Re: اللہ کہاں ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین
قرآن اور صحیح احادیث کے مقابلے
میں
ہمارے ملاؤں کے فتوؤں کو کیا کرو گے
چاروں اماموں پر کیا فتویٰ لگاؤ گے
پلیز ان اماموں پر بھی فتویٰ لگاؤ
أبو اِسماعیل الأنصاری اپنی کتاب ’’’الفاروق ‘‘‘میں أبی مطیع الحکم بن عبداللہ البلخی الحنفی ، جنہوں نے فقہ حنفی کی معتبر ترین کتاب ’’’ الفقہ الاکبر ‘‘‘ لکھی ، جسے غلط عام طور پر اِمام أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ سے منسوب کیا جاتا ہے،اِن أبی مطیع کے بارے میں لکھا کہ اُنہوں نے اِمام أبو حنیفہ رحمہُ اللہ سے پوچھا """ جو یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ میرا رب زمین پر ہے یا آسمان پر تو ایسا کہنے والا کے بارے میں کیا حُکم ہے ؟"""،
تو اِمام أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ نے فرمایا:
تو اُس نے کفر کیا کیونکہ اللہ کہتا ہے
الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى
الرحمٰن عرش پر قائم ہوا
اور اُسکا عرش ساتوں آسمانوں کے اُوپر ہے
میں نے پھر پوچھا """ اگر وہ یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ اللہ کا عرش آسمان پر یا زمین پر ہے (تو پھر اُسکا کیا حُکم ہے )؟
تو اِمام أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ نے فرمایا:
ایسا کہنے والا کافر ہے کیونکہ اُس نے اِس بات سے اِنکار کیا کہ اللہ کا عرش آسمانوں کے اُوپر ہے اور جو اِس بات سے اِنکار کرے وہ کافر ہے
حوالہ جات ::: مختصر العلو لعلی الغفار / دلیل رقم 118/صفحہ 136/مؤلف امام شمس الدین الذھبی رحمہ ُ اللہ /تحقیق و تخریج امام ناصر الدین الالبانی رحمہ ُ اللہ ، ناشرمکتب الاسلامی ، بیروت، لبنان،دوسری اشاعت،
شرح عقیدہ الطحاویہ/صفحہ رقم 288/ناشر مکتب الاسلامی، بیروت ، لبنان،نویں اشاعت،
اِمام أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ کا ذِکر آیا ہے تو پہلے اُن سے منسوب فقہ کے اِماموں کی بات نقل کرتا چلوں ۔
اپنی مشہور و معروف کتاب"""عقیدہ الطحاویہ"""میں کہتے ہیں :
اللہ عرش اور اُس کے عِلاوہ بھی ہر ایک چیز سے غنی ہے اور ہر چیز اُس کے أحاطہ میں ہے اور وہ ہر چیز سے اُوپر ہے اور اُس کی مخلوق اُس کا أحاطہ کرنے سے قاصر ہے
اِمام صدر الدین محمد بن علاء الدین (تاریخ وفات 792ہجری)رحمہ ُ اللہ، جو ابن أبی العز الحنفی کے نام سے مشہور ہیں ، اِس " عقیدہ الطحاویہ " کی شرح میں اِمام الطحاوی رحمہُ اللہ کی اِس مندرجہ بالا بات کی شرح میں لکھتے ہیں کہ
