Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

ملاحدہ دور حاضر

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #76
    Re: ملاحدہ دور حاضر

    Originally posted by Crime Master GoGo View Post

    مداخلت کی معذرعت

    ویسے کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں سب جوڑوں کے نکاح آسمان پر پڑھائے گئے کہنے کا کیا ہے ورنہ ہونا کچھ بھی نہیں تھا
    کیا پیغمبر اسلام کے والدین کا نکاح پڑھایا گیا؟ اگر ہاں تو کس مذہب پر؟
    کیا ابراہم کے والدین کا نکاح پڑھایا گیا؟ نوح کے والدین کا نکاح پڑھایا گیا ہاں تو کس مذہب پہ؟

    انبیاء کے والدین کے بارے میں کیا فرماگیا ہے ؟
    کیا انکے بارے میں تذکرے کرنا صحیح ہے ؟؟؟
    جمیل بھائی اپکا اور خان صاحب کا مطلب ہے کہ نکاح صرف ایک اگریمنٹ ہے ۔۔۔ اور اسکی کوئی شرعی حیثیت نہیں ؟؟
    میرا مقصد اور موقف یہ ہے کہ خود کے بارے میں سوچیں ۔۔۔
    ہم کیا ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔۔۔ بس

    Comment


    • #77
      Re: ملاحدہ دور حاضر

      Originally posted by -=The Driver=- View Post

      انبیاء کے والدین کے بارے میں کیا فرماگیا ہے ؟
      کیا انکے بارے میں تذکرے کرنا صحیح ہے ؟؟؟
      جمیل بھائی اپکا اور خان صاحب کا مطلب ہے کہ نکاح صرف ایک اگریمنٹ ہے ۔۔۔ اور اسکی کوئی شرعی حیثیت نہیں ؟؟
      میرا مقصد اور موقف یہ ہے کہ خود کے بارے میں سوچیں ۔۔۔
      ہم کیا ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔۔۔ بس


      ڈرائیور میاں آپ پیغمبروں کو جانے دیں کیونکہ پھر بات بہت لمبی ہوجائے گئی ویسے بھی بانیاز سے میں نے کہاں تھا اب بات اسی سطح پر ہوگی جسے آپ بلکل شاک میں نہ آجائیں
      دراصل ہم عقیدت میں اتنے غافل ہوچکے کہ ہمیں سامنے کی چیزیں بھی نظر نہیں اس عقیدت کی پٹی نے ہمیں اندھا کردیا جبکہ اس گورکھ دھندے کو سمجھنا کجا مشکل نہیں
      ایک انسان اٹھ کر اعلان کردے وہ زمیں آسمان اس کے تابع ہیں تو آپ مان جاؤ گئے؟
      کبھی نہیں کیونکہ آپ کا عقیدہ یہ خدا کے تابع ہیں
      جب یہی سوال عرب کے بدو کرتے تھے کہ ہم تو بتوں کو پوچتے ہیں تو ان کو کافر/مشرک کفار کیوں کہا گیا؟
      کیا انہوں نے جبرائیل کو دیکھا تھا؟ کیا کسی فرشتے کو؟ کوئی ایسا معجزہ نہیں بلکہ انہیں کہا گیا مانو یا مرنے کے لئے تیار ہوجاؤ
      آج وہ شخص جو زمین و آسمان کا مالک ہونے کا دعویٰ کریں آپ اسے مانو گئے یا لڑنے مرنے پر تیا ہوجاؤ گئے؟

      باقی آپ بتا دو ہم کون ہیں کیا ہیں؟
      ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
      سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

      Comment


      • #78
        Re: ملاحدہ دور حاضر

        کوئی مانے یا نہ مانے کوئی بات کو سمجھ کر نہ سمجھے لیکن حقیقت یہی ہے کہ

        خدا پر سوال اُٹھانے والے دراصل اُس کی گواہی دینے والے پر اعتراض کر رہے ہوتے ہیں

        براہ راست نہ سہی لیکن ان ڈائیریکٹلی وہ اُس خدا سے روشناس کروانے والے پر اُس کے وجود کی گواہی دینے والے پر ہی اعتراض کر رہے ہوتے ہیں

        بات چونکہ بہت تلخ ہے اس لیئے جانتے بوجھتے کوئی نہیں مانے گا۔

        والسلام۔
        :star1:

