سنہرے اسلامی دور کی سنہری باتیں:
مسلمان سلاطین نے بڑے بڑے 'حرم' بنا کر لاتعداد عورتوں کے باڑے بنا لئے۔ خلیفہ المتوکل کے پاس چار ہزار خواتین تھی۔ کہا جاتا تھا، خلیفہ ان سب سے متمع کرچکا تھا۔ سپین کے عبدالرحمان سوم کے حرم میں چھ ہزار تین سو کنیزیں تھی۔ جو شاہی عیش سامانیوں کے لئے جمع کی ہوئی تھی۔ عثمانی خلفا کے حرم میں کنیزوں کی تعداد تین سو سے بارہ سو تک رہتی تھی۔ ان عورتوں کی نگرانی پر سینکڑوں خواجہ سرا مقرر ہوتے۔ برصغیر میں بھی مسلمان بادشاہوں کے حرم میں سینکڑوں عورتیں ہوتی تھی۔
یہ عورتیں بے حثیت اور بے قدر ہوتی۔۔ زرا سا شک ہونے پر اس کا گلہ گھونٹ کر یا زہر دے کر مار دیا جاتا تھا۔ ان کنیزوں کا کوئی وارث رشتے دار نہیں ہوتا تھا۔ سلاطین عثمانیہ میں کنیزوں کو قتل کرنے کا طریقہ بورے میں ڈال کر سی دیا جاتا تھا۔اور سمندر میں پھینک دیا جاتا تھا۔ جب دل بھر جاتا، نئی کنیزوں کی کھیپ لانی ہوتی۔ تب بھی پچھلی کنیزوں کا قتل کر دیا جاتا۔ کنیزیں وہ عورتیں ہوتی، جو 'اسلامی' جنگوں میں دوسری قوموں کی اٹھا کر لے آئی جاتی، یہ بد نصیب اور مصیبت زدہ عورتیں اپنے پیچھے بار بار یاد آنے والا ماضی اپنے عزیز و اقارب اور اپنے محبت بھرے تعلقات چھوڑ کر آتی۔ منڈیوں میں بکتی، ذلت آمیز سلوک کا سامنا کرتی۔ ان کی حثیت کھلونوں جیسی ہوتی۔ جس سے جنس کے مارے مسلمان امرا کھیلا کرتے۔ خاندانی بیوی اور کنیزوں کی چپقلش ہوجاتی۔تب بھی ان کو قتل کروا دیا جاتا۔ ایک بار خلیفہ ہارون رشید کسی مغنیہ پر فریفتہ ہوگیا۔۔تو ملکہ زبیدہ نے اس کی توجہ ہٹانے کے لئے دس دوشیرہ کنیزیں نذر کی۔ جب جنگیں نہ ہونے کی وجہ سے کنیزوں کی سپلائی رک جاتی، تو غلاموں اور کنیزوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کرنے والے عورتوں اور بچوں کو آس پاس کے قبائل سے پکڑ لاتے۔۔۔بچوں کو گھڑ سواری ، تیر اندازی، فن سپاہ گری میں طاق کیا جاتا اور اٹھائی گئی عورتوں کو بناو سنگار، خوش گلوئی، رقص اور موسیقی سکھائی جاتی۔۔اور پھر ان کو آقاوں کے پاس بیچ دیا جاتا۔۔۔انہی کنیزوں کے کئی بچے بعد میں بادشاہ اور امرا بنے۔۔محمود غزنوی غلام کا بیٹا اور کنیز ماں کے بطن
مسلمان سلاطین نے بڑے بڑے 'حرم' بنا کر لاتعداد عورتوں کے باڑے بنا لئے۔ خلیفہ المتوکل کے پاس چار ہزار خواتین تھی۔ کہا جاتا تھا، خلیفہ ان سب سے متمع کرچکا تھا۔ سپین کے عبدالرحمان سوم کے حرم میں چھ ہزار تین سو کنیزیں تھی۔ جو شاہی عیش سامانیوں کے لئے جمع کی ہوئی تھی۔ عثمانی خلفا کے حرم میں کنیزوں کی تعداد تین سو سے بارہ سو تک رہتی تھی۔ ان عورتوں کی نگرانی پر سینکڑوں خواجہ سرا مقرر ہوتے۔ برصغیر میں بھی مسلمان بادشاہوں کے حرم میں سینکڑوں عورتیں ہوتی تھی۔
یہ عورتیں بے حثیت اور بے قدر ہوتی۔۔ زرا سا شک ہونے پر اس کا گلہ گھونٹ کر یا زہر دے کر مار دیا جاتا تھا۔ ان کنیزوں کا کوئی وارث رشتے دار نہیں ہوتا تھا۔ سلاطین عثمانیہ میں کنیزوں کو قتل کرنے کا طریقہ بورے میں ڈال کر سی دیا جاتا تھا۔اور سمندر میں پھینک دیا جاتا تھا۔ جب دل بھر جاتا، نئی کنیزوں کی کھیپ لانی ہوتی۔ تب بھی پچھلی کنیزوں کا قتل کر دیا جاتا۔ کنیزیں وہ عورتیں ہوتی، جو 'اسلامی' جنگوں میں دوسری قوموں کی اٹھا کر لے آئی جاتی، یہ بد نصیب اور مصیبت زدہ عورتیں اپنے پیچھے بار بار یاد آنے والا ماضی اپنے عزیز و اقارب اور اپنے محبت بھرے تعلقات چھوڑ کر آتی۔ منڈیوں میں بکتی، ذلت آمیز سلوک کا سامنا کرتی۔ ان کی حثیت کھلونوں جیسی ہوتی۔ جس سے جنس کے مارے مسلمان امرا کھیلا کرتے۔ خاندانی بیوی اور کنیزوں کی چپقلش ہوجاتی۔تب بھی ان کو قتل کروا دیا جاتا۔ ایک بار خلیفہ ہارون رشید کسی مغنیہ پر فریفتہ ہوگیا۔۔تو ملکہ زبیدہ نے اس کی توجہ ہٹانے کے لئے دس دوشیرہ کنیزیں نذر کی۔ جب جنگیں نہ ہونے کی وجہ سے کنیزوں کی سپلائی رک جاتی، تو غلاموں اور کنیزوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کرنے والے عورتوں اور بچوں کو آس پاس کے قبائل سے پکڑ لاتے۔۔۔بچوں کو گھڑ سواری ، تیر اندازی، فن سپاہ گری میں طاق کیا جاتا اور اٹھائی گئی عورتوں کو بناو سنگار، خوش گلوئی، رقص اور موسیقی سکھائی جاتی۔۔اور پھر ان کو آقاوں کے پاس بیچ دیا جاتا۔۔۔انہی کنیزوں کے کئی بچے بعد میں بادشاہ اور امرا بنے۔۔محمود غزنوی غلام کا بیٹا اور کنیز ماں کے بطن
Comment