Re: احناف رفع یدین کے معاملے میں تضاد کا شکار
وعلیکم سلام -
بھائی ہم اور آپ اچھی طرح جانتے ہیں رفع یدین کے معنی ہیں دونوں ہاتھوں کا اٹھانا - یہ تو متعدد احدیث سے ثابت ہے رفع یدین نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے چار موقعوں پرکیا اور اپنے آخری وقت تک کیا - نماز کے شرو ع میں رکوع میں جاتے وقت سجدے میں جاتے وقت اور دوسری سے تیسری رکعت میں جاتے ہوے رکعت کے آغاز میں- اس پر پہلے ہی بہت سی صحیح احدیث اس فورم پر پیش کے جا چکی ہیں -جس پر آپ بھی ا پنے کومنٹس بھی پیش کر چکے ہیں -
میرا کہنا صرف یہ ہے کہ اگررفع یدین غیر ضروری ہے - تو جو آپ نماز کے آغاز میں رفع یدین کرتے ہیں اور جو تمام مسالک کے مسلمان کرتے ہیں -اور جس میں کسی کو اختلاف بھی نہیں - اس رفع یدین کے متعلق آپ کی کیا راے ہے - کیا یہ فرض ہے واجب ہے یا سنّت ہے یا غیر موکدہ سنّت ہے - کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ احناف نے پہلی رفع یدین کے بغیر نماز کا آغاز کیا ہو -؟؟؟؟ اگر ایسا نہیں اور یقینا ایسا نہیں تو پھر باقی رفع یدین پر اتنا ا عترا ض کیوں ؟؟؟
مجھے یا لولی صاحب یا دوسرے غیر مقلدین کو آپ کے امام ابو حنیفہ رحمللہ سے کوئی بغض نہیں - میرے نزدیک وہ اپنے وقت کے ایک بہت بڑے عالم اور مجتہد تھے - دین کے لئے ان کی بہت سی خدمات ہیں -لیکن ان تمام باتوں کے باوجود وہ بہرحال ایک انسان تھے نبی نہیں تھے - ان سے بھی خطا ء کا امکان تھا - اور ہمارے کہنے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ کسی بھی انسان چاہے وہ کتنا ہی بڑا عالم یا امام ہو اس کی باتوں پر آنکھیں بند کر کے اس کی پیروی کرنا عقلمندی نہیں جہالت ہے -
جہاں تک امام بخاری رحمللہ یا امام مسلم رحملہ کا تعلق ہے تو وہ بھی ایک انسان تھے -خطا ء ان سے بھی ممکن ہے لیکن فرق یہ کہ ان کی حثیت ایک محدث کی ہے نا کہ مجتہد کی - مجتہد کی راے میں اس کا اپنا ذاتی دخل ہوتا ہے جس کے صحیح یا غلط دونوں کا احتمال ہوتا ہے- نیز یہ کہ اس کی را ے تحقیق کی بنا پر تبدیل بھی ہوسکتی ہے -جب کہ محدث کا کام خبر واحد یا خبر متواتر کو روایت سے ثابت کرنا ہوتا ہے -اور اس روایت کو پرکھنے کے مختلف اصول وضع کیے گئے جن کی بنیاد پر کسی روایت کو موزوع یا صحیح کہا گیا -اور پھر دوسرے محدثین اور آ ئمہ نے ان پر مختلف طریقوں سے جرح بھی کی ہے - بلکہ خود بخاری اور مسلم نے اپنی روایات پر تحقیق کے بعد جرح کی -لہذا ان کی صحیح روایات پر ایمان لانے کا علاوہ چارہ نہیں - کیوں کہ حدیث بہرحال دین کا حصّہ ہے اور اس پرایمان لاے بغیر عمل ممکن نہیں ہے - جب کہ امام کا اجتہاد اس کی اپنی ذاتی راے پر منحصر ہو تا ہے -اس کا کوئی خاص اصول نہیں ہوتا -اس لئے ہی یہ کہا جاتا ہے کہ امام کے قول کو صحیح حدیث پر پرکھو اور پھر اگر وہ حدیث کے موافق ہو تو قبول کر لو اور اگر نا موافق ہو تو رد کر دو - قرآن میں بھی الله نے مسلمانوں کو اسی بات کا حکم د یا ہے-
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ۖ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا سوره النسا ہ ٥٩
