Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

~~ Where there is love there is life ~~ collection from the painful heart of pErIsH_BoY .>>>>>>

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • رات کے دوسرے کنارے پر

    رات کے دوسرے کنارے پر


    جانے کیا بات ہے کہ شام ڈھلے
    خوف نادیدہ کہ اشارے پر
    جھلملاتے ہوئے چراغ کی لَو
    مجھ سے کہتی ہے " افتخار عارف ! "
    رات کے دوسرے کنارے پر
    " ایک رات اور انتظار میں ہے "
    کوئی چپکے سے دل میں کہتا ہے
    رات پہ بس چلے نہ چلے
    خواب تو اپنے اختیار میں ہے


    Comment


    • ستمبر کی یاد میں

      ستمبر کی یاد میں

      اور تو کچھ یاد نہیں بس اتنا یاد ہے
      اس سال بہار ستمبر کے مہینے تک آگئی تھی
      اُس نے پوچھا
      " افتخار ! یہ تم نظمیں ادھوری کیوں چھوڑ دیتے ہو"
      اب اُسے کون بتاتا کہ ادھوری نظمیں اور ادھوری کہانیاں
      اور ادھورے خواب
      یہی تو شاعر کا سرمایہ ہوتے ہیں
      پورے ہو جائیں تو دل اندر سے خالی ہوجاتا ہے
      پھر دھوپ ہی دھوپ میں اتنی برف پڑی کہ بہت اونچا
      اُڑنے والے پرندے کے پَر اس کا تابوت بن گئے
      اور تو کچھ یاد نہیں بس اتنا یاد ہے
      اس سال بہار ستمبر کے مہینے تک آگئی تھی





      Comment


      • کھوئے ہوئے اک موسم کی یاد میں

        کھوئے ہوئے اک موسم کی یاد میں


        سمائے میری آنکھوں میں خواب جیسے دن
        وہ مہتاب سی راتیں گلاب جیسے دن
        وہ گنج شہرِ وفا میں سحاب جیسے دن
        وہ دن کہ جن کا تصّور متاعِ قریہ دل
        وہ دن کہ جن کی تّجلی فروغ ہر محفل
        گئے وہ دن تو آندھیروں میں کھو گئی منزل
        فضا کا جبر شکستہ پَروں پہ آپہنچا
        عذاب در بدری بے گھروں پہ آپہنچا
        ذرا سی دیر میں سورج سروں پہ آپہنچا
        کِسے دکھائیں یہ بے مائیگی حزینوں کی
        کٹی جو فصل تو غُربت بڑھی زمینوں کی
        یہی سزا ہے زمانے میں بے یقینوں کی


        Comment


        • خوں بہا

          خوں بہا

          اپنے شہسواروں کو
          قتل کرنے والوں سے
          خوں بہا طلب کرنا
          وارثوں پہ واجب تھا
          قاتلوں پہ واجب تھا
          خوں بہا ادا کرنا
          واجبات کی تکمیل
          منصفوں پہ واجب تھی
          (منصفوں کی نگرانی
          قدسیوں پہ واجب تھی )
          وقت کی عدالت میں
          ایک سمت مسند تھی
          ایک سمت خنجر تھا
          تاجِ زرنگار اِک سمت اِک طرف تھی مجبوری
          اک طرف مقدر تھا
          طائفے پکار اُٹھے
          ’’تاج و تخت زندہ باد!
          سازورخت زندہ باد!‘‘
          خلق ہم سے کہتی ہے، سارا ماجرہ لکھیں
          کس نے کس طرح پایا اپنا خوں بہا، لکھیں
          چشمِ نم سے شرمندہ،
          ہم قلم سے شرمندہ، سوچتے ہیں کیا لکھیں


