Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

اللہ کہاں ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • اللہ کہاں ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین



    اللہ کہاں ہے؟

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین

    آئیے دیکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اللہ کی اِس صفتِ عُلو یعنی تمام تر مخلوق سے جُدا اور بُلند ہونے کے بارے میں کیا فرمایا ہے

    ( 1 )

    معاویہ ابن الحکم السُّلمی رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے " ایک دفعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی امامت مُبارکہ میں نماز پڑھ تھا کہ نمازیوں میں سے کسی کو چھینک آئی تو میں نے کہا " اللہ تُم پر رحم کرے"،
    تو لوگوں نے مجھے کن انکھیوں سے دیکھا ، تو میں نے کہا " میری ماں مجھے کھو دے تُم لوگ مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو "
    تو ان سب نے اپنے ہاتھ اپنی رانوں پرمارے ، تو میں جان گیا کہ یہ لوگ مجھے خاموش کروا رہے ہیں تو میں خاموش ہو گیا ،
    میرے ماں باپ اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر قربان ہوں میں نے اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے پہلے اور نہ ہی بعد میں اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرح بہترین تعلیم دینے والا اچھا استاد کوئی نہیں دیکھا ، کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اپنی نماز سے فارغ ہوئے ، تو انہوں نے نہ تو مجھے ڈانٹا نہ ہی مجھے مارا نہ مجھے برا کہا ، بلکہ صرف اتنا فرمایا کہ

    ﴿ إِنَّ ہذہِ الصَّلَاۃَ لَا یَصْلُحُ فیہا شَیْء ٌ من کَلَامِ النَّاسِ إنَّما ہو التَّسْبِیحُ وَالتَّکْبِیرُ وَقِرَاء َۃُ الْقُرْآنِ

    أو کما قال رسول اللَّہِ صلی اللَّہ علیہ وعلی آلہ وسلم

    ﴿یہ نماز ہے اس میں انسانوں کی باتیں جائز نہیں ہیں یہ(نماز ) تو تسبیح ہے، تکبیر ہے اور قران پڑھنا ہے﴾

    یا جیسے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےفرمایا
    ،

    میں نے عرض کیا

    یا رَسُولَ اللَّہِ إنی حَدِیثُ عَہْدٍ بِجَاہِلِیَّۃٍ وقد جاء اللہ بِالْإِسْلَامِ وَإِنَّ مِنَّا رِجَالًا یَأْتُونَ الْکُہَّانَ

    یا رسول اللہ میں ابھی ابھی جاہلیت میں تھا ، اور اللہ ہمارے پاس اسلام لے کر آیا اور ہم میں سے کچھ لوگ کاہنوں کے پاس جاتے ہیں تو ارشاد فرمایا:
    فلا تَأْتِہِمْ
    تُم اُن (کاہنوں )کے پاس مت جانا
    میں نے پھر عرض کیا
    وَمِنَّا رِجَالٌ یَتَطَیَّرُونَ
    ہم میں سے کچھ لوگ پرندوں کے ذریعے شگون لیتے ہیں
    تو اِرشاد فرمایا
    قال ذَاکَ شَیْء ٌ یَجِدُونَہُ فی صُدُورِہِمْ فلا یَصُدَّنَّہُمْ

    یہ ایسی چیز ہے جو وہ لوگ اپنے سینو ں میں پاتے ہیں لیکن یہ کام انہیں(اپنے کاموں ) سے روکے نہیں
    یعنی شگون وغیرہ مت لیا کریں ورنہ اس بد عقیدگی کی وجہ سے شگون بازی کرنے والے لوگ اپنے کاموں سے رُک جاتے ہیں اور انہیں اپنے کاموں سے رکنا نہیں چاہیے ،
    قال بن الصَّبَّاحِ فلا یَصُدَّنَّکُمْ
    ابن الصباح (اِمام مسلم رحمہُ اللہ کی طرف سے سند میں سب سے پہلے راوی رحمہ اللہ) کا کہنا ہے کہ "یہ شگون بازی تمہیں (اپنے کاموں)سے مت روکے"
    ( آگے پھر معاویہ بن الحکم رضی اللہ کا کہنا ہے ) پھر میں نے عرض کیا """ وَمِنَّا رِجَالٌ یَخُطُّونَ ::: ہم میں سے کچھ لوگ لکیریں بناتے ہیں """ (یعنی زائچہ بازی کرتے ہیں جو کاہنوں کے کاموں میں سے ہے)،

    تو اِرشاد فرمایا

    کان نَبِیٌّ من الْأَنْبِیَاء ِ یَخُطُّ فَمَنْ وَافَقَ خَطَّہُ فَذَاکَ
    نبیوں ( علیھم السلام )میں سے ایک نبی خط کَشی کیا کرتے تھے پس اگر کسی کا خط اس نبی(علیہ السلام)کے خط کے موافق ہو جائے توٹھیک ہے