        Comment


        • #79
          Re: ملاحدہ دور حاضر

          وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ وَ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ ؕ﴿۴﴾﴿002:004﴾‏ [جالندھری]‏ اور جو کتاب (اے محمد) تم پر نازل ہوئی اور جو کتابیں تم سے پہلے (پیغمبروں پر) نازل ہوئیں سب پر ایمان لاتے اور آخرت کا یقین رکھتے ہیں ‏
          تفسیر ابن كثیراعمال مومن
          حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جو کچھ اللہ کی طرف سے تم پر نازل ہوا اور تجھ سے پہلے کے انبیاء پر نازل ہوا وہ ان سب کی تصدیق کرتے ہیں ایسا نہیں کہ وہ کسی کو مانیں اور کسی سے انکار کریں بلکہ اپنے رب کی سب باتوں کو مانتے ہیں اور آخرت پر بھی ایمان رکھتے ہیں یعنی بعث و قیامت، جنت و دوزخ، حساب و میزان سب کو مانتے ہیں۔ قیامت چونکہ دنیا کے فنا ہونے کے بعد آئے گی اس لئے اسے آخرت کہتے ہیں۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ جن کی پہلے ایمان بالغیب وغیرہ کے ساتھ صفت بیان کی گئی تھی انہی کی دوبارہ یہ صفتیں بیان کی گئی ہیں۔ یعنی ایماندار خواہ عرب مومن ہوں خواہ اہل کتاب وغیرہ۔ مجاہد ابوالعالیہ، ربیع بن انس اور قتادہ کا یہی قول ہے۔ بعض نے کہا ہے یہ دونوں٠ ہیں تو ایک مگر مراد اس سے صرف اہل کتاب ہی نہیں۔ ان دونوں صورتوں میں واؤ عطف کا ہو گا اور صفتوں کا عطف صفتوں پر ہو گا جیسے سبح اسم الخ میں صفتوں کا عطف صفتوں پر ہے اور شعراء کے شعروں میں بھی آیا ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ پہلی صفتیں تو ہیں عرب مومنوں کی اور آیت (والذین یومنون بما انزل الیک) الخ سے مراد اہل کتاب مومنوں کی صفتیں ہیں۔ سدی نے حضرت ابن عباس، ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نقل کیا ہے اور ابن جریر نے بھی اسی سے اتفاق کیا ہے اور اس کی شہادت میں یہ آیت لائے ہیں آیت (وان من اھل الکتاب لمن یومن باللہ وما انزل الیکم وما انزل الیھم) الخ یعنی اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ تعالٰی پر اور اس وحی پر جو تمہاری طرف نازل ہوئی اور اس وحی پر جو اس سے پہلے ان کی طرف اتاری گئی ایمان لاتے ہیں اور اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہتے ہیں۔ اور جگہ ارشاد ہے آیت (الذین اتیناھم الکتاب من قبلہ) الخ یعنی جنہیں اس سے پہلے ہم نے کتاب دی تھی وہ اس کے ساتھ ایمان رکھتے اور جب ان کو (یہ قرآن) پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں۔ ہم اس پر بھی ایمان لائے اور اور اسے اپنے رب کی طرف سے حق جانا۔ ہم تو اس سے پہلے ہی مسلمان تھے۔ انہیں ان کے صبر کرنے اور برائی کے بدلے بھلائی کرنے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی وجہ سے دوہرا اجر ملے گا۔ بخاری مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ تین شخصوں کو دوہرا اجر ملے گا، ایک اہل کتاب جو اپنے نبی پر ایمان لائیں اور مجھ پر ایمان رکھیں۔ دوسرا وہ غلام جو اللہ تعالٰی کا حق ادا کرے اور اپنے مالک کا بھی۔ تیسرا وہ شخص جو اپنی لونڈی کو اچھا ادب سکھائے پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کر لے۔ امام جریر کے اس فرق کی مناسبت اس سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ سورت کے شروع میں مومنوں اور کافروں کا بیان ہوا ہے تو جس طرح کفار کی دو قسمیں ہیں کافر اور منافق۔ اسی طرح مومنوں کی بھی دو قسمیں ہیں۔ عربی مومن اور کتابی مومن۔ میں کہتا ہوں ظاہراً یہ ہے کہ حضرت مجاہد کا یہ قول ٹھیک ہے کہ سورۃ بقرہ کی اول چار آیتیں مومنوں کے اوصاف کے بیان میں ہیں اور دو آیتیں اس کے بعد کی کافروں کے بارے میں ہیں اور ان کے بعد کی تیرہ آیتیں منافقوں سے متعلق ہیں پس یہ چاروں آیتیں ہر مومن کے حق میں عام ہیں۔ عربی ہو یا عجمی، کتابی ہو یا غیر کتابی، انسانوں میں سے ہو یا جنات میں سے۔ اس لئے کہ ان میں سے ہر ایک وصف دوسرے کو لازم اور شرط ہے ایک بغیر دوسرے کے نہیں ہو سکتا۔ غیب پر ایمان لانا، نماز قائم کرنا، اور زکوٰۃ دینا اس وقت تک صحیح نہیں جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اگلے انبیاء پر جو کتابیں اتری ہیں۔ ان پر ایمان نہ ہو اور ساتھ ہی آخرت کا یقین کامل نہ ہو جس طرح پہلی تین چیزیں بغیر پچھلی تین چیزوں کے غیر معتبر ہیں۔ اسی طرح پچھلی تینوں بغیر پہلی تینوں کے صحیح نہیں۔ اسی لئے ایمان والوں کو حکم الٰہی ہے آیت (یا ایھا الذین امنوا امنوا باللہ ورسولہ والکتاب الذی نزل علی رسولہ والکتاب الذی انزل من قبل) الخ یعنی ایمان والو اللہ پر، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اور جو کتاب اس پر اتری ہے اس پر اور جو کتابیں ان سے پہلے اتری ہیں ان پر ایمان لاؤ۔ اور فرمایا آیت (ولا تجادلوا اھل الکتاب) الخ یعنی اہل کتاب سے جھگڑنے میں بہترین طریقہ برتو اور کہو کہ ہم ایمان لائے ہیں اس پر جو ہم پر نازل کیا گیا اور جو تمہاری طرف اتارا گیا ہے ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہی ہے۔ ارشاد ہے اے اہل کتاب جو ہم نے اتارا ہے اس پر ایمان لاؤ اس کو سچا کرنے والا ہے جو تمہارے پاس ہے۔ اور جگہ فرمایا۔
          اے اہل کتاب تم کسی چیز پر نہیں ہو جب تک توراۃ، انجیل اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے اتارا گیا ہے۔ قائم نہ رکھو۔ دوسری جگہ تمام ایمان والوں کی طرف سے خبر دیتے ہوئے قرآن پاک نے فرمایا آیت (امن الرسول بما انزل الیہ) الخ یعنی ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایمان لائے اس پر جو ان کی طرف ان کے رب کی طرف سے نازل ہوا اور تمام ایمان والے بھی ہر ایک ایمان لایا اللہ تعالٰی پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر۔ ہم رسولوں میں فرق اور جدائی نہیں کرتے۔ اسی طرح ارشاد ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالٰی پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور رسولوں میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں جن میں ایمان والوں کا اللہ تعالٰی پر اس کے تمام رسولوں اور سب کتابوں پر ایمان لانے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور یہ بات ہے کہ اہل کتاب کے ایمان والوں کی ایک خاص خصوصیت ہے کیونکہ ان کا ایمان اپنے ہاں کتابوں میں تفصیل کے ساتھ ہوتا ہے اور پھر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر وہ اسلام قبول کرتے ہیں تو قرآن کریم پر بھی تفصیل کے ساتھ ایمان لاتے ہیں۔ اسی لئے ان کو دوہرا اجر ملتا ہے اور اس امت کے لوگ بھی اگلی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں لیکن ان کا ایمان اجمالی طور پر ہوتا ہے۔ جیسے صحیح حدیث میں ہے کہ جب تم سے اہل کتاب کوئی بات کریں تو تم نہ اسے سچ کہو نہ جھوٹ بلکہ کہہ دیا کرو کہ ہم تو جو کچھ ہم پر اترا اسے بھی مانتے ہیں اور جو کچھ تم پر اترا اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ بعض موقع پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتے ہیں ان کا ایمان بہ نسبت اہل کتاب کے زیادہ پورا زیادہ کمال والا زیادہ راسخ اور زیادہ مضبوط ہوتا ہے اس حیثیت سے ممکن ہے کہ انہیں اہل کتاب سے بھی زیادہ اجر ملے چاہے وہ اپنے پیغمبر اور پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے سبب دوہرا اجر پائیں لیکن یہ لوگ کمال ایمان کے سبب اجر میں ان سے بھی بڑھ جائیں۔ واللہ اعلم۔
          _____________
          اُولٰٓئِکَ عَلٰی ہُدًی مِّنۡ رَّبِّہِمۡ ٭ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۵﴾﴿002:005﴾‏ [جالندھری]‏ یہی لوگ اپنے پروردگار (کی طرف) سے ہدایت پر ہیں اور یہی نجات پانے والے ہیں ‏
          تفسیر ابن كثیرہدایت یافتہ لوگ

