Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

~~ Where there is love there is life ~~ collection from the painful heart of pErIsH_BoY .>>>>>>

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Re: بارش

    Originally posted by Meh-vish View Post
    koshish karti hoon ....bas kafi masroof rehti hoon iss liye zara dair ho jati hai.....mujhy bhi baat kar ke acha laga.

    aap ki aur bhi khubsoorat poetry ka intezar rehy ga.
    main nay private messeg main kuch poem ki thi ap nay un poems par commentx nahi kiya ku?


    Comment


    • Re: بارش

      insha allah zaroor.
      :rosekhushboo:rose

      Comment


      • Re: بارش

        Originally posted by Meh-vish View Post
        insha allah zaroor.
        ap nay read nahi kiye kya jo apko private messege kiya tha


        Comment


        • Re: Nazmein ( Only in Urdu Font ).........!!!

          @Meh-vish
          Last edited by pErIsH_BoY; 2 February 2014, 22:00.


          Comment


          • Re: بارش

            abhi jo bheja tha who wala mesg ??
            :rosekhushboo:rose

            Comment


            • Re: بارش

              Originally posted by Meh-vish View Post
              abhi jo bheja tha who wala mesg ??
              ouf main nay to ap ko 3 mesg send kiye hai


              Comment


              • Re: بارش

                main ne jawab toh de diya hai na...mila ke nehin
                :rosekhushboo:rose

                Comment


                • جھوٹا

                  جھوٹا

                  وہ کہتا تھا
                  ہتھیلی پر خزان رت میں
                  مرا جب نام لکھو گے
                  تو تم خوشبو کی صورت میں
                  مجھے نزدیک پاؤ گے
                  اسے شاید خبر ہوگی
                  خزاں رت میں ہتھیلی پر
                  ہمیشہ خار اگتے ہیں


                  Comment


                  • دوسری جُدائی

                    دوسری جُدائی

                    تری خوشبو
                    ہوا کے سبز دامن میں بسی
                    تو سوچ نے آنکھوں میں خواہش کے دریچے کھول کر دل سے کہا
                    "خدا شاہد
                    کہ ہم نے آج تک بچھڑے ہوؤں کو پھر کبھی ملتے نہیں دیکھا
                    مگر حیرت سماعت پر کہ یہ آہٹ اُسی کی ہے
                    جسے تُم نے گنوایا تھا
                    جُدائی کی ہواجس کے مہکتے مہکتے جسم کی خوشبو سے خالی تھی
                    جسے کھونے کا لمحہ ہر نئے موسم کا حاصل تھا
                    ستارے جس کی صورت دیکھنے ہر شب نکلتے تھے
                    نظارے ہاتھ ملتے تھے "
                    یکایک شہر کی گلیوں میں اُس کے نام کی خوشبو اُڑی میں نے
                    رفاقت کے پُرانے نرم لہجے میں اُسے آواز دی
                    اُس نے مجھے دیکھا
                    مگر اُس کی نگاہوں میں فقط حیرت ہویدا تھی
                    کہ جیسے پوچھتا ہو اس تخاطب کا سبب کیا ہے
                    وہی چہرہ ،وہی آنکھیں، وہی خوش وضع پیکرتھا
                    کہ جیسے موسموں کا گُھن اُسے چھونے سے قاصر ہو
                    میں بچے کی طرح ششدر کھڑا تھا
                    اُس نے بالوں کو جھٹک کر ڈوبتے سورج کو گھورا
                    راستے کو آنکھ میں تولا،مجھے دیکھا
                    "سفر لمبا ہے" وہ بولا
                    میری منزل تمھاری رہگزر سے سینکڑوں فرسنگ آگے ہے
                    خدا حافظ





                    Comment


                    • چند لمحے وصال موسم کے

                      چند لمحے وصال موسم کے

                      درد کی ایک بے کراں رُت ہے
                      حبس موسم کا راج ہر جانب
                      چند لمحے وصال موسم کے
                      وہ نشیلی غزال سی آنکھیں

                      کوئی خوشبو سیاہ زلفوں کی
                      لمس پھر وہ حنائی ہاتھوں کا
                      کوئی سرخی وفا کے پیکر کی
                      پھر سے شیریں دہن سے باتیں ہوں

                      دل کی دنیا اداس ہے کتنی
                      کوئی منظر بھی اب نہیں بھاتا
                      چند لمحے وصال موسم کے

                      آصف شفیع


                      Comment


                      • ہم نے سوچ رکھا ہے!