یہ بات پوری طرح سے ثابت ہے کہ اللہ کی ذات مخلوق سے ملی ہوئی نہیں ( بلکہ الگ اور جدا ہے ) اور نہ اللہ نے مخلوقات کو اپنے اندر بنایا ہے
(یعنی اللہ کا ہر چیز پر محیط ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ مخلوقات اُس کے اندر ہیں بلکہ وہ محیط ہے اپنے عِلم کے ذریعے، اِس کے دلائل ابھی آئیں اِن شاء اللہ تعالیٰ )،
پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے اپنی مخلوق سے جُدا ، بُلند اور اُوپر ہونے کے دلائل میں میں وارد ہونے والی نصوص کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ یہ نصوص تقریباً بیس اقسام میں ہیں ، اور پھر انہی اقسام کو بیان کرتے ہوئے سولہویں قِسم (نمبر 16)کے بیان میں لکھا
فرعون نے (بھی)موسیٰ علیہ السلام کی اِس بات کو نہیں مانا تھا کہ اُن کا رب آسمانوں پر ہے اور اِس بات کا مذاق اور اِنکار کرتے ہوئے کہا
يَا هَامَانُ ابْنِ لِي صَرْحًا لَعَلِّي أَبْلُغُ الْأَسْبَابَ o أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ فَأَطَّلِعَ إِلَى إِلَهِ مُوسَى وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ كَاذِبًا
اے ھامان میرے لیے بلند عمارت بناؤ تا کہ میں راستوں تک پہنچ سکوں o آسمان کے راستوں تک ، (اور اُن کے ذریعے اُوپر جا کر ) موسیٰ کے معبود کو جھانک کر دیکھ لوں اور بے شک میں اِسے (یعنی موسی کو )جھوٹا سمجھتا ہوں(سُورۃ غافر(40) /آیت36،37)
لہذا جو اللہ تعالیٰ کے (اپنی مخلوق سے الگ اور )بُلند ہو نے کا اِنکار کرتا ہے وہ فرعونی اور جہمی ہے اور جواِقرار کرتا ہے وہ موسوی اور محمدی ہے
حوالہ ::: شرح عقیدہ الطحاویہ/صفحہ رقم 287/ناشر مکتب الاسلامی، بیروت ، لبنان،نویں اشاعت،
قارئین کرام ، یہ مذکورہ بالا شدید فتوے میرے نہیں ہیں ، بلکہ امام أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ اور فقہ حنفی کے اِماموں رحمہم اللہ کے ہیں ، لہذا کوئی بھائی یا بہن انہیں پڑھ کر ناراض نہ ہو ۔
مھدی بن جعفر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ اِمام مالک بن أنس رحمہ ُ اللہ کے پاس ایک آدمی آیا اور اُس نے کہا:
" اے أبو عبداللہ ﴿الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى::: الرحمٰن عرش پر قائم ہوا ﴾ کیسے قائم ہوا ؟"
اِس سوال پر اِمام مالک رحمہ ُ اللہ اتنے غصے میں آئے کہ میں نے اُنہیں کبھی اتنے غصے میں نہیں دیکھا کہ غصے کی شدت سے اِمام صاحب پسینے پسینے ہوگئے ، اور اِمام رحمہ ُ اللہ بالکل خاموش ہو گئے ، لوگ انتظار کرنے لگے کہ اب اِمام صاحب کیا کہیں گے !