          یعنی وہ لوگ جن کے اوصاف پہلے بیان ہوئے مثلاً غیب پر ایمان لانا، نماز قائم رکھنا، اللہ کے دئیے ہوئے سے دینا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اترا اس پر ایمان لانا، آپ سے پہلے جو کتابیں اتریں ان کو ماننا، دار آخرت پر یقین رکھ کر وہاں کام آنے کے لئے نیک اعمال کرنا۔ برائیوں اور حرام کاریوں سے بچنا۔ یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں جنہیں اللہ کی طرف سے نور ملا، اور بیان و بصیرت حاصل ہوا اور انہی لوگوں کے لئے دنیا اور آخرت میں فلاح و نجات ہے۔ ابن عباس نے ہدایت کی تفسیر "نور" اور "استقامت" سے کی ہے اور "فلاح" کی تفسیر اپنی چاہت کو پا لینے اور برائیوں سے بچ جانے کی ہے۔ ابن جریر فرماتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے رب کی طرف سے نور، دلیل، ثابت قدمی، سچائی اور توفیق میں حق پر ہیں اور یہی لوگ اپنے ان پاکیزہ اعمال کی وجہ سے نجات، ثواب اور دائمی جنت پانے کے مستحق ہیں اور عذاب سے محفوظ ہیں۔ ابن جریر یہ بھی فرماتے ہیں کہ دوسرے اولئک کا اشارہ اہل کتاب کی طرف ہے جن کی صفت اس سے پہلے بیان ہو چکی ہے جیسے پہلے گزر چکا۔ اس اعتبار سے آیت (والذین یومنون بما انزل الیک) الخ پہلے کی آیت سے جدا ہو گا اور مبتدا بن کر مرفوع ہو گا اور اس کی خبر آیت (اولئک ھم المفلحون) ہو گی لیکن پسندیدہ قول یہی ہے کہ اس کا اشارہ پہلے کے سب اوصاف والوں کی طرف ہے اہل کتاب ہوں یا عرب ہوں۔ حضرت ابن عباس، حضرت ابن مسعود اور بعض صحابہ سے مروی ہے کہ آیت (یومنون بالغیب) سے مراد عرب ایمان دار ہیں اس کے بعد کے جملہ سے مراد اہل کتاب ایماندار ہیں۔ پھر دونوں کے لئے یہ بشارت ہے کہ یہ لوگ ہدایت اور فلاح والے ہیں۔ اور یہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یہ آیتیں عام ہیں اور یہ اشارہ بھی عام ہے واللہ اعلم۔ مجاہد، ابوالعالیہ، ربیع بن انس، اور قتادہ سے یہی مروی ہے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ حضور قرآن پاک کی بعض آیتیں تو ہمیں ڈھاریں دیتی ہیں اور امید قائم کرا دیتی ہیں اور بعض آیتیں کمر توڑ دیتی ہیں اور قریب ہوتا ہے کہ ہم نامید ہو جائیں۔ آپ نے فرمایا لو میں تمہیں جنتی اور جہنمی کی پہچان صاف صاف بتا دوں۔ پھر آپ نے الم سے مفلحون تک پڑھ کر فرمایا یہ تو جنتی ہیں صحابہ نے خوش ہو کر فرمایا "الحمد للہ ہمیں امید ہے کہ ہم انہی میں سے ہوں" پھر آیت (ان الذین کفروا) سے عظیم تک تلاوت کی اور فرمایا یہ جہنمی ہیں۔ انہوں نے کہا ہم ایسے نہیں آپ نے فرمایا ہاں۔ (ابن ابی حاتم)
          _____________
          اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا سَوَآءٌ عَلَیۡہِمۡ ءَاَنۡذَرۡتَہُمۡ اَمۡ لَمۡ تُنۡذِرۡہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۶﴾﴿002:006﴾‏ [جالندھری]‏ جو لوگ کافر ہیں انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے، وہ ایمان نہیں لانے کے
          تفسیر ابن كثیربدقسمت لوگ
          یعنی جو لوگ حق کو پوشیدہ کرنے یا چھپا لینے کے عادی ہیں اور ان کی قسمت میں یہی ہے کہ انہیں آپ کا ڈرانا سود مند ہے اور نہ ہی ڈرانا۔ یہ کبھی اللہ تعالٰی کی اس وحی کی تصدیق نہیں کریں گے جو آپ پر نازل ہوئی ہے۔ جیسے اور جگہ فرمایا آیت (ان الذین حقت علیھم کلمۃ ربک لا یومنون ولو جاء تھم کل ایتہ حتی یروا العذاب الالیم) یعنی جن لوگوں پر اللہ کی بات ثابت ہو چکی ہے وہ ایمان نہ لائیں گے اگرچہ تمام آیتیں دیکھ لیں یہاں تک کہ درد ناک عذاب دیکھیں۔ ایسے ہی سرکش اہل کتاب کی نسبت فرمایا آیت (ولئن اتیت الذین اوتوالکتاب) الخ یعنی ان اہل کتاب کے پاس اگرچہ تمام دلائل لے آؤ تاہم وہ تمہارے قبلہ کو نہیں مانیں گے۔ یعنی ان بد نصیبوں کو سعادت حاصل ہی نہیں ہو گی۔ ان گمراہوں کو ہدایت کہاں؟ تو اے نبی ان پر افسوس نہ کر، تیرا کام صرف رسالت کا حق ادا کر دینا اور پہنچا دینا ہے۔ ماننے والے نصیب ور ہیں وہ مالا مال ہو جائیں گے اور اگر کوئی نہ مانے تو نہ سہی۔ تیرا فرض ادا ہو گیا ہم خود ان سے حساب لے لیں گے۔ تو صرف ڈرانے والا ہے۔ ہر چیز پر اللہ تعالٰی ہی وکیل ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس بات کی بڑی ہی حرص تھی کہ تمام لوگ ایمان دار ہو جائیں اور ہدایت قبول کر لیں لیکن پروردگار نے فرمایا کہ یہ سعادت ہر ایک کے حصہ نہیں۔ یہ نعمت بٹ چکی ہے جس کے حصے میں آئی ہے وہ آپ کی مانے گا اور جو بد قسمت ہیں وہ ہرگز ہرگز اطاعت کی طرف نہیں جھکیں گے۔ پس مطلب یہ ہے کہ جو قرآن کو تسلیم نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہم اگلی کتابوں کو مانتے ہیں انہیں ڈرانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لئے کہ وہ تو خود اپنی کتاب کو بھی حقیقتاً نہیں مانتے کیونکہ اس میں تیرے ماننے کا عہد موجود ہے تو جب وہ اس کتاب کو اور اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت کو نہیں مانتے جس کے ماننے کا اقرار کر چکے تو بھلا وہ تمہاری باتوں کو کیا مانیں گے؟ ابوالعالیہ کا قول ہے کہ یہ آیت جنگ احزاب کے ان سرداروں کے بارے میں اتری ہے جن کی نسبت فرمان باری ہے آیت (الم ترالی الذین بدلوا نعمۃ اللہ کفرا) الخ لیکن جو معنی ہم نے پہلے بیان کئے ہیں وہ زیادہ واضح ہیں اور دوسری آیتوں کے مطابق ہیں۔ واللہ اعلم۔ اس حدیث پر جو ابن ابی حاتم کے حوالے سے ابھی بیان ہوئی ہے دوبارہ نظر ڈال جائیے لا یومنون پہلے جملہ کی تاکید ہے یعنی ڈرانا نہ ڈرانا دونوں برابر ہیں، دونوں حالتوں میں ان کا کفر نہ ٹوٹے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ لایومنون خبر ہو اس لئے کہ تقدیر کلام آیت (ان الذین کفروا لا یومنون) ہے اور آیت (سواء علیھم) جملہ معترضہ ہو جائے گا واللہ اعلم۔
          _____________
          خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ عَلٰی سَمۡعِہِمۡ ؕ وَ عَلٰۤی اَبۡصَارِہِمۡ غِشَاوَۃٌ ۫ وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ٪﴿۷﴾﴿002:007﴾‏ [جالندھری]‏ خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے، اور ان کی آنکھوں پر پردہ (پڑا ہوا) ہے، اور انکے لئے بڑا عذاب (تیار) ہے ‏
          تفسیر ابن كثیرمہر کیوں لگا دی گئی؟
