان کا فخر تھی، اسے اس قدر نقصان پہنچایا کہ اس کا ستیاناس ہو گیا۔ میں آپ کو اس دور کی اندھیر نگری کی ایک مکمل لسٹ مہیا کر سکتا ہوں۔
یہ تو محض بات ہے ورنہ پاکستان کبھی تاریخ میں اکیلا نہ ہوا ہے اور نہ ہو گاکیونکہ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان ایک انتہائی اہم ملک ہے عالمی سیاست کے لیے۔ اور مشرف سے دنیا اسی وقت واقف ہو گئی تھی جب اس نے کارگل فتح کیا تھا اور بل کلنٹن نے نوازشریف کو کہا تھاَ: بیٹا کارگل چھوڑ دو ٹافی دونگا، آپ نے وہ کارٹون نہیں دیکھے یا آپ دیکھنا ہی نہیں چاہتے؟؟ ہی ہی۔ یہ جو بات آپ کر رہے ہیں یہ بچگانہ باتیں ہیں جو پاکستان ہی میں کارآمد ہو سکتی ہیں۔ (جاری ہے)۔
میرے محترم دوست مسعود صاحب تو کہہ چکے کہ وہ پوری دنیا کے نظاموں سے مطمین نہیں تو کیا ہی بہتر ہو کہ پھر وہ(اسلامی نظام حیات کے علاوہ) کسی ایسےنظام کو سامنے لائیں جو پوری دنیا کو قابل قبول ہو اگر ایسا نہیں کر سکتے تو یا تو انہی نظاموں میں رہتے ہوئے اس کے اچھے برے کے لئے کام کریں اور اگر ایسا بھی نہیں کر سکتے تو پھر مجھ جیسےسادہ لوح افراد کو اپنی سوچ کے مطابق عمل کرنے دیں۔
کیونکہ آپ کے اس طرح کے خیالات سےمیرے جیسا (عام فرد) تب متاثر ہو جب ان الفاظ کو ادا کرنے والے کے پاس کچھ متبادل بھی موجود ہو۔
کیونکہ آپ کے اس طرح کے خیالات سےمیرے جیسا (عام فرد) تب متاثر ہو جب ان الفاظ کو ادا کرنے والے کے پاس کچھ متبادل بھی موجود ہو۔
بے شک کہ 1988 سے 1999 تک کا دور پاکستانی جمہور کے لئے کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑ سکا اکھاڑ پچھاڑ کی نظر ہونے والی حکومتیں جہاں اپنی کوتاہ نظری کا شکار ہوئیں وہیں ایجنسیوں اور بیورکریسی نے بھی ایک ایسا کردار ادا کیا جو اب کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔
میں اس گفتگو میں 1999 کے بعد کی صورتحال سے شامل ہونا چاہوں گا۔
میں اس گفتگو میں 1999 کے بعد کی صورتحال سے شامل ہونا چاہوں گا۔
جنرل پرویز(کہ اس کا اصل نام یہی ہے جسے کوئی بھی باشعور مسلمان رکھنا پسند نہیں کرتا)۔نے جب بغاوت کرتے ہوئے اعنان حکومت سنبھالا تو اُس وقت امریکی صدر بل کلنٹن نے اپنا دورہ پاکستان ملتوی کر دیا اور جب جارج بش الیکشن جیت کر امریکی صدر بنا تو ایک صحافی نے جب پاکستانی آمر کا نام لیا تو جارج بش کو اس آمر کا نام تک معلوم نہیں تھا، یہ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قارئین کو معلوم ہوجائے کہ پرویز اُس وقت کس عالمی تنہائی کا شکار تھا جب 11ستمبر کا واقع رونما ہوا۔
Comment