اے ایمان والو الله کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حاکم ہوں پھر اگر آپس میں کسی چیز میں جھگڑا ہو جائے تو اسے الله اور اس کے رسول کی طرف پھی دو اگر تم الله اور قیامت کے دن پر یقین رکھتے ہو یہی بات اچھی ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت بہتر ہے-
اس کا یہ مطلب نہیں کہ امام کی ہر راے یا اجتہاد غلط ہی ہو گا -بلکہ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ امام جس حدیث سے اپنی راے اخذ کر رہا ہے اس کی اپنی حثیت کیا ہے -ممکن ہے امام نے کسی حدیث سے اگر کوئی راے اخذ کی تو وہ اس کی نظر میں اس وقت صحیح تھی - لیکن بعد کے تاریخی حقائق کی وجہ سے وہ راے غلط ثابت ہو گئی اور امام نے اپنا موقف بدل لیا ہو -اور ایسا صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کے دور میں بھی ہوا اگر کسی صحابی نے کسی حدیث کا مطلب لیا اور بعد میں کسی اور صحابی نے اس کی تصیح کر دی تو جوصحابی غلطی پر ہوتا وہ اپنی راے سے رجوع کر لیتا- لیکن کسی صحابی نے اس بنیاد پر اپن مسلک نہیں بنایا -
فاتحہ خلف الامام کے مسلے میں بقول امام شعرانی رحمللہ امام ابو حنیفہ رحمللہ نے اپنی راے سے رجوع کر لیا تھا - یعنی بعد میں وہ فاتحہ خلف الامام کے کے قائل ہو گئے تھے -لیکن احناف تقلید کی برکت سے ابھی تک فاتحہ خاف الامام کے قائل نہیں اور امام ابو حنیفہ کی پہلی راے کے مطابق عمل پیرا ہیں -
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے ایسے معاملات ہیں جن میں احناف باوجود اپنا تن من دھن امام ابو حنیفہ رحملہ پر قربان کرنے کو تیار ہیں - لیکن بہت سے دوسرے معاملات جو عقائد سے متعلق ہے اس میں وہ اپنے ہی امام کی پیروی دور دور تک کرتے نظر نہیں آتے
-امام صاحب قبر پرستی کے سخت مخالفین میں سے تھے (دیکھیے ہدایہ جلد ٢ ) لیکن احناف سے بڑھ کر قبر پرست کوئی نہیں - امام رحملہ سے قرآن خوانی چالیسواں ثابت نہیں - احناف کہ ہاں یہ چیزیں بدرجہ اتمام ملیں گی - امام صاحب نے کبھی عید میلاد نہیں منائی - اس کو وہ بدعت سمجھتے تھے - احناف اس بدعت کو بڑی خوشی خوشی سر انجام دیتے ہیں - -امام نے کبھی نذر و نیاز نہیں دی - احناف کا دین اس بدعت کے بغیر مکمل نہیں-
یہ نام نہاد احناف جو ہر وقت امام حنیفہ رحمللہ کی مالا جپھتے ہیں جب ان مقلدین کا غیر مقلدین سے پالا پڑتا ہے تو امام ابو حنیفہ اور حنفی فقہ کی رٹ لگانا شروع کردیتے ہیں-لیکن جب عقائد پر عمل کی باری آتی ہے تو کو کبھی امام ابو ما تریدی کی پیچھے تو کبھی امام رضا بریلوی کے پیچھے تو کبھی کسی کے پیچھے - اور جب کوئی غیر مقلد تقلید کے وجوب پر ا عترا ض کرتا یا اس کا انکار کرتا ہے تو جھٹ سے یہ آیت پیش کردیتے ہیں فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون سورة النحل ٤٣ - حالانکہ ان عقل سے پیدل نام نہاد حنفیوں سے پوچھا جائے کہ کیا اس آیت کا حکم کا تعلق صرف فروعی اور اجتہادی
مسائل سے ہے- عقائد سے متعلق معاملات پر اس آیت کا حکم لاگو نہیں ہوتا ؟؟
امید کرتا ہوں کہ آپ میری باتوں کو سمجھ گئے ہونگے- اگر میرے نظریات سے آپ متفق نہیں یا اختلاف رکھتے ہیں تو اس پر اپنے کمنٹس دے سکتے ہیں میں برا نہیں مانوں گا
آخر میں میں یہی کہوں گا کہ الله ہم سب کو اپنی ہدایت سے نوازے (آ مین )