          حضرت سدی فرماتے ہیں ختم سے مراد طبع ہے یعنی مہر لگا دی حضرت قتادہ فرماتے ہیں یعنی ان پر شیطان غالب آگیا وہ اسی کی ماتحتی میں لگ گئے یہاں تک کہ مہر لگا دی حضرت قتادہ فرماتے ہیں یعنی ان پر شیطان غالب آگیا وہ اسی کی ماتحتی میں لگ گئے یہاں تک کہ مہر الٰہی ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر لگ گئی اور آنکھوں پر پردہ پڑ گیا۔ ہدایت کو نہ دیکھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں، نہ سمجھ سکتے ہیں۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ گناہ لوگوں کے دلوں میں بستے جاتے ہیں اور انہیں ہر طرف سے گھیر لیتے ہیں۔ بس یہی طبع اور ختم یعنی مہر ہے۔ دل اور کان کے لئے محاورہ میں مہر آتی ہے۔ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں قرآن میں ران کا لفظ ہے طبع کا لفظ ہے اور اقفال کا لفظ ہے۔ ران طبع سے کم ہے اور طبع اقفال سے کم ہے، اقفال سب سے زیادہ ہے۔ حضرت مجاہد نے اپنا ہاتھ دکھا کر کہا کہ دل ہتھیلی کی طرح ہے اور بندے کے گناہ کی وجہ سے وہ سمٹ جاتا ہے اور بند ہو جاتا ہے۔ اس طرح کہ ایک گناہ کیا تو گویا چھنگلیا بند ہو گئی پھر دوسرا گناہ کیا دوسری انگلی بند ہو گئی یہاں تک کہ تمام انگلیاں بند ہوگئیں اور اب مٹھی بالکل بند ہو گئی جس میں کوئی چیز داخل نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح گناہوں سے دل پر پردے پڑ جاتے ہیں مہر لگ جاتا ہیں مہر لگ جاتی ہے پھر اس پر کسی طرح حق اثر نہیں کرتا۔ اسے زین بھی کہتے ہیں مطلب یہ ہوا کہ تکبر کی وجہ ان کا حق سے منہ پھیر لینا بیان کیا جا رہا ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص اس بات کے سننے سے بہرا بن گیا۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ تکبر اور بےپرواہی کر کے اس نے اس بات کی طرف دھیان نہیں دیا۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں یہ مطلب ٹھیک نہیں اس لئے کہ یہاں تو خود اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ اس نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی۔ زمحشری نے اس کی تردید کی ہے اور پانچ تاویلیں کی ہیں لیکن سب کی سب بالکل بےمعنی اور فضول ہیں اور صرف اپنے معتزلی ہونے کی وجہ سے اسے یہ تکلفات کرنے پڑے ہیں کیونکہ اس کے نزدیک یہ بات بہت بری ہے کہ کسی کے دل پر اللہ قدوس مہر لگا دے لیکن افسوس اس نے دوسری صاف اور صریح آیات پر غور نہیں کیا۔ ایک جگہ ارشاد ہے آیت (فلما زاغوا ازاغ اللہ قلوبھم) یعنی جب وہ ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دئیے اور فرمایا آیت (ونقلب افئدتھم وابصارھم الخ ہم ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو الٹ دیتے ہیں گویا کہ وہ سرے سے ایمان ہی نہ لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی میں بھٹکتے ہوئے ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ اس قسم کی اور آیتیں بھی ہیں۔ جو صاف بتاتی ہیں کہ اللہ تعالٰی نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اور ہدایت کو ان سے دور کر دیا ہے۔ حق کو ترک کرنے اور باطل پر جم رہنے کی وجہ سے جو یہ سراسر عدل و انصاف ہے اور عدل اچھی چیز ہے نہ کہ بری۔ اگر زمخشری بھی بغور ان آیات پر نظر ڈالتے تو تاویل نہ کرتے۔ واللہ اعلم۔ قرطبی فرماتے ہیں۔ امت اجماع ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی ایک صفت مہر لگانا بھی بیان کی ہے جو کفار کے کفر کے بدلے ہے۔ فرمایا ہے آیت (بل طبع اللہ علیھا بکفرھم) بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان پر مہر لگا دی۔ حدیث میں بھی ہے کہ اللہ تعالٰی دلوں کو الٹ پلٹ کرتا ہے۔ دعا میں ہے حدیث(یا مقلب القلوب ثبت قلوبنا علی دینک) یعنی اے دلوں کے پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنے دین پر قائم رکھ۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ والی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دلوں پر فتنے اس طرح پیش ہوتے ہیں جیسے ٹوٹے ہوئے بورے کا ایک ایک تنکا جو دل انہیں قبول کر لیتا ہے اس میں ایک سیاہ نکتہ ہو جاتا ہے اور جس دل میں یہ فتنے اثر نہیں کرتے، اس میں ایک سفید نکتہ ہو جاتا ہے جس کی سفیدی بڑھتے بڑھتے بالکل صاف سفید ہو کر سارے دل کو منور کر دیتی ہے۔ پھر اسے کبھی کوئی فتنہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اسی طرح دوسرے دل کی سیاہی (جو حق قبول نہیں کرتا) پھیلتی جاتی ہے یہاں تک کہ سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔ اب وہ الٹے کوزے کی طرح ہو جاتا ہے۔ نہ اچھی بات اسے اچھی لگتی ہے نہ برائی بری معلوم ہوتی ہے۔ امام ابن جریر کا فیصلہ وہی ہے جو حدیث میں آ چکا ہے کہ مومن جب گناہ کرتا ہے اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ ہو جاتا ہے اگر وہ باز آ جائے توبہ کر لے اور رک جائے تو وہ نکتہ مٹ جاتا ہے اور اس کا دل صاف ہو جاتا ہے اور اگر وہ گناہ میں بڑھ جائے تو وہ سیاہی بھی پھیلتی جاتی ہے یہاں تک کہ سارے دل پر چھا جاتی ہے، یہی وہ ران ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے آیت (کلا بل ران علی قلوبھم ما کانوا یکسبون) یعنی یقیناً ان کے دلوں پر ران ہے، ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے (ترمذی۔ نسائی۔ ابن جریر) امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے تو معلوم ہوا کہ گناہوں کی زیادتی دلوں پر غلاف ڈال دیتی ہے اور اس کے بعد مہر الٰہی لگ جاتی ہے جسے ختم اور طبع کہا جاتا ہے۔ اب اس دل میں ایمان کے جانے اور کفر کے نکلنے کی کوئی راہ باقی نہیں رہتی۔ اسی مہر کا ذکر اس آیت آیت (ختم اللہ) الخ میں ہے، وہ ہماری آنکھوں دیکھی حقیقت ہے کہ جب کسی چیز کا منہ بند کر کے اس پر مہر لگا دی جائے تو جب تک وہ مہر نہ ٹوٹے نہ اس میں کچھ جا سکتا ہے نہ اس سے کوئی چیز نکل سکتی ہے۔ اسی طرح جن کفار کے دلوں اور کانوں پر مہر الٰہی لگ چکی ہے ان میں بھی بغیر اس کے ہٹے اور ٹوٹے نہ ہدایت آئے، نہ کفر جائے۔ سمعھم پر پورا وقف ہے اور آیت (علی ابصارھم غشاوۃ) الگ پورا جملہ ہے۔ ختم اور طبع دلوں اور کانوں پر ہوتی ہے اور غشاوت یعنی پردہ آنکھوں پر پڑتا ہے۔ جیسے کہ حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن مسعود اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔ قرآن میں ہے آیت (فان یشا اللہ یختم علی قبلک) اور جگہ ہے آیت (وختم علی سمعہ وقلبہ وجعل علی بصرہ غشاوۃ ان آیتوں میں دل اور کان پر ختم کا ذکر ہے اور آنکھ پر پردے کا بعض نے یہاں غشاوۃ زبر کے ساتھ بھی پڑھا ہے تو ممکن ہے کہ ان کے نزدیک فعل جعل مقصود ہو اور ممکن ہے کہ نصب محل کی اتباع سے ہو جیسے "آیت (وچورعین)" میں۔ شروع سورت کی چار آیتوں میں مومنین کے اوصاف بیان ہوئے پھر ان دو آیتوں میں کفار کا حال بیان ہوا۔ اب منافقوں کا ذکر ہوتا ہے جو بظاہر ایماندار بنتے ہیں لیکن حقیقت میں کافر ہیں چونکہ ان لوگوں کی چالاکیاں عموماً پوشیدہ رہ جاتی ہیں۔ اس لئے ان کا بیان ذرا تفصیل سے کیا گیا اور بہت کچھ ان کی نشانیاں بیان کی گئیں انہی کے بارے میں سورۃ برات اتری اور انہی کا ذکر سورۃ نور وغیرہ میں کیا گیا تاکہ ان سے پورا بچاؤ ہو اور ان کی مذموم خصلتوں سے مسلمان دور رہیں۔ پس فرمایا۔
          _____________
          وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ مَا ہُمۡ بِمُؤۡمِنِیۡنَ ۘ﴿۸﴾﴿002:008﴾‏ [جالندھری]‏ اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں حالانکہ وہ ایمان نہیں رکھتے
          تفسیر ابن كثیرمنافقت کی قسمیں۔