          Comment


          • تم ا س لڑکی کو دیکھتے ہو

            کیوں نام ہم اس کے بتلائیں

            تم ا س لڑکی کو دیکھتے ہو
            تم ا س لڑکی کو جانتے ہو
            وہ اجلی گوری ؟ نہیں نہیں
            وہ مست چکوری نہیں نہیں
            وہ جس کا کرتا نیلا ہے ٘؟
            وہ جس کا آنچل پیلا ہے ؟
            وہ جس کی آ نکھ پہ چشمہ ہے
            وہ جس کے ماتھے ٹیکا ہے
            ا ن سب سے الگ ا ن سب سے پرے
            وہ گھاس پہ نیچے بیلوں کے
            کیا گول مٹول سا چہرہ ہے
            جو ہر دم ہنستا رہتا ہے
            کچھ چتان ہیں البیلے سے
            کچھ ا س کے نین نشیلے سے
            ا س وقت مگر سوچوں میں مگن
            وہ سانولی صورت کی ناگن
            کیا بے خبرانہ بیٹھی ہے
            یہ گیت اسی کا در پن ہے
            یہ گیت ہمارا جیون ہے
            ہم ا س ناگن کے گھائل تھے
            ہم اس کے مسائل تھے
            جب شعر ہماری سنتی تھی
            خا موش دوپٹا چنتی تھی
            جب وحشت ا سے سستاتی تھی
            کیا ہرنی سی بن جاتی تھی
            یہ جتنے بستی والے تھے
            ا س چنچل کے متوالے تھے
            ا س گھر میں کتنے سالوں کی
            تھی بیٹھک چاہنے والوں کی
            گو پیار کی گنگا بہتی تھی
            وہ نار ہی ہم سے کہتی تھی
            یہ لوگ تو محض سہارے ہیں
            ا نشا جی ہم تو تمہارے ہیں
            ا ب ا ور کسی کی چاہت کا
            کرتی ہے بہانا ۔۔۔ بیٹھی ہے
            ہم نے بھی کہا دل نے بھی کہا
            دیکھو یہ زمانہ ٹھیک نہیں
            یوں پیار بڑھانا ٹھیک نہیں
            نا دل مانا ، نا ہم مانے
            ا نجام تو سب دنیا والے جانے
            جو ہم سے ہماری وحشت کا
            سنتی ہے فسانہ بیٹھی ہے
            ہم جس کے لئے پردیس پھریں
            جوگی کا بدل کر بھیس پھریں
            چاہت کے نرالے گیت لکھیں
            جی موہنے والے گیت لکھیں
            ا س شہر کے ایک گھروندےمیں
            ا س بستی کے اک کونے میں
            کیا بے خبرا نہ بیٹھی ہے
            ا س درد کو ا ب چپ چاپ سہو
            انشا جی لہو تو ا س سے کہو
            جو چتون کی شکلوں میں لیے
            آنکھوں میں لیے ،ہونٹوں میں لیے
            خوشبو کا زمانہ بیٹھی ہے
            لوگ آپ ہی آپ سمجھ جائیں
            کیوں نام ہم ا س کا بتلائیں
            ہم جس کے لیے پردیس پھرے

            چاہت کے نرالے گیت لکھے
            جی موہنے والے گیت لکھے
            جو سب کے لیے دامن میں بھرے
            خوشیوں کا خزانہ بیٹھی ہے
            جو خار بھی ہے ا ور خوشبو بھی
            جو درد بھی ہے ا ور دار و بھی
            لوگ آپ ہی آپ سمجھ جائیں
            کیوں نام ہم ا س کا بتلائیں
            وہ کل بھی ملنے آئی تھی
            وہ آج بھی ملنے آئی ہے
            جو ا پنی نہیں پرائی ہے


            Comment


            • نیا درد ایک دل میں جگا کر چلا گیا۔۔

              نیا درد ایک دل میں جگا کر چلا گیا۔۔
              کل پھر وہ میرے شہر میں آ کرچلا گیا۔۔
              جسے ڈھونڈتی رہی میں لوگوں کی
              بھیڑ میں ۔۔
              مجھ سے وہ اپنا آپ چھپا کرچلا گیا۔۔
              میں اس کی خاموشی کا سبب پوچھتی
              رہی۔۔۔
              وہ قصے ادھر ادھر کے سنا کر چلا گیا
              بھولوں گی اب اسے۔۔۔
              ایک شخص وہ جو مجھ کو بھلا کر چلا گیا۔۔۔۔
              پروین شاکر




              Comment


              • آٹوگراف : مجید امجد

                آٹوگراف : مجید امجد



                کھلاڑیوں کے خود نوشت دستخط کے واسطے
                کتابچے لئے ہوئے
                کھڑی ہیں منتظر حسین لڑکیاں
                ڈھلکتے آنچلوں سے بےخبر حسین لڑکیاں

                مہیب پھاٹکوں کے ڈولتےکو اڑ چیخ اٹھے
                ابل پڑے الجھتے بازوؤں چٹختی پسلیوں کے
                پُر ہراس قافلے
                گرے، بڑھے، مُڑے بھنور ہجوم کے

                کھڑی ہیں یہ بھی راستے پہ اک طرف
                بیاضِ آرزو بکف
                نظر نظر میں نارسا پرستشوں کی داستاں
                لرز رہا ہے دم بہ دم
                کمان ابرواں کا خم
                کوئی جب ایک نازِ بےنیاز سے
                کتابچوں پہ کھینچتا چلا گیا
                حروفِ کج تراش کی لکیر سی
                تو تھم گئیں لبوں پہ مسکراہٹیں شریر سی
                کسی عظیم شخصیت کی تمکنت
                حنائی اگلیوں میں کانپتے ورق پہ جھک گئی
                تو زرنگار پلوؤں سے جھانکتی کلائیوں کی تیز
                نبض رُک گئی