    یہ ایک ناممکن کام ہے ، کیونکہ انبیاء علمہل السلام کو اللہ کی طرف سے وحی ہوتی تھی اور ان کو دیے جانے والے خصوصی علوم میں سے یہ ایک علم ایک نبی علیہ السلام کو دیا گیا تھا ،لہذا اس علم کا حصول جو صرف وحی کے ذریعے کسی نبی یا رسول کو خاص طور پر دیا گیا ہو ، کسی غیر نبی کے لیے نا ممن ہے، اور یہی بات سمجھانے کے لیے یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ اندازء بیان اختیار فرمایا ہے



    ،
    پھر معاویہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں پیش آنے والے اپنے ایک اور واقعہ کا ذکر کیاکہ
    میرے پاس ایک باندی ہے جو اُحد (پہاڑ) کے سامنے اور اِرد گِرد میری بکریاں چَرایا کرتی تھی ایک دِن میں نے دیکھا کہ اس کی (نگرانی میں میری )جو بکریاں تھیں اُن میں سے ایک کو بھیڑیا لے گیا ، میں آدم کی اولاد میں سے ایک آدمی ہوں جس طرح باقی سب آدمی غمگین ہوتے ہیں میں بھی اسی طرح غمگین ہوتا ہوں ، لیکن میں نے (اس غم میں ) اسے ایک تھپڑ مار دِیا ، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاس آیا کیونکہ اسے تھپڑ مارنا میرے لیے (دِل پر )بڑا (بوجھ)بن گیا تھا ، میں نے عرض کیا '' اے اللہ کے رسول کیا میں اسے آزاد نہ کرو دوں ؟ "
    تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:
    ائْتِنِی بہا
    اُس باندی کو میرے پاس لاؤ
    فَأَتَیْتُہُ بہا
    تو میں اس باندی کو لے کر (پھر دوبارہ )حاضر ہوا،
    تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا
    أَیْنَ اللہ
    اللہ کہاں ہے ؟
    قالت فی السَّمَاء ِ
    اس باندی نے جواباً عرض کیا '' آسمان پر ''
    پھر دریافت فرمایا
    مَن أنا
    میں کون ہوں ؟
    قالت أنت رسول اللَّہِ
    اس باندی نے جواباً عرض کیا '' آپ اللہ کے رسول ہیں ''
    تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے مجھے حُکم فرمایا
    أَعْتِقْہَا فَإِنَّہَا مُؤْمِنَۃٌ
    اِسے آزاد کرو دو یہ اِیمان والی ہے
    صحیح مسلم /حدیث 537 /کتاب المساجد و مواضح الصلاۃ / باب7، بَاب تَحْرِیمِ الْکَلَامِ فی الصَّلَاۃِ وَنَسْخِ ما کان من إباحۃ ۔
    ذرا غور کیجیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے باندی سے کیا پوچھا اور اُس باندی نے کیا جواب دِیا؟؟؟
    غور کیجیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اُس باندی کا اِیمان جانچنے کے لیے ، اُس کے اِیمان کی درستگی جانچنے کے لیے صِرف دو باتیں دریافت فرمائیں،
    اللہ کی ایک ذات مبارک کے بارے میں سوال کیا کہ اللہ کہاں ہے ؟
    اِیمانیات کے بارے میں کوئی تفصیل دریافت نہیں فرمائی ،
    اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اپنی ذات مبارک کے بارے میں ایک سوال فرمایا کہ اُن کی حیثیت و رُتبہ کیا ہے ؟،
    اور اُس باندی کے مختصر سے جواب کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اُس کےاِیمان والی ہونے کی گواہی دِی ، جِس جواب میں اللہ کی ذات مبارک کے بارے میں اُس باندی نے یہ کہا کہ""" اللہ آسمان پر ہے """،
    اب ذرا کچھ مزید توجہ سے غور فرمایے ،کہ اگر اللہ تعالیٰ کے لیے یہ کہنا کُفر ہے کہ وہ اُوپر ہے ، آسمانوں سے اوپر ہے ، اپنی تمام تر مخلوق سے اُوپر ہے،تو پھر اس بات پر ، یا ایسا کہنے والوں پر کُفر کا فتویٰ لگانے والے لوگ سچے ہیں ؟یا اُس باندی کو اِیمان والی قرار دینے والے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اُن پر میرے باپ قُربان ہوں سچے ہیں ؟؟؟؟؟
    اس حدیث شریف کو عموماً " حدیث الجاریہ " کہا جاتا ہے



  • #2
    Re: اللہ کہاں ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین


    ( 2 )
    أبو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کا فرمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا

    يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الآخِرُ يَقُولُ مَنْ يَدْعُونِى فَأَسْتَجِيبَ لَهُ مَنْ يَسْأَلُنِى فَأُعْطِيَهُ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِى فَأَغْفِرَ لَهُ



    جب رات کا آخری تیسرا پہر ہوتا ہے تو ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات میں دُنیا کے آسمان کی طرف اُترتا ہے اور فرماتا ہے کون ہے جو(اِس وقت ) مُجھ سے دُعا کرے کہ میں اُسکی دُعا قبول کروں ، کون ہے جو (اِس وقت)مُجھ سے کوئی سوال کرے کہ میں اُسکا سوال پورا کروں ، کون ہے جو (اِس وقت) مجھ سے مغفرت طلب کرے کہ میں اُسکی مغفرت کروں)

