Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

رفع الیدین

Collapse
This topic is closed.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #31
    Re: رفع الیدین

    تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم


    ہم آپکی طرح مقلد تھوڑی ہیں اتنی عقل تو ہے ہمارے اندر. ایک جگہ اگر کوئی حدیث مختصر بیان کی گئی ہوتی ہے تو دوسری جگہ اسکی تفصیل موجود ہوتی ہے
    بخاری و مسلم کی احادیث کو ماننا امام بخاری و امام مسلم کی تقلید نہیں ہے، یہ بات ہم پہلے بھی کہ چکے ہیں. ان دونوں کتابوں کی صحت پر امّت کا اجماع ہے، اس لیے ہم اسے حجت مانتے ہیں، اور امّت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی

    محترمہ میں نے کب کہا کہ آپ امام مسلم یا امام بخاری کی تقلید کرتی ہیں۔۔ میں نے تو اتنا پوچھا کہ صرف بخاری اور مسلم کو ہی ماننا کہاں سے ثابت ہے؟؟؟
    ان کی صحت پہ اجماع ہے تو کیا اپ مسلم اور بخاری کی تمام احادیث پہ عمل کرتی ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟
    اور اگر تمام احادیث پہ عمل نہیں کرتی تو ان احادیث کو چھوڑنے کی وجہ کیا ہے جن پہ عمل نہیں کرتی؟؟؟؟
    یہ کہاں کا اصول ہے کہ صحیح سند سے روایت اگر بخاری اور مسلم میں نہ ہو تو اس کا انکار کر دو؟؟؟؟


    وہم کی بنیاد پر رد نہیں کیا پورے دلائل کے ساتھ رد کیاہے.
    محترمہ میرے سوال کا جواب آپ نے نہیں دیا اور آئندہ بھی نہیں دیں گی۔۔
    آپ کےمسئلہ کے خلاف تو حدیث اگر مسلم اور بخاری سے بھی آ جائے تب بھی آپ اس کو ضعیف کہہ دہتے ہیں۔۔۔
    آپ کا اعتراض اس روایت کی سند پہ ہو تو یہی سند بخاری کی ہے۔۔۔

    آپ نے ابن عمر رضی اللہ کی حدیث کو رد کیا ابوبکر بن عیاش کی سند کی وجہ ہے تو میرا سوال اب بھی وہی ہے کہ وہی سند بخاری شریف کی بھی یے تو کیا آپہ بخاری شریف کی حدیث کو بھی ضعیف مانتی ہیں؟؟؟
    یہ کون سا اصول ہے کہ ایک سند تمہارے مسئلہ کے خلاف ہو تو اس کو ضعیف کہہ دو اور وہی سند بخاری میں ہونے کی وجہ سے قبول کر لو؟؟؟؟
    اگر یہ حدیث ضعیف ہے تو اسی سند سے بخاری کی حدیث بھی ضعیف ہے یا نہیں؟؟؟؟؟


    حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ يَعْنِي ابْنَ عَيَّاشٍ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ قَالَ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أُوصِي الْخَلِيفَةَ بِالْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ أَنْ يَعْرِفَ لَهُمْ حَقَّهُمْ وَأُوصِي الْخَلِيفَةَ بِالْأَنْصَارِ الَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُهَاجِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقْبَلَ مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَيَعْفُوَ عَنْ مُسِيئِهِمْ.
    { كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ – بَاب وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ
    مجھے معلوم ہے کہ اس سوال کا جواب کبھی نہیں آئے گا۔۔۔۔۔



    ناصر الدین البانی کی علمی حیثیت پر کسی کو شک نہیں مگر انسان خطا کا پتلا ہے.
    علامہ ناصر الدین البانی رح نے بخاری و مسلم کے راویوں پر بھی جرح کی ہے، اور کئی صحیح احادیث کو ضعیف کہا ہے. اس لیے اتنے سارے محدثین کی تحقیق کے آگے ایک کی بات کو ماننا ٹھیک نہیں ہے
    ہ
    اہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔ علامہ البانی کی تحقیق بھی آپ کے نزدیک غلط ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔
    علامہ البانی کی اس تحقیق کو اپ کس وجہ سے اور کس دلیل کی بنیاد پہ رد کر رہی ہیں؟؟؟؟؟
    کیا صرف وجہ یہ ہے کہ آپ کے موقف کے خلاف ہے اس لئے آپ نے علامہ البانی رح کی تحقیق کو رد کر دیا؟؟؟؟؟
    محترمہ علامہ احمد شاکر نے اس کو صحیح کہا ہے بشرط مسلم۔۔۔ ( جامع ترمذی بتحقیق احمد شاکر جلد 2 صفحہ 4ٍ1)۔
    علامہ ابن حزم نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔( محلی ابن حزم، جلد 3 )۔
    علامہ البانی کی تصیح میں نے پہلے پیش کر دی ہے۔۔
    اس روایت کے رجال صحیح مسلم کے رجال ہیں تو اس لئے یہ روایت بشرط مسلم صحیح ہے۔
    اس حدیث کے کل 7 راوی ہیں اور سب صحیح مسلم کے رجال ہیں۔



    وام سے میری مراد یہ تھی کہ وہ عمل منسوخ نہیں ہوا تھا،
    اگر یہ عمل منسوخ ہوا ہوتا تو بخاری میں ہی اسی درجہ کی احادیث موجود ہوتی جس میں شرط بتائی گئی ہوتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رفع الیدین کیا کرتے تھے
    محترمہ کیا اصول پیدا کیا ہے کہ دوام سے مراد ہے کہ عمل منسوخ نہیں ہے۔۔
    محترمہ یہ اصول کہاں سے ثابت ہے کہ دوام سے مراد منسوخ نہ ہونا ہے؟؟؟
    دوسرا آپ نے تسلیم کر لیا کہ اس کان سے مراد ہمیشہ کا رفع یدین نہیں ہے کیونکہ کان سے مراد دوام ہے اور اس سے آپ کے نزدیک ہمیشہ کا رفع یدین ثابت نہین ہوتا۔



    نیچے آپ نے ابو حمید ساعدی رضی اللہ کی روایت اپنی دلیل میں پیش کی سنن ابو داؤد سے۔۔۔
    محترمہ اوپر اپ کہتی ہیں کہ بخاری اور مسلم کی صحت پہ اجماع ہے اور آپ اس لئے ان کو فوقیت دیتی ہیں تو یہان بخاری اور مسلم کو چھوڑ کر ابو داؤد پہ کیوں آ گئی؟؟؟؟
    جبکہ یہی ابو حمید ساعدی رضی اللہ کی روایت بخاری میں ہے جس میں صرف پہلی رفع یدین موجود ہے تو آپ نے اس روایت کو کیوں چھوڑا؟؟؟
    یہاں بخاری کو چھوڑ کر آپ نے ابو داود کو کیوں پیش کیا؟؟؟
    آپ کی باتوں میں اتنا تضاد کیوں ہے؟؟؟


    ایک اور روایت آپ نے بہیقی سے پیش کی ہمیشہ کے رفع یدین کی ابن عمر رضی اللہ سے۔۔
    محترمہ بخاری کو چھوڑ کے پھر آپ بہیقی شریف پہ چلی گئی۔۔۔
    محترمہ یہ روایت سنن بہیقی میں نہیں بلکہ امام بہیقی کی کتاب خلافیات البہیقی میں ہے جہاں اس کی سند نہیں ہے۔
    اور وہاں اس روایت کے بعد امام بہیقی نے لکھا ہے کہ ابن عمر کی یہ روایت موضوع اور باطل ہے۔
    الخلافیات بہیقی جلد 2 صفحہ 90،91)۔


    جب امام بہیقی نے خود کہہ دیا کہ یہ روایت باطل ہے تو اس کو دلیل بنانا جائز نہین۔۔
    آپ نے امام زیلعی کی نصب الرایہ کا حوالہ دیا کہ وہ بہیقی کی روایت بیان کر کے کہتے ہیں کہ اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ رفع یدین منسوخ ہونے کاد عوی غلط ہے اور نبی کریم ﷺ آخری سانس تک اسی طرح رفع یدین کے ساتھ نماز پڑتھے رہے ـ نصب الرایہ جلد 1 صفحہ 409



    محترمہ یہ حوالہ نصب الرایہ میں ہے ہی نہیں آپ نے جس علامہ کی کتاب سے صفحہ پیش کیا ہے اس نے نصب الرایہ کا جھوٹا اور ٖغلط حوالہ دیا ہے،
    ذرا نصب الرایہ کا اصل صفحہ تو پیش کریں جس میں امام زیلعی کی یہ مکمل عبارت ہو جیسا آپ نے بیان کی ہے۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟
    دوسرا نصب الرایہ میں ہی ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کا راوی عصمہ بن محمد الانصاری ضعیف ہے۔۔ ( نصب الرایہ، جلد 1 صفحہ 409)۔



    عجیب بات ہے کہ میری روایت صحیح سند کے ساتھ جو سند بخاری کی ہئے آپ قبول کرنے سے انکار کر رہی ہیں اور خود خلافیات بہیقی کی باطل روایت کو اپنی دلیل پہ پیش کر رہی ہیں/۔۔۔
    کچھ تو انصاف سے کام لیں۔۔۔

    Comment


    • #32
      Re: رفع الیدین

      اگر رفع الیدین کی احادیث منسوخ ہوتی تو امام بخاری و امام مسلم ضرور اسکی وضاحت فرماتے
      اگر سجدوں میں رفع الیدین منع نہ ہوتا تو بخاری و مسلم میں واضح طور پر نہ لکھا ہوتا کہ نبیصلی اللہ علیہ وسلم سجدوں میں رفع الیدین نہیں کرتے تھے،
      اور صرف بخاری و مسلم میں ہی نہیں بلکہ ابو داؤود، ترمذی، ابن ماجہ میں بھی رفع الیدین کی احادیث موجود ہیں،
      اگر رفع الیدین کی احادیث منسوخ ہوتیں تو امام بخاری عبداللہ بن عمر کے حوالے سے ہر گز یہ نہ کہتے کہ آپ رفع الیدین نہ کرنے والوں کو کنکریاں مارا کرتے تھے.
      احادیث میں کان دوام کے لیے ہی آیا ہے یعنی کہ وہ عمل منسوخ نہیں ہوا تھا، اگر یہ عمل منسوخ ہوا ہوتا تو بخاری میں ہی اسی درجہ کی احادیث موجود ہوتی جس میں شرط بتائی گئی ہوتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلمرفع الیدین کیا کرتے تھے مگر۔۔۔۔۔۔۔



      آج تک کسی نے قرآن کی دو سو سے آیات کی منسوخی کی بات کی جو باقی آیات سے متصادم ہیں جن کے بارے میں پوچھنے پر رسول اللہ نے کہاں یہ منسوخ ہیں مگر بعد میں انہیں قرآن میں شامل کردیا گیا تو یہ امام بخاری کوئی پیغمبر تھے جن کی بات پتھر پر لکیر ہوتی کوئی صحابی یا تابعی تھے جن کے پاس مستند علم تھا؟

      رفرینس

      فتویٰ آن لائن - قرآن پاک میں ناسخ و منسوخ آیات کی تعداد کیا ہے؟

      جبکہ اصل تعداد دو سو ہے جو اس وقت بھی قرآن میں آیات شامل ہیں

      ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
      سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

      Comment


      • #33
        Re: رفع الیدین

        Quran ki koi ayat mansookh nahi hosakti ..