          دراصل نفاق کہتے ہیں بھلائی ظاہر کرنے اور برائی پوشیدہ رکھنے کو۔ نفاق کی دو قسمیں ہیں اعتقادی اور عملی۔ پہلی قسم کے منافق تو ابدی جہنمی ہیں اور دوسری قسم کے بدترین مجرم ہیں۔ اس کا بیان تفصیل کے ساتھ انشاء اللہ کسی مناسب جگہ ہو گا۔ امام ابن جریج فرماتے ہیں "منافق کا قول اس کے فعل کے خلاف، اس کا باطن ظاہر کے خلاف اس کا آنا جانے کے خلاف اور اس کی موجودگی عدم موجودگی ہوا کرتی ہے۔ نفاق مکہ شریف میں تو تھا ہی نہیں بلکہ اس کے الٹ تھا یعنی بعض لوگ ایسے تھے جو زبردستی بہ ظاہر کافروں کا ساتھ دیتے تھے مگر دل میں مسلمان ہوتے تھے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مکہ چھوڑ کر مدینہ تشریف لائے اور یہاں پر اوس اور خزرج کے قبائل نے انصار بن کر آپ کا ساتھ دیا اور جاہلیت کے زمانہ کی مشرکانہ بت پرستی ترک کر دی اور دونوں قبیلوں میں سے خوش نصیب لوگ مشرف بہ اسلام ہو گئے لیکن یہودی اب تک اللہ تعالٰی کی اس نعمت سے محروم تھے۔ ان میں سے صرف حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالٰی نے اس سچے دین کو قبول کیا تب تک بھی منافقوں کا خبیث گروہ قائم نہ ہوا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودیوں اور عرب کے بعض قبائل سے صلح کر لی تھی۔ غرض اس جماعت کے قیام کی ابتدا یوں ہوئی کہ مدینہ شریف کے یہودیوں کے تین قبیلے تھے بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ، بنو قینقاع تو خزرج کے حلیف اور بھائی بند بنے ہوئے تھے اور باقی دو قبیلوں کا بھائی چارہ اوس سے تھا۔ جب جنگ بدر ہوئی اور اس میں پروردگار نے اپنے دین والوں کو غالب کیا۔ شوکت و شان اسلام ظاہر ہوئی، مسلمانوں کا سکہ جم گیا اور کفر کا زور ٹوٹ گیا تب یہ ناپاک گروہ قائم ہوا چنانچہ عبداللہ بن ابی بن سلول تھا تو خزرج کے قبیلے سے لیکن اوس اور خزرج دونوں اسے اپنا بڑا مانتے تھے بلکہ اس کی باقاعدہ سرداری اور بادشاہت کے اعلان کا پختہ ارادہ کر چکے تھے کہ ان دونوں قبیلوں کا رخ اسلام کی طرف پھر گیا اور اس کی سرداری یونہی رہ گئی۔ یہ خار تو اس کے دل میں تھا ہی، اسلام کی روز افزوں ترقی میں لڑائی اور کامیابی نے اسے مخبوط الحواس بنا دیا۔ اب اس نے دیکھا کہ یوں کام نہیں چلے گا اس نے بظاہر اسلام قبول کر لینے اور باطن میں کافر رہنے کی ٹھانی اور جس قدر جماعت اس کے زیر اثر تھی سب کو یہی ہدایت کی، اس طرح منافقین کی ایک جمعیت مدینہ کے آس پاس قائم ہو گئی۔ ان منافقین میں بحمدللہ مکی مہاجر ایک بھی نہ تھا بلکہ یہ بزرگ تو اپنے اہل و عیال، مال و متاع کو نام حق پر قربان کر کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دے کر آئے تھے۔ (فرضی اللہ عنھم اجمعین)۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں "یہ منافق اوس اور خزرج کے قبیلوں میں سے تھے اور یہودی بھی جو ان کے طریقے پر تھے۔ قبیلہ اوس اور خزرج کے نفاق کا ان آیتوں میں بیان ہے۔ " ابوالعالیہ، حضرت حسن، قتادہ، سدی نے یہی بیان کیا ہے۔ پروردگار عالم نے منافقوں کی بہت سی بد خصلتوں کا یہاں بیان فرمایا۔ تاکہ ان کے ظاہر حال سے مسلمان دھوکہ میں نہ آ جائیں اور انہیں مسلمان خیال کر کے اپنا نہ سمجھ بیٹھیں۔ جس کی وجہ سے کوئی بڑا فساد پھیل جائے۔ یہ یاد رہے کہ بدکاروں کو نیک سمجھنا بھی بجائے خود بہت برا اور نہایت خوفناک امر ہے جس طرح اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ زبانی اقرار تو ضرور کرتے ہیں مگر ان کے دل میں ایمان نہیں ہوتا۔ اسی طرح سورۃ منافقون میں بھی کہا گیا ہے کہ آیت (اذا جاء ک المنافقون قالوا نشھدانک لرسول اللہ ) الخ یعنی منافق تیرے پاس آ کر کہتے ہیں کہ ہماری گواہی ہے کہ آپ رسول اللہ ہیں اور اللہ تعالٰی جانتا ہے کہ تو اس کا رسول ہے لیکن چونکہ حقیقت میں منافقوں کا قول ان کے عقیدے کے مطابق نہ تھا اس لئے ان لوگوں کے شاندار اور تاکیدی الفاظ کے باوجود اللہ تعالٰی نے انہیں جھٹلا دیا۔ اور سورۃ منافقون میں فرمایا آیت (واللہ یشھدان المنافقین لکاذبون) یعنی اللہ تعالٰی گواہی دیتا ہے کہ بالیقین منافق جھوٹے ہیں اور یہاں بھی فرمایا آیت (وما ھم بمومنین) یعنی دراصل وہ ایماندار نہیں وہ اپنے ایمان کو ظاہر کر کے اور اپنے کفر کو چھپا کر اپنی جہالت سے اللہ تعالٰی کو دھوکہ دیتے ہیں اور اسے نفع دینے والی اور اللہ کے ہاں چل جانے والی کاریگری خیال کرتے ہیں۔ جیسے کہ بعض مومنوں پر ان کا یہ مکر چل جاتا ہے۔ قرآن میں اور جگہ ہے آیت (یوم یبعثھم اللہ جمیعا فیحلفون لہ) الخ یعنی قیامت کے دن جبکہ اللہ تعالٰی ان سب کو کھڑا کرے گا تو جس طرح وہ یہاں ایمان والوں کے سامنے قسمیں کھاتے ہیں۔ اللہ تعالٰی کے سامنے بھی قسمیں کھائیں٠ گے اور سمجھتے ہیں کہ وہ بھی کچھ ہیں۔ خبردار یقیناً وہ جھوٹے ہیں۔ یہاں بھی ان کے اس غلط عقیدے کی وضاحت میں فرمایا کہ دراصل وہ اپنے اس کام کی برائی کو جانتے ہی نہیں۔ یہ دھوکہ خود اپنی جانوں کو دے رہے ہیں۔ جیسے کہ اور جگہ ارشاد ہوا آیت (ان المنافقین یخادعون اللہ ھو خادعھم) یعنی منافق اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں حالانکہ وہ انہیں کو دھوکہ میں رکھنے والا ہے۔ بعض قاریوں نے یخدعون پڑھا ہے اور بعض یخادعون مگر دونوں قرأت وں کے معنی کا مطلب ایک ہی ہوتا ہے۔ ابن جریر نے کہا کہ اللہ تعالٰی کو اور ایمان والوں کو منافق دھوکہ کیسے دیں گے؟ وہ جو اپنے دل کے خلاف اظہار کرتے ہیں وہ تو صرف بچاؤ کے لیے ہوتا ہے تو جواباً کہا جائے گا کہ اس طرح کی بات کرنے والے کو بھی جو کسی خطرہ سے بچنا چاہتا ہے عربی زبان میں مخادع کہا جاتا ہے چونکہ منافق بھی قتل، قید اور دنیاوی عذابوں سے محفوظ رہنے کے لئے یہ چال چلتے تھے اور اپنے باطن کے خلاف اظہار کرتے تھے اس لئے انہیں دھوکہ باز کہا گیا۔ ان کا یہ فعل چاہے کسی کو دنیا میں دھوکا دے بھی دے لیکن درحقیقت وہ خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ کیونکہ وہ اسی میں اپنی بھلائی اور کامیابی جانتے ہیں اور دراصل یہ سب ان کے لئے انتہائی برا عذاب اور غضب الٰہی ہو گا جس کے سہنے کی ان میں طاقت نہیں ہو گی پس یہ دھوکہ حقیقتاً ان پر خود وبال ہو گا۔ وہ جس کام کے انجام کو اچھا جانتے ہیں وہ ان کے حق میں برا اور بہت برا ہو گا۔ ان کے کفر، شک اور تکذیب کی وجہ سے ان کا رب ان سے ناراض ہو گا لیکن افسوس انہیں اس کا شعور ہی نہیں اور یہ اپنے اندھے پن میں ہی مست ہیں۔ ابن جریج اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ آیت (لا الہ الا اللہ) کا اظہار کر کے وہ اپنی جان اور مال کا بچاؤ کرنا چاہتے ہیں، یہ کلمہ ان کے دلوں میں جا گزریں نہیں ہوتا۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں منافقوں کی یہی حالت ہے کہ زبان پر کچھ، دل میں کچھ، عمل کچھ، عقیدہ کچھ، صبح کچھ اور شام کچھ کشتی کی طرح جو ہوا کے جھونکے سے کبھی ادھر ہو جاتی ہے کبھی ادھر۔
          _____________
          یُخٰدِعُوۡنَ اللّٰہَ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۚ وَ مَا یَخۡدَعُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَہُمۡ وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ ؕ﴿۹﴾﴿002:009﴾‏ [جالندھری]‏ یہ خدا کو اور مومنوں کو چکما دیتے ہیں مگر (حقیقت میں) اپنے سوا کسی کا چکما نہیں دیتے اور اس سے بےخبر ہیں ‏
          تفسیر ابن كثیر
          _____________
          فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ ۙ فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌۢ ۬ۙ بِمَا کَانُوۡا یَکۡذِبُوۡنَ ﴿۱۰﴾ ﴿002:010﴾‏ [جالندھری]‏ ان کے دلوں میں (کفر کا) مرض تھا خدا نے انکا مرض اور زیادہ کر دیا اور ان کے جھوٹ بولنے کے سبب ان کو دکھ دینے والا عذاب ہوگا ‏