                وہ باؤلر ایک مہ وشوں کے جمگھٹوں میں گھر گیا
                وہ صفحہِ بیاض پر بصد غرورکلکِ گوہروں پھری
                حسین کھلکھلاہٹوں کے درمیاں وکٹ گری

                میں اجنبی میں بے نشاں
                میں پا بہ گل !
                نہ رفعتِ مقام ہے نہ شہرتِ دوام ہے
                یہ لوحِ دل ۔۔۔۔۔ یہ لوحِ دل !
                نہ اس پہ کوئی نقش ہے نہ اس پہ کوئی نام ہے





                Comment


                • لمبی عمریں ان پہاڑوں کی

                  لمبی عمریں ان پہاڑوں کی
                  کٹتی نہیں ھم سے،
                  اک رات یہ جاڑوں کی

                  لمبے پینڈے دریاؤں کے
                  لوٹ کے نہ آئے بجرے،
                  الٹے دھل گئے پاؤں کے

                  لمبے قد ھیں درختوں کے
                  گرتے نھیں لمحے،
                  پر کٹ گئے وقتوں کے

                  لمبا موسم پت جھڑ کا
                  پکی امیدیں ھیں،
                  پتّا گرتا نھیں بڑ کا

                  لمبے یادوں کے دھاگے ھیں
                  ایک صدی پیچھے،
                  دو جگ آگے ھیں

                  لمبی بیلیں ھیں یادوں کی
                  نیندیں گہری ھیں ساون کی،
                  خواب لمبے بہاروں کے

                  لمبی لٹ آبشاراں دی
                  مینڈیاں بنا مایئں،
                  گْٹ کر مْٹیاراں دی

                  لمبی سانس جو لی یارو
                  اک عمر اْدھڑنے لگی،
                  بات اس کی چلی یارو

                  لمبی عمریں ان پہاڑوں کی
                  کٹتی نھیں ھم سے،
                  اک رات یہ جاڑوں کی


                  Comment


                  • اک بستی نئے حوالوں کی!

                    نئے حوالے

                    پلکوں کے کنارے جلتے ہیں
                    کچھ خواب ادھورے ٹوٹے سے
                    اک چپ کی مُہر ہے ہونٹوں پر
                    پر سانس بھی ہم پہ بھاری ہے
                    اور دل کی بستی خالی ہے!

                    کچھ یادیں جگنو جیسی ہیں
                    جوپلکوں پہ آرکتی ہیں
                    ہم کب تک جلتا دیکھیں گے
                    اک سپنا اپنی آنکھوں کا
                    اک جنگل اپنی خواہشوں کا!

                    دل کی گھور تاریکی میں
                    اک آس کی شمع روشن ہے
                    مہماں ہے بس کچھ لمحوں کی
                    کبھی جلتی ہے کبھی بجھتی ہے
                    کہ یہ بے مہروں کی بستی ہے!

                    ہم اب کے برس یہ سوچتے ہیں
                    ان یادوں کو ان خوابوں کو
                    کہیں چھوڑ دور نکل جائیں
                    پلکوں کے کنارے آباد کریں
                    اک بستی نئے حوالوں کی!


                    Comment


                    • سارے پودے سوکھ گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                      میں خوش ہوں جاناں

                      تم دیکھ لو کبھی آکے

                      کہیں بھی کوئی غم کی چھایا

                      تم کو نظر نہیں آئے گی

                      آنکھ میں ڈھونڈنے کے باوجود

                      تم اک آنسو بھی نہ پاؤ گئے

                      لبوں کی میرے ہنسی یہ تم کو

                      باور کرواہی دے گی کہ

                      میں خوش ہوں

                      لیکن میرے باغیچے کے

                      سارے پودے سوکھ گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




                      Comment


                      • دو سیاہ آنکھیں

                        دو سیاہ آنکھیں

                        بڑی بڑی دو سیاہ آنکھیں
                        تمہارے چہرے میں کھوگئی ہیں
                        تمہاری آواز چلتے چلتے
                        یہ چاہتی ہیں کہ اب عبادت
                        صبح ہو یا شام ہو مگر ہو
                        تمہارا چہرہ ۔۔۔ تمہارا چہرہ
                        جو نیلگوں لہر میں ڈبودے
                        مجھے ڈبو دے، مجھے ڈبو دے
                        مرے بدن کے تمام کانٹے چنے
                        اور اپنے بھی پاؤں رکھ دے
                        وفا کے ٹھنڈے سے پانیوں میں
                        محبتوں کی روانیوں میں
                        بڑی بڑی دو سیاہ آنکھیں
                        تمہارےچہرے میں کھو گئی ہیں ۔۔۔