                        ہم نے سوچ رکھا ہے!
                        چاہے دل کی ہر خواہش
                        زندگی کی آنکھوں سے اشک بن کے بہہ جائے
                        چاہے اب مکینوں پر گھر کی ساری دیواریں
                        چھت سمیت گر جائیں
                        اور بے مقدر ہم
                        اس بدن کے ملبے میں خود ہی کیوں نہ دب جائیں
                        تم سے کچھ نہیں کہنا!
                        کیسی نیند تھی اپنی کیسے خواب تھے اپنے
                        اور اب گلابوں پر
                        نرم خو سے خوابوں پر
                        کیوں عزاب ٹوٹے ہیں
                        تم سے کچھ نہیں کہنا!
                        گھرگئے ہیں راتوں میں
                        بے لباس باتوں میں
                        اس طرح کی راتوں میں
                        کب چراغ جلتے ہیں کب عزاب ٹلتے ہیں
                        اب تو ان عزابوں سے بچ کے بھی نکلنے کا راستہ نہیں جاناں!
                        جس طرح تمہیں سچ کے لازوال لمحوں سے واسطہ نہیں جاناں!
                        ہم نے سوچ رکھا ہے تم سے کچھ نہیں کہنا


                        Comment


                        • اداسی کم نہیں ھوتی

                          اداسی تیرگی ھوتی تو شاید ۔ ۔ ۔
                          ایک دیا آباد کرنے سے ہی چھٹ جاتی
                          مگر ایسا نہیں ھے ۔ ۔!!!
                          اداسی راستہ ھوتی تو ۔ ۔
                          اس کو اپنے پیروں سے گنا کرتے
                          کہیں تو جاکر گنتی ختم ھوجاتی
                          مگر ایسا نہیں ھے ۔ ۔ ۔۔!!
                          اداسی پیڑ ھوتی تو۔ ۔ ۔
                          ہم اس کے سارے بازو کاٹ کر
                          معذور کردیتے
                          مگر ایسا نہین ھے ۔ ۔ ۔!!
                          اداسی سال ھوتی تو ۔ ۔
                          ہم خود کو سمجھاتے کہ
                          دیکھو 365 دن کی بات ھے ساری
                          اداسی پھر نہیں ھوگی
                          مگر ایسا نہیں ھے ۔ ۔ ۔!!
                          اداسی ڈھیراہ ھوتی تو ۔ ۔
                          ہم اس سے کسی تشبیح کے خط کی طرح
                          نکل جاتے
                          کوئی تو ایسا لمحہ مل ہی جاتا
                          ہم سنبھل جاتے
                          مگر ایسا نہیں ھے ۔ ۔ ۔!!
                          اداسی تو اداسی کے
                          سوا کچھ بھی نیں ھے
                          یہاں جتنی بارش ھو
                          یہ مٹی نم نہیں ھوتی
                          اداسی ۔ ۔ اداسی کم نہیں ھوتی
                          اداسی کم نہیں ھوتی


                          Comment


                          • اے دشمن جاناں!

                            اے دشمن جاناں!

