Announcement
Collapse
No announcement yet.
Unconfigured Ad Widget
Collapse
~*~KirDaaR~*~
Collapse
X
-
Re: ~*~KirDaaR~*~
Originally posted by munda_sialkoty View PostTujay kitni baar kaha tha ke larkiyoon ke pairoon ki khaaak mut chaat, is se gall blader mein stone ban jata he, per tu kahan maanta he
Anyways, wish you have a successful surgery
thankstumharey bas mein agar ho to bhool jao mujheytumhein bhulaney mein shayid mujhey zamana lagey
Comment
-
-
-
Re: ~*~KirDaaR~*~
وقت خود ہی یہ بتائے گا کہ میں زندہ ہوں
کب وہ مرتا ہے جو زندہ رہے کردار کے ساتھ
اسلام علیکم ! مجھ پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ میں کسی بھی سوال کہ جواب میں بے جا طوالت سے کام لیتا ہوں تو لہذا آج میں کوشش کروں گا کہ ہر سوال کا مختصر مگر جامع جواب عرض کرسکوں ۔
پہلاسوال یہ اٹھایا گیا کہ کردار کیا ہوتا ہے ؟
تو جوابا عرض ہے کہ انسان کہ چال چلن اور روش کو عرف میں کردار کہتے ہیں اس کہ دیگر بہت سے مترادفات بھی ہیں مثلا عمل عادت رول یا کام ۔ عربی زبان کہ لحاظ سے اس کا ایک مترادف لفظ اخلاق بھی ہے کہ جس کہ معنٰی عادت ، خصلت، خُو کہ ہوتے ہیں ۔
اس کہ بعد دوسرا اور تیسرا سوال بالترتیب یہ تھا کہ انسانی کردار کی تشکیل اور تکمیل کیسے ہو ؟
جوابا عرض ہے کہ کردار کی تشکیل کہ بہت سے درجہ بدرجہ مراحل ہیں سب سے پہلے تو یہ جان لیجیئے کہ انسانی فطرت دو چیزوں سے مرکب ہے ارادہ خیر اور شر، ان دونوں قوتوں میں تصادم ہمہ وقت جاری رہتا ہے لہزا بنیادی طور پر ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ کردار کی تشکیل یا نمو میں ان دونوں قوتوں کا بلاواسطہ اور مرکزی کردار ہے اور یہ کردار ہی ہوتا ہے کہ جس سے کوئی بھی شخصیت نمو پاتی ہے یعنی ایک تو یہ کہ کردار کی تشکیل میں ان دونوں عناصر (خیر اور شر )کا بنیادی عمل دخل ہے۔ اور دوسرے یہ کہ پھر شخصیت کی نمو میں خود کردار کا بڑا بنیادی رول ہوا کرتا ہے . ہمارےاس تجزیے کے دونوں عوامل کا تعلق انسان کی اپنی شخصیت کہ اندرون سےہوتا ہے۔اور یہاں آپ
خیر سے مراد انسان کی شخصیت کے مضبوط پہلو اور شر سے مراد انسان کی شخصیت کہ کمزور پہلو بھی لے سکتے ہیں .یہ دونوں تو انسانی زات کہ اندرونی پہلو یا اندرونی عوامل تھے اس کہ علاوہ دو ایسے عوامل بھی ہیں کہ جنکا تعلق انسانی ذات کہ بیرون یعنی اس کے ماحول سے ہے . ان میں سے ایک ہے مواقع یعنی آپرچیونیٹیز ۔ آپرچیونیٹیز سے ہماری مراد انسانی ماحول و معاشرے میں موجود ایسی چیزیں ہیں جو کہ انسان کی شخصیت کی تعمیر میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں جبکہ دوسرا بیرونی عنصر ہے خطرات یعنی تھریٹس۔ یہاں تھریٹس سے ہماری مراد وہ ماحولیاتی خطرات ہیں جو کہ کسی بھی انسان کی کردار کُشی میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں ۔اسی لیے آپ نے دیکھا ہوگا کہ تشکیل کردار یا تعمیر شخصیت کے دو پہلو ہوتے ہیں ایک منفی اور دوسرا مثبت یہاں آپ مواقع کو مثبت اور خطرات کو منفی میں شمار کریں ۔ لہزا انسان کو اپنے کردار کی تشکیل کہ لیے اپنی شخصیت کہ منفی پہلو سے نجات اور مثبت پہلو پر اصرار درکار ہوتا ہے ۔ اور اس کہ علاوہ اپنی شخصیت کی تعمیر کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنی شخصیت کے تمام پہلوؤں سے آگاہی رکھتا ہو۔ یہاں پر اوپر کسی ممبر نے کیا ہی خوب تجویز دی تھی خود آگاہی کی تو میری نظر میں بھی خود آگاہی ہی انسانی کردار و شخصیت کی تشکیل و تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرسکتی ہے لیکن اس کہ لیے سب سے زیادہ جو لازمی چیز ہے وہ ہے عظم و استقلال یعنی قوت ارادی کہ انسان کا ایک عظم کرکے پھر اس پر ڈٹ جانا ۔ وہ کسی دانشور نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ کامیاب اور ناکام انسان میں جسمانی قوت اور علم کا فرق نہیں ہوتا بلکہ قوت ارادی کا فرق ہوتا ہے۔ یعنی کامیاب انسان جو ارادہ کرتا ہے، اس پر عمل بھی کر لیتا ہے۔ لہزا ہماری نظر میں جب بھی کوئی انسان خود سے آگاہی حاصل کرتے ہوئے اس کہ پہلے مرحلے میں اپنی ذات کہ تمام منفی پہلوؤں پر قابو پالے اور مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرلے گا تو یہیں پرکردار کی تشکیل ہوجائے گی اور کردار کی اس تشکیل کہ بعد جب بندہ مستقل مزاجی سے اس پر قائم رہتے ہوئے خود شناسی کہ اگلے مرحلے داخل ہوتا ہے کہ جہاں پر خود شناسی کی اگلی منزل بندے کی منتظر ہوتی ہے یعنی خود شناسی کہ بعد خدا شناسی تو جیسے ہی بندہ خدا شناسی کی منزل سے ہمکنار ہوتا ہے تو اس کہ کردار کی تکمیل ہوجاتی ہے. اور خدا شناسی کی سب سے آخری منزل یہ ہے کہ کسی نے پوچھا ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعاٰلی عنھا سے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہ اخلاق (یعنی کردار یا صفات) کیا تھے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ کیا تونے قرآن نہیں پڑھا ؟ قرآن ہی تو اخلاق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔ ۔ ۔ اللہ و اکبر کتنی بڑی بات کہہ گئیں ام المومنین میرے ماں باپ آپ پر قربان اے مومنین کی ماں کہ آپ نے کتنی لطیف بات کتنے سہل انداز میں کردی قرآن کواخلاق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کا عین قرار دے دیا اور قرآن ہے اللہ پاک کا کلام سو اس لحاظ سے اللہ کی صفت ٹھرا جبکہ آپ سے سوال ہوا تھا اخلاق مصطفٰی یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کی بابت اور آپ نے جوابا فرمایا کہ وہ قرآن ہیں یعنی اللہ کی صفت قرآن اور قرآن ہے صفات مصطفٰی کا عین حاصل یہ آیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفات باری تعٰالی کا مظہر اتم ہیں ۔ سبحان اللہ اللہ و اکبرآخری سوال تھا کہ انسان کہ انسان کہ ساتھ تعلق میں کردار کی کیا اہمیت ہے ؟
جوابا
عرض ہے کہ کسی بھی انسان کہ دوسرے انسان کہ ساتھ تعلق میں سب سے زیادہ اور بنیادی اہمیت ہی کردار کی ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ والسلامLast edited by aabi2cool; 5 March 2009, 04:18.ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا
Comment
-
Re: ~*~KirDaaR~*~
Originally posted by aabi2cool View Postوقت خود ہی یہ بتائے گا کہ میں زندہ ہوں
کب وہ مرتا ہے جو زندہ رہے کردار کے ساتھ
جوابا عرض ہے کہ کردار کی تشکیل کہ بہت سے درجہ بدرجہ مراحل ہیں سب سے پہلے تو یہ جان لیجیئے کہ انسانی فطرت دو چیزوں سے مرکب ہے ارادہ خیر اور شر، ان دونوں قوتوں میں تصادم ہمہ وقت جاری رہتا ہے لہزا بنیادی طور پر ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ کردار کی تشکیل یا نمو میں ان دونوں قوتوں کا بلاواسطہ اور مرکزی کردار ہے اور یہ کردار ہی ہوتا ہے کہ جس سے کوئی بھی شخصیت نمو پاتی ہے یعنی ایک تو یہ کہ کردار کی تشکیل میں ان دونوں عناصر (خیر اور شر )کا بنیادی عمل دخل ہے۔ اور دوسرے یہ کہ پھر شخصیت کی نمو میں خود کردار کا بڑا بنیادی رول ہوا کرتا ہے . ہمارےاس تجزیے کے دونوں عوامل کا تعلق انسان کی اپنی شخصیت کہ اندرون سےہوتا ہے۔اور یہاں آپ
خیر سے مراد انسان کی شخصیت کے مضبوط پہلو اور شر سے مراد انسان کی شخصیت کہ کمزور پہلو بھی لے سکتے ہیں .یہ دونوں تو انسانی زات کہ اندرونی پہلو یا اندرونی عوامل تھے اس کہ علاوہ دو ایسے عوامل بھی ہیں کہ جنکا تعلق انسانی ذات کہ بیرون یعنی اس کے ماحول سے ہے . ان میں سے ایک ہے مواقع یعنی آپرچیونیٹیز ۔ آپرچیونیٹیز سے ہماری مراد انسانی ماحول و معاشرے میں موجود ایسی چیزیں ہیں جو کہ انسان کی شخصیت کی تعمیر میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں جبکہ دوسرا بیرونی عنصر ہے خطرات یعنی تھریٹس۔ یہاں تھریٹس سے ہماری مراد وہ ماحولیاتی خطرات ہیں جو کہ کسی بھی انسان کی کردار کُشی میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں ۔اسی لیے آپ نے دیکھا ہوگا کہ تشکیل کردار یا تعمیر شخصیت کے دو پہلو ہوتے ہیں ایک منفی اور دوسرا مثبت یہاں آپ مواقع کو مثبت اور خطرات کو منفی میں شمار کریں ۔ لہزا انسان کو اپنے کردار کی تشکیل کہ لیے اپنی شخصیت کہ منفی پہلو سے نجات اور مثبت پہلو پر اصرار درکار ہوتا ہے ۔ اور اس کہ علاوہ اپنی شخصیت کی تعمیر کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنی شخصیت کے تمام پہلوؤں سے آگاہی رکھتا ہو۔ یہاں پر اوپر کسی ممبر نے کیا ہی خوب تجویز دی تھی خود آگاہی کی تو میری نظر میں بھی خود آگاہی ہی انسانی کردار و شخصیت کی تشکیل و تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرسکتی ہے لیکن اس کہ لیے سب سے زیادہ جو لازمی چیز ہے وہ ہے عظم و استقلال یعنی قوت ارادی کہ انسان کا ایک عظم کرکے پھر اس پر ڈٹ جانا ۔ وہ کسی دانشور نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ کامیاب اور ناکام انسان میں جسمانی قوت اور علم کا فرق نہیں ہوتا بلکہ قوت ارادی کا فرق ہوتا ہے۔ یعنی کامیاب انسان جو ارادہ کرتا ہے، اس پر عمل بھی کر لیتا ہے۔ لہزا ہماری نظر میں جب بھی کوئی انسان خود سے آگاہی حاصل کرتے ہوئے اس کہ پہلے مرحلے میں اپنی ذات کہ تمام منفی پہلوؤں پر قابو پالے اور مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرلے گا تو یہیں پرکردار کی تشکیل ہوجائے گی اور کردار کی اس تشکیل کہ بعد جب بندہ مستقل مزاجی سے اس پر قائم رہتے ہوئے خود شناسی کہ اگلے مرحلے داخل ہوتا ہے کہ جہاں پر خود شناسی کی اگلی منزل بندے کی منتظر ہوتی ہے یعنی خود شناسی کہ بعد خدا شناسی تو جیسے ہی بندہ خدا شناسی کی منزل سے ہمکنار ہوتا ہے تو اس کہ کردار کی تکمیل ہوجاتی ہے. اور خدا شناسی کی سب سے آخری منزل یہ ہے کہ کسی نے پوچھا ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعاٰلی عنھا سے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہ اخلاق (یعنی کردار یا صفات) کیا تھے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ کیا تونے قرآن نہیں پڑھا ؟ قرآن ہی تو اخلاق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔ ۔ ۔ اللہ و اکبر کتنی بڑی بات کہہ گئیں ام المومنین میرے ماں باپ آپ پر قربان اے مومنین کی ماں کہ آپ نے کتنی لطیف بات کتنے سہل انداز میں کردی قرآن کواخلاق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کا عین قرار دے دیا اور قرآن ہے اللہ پاک کا کلام سو اس لحاظ سے اللہ کی صفت ٹھرا جبکہ آپ سے سوال ہوا تھا اخلاق مصطفٰی یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کی بابت اور آپ نے جوابا فرمایا کہ وہ قرآن ہیں یعنی اللہ کی صفت قرآن اور قرآن ہے صفات مصطفٰی کا عین حاصل یہ آیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفات باری تعٰالی کا مظہر اتم ہیں ۔ سبحان اللہ اللہ و اکبرآخری سوال تھا کہ انسان کہ انسان کہ ساتھ تعلق میں کردار کی کیا اہمیت ہے ؟
جوابا
عرض ہے کہ کسی بھی انسان کہ دوسرے انسان کہ ساتھ تعلق میں سب سے زیادہ اور بنیادی اہمیت ہی کردار کی ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ والسلام
VERY GOOD AABI BHAI:thmbup::thmbup:شاہ حسین جیہناں سچ پچھاتا' کامل عِشق تیہناں دا جاتا
Comment
-
Re: ~*~KirDaaR~*~
Originally posted by aabi2cool View Postوقت خود ہی یہ بتائے گا کہ میں زندہ ہوں
کب وہ مرتا ہے جو زندہ رہے کردار کے ساتھ
اسلام علیکم ! مجھ پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ میں کسی بھی سوال کہ جواب میں بے جا طوالت سے کام لیتا ہوں تو لہذا آج میں کوشش کروں گا کہ ہر سوال کا مختصر مگر جامع جواب عرض کرسکوں ۔
پہلاسوال یہ اٹھایا گیا کہ کردار کیا ہوتا ہے ؟
تو جوابا عرض ہے کہ انسان کہ چال چلن اور روش کو عرف میں کردار کہتے ہیں اس کہ دیگر بہت سے مترادفات بھی ہیں مثلا عمل عادت رول یا کام ۔ عربی زبان کہ لحاظ سے اس کا ایک مترادف لفظ اخلاق بھی ہے کہ جس کہ معنٰی عادت ، خصلت، خُو کہ ہوتے ہیں ۔
اس کہ بعد دوسرا اور تیسرا سوال بالترتیب یہ تھا کہ انسانی کردار کی تشکیل اور تکمیل کیسے ہو ؟
جوابا عرض ہے کہ کردار کی تشکیل کہ بہت سے درجہ بدرجہ مراحل ہیں سب سے پہلے تو یہ جان لیجیئے کہ انسانی فطرت دو چیزوں سے مرکب ہے ارادہ خیر اور شر، ان دونوں قوتوں میں تصادم ہمہ وقت جاری رہتا ہے لہزا بنیادی طور پر ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ کردار کی تشکیل یا نمو میں ان دونوں قوتوں کا بلاواسطہ اور مرکزی کردار ہے اور یہ کردار ہی ہوتا ہے کہ جس سے کوئی بھی شخصیت نمو پاتی ہے یعنی ایک تو یہ کہ کردار کی تشکیل میں ان دونوں عناصر (خیر اور شر )کا بنیادی عمل دخل ہے۔ اور دوسرے یہ کہ پھر شخصیت کی نمو میں خود کردار کا بڑا بنیادی رول ہوا کرتا ہے . ہمارےاس تجزیے کے دونوں عوامل کا تعلق انسان کی اپنی شخصیت کہ اندرون سےہوتا ہے۔اور یہاں آپ
خیر سے مراد انسان کی شخصیت کے مضبوط پہلو اور شر سے مراد انسان کی شخصیت کہ کمزور پہلو بھی لے سکتے ہیں .یہ دونوں تو انسانی زات کہ اندرونی پہلو یا اندرونی عوامل تھے اس کہ علاوہ دو ایسے عوامل بھی ہیں کہ جنکا تعلق انسانی ذات کہ بیرون یعنی اس کے ماحول سے ہے . ان میں سے ایک ہے مواقع یعنی آپرچیونیٹیز ۔ آپرچیونیٹیز سے ہماری مراد انسانی ماحول و معاشرے میں موجود ایسی چیزیں ہیں جو کہ انسان کی شخصیت کی تعمیر میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں جبکہ دوسرا بیرونی عنصر ہے خطرات یعنی تھریٹس۔ یہاں تھریٹس سے ہماری مراد وہ ماحولیاتی خطرات ہیں جو کہ کسی بھی انسان کی کردار کُشی میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں ۔اسی لیے آپ نے دیکھا ہوگا کہ تشکیل کردار یا تعمیر شخصیت کے دو پہلو ہوتے ہیں ایک منفی اور دوسرا مثبت یہاں آپ مواقع کو مثبت اور خطرات کو منفی میں شمار کریں ۔ لہزا انسان کو اپنے کردار کی تشکیل کہ لیے اپنی شخصیت کہ منفی پہلو سے نجات اور مثبت پہلو پر اصرار درکار ہوتا ہے ۔ اور اس کہ علاوہ اپنی شخصیت کی تعمیر کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنی شخصیت کے تمام پہلوؤں سے آگاہی رکھتا ہو۔ یہاں پر اوپر کسی ممبر نے کیا ہی خوب تجویز دی تھی خود آگاہی کی تو میری نظر میں بھی خود آگاہی ہی انسانی کردار و شخصیت کی تشکیل و تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرسکتی ہے لیکن اس کہ لیے سب سے زیادہ جو لازمی چیز ہے وہ ہے عظم و استقلال یعنی قوت ارادی کہ انسان کا ایک عظم کرکے پھر اس پر ڈٹ جانا ۔ وہ کسی دانشور نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ کامیاب اور ناکام انسان میں جسمانی قوت اور علم کا فرق نہیں ہوتا بلکہ قوت ارادی کا فرق ہوتا ہے۔ یعنی کامیاب انسان جو ارادہ کرتا ہے، اس پر عمل بھی کر لیتا ہے۔ لہزا ہماری نظر میں جب بھی کوئی انسان خود سے آگاہی حاصل کرتے ہوئے اس کہ پہلے مرحلے میں اپنی ذات کہ تمام منفی پہلوؤں پر قابو پالے اور مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرلے گا تو یہیں پرکردار کی تشکیل ہوجائے گی اور کردار کی اس تشکیل کہ بعد جب بندہ مستقل مزاجی سے اس پر قائم رہتے ہوئے خود شناسی کہ اگلے مرحلے داخل ہوتا ہے کہ جہاں پر خود شناسی کی اگلی منزل بندے کی منتظر ہوتی ہے یعنی خود شناسی کہ بعد خدا شناسی تو جیسے ہی بندہ خدا شناسی کی منزل سے ہمکنار ہوتا ہے تو اس کہ کردار کی تکمیل ہوجاتی ہے. اور خدا شناسی کی سب سے آخری منزل یہ ہے کہ کسی نے پوچھا ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعاٰلی عنھا سے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہ اخلاق (یعنی کردار یا صفات) کیا تھے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ کیا تونے قرآن نہیں پڑھا ؟ قرآن ہی تو اخلاق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔ ۔ ۔ اللہ و اکبر کتنی بڑی بات کہہ گئیں ام المومنین میرے ماں باپ آپ پر قربان اے مومنین کی ماں کہ آپ نے کتنی لطیف بات کتنے سہل انداز میں کردی قرآن کواخلاق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کا عین قرار دے دیا اور قرآن ہے اللہ پاک کا کلام سو اس لحاظ سے اللہ کی صفت ٹھرا جبکہ آپ سے سوال ہوا تھا اخلاق مصطفٰی یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کی بابت اور آپ نے جوابا فرمایا کہ وہ قرآن ہیں یعنی اللہ کی صفت قرآن اور قرآن ہے صفات مصطفٰی کا عین حاصل یہ آیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفات باری تعٰالی کا مظہر اتم ہیں ۔ سبحان اللہ اللہ و اکبرآخری سوال تھا کہ انسان کہ انسان کہ ساتھ تعلق میں کردار کی کیا اہمیت ہے ؟
جوابا
عرض ہے کہ کسی بھی انسان کہ دوسرے انسان کہ ساتھ تعلق میں سب سے زیادہ اور بنیادی اہمیت ہی کردار کی ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ والسلام
Comment
Comment