اللہ کہاں ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین
آئیے دیکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اللہ کی اِس صفتِ عُلو یعنی تمام تر مخلوق سے جُدا اور بُلند ہونے کے بارے میں کیا فرمایا ہے
( 1 )
معاویہ ابن الحکم السُّلمی رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے " ایک دفعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی امامت مُبارکہ میں نماز پڑھ تھا کہ نمازیوں میں سے کسی کو چھینک آئی تو میں نے کہا " اللہ تُم پر رحم کرے"،
تو لوگوں نے مجھے کن انکھیوں سے دیکھا ، تو میں نے کہا " میری ماں مجھے کھو دے تُم لوگ مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو "
تو ان سب نے اپنے ہاتھ اپنی رانوں پرمارے ، تو میں جان گیا کہ یہ لوگ مجھے خاموش کروا رہے ہیں تو میں خاموش ہو گیا ،
میرے ماں باپ اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر قربان ہوں میں نے اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے پہلے اور نہ ہی بعد میں اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرح بہترین تعلیم دینے والا اچھا استاد کوئی نہیں دیکھا ، کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اپنی نماز سے فارغ ہوئے ، تو انہوں نے نہ تو مجھے ڈانٹا نہ ہی مجھے مارا نہ مجھے برا کہا ، بلکہ صرف اتنا فرمایا کہ
﴿ إِنَّ ہذہِ الصَّلَاۃَ لَا یَصْلُحُ فیہا شَیْء ٌ من کَلَامِ النَّاسِ إنَّما ہو التَّسْبِیحُ وَالتَّکْبِیرُ وَقِرَاء َۃُ الْقُرْآنِ﴾
أو کما قال رسول اللَّہِ صلی اللَّہ علیہ وعلی آلہ وسلم
﴿یہ نماز ہے اس میں انسانوں کی باتیں جائز نہیں ہیں یہ(نماز ) تو تسبیح ہے، تکبیر ہے اور قران پڑھنا ہے﴾
یا جیسے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےفرمایا ،
میں نے عرض کیا
یا رَسُولَ اللَّہِ إنی حَدِیثُ عَہْدٍ بِجَاہِلِیَّۃٍ وقد جاء اللہ بِالْإِسْلَامِ وَإِنَّ مِنَّا رِجَالًا یَأْتُونَ الْکُہَّانَ
یا رسول اللہ میں ابھی ابھی جاہلیت میں تھا ، اور اللہ ہمارے پاس اسلام لے کر آیا اور ہم میں سے کچھ لوگ کاہنوں کے پاس جاتے ہیں تو ارشاد فرمایا:
فلا تَأْتِہِمْ
تُم اُن (کاہنوں )کے پاس مت جانا
میں نے پھر عرض کیا
وَمِنَّا رِجَالٌ یَتَطَیَّرُونَ
ہم میں سے کچھ لوگ پرندوں کے ذریعے شگون لیتے ہیں
تو اِرشاد فرمایا
قال ذَاکَ شَیْء ٌ یَجِدُونَہُ فی صُدُورِہِمْ فلا یَصُدَّنَّہُمْ
یہ ایسی چیز ہے جو وہ لوگ اپنے سینو ں میں پاتے ہیں لیکن یہ کام انہیں(اپنے کاموں ) سے روکے نہیں
یعنی شگون وغیرہ مت لیا کریں ورنہ اس بد عقیدگی کی وجہ سے شگون بازی کرنے والے لوگ اپنے کاموں سے رُک جاتے ہیں اور انہیں اپنے کاموں سے رکنا نہیں چاہیے ،
قال بن الصَّبَّاحِ فلا یَصُدَّنَّکُمْ
ابن الصباح (اِمام مسلم رحمہُ اللہ کی طرف سے سند میں سب سے پہلے راوی رحمہ اللہ) کا کہنا ہے کہ "یہ شگون بازی تمہیں (اپنے کاموں)سے مت روکے"
( آگے پھر معاویہ بن الحکم رضی اللہ کا کہنا ہے ) پھر میں نے عرض کیا """ وَمِنَّا رِجَالٌ یَخُطُّونَ ::: ہم میں سے کچھ لوگ لکیریں بناتے ہیں """ (یعنی زائچہ بازی کرتے ہیں جو کاہنوں کے کاموں میں سے ہے)،
تو اِرشاد فرمایا
کان نَبِیٌّ من الْأَنْبِیَاء ِ یَخُطُّ فَمَنْ وَافَقَ خَطَّہُ فَذَاکَ
نبیوں ( علیھم السلام )میں سے ایک نبی خط کَشی کیا کرتے تھے پس اگر کسی کا خط اس نبی(علیہ السلام)کے خط کے موافق ہو جائے توٹھیک ہے