Originally posted by i love sahabah
View Post
وعلیکم سلام -
بھائی ہم اور آپ اچھی طرح جانتے ہیں رفع یدین کے معنی ہیں دونوں ہاتھوں کا اٹھانا - یہ تو متعدد احدیث سے ثابت ہے رفع یدین نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے چار موقعوں پرکیا اور اپنے آخری وقت تک کیا - نماز کے شرو ع میں رکوع میں جاتے وقت سجدے میں جاتے وقت اور دوسری سے تیسری رکعت میں جاتے ہوے رکعت کے آغاز میں- اس پر پہلے ہی بہت سی صحیح احدیث اس فورم پر پیش کے جا چکی ہیں -جس پر آپ بھی ا پنے کومنٹس بھی پیش کر چکے ہیں -
میرا کہنا صرف یہ ہے کہ اگررفع یدین غیر ضروری ہے - تو جو آپ نماز کے آغاز میں رفع یدین کرتے ہیں اور جو تمام مسالک کے مسلمان کرتے ہیں -اور جس میں کسی کو اختلاف بھی نہیں - اس رفع یدین کے متعلق آپ کی کیا راے ہے - کیا یہ فرض ہے واجب ہے یا سنّت ہے یا غیر موکدہ سنّت ہے - کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ احناف نے پہلی رفع یدین کے بغیر نماز کا آغاز کیا ہو -؟؟؟؟ اگر ایسا نہیں اور یقینا ایسا نہیں تو پھر باقی رفع یدین پر اتنا ا عترا ض کیوں ؟؟؟
مجھے یا لولی صاحب یا دوسرے غیر مقلدین کو آپ کے امام ابو حنیفہ رحمللہ سے کوئی بغض نہیں - میرے نزدیک وہ اپنے وقت کے ایک بہت بڑے عالم اور مجتہد تھے - دین کے لئے ان کی بہت سی خدمات ہیں -لیکن ان تمام باتوں کے باوجود وہ بہرحال ایک انسان تھے نبی نہیں تھے - ان سے بھی خطا ء کا امکان تھا - اور ہمارے کہنے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ کسی بھی انسان چاہے وہ کتنا ہی بڑا عالم یا امام ہو اس کی باتوں پر آنکھیں بند کر کے اس کی پیروی کرنا عقلمندی نہیں جہالت ہے -
جہاں تک امام بخاری رحمللہ یا امام مسلم رحملہ کا تعلق ہے تو وہ بھی ایک انسان تھے -خطا ء ان سے بھی ممکن ہے لیکن فرق یہ کہ ان کی حثیت ایک محدث کی ہے نا کہ مجتہد کی - مجتہد کی راے میں اس کا اپنا ذاتی دخل ہوتا ہے جس کے صحیح یا غلط دونوں کا احتمال ہوتا ہے- نیز یہ کہ اس کی را ے تحقیق کی بنا پر تبدیل بھی ہوسکتی ہے -جب کہ محدث کا کام خبر واحد یا خبر متواتر کو روایت سے ثابت کرنا ہوتا ہے -اور اس روایت کو پرکھنے کے مختلف اصول وضع کیے گئے جن کی بنیاد پر کسی روایت کو موزوع یا صحیح کہا گیا -اور پھر دوسرے محدثین اور آ ئمہ نے ان پر مختلف طریقوں سے جرح بھی کی ہے - بلکہ خود بخاری اور مسلم نے اپنی روایات پر تحقیق کے بعد جرح کی -لہذا ان کی صحیح روایات پر ایمان لانے کا علاوہ چارہ نہیں - کیوں کہ حدیث بہرحال دین کا حصّہ ہے اور اس پرایمان لاے بغیر عمل ممکن نہیں ہے - جب کہ امام کا اجتہاد اس کی اپنی ذاتی راے پر منحصر ہو تا ہے -اس کا کوئی خاص اصول نہیں ہوتا -اس لئے ہی یہ کہا جاتا ہے کہ امام کے قول کو صحیح حدیث پر پرکھو اور پھر اگر وہ حدیث کے موافق ہو تو قبول کر لو اور اگر نا موافق ہو تو رد کر دو - قرآن میں بھی الله نے مسلمانوں کو اسی بات کا حکم د یا ہے-
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ۖ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا سوره النسا ہ ٥٩
