Re: sirf Hadith Mubaraka
حدیث نمبر 62
حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے (سوری پر سوار) تھا کہ آپ نے فرمایا: ''اے لڑکے! میں تجھے چند کلمات سکھاتا ہوں (انہیں یادر کھنا) تو اللہ تعالیٰ (کے دین) کی حفاظت کر، وہ تیری حفاظت کرے گا، تو اللہ (کے حقوق) کی حفاظت کر تو اسے اپنے سامنے پائے گا، جب تو سوال کرے تو صرف اللہ سے سوال کر، جب تو مدد طلب کرے تو اللہ سے مدد طلب کر۔ جان لے کہ اگر ساری دنیا تمہیں کچھ فائدہ پہنچانا چاہے تو وہ سب تمہیں کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتے بجز اس کے جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے اور اگر وہ تمام تمہیں کچھ نقصان پہنچانا چاہیں تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے، (کیونکہ) قلم اٹھا لیے گئے اور صحائف خشک ہو گئے۔''
(ترمذی حدیث حسن صحیح ہے)
اور ترمذی کے علاوہ ایک اور روایت میں ہے :'' تو اللہ (کے حقوق)کا خیال رکھ تو اسے اپنے سامنے پائے گا، تو خوش حالی میں اللہ کو پہچان وہ تجھے تنگی میں پہچانے گا اور جان لو کہ جو تجھ سے چوک جائے وہ تجھے ملنے والا نہیں اورجو تجھے پہنچنے والا ہے وہ تجھ سے چوک نہیں سکتا اور جان لو کہ مدد صبر کے ساتھ ہے۔ غم سے نجات کرب و تکلیف کے ساتھ ہے اور یقینا تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔''
توثیق الحدیث: صحیح کما بینتہ فی "صحیح کتاب الاذکار وضعیفہ" (10001268)،اخرجہ الترمذی (2514)
(یہ عظیم الشان حدیث ہے اور دین کے بنیادی اصول و قواعد پر مشتمل ہے۔ ابن جوزی اپنی کتاب "صید الخاطر" میں لکھتے ہیں: "میں نے اس حدیث میں غور و فکر کیا تو اس نے مجھے دہشت زدہ کردیا اور قریب تھاکہ میں ناسمجھ ہی رہتا (اس حدیث سے لاعلمی کی صورت میں) بڑا ہی قابل افسوس ہے وہ شخص جو اس حدیث سے لاعلم رہا اور اس کے معانی سمجھنے میں کم فہمی کا شکار رہا۔"
اور اس حدیث کی عظمت کا اعتراف امام ابن رجب نے اپنی کتاب ''نور الاقتباس'' میں بھی کیا ہے۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
حدیث نمبر 62
حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے (سوری پر سوار) تھا کہ آپ نے فرمایا: ''اے لڑکے! میں تجھے چند کلمات سکھاتا ہوں (انہیں یادر کھنا) تو اللہ تعالیٰ (کے دین) کی حفاظت کر، وہ تیری حفاظت کرے گا، تو اللہ (کے حقوق) کی حفاظت کر تو اسے اپنے سامنے پائے گا، جب تو سوال کرے تو صرف اللہ سے سوال کر، جب تو مدد طلب کرے تو اللہ سے مدد طلب کر۔ جان لے کہ اگر ساری دنیا تمہیں کچھ فائدہ پہنچانا چاہے تو وہ سب تمہیں کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتے بجز اس کے جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے اور اگر وہ تمام تمہیں کچھ نقصان پہنچانا چاہیں تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے، (کیونکہ) قلم اٹھا لیے گئے اور صحائف خشک ہو گئے۔''
(ترمذی حدیث حسن صحیح ہے)
اور ترمذی کے علاوہ ایک اور روایت میں ہے :'' تو اللہ (کے حقوق)کا خیال رکھ تو اسے اپنے سامنے پائے گا، تو خوش حالی میں اللہ کو پہچان وہ تجھے تنگی میں پہچانے گا اور جان لو کہ جو تجھ سے چوک جائے وہ تجھے ملنے والا نہیں اورجو تجھے پہنچنے والا ہے وہ تجھ سے چوک نہیں سکتا اور جان لو کہ مدد صبر کے ساتھ ہے۔ غم سے نجات کرب و تکلیف کے ساتھ ہے اور یقینا تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔''
توثیق الحدیث: صحیح کما بینتہ فی "صحیح کتاب الاذکار وضعیفہ" (10001268)،اخرجہ الترمذی (2514)
(یہ عظیم الشان حدیث ہے اور دین کے بنیادی اصول و قواعد پر مشتمل ہے۔ ابن جوزی اپنی کتاب "صید الخاطر" میں لکھتے ہیں: "میں نے اس حدیث میں غور و فکر کیا تو اس نے مجھے دہشت زدہ کردیا اور قریب تھاکہ میں ناسمجھ ہی رہتا (اس حدیث سے لاعلمی کی صورت میں) بڑا ہی قابل افسوس ہے وہ شخص جو اس حدیث سے لاعلم رہا اور اس کے معانی سمجھنے میں کم فہمی کا شکار رہا۔"
اور اس حدیث کی عظمت کا اعتراف امام ابن رجب نے اپنی کتاب ''نور الاقتباس'' میں بھی کیا ہے۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
Comment