    صحیح البُخاری/ابواب التہجد
    /باب14، صحیح مُسلم/حدیث 758 ،کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا / باب24 (



    قارئین کرام ، اِس مذکورہ بالا حدیث شریف کو بھی غور سے پڑہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہمارے رب اللہ عز و جل کے بارے میں کیا فرما رہے ہیں ، پس اگر یہ کہنا ہے کُفر ہے کہ اللہ اُوپر ہے تو کُفر کا فتویٰ لگانے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اِس فرمان پر کیا فتویٰ لگائیں گے ؟؟؟

    Comment


    • #3
      Re: اللہ کہاں ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین

      آئیے دیکھتے ہیں کہ عرش کہاں ہے ، کہیں ایسا تو نہیں کہ عرش یہیں کہیں ہو اور اللہ بھی ؟؟؟

      ( 1 )

      أبی ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا

      مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ وَأَقَامَ الصَّلاَةَ وَصَامَ رَمَضَانَ ، كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ جَاهَدَ فِى سَبِيلِ اللَّهِ ، أَوْ جَلَسَ فِى أَرْضِهِ الَّتِى وُلِدَ فِيهَا


      جو اللہ اور اُسکے رسول پر اِیمان لایا اور نماز ادا کرتا رہا اور رمضان کے روزے رکھتا رہا ، تو اللہ پر (اُس کا )یہ حق ہے کہ اللہ اُسے جنّت میں داخل کرے خواہ اُس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہو یا اپنی بستی میں ہی زندگی گُذاری ہو

      صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا ::: اے اللہ کے رسول کیا ہم لوگوں کو یہ خوشخبری سنائیں ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا

      إِنَّ فِى الْجَنَّةِ مِائَةَ دَرَجَةٍ أَعَدَّهَا اللَّهُ لِلْمُجَاهِدِينَ فِى سَبِيلِ اللَّهِ ، مَا بَيْنَ الدَّرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ ، فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللَّهَ فَاسْأَلُوهُ الْفِرْدَوْسَ ، فَإِنَّهُ أَوْسَطُ الْجَنَّةِ وَأَعْلَى الْجَنَّةِ ، أُرَاهُ فَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ ، وَمِنْهُ تَفَجَّرُ أَنْهَارُ الْجَنَّةِ


      اللہ نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لیے جنّت میں ایک سو درجات بنا رکھے ہیں ، ہر دو درجات کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین اور آسمان کے درمیان ہے ، لہذا جب تُم اللہ سے سوال کرو تو فردوس مانگو کیونکہ وہ جنت کا درمیانی اور سب سے بُلند مُقام ہے،میں سمجھتا ہوں کہ اُس کے اُ وپر رحمان کا عرش ہے جِس میں سے جنّت کے دریا پھوٹتے ہیں

      (صحیح البُخاری /حدیث 2790/کتاب الجھاد و السیر/باب 4، حدیث1 )

      امام بخاری نے اس حدیث کی روایت کے بعد تعلیقاً لکھا کہ محمد بن فلیح نے اپنے والد سے روایت کیا ہے ﴿وَفَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ :::اور اُس سے اُوپر رحمٰن کا عرش ہے﴾ یعنی اوپر ذکر کردہ روایت میں راوی کی طرف سے اس جملے کے بارے میں جو لفظ """ أُرَاهُ """ کے ذریعے شک کا اظہار ہوا ہے وہ اس دوسری سند کے ذریعے ختم ہوجاتا ہے۔ و للہ الحمد و المنۃ،
      اس حدیث مبارک کے ذریعے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ کا عرش جس سے اوپر اللہ تعالیٰ خود مستوی ہے ، وہ عرش فردوس الاعلی سے بھی اُوپر ہے ، یہیں کہیں نہیں ،لہذا اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی ذات پاک کے ساتھ ہر جگہ موجود یا قائم نہیں ۔

      ( 2 )

      جریر رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا

      مَن لا یَرحَمُ مَن فِی الأَرضِ لا یَرحَمُہُ مَن فِی السَّمَاء
      ِ


      جو اُن پر رحم نہیں کرتا جو زمین پر ہیں اُس پر وہ رحم نہیں کرتا جو آسمان پرہے

      لمعجم الکبیر للطبرانی/حدیث2497،الترغیب والترھیب/حدیث 3411، اِمام المنذری رحمہ ُ اللہ کا کہنا ہے کہ(اِمام) طبرانی(رحمہ ُ اللہ) نے یہ حدیث بہت اچھی اور مضبوط سند سے روایت کی ہے ، اور اِمام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے بھی اس بات کی تائید کی ہے اور اس حدیث شریف کو "صحیح لغیرہ" قرار دیا ، صحیح الترغیب و الترھیب ، حدیث2255 )






      (3 )

      سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا

      إِنَّ رَبَّكُمْ تَبَارَكَ وَتَعَالَى حَيِىٌّ كَرِيمٌ يَسْتَحْيِى مِنْ عَبْدِهِ إِذَا رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَيْهِ أَنْ يَرُدَّهُمَا صِفْرًا