اے ایمان والو الله کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حاکم ہوں پھر اگر آپس میں کسی چیز میں جھگڑا ہو جائے تو اسے الله اور اس کے رسول کی طرف پھی دو اگر تم الله اور قیامت کے دن پر یقین رکھتے ہو یہی بات اچھی ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت بہتر ہے-
اس کا یہ مطلب نہیں کہ امام کی ہر راے یا اجتہاد غلط ہی ہو گا -بلکہ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ امام جس حدیث سے اپنی راے اخذ کر رہا ہے اس کی اپنی حثیت کیا ہے -ممکن ہے امام نے کسی حدیث سے اگر کوئی راے اخذ کی تو وہ اس کی نظر میں اس وقت صحیح تھی - لیکن بعد کے تاریخی حقائق کی وجہ سے وہ راے غلط ثابت ہو گئی اور امام نے اپنا موقف بدل لیا ہو -اور ایسا صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کے دور میں بھی ہوا اگر کسی صحابی نے کسی حدیث کا مطلب لیا اور بعد میں کسی اور صحابی نے اس کی تصیح کر دی تو جوصحابی غلطی پر ہوتا وہ اپنی راے سے رجوع کر لیتا- لیکن کسی صحابی نے اس بنیاد پر اپن مسلک نہیں بنایا -
فاتحہ خلف الامام کے مسلے میں بقول امام شعرانی رحمللہ امام ابو حنیفہ رحمللہ نے اپنی راے سے رجوع کر لیا تھا - یعنی بعد میں وہ فاتحہ خلف الامام کے کے قائل ہو گئے تھے -لیکن احناف تقلید کی برکت سے ابھی تک فاتحہ خاف الامام کے قائل نہیں اور امام ابو حنیفہ کی پہلی راے کے مطابق عمل پیرا ہیں -
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے ایسے معاملات ہیں جن میں احناف باوجود اپنا تن من دھن امام ابو حنیفہ رحملہ پر قربان کرنے کو تیار ہیں - لیکن بہت سے دوسرے معاملات جو عقائد سے متعلق ہے اس میں وہ اپنے ہی امام کی پیروی دور دور تک کرتے نظر نہیں آتے
-امام صاحب قبر پرستی کے سخت مخالفین میں سے تھے (دیکھیے ہدایہ جلد ٢ ) لیکن احناف سے بڑھ کر قبر پرست کوئی نہیں - امام رحملہ سے قرآن خوانی چالیسواں ثابت نہیں - احناف کہ ہاں یہ چیزیں بدرجہ اتمام ملیں گی - امام صاحب نے کبھی عید میلاد نہیں منائی - اس کو وہ بدعت سمجھتے تھے - احناف اس بدعت کو بڑی خوشی خوشی سر انجام دیتے ہیں - -امام نے کبھی نذر و نیاز نہیں دی - احناف کا دین اس بدعت کے بغیر مکمل نہیں-
یہ نام نہاد احناف جو ہر وقت امام حنیفہ رحمللہ کی مالا جپھتے ہیں جب ان مقلدین کا غیر مقلدین سے پالا پڑتا ہے تو امام ابو حنیفہ اور حنفی فقہ کی رٹ لگانا شروع کردیتے ہیں-لیکن جب عقائد پر عمل کی باری آتی ہے تو کو کبھی امام ابو ما تریدی کی پیچھے تو کبھی امام رضا بریلوی کے پیچھے تو کبھی کسی کے پیچھے - اور جب کوئی غیر مقلد تقلید کے وجوب پر ا عترا ض کرتا یا اس کا انکار کرتا ہے تو جھٹ سے یہ آیت پیش کردیتے ہیں فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون سورة النحل ٤٣ - حالانکہ ان عقل سے پیدل نام نہاد حنفیوں سے پوچھا جائے کہ کیا اس آیت کا حکم کا تعلق صرف فروعی اور اجتہادی
مسائل سے ہے- عقائد سے متعلق معاملات پر اس آیت کا حکم لاگو نہیں ہوتا ؟؟
امید کرتا ہوں کہ آپ میری باتوں کو سمجھ گئے ہونگے- اگر میرے نظریات سے آپ متفق نہیں یا اختلاف رکھتے ہیں تو اس پر اپنے کمنٹس دے سکتے ہیں میں برا نہیں مانوں گا
آخر میں میں یہی کہوں گا کہ الله ہم سب کو اپنی ہدایت سے نوازے (آ مین )
Comment