کافی دیر کے بعد اِمام رحمہ ُ اللہ نے فرمایا:
(اللہ کا عرش پر )قائم ہونا (یعنی استویٰ فرمانا) أنجانی خبر نہیں ، اور (اللہ کے أستویٰ فرمانے کی )کیفیت عقل میں آنے والی نہیں (کیونکہ اُس کی ہمارے پاس اُس کیفیت کے بارے میں کوئی خبر نہیں نہ اللہ کی طرف سے اور نہ ہی اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے )اور اِس پر اِیمان لانا فرض ہے ، اور اِس کیفیت کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے ، اور مجھے یہ اندیشہ ہے کہ تُم گمراہ ہو
پھر اِمام مالک رحمہ ُ اللہ نے اُس آدمی کو مسجد (نبوی )سے نکال دینے کا حُکم دِیا اور اُس کو نکال دِیا گیا ۔
حوالہ::: أثبات الصفۃ العلو /روایت 104/مؤلف اِمام موفق الدین عبداللہ بن أحمد بن قدامہ المقدسی۔
اِمام الذہبی نے کہا کہ یہ قول اِمام مالک سے ثابت ہے ، اِس کے عِلاوہ یہ قول اِمام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے ایک اُستاد سےبھی ثابت ہے،
اِن شاء اللہ تابعین کے ذِکر میں، اُن کا ذِکر کروں گا ۔
عبداللہ بن نافع رحمہ ُ اللہ کا کہنا ہے کہ اِمام مالک رحمہ ُ اللہ نے فرمایا:
اللہ آسمان پر ہے اور اُس کا عِلم ہر جگہ ہے اور اُس کے عِلم سے کوئی چیز خارج نہیں
حوالہ جات ::: أعتقاد اہل السُّنۃ/مؤلف اِمام ھبۃ اللہ اللالكائي ،
التمھید/مؤلف اِمام أبن عبد البَر ۔
أبی شعیب ، اور أبی ثور رحمہما اللہ کہتے ہیں کہ اِمام الشافعی رحمہ ُ اللہ نے فرمایا:
میں نے اِمام مالک اور اِمام سفیان الثوری اور دیگر تابعین (اِِن کا ذِکر اِن شاء اللہ آگے آئے گا )
کو جِس طرح سُنّت کی جِس بات پر پایا میں بھی اُس پر ہی قائم ہوں اور وہ بات یہ ہے کہ اِس بات کی شہا دت دِی جائے کہ اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں ، اور اللہ آسمان سے اُوپر اپنے عرش سے اُوپر ہے ، جیسے چاہتا ہے اپنی مخلوق کے قریب ہوتا ہے ، اور جیسے چاہتا ہے دُنیا کے آسمان کی طرف اُترتا ہے اور عقیدے کے دیگر معاملات کا ذِکر کیا ۔
حوالہ ::: اجتماع الجیوش الاسلامیۃ/فصل في بیان أن العرش فوق السموات و أنّ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ فوق العرش/مؤلف اِمام ابن القیم الجوزیہ رحمہُ اللہ ،ناشر دارالکتب العلمیہ، بیروت ، پہلی اشاعت،
مختصر العلو للعَلي الغفار /دلیل رقم 196
یوسف بن موسیٰ البغدادی کہتے ہیں کہ ، انہیں عبداللہ ابن احمد ابن حنبل رحمہُ اللہ نے بتایا کہ اُن کے والد اِمام أحمد بن حنبل رحمہ ُ اللہ سے پوچھا گیا" کیا اللہ عز و جلّ ساتویں آسمان کے اُوپر اپنے عرش سے اُوپر ، اپنی تمام مخلوق سے الگ ہے ، اور اُسکی قدرت اور عِلم ہر جگہ ہے ؟ "
تو اِمام أحمد بن حنبل رحمہ ُ اللہ فرمایا:
جی ہاں اللہ عرش پر ہے اور اُس (کے عِلم ) سے کچھ خارج نہیں
اِمام العلامہ ابن القیم الجوزیہ رحمہُ اللہ نے "اجتماع الجیوش الاسلامیہ"میں لکھا کہ اِس روایت کو اِمام أبو بکر الخلال رحمہُ اللہ"السُّنّۃ " میں صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ۔