      تمہارا رب تبارک و تعالیٰ بہت حیاء کرنے والا اور بزرگی والا ہے ، جب اُس کا کوئی بندہ اُس کی طرف اپنے دونوں ہاتھ بلند کرتا ہے تو اللہ اِس بات سے حیاء کرتا ہے کہ وہ اُس بندے کے ہاتھوں کو خالی لوٹا دے

      ) سُنن أبو داؤد /حدیث 1485 ، سُنن الترمذی /حدیث3556 /کتاب الدعوات ، اِمام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے)



      اگر اللہ ہر جگہ موجود ہے تو آگے پیچھے دائیں بائیں کسی بھی طرف ہاتھ پھیلا کر دُعا کرلی جانی چاہیے، آسمان کی طرف ، اُوپر کی طرف ہاتھ کیوں اٹھائے جاتے ہیں ؟
      کیسا عجیب معاملہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہر جگہ موجود ہونے والے لوگ بھی جب دُعا مانگتے ہیں تو ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں اور دورانء دُعا نظریں اُٹھا اُٹھا کر بھی آسمان کی طرف ، اُوپر کی طرف دیکھتے ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے دل میں یہ بھی ہے کہ ہم جس اللہ سے دُعا مانگ رہے ہیں وہ اُوپر ہی ہے ۔

      ( 4 )

      عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا

      أِتَقُوا دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهَا تَصْعَدُ إِلَى السَّمَاءِ کأنَّہا شِّرار


      مظلوم کی بد دُعا سے ڈرو کیونکہ وہ چنگاری کی طرح آسمان کی طرف چڑہتی ہے

      ) المستدرک علیٰ الصحیحین للحاکم ، معروف ب المستدرک الحاکم/حدیث 81 ، اِمام الحاکم نے کہا کہ یہ حدیث اِمام مُسلم کی شرئط کے مُطابق صحیح ہے ، اور امام الالبانی نے بھی صحیح قرار دیا ،السلسلہ الصحیحہ /حدیث(871


      مظلوم کی دُعا آسمان کی طرف چڑہتی ہے، کیوں اُس طرف چڑھتی ہے ؟؟؟ اگر اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود و قائم ہے تو پھر دُعا کو کسی بھی طرف چل پڑنا چاہیے ، لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی عطاء کردہ اس خبر کے مطابق تو مظلوم کی دُعا آسمان کی طرف چڑھتی ہے ، کیونکہ وہاں تمام تر مخلوق سے بُلند ، الگ اور جُدا اُن کا اکیلا خالق اللہ ہوتا ہے ، جس نے دُعائیں قبول و رد کرنا ہوتی ہیں ،
      اس حدیث پاک میں ہمیں مظلوم کی طرف سے کی جانے والی بد دُعا سے بچنے کی تعلیم بھی دی گئی ہے ، یعنی ظلم کرنے سے باز رہنے کی تعلیم دی گئی ہے کیونکہ جب ہم کسی پر ظلم نہیں کریں گے تو کوئی بحیثیت مظلوم ہمارے لیے بد دُعا نہیں کرے گا مظلوم کی بد دُعا کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ

      اتَّقِ دَعوَۃَ المَظلُومِ فَإِنَّہَا لَیس بَینَہَا وَ بَینَ اللَّہِ حِجَابٌ


      مظلوم کی بد دُعا سے بچو کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا

      )صحیح البُخاری /حدیث 2316/ کتاب المظالم/باب10 ،صحیح مُسلم /حدیث 19/کتاب الایمان/ باب 7 )

      ظلم ، مظلوم یا اس کی بد دُعا میری اس کتاب کا موضوع نہیں ، پس اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے ایک دفعہ پھر آپ کی توجہ اس طرف مبذول کرواتا ہوں کہ اس حدیث مبارک سے بھی یہ ہی پتہ چلتا ہے کہ چونکہ مظلوم کی بد دُعا اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں لہذا وہ بددُعا آسمانوں کی طرف اسی لیے چڑھتی ہے کہ وہاں آسمانوں سے بُلند ، اپنے عرش سے اُوپر استویٰ فرمائے ہوئے، عرش سمیت اپنی تمام تر مخلوق سے بُلند ، الگ اور جُدا، اللہ کے پاس پہنچے ۔

      ( 5 )

      النواس بن سمعان الکلبی رضی اللہ عنہ ُ فتنہء دجال کے اور یاجوج ماجوج کے نکلنے اور قتل و غارتگری کرنے کی خبروں پر مشتمل ایک لمبی حدیث بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا

      ثُمَّ يَسِيرُونَ حَتَّى يَنْتَهُوا إِلَى جَبَلِ الْخَمَرِ وَهُوَ جَبَلُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ فَيَقُولُونَ لَقَدْ قَتَلْنَا مَنْ فِى الأَرْضِ هَلُمَّفَلْنَقْتُلْ مَنْ فِى السَّمَاءِ، فَيَرْمُونَ بِنُشَّابِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ فَيَرُدُّ اللَّهُ عَلَيْهِمْ نُشَّابَهُمْ مَخْضُوبَةً دَمًا