          تفسیر ابن كثیرشک و شبہ بیماری ہے
          بیماری سے مراد یہاں شک و شبہ ہے۔ حضرت ابن عباس حضرت ابن مسعود اور چند صحابہ سے یہی مروی ہے۔ حضرت مجاہد عکرمہ، حسن بصری، ابوالعالیہ، ربیع بن انس، قتادہ، کا بھی یہی قول ہے۔ حضرت عکرمہ اور طاؤس نے اس کی تفسیر سے ریا اور ابن عباس سے اس کی تفسیر نفاق بھی مروی ہے۔ زید بن اسلم فرماتے ہیں یہاں دینی بیماری مراد ہے نہ کہ جسمانی۔ انہیں اسلام میں شک کی بیماری تھی اور ان کی ناپاکی میں اللہ تعالٰی نے اور اضافہ کر دیا۔ جیسے قرآن میں اس کا ذکر ایک اور جگہ اللہ تعالٰی ہے۔ آیت (فاما الذین امنوا فزادتھم ایمانا ناوھم یستبشرون واما الذین فی قلوبھم مرض فزادتھم رجسا الی رجسھم) یعنی ایمان والوں کے ایمان کو تقویت پہنچاتی اور وہ خوشیاں مناتے ہیں لیکن بیماری والوں کی ناپاکی اور پلیدی کو اور زیادہ کر دیتی ہے یعنی اس کی ابدی اور گمراہی بڑھ جاتی ہے، یہ بدلہ بالکل ان کے عمل کے مطابق ہے۔ یہ تفسیر ہی درست ہے، ٹھیک اسی کے مثل یہ فرمان بھی ہے آیت (والذین اھتدوا زادھم ھدی واتاھم تقوھم) یعنی ہدایت والوں کو ہدایت میں بڑھا دیتا ہے اور ان کو تقویٰ عطا فرماتا ہے۔ آیت (یکذبون کو یکذبون) بھی قاریوں نے پڑھا ہے یہ دونوں خصلتیں ان میں تھیں جھٹلاتے بھی تھے اور جھوٹے بھی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض منافقوں کو اچھی طرح جاننے کے باوجود بھی قتل نہ کرنے کیوجہ وہی ہے جو بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ لوگوں میں یہ چرچے ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کر ڈالتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ جو اعرابی آس پاس ہیں انہیں یہ تو معلوم نہ ہو گا کہ ان منافقوں کے پوشیدہ کفر کی بنا پر انہیں قتل کیا گیا ہے ان کی نظریں تو صرف ظاہر داری پر ہوں گی جب ان میں یہ بات مشہور ہو جائے گی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کر ڈالتے ہیں تو خوف ہے کہ کہیں وہ اسلام کے قبول کرنے سے رک نہ جائیں۔ قرطبی فرماتے ہیں ہمارے علماء وغیرہ کا بھی یہی قول ہے۔ ٹھیک اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آیت (مولفتہ القلوب) کو جن کے دل اسلام کی جانب مائل کئے جاتے تھے۔ مال عطا فرمایا کرتے تھے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ ان کے اعتقاد بد ہیں۔ حضرت امام مالک بھی منافقوں کو قتل نہ کرنے کی یہی وجہ بیان فرماتے ہیں جیسے محمد بن جہم، قاضی اسماعیل اور ابہری نے نقل کیا ہے۔ حضرت امام مالک سے بقول ابن ماجشون ایک وجہ یہ بھی نقل کی گئی ہے کہ یہ اس لئے تھا کہ آپ کی امت کو معلوم ہو جائے کہ حاکم صرف اپنے علم کی بناء پر فیصلہ نہیں کر سکتا۔ قرطبی فرماتے ہیں گو علماء کا تمام مسائل میں اختلاف ہو لیکن اس مسئلہ میں سب کا اتفاق ہے کہ قاضی صرف اپنی ذاتی معلومات کی بناء پر کسی کو قتل نہیں کر سکتا۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور وجہ بھی بیان کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا منافقین کو قتل کرنے سے رکنے کا سبب ان کا اپنی زبان سے اسلام کو ظاہر کرنا تھا گو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم تھا کہ ان کے دل اس کے الٹ ہے لیکن ظاہری کلمہ اس پہلی بات کی تردید کرتا تھا جس کی تائید میں بخاری مسلم وغیرہ کی یہ حدیث بھی پیش کی جا سکتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں جب وہ اسے کہہ دیں تو وہ مجھ سے اپنی جان اور مال کی امان پا لیں گے اور ان کا حساب اللہ عزوجل پر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس کلمہ شریف کے کہتے ہی ظاہری احکام اسلام ان پر جاری ہو جائیں گے۔ اب اگر ان کا عقیدہ بھی اس کے مطابق ہے تو آخرت والے دن نجات کا سبب ہو گا ورنہ وہاں کچھ بھی نفع نہ ہو گا لیکن دنیا میں تو مسلمانوں کے احرام ان پر جاری رہیں گے گو یہ لوگ یہاں مسلمانوں کی صفوں میں اور ان کی فہرست میں نظر آئیں گے لیکن آخرت میں عین پل صراط پر ان سے دور کر دئیے جائیں گے اور اندھیروں میں حیران و پریشان ہوتے ہوئے با آواز بلند مسلمانوں کو پکار کر کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ لیکن انہیں جواب ملے گا کہ تھے تو سہی مگر تم فتنوں میں پڑ گئے اور انتظار میں ہی رہ گئے اور اپنی من مانی خواہشوں کے چکر میں پڑ گئے یہاں تک کہ حکم الٰہی آ پہنچا۔ غرض دار آخرت میں بھی مسلمانوں کے پیچھے پڑے لپٹے رہیں گے لیکن بالآخر ان سے الگ کر دئیے جائیں گے اور ان کی امیدوں پر پانی پھر جائے گا وہ چاہیں گے کہ مسلمانوں کے ساتھ سجدے میں گر پڑیں لیکن سجدہ نہیں کر سکیں گے۔ جیسے کہ احادیث میں مفصل بیان آ چکا ہے۔ بعض محققین نے کہا ہے کہ ان کے قتل نہ کئے جانے کی یہ وجہ تھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ان کی شرارتیں چل نہیں سکتی تھیں۔ مسلمانوں کو باری تعالٰی اپنی وحی کے ذریعہ ان کی برائیوں سے محفوظ کر لیتا تھا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر اللہ نہ کرے ایسے لوگ ہوں گے ان کا نفاق کھل جائے اور مسلمان بخوبی معلوم کر لیں تو وہ قتل کر دئیے جائیں گے۔ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ ہے کہ نفاق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا لیکن آج کل وہ بےدینی اور زندیقیت ہے یہ بھی یاد رہے کہ زندیق جو لوگوں کو بھی اس کی تعلیم دیتا ہو اور وہ زندیق جو معلم نہ ہو ان دونوں میں فرق کیا جائے گا یا نہیں ؟ اور یہ ارتداد کئی کئی مرتبہ ہوا تب یہ حکم ہے یا صرف ایک مرتبہ ہونے پر ہی؟ پھر اس میں بھی اختلاف ہے کہ اسلام لانا اور رجوع کرنا خود اس کی اپنی طرف سے ہو یا اس پر غلبہ پا لینے کے بعد بھی یہی حکم ہے؟ غرض اس باتوں میں اختلاف ہے لیکن اس کے بیان کی جگہ احکام کی کتابیں ہیں نہ کہ تفسیریں۔ چودہ شخصوں کے نفاق کا تو آپ کو قطعی علم تھا، یہ وہ بدباطن لوگ تھے جنہوں نے غزوہ تبوک میں مشورہ کر کے یہ امر طے کر لیا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دغابازی کریں اور آپ کے قتل کی پوری سازش کر چکے تھے طے ہوا تھا کہ رات کے اندھیرے میں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم فلاں گھاٹی کے قریب پہنچیں تو آپ کی اونٹنی کو بدکا دیں اور بھڑک کر بھاگے گی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھاٹی میں گر پڑیں گے۔ اللہ تعالٰی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اسی وقت وحی بھیج کر ان کی اس ناپاک سازش کا علم عطا کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضور حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بلا کر اس واقعہ کی خبر دی اور ان غداروں کے نام بھی بتلا دئیے پھر بھی آپ نے ان کے قتل کے احکام صادر نہ فرمائے۔ ان کے سوا اور منافقوں کے ناموں کا آپ کو علم نہ تھا۔ چنانچہ قرآن کہتا ہے آیت (وممن حولکم من الاعراب منافقون ومن اھل المدینۃ مردواعلی النفاق لا تعلمھم نحن نعلمھم) الخ یعنی تمہارے آس پاس کے بعض اعرابی منافق ہیں اور بعض سرکش منافق مدینہ میں بھی ہیں تم انہیں نہیں جانتے لیکن ہم جانتے ہیں۔ اور دوسری جگہ فرمایا آیت (لئن لم ینتہ المنافقون) الخ اگرچہ منافق گندے دل والے اور فساد و تکبر والے اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو ہم بھی انہیں نہ چھوڑیں گے اور مدینہ میں بہت کم باقی رہ سکیں گے بلکہ ان پر لعنت کی جائے گی جہاں پائے جائیں گے، پکڑے جائیں گے اور ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جائیں گے۔ ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان منافقوں کا علم نہ تھا کہ کون کون ہے؟ ہاں ان کی مذموم خصلتیں جو بیان ہوئی تھیں یہ جس میں پائی جاتی تھیں اس پر نفاق صادق آتا تھا۔ جیسے اور جگہ ارشاد فرمایا آیت (ولو نشاء لا ریناکھم) یعنی اگر ہم چاہیں تو ہم تمہیں ان کو دکھا دیں لیکن تم ان کی نشانیوں اور ان کی دبی بچی زبان سے ہی انہیں پہچان لو گے ان منافقوں میں سب سے زیادہ مشہور عبداللہ بن ابی بن سلول تھا۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کی منافقانہ خصلتوں پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گواہی بھی دی تھی باوجود اس کے جب وہ مر گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جنازے کی نماز پڑھائی اور اس کے دفن میں شرکت کی۔ ٹھیک اسی طرح اور مسلمان صحابیوں کے ساتھ بلکہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ذرا زور سے یاد دلایا تو آپ نے فرمایا میں نہیں چاہتا کہ لوگ چہ میگوئیاں کریں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابیوں کو مار ڈالا کرتے ہیں اور ایک صحیح روایت میں ہے استغفار کرنے یا نہ کرنے کا مجھے اختیار دیا گیا۔ تو میں نے استغفار کو پسند کیا۔ ایک اور روایت میں ہے "اگر ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کرنے میں بھی اس کی بخشش جانتا تو یقینا اس سے زیادہ مرتبہ استغفار کرتا۔ "
          _____________
          وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّمَا نَحۡنُ مُصۡلِحُوۡنَ ﴿۱۱﴾﴿002:011﴾‏ [جالندھری]‏ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ ڈالو تو کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں
          تفسیر ابن كثیرسینہ زور چور
          حضرت عبداللہ بن عباس حضرت عبداللہ بن مسعود اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ یہ بیان بھی منافقوں سے ہی متعلق ہے ان کا فساد، کفر اور اللہ تعالٰی کی نافرمانی تھی مطلب یہ ہے کہ زمین میں اللہ کی نافرمانی کرنا یا نافرمانی کا حکم دینا زمین میں فساد کرنا ہے اور زمین و آسمان میں اصلاح سے مراد اللہ تعالٰی کی اطاعت ہے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ انہیں جب اللہ تعالٰی کی نافرمانی سے روکا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو ہدایت و اصلاح پر ہیں۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں اس خصلت کے لوگ اب تک نہیں آئے۔ مطلب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ بدخصلت لوگ تھے تو سہی لیکن اب جو آئیں گے وہ ان سے بھی بدتر ہوں گے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ اس وصف کا کوئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا ہی نہیں۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں ان منافقوں کا فساد برپا کرنا یہ تھا کہ اللہ تعالٰی کی نافرمانیاں کرتے تھے جس کام سے اللہ تعالٰی منع فرماتا تھا، اسے کرتے تھے۔ فرائض ربانی ضائع کرتے تھے۔ اللہ تعالٰی کے سچے دین میں شک و شبہ کرتے تھے۔ اس کی حقیقت اور صداقت پر یقین کامل نہیں رکھتے تھے۔ مومنوں کے پاس آ کر اپنی ایمانداری کی ڈینگیں مارتے تھے حالانکہ دل میں طرح طرح کے وسوسے ہوتے تھے موقع پا کر اللہ کے دشمنوں کی امداد و اعانت کرتے تھے اور اللہ کے نیک بندوں کے مقابلہ میں ان کی پاسداری کرتے تھے اور باوجود اس مکاری اور مفسدانہ چلن کے اپنے آپ کو مصلح اور صلح کل کے حامی جانتے تھے۔ قرن کریم نے کفار سے موالات اور دوستی رکھنے کو بھی زمین میں فساد ہونے سے تعبیر کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے آیت (والذین کفروا بعضھم اولیاء بعض الا تفعلوہ تکن فتنۃ فی الارض و فساد کبیر) یعنی کفار آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اگر تم ایسا نہ کرو گے یعنی آپس میں دوستی نہ کرو گے تو اس زمین میں بھاری فتنہ اور بڑا فساد پھیل جائے گا۔ اس آیت نے مسلمان اور کفار کے دوستانہ تعلقات منقطع کر دے اور جگہ فرمایا اے ایمان والو! مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بناؤ کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالٰی کی تم پر کھلی حجت ہو جائے یعنی تمہاری دلیل نجات کٹ جائے۔ پھر فرمایا منافق لوگ تو جہنم کے نچلے طبقے میں ہوں گے اور ہرگز تم ان کے لئے کوئی مددگار نہ پاؤ گے۔ چونکہ منافقوں کا ظاہر اچھا ہوتا ہے، اس لئے مسلمانوں سے حقیقت پوشیدہ رہ جاتی ہے وہ ایمانداروں کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے دھوکہ دے دیتے ہیں اور ان کے بےحقیقت کلمات اور کفار سے پوشیدہ دوستیوں سے مسلمانوں کو خطرناک مصائب جھیلنے پڑتے ہیں پس بانی فساد یہ منافقین ہوئے۔ اگر یہ اپنے کفر پر ہی رہتے تو ان کی خوفناک سازشوں اور گہری چالوں سے مسلمانوں کو اتنا نقصان ہرگز نہ پہنچتا اور اگر پورے مسلمان ہو جاتے اور ظاہر باطن یکساں کر لیتے تب تو دنیا کے امن و امان کے ساتھ آخرت کی نجات و فلاح بھی پا لیتے باوجود اس خطرناک پالیسی کے جب انہیں یکسوئی کی نصیحت کی جاتی تو جھٹ کہ اٹھتے کہ ہم تو صلح کل ہیں ہم کسی سے بگاڑنا نہیں چاہتے، ہم فریقین کے ساتھ اتفاق رکھتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ وہ کہتے تھے "ہم ان دونوں جماعتوں یعنی مومنوں اور اہل کتاب کے درمیان صلح کرانے والے ہیں۔ " لیکن اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ یہ ان کی نری جہالت ہے جسے یہ صلح سمجھتے ہیں وہ عین فساد ہے لیکن انہیں شعور ہی نہیں۔
          _____________