                            چلے آؤ کہ

                            آج موسم سرما کی

                            پہلی برف باری میں

                            تم بن

                            میرا من

                            بہت اداس ہے

                            ہر موسم تیرے بغیر

                            بلآخر کٹ ہی جاتا ہے

                            مگر سرد موسم

                            یہ ماہ دسمبر

                            تیرے بن نہیں کٹتا

                            چلے آؤ کہ

                            اس موسم میں

                            مجھے

                            تم بہت تڑپاتے ہو

                            بہت تم یاد آتے ہو


                            Comment


                            • میرے دل میں ایک سمندر جیسی لڑکی رہتی ہے

                              میرے دل میں ایک سمندر جیسی لڑکی رہتی ہے
                              امیدوں کے پیڑ کے سوکھے پتے
                              چلتی رہتی ہے
                              درد کی بالکنی میں بیٹھی
                              جانے کس کے لیے سوئیٹر بنتی رہتی ہے
                              یادوں کے رستوں سے
                              ہجر کی برف ہٹاتی رہتی ہے
                              اپریل کی میٹھی دھوپ کے نغمے
                              گاتی رہتی ہے
                              ہر ڈھڑکن کی کیاری میں
                              اک خواب اگاتی ہے
                              جاگتی اور نہ سوتی ہے
                              بس روتی ہے
                              میرے جسم کے جون جہنم کی تپتی دوپہروں کے
                              دکھ سہتی ہے
                              خوش رہتی ہے
                              ساون آتا ہے تو میری آنکھوں سے بہتی ہے
                              میرے دل میں ایک دسمبر جیسی لڑکی رہتی ہے


                              Comment


                              • اب بھی ہر دسمبر میں

                                مجھ سے پوچھتے ہیں لوگ
                                کس لئیے دسمبر میں
                                یوں اداس رہتا ہوں
                                کوئی دکھ چھپاتا ہوں
                                یا کسی کے جانے کا
                                سوگ میں مناتا ہوں

                                آپ میرے البم کا
                                صفحہ صفحہ دیکھیں* گے
                                آئیے دکھاتا ہوں
                                ضبط آزماتا ہوں

                                سردیوں کے موسم میں
                                گرم گرم کافی کے
                                چھوٹے چھوٹے سپ لے کر
                                کوئی مجھ سے کہتا تھا
                                ہائے اس دسمبر میں
                                کس بلا کی سردی ہے
                                کتنا ٹھنڈا موسم ہے
                                کتنی یخ ہوائیں ہیں

                                آپ بھی عجب شے ہیں
                                اتنی سخت سردی میں
                                ہو کے اتنے بے پروا
                                جینز اور ٹی شرٹ میں
                                کس مزے سے پھرتے ہیں

                                شال بھی مجھے دے دی
                                کوٹ بھی اڑھا ڈالا

                                پھر بھی کانپتی ہوں میں

                                چلئیے اب شرافت سے
                                پہن لیجئے سویٹر
                                آپ کے لئیے میں* نے
                                بن لیا تھا دو دن میں

                                کتنا مان تھا اس کو
                                میری اپنی چاہت پر

                                اب بھی ہر دسمبر میں
                                اسکی یاد آتی ہے

                                گرم گرم کافی کے
                                چھوٹے چھوٹے سپ لے کر
                                ہاتھ گال پر رکھے
                                حیرت و تعجب سے
                                مجھ کو دیکھتی رہتی
                                اور مسکرا دیتی

                                شوخ و سرد لہجے میں
                                مجھ سے پھر وہ کہتی تھی
                                اتنے سرد موسم میں
                                آدھی سلیوز کی ٹی شرٹ!ٓ
                                اس قدر نہ اترائیں
                                سیدھے سیدھے گھر جائیں
                                اب کی بار جب آئیں
                                براؤن ٹراؤزر کے ساتھ
                                بلیک ہائی نیک پہنیں
                                کوٹ کوئی ڈھنگ سا لے لیں
                                ورنہ میں* قسم سے پھر ایسے روٹھ جاؤں* گی
                                سامنے نہ آؤں گی
                                ڈھونٹتے ہی رہئیے گا
                                پاس بیٹھے ابّو کے
                                پالٹیکس پر کیجئے گرم گرم ڈسکشن
                                کافی لے کے کمرے مِیں مَیں تو پھر نہ آؤں* گی
                                خالی خالی نظروں* سے آپ ان خلاؤں* میں
                                یوں ہی تکتے رہئیے گا
                                اور بے خیالی پر ڈانٹ کھاتے رہئیے گا

                                کتنی مختلف تھی وہ
                                سب سے منفرد تھی وہ
                                اپنی ایک لغزش سے
                                میں نے کھو دیا اسکو

                                اب بھی ہر دسمبر میں
                                اسکی یاد آتی ہے


                                Comment

                                Working...
                                X