واضح رہے کہ اس عقیدے کے بارے میں ان أئمہ کرام کی طرف سے صِرف یہی اقوال میسر نہیں ، بلکہ اور بھی صحیح ثابت شدہ اقوال ملتے ہیں ، میں نے صِرف اختصار کے پیش نظر یہ چند ایک اقوال نقل کیے ہیں۔
اللہ تعالیٰ انہیں ہی سب قارئین کے لیے کافی کرنے پر مکمل قُدرت رکھتا ہے۔
Originally posted by Faisal Sheikh
View Post
قرآن اور صحیح احادیث کے مقابلے
میں
ہمارے ملاؤں کے فتوؤں کو کیا کرو گے
چاروں اماموں پر کیا فتویٰ لگاؤ گے
پلیز ان اماموں پر بھی فتویٰ لگاؤ
اِمام نعمان بن ثابت أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ ، تاریخ وفات 150 ہجری
أبو اِسماعیل الأنصاری اپنی کتاب ’’’الفاروق ‘‘‘میں أبی مطیع الحکم بن عبداللہ البلخی الحنفی ، جنہوں نے فقہ حنفی کی معتبر ترین کتاب ’’’ الفقہ الاکبر ‘‘‘ لکھی ، جسے غلط عام طور پر اِمام أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ سے منسوب کیا جاتا ہے،اِن أبی مطیع کے بارے میں لکھا کہ اُنہوں نے اِمام أبو حنیفہ رحمہُ اللہ سے پوچھا """ جو یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ میرا رب زمین پر ہے یا آسمان پر تو ایسا کہنے والا کے بارے میں کیا حُکم ہے ؟"""،
تو اِمام أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ نے فرمایا:
تو اُس نے کفر کیا کیونکہ اللہ کہتا ہے
الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى
الرحمٰن عرش پر قائم ہوا
اور اُسکا عرش ساتوں آسمانوں کے اُوپر ہے
میں نے پھر پوچھا """ اگر وہ یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ اللہ کا عرش آسمان پر یا زمین پر ہے (تو پھر اُسکا کیا حُکم ہے )؟
تو اِمام أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ نے فرمایا:
ایسا کہنے والا کافر ہے کیونکہ اُس نے اِس بات سے اِنکار کیا کہ اللہ کا عرش آسمانوں کے اُوپر ہے اور جو اِس بات سے اِنکار کرے وہ کافر ہے
حوالہ جات ::: مختصر العلو لعلی الغفار / دلیل رقم 118/صفحہ 136/مؤلف امام شمس الدین الذھبی رحمہ ُ اللہ /تحقیق و تخریج امام ناصر الدین الالبانی رحمہ ُ اللہ ، ناشرمکتب الاسلامی ، بیروت، لبنان،دوسری اشاعت،
شرح عقیدہ الطحاویہ/صفحہ رقم 288/ناشر مکتب الاسلامی، بیروت ، لبنان،نویں اشاعت،
اِمام أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ کا ذِکر آیا ہے تو پہلے اُن سے منسوب فقہ کے اِماموں کی بات نقل کرتا چلوں ۔
اِمام أبو جعفر أحمد بن محمد الطحاوی الحنفی ، رحمہُ اللہ ، تاریخ وفات 321ہجری
اپنی مشہور و معروف کتاب"""عقیدہ الطحاویہ"""میں کہتے ہیں :
اللہ عرش اور اُس کے عِلاوہ بھی ہر ایک چیز سے غنی ہے اور ہر چیز اُس کے أحاطہ میں ہے اور وہ ہر چیز سے اُوپر ہے اور اُس کی مخلوق اُس کا أحاطہ کرنے سے قاصر ہے
اِمام صدر الدین محمد بن علاء الدین (تاریخ وفات 792ہجری)رحمہ ُ اللہ، جو ابن أبی العز الحنفی کے نام سے مشہور ہیں ، اِس " عقیدہ الطحاویہ " کی شرح میں اِمام الطحاوی رحمہُ اللہ کی اِس مندرجہ بالا بات کی شرح میں لکھتے ہیں کہ
یہ بات پوری طرح سے ثابت ہے کہ اللہ کی ذات مخلوق سے ملی ہوئی نہیں ( بلکہ الگ اور جدا ہے ) اور نہ اللہ نے مخلوقات کو اپنے اندر بنایا ہے
(یعنی اللہ کا ہر چیز پر محیط ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ مخلوقات اُس کے اندر ہیں بلکہ وہ محیط ہے اپنے عِلم کے ذریعے، اِس کے دلائل ابھی آئیں اِن شاء اللہ تعالیٰ )،
پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے اپنی مخلوق سے جُدا ، بُلند اور اُوپر ہونے کے دلائل میں میں وارد ہونے والی نصوص کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ یہ نصوص تقریباً بیس اقسام میں ہیں ، اور پھر انہی اقسام کو بیان کرتے ہوئے سولہویں قِسم (نمبر 16)کے بیان میں لکھا
فرعون نے (بھی)موسیٰ علیہ السلام کی اِس بات کو نہیں مانا تھا کہ اُن کا رب آسمانوں پر ہے اور اِس بات کا مذاق اور اِنکار کرتے ہوئے کہا
يَا هَامَانُ ابْنِ لِي صَرْحًا لَعَلِّي أَبْلُغُ الْأَسْبَابَ o أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ فَأَطَّلِعَ إِلَى إِلَهِ مُوسَى وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ كَاذِبًا
اے ھامان میرے لیے بلند عمارت بناؤ تا کہ میں راستوں تک پہنچ سکوں o آسمان کے راستوں تک ، (اور اُن کے ذریعے اُوپر جا کر ) موسیٰ کے معبود کو جھانک کر دیکھ لوں اور بے شک میں اِسے (یعنی موسی کو )جھوٹا سمجھتا ہوں(سُورۃ غافر(40) /آیت36،37)
لہذا جو اللہ تعالیٰ کے (اپنی مخلوق سے الگ اور )بُلند ہو نے کا اِنکار کرتا ہے وہ فرعونی اور جہمی ہے اور جواِقرار کرتا ہے وہ موسوی اور محمدی ہے
حوالہ ::: شرح عقیدہ الطحاویہ/صفحہ رقم 287/ناشر مکتب الاسلامی، بیروت ، لبنان،نویں اشاعت،
قارئین کرام ، یہ مذکورہ بالا شدید فتوے میرے نہیں ہیں ، بلکہ امام أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ اور فقہ حنفی کے اِماموں رحمہم اللہ کے ہیں ، لہذا کوئی بھائی یا بہن انہیں پڑھ کر ناراض نہ ہو ۔
اِمام مالک ابن أنس ، رحمہُ اللہ ، تاریخ وفات 179 ہجری
مھدی بن جعفر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ اِمام مالک بن أنس رحمہ ُ اللہ کے پاس ایک آدمی آیا اور اُس نے کہا:
" اے أبو عبداللہ ﴿الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى::: الرحمٰن عرش پر قائم ہوا ﴾ کیسے قائم ہوا ؟"
اِس سوال پر اِمام مالک رحمہ ُ اللہ اتنے غصے میں آئے کہ میں نے اُنہیں کبھی اتنے غصے میں نہیں دیکھا کہ غصے کی شدت سے اِمام صاحب پسینے پسینے ہوگئے ، اور اِمام رحمہ ُ اللہ بالکل خاموش ہو گئے ، لوگ انتظار کرنے لگے کہ اب اِمام صاحب کیا کہیں گے !