          اَلَاۤ اِنَّہُمۡ ہُمُ الۡمُفۡسِدُوۡنَ وَ لٰکِنۡ لَّا یَشۡعُرُوۡنَ ﴿۱۲﴾﴿002:012﴾‏ [جالندھری]‏ دیکھو! یہ بلاشبہ مفسد ہیں لیکن خبر نہیں رکھتے ‏
          تفسیر ابن كثیر
          _____________
          وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ اٰمِنُوۡا کَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوۡۤا اَنُؤۡمِنُ کَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَہَآءُ ؕ اَلَاۤ اِنَّہُمۡ ہُمُ السُّفَہَآءُ وَ لٰکِنۡ لَّا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۳﴾﴿002:013﴾‏ [جالندھری]‏ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جس طرح اور لوگ ایمان لے آئے تم بھی ایمان لے آؤ تو کہتے ہیں کہ بھلا جس طرح بےوقوف ایمان لے آئے ہیں اسی طرح ہم بھی ایمان لے آئیں؟ سن لو کہ یہی بیوقوف ہیں لیکن نہیں جانتے ‏
          :star1:

          Comment


          • #80
            Re: ملاحدہ دور حاضر



            خدا کا وجود فی نفسہ نہ خلاف عقل ہے نہ مضر رساں۔۔لیکن ہمارا نفح نقصان ان تصور کی نوعیت سے ضرور متعلق ہو جاتا ہے اگر خدا کو ہم ایک ایسی قوت مان لیں جو کائنات کے نظام تخلیق و ارتقا میں کار فرما ہے تو کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔۔۔لیکن اگر ہم اس کا تصور ایک دنیاوی بادشاہ کی طرح کریں کہ وہ کسی کو خوش ہو کر نہال کر دیتا ہے اور کسی پہ غضب ناک ہو کر تباہی لاتا ہے بے شک ایک مضر رساں اور مانع ترقی تصور ہوگا۔۔۔

            ہر چند خدا کے اس جدید تصور یعنی جو کائنات میں جاری و ساری ہے سے انبیا و رسل، صحف مقدسہ، حیات بعد الکموت۔ملائکہ و شیاطین حشر و نشر عذاب و ثواب ختم ہو جائے گے یا ان کی کوئی عقلی توجیح کرنا ہوگی۔۔۔لیکن اس کا کوئی علاج نہیں۔۔۔ہم کو ان مروجہ عقائد اور خدا میں سے کسی ایک کو لینا ہوگا اور یہ غالبا اسان ہوگا کہ خدا کے مقابلے میں ان معتقدات کو پس پشت ڈال دیا جائے اور بقائے مذہب کی ہلکی سے ہلکی جو صورت ہو سکتی ہے اس پہ قناعت کی جائے



            اور ہاں



            یاد رکھو دوستو جب تک دنیا میں مذہب کا وجود ہے اس سے امن و سکون خطرہ میں ہے یہ ہو نہیں سکتا کہ تمام کرہ ارض پر ایک ہی مذہب کے ماننے والے پائے جائیں اورمذہب کا اختلاف حقیقا دلوں کا اختلاف ہے جس سے جذبہ منافرت پیدا ہونا ضروری ہے





            تعلیم یافتہ ملکوں میں مذہب تقریبا ختم ہو چکا ہے البتہ جاہل ممالک میں اکثیریت اس کی پابند ہے اور وہ اس وقت ت اس کا مانتی رہے گی جب تک تعلیم عام نہ ہوجائے۔۔۔بہرحال کچھ دہائیوں تک اگر مذہب کہیں قائم رہا تو وہ انتہائی قابل نفرت چہز ہوگی

            مذہب کا خاتمہ ہی وہ مقدس گھڑی ہوگی جب ہم مردہ انسانوں سے مدد مانگنے کے بجائے اپنی عقل سے امداد کے طالب ہونگے اور ہم میں ایک ایسی زندگی پیدا ہو جائے گی جو تمام زندگیوں سے لطیف تر اور خوش گوار ہو گی

            وما علینا البلاغ

            تاثر الدیم النظیر و ناظم الفقید المثال جلا بخش اردو زباں شعلہ بیان نازک خیال جناب پروفیسر بےتاب تابانی مدظلہ علیہ سرور

            Last edited by Dr Fausts; 29 June 2014, 16:42.
            :(

            Comment


            • #81
              Re: ملاحدہ دور حاضر




              ،ایس اے زیڈ صاحب


              قلم کی راہ میں جو آئے دل کو مار کے آئے
              شب دراز غم بے کراں گزار کے آئے
              گلے سے طوق زمان ومکان اتار کے آئے
              بڑے بڑوں کو بیبانگ دہل پکار کے آئے