یہ ایک ناممکن کام ہے ، کیونکہ انبیاء علمہل السلام کو اللہ کی طرف سے وحی ہوتی تھی اور ان کو دیے جانے والے خصوصی علوم میں سے یہ ایک علم ایک نبی علیہ السلام کو دیا گیا تھا ،لہذا اس علم کا حصول جو صرف وحی کے ذریعے کسی نبی یا رسول کو خاص طور پر دیا گیا ہو ، کسی غیر نبی کے لیے نا ممن ہے، اور یہی بات سمجھانے کے لیے یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ اندازء بیان اختیار فرمایا ہے
،
پھر معاویہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں پیش آنے والے اپنے ایک اور واقعہ کا ذکر کیاکہ
میرے پاس ایک باندی ہے جو اُحد (پہاڑ) کے سامنے اور اِرد گِرد میری بکریاں چَرایا کرتی تھی ایک دِن میں نے دیکھا کہ اس کی (نگرانی میں میری )جو بکریاں تھیں اُن میں سے ایک کو بھیڑیا لے گیا ، میں آدم کی اولاد میں سے ایک آدمی ہوں جس طرح باقی سب آدمی غمگین ہوتے ہیں میں بھی اسی طرح غمگین ہوتا ہوں ، لیکن میں نے (اس غم میں ) اسے ایک تھپڑ مار دِیا ، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاس آیا کیونکہ اسے تھپڑ مارنا میرے لیے (دِل پر )بڑا (بوجھ)بن گیا تھا ، میں نے عرض کیا '' اے اللہ کے رسول کیا میں اسے آزاد نہ کرو دوں ؟ "
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:
ائْتِنِی بہا
اُس باندی کو میرے پاس لاؤ
فَأَتَیْتُہُ بہا
تو میں اس باندی کو لے کر (پھر دوبارہ )حاضر ہوا،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا
أَیْنَ اللہ
اللہ کہاں ہے ؟
قالت فی السَّمَاء ِ
اس باندی نے جواباً عرض کیا '' آسمان پر ''
پھر دریافت فرمایا
مَن أنا
میں کون ہوں ؟
قالت أنت رسول اللَّہِ
اس باندی نے جواباً عرض کیا '' آپ اللہ کے رسول ہیں ''
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے مجھے حُکم فرمایا
أَعْتِقْہَا فَإِنَّہَا مُؤْمِنَۃٌ
اِسے آزاد کرو دو یہ اِیمان والی ہے
صحیح مسلم /حدیث 537 /کتاب المساجد و مواضح الصلاۃ / باب7، بَاب تَحْرِیمِ الْکَلَامِ فی الصَّلَاۃِ وَنَسْخِ ما کان من إباحۃ ۔
ذرا غور کیجیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے باندی سے کیا پوچھا اور اُس باندی نے کیا جواب دِیا؟؟؟
غور کیجیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اُس باندی کا اِیمان جانچنے کے لیے ، اُس کے اِیمان کی درستگی جانچنے کے لیے صِرف دو باتیں دریافت فرمائیں،
اللہ کی ایک ذات مبارک کے بارے میں سوال کیا کہ اللہ کہاں ہے ؟
اِیمانیات کے بارے میں کوئی تفصیل دریافت نہیں فرمائی ،
اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اپنی ذات مبارک کے بارے میں ایک سوال فرمایا کہ اُن کی حیثیت و رُتبہ کیا ہے ؟،
اور اُس باندی کے مختصر سے جواب کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اُس کےاِیمان والی ہونے کی گواہی دِی ، جِس جواب میں اللہ کی ذات مبارک کے بارے میں اُس باندی نے یہ کہا کہ""" اللہ آسمان پر ہے """،
اب ذرا کچھ مزید توجہ سے غور فرمایے ،کہ اگر اللہ تعالیٰ کے لیے یہ کہنا کُفر ہے کہ وہ اُوپر ہے ، آسمانوں سے اوپر ہے ، اپنی تمام تر مخلوق سے اُوپر ہے،تو پھر اس بات پر ، یا ایسا کہنے والوں پر کُفر کا فتویٰ لگانے والے لوگ سچے ہیں ؟یا اُس باندی کو اِیمان والی قرار دینے والے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اُن پر میرے باپ قُربان ہوں سچے ہیں ؟؟؟؟؟
اس حدیث شریف کو عموماً " حدیث الجاریہ " کہا جاتا ہے
Comment