        Comment


        • #34
          Re: رفع الیدین

          Originally posted by i love sahabah View Post
          تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم




          محترمہ میں نے کب کہا کہ آپ امام مسلم یا امام بخاری کی تقلید کرتی ہیں۔۔ میں نے تو اتنا پوچھا کہ صرف بخاری اور مسلم کو ہی ماننا کہاں سے ثابت ہے؟؟؟
          ان کی صحت پہ اجماع ہے تو کیا اپ مسلم اور بخاری کی تمام احادیث پہ عمل کرتی ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟
          اور اگر تمام احادیث پہ عمل نہیں کرتی تو ان احادیث کو چھوڑنے کی وجہ کیا ہے جن پہ عمل نہیں کرتی؟؟؟؟
          یہ کہاں کا اصول ہے کہ صحیح سند سے روایت اگر بخاری اور مسلم میں نہ ہو تو اس کا انکار کر دو؟؟؟؟




          محترمہ میرے سوال کا جواب آپ نے نہیں دیا اور آئندہ بھی نہیں دیں گی۔۔
          آپ کےمسئلہ کے خلاف تو حدیث اگر مسلم اور بخاری سے بھی آ جائے تب بھی آپ اس کو ضعیف کہہ دہتے ہیں۔۔۔
          آپ کا اعتراض اس روایت کی سند پہ ہو تو یہی سند بخاری کی ہے۔۔۔

          آپ نے ابن عمر رضی اللہ کی حدیث کو رد کیا ابوبکر بن عیاش کی سند کی وجہ ہے تو میرا سوال اب بھی وہی ہے کہ وہی سند بخاری شریف کی بھی یے تو کیا آپہ بخاری شریف کی حدیث کو بھی ضعیف مانتی ہیں؟؟؟
          یہ کون سا اصول ہے کہ ایک سند تمہارے مسئلہ کے خلاف ہو تو اس کو ضعیف کہہ دو اور وہی سند بخاری میں ہونے کی وجہ سے قبول کر لو؟؟؟؟
          اگر یہ حدیث ضعیف ہے تو اسی سند سے بخاری کی حدیث بھی ضعیف ہے یا نہیں؟؟؟؟؟


          حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ يَعْنِي ابْنَ عَيَّاشٍ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ قَالَ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أُوصِي الْخَلِيفَةَ بِالْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ أَنْ يَعْرِفَ لَهُمْ حَقَّهُمْ وَأُوصِي الْخَلِيفَةَ بِالْأَنْصَارِ الَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُهَاجِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقْبَلَ مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَيَعْفُوَ عَنْ مُسِيئِهِمْ.
          { كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ – بَاب وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ
          مجھے معلوم ہے کہ اس سوال کا جواب کبھی نہیں آئے گا۔۔۔۔۔





          ہ
          اہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔ علامہ البانی کی تحقیق بھی آپ کے نزدیک غلط ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔
          علامہ البانی کی اس تحقیق کو اپ کس وجہ سے اور کس دلیل کی بنیاد پہ رد کر رہی ہیں؟؟؟؟؟
          کیا صرف وجہ یہ ہے کہ آپ کے موقف کے خلاف ہے اس لئے آپ نے علامہ البانی رح کی تحقیق کو رد کر دیا؟؟؟؟؟
          محترمہ علامہ احمد شاکر نے اس کو صحیح کہا ہے بشرط مسلم۔۔۔ ( جامع ترمذی بتحقیق احمد شاکر جلد 2 صفحہ 4ٍ1)۔
          علامہ ابن حزم نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔( محلی ابن حزم، جلد 3 )۔
          علامہ البانی کی تصیح میں نے پہلے پیش کر دی ہے۔۔
          اس روایت کے رجال صحیح مسلم کے رجال ہیں تو اس لئے یہ روایت بشرط مسلم صحیح ہے۔
          اس حدیث کے کل 7 راوی ہیں اور سب صحیح مسلم کے رجال ہیں۔





          محترمہ کیا اصول پیدا کیا ہے کہ دوام سے مراد ہے کہ عمل منسوخ نہیں ہے۔۔
          محترمہ یہ اصول کہاں سے ثابت ہے کہ دوام سے مراد منسوخ نہ ہونا ہے؟؟؟
          دوسرا آپ نے تسلیم کر لیا کہ اس کان سے مراد ہمیشہ کا رفع یدین نہیں ہے کیونکہ کان سے مراد دوام ہے اور اس سے آپ کے نزدیک ہمیشہ کا رفع یدین ثابت نہین ہوتا۔



          نیچے آپ نے ابو حمید ساعدی رضی اللہ کی روایت اپنی دلیل میں پیش کی سنن ابو داؤد سے۔۔۔
          محترمہ اوپر اپ کہتی ہیں کہ بخاری اور مسلم کی صحت پہ اجماع ہے اور آپ اس لئے ان کو فوقیت دیتی ہیں تو یہان بخاری اور مسلم کو چھوڑ کر ابو داؤد پہ کیوں آ گئی؟؟؟؟
          جبکہ یہی ابو حمید ساعدی رضی اللہ کی روایت بخاری میں ہے جس میں صرف پہلی رفع یدین موجود ہے تو آپ نے اس روایت کو کیوں چھوڑا؟؟؟
          یہاں بخاری کو چھوڑ کر آپ نے ابو داود کو کیوں پیش کیا؟؟؟
          آپ کی باتوں میں اتنا تضاد کیوں ہے؟؟؟


          ایک اور روایت آپ نے بہیقی سے پیش کی ہمیشہ کے رفع یدین کی ابن عمر رضی اللہ سے۔۔
          محترمہ بخاری کو چھوڑ کے پھر آپ بہیقی شریف پہ چلی گئی۔۔۔
          محترمہ یہ روایت سنن بہیقی میں نہیں بلکہ امام بہیقی کی کتاب خلافیات البہیقی میں ہے جہاں اس کی سند نہیں ہے۔
          اور وہاں اس روایت کے بعد امام بہیقی نے لکھا ہے کہ ابن عمر کی یہ روایت موضوع اور باطل ہے۔
          الخلافیات بہیقی جلد 2 صفحہ 90،91)۔


          جب امام بہیقی نے خود کہہ دیا کہ یہ روایت باطل ہے تو اس کو دلیل بنانا جائز نہین۔۔
          آپ نے امام زیلعی کی نصب الرایہ کا حوالہ دیا کہ وہ بہیقی کی روایت بیان کر کے کہتے ہیں کہ اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ رفع یدین منسوخ ہونے کاد عوی غلط ہے اور نبی کریم ﷺ آخری سانس تک اسی طرح رفع یدین کے ساتھ نماز پڑتھے رہے ـ نصب الرایہ جلد 1 صفحہ 409



          محترمہ یہ حوالہ نصب الرایہ میں ہے ہی نہیں آپ نے جس علامہ کی کتاب سے صفحہ پیش کیا ہے اس نے نصب الرایہ کا جھوٹا اور ٖغلط حوالہ دیا ہے،
          ذرا نصب الرایہ کا اصل صفحہ تو پیش کریں جس میں امام زیلعی کی یہ مکمل عبارت ہو جیسا آپ نے بیان کی ہے۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟
          دوسرا نصب الرایہ میں ہی ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کا راوی عصمہ بن محمد الانصاری ضعیف ہے۔۔ ( نصب الرایہ، جلد 1 صفحہ 409)۔



          عجیب بات ہے کہ میری روایت صحیح سند کے ساتھ جو سند بخاری کی ہئے آپ قبول کرنے سے انکار کر رہی ہیں اور خود خلافیات بہیقی کی باطل روایت کو اپنی دلیل پہ پیش کر رہی ہیں/۔۔۔
          کچھ تو انصاف سے کام لیں۔۔۔

          کیا بات ہے آپکی....
          نماز دین کا ایک اہم رکن ہے. رفع الیدین کی احادیث اتنی تعداد میں موجود ہیں اور اتنے صحابہ کرام سے مروی ہیں اور اسکی منسوخی کی احادیث صرف چند ہیں اور صرف ایک یا دو صحابہ سےجن احادیث پر جرح بھی کی گئی ہے..
          بہت خوب .
          ہم احادیث کی تمام کتب کو مانتے ہیں مگر ان
          احادیث کی کتب میں بخاری اور مسلم کی کیا حیثیت ہے کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے یہاں؟؟؟ سب لوگ ہی جانتے ہیں.
          ابو بکر بن عیاش کا آخری عمر میں حافظہ خراب ہونے کا ثبوت بھی ملتا اس وجہ سے ہی اس روایت کو ضعیف کہا جاتا ہے.یہ بات آپکو پہلے بھی بتائی جا چکی ہے
          امام حاکم نے فرمایا ہے یہ روایت شاذ ہے اس سے حجت قائم نہ ہوگی صحیح یہ ہے کہ حضرت عمر رفع الیدین کرتے تھے.

          امام بخاری لکھتے ہیں کہ حضرت عمر سے کئی سندوں سے یہ بات ثابت ہے کہ حضرت عمر رفع الیدین کرتے تھے.(جز رفع الیدین للبخاری)
          بہت عجیب بات ہے، ابو بکر بن عیاش کو بخاری کا راوی تو اپ لوگ مانتے ہیں مگر اسی بخاری کی حدیث جو عبدللہ بن عمر سے مروی ہے اسکو نہیں مانتے،
          اگر پھر بھی آپ بضد ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے، تو ایک صحابی کے انفراد کو احادیث اور جمہور صحابہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے قبول نہیں کیا جا سکتا.

          عبد الله بن عمر

          736 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ أَخْبَرَنَا يُونُسُ عَنِ الزُّهْرِىِّ أَخْبَرَنِى سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رضى الله عنهما قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - إِذَا قَامَ فِى الصَّلاَةِ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يَكُونَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ ، وَكَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ حِينَ يُكَبِّرُ لِلرُّكُوعِ ، وَيَفْعَلُ ذَلِكَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ وَيَقُولُ « سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ » . وَلاَ يَفْعَلُ ذَلِكَ فِى السُّجُودِ . أطرافه 735 ، 738 ، 739 - تحفة 6979 - 188/1

          محمد بن مقاتل، عبداللہ بن مبارک، یونس، زہری، سالم بن عبداللہ ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ نماز میں اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں شانوں کے برابر تک اٹھاتے اور جب آپ رکوع کے لئے تکبیر کہتے یہی (اس وقت بھی) کرتے اور یہی جب آپ رکوع سے اپنا سر اٹھاتے اس وقت بھی کرتے اور سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہتے (لیکن) سجدہ میں آپ یہ عمل نہ کرتے تھے۔

          الكتاب : صحيح البخارى

          المؤلف : محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري، أبو عبد الله

          887 - حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِىُّ وَسَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِى شَيْبَةَ وَعَمْرٌو النَّاقِدُ وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَابْنُ نُمَيْرٍ كُلُّهُمْ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ - وَاللَّفْظُ لِيَحْيَى قَالَ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ - عَنِ الزُّهْرِىِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِىَ مَنْكِبَيْهِ وَقَبْلَ أَنْ يَرْكَعَ وَإِذَا رَفَعَ مِنَ الرُّكُوعِ وَلاَ يَرْفَعُهُمَا بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ.