              بہت جہاد طلب ہے رہ وفا اس کی
              کہ انتہائے جنون سے ہے ابتدا اس کی



              ادھر بلائوں پہ جو مسکرا سکے وہ آئے
              جو تاج و تخت پہ ٹھوکر لگا سکے وہ آئے
              جو آسمان کو نیچا دکھا سکے وہ آئے
              جو اپنے اپ سے انکھیں لڑا سکے وہ آئے

              ردائے زر کا نہیں جو کفن کا شیدا ہو
              ادھر وہ آئے جو دار و رسن کا شیدا ہو



              جسے خبر ہو کہ کس نے نقاب اٹھائی ہے
              یہ عہد گرز ہے یا عصر مومیائی ہے
              یہ عادلی ہے کہ نمرود کی خدائی ہے
              یہ خون دل ہے قلم میں کہ روشنائی ہے

              جو نقش و نگار سے آداب سادگی پوچھے
              جو خسروی سے مزاج جفا کشی پوچھے



              جو خشت حرف سے دیوار و در بناتا ہو
              نفس کے لوچ سے تیغ و تبر بناتا ہو
              جو آندھیوں میں ستاروں کے گھر بناتا ہو
              جو خود طلسم قضا وقدر بناتا ہو


              جو ایک سانس میں طے راہ کائنات کرے
              خدا سے بھی نہ سر حشر دب کے بات کرے

              :(

              Comment


              • #82
                Re: ملاحدہ دور حاضر

                ڈاکٹر صاحب اپ اپنے معاون کے ساتھ ااپنے خیالات پر مبنی ایک کتاب لکھیں ۔۔۔
                قوی امکان ہے کہ ملعون سلمان رشدی اور ملعونہ تسلیمہ نسرین سے ذیادہ شہرت ملے گی۔۔۔
                کافی جدید اور سائنٹیفک خیالات ہیں محترم کے ۔۔۔
                خوش رہیں

                Comment


                • #83
                  Re: ملاحدہ دور حاضر

                  کوئی بتائے گا اگر شراب حرام ہے تو اس کا بنیادی جز الکوحل اس دنیا میں کیوں پایا جاتا ہے؟
                  بالفرض اگر یہ آزمائش کے لئے کے لئے اترا گیا جز ہے تو اس الکوحل کا بادل دس کروڑ نوری سال پر کیا کررہا ہے جس کا حجم ہماری پوری نظام شمسی سے بھی سو گنا زیادہ ہے
                  اور اس سے شراب اور بئیر کی کھروبوں سے بھی ہزار گنا زیادہ بوتلیں تیار کی جاسکتی ہیں جس سے دنیا جیسے ہزار سمندر بن جائیں
                  Attached Files
                  ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                  سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                  Comment


                  • #84
                    Re: ملاحدہ دور حاضر

                    Originally posted by -=The Driver=- View Post

                    انبیاء کے والدین کے بارے میں کیا فرماگیا ہے ؟
                    کیا انکے بارے میں تذکرے کرنا صحیح ہے ؟؟؟
                    جمیل بھائی اپکا اور خان صاحب کا مطلب ہے کہ نکاح صرف ایک اگریمنٹ ہے ۔۔۔ اور اسکی کوئی شرعی حیثیت نہیں ؟؟
                    میرا مقصد اور موقف یہ ہے کہ خود کے بارے میں سوچیں ۔۔۔
                    ہم کیا ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔۔۔ بس
                    mere bary mae jo ap ny kaha hai .. wo bilkul ghalat hai ....

                    aur aik bat aur bhi yad rakho...... shariyat islam ki choty sy choty agreement pr bhi pabandi ka takaza krti hai aur ap keh rahy ho k sirf aik agreement samjty hien

                    yani ap k liye agreement kuch nahi hai ..........

                    ap ka maqsad acha hi hoga no doubt pr ap apna nahi hamaray moqaf ko ghalt rang dy rahy ho ...

                    plz khud bhi soch lo .. ap kia kr rahy ho ........ (CAR)





                    Comment


                    • #85
                      Re: ملاحدہ دور حاضر

                      Originally posted by S.Athar View Post
                      کوئی مانے یا نہ مانے کوئی بات کو سمجھ کر نہ سمجھے لیکن حقیقت یہی ہے کہ

                      خدا پر سوال اُٹھانے والے دراصل اُس کی گواہی دینے والے پر اعتراض کر رہے ہوتے ہیں

                      براہ راست نہ سہی لیکن ان ڈائیریکٹلی وہ اُس خدا سے روشناس کروانے والے پر اُس کے وجود کی گواہی دینے والے پر ہی اعتراض کر رہے ہوتے ہیں

                      بات چونکہ بہت تلخ ہے اس لیئے جانتے بوجھتے کوئی نہیں مانے گا۔

                      والسلام۔
                      bhai btana psand kro gy kia swal uthaya hai Khuda pr ...





                      Comment


                      • #86
                        Re: ملاحدہ دور حاضر

                        Originally posted by -=The Driver=- View Post
                        ڈاکٹر صاحب اپ اپنے معاون کے ساتھ ااپنے خیالات پر مبنی ایک کتاب لکھیں ۔۔۔
                        قوی امکان ہے کہ ملعون سلمان رشدی اور ملعونہ تسلیمہ نسرین سے ذیادہ شہرت ملے گی۔۔۔
                        کافی جدید اور سائنٹیفک خیالات ہیں محترم کے ۔۔۔
                        خوش رہیں
                        ap ny dono ko parha hai kia ?:?:





                        Comment


                        • #87
                          Re: ملاحدہ دور حاضر

                          Originally posted by Dr Faustus View Post


                          خدا کا وجود فی نفسہ نہ خلاف عقل ہے نہ مضر رساں۔۔لیکن ہمارا نفح نقصان ان تصور کی نوعیت سے ضرور متعلق ہو جاتا ہے اگر خدا کو ہم ایک ایسی قوت مان لیں جو کائنات کے نظام تخلیق و ارتقا میں کار فرما ہے تو کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔۔۔لیکن اگر ہم اس کا تصور ایک دنیاوی بادشاہ کی طرح کریں کہ وہ کسی کو خوش ہو کر نہال کر دیتا ہے اور کسی پہ غضب ناک ہو کر تباہی لاتا ہے بے شک ایک مضر رساں اور مانع ترقی تصور ہوگا۔۔۔

                          ہر چند خدا کے اس جدید تصور یعنی جو کائنات میں جاری و ساری ہے سے انبیا و رسل، صحف مقدسہ، حیات بعد الکموت۔ملائکہ و شیاطین حشر و نشر عذاب و ثواب ختم ہو جائے گے یا ان کی کوئی عقلی توجیح کرنا ہوگی۔۔۔لیکن اس کا کوئی علاج نہیں۔۔۔ہم کو ان مروجہ عقائد اور خدا میں سے کسی ایک کو لینا ہوگا اور یہ غالبا اسان ہوگا کہ خدا کے مقابلے میں ان معتقدات کو پس پشت ڈال دیا جائے اور بقائے مذہب کی ہلکی سے ہلکی جو صورت ہو سکتی ہے اس پہ قناعت کی جائے



                          اور ہاں



                          یاد رکھو دوستو جب تک دنیا میں مذہب کا وجود ہے اس سے امن و سکون خطرہ میں ہے یہ ہو نہیں سکتا کہ تمام کرہ ارض پر ایک ہی مذہب کے ماننے والے پائے جائیں اورمذہب کا اختلاف حقیقا دلوں کا اختلاف ہے جس سے جذبہ منافرت پیدا ہونا ضروری ہے





                          تعلیم یافتہ ملکوں میں مذہب تقریبا ختم ہو چکا ہے البتہ جاہل ممالک میں اکثیریت اس کی پابند ہے اور وہ اس وقت ت اس کا مانتی رہے گی جب تک تعلیم عام نہ ہوجائے۔۔۔بہرحال کچھ دہائیوں تک اگر مذہب کہیں قائم رہا تو وہ انتہائی قابل نفرت چہز ہوگی

                          مذہب کا خاتمہ ہی وہ مقدس گھڑی ہوگی جب ہم مردہ انسانوں سے مدد مانگنے کے بجائے اپنی عقل سے امداد کے طالب ہونگے اور ہم میں ایک ایسی زندگی پیدا ہو جائے گی جو تمام زندگیوں سے لطیف تر اور خوش گوار ہو گی

                          وما علینا البلاغ

                          تاثر الدیم النظیر و ناظم الفقید المثال جلا بخش اردو زباں شعلہ بیان نازک خیال جناب پروفیسر بےتاب تابانی مدظلہ علیہ سرور

                          :fire::c1:



                          :fire::fire::fire:

                          :thanks:





                          Comment


                          • #88
                            Re: ملاحدہ دور حاضر

                            Originally posted by Crime Master GoGo View Post
                            کوئی بتائے گا اگر شراب حرام ہے تو اس کا بنیادی جز الکوