Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

sirf Ghazal

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Re: sirf Ghazal

    بخشش ہوا یقین۔۔گماں بے لباس ہے
    ہے آگ جامہ زیب۔۔دھواں بے لباس ہے

    ہے یہ فضا ہزار لباسوں کا اک لباس
    جو بے لباس ہے وہ کہاں بے لباس ہے

    ملبوس تار تارِ نفس ہے زیانِ سود
    سُودِ زیان یہ ہے کہ زیاں بے لباس ہے

    محمل نشینِ رنگ! کوئی پوستینِ رنگ
    ریگِ رواں ہوں۔۔ریگِ رواں بے لباس ہے

    اب پارہ پارہ پوششِ گفتار بھی نہیں
    ہیں سانس بے رفو سو زیاں بے لباس ہے

    صد جامہ پوش جس کا ہے جسم برہنہ ابھی
    خلوت سرائے جاں میں وہ جاں بے لباس ہے

    ہے دل سے ہر نفس ہوسِ دید کا سوال
    خلوت ہے وہ کہاں۔۔وہ جہاں بے لباس ہے

    ہے بُود اور نبود میں پوشش نہ پیرہن
    یاراں مکین کیا کہ مکاں بے لباس ہے

    تُو خود ہی دیکھ رنگِ بدن اپنا جوش رنگ
    تُو اپنے ہر لباس میں جاں بے لباس ہے

    غم کی برہنگی کو کہاں سے جُڑے لباس
    میں لب سیے ہوئے ہوں۔۔فغاں بے لباس ہے
    ..

    Comment


    • Re: sirf Ghazal

      کوئی گماں بھی نہیں درمیاں گماں ہے یہی
      اسی گماں کو بچا لوں کہ درمیاں ہے یہی

      یہ آدمی کے ہیں انفاس جس کے زہر فروش
      اسے بٹھاؤ کہ میرا مزاج داں ہے یہی

      کبھی کبھی جو نہ آؤ نظر تو سہہ لیں گے
      نظر سے دُور نہ ہونا کہ امتحاں ہے یہی

      میں آسماں کا عجب کچھ لحاظ رکھتا ہوں
      جو اس زمین کو سہہ لے وہ آسماں ہے یہی

      یہ ایک لمحہ جو دریافت کر لیا میں نے
      وصالِ جاں ہے یہی اور فراقِ جاں ہے یہی

      تم اُن میں سے ہو جو یاں فتح مند ٹھہرے ہیں
      سنو کہ وجہِ غمِ دل شگستگاں ہے یہی..

      Comment


      • Re: sirf Ghazal

        کون سے شوق کِس ہوس کا نہیں
        دل میری جان تیرے بس کا نہیں

        راہ تم کارواں کی لو کہ مجھے
        شوق کچھ نغمۂ جرس کا نہیں

        ہاں میرا وہ معاملہ ہے کہ اب
        کام یارانِ نکتہ رَس کا نہیں

        ہم کہاں سے چلے ہیں اور کہاں
        کوئی اندازہ پیش و پس کا نہیں

        ہو گئی اس گِلے میں عمر تمام
        پاس شعلے کو خاروخس کا نہیں

        مُجھ کو خود سے جُدا نہ ہونے دو
        بات یہ ہے میں اپنے بس کا نہیں

        کیا لڑائی بَھلا کہ ہم میں سے
        کوئی بھی سینکڑوں برس کا نہیں..

        Comment


        • Re: sirf Ghazal

          دل تمنا سے ڈر گیا جانم
          سارا نشہ اُتر گیا جانم

          اک پلک بیچ رشتۂ جاں سے
          ہر زمانہ گزر گیا جانم

          تھا غضب فیصلے کا اِک لمحہ
          کون پھر اپنے گھر گیا جانم

          جانے کیسی ہوا چلی اک بار
          دل کا دفتر بِکھر گیا جانم

          اپنی خواب و خیال دنیا کو
          کون برباد کر گیا جانم

          تھی ستم ہجر کی مسیحائی
          آخرش زخم بھر گیا جانم

          اب بَھلا کیا رہا ہے کہنے کو
          یعنی میں بے اثر گیا جانم

          نہ رہا دل نہ داستاں دل کی
          اب تو سب کچھ بسر گیا جانم

          زہر تھا اپنے طور سے جینا
          کوئی اِک تھا جو مر گیا جانم..

          Comment


          • Re: sirf Ghazal

            گماں کی اک پریشاں منظری ہے
            بس اک دیوار ہے اور بے دری ہے

            اگرچہ زہر ہے دنیا کی ہر بات
            میں پی جاؤں اسی میں بہتری ہے

            تُو اے بادِ خزاں اس گُل سے کہیو
            کہ شاخ اُمید کی اب تک ہری ہے

            گلی میں اس نگارِ ناشنو کی
            فغاں کرنا ہماری نوکری ہے

            کوئی لہکے خیابانِ صبا میں
            یہاں تو آگ سینے میں بھری ہے..

            Comment


            • Re: sirf Ghazal

              گِلے سے باز آیا جا رہا ہے
              سو پیہم گنگنایا جا رہا ہے

              نہیں مطلب کسی پہ طنز کرنا
              ہنسی میں مسکرایا جا رہا ہے

              وہاں اب میں کہاں اب تو وہاں سے
              مرا سامان لایا جا رہا ہے

              عجب ہے ایک حالت سی ہوا میں
              ہمیں جیسے گنوایا جا رہا ہے

              اب اس کا نام بھی کب یاد ہو گا
              جسے ہر دَم بھُلایا جا رہا ہے

              چراغ اس طرح روشن کر رہا ہوں
              کہ جیسے گھر جلایا جا رہا ہے

              بَھلا تم کب چلے تھے یوں سنبھل کر
              کہاں سے اُٹھ کے جایا جا رہا ہے

              تو کیا اب نیند بھی آنے لگی ہے
              تو بستر کیوں بِچھایا جا رہا ہے..

              Comment


              • Re: sirf Ghazal

                شہر بہ شہر کر سفر زادِ سفر لیے بغیر
                کوئی اثر کیے بغیر کوئی اثر لیے بغیر

                کوہ و کمر میں ہم صفیر کچھ نہیں اب بجز ہوا
                دیکھیو پلٹیو نہ آج شہر سے پَر لیے بغیر

                وقت کے معرکے میں تھیں مجھ کو رعایتیں ہوس
                میں سرِ معرکہ گیا اپنی سِپر لیے بغیر

                کچھ بھی ہو قتل گاہ میں حُسنِ بدن کا ہے ضرر
                ہم نہ کہیں سے آئیں گے دو پر سر لیے بغیر

                قریۂ گریہ میں مرا گریہ ہنرورانہ ہے
                یاں سے کہیں ٹلوں گا میں دادِ ہنر لیے بغیر

                اُسکے بھی کچھ گِلے ہیں دل۔۔ان کا حساب تم رکھو
                دید نے اس میں کی بسر اس کی خبر لیے بغیر

                اُس کا سخن بھی جا سے ہے اور وہ یہ کہ جونؔ تم
                شہرۂ شہر ہو تو کیا شہر میں گھر لیے بغیر..

                Comment

                Working...
                X