      پھر یأجوج مأجوج چل پڑیں گے اور خمر نامی پہاڑکے پاس جا پہنچیں گے ، اور یہ پہاڑ بیت المقدس والا پہاڑ ہے(جب وہاں پہنچیں گے) تو کہیں گے جو لوگ زمین پر تھے اُنہیں تو ہم قتل کر چکے ، چلو اب جو آسمان پر ہے اُسے قتل کریں ، یہ کہتے ہوئے وہ اپنے تیر آسمان کی طرف پھینکیں گے تو اللہ اُن کے تیروں کو خون کی طرح سرخ کر کے اُن کی طرف پلٹا دے گا

      صحیح مُسلم / حدیث 2937 /کتاب الفتن و أشراط الساعۃ /باب 20، سُنن النسائی /حدیث 2240/ کتاب الفتن /باب 59 )

      ( 6 )

      جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ُ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا خطبہء حج بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا

      وَأَنْتُمْ تُسْأَلُونَ عَنِّى فَمَا أَنْتُمْ قَائِلُونَ

      اور تُم لوگوں کو میرے بارے میں پوچھا جائے گاتوتُم لوگ کیا کہو گے
      سب نے جواب دِیا

      نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ وَأَدَّيْتَ وَنَصَحْتَ

      ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے(اللہ کے پیغامات کی)تبلیغ فرما دی ، اور (رسالت و نبوت کا)حق ادا کر دیا اور نصیحت فرما دی

      فَقَالَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ يَرْفَعُهَا إِلَى السَّمَاءِ وَيَنْكُتُهَا إِلَى النَّاسِ

      تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے
      اپنی شہادت والی اُنگلی سے لوگوں کی طرف اِشارہ فرماتے پھر اُسے آسمان کی طرف اُٹھاتے اور اِرشادفرمایا ،اللَّهُمَّ اشْهَدِ اللَّهُمَّ اشْهَدْ ، ثَلاَثَ مَرَّاتٍ :::اے اللہ گواہ رہ ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ایسا تین مرتبہ کیا اور فرمایا

      )
      صحیح مُسلم /حدیث1218 /کتاب الحج / باب 19 ،حجۃ النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم )

      رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اِن فرامین میں صاف صاف واضح طور پر یہ تعلیم دے گئی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ عرش سے اُوپر ہے اور اپنی تمام مخلوق کے تمام أحوال جانتا ہے ،
      اُمید تو نہیں کہ کوئی صاحبِ اِیمان اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے یہ فرامین پڑھنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کو ہر جگہ موجود سمجھتا رہے ، اور اللہ کو اُوپر کہنے کو کفر کہے ۔








      Last edited by lovelyalltime; 11 August 2012, 04:57.

      Comment


      • #4
        Re: اللہ کہاں ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین

        masha Allah and jazak Allah bht zabr10 sharing hai.
        http://www.islamghar.blogspot.com/

        Comment


        • #5
          Re: اللہ کہاں ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین

          Click image for larger version

Name:	aaa.gif
Views:	1
Size:	3.9 KB
ID:	2424272
          Click image for larger version

Name:	WAHABI TOHID.jpg
Views:	1
Size:	209.2 KB
ID:	2424273
          sigpic

          Comment


          • #6
            Re: اللہ کہاں ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین

            Originally posted by Faisal Sheikh View Post
            [ATTACH]103759[/ATTACH]
            [ATTACH]103760[/ATTACH]

            حضور صلی اللہ وسلم کی صحیح حدیث کے مقابلے میں ہم
            ان فتوؤں کا کیا کریں گے


            ابراہیم النخعی رحمہ اللہ کے سامنے کسی نے سعید بن جبیر (تابعی رحمہ اللہ) کا قول پیش کیا تو انھوں نے فرمایا:

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مقابلے میں تم سعید بن جبیر کے قول کو کیا کرو گے؟

            (الاحکام لاابن حزم293/6 وسندہ صحیح)

            امام (عامر بن شراحیل) الشعبی (تابعی،متوفی104ھ) فرماتے ہیں

            یہ لوگ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو حدیث بتائیں اسے (مضبوطی سے) پکڑ لو اور جو بات اپنی رائے سے کہیں اسے کوڑے کرکٹ میں پھینک دو

            (مسندالدارمی۶۰۲ وسندہ صحیح)


            امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں

            میری ہر بات جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے خلاف ہو (چھوڑ دو) پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سب سے بہتر ہے اور میری تقلید نہ کرو۔

            (آداب الشافعی و مناقبہ لابن ابی حاتم ص51 وسندہ حسن)


            امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے ایک دن قاضی ابو یوسف کو فرمایا

            اے یعقوب (ابویوسف) تیری خرابی ہو،میری ہر بات نہ لکھا کر، میری آج ایک رائے ہوتی ہے اور کل بدل جاتی ہے۔ کل دوسری رائے ہوتی ہے پھر پرسوں وہ بھی بدل جاتی ہے۔

            (تاریخ بغداد 424/13 ،تاریخ ابن معین 2/607 وسندہ صحيح)




            Comment


            • #7
              Re: اللہ کہاں ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین

              Originally posted by Faisal Sheikh View Post
              [ATTACH]103759[/ATTACH]
              [ATTACH]103760[/ATTACH]

              jb Quran ki ayat or ahadees se sabit hai k Allah arsh pr hai to is mai itna behs krne wali kia bat hai,
              uper k 2 hawalon mai yehi bat kahi gai hai, jiska topic ap ne ghalat rakh dia hai. Allah apne ilm se hr jaga mojood hai magar uska wajood asmano mai hai.
              or Allama Wahid uz Zama ki kitabon ka hawala dene se pehlay agar un k baray mai thora parh lete to ziada behtar tha.
              http://www.islamghar.blogspot.com/

              Comment


              • #8
                Re: اللہ کہاں ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین

                Click image for larger version

Name:	aaaaa.gif
Views:	1
Size:	3.9 KB
ID:	2424288
                Click image for larger version

Name:	FIQAH E WAHABI.JPG
Views:	2
Size:	268.1 KB
ID:	2424289
                sigpic

                Comment


                • #9
                  Re: اللہ کہاں ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین

                  Originally posted by Faisal Sheikh View Post
                  [ATTACH]103782[/ATTACH]
                  [ATTACH]103783[/ATTACH]

                  حضور صلی اللہ وسلم کی صحیح حدیث کے مقابلے میں ہم
                  ان فتوؤں کا کیا کریں گے


                  ابراہیم النخعی رحمہ اللہ کے سامنے کسی نے سعید بن جبیر (تابعی رحمہ اللہ) کا قول پیش کیا تو انھوں نے فرمایا:

                  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مقابلے میں تم سعید بن جبیر کے قول کو کیا کرو گے؟

                  (الاحکام لاابن حزم293/6 وسندہ صحیح)

                  Comment


                  • #10
                    Re: اللہ کہاں ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین


                    اللہ کہاں ہے

                    یہ تھریڈ اس نام سے بنایا ہے

                    اس کے بارے میں جواب دیں

                    ان فتویٰ کے بارے میں آپ نیا تھریڈ شروع کریں

                    کیا آپ اوپر پیش کردہ احادیث کو مانتے ہیں
                    یا
                    اپ کو کوئی اعترض ہے

                    Comment


                    • #11
                      Re: اللہ کہاں ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین

                      میرا سوال ہے عرش اللہ کا گھر ہے؟
                      دوسرا مجھے اکثر ایک بات کنفیوز کرتی تھی اللہ ایک ہے اور ہر جگہ موجود ہے بلکہ دیکھ بھی رہا ہے
                      مجھے ایک بات اور بھی کنفیوز کرتی تھی جب اللہ خود سب دیکھ سن رہا ہے تو اللہ تو خود گواھ ہوگیا حساب کتاب کی کیا ضرورت
                      بہرحال اہلسنت والے بہت ڈراتے ہیں یار اللہ عرش پہ ہیں یہ دنیا تمھاری ہے کوئی نہیں تمھیں دیکھ رہا انجوائے یورسلف
                      ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                      سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                      Comment


                      • #12
                        Re: اللہ کہاں ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین

                        masha Allah

                        Comment


                        • #13
                          Re: اللہ کہاں ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین

                          Originally posted by Sub-Zero View Post
                          میرا سوال ہے عرش اللہ کا گھر ہے؟
                          دوسرا مجھے اکثر ایک بات کنفیوز کرتی تھی اللہ ایک ہے اور ہر جگہ موجود ہے بلکہ دیکھ بھی رہا ہے
                          مجھے ایک بات اور بھی کنفیوز کرتی تھی جب اللہ خود سب دیکھ سن رہا ہے تو اللہ تو خود گواھ ہوگیا حساب کتاب کی کیا ضرورت
                          بہرحال اہلسنت والے بہت ڈراتے ہیں یار اللہ عرش پہ ہیں یہ دنیا تمھاری ہے کوئی نہیں تمھیں دیکھ رہا انجوائے یورسلف












                          سب سے پہلے تو ہم پر یہ ضروری ہے کہ ہم اسماء وصفات میں اہل وسنت والجماعت کا عقیدہ معلوم کریں کہ وہ اس میں کیا عقیدہ رکھتے ہیں ؟

                          اہل سنت والجماعت کا اسماء و صفات میں عقیدہ یہ ہے کہ : اللہ تعالی نے اسماء وصفات میں
                          سے اپنے لۓ جو کچھ ثابت کیا ہے وہ اسے بغیر کسی تحریف وتعطیل اور بغیر کسی کیفیت اور تمثیل
                          کے اللہ تعالی کے لۓ اس کا اثبات کرتے ہیں اور اس میں ان کا وہی اعتقاد ہے جس کا اللہ تعالی نے انہیں حکم دیا ہے اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :


                          ( اللہ تعالی جیسی کوئی چیز نہیں ( نہ ذات میں نہ صفات میں ) اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے )

                          اللہ عزوجل نے ہمیں اپنے متعلق بتاتے ہوئےفرمایا ہے :

                          ( بےشک تمہارا رب اللہ تعالی ہی ہے جس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہو گیا ) الاعراف / 54