                        Comment


                        • دریائےنیل

                          دریائےنیل

                          اپنا رستہ ڈھونڈنا اکثر
                          اتنا سہل نہیں ہوتا ہے
                          لوگوں کے اس جنگل میں
                          چلنا سہل نہیں ہوتا ہے
                          یہ تو کوئی جگنو ہے جو
                          لے کر روشن سی قندیل
                          کبھی کبھی
                          یوں راہ بنائے
                          جیسے ہو دریائےنیل ۔۔۔۔


                          Comment


                          • پگلی

                            پگلی

                            سپنے بنتے نیناں پر
                            ہونٹ جب اپنے رکھ دوگے
                            دھیرے دھیرے سرگوشی میں
                            کانوں سے کچھ کہدوگے
                            اور میں۔۔۔
                            آنکھیں موندے موندے
                            کروٹ اپنی بد لوں گی
                            گہری نیند کو شوخ ادا سے
                            چپکے چپکے کھولوں گی
                            آنچل میں چہرے کو چھپا کر
                            کَن اَکھیوں سے دیکھوں گی
                            چاند کی چوڑی سے کرنیں
                            چھن چھن،چھن چھن ٹوٹیں گی
                            جھیل سی ٹھہری دھڑکن اُس دَم
                            دھک دھک ،دھک دھک بولے گی
                            اور تم بھی۔ ۔ ۔
                            دھیرے سے ہنس کر
                            مجھ کو کہدوگے
                            پگلی ۔ ۔ ۔


                            Comment


                            • سنہرا لہجہ۔ ۔ ۔

                              سنہرا لہجہ

                              نیلگوں فضاؤں میں
                              شور ہے بپا دل میں
                              شدتوں کے موسم کی
                              چاہتیں سوا دل میں
                              حبس ہے بھرا دل میں
                              میں اداس گلیوں کی
                              اک اداس باسی ہوں
                              بادلوں کے پردے سے
                              واہموں کو ڈھکتی ہوں
                              خوشبوئیں گلابوں کے جسم سے نکلتی ہیں
                              روشنی کی امیدیں کونپلوں پہ چلتی ہیں
                              پھر بہار آنے سے پہلے ٹوٹ جاتی ہیں
                              چوڑیاں بھی ہاتھوں میں ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں
                              جسم کے شگوفوں میں رنگ چھوڑ جاتی ہیں
                              بس سنہرے لہجےکی
                              روشنی ہے لو جیسی
                              ہونٹ سے پرے دل میں
                              کام کی دعا ایسی
                              کس کو یہ خبر لیکن
                              اِس سنہرے لہجے میں
                              کھارے کھارے پانی سا
                              بدگمانیوں سے پُر
                              زہر،ایسا گھل جائے
                              جس سے ایک دم سارا
                              سنہرا لہجہ۔ ۔ ۔
                              دھل جائے ۔ ۔ ۔


                              Comment


                              • خوشبو

                                خوشبو

                                کل ملبوس نکالا اپنا
                                ہلکا کاسنی رنگت کا
                                دھڑ سے کھول کے دل کے پٹ کو
                                خوشبو سن سن کرتی آئی
                                جیسے نیل کنارے پر
                                لہراتا اک چنچل آنچل
                                جیسے سرد اماوس میں
                                کُرتا جھلمل تاروں کا
                                جیسے سرخ گلابوں کی
                                رم جھم کے پھندنے کلیاں
                                جیسے رات کی رانی
                                بن کے جھالر سر سر کرتی ہو
                                جیسے چمبیلی چمپا کے
                                گہنے ہاتھوں سے لپٹیں
                                جیسے سبزے پر مخمل کی
                                گرگابی کے نگ دمکیَں
                                جیسے بوگن ویلیا کے سب
                                گرتے ہوئے گھنگھرو چھنکیں
                                جیسے ہار سنگھار کا ریشم
                                نارنجی چہرے کو پونچھے
                                جیسے بنفشے کی مسکانیں
                                درد اُدھیڑیں سیون سیون
                                جیسے سدا بہار کے چھلے
                                پہنے کوئی انگلی میں
                                جیسے نرگس نیلے پیلے
                                ڈورے ڈالے نیناں میں
                                لیکن رجنی گندھا کی
                                سوکھی سوکھی شاخ پہ اٹکی
                                ایک کلی نے یاد مجھے
                                وہ سوندھی سی پہنائی ہے
                                جس کی قبر کو
                                گیندے کی چادر سے
                                ہم نے ڈھانپا تھا ۔ ۔ ۔


                                Comment

                                Working...
                                X