کافی دیر کے بعد اِمام رحمہ ُ اللہ نے فرمایا:
(اللہ کا عرش پر )قائم ہونا (یعنی استویٰ فرمانا) أنجانی خبر نہیں ، اور (اللہ کے أستویٰ فرمانے کی )کیفیت عقل میں آنے والی نہیں (کیونکہ اُس کی ہمارے پاس اُس کیفیت کے بارے میں کوئی خبر نہیں نہ اللہ کی طرف سے اور نہ ہی اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے )اور اِس پر اِیمان لانا فرض ہے ، اور اِس کیفیت کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے ، اور مجھے یہ اندیشہ ہے کہ تُم گمراہ ہو
پھر اِمام مالک رحمہ ُ اللہ نے اُس آدمی کو مسجد (نبوی )سے نکال دینے کا حُکم دِیا اور اُس کو نکال دِیا گیا ۔
حوالہ::: أثبات الصفۃ العلو /روایت 104/مؤلف اِمام موفق الدین عبداللہ بن أحمد بن قدامہ المقدسی۔
اِمام الذہبی نے کہا کہ یہ قول اِمام مالک سے ثابت ہے ، اِس کے عِلاوہ یہ قول اِمام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے ایک اُستاد سےبھی ثابت ہے،
اِن شاء اللہ تابعین کے ذِکر میں، اُن کا ذِکر کروں گا ۔
عبداللہ بن نافع رحمہ ُ اللہ کا کہنا ہے کہ اِمام مالک رحمہ ُ اللہ نے فرمایا:
اللہ آسمان پر ہے اور اُس کا عِلم ہر جگہ ہے اور اُس کے عِلم سے کوئی چیز خارج نہیں
حوالہ جات ::: أعتقاد اہل السُّنۃ/مؤلف اِمام ھبۃ اللہ اللالكائي ،
التمھید/مؤلف اِمام أبن عبد البَر ۔
اِمام مُحمد بن اِدریس الشافعی ، رحمہُ اللہ ، تاریخ وفات 204 ہجری
أبی شعیب ، اور أبی ثور رحمہما اللہ کہتے ہیں کہ اِمام الشافعی رحمہ ُ اللہ نے فرمایا:
میں نے اِمام مالک اور اِمام سفیان الثوری اور دیگر تابعین (اِِن کا ذِکر اِن شاء اللہ آگے آئے گا )
کو جِس طرح سُنّت کی جِس بات پر پایا میں بھی اُس پر ہی قائم ہوں اور وہ بات یہ ہے کہ اِس بات کی شہا دت دِی جائے کہ اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں ، اور اللہ آسمان سے اُوپر اپنے عرش سے اُوپر ہے ، جیسے چاہتا ہے اپنی مخلوق کے قریب ہوتا ہے ، اور جیسے چاہتا ہے دُنیا کے آسمان کی طرف اُترتا ہے اور عقیدے کے دیگر معاملات کا ذِکر کیا ۔
حوالہ ::: اجتماع الجیوش الاسلامیۃ/فصل في بیان أن العرش فوق السموات و أنّ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ فوق العرش/مؤلف اِمام ابن القیم الجوزیہ رحمہُ اللہ ،ناشر دارالکتب العلمیہ، بیروت ، پہلی اشاعت،
مختصر العلو للعَلي الغفار /دلیل رقم 196
اِمام أحمد بن حنبل ، رحمہُ اللہ ، تاریخ وفات 241 ہجری
یوسف بن موسیٰ البغدادی کہتے ہیں کہ ، انہیں عبداللہ ابن احمد ابن حنبل رحمہُ اللہ نے بتایا کہ اُن کے والد اِمام أحمد بن حنبل رحمہ ُ اللہ سے پوچھا گیا" کیا اللہ عز و جلّ ساتویں آسمان کے اُوپر اپنے عرش سے اُوپر ، اپنی تمام مخلوق سے الگ ہے ، اور اُسکی قدرت اور عِلم ہر جگہ ہے ؟ "
تو اِمام أحمد بن حنبل رحمہ ُ اللہ فرمایا:
جی ہاں اللہ عرش پر ہے اور اُس (کے عِلم ) سے کچھ خارج نہیں
اِمام العلامہ ابن القیم الجوزیہ رحمہُ اللہ نے "اجتماع الجیوش الاسلامیہ"میں لکھا کہ اِس روایت کو اِمام أبو بکر الخلال رحمہُ اللہ"السُّنّۃ " میں صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ۔
واضح رہے کہ اس عقیدے کے بارے میں ان أئمہ کرام کی طرف سے صِرف یہی اقوال میسر نہیں ، بلکہ اور بھی صحیح ثابت شدہ اقوال ملتے ہیں ، میں نے صِرف اختصار کے پیش نظر یہ چند ایک اقوال نقل کیے ہیں۔
اللہ تعالیٰ انہیں ہی سب قارئین کے لیے کافی کرنے پر مکمل قُدرت رکھتا ہے۔
Comment