                          اور اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

                          ( رحمان عرش پر مستوی ہے ) طہ / 5

                          ان آیات کے علاوہ وہ آیات جن میں اللہ تعالی کے عرش پر مستوی ہونے کا ذکر ہے ۔

                          اور اللہ تعالی کا عرش پر مستوی ہونا عرش پر اللہ تعالی کا علو ( بلندی) ذاتی اور علو خاص ہے جس طرح کہ اللہ تعالی کی عظمت وجلال کے شایان شان اور لائق ہے جس کا علم اللہ تعالی کے علاوہ کسی کو نہیں ۔

                          سنت نبویہ صحیحہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی رات کے تیسرے پہر آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے ۔

                          ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

                          ( ہمارا رب تبارک وتعالی ہر رات کے تیسرے پہر آسمان دنیا پر نزول فرماتا اور یہ کہتا ہے کہ کون ہے جو مجھے پکارے میں اس کی پکار کو سنوں کون ہے جو مجھ سے مانگے تو میں اسے عطا کروں کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے تو میں اسے بخش دوں ) صحیح بخاری کتاب التوحید حدیث نمبر (6940) صحیح مسلم صلوۃ المسافرین حدیث نمبر (1262)


                          اہل سنت کے ہاں نزول کا معنی یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی بنفسہ آسمان دنیا پر نزول فرماتا اور یہ نزول حقیقی ہے جس طرح اللہ تعالی کے شایان شان لائق ہے جس کی کیفیت اللہ تعالی کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا ۔

                          سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ سبحانہ وتعالی کے نزول سے عرش کا خالی ہونا لازم آتا ہے کہ نہیں ؟

                          شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی نے اس طرح کے سوال کا جواب دیتے ہوئےفرمایا :



                          ( ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ سوال غلو پر مبنی ہے اور کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے
                          اس لۓ کہ ہم آپ سے پوچھیں گے کہ کیا آپ اللہ سبحانہ وتعالی کی صفات کو سمجھنے
                          میں صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم سے زیادہ شوق رکھتے اور اس پر حریص ہیں ؟ اگر تو اس نے جواب میں ہاں کہا تو یہ جھوٹا اور کذاب ہے ۔

                          اور اگر جواب نفی میں ہے تو ہم اسے کہیں گے جو انہیں کافی تھا وہ آپ کو بھی کافی ہے تو صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہیں پوچھا کہ اے اللہ تعالی کے رسول جب اللہ تعالی نزول فرماتا ہے تو کیا عرش خالی ہو جاتا ہے ؟

                          آپ کو اس سوال سے کیا غرض ؟ بس آپ یہ کہیں کہ اللہ تعالی نزول فرماتا ہے اور خاموشی اختیار کریں، عرش اللہ تعالی سے خالی ہوتا ہے کہ نہیں یہ آپ کے ذمہ نہیں آپ تو اس کے مکلف ہیں کہ آپ خبر کی تصدیق کریں اور خاص کر وہ خبر جو کہ اللہ تعالی کی ذات اور صفات کے متعلق ہو ، کیونکہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو کہ ما فوق العقل ہے عقل اس کا ادراک نہیں کر سکتی )

                          دیکھیں کتاب :

                          مجموع فتاوی شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی ( 1/ 204 – 205)






                          شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے اس مسئلہ کے متعلق فرمایا ہے

                          ( صحیح یہ ہے کہ اللہ تعالی کا نزول ہے لیکن اس سے عرش خالی نہیں ہوتا بندے کی روح موت تک دن اور رات اس کے بدن میں رہتی ہے اور نیند کے وقت علیحدہ ہوتی ہے ۔

                          اور فرماتے ہیں کہ : (دنیا میں ) رات مختلف ہوتی ہے مشرق میں رات کا تیسرا پہر مغرب کے تیسرے پہر سے پہلے ہے اللہ تعالی کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نزول کے متعلق بتایا ہے وہ کچھ کے ہاں رات کا تیسرا پہر، پھر دوسرے کا ہاں رات کا تیسرا پہر ہونے سے (اللہ تعالی کی قدرت کے سامنے کچھ وقعت نہیں رکھتا )

                          دیکھیں مجموع فتاوی ابن تیمیہ جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 132



                          استواء اور نزول اللہ تعالی کی صفات فعلیہ میں سے ہیں جن کا تعلق اللہ تعالی کی مشیت سے ہے اور اہل سنت والجماعت یہی عقیدہ اور اسی پر ایمان رکھتے ہیں ۔ لیکن وہ اس ایمان میں کیفیت اور تمثیل بیان کرنے سے کنی کتراتے اور دور بھاگتے ہیں یعنی یہ ممکن ہی نہیں کہ ان کے دل میں یہ بات پیدا ہو کہ اللہ تعالی کا نزول مخلوق کے نزول اور اللہ تعالی کا عرش پر استواء مخلوق کے استواء کی طرح ہے ۔

                          کیونکہ ان کا اس پر ایمان کہ اللہ تعالی کی مثل کوئی چیز نہیں وہ سننے اور دیکھنے والا ہے اور انہیں علم ہے کہ عقل اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ خالق اور مخلوق کی ذات وافعال اور صفات کے درمیان ( زمین آسمان ) کا فرق ہے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ ان کے دل میں یہ بات پیدا ہو کہ اللہ تعالی کا نزول کیسے ہوتا ہے ؟ اور اللہ تعالی کا عرش پر استواء کی کیفیت کیا ہے ؟

                          مقصد یہ کہ وہ اس کی صفات کی کیفیت کے چکروں میں نہیں پڑتے باوجود اس کے کہ ان کا ایمان ہے کہ اس کی کیفیت ہے لیکن وہ ہمارے علم میں نہیں تو اس وقت یہ ممکن ہی نہیں کہ کیفیت کا تصور کیا جا سکے ۔

                          اور ہمیں یہ یقینی علم ہے کہ جو کچھ کتاب وسنت میں آیا ہے وہ حق اور سچ ہے اس کا ایک دوسرے سے کوئی قسم کا ٹکراؤ نہیں کیونکہ یہی چیز اللہ تعالی نے بیان فرمائی ہے ۔

                          اللہ سبحانہ وتعالی نے اسی کے متعلق یہ فرمایا ہے

                          ( کیا یہ لوگ قرآن میں غور وفکر اور تدبر نہیں کرتے ؟ اگر یہ اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کی طرف ہوتا تو یقینا اس میں بہت اختلاف پایا جاتا )

                          اور پھر اس لۓ بھی کہ

                          اخبار میں ٹکراؤ سے
                          ایک دوسرے کی تکذیب لازم آتی ہے جو کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر میں محال ہے ۔

                          جسے کتاب اللہ یا پھر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تناقض کا واہمہ ہو تو وہ اس کی جہالت اور کم علمی یا پھر اس میں سوچ اور سمجھ کے ناقص ہونے یا پھر اس کے غور فکر اور تدبر میں نقص اور کمی ہونے کی بنا
                          پر ہے اسے چاہۓ کہ وہ علم حاصل کرے، غور و فکر اور تدبر میں کوشش اور محنت کرے حتی کہ اس کے سامنے حق واضح ہو جائے ۔

                          اگر پھر بھی اس پر حق واضح نہ ہو تو اسے چاہۓ
                          کہ وہ اس معاملے کو اپنے عالم دین کے سامنے پیش اور سپرد کرے اور اس وہم سے رک جائے اور بھی اس میں وہی کہے جس طرح علم میں راسخ لوگ کہتے ہیں :

                          ( ہم اس پر ایمان لآئے یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہے )



                          اور اسے یہ علم ہونا چاہۓ
                          کہ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں
                          کسی قسم کا کوئی تعارض نہیں ہے
                          اور نہ ہی دونوں کے درمیان کوئی اختلاف ہے ۔

                          واللہ تعالی اعلم

                          دیکھیں کتاب : فتاوی ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی ( 3/ 237 – 238)

                          اللہ تعالی کا آسمان دنیا پر نزول اور آسمانوں کے اوپر عرش پر استواء کے درمیان تناقض کا وہم خالق کو مخلوق پر قیاس کرنے کی بنا پر پیدا ہوا ہے ۔

                          انسان جب اپنی عقل سے ان مخلوقات غیبیہ کا تصور نہیں کر سکتا، مثلا جنت کی نعمتیں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس خالق جو کہ علام الغیوب اس کا تصور کیا جا سکے ۔

                          ( اور کیا اللہ تعالی اس بات پر نعوذ باللہ قادر نہیں ہیں کہ عرش پر ہوتے ہوئےآسمان دنیا کے قریب آسکیں ۔۔۔۔۔۔۔ ؟)

                          اللہ تعالی کے نزول اور استواء اور اللہ تعالی کے علو کے متعلق جو احادیث میں وارد ہے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور ہم اسے اسی طرح ثابت کرتے ہیں جس طرح کہ اللہ تعالی کی عظمت کے شایان شان اور لائق ہے ۔

                          واللہ اعلم .

                          الشیخ محمد صالح المنجد




                          Last edited by lovelyalltime; 13 August 2012, 22:40.

                          Comment


                          • #14
                            Re: اللہ کہاں ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین

                            Originally posted by lovelyalltime View Post

                            اللہ کہاں ہے

                            یہ تھریڈ اس نام سے بنایا ہے

                            اس کے بارے میں جواب دیں

                            ان فتویٰ کے بارے میں آپ نیا تھریڈ شروع کریں

                            کیا آپ اوپر پیش کردہ احادیث کو مانتے ہیں
                            یا
                            اپ کو کوئی اعترض ہے


                            جی ٹھیک کہا ہے آپ نے کہ جس حوالے سے تھریڈ شروع کی گیا ہے اسی پر بات کی جاۓ تو زیادہ بہتر ہے...مگر ہم ان بھائی کی پروبلم بھی سمجھتے ہیں... وہ کیا ہے نہ کہ گبھراہٹ میں انسان کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کیا کر رہا ہے

                            http://www.islamghar.blogspot.com/

                            Comment


                            • #15
                              Re: اللہ کہاں ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین

                              Click image for larger version

Name:	85.gif
Views:	1
Size:	13.9 KB
ID:	2424304
                              sigpic

                              Comment

                              Working...
                              X