          یحیی بن یحیی تیمیی، سعید بن منصور، ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، زہیر بن حرب، ابن نمیر، سفیان بن عیینہ، زہری سالم، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا جب نماز شروع کرتے تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اور رکوع کرنے سے پہلے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اور اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند نہ کرتے تھے دونوں سجدوں کے درمیان۔

          الكتاب : صحيح مسلم

          المؤلف : مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشيري النيسابوري

          722 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِىُّ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ حَدَّثَنَا الزُّبَيْدِىُّ عَنِ الزُّهْرِىِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى تَكُونَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ ثُمَّ كَبَّرَ وَهُمَا كَذَلِكَ فَيَرْكَعُ ثُمَّ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْفَعَ صُلْبَهُ رَفَعَهُمَا حَتَّى تَكُونَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ ثُمَّ قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ وَلاَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِى السُّجُودِ وَيَرْفَعُهُمَا فِى كُلِّ تَكْبِيرَةٍ يُكَبِّرُهَا قَبْلَ الرُّكُوعِ حَتَّى تَنْقَضِىَ صَلاَتُهُ.

          محمد بن مصفی، سالم، حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے پھر ہاتھ اٹھاتے ہوئے رکوع کی تکبیر کہتے اس کے بعد رکوع کرتے جب رکوع سے سر اٹھاتے تو پھر دونوں ہاتھوں کو مونڈھوں تک اٹھاتے اور سَمِعَ اللہ لِمَن حَمِدَہ۔ کہتے مگر سجدوں میں ہاتھ نہیں اٹھاتے بلکہ ہر رکعت میں رکوع میں جانے کے لیے جب تکبیر کہتے تب دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز پوری ہو جاتی۔

          الكتاب : سنن أبى داود

          المؤلف : سليمان بن الأشعث بن شداد بن عمرو، الأزدي أبو داود، السجستاني

          163 - حَدَّثَنِى يَحْيَى عَنْ مَالِكٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- كَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا كَذَلِكَ أَيْضًا وَقَالَ « سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ ». وَكَانَ لاَ يَفْعَلُ ذَلِكَ فِى السُّجُودِ.

          عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب شروع کرتے تھے نماز کو اٹھاتے تھے دونوں ہاتھ برابر دونوں مونڈھوں کے اور جب سر اٹھاتے تھے رکوع سے تب بھی دونوں ہاتھوں کو اسی طرح اٹھاتے اور کہتے سمع اللہ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد اور سجدوں کے بیچ میں ہاتھ نہ اٹھاتے نہ سجدے کو جاتے وقت ۔

          الكتاب : موطأ مالك

          المؤلف : مالك بن أنس ابن مالك بن عامر الأصبحي المدني، إمام دار الهجر

          2519 - عبد الرزاق عن عبد الله بن عمر عن بن شهاب عن سالم قال كان بن عمر إذا قام إلى الصلاة رفع يديه حتى يكونا حذو منكبيه وإذا ركع رفعهما فإذا رفع رأسه من الركعة رفعهما وإذا قام من مثنى رفعهما ولا يفعل ذلك في السجود قال ثم يخبرهم أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان يفعله

          عبد اللہ بن عمر جب شروع کرتے تھے نماز کو اٹھاتے تھے دونوں ہاتھ برابر دونوں مونڈھوں کے اور جب سر اٹھاتے تھے رکوع سے اور جب دوسری رکعت سے اٹھتے تب بھی دونوں ہاتھوں کو اسی طرح اٹھاتے اور سالم فرماتے ہیں کے عبد اللہ بن عمر فرمایا کرتے تھے کے نبی مکرم بھی اسی طرح رفع یدین کرتے تھے۔

          الكتاب : مصنف عبد الرزاق

          المؤلف : أبو بكر عبد الرزاق بن همام الصنعاني

          مَالِكَ بْنَ الْحُوَيْرِثِ

          737 - حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الْوَاسِطِىُّ قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ خَالِدٍ عَنْ أَبِى قِلاَبَةَ أَنَّهُ رَأَى مَالِكَ بْنَ الْحُوَيْرِثِ إِذَا صَلَّى كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْهِ ، وَحَدَّثَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - صَنَعَ هَكَذَا

          اسحاق، واسطی، خالد بن عبداللہ خالد (حذاء) ابوقلابہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے مالک بن حویرث کو دیکھا کہ جب وہ نماز شروع کرتے تو تکبیر کہتے وقت اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ، اور جب رکوع کرنا چاہتے تو بھی اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ، اور مالک بن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرح کیا تھا۔

          الكتاب : صحيح البخارى

          المؤلف : محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري، أبو عبد الله

          تاباع

          888 - أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ سَمِعْتُ نَصْرَ بْنَ عَاصِمٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- كَانَ إِذَا صَلَّى رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ يُكَبِّرُ حِيَالَ أُذُنَيْهِ وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ.

          محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، قتادہ، نصر بن عاصم، مالک بن الحویرث سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس وقت تکبیر پڑھتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس وقت رکوع فرماتے تو دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاتے تھے۔ اس طریقہ سے جس وقت رکوع سے سر اٹھاتے تو اس طرح کرتے۔

          الكتاب : سنن النَسائي

          المؤلف : أبو عبد الرحمن أحمد بن شعيب بن علي الخراساني، النسائي

          وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ

          923 - حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ حَدَّثَنِى عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ وَائِلٍ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ وَمَوْلًى لَهُمْ أَنَّهُمَا حَدَّثَاهُ عَنْ أَبِيهِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ أَنَّهُ رَأَى النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ دَخَلَ فِى الصَّلاَةِ كَبَّرَ - وَصَفَ هَمَّامٌ حِيَالَ أُذُنَيْهِ - ثُمَّ الْتَحَفَ بِثَوْبِهِ ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ أَخْرَجَ يَدَيْهِ مِنَ الثَّوْبِ ثُمَّ رَفَعَهُمَا ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ فَلَمَّا قَالَ « سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ». رَفَعَ يَدَيْهِ فَلَمَّا سَجَدَ سَجَدَ بَيْنَ كَفَّيْهِ.

          زہیر بن حرب، عفان ہمام، محمد بن جحادہ، عبدالجبار بن وائل، علقمہ بن وائل بن حجر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کیا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز میں داخل ہوئے تکیبر کہی اور ہمام نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں ہاتھ اپنے کانوں تک اٹھائے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چادر اوڑھ لی پھر دائیں ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر رکھا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکوع کرنے کا ارادہ کیا تو اپنے ہاتھوں کو چادر سے نکالا پھر ان کو بلند کیا تکبیر کہہ کر رکوع کیا جب آپ نے (سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہا) تو اپنے ہاتھوں کو بلند کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدہ اپنی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان کیا

          الكتاب : صحيح مسلم

          المؤلف : مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشيري النيسابوري

          أَبَا حُمَيْدٍ السَّاعِدِىَّ

          730 - حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ ح وَحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى - وَهَذَا حَدِيثُ أَحْمَدَ قَالَ - أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ - يَعْنِى ابْنَ جَعْفَرٍ - أَخْبَرَنِى مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا حُمَيْدٍ السَّاعِدِىَّ فِى عَشْرَةٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- مِنْهُمْ أَبُو قَتَادَةَ قَالَ أَبُو حُمَيْدٍ أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم-. قَالُوا فَلِمَ فَوَاللَّهِ مَا كُنْتَ بِأَكْثَرِنَا لَهُ تَبَعًا وَلاَ أَقْدَمَنَا لَهُ صُحْبَةً. قَالَ بَلَى. قَالُوا فَاعْرِضْ. قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِىَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ ثُمَّ يُكَبِّرُ حَتَّى يَقِرَّ كُلُّ عَظْمٍ فِى مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلاً ثُمَّ يَقْرَأُ ثُمَّ يُكَبِّرُ فَيَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِىَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ ثُمَّ يَرْكَعُ وَيَضَعُ رَاحَتَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ ثُمَّ يَعْتَدِلُ فَلاَ يَصُبُّ رَأْسَهُ وَلاَ يُقْنِعُ ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ فَيَقُولُ « سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ». ثُمَّ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِىَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ مُعْتَدِلاً ثُمَّ يَقُولُ « اللَّهُ أَكْبَرُ ». ثُمَّ يَهْوِى إِلَى الأَرْضِ فَيُجَافِى يَدَيْهِ عَنْ جَنْبَيْهِ ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَثْنِى رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا وَيَفْتَحُ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ إِذَا سَجَدَ وَيَسْجُدُ ثُمَّ يَقُولُ « اللَّهُ أَكْبَرُ ». وَيَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَثْنِى رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ إِلَى مَوْضِعِهِ ثُمَّ يَصْنَعُ فِى الأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ إِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِىَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ كَمَا كَبَّرَ عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلاَةِ ثُمَّ يَصْنَعُ ذَلِكَ فِى بَقِيَّةِ صَلاَتِهِ حَتَّى إِذَا كَانَتِ السَّجْدَةُ الَّتِى فِيهَا التَّسْلِيمُ أَخَّرَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَقَعَدَ مُتَوَرِّكًا عَلَى شِقِّهِ الأَيْسَرِ. قَالُوا صَدَقْتَ هَكَذَا كَانَ يُصَلِّى -صلى الله عليه وسلم-.

          احمد بن حنبل، ابوعاصم، ضحاک بن مخلد، مسدد، یحی، احمد، عبدالحمید، ابن جعفر، محمد بن عمر بن عطاء، حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دس صحابہ کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے جن میں ابوقتادہ بھی تھے ابوحمید نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے متعلق میں تم میں سے سب سے زیادہ واقفیت رکھتا ہوں صحابہ نے کہا وہ کیسے؟ بخدا تم ہم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی نہیں کرتے تھے اور نہ ہی تم ہم سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں آئے تھے ابوحمید نے کہا ہاں یہ درست ہے صحابہ نے کہا اچھا تو پھر بیان کرو ابوحمید کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو اپنے دونوں مونڈھوں تک اٹھاتے اور تکبیر کہتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اعتدال کے ساتھ اپنے مقام پر آجاتی اس کے بعد قرات شروع فرماتے پھر (رکوع) کی تکبیر کہتے ہوئے دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور رکوع کرتے اور رکوع میں دونوں ہتھیلیاں گھٹنوں پر رکھتے اور پشت سیدھی رکھتے سر کو نہ زیادہ جھکاتے اور نہ اونچا رکھتے۔ پھر سر اٹھاتے اور ۔سَمِعَ اللہ لِمَن حَمِدَہ کہتے۔ پھر سیدھے کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور تکبیر کہتے ہوئے زمین کی طرف جھکتے (سجدہ کرتے) اور (سجدہ میں) دونوں ہاتھوں کو پہلوؤں سے جدا رکھتے پھر (سجدہ سے) سر اٹھاتے اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھتے اور سجدہ کے وقت پاؤں کی انگلیوں کو کھلا رکھتے پھر (دوسرا) سجدہ کرتے اور اللہ اکبر کہہ کر پھر سجدہ سے سر اٹھاتے اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر اتنی دیر تک بیٹھتے کہ ہر ہڈی اپنے مقام پر آجاتی (پھر کھڑے ہوتے) اور دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کرتے پھر جب دو رکعتوں سے فارغ ہو کر کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے اور مونڈھوں تک دونوں ہاتھ اٹھاتے جس طرح کہ نماز کے شروع میں ہاتھ اٹھائے تھے اور تکبیر کہی تھی پھر باقی نماز میں بھی ایسا ہی کرتے یہاں تک کہ جب آخری سجدہ سے فارغ ہوتے یعنی جس کے بعد سلام ہوتا ہے تو بایاں پاؤں نکالتے اور بائیں کولھے پر بیٹھتے (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے کہا تم نے سچ کہا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔

          الكتاب : سنن أبى داود

          المؤلف : سليمان بن الأشعث بن شداد بن عمرو، الأزدي أبو داود، السجستاني

          305 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالاَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ عَنْ أَبِى حُمَيْدٍ السَّاعِدِىِّ قَالَ سَمِعْتُهُ وَهُوَ فِى عَشَرَةٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- أَحَدُهُمْ أَبُو قَتَادَةَ بْنُ رِبْعِىٍّ يَقُولُ أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم-. قَالُوا مَا كُنْتَ أَقْدَمَنَا لَهُ صُحْبَةً وَلاَ أَكْثَرَنَا لَهُ إِتْيَانًا قَالَ بَلَى. قَالُوا فَاعْرِضْ. فَقَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ اعْتَدَلَ قَائِمًا وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِىَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِىَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ ثُمَّ قَالَ « اللَّهُ أَكْبَرُ ». وَرَكَعَ ثُمَّ اعْتَدَلَ فَلَمْ يُصَوِّبْ رَأْسَهُ وَلَمْ يُقْنِعْ وَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ ثُمَّ قَالَ « سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ». وَرَفَعَ يَدَيْهِ وَاعْتَدَلَ حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ فِى مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلاً ثُمَّ أَهْوَى إِلَى الأَرْضِ سَاجِدًا ثُمَّ قَالَ « اللَّهُ أَكْبَرُ ». ثُمَّ جَافَى عَضُدَيْهِ عَنْ إِبْطَيْهِ وَفَتَخَ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ ثُمَّ ثَنَى رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَقَعَدَ عَلَيْهَا ثُمَّ اعْتَدَلَ حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ فِى مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلاً ثُمَّ أَهْوَى سَاجِدًا ثُمَّ قَالَ « اللَّهُ أَكْبَرُ ». ثُمَّ ثَنَى رِجْلَهُ وَقَعَدَ وَاعْتَدَلَ حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ فِى مَوْضِعِهِ ثُمَّ نَهَضَ ثُمَّ صَنَعَ فِى الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ مِثْلَ ذَلِكَ حَتَّى إِذَا قَامَ مِنَ السَّجْدَتَيْنِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِىَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ كَمَا صَنَعَ حِينَ افْتَتَحَ الصَّلاَةَ ثُمَّ صَنَعَ كَذَلِكَ حَتَّى كَانَتِ الرَّكْعَةُ الَّتِى تَنْقَضِى فِيهَا صَلاَتُهُ أَخَّرَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَقَعَدَ عَلَى شِقِّهِ مُتَوَرِّكًا ثُمَّ سَلَّمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ وَمَعْنَى قَوْلِهِ وَرَفَعَ يَدَيْهِ إِذَا قَامَ مِنَ السَّجْدَتَيْنِ يَعْنِى قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ.

          محمد بن بشار، محمد بن مثنی، یحیی بن سعید، عبدالحمید بن جعفر، محمد بن عمرو بن عطاء، ابوحمید ساعدی سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے ابوحمید کو کہتے ہوئے سنا اس وقت وہ وہ دس صحابہ میں بیٹھے ہوئے تھے جن میں ابوقتادہ ربعی بھی شامل ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے بارے میں تم سب سے زیادہ جانتا ہوں صحابہ نے فرمایا تم نہ حضور کی صحبت میں ہم سے پہلے آئے اور نہ ہی تمہاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں زیادہ آمد ورفت تھی ابوحمید نے کہا یہ تو صحیح ہے صحابہ نے فرمایا بیان کرو ابوحمید نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو سیدھے کھڑے ہوتے اور دونوں ہاتھ کندھوں تک لے جاتے جب رکوع کرنے لگتے تو دونوں ہاتھ کندھوں تک لے جاتے اور اللَّهُ أَکْبَرُ کہہ کر رکوع کرتے اور اعتدال کے ساتھ رکوع کرتے نہ سر کو جھکاتے اور نہ اونچا کرتے اور دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور ہاتھوں کا اٹھاتے اور معتدل کھڑے ہوتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پہنچ جاتی پھر سجدہ کے لئے زمین کی طرف جھکتے اور اللَّهُ أَکْبَرُ کہتے اور بازؤں کو بغلوں سے علیحدہ رکھتے اور پاؤں موڑ کو اس پر اعتدال کے ساتھ بیٹھ جاتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر پہنچ جاتے پھر سجدے کے لئے سر جھکاتے اور اللَّهُ أَکْبَرُ کہتے پھر کھڑے ہو جاتے اور ہر رکعت میں اسی طرح کرتے یہاں تک کہ جب دونوں سجدوں سے اٹھتے تو تکبیر کہتے اور دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے جیسے کہ نماز کے شروع میں کیا تھا پھر اسی طرح کرتے یہاں تک کہ ان کی نماز کی آخری رکعت آجاتی چنانچہ بائیں پاؤں کو ہٹاتے اور سیرین پر بیٹھ جاتے اور پھر سلام پھیر دیتے امام ابوعیسی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور إِذَا السَّجْدَتَيْنِ سے مراد یہ ہے کہ جب دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہوتے تو رفع یدین کرتے

          الكتاب : سنن الترمذى

          المؤلف : محمد بن عيسى بن سَوْرة بن موسى بن الضحاك، الترمذي، أبو عيسى

          یہ روایت نیچے بھی موجود ہے پر دوسری سند سے

          1870 - أخبرنا محمد بن عبد الرحمن بن محمد حدثنا عمرو بن عبد الله الأودي حدثنا أبو أسامة حدثنا عبد الحميد بن جعفر حدثنا محمد بن عمرو بن عطاء قال :

          : سمعت أبا حميد الساعدي يقول : ( كان رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا قام إلى الصلاة استقبل ورفع يديه حتى يحاذي بهما منكبيه ثم قال : الله أكبر وإذا ركع كبر ورفع يديه حين ركع ثم عدل صلبه ولم يصوب رأسه ولم يقنعه ثم قال : سمع الله لمن حمده ورفع يديه حتى يحاذي بهما منكبيه ثم اعتدل حتى رجع كل عظم إلى موضعه معتدلا ثم هوى إلى الأرض فقال : الله أكبر وسجد وجافى عضديه عن جنبيه واستقبل بأطراف أصابع رجليه القبلة ثم رفع رأسه وقال : الله أكبر وثنى رجله اليسرى وقعد عليها واعتدل حتى رجع كل عظم إلى موضعه معتدلا ثم قال : الله أكبر ثم عاد فسجد ثم رفع رأسه وقال : الله أكبر ثم ثنى رجله اليسرى ثم قعد عليها حتى رجع كل عظم إلى موضعه ثم قام فصنع في الأخرى مثل ذلك حتى إذا قام من الركعتين كبر وصنع كما صنع في ابتداء الصلاة حتى إذا كانت السجدة التي تكون خاتمة الصلاة رفع رأسه منهما وأخر رجله وقعد متوركا على رجله صلى الله عليه و سلم

          قال شعيب الأرنؤوط : إسناده صحيح

          الكتاب : صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان

          المؤلف : محمد بن حبان بن أحمد أبو حاتم التميمي البستي

          پوری نماز

          863 - حدثنا محمد بن بشار . حدثنا أبو عامر . حدثنا فليح بن سليمان . حدثنا عباس بن سهل الساعدي قال

          : - اجتمع أبو حميد وأبو أسيد الساعدي وسهل بن سعد ومحمد بن مسلمة . فذكروا صلاة رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال أبو حميد أنا أعلمكم بصلاة رسول الله صلى الله عليه و سلم . إن رسول الله صلى الله عليه و سلم قام فكبر ورفع يديه . ثم رفع حين كبر للركوع ثم قام فرفع يديه واستوى حتى رجع كل عظم إلى موضعه .

          محمد بن بشار، ابوعامر، فلیح بن سلیمان، حضرت عباس بن سہل ساعدی فرماتے ہیں کہ حضرت ابوحمید ابوسید سہل بن سعد اور محمد بن مسلمہ جمع ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کا تذکرہ فرمایا حضرت ابوحمید نے فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کو آپ سب سے زیادہ جانتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اَللہُ اَکبَرُ کہا اور ہاتھ اٹھائے پھر جب رکوع کے لئے اَللہُ اَکبَرُ کہا تو بھی ہاتھ اٹھائے پھر کھڑے ہوئے اور ہاتھ اٹھائے اور سیدھے کھڑے ہو گئے حتیٰ کہ ہر جوڑ اپنی جگہ ٹھہر گیا ۔

          قال الشيخ الألباني : صحيح

          الكتاب : سنن ابن ماجه

          المؤلف : محمد بن يزيد أبو عبدالله القزويني

          علي بن أبي طالب

          3423 - حدثنا الحسن بن علي الخلال حدثنا سليمان بن داود الهاشمي حدثنا عبد الرحمن بن أبي الزناد عن موسى بن عقبة عن عبد الله بن الفضل عن عبد الرحمن الأعرج عن عبيد الله بن أبي رافع عن علي بن أبي طالب : عن رسول الله صلى الله عليه و سلم أنه كان إذا قام إلى الصلاة المكتوبة رفع يديه حذو منكبيه ويصنع ذلك أيضا إذا قضى قراءته وأراد أن يركع ويصنعها إذا رفع رأسه من الركوع ولا يرفع يديه في شيء من صلاته وهو قاعد وإذا قام من سجدتين رفع يديه كذلك

          حسن بن علی خلال، سلیمان بن داؤد ہاشمی، عبدالرحمن بن ابی زناد، موسیٰ بن عقبہ، عبداللہ بن فضل، عبدالرحمن اعرج، عبید اللہ بن ابی رافع، حضرت علی بن ابی طالب سے روایت ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے قرات کے اختتام پر رکوع میں جاتے وقت بھی ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی دونوں ہاتھوں کو شانوں تک اٹھاتے لیکن آپ تشہد اور سجدوں کے دوران ہاتھ نہ اٹھاتے (یعنی رفع یدین نہ کرتے) پھر دو رکعتیں پڑھنے کے بعد کھڑے ہوتے تو بھی دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے ۔

          الكتاب : الجامع الصحيح سنن الترمذي

          المؤلف : محمد بن عيسى أبو عيسى الترمذي السلمي

          864 - حدثنا العباس بن عبد العظيم العنبري . حدثنا سليمان بن داود أبو أيوب الهاشمي حدثنا عبد الرحمن بن أبي الزناد عن موسى بن عقبة عن عبد الله بن الفضل عن عبد الرحمن الأعرج عن عبيد الله بن أبي رافع عن علي بن أبي طالب قال

          : - كان النبي صلى الله عليه و سلم إذا قام إلى الصلاة المكتوبة كبر ورفع يديه حتى يكونا حذو منكبيه . وإذا أراد أن يركع فعل مثل ذلك . وإذا رفع رأسه من الركوع فعل مثل ذلك . وإذا قام من السجدتين فعل مثل ذلك .

          قال الشيخ الألباني : حسن صحيح

          عباس بن عبدالعظیم عنبری، سلیمان بن داؤد ابوایوب ہاشمی، عبدالرحمن بن ابی زناد، موسیٰ بن عقبہ، عبداللہ بن فضل، عبدالرحمن اعرج، عبید اللہ بن ابی رافع، حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو ، اللَّهُ أَکْبَرُ ، کہتے اور اپنے کندھوں کے برابر تک ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع میں جانے لگتے تو بھی ایسا ہی کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی ایسا ہی کرتے اور جب دونوں سجدوں سے کھڑے ہوتے تب بھی ایسا ہی کرتے ۔

          الكتاب : سنن ابن ماجه

          المؤلف : محمد بن يزيد أبو عبدالله القزوين

          أبوهريرة

          694 - أنا أبو طاهر نا أبو بكر نا أبو زهير عبد المجيد بن إبراهيم المصري نا شعيب - يعني ابن يحيى التجيبي أخبرنا يحيى بن أيوب عن ابن جريج عن ابن شهاب عن أبي بكر بن عبد الرحمن بن الحارث أنه سمع أبا هريرة يقول : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا افتتح الصلاة كبر ثم جعل يديه حذو منكبيه وإذا ركع فعل مثل ذلك وإذا سجد فعل مثل ذلك ولا يفعله حين يرفع رأسه من السجود وإذا قام من الركعتين فعل مثل ذلك

          قال الأعظمي : إسناده صحيح إن كان عبد المجيد بن ابراهيم ثقة فإني لم أجد له ترجمة نعم هو صحيح لغيره فقد رواه أبو داود 738 من طريق الليث بن سعد عن يحيى بن أيوب نحوه

          ، حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب تکبیر تحریمہ کہتے تو دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور جب رکوع کرتے تب بھی ایسا ہی کرتے اور جب (رکوع سے فارغ ہو کر) سجدہ کے لیے کھڑے ہوتے تب پھر ایسا ہی کرتے اور جب دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہوتے تو بھی ایسا ہی کرتے۔

          الكتاب : صحيح ابن خزيمة

          المؤلف : محمد بن إسحاق بن خزيمة أبو بكر السلمي النيسابوري

          144 - نا محمد بن عصمة ، نا سوار بن عمارة ، نا رديح بن عطية ، عن أبي زرعة بن أبي عبد الجبار بن معج قال رأيت أبا هريرة فقال لأصلين بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم لا أزيد فيها ولا أنقص فأقسم بالله إن كانت هي صلاته حتى فارق الدنيا قال : فقمت عن يمينه لأنظر كيف يصنع ، فابتدأ فكبر ، ورفع يده ، ثم ركع فكبر ورفع يديه ، ثم سجد ، ثم كبر ، ثم سجد وكبر حتى فرغ من صلاته قال : أقسم بالله إن كانت لهي صلاته حتى فارق الدنيا

          ابو عبدالجبار سے روایت ہے کی انہوں نے حضرت ابو ہریرہ کو دیکھا انہوں نے کہا کہ میں آپ کو رسول اللہ کی نماز پڑھاوں گا اس میں زیادہ کروں گا نہ کم پس انہوں نے اللہ کی قسم اٹھا کی کہا پس آپ کی یہی نماز تھی حتی کہ آپ اس دنیا سے تشریف لے گئے ، راوی نے کہا میں آپ کے دائیں جانب کھڑا ہوگیا کہ دیکھوں آپ کیا کرتے ہیں ، پس انہوں نے نماز کی ابتدا کی اللہ اکبر کہا اور رفع الیدین کیا پھر رکوع کیا ،پس تکبیر کہی اور رفع الیدین کیاپھر سجدہ کیا اور اللہ اکبر کہا حتی آپ اپنی نماز سے فارغ ہو گئےحضرت ابو ہریرہ نے فرمایا نے اللہ کی قسم آپ کی یہی نماز تھی حتی کہ آپ اس دنیا سے تشریف لے گئے ۔

          الكتاب : معجم ابن الأعرابي

          أَبِى مُوسَى الأَشْعَرِىِّ

          1134 - حَدَّثَنَا دَعْلَجُ بْنُ أَحْمَدَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شِيرَوَيْهِ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ رَاهَوَيْهِ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنِ الأَزْرَقِ بْنِ قَيْسٍ عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِى مُوسَى الأَشْعَرِىِّ قَالَ هَلْ أُرِيكُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ لِلرُّكُوعِ ثُمَّ قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ هَكَذَا فَاصْنَعُوا وَلاَ يَرْفَعُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ.

          الكتاب : سنن الدارقطنى

          المؤلف : أبو الحسن علي بن عمر بن أحمد بن مهدي بن مسعود بن النعمان بن دينار البغدادي

          عبد الله بن الزبير اور أبي بكر الصديق رضي الله عنه

          2349 - أخبرنا أبو عبد الله الحافظ ثنا أبو عبد الله محمد بن عبد الله الصفار الزاهد إملاء من أصل كتابه قال قال أبو إسماعيل محمد بن إسماعيل السلمي : صليت خلف أبي النعمان محمد بن الفضل فرفع يديه حين افتتح الصلاة وحين ركع وحين رفع رأسه من الركوع فسألته عن ذلك فقال صليت خلف حماد بن زيد فرفع يديه حين افتتح الصلاة وحين ركع وحين رفع رأسه من الركوع فسألته عن ذلك فقال صليت خلف أيوب السختياني فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع فسألته فقال رأيت عطاء بن أبي رباح يرفع يديه إذا افتتح الصلاة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع فسألته فقال صليت خلف عبد الله بن الزبير فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع فسألته فقال عبد الله بن الزبير صليت خلف أبي بكر الصديق رضي الله عنه فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع وقال أبو بكر صليت خلف رسول الله صلى الله عليه و سلم فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع رواته ثقات

          الكتاب : سنن البيهقي الكبرى

          المؤلف : أحمد بن الحسين بن علي بن موسى أبو بكر البيهقي

          جابر بن عبدالله

          حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی حَدَّثَنَا أَبُو حُذَيْفَةَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ کَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا رَکَعَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّکُوعِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِکَ وَيَقُولُ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِکَ وَرَفَعَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ يَدَيْهِ إِلَی أُذُنَيْهِ

          محمد بن یحییٰ، ابوحذیفہ، ابراہیم بن طہمان، ابوزبیر، حضرت جابر بن عبداللہ جب نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرے اور جب رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی ایسا کرتے اور فرماتے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا اور راوی ابراہیم بن طہمان نے اپنے ہاتھ کانوں تک اٹھائے

          سنن ابن ماجہ:جلد اول:حدیث نمبر 868 حدیث متواتر حدیث مرفوع

          (93) حدثنا محمد بن طريف أبو بكر الأعين قثنا أبو حذيفة قثنا إبراهيم بن طهمان عن أبي الزبير قال: رأيت جابر عن عبدالله يرفع يديه إذ كبر وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع ولم يرفع بين ذلك، فقلت له: ما هذا ؟ فقال: هكذا رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم يصلي.

          الكتاب : مسند السراج

          أنس بن مالک

          3793 - حدثنا أبو بكر حدثنا عبد الوهاب الثقفي عن حميد : عن أنس قال : رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم يرفع يديه إذا افتتح لصلاة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع

          قال حسين سليم أسد : رجاله رجال الصحيح

          الكتاب : مسند أبي يعلى

          المؤلف : أحمد بن علي بن المثنى أبو يعلى الموصلي التميمي
          الناشر : دار المأمون للتراث – دمشق
          http://www.islamghar.blogspot.com/

          Comment


          • #35
            Re: رفع الیدین

            Originally posted by Sub-Zero View Post



            آج تک کسی نے قرآن کی دو سو سے آیات کی منسوخی کی بات کی جو باقی آیات سے متصادم ہیں جن کے بارے میں پوچھنے پر رسول اللہ نے کہاں یہ منسوخ ہیں مگر بعد میں انہیں قرآن میں شامل کردیا گیا تو یہ امام بخاری کوئی پیغمبر تھے جن کی بات پتھر پر لکیر ہوتی کوئی صحابی یا تابعی تھے جن کے پاس مستند علم تھا؟

            رفرینس

            فتویٰ آن لائن - قرآن پاک میں ناسخ و منسوخ آیات کی تعداد کیا ہے؟

            جبکہ اصل تعداد دو سو ہے جو اس وقت بھی قرآن میں آیات شامل ہیں

            agr aap imaam bukhaari pe tnqeed kr rhe hain to unki kitab jo quraan ke baad sabse sahi kitaab mani jati hai uska inkaar kr rhe hain aur 5 hzaar se zaayed hadees ka inkaar kr rhe hain.
            http://www.islamghar.blogspot.com/

            Comment


            • #36
              Re: رفع الیدین

              Originally posted by Baniaz Khan View Post
              Quran ki koi ayat mansookh nahi hosakti ..
              مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ::: ہم جِس آیت کو منسوخ کر دیتے ہیں یا اُسے ترک کر دیتے ہیں تو اُس سے زیادہ خیر والی یا اُسی کے جیسی دوسری آیت لاتے ہیں، کیا آپ نہیں جانتے کہ اللہ ہر ایک چیز پر قادر ہے ))))) سورت البقرہ /آیت 106،
              http://www.islamghar.blogspot.com/

              Comment


              • #37
                Re: رفع الیدین

                Originally posted by lovelyalltime View Post


                تم جیسے لوگوں پر جو ہر وقت بھونکتے رہتے ہیں

                قصور تمہارا نہیں

                تمہاری تربیت کرنے والوں کا ہے


                اس پوسٹ کے جواب میں نے جواب ارسال کیا تھا ۔۔ وہ کہاں گیا ۔۔ ؟؟؟

                Comment


                • #38
                  Re: رفع الیدین

                  Originally posted by Baniaz Khan View Post
                  Quran ki koi ayat mansookh nahi hosakti ..

                  اِن اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدہ، وَ نَستَعِینہ، وَ نَستَغفِرہ، وَ نَعَوذ بَاللَّہِ مِن شرورِ أنفسِنَا وَ مِن سِیَّأاتِ أعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ اللَّہُ فَلا مُضِلَّ لَہ ُ وَ مَن یُضلِل ؛ فَلا ھَاديَ لَہ ُ، وَ أشھَد أن لا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہ وَحدَہ لا شَرِیکَ لَہ ، وَ أشھَد أن مُحمَداً عَبدہ، وَ رَسو لہ،بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں :::
                  کچھ لوگوں کا خیال ء باطل ہے کہ قران کریم میں سے کچھ منسوخ نہیں ہے ، بلکہ جتنی بھی آیات مبارکہ ہیں ان کے احکام جوں کے توں ہیں ، لیکن اگر ہم اس منطق کو درست سمجھیں تو ایک مشکل یہ سامنے آتی ہیں کہ کئی آیات میں مذکور احکام ایک دوسرے کے موافق نہیں ملتے ، اور قران کریم میں کسی قِسم کے اختلاف کی کوئی گنجائش ہے ہی نہیں ، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے (((((أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا:::کیا یہ لوگ قران میں غور و فِکر نہیں کرتے اور اگر قران اللہ کے علاوہ کسی اور کے پاس سے ہوتا تو یہ لوگ یقیناً اُس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے ))))) سورت النساء / آیت 82،
                  یعنی قران پاک میں کہیں کوئی اختلاف نہیں ، یہ ہی حق ہے اور اس پر ہمارا اِیمان ہے ، لیکن جیسا کہ میں نے ابھی کہا کہ کئی مقامات پر ہمیں ایک آیت دوسری کسی آیت کے موافق نہیں لگتی بلکہ اس کے مخالف لگتی ہے ،
                  تو ہمارے اذہان میں کچھ پریشانی سے واقع ہوتی ہے ، جب ہم اس پریشانی کا حل تلاش کرتے ہوئے ایسی آیات کی تفسیر کی طرف رجوع کرتے ہیں ، وہ تفیسر جو ہمیں سنت مبارکہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین، تابعین ، تبع تابعین اور اُمت کے أئمہ کرام رحمہم اللہ سے ملتی ہے تو ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین مبارکہ میں کہیں کوئی اختلاف نہیں ہے اور نہ ہی کہیں کمی یا نُقص ہے ، بلکہ اللہ نے اپنے کچھ احکام نازل فرمانے کے بعد والے احکام کے ذریعے ان پہلے والے احکام کو منسوخ فرمایا ہے ، لیکن اُن کی تلاوت برقرار رکھی ہے ، لہذا وہ اللہ کی کتاب میں حرفاً حرفا ً اسی طرح موجود ہیں جس طرح اللہ نے نازل فرمایا تھا،اورہمیشہ ہمیشہ موجود رہیں گے ،
                  قران پاک کی آیات میں موجود احکام کے منسوخ کیے جانے کی دلیل بھی ہمیں اللہ کے اسی کلام میں سے ملتی ہے ،
                  اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کا فرمان پاک ہے (((((مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ::: ہم جِس آیت کو منسوخ کر دیتے ہیں یا اُسے ترک کر دیتے ہیں تو اُس سے زیادہ خیر والی یا اُسی کے جیسی دوسری آیت لاتے ہیں، کیا آپ نہیں جانتے کہ اللہ ہر ایک چیز پر قادر ہے ))))) سورت البقرہ /آیت 106،
                  اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا اِرشاد عالی مقام ہے (((((وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَكَانَ آيَةٍۙ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُوا إِنَّمَا أَنْتَ مُفْتَرٍۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ::: اور جب ہم (اپنی) کسی آیت کو کسی دوسری آیت سے بدل دیتے ہیں ، اور اللہ خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ کیا نازل فرماتا ہے ، تو(اُس تبدیلی کی وجہ سے) کافر کہتے ہیں کہ تم تو اپنی طرف سے جھوٹی(باتیں)بنانے والے ہو ، (جبکہ) حقیقت یہ ہے کہ اُن کی اکثریت علم نہیں رکھتی)))))سورت النحل /آیت 101،
                  نزول قران کے وقت کفار و مشرکین یہ بات قبول نہ کرتے تھے کہ اللہ کے احکام میں اللہ کی آیات میں کوئی تنسیخ ہو سکتی ہے ، یا کوئی آیت نازل کیے جانے کے بعد تبدیل بھی کی جا سکتی ہے ، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو طعنہ دیتے تھے ، اور اس عقیدے کی بنا پر یہودیوں نے """ البدء """ کا فلسفہ بنایا ، اور پھر مسلمانوں میں سے ایک گروہ نے مزید جمع تقسیم کرتے ہوئے وہ فلسفہ اپنے عقائد میں شامل کر لیا ، افسوس اب مسلمان بھی کچھ ایسی باتیں کرتے سنائی دیتے ہیں ، تفصیل ان شاء اللہ حسبء ضرورت و علی الموقع ،
                  فی الحال اس تمہیدی بیان کے اختتام کی طرف چلتے ہوئے کہتا ہوں کہ ، اسی ناسخ اور منسوخ کی دلیل اللہ پاک کا یہ فرمان مبارک بھی ہے (((((يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَآءُ وَيُثْبِتُ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ ::: اللہ جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جو چاہتا ہے قائم رکھتا ہے اور اللہ کے پاس ہی اصل بنیادی کتاب ہے))))) سورت الرعد /آیت 39،
                  علوم القران میں سے """ الناسخ و المنسوخ """ ایک نہایت أہم شعبہ ہے ، اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے اس کی ابتداء ثابت ہے ،
                  اس علم میں کتب کی تصنیف کا آغاز تابعین رحمہم اللہ کے دور میں ہی ہو گیا تھا ،
                  سب سے پہلی تصنیف جو ہمارے اس دور تک بھی مطبوعہ میسر ہے ، وہ جلیل القدر تابعی قتادہ بن دعامہ رحمہ ُ اللہ ، جن کا سن پیدائش60 ہجری اور سن وفات 117ہجری ہے ،
                  اور اس کے بعد ہمارے اس دور تک اس أہم علم کے بارے میں تصانیف ہو رہی ہیں ، ان معلومات کو مہیا کرنے کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ یہ قران پاک میں ناسخ اور منسوخ کسی کا ذاتی فلسفہ یا خام خیالی نہیں ، بلکہ ایک یقینی علم ہے ،
                  فی الحال اپنی بات یہاں روکتے ہوئے اِس موضوع سے براہ راست متعلق ایک أہم نکتے کا ذکر کرنا انتہائی ضروری سمجھتا ہوں ہے اور وہ یہ کہ تنسیخ یعنی منسوخ کیا جانا صرف احکام میں ہے
                  ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                  سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                  Comment


                  • #39
                    Re: رفع الیدین

                    Originally posted by shizz View Post
                    agr aap imaam bukhaari pe tnqeed kr rhe hain to unki kitab jo quraan ke baad sabse sahi kitaab mani jati hai uska inkaar kr rhe hain aur 5 hzaar se zaayed hadees ka inkaar kr rhe hain.


                    میں ناسخ و منسوخ کی بات کررہا ہوں جب اللہ تعالیٰ کے احکامات وقت کے ساتھ منسوخ ہوسکتے ہیں باقی کیا بچتا ہے بےشک غائب کا علم اللہ کے سوا کسی کے پاس نہیں

                    ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                    سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                    Comment


                    • #40
                      Re: رفع الیدین

                      Originally posted by shizz View Post
                      مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ::: ہم جِس آیت کو منسوخ کر دیتے ہیں یا اُسے ترک کر دیتے ہیں تو اُس سے زیادہ خیر والی یا اُسی کے جیسی دوسری آیت لاتے ہیں، کیا آپ نہیں جانتے کہ اللہ ہر ایک چیز پر قادر ہے ))))) سورت البقرہ /آیت 106،
                      ji bilkul ye Quran ki Ayat hai

                      mera jwab ab hi wohi hai ..

                      aik swal pooch loon agr bura na lagy tou





                      Comment


                      • #41
                        Re: رفع الیدین

                        Oh madam ji aap ko ye bat kyo samj nahi ati k

                        Imam bukhari ya ksi bhi imam pr shak krna Hadees ka inkar nahi ho sakta

                        aap log khud lakeer k faqeer bany ho ..

                        dooosro ko rah dikhany ki bat krty hoo

                        ye rah dikha rahe ho ya ankho py patti bandh rahe ho





                        Comment


                        • #42
                          Re: رفع الیدین

                          Originally posted by Sub-Zero View Post


                          میں ناسخ و منسوخ کی بات کررہا ہوں جب اللہ تعالیٰ کے احکامات وقت کے ساتھ منسوخ ہوسکتے ہیں باقی کیا بچتا ہے بےشک غائب کا علم اللہ کے سوا کسی کے پاس نہیں







                          ایسے ناسخ و منسوخ جن کے بارے میں کتاب اللہ سے بعض اور حدیث سے بعض احکام ملتے ہیں



                          ہم نے بعض اہل علم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالی نے پانچ نمازوں کو فرض کرنے سے قبل ایک اور نماز فرض کی تھی چنانچہ اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے

                          یا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ۔ قُمْ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا۔ نِصْفَهُ أَوْ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا۔ أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلْ القُرَآن تَرْتِيلًا۔

                          اے چادر اوڑھنے والے! رات کو تھوڑی دیر نماز میں کھڑے رہیے، آدھی رات یا اس سے کچھ کم یا اس سے کچھ زیادہ کر لیجیے اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھیے۔

                          (المزمل 73:1-4)

                          اس حکم کو اللہ تعالی نے اسی سورت میں اس طرح سے منسوخ کر دیا۔

                          إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنَى مِنْ ثُلُثَي اللَّيْلِ وَنِصْفَهُ وَثُلُثَهُ، وَطَائِفَةٌ مِنْ الَّذِينَ مَعَكَ، وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ‏.‏ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَيْكُمْ، فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْ القُرَآن، عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضَى وَآخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ، وَآخَرُونَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ، وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ۔

                          آپ کا رب جانتا ہے کہ آپ کبھی دو تہائی رات، کبھی آدھی رات اور کبھی تہائی رات نماز میں گزارتے ہیں اور آپ کے ساتھیوں میں سے بھی ایک گروہ ایسا ہی کرتا ہے۔ اللہ تعالی ہی رات اور دن کا حساب رکھتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ آپ اوقات کا صحیح شمار نہیں کر سکتے، اس لئے اس نے آپ پر مہربانی فرمائی۔ اب جتنا قرآن بھی آسانی سے پڑھ سکیں، تلاوت کر لیا کریں۔ اسے معلوم ہے کہ آپ لوگوں میں کچھ مریض ہوں گے اور کچھ اللہ کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرنے کے لئے زمین میں بھاگ دوڑ کرتے ہوں گے اور کچھ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہوں گے۔ پس جتنا قرآن باآسانی پڑھا جا سکے، پڑھ لیا کریں، نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں۔

                          (المزمل 73:20)

                          اللہ تعالی نے پہلے یہ حکم دیا کہ آپ رات کے نصف یا اس سے کچھ کم و بیش حصے کو نماز میں گزاریے اور پھر یہ فرمایا کہ "آپ کبھی دو تہائی رات، کبھی آدھی رات اور کبھی تہائی رات نماز میں گزارتے ہیں اور آپ کے ساتھیوں میں سے بھی ایک گروہ ایسا ہی کرتا ہے "۔ اس کے بعد اس میں اس میں یہ کہتے ہوئے تخفیف فرما دی کہ " اسے معلوم ہے کہ آپ لوگوں میں کچھ مریض ہوں گے اور کچھ اللہ کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرنے کے لئے زمین میں بھاگ دوڑ کرتے ہوں گے اور کچھ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہوں گے۔ پس جتنا قرآن باآسانی پڑھا جا سکے، پڑھ لیا کریں۔" اس طرح سے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں "پس جتنا قرآن باآسانی پڑھا جا سکے، پڑھ لیا کریں " کے الفاظ سے نصف رات یا اس سے کم و بیش کے قیام کو منسوخ فرما دیا۔

                          اللہ تعالی کے اس ارشاد " پس جتنا قرآن باآسانی پڑھا جا سکے، پڑھ لیا کریں " میں دو احتمال ممکن ہو سکتے ہیں: ایک تو یہ کہ یہ لازمی فرض ہے جس نے اس سے پہلے والے فرض کو منسوخ کر دیا۔ دوسرا احتمال یہ ہو سکتا تھا کہ یہ بذات خود ایک منسوخ حکم ہے جو کہ کسی اور (تیسرے) حکم سے اسی طرح منسوخ ہو چکا ہے جیسا کہ اس نے پہلے حکم کو منسوخ کر دیا۔ اس حکم کو منسوخ کرنے والا حکم یہ ہے

                          وَمِنْ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا ۔

                          رات کو تہجد پڑھیے، یہ آپ کے لئے اضافی حکم ہے تاکہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر پہنچا دے۔

                          (بنی اسرائیل 17:79)

                          اس حکم میں کہ "رات کو تہجد پڑھیے، یہ آپ کے لئے اضافی حکم ہے" میں یہ احتمال ممکن تھا کہ تہجد کی نماز باآسانی قرآن پڑھ لینے کے علاوہ ایک مزید فرض ہے۔ اب یہ بات ضروری ہو گئی ہے کہ ہم اس معاملے میں ایک متعین معنی اختیار کرنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت کی طرف رجوع کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ صرف پانچ نمازیں ہی ہم پر فرض کی گئی ہیں۔ اس سے پہلے جو نماز بھی ہم پر لازم تھی، وہ اب منسوخ ہو چکی ہے۔ اس معاملے میں ہم اللہ تعالی کے اس ارشاد " تہجد پڑھیے، یہ آپ کے لئے اضافی حکم ہے" سے استدلال کرتے ہیں۔ اس حکم نے رات کے نصف یا تہائی قیام یا جو کچھ باآسانی میسر ہو سکے کے حکم کو منسوخ کر دیا ہے۔
                          نوٹ: تہجد کی نماز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم پر فرض قرار دیا گیا جبکہ عام مسلمانوں پر بھی ابتدا میں اسے فرض قرار دیا گیا اور اس کے بعد اس فرضیت کو منسوخ کر کے اسے نفل کی حیثیت سے برقرار رکھا گیا۔


                          اس بحث کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم تہجد کی نماز کو اپنی استطاعت کے مطابق ادا کرنے کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ جو بھی جتنا زیادہ یہ عمل کر سکے وہ ہمارے
                          نزدیک (بحیثیت نفل) ایک پسندیدہ عمل ہے۔

                          (صرف پانچ نمازیں فرض ہیں اور تہجد نفل، احادیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔)

                          مالک اپنے چچا ابو سہیل بن مالک سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے طلحۃ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا: اہل نجد میں سے ایک پرجوش دیہاتی آیا، جس کی آواز بھی ہم سن نہ پا رہے تھے اور نہ یہ سمجھ پا رہے تھے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ حضور کے قریب آ گیا اور اسلام کے بارے میں سوال کرنے لگا۔
                          نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "دن و رات میں پانچ نمازیں تم پر فرض کی گئی ہیں۔"
                          بولا، "کیا اس کے علاوہ کچھ اور بھی ہے؟"
                          فرمایا، "نہیں۔ ہاں اگر تم اپنی مرضی سے اضافہ کرنا چاہو تو کوئی حرج نہیں۔"
                          اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ماہ رمضان کے روزوں کا ذکر فرمایا تو وہ کہنے لگا، "کیا اس کے علاوہ اور بھی کچھ ہے؟"
                          آپ نے فرمایا، "نہیں سوائے اس کے کہ تم اپنی مرضی سے زیادہ کر لو۔"
                          وہ شخص واپس گیا اور کہہ رہا تھا، "میں نہ تو اس میں اضافہ کروں گا اور نہ ہی کمی۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "اگر یہ سچ کہہ رہا ہے تو کامیاب ہو گیا۔"

                          (بخاری، مسلم، نسائی)

                          عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ جو بھی انہیں اس طرح سے ادا کرتا ہے کہ ان میں سے کچھ نہ تو ضائع کرتا ہے اور نہ ہی کم تو اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل فرما دے۔"

                          (نسائی، ابو داؤد، ابن ماجہ، احمد)

                          نسخ کی دیگر مثالیں

                          عذر کے باعث نماز نہ پڑھنے کا حکم

                          اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے

                          وَيَسْأَلُونَكَ عَنْ الْمَحِيضِ‏؟ ‏قُلْ‏:‏ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ، فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمْ اللَّهُ‏.‏ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ، وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ۔

                          یہ آپ سے حیض کی حالت کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ کہیے، "وہ اذیت کی حالت ہے، اس میں خواتین سے الگ رہو اور ان کے قریب اس وقت تک نہ جاؤ جب تک کہ وہ پاک صاف نہ ہو جائیں۔ پھر جب وہ پاک ہو جائیں تو ان سے اس طرح سے ازدواجی تعلقات قائم کرو جیسا کہ اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے۔" اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار کریں۔

                          (البقرۃ 2:222)

                          اللہ تعالی نے نماز پڑھنے والے پر وضو اور جنابت کی صورت میں غسل کے ذریعے طہارت لازم کی ہے۔ اس کے بغیر نماز ادا کرنا جائز نہیں۔ اللہ تعالی نے حیض کے حالت کے بارے میں بیان کیا ہے کہ خواتین کے پاک ہونے تک ان سے دور رہا جائے۔ جب وہ پاک ہو جائیں تو ان کے پاس آنا جائز ہے۔ اس سے ہم یہ بات اخذ کر سکتے ہیں کہ وہ حیض کے خاتمے پر پانی سے غسل کر کے پاک ہوں کیونکہ عام طور پر شہروں میں تو پانی ہر حال میں دستیاب ہوتا ہی ہے۔ حالت حیض کے دوران غسل کرنے سے وہ پاک نہ ہوں گی کیونکہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت میں (غسل کے ذریعے) پاک ہونے کا حکم حیض کے ختم ہونے پر دیا ہے۔

                          مالک، عبدالرحمٰن بن قاسم سے اور وہ اپنے والد سے اور وہ سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ حالت احرام میں نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ساتھ تھیں جب آپ حالت حیض سے دوچار ہوئیں۔ حضور نے انہیں حکم دیا کہ وہ دوسرے حاجیوں کی طرح حج کے تقاضے پورے کریں سوائے اس کے کہ وہ پاک ہونے تک بیت اللہ کا طواف نہ کریں۔

                          (بخاری، مسلم، احمد، مالک)

                          اس سے ہم یہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالی نے نماز کو اس شخص پر لازم کیا ہے جو وضو یا غسل کے ذریعے طہارت حاصل کر لے۔ جہاں تک کسی حائضہ خاتون کا تعلق ہے تو وہ حالت حیض میں وضو یا غسل کر کے پاک نہیں ہو سکتی۔ حیض تو ایک قدرتی عمل ہے اور خاتون کا اس پر کوئی اختیار بھی نہیں ہے کہ وہ اس کے باعث (نماز چھوڑنے پر) گناہ گار ہو۔ اسی وجہ سے حیض کے ایام میں انہیں نماز کے فرض سے مستثنی کر دیا گیا ہے اور ان کے لئے یہ ضروری نہیں کہ حیض کے خاتمے پر وہ چھوڑی ہوئی نمازوں کی قضا ادا کریں۔

                          حائضہ خاتون کے بارے میں اس وضاحت کی بنیاد پر ہم ذہنی معذور شخص کو بھی قیاس کر سکتے ہیں۔ اس پر یہ بیماری اللہ تعالی کی جانب سے آئی ہے جس میں اس کا کوئی قصور نہیں۔ اسی وجہ سے جب تک وہ ذہنی طور پر معذور رہے اور اس کی عقل لوٹ کر نہ آئے، اسے نماز معاف کر دی گئی ہے۔

                          یہ بات اہل علم میں عام ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے حائضہ خواتین کو نماز قضا کرنے کا حکم تو نہیں دیا البتہ انہیں روزے کی قضا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسی وجہ سے ہم ان دونوں فرائض میں فرق کرتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے بیان کیا کہ اسے ہم اہل علم کے منتقل کرنے اور ان کے اجماع سے اخذ کرتے ہیں۔

                          روزے اور نماز میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ مسافر رمضان کے روزے میں تاخیر کر سکتا ہے لیکن اس کے لئے نماز میں ایک دن کی تاخیر کرنا بھی منع ہے۔ روزے تو بارہ مہینوں میں سے صرف ایک مہینے میں ادا کئے جاتے ہیں اور گیارہ مہینے اس فرض کے بغیر ہوتے ہیں جبکہ ایسے شخص کے لئے جو نماز کی طاقت رکھتا ہو ایک دن بھی نماز سے خالی نہیں ہو سکتا۔

                          نشے کے باعث نماز نہ پڑھنے کا حکم

                          اللہ تعالی کا ارشاد ہے

                          لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ، وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا ۔

                          نشے کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ تم جو کہتے ہو وہ سمجھنے لگو۔ اور اسی طرح جنابت کی حالت میں بھی نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک کہ غسل نہ کر لو۔ (یہ حکم اس شخص کے لئے نہیں ہے) جو (مسجد سے بطور) راستہ گزرنے والا ہو۔

                          (النساء 4:43)

                          بعض اہل علم کا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ آیت شراب کی حرمت سے پہلے نازل ہوئی (اور وہ اسے منسوخ سمجھتے ہیں۔) قرآن مجید نے یہ حکم دیا ہے کہ کوئی شخص بھی نشے کی حالت میں نماز نہ پڑھے یہاں تک کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے اسے سمجھنے کے قابل ہو جائے۔ ایسے شخص کو نماز سے روکنے کے بعد اس شخص کو بھی نماز سے روکا گیا ہے جو حالت جنابت میں ہو۔ اہل علم کا اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ کوئی شخص حالت جنابت میں نماز نہ پڑھے۔اسے ایسا غسل کرنے کے بعد کرنا چاہیے۔

                          نشے کی حالت میں نماز سے روکنے کو اگر شراب کی حرمت سے پہلے کے زمانے کا حکم بھی مان لیا جائے، تب اس وقت جب کہ شراب حرام ہو چکی ہے تو یہ حکم مزید اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ اس پر عمل نہ کرنے والا (یعنی نشے کی حالت میں نماز پڑھے والا) دو وجوہات سے گناہ گار ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ وہ نشے کی حالت میں نماز پڑھی ہے اور دوسرا یہ کہ اس نے شراب پی ہے۔

                          چونکہ نماز قول، فعل اور (ایسے کاموں سے جن کی نماز میں اجازت نہیں ہے) رکنے کا نام ہے اس وجہ سے اس شخص کی نماز نہیں ہے جو (نشے کے باعث) قول، فعل اور رکنے کی عقل نہیں رکھتا۔ جو شخص اللہ تعالی کے حکم کے مطابق نماز ادا نہیں کر سکتا تو یہ اس کے لئے جائز ہی نہیں ہے۔ جب بھی اسے افاقہ ہو تو اس پر قضا نماز کی ادائیگی لازم ہے۔

                          ہمیں نشہ کرنے والے اور ذہنی معذور شخص میں فرق کرنا چاہیے۔ ذہنی معذور کی عقل تو اللہ تعالی کے حکم سے سلب ہوئی ہے جس میں اس کے ارادے کا کوئی عمل دخل نہیں جبکہ نشہ کرنے والا خود نشے کی حالت میں گیا ہے۔ اسی وجہ سے نشہ کرنے والے پر نماز کی قضاء کرنا لازم ہے جبکہ ذہنی معذور پر قضا نماز کی ادائیگی لازم نہیں کیونکہ اس نے جان بوجھ کر اپنی مرضی سے اللہ تعالی کی نافرمانی نہیں کی۔

                          قبلے کی تبدیلی

                          اسی طرح اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو نماز میں بیت المقدس (یروشلم) کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا۔ اس حکم کے منسوخ ہونے سے قبل کسی اور جانب رخ کرنے کی اجازت نہ تھی۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے بیت المقدس کی طرف منہ کرنے کا حکم منسوخ کر دیا اور بیت الحرام (مکہ) کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا۔ اب کسی شخص کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اس حکم کے آنے کے بعد بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتا رہے اور نہ ہی یہ جائز ہے کہ وہ کسی اور سمت کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرے۔

                          یہ سب احکام اپنے اپنے وقت پر درست تھے۔ جب اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا تو یہی درست تھا۔ اس کے بعد جب اس حکم کو اس نے منسوخ کر دیا تو اب درست صرف یہی ہے کہ بیت اللہ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کی جائے۔ کتاب و سنت سے استدلال کرتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فرض نماز میں کسی اور جانب رخ کرنا اب جائز نہیں سوائے اس کے کہ دشمن کے حملے کا خطرہ ہو یا پھر سفر میں نفل نماز ادا کرتے ہوئے اس کی اجازت ہے کہ جس طرف ممکن ہو، منہ کر کے نماز ادا کی جائے۔

                          اسی طرح ہر اس حکم کا معاملہ ہے جسے اللہ تعالی نے منسوخ قرار دے دیا۔ نسخ کا مطلب یہ ہے کہ کسی حکم پر عمل کرنا ختم کر دیا جائے۔ اس حکم پر عمل کرنا اپنے وقت میں بالکل درست تھا اور جب اللہ تعالی نے اسے منسوخ کر دیا تو اب اسے ترک کر دینا ہی درست ہے۔ جو شخص بھی کسی حکم کے منسوخ ہونے سے آگاہ ہو جائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ منسوخ حکم پر عمل چھوڑ دے اور ناسخ پر عمل شروع کر دے۔ جو شخص اس بات سے بے خبر رہا وہ بے شک اسی منسوخ حکم پر عمل کرتا رہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے

                          قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ، فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا، فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ۔

                          یہ تمہارے چہرے کا آسمان کی طرف بار بار اٹھنا ہم دیکھ رہے ہیں۔ لو ہم تمہیں اسی قبلے کی طرف پھیر دیتے ہیں، جسے تم پسند کرتے ہو۔ اپنے چہرے کو مسجد الحرام کی طرف پھیر لو اور جہاں کہیں بھی تم ہو، اسی کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرو۔

                          (البقرہ24)

                          کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ قبلے کی تبدیلی کا حکم کہاں بیان کیا گیا ہے؟

                          سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنْ النَّاسِ‏:‏ مَا وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمْ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا‏؟‏ قُلْ‏:‏ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ‏.‏ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ ۔

                          نادان لوگ ضرور کہیں گے: "انہیں کیا ہوا، پہلے یہ جس قبلے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے، یکایک اس سے پھر گئے؟" آپ ان سے کہیے: "مشرق و مغرب تو اللہ ہی کے لئے ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دے دیتا ہے۔"

                          (البقرۃ 22)

                          مالک، عبداللہ بن دینار سے اور وہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں: ہم لوگ قبا میں فجر کی نماز ادا کر رہے تھے جب ایک پیغام لانے والا آیا اور کہنے لگا، "رات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی ہے اور آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ قبلے کو تبدیل کر لیں تو آپ نے ایسا کر لیا ہے۔" لوگوں کے منہ اس وقت شام (شمال) کی طرف تھے جنہیں انہوں نے (یہ حکم سننے کے بعد) منہ پھیر کر کعبہ (جنوب) کی جانب کر لیا۔

                          (بخاری، نسائی)

                          مالک، یحیی بن سعید سے اور وہ سعید بن مسیب سے روایت کرتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سولہ مہینے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز ادا کی۔ اس کے بعد جنگ بدر سے دو ماہ قبل قبلے کو تبدیل کر دیا گیا۔

                          (بخاری، نسائی، ابن ماجہ، مالک، احمد)

                          خطرے کی حالت میں نماز پڑھنے کے بارے میں حکم قرآن مجید کی اس آیت میں ملتا ہے، " فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا " یعنی"خطرے کی حالت میں خواہ پیدل ہو یا سوار، (نماز پڑھو)۔" اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خوف کی حالت کے سوا کسی اور صورت میں جانور پر سوار کے لئے فرض نماز ادا کرنا جائز نہیں۔ اللہ تعالی نے یہاں قبلے کی طرف منہ کرنے کا ذکر نہیں کیا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے خطرے کی حالت کی نماز سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے روایت کی ہے، آپ نے فرمایا

                          اگر خطرے کی حالت شدید ہو جائے تو تم لوگ پیدل یا سوار جیسے بھی ممکن ہو تم نماز ادا کرو خواہ منہ قبلے کی طرف ہو یا نہ ہو۔

                          (بخاری، مالک)

                          رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے نفل نمازیں اپنی اونٹنی پر ادا فرمائیں اور آپ کا رخ اس جانب تھا جدھر اونٹنی سفر کر رہی تھی۔ اس حدیث کو جابر بن عبداللہ، انس بن مالک اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم نے روایت کیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ہمیشہ فرض نماز زمین پر کھڑے ہو کر قبلے کی طرف رخ کر کے ہی ادا کی ہیں۔

                          ابن ابی فدیک، ابن ابی ذئب سے، وہ عثمان بن عبداللہ سے، وہ سراقہ سے اور وہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں: "نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے غزوہ بنی انمار کے دوران اپنے اونٹ پر ہی مشرق کی جانب منہ کر کے نماز ادا کی۔

                          (مسند شافعی، مسند ابی حنیفہ)




                          نوٹ: اس موضوع پر دور جدید میں ایک دلچسپ بحث پیدا ہو گئی ہے کہ کار، بس، ریل اور ہوائی جہاز میں نماز کیسے ادا کی جائے گی؟ بعض اہل علم جانور کی سواری پر قیاس کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ ان سواریوں پر نماز کی اجازت نہیں ہے بلکہ ہر صورت میں ان سے اتر کر ہی نماز ادا کی جائے۔ ٹرانسپورٹ کے موجودہ نظام میں اس نقطہ نظر کے حاملین کو کافی مسائل پیش آ جاتے ہیں۔ اہل علم کا دوسرا گروہ ان سواریوں کو کشتی پر قیاس کرتے ہوئے اس بات کو جائز قرار دیتا ہے کہ ان سواریوں میں جدھر بھی رخ ہو سکے، کھڑے ہو کر یا بیٹھے بیٹھے جیسے بھی ممکن ہو، نماز ادا کی جائے۔

                          امام شافعی کی بیان کردہ حدیث کے علاوہ بعض ایسی روایات بھی ملتی ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے زمین پر کیچڑ کے باعث اپنے جانور پر ہی فرض نماز بھی ادا فرمائی ہے۔ اگر محض کیچڑ کے باعث سواری پر نماز ادا کی جا سکتی ہے تو پھر اس سے کہیں بڑے مسائل جیسے ٹرین چھوٹ جانے وغیرہ کی صورت میں یہ اجازت بدرجہ اولی حاصل ہو گی۔



                          جاری ہے

                          Comment


                          • #43
                            Re: رفع الیدین

                            بعض لوگ رفع یدین کرنے کے بعد پھر سے ہاتھ سینے پر رکھتے ہیں۔۔
                            کیا یہ بھی ٹھیک ہے ۔۔ اصلاح فرمائیں شکریہ۔۔
                            اسکے علاوہ جس جگہ میں رہتا ہوں وہاں مسجد کا امام غیر مقلد ہے وہ صاحب اپنے
                            مصلے کے سامنے ریک میں قرآنِ مجید فرقانِ حمید اور ایک اور کتاب دروسِ مساجد رکھتا ہے۔۔
                            اس کے بغیر وہ نماز نہیں پڑھتا ۔۔۔ کئی بار پوچھنے کی کوشش کی لیکن کچھ بتا نہیں رہے۔۔
                            امید ہے اپ میں سے کوئی میری رہنمائی فرمائینگے ۔۔
                            جزاک اللہ خیر

                            Comment


                            • #44
                              Re: رفع الیدین

                              Originally posted by -=The Driver=- View Post
                              بعض لوگ رفع یدین کرنے کے بعد پھر سے ہاتھ سینے پر رکھتے ہیں۔۔
                              کیا یہ بھی ٹھیک ہے ۔۔ اصلاح فرمائیں شکریہ۔۔
                              اسکے علاوہ جس جگہ میں رہتا ہوں وہاں مسجد کا امام غیر مقلد ہے وہ صاحب اپنے
                              مصلے کے سامنے ریک میں قرآنِ مجید فرقانِ حمید اور ایک اور کتاب دروسِ مساجد رکھتا ہے۔۔
                              اس کے بغیر وہ نماز نہیں پڑھتا ۔۔۔ کئی بار پوچھنے کی کوشش کی لیکن کچھ بتا نہیں رہے۔۔
                              امید ہے اپ میں سے کوئی میری رہنمائی فرمائینگے ۔۔
                              جزاک اللہ خیر



                              ڈرائیور بھائی

                              یہ جاننے کی کوشش کریں کہ وہ آگے قرآن اور کوئی اور کتاب کس نیت سے رکھتا ہے


                              Comment


                              • #45
                                Re: رفع الیدین

                                Originally posted by lovelyalltime View Post


                                ڈرائیور بھائی

                                یہ جاننے کی کوشش کریں کہ وہ آگے قرآن اور کوئی اور کتاب کس نیت سے رکھتا ہے


                                کئی بار کوشش کی میں پوچھنے کی ۔۔۔ تو جواب بھی صرف اپنے پندرہ کلو کا سر ہلا تا ہے اور کہتا ہے۔۔

                                لا لا ۔۔ھذا لازم۔۔۔۔
                                مجھے شک پڑھتا ہے کبھی کبھی کہ اس کے پیچھے نماز ہوتی ہے کہ نہیں۔۔
                                ہر جمعہ کے دن فجر میں سجدہ تلاوت
                                ہر جمعرات کو سورۃ جمعۃ
                                ہر فجر دوسروں رکعت میں دعا۔۔
                                یہ تو بالکل فرض کی طرح کرتا رہتا ہے۔
                                اچھا وہ بات کہ بعض لوگ رفع یدین کرنے کے بعد پھر سے اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ہیں۔۔
                                اس بارے میں بھی اصلاح فرمائیں ۔۔
                                نوازش

                                Comment

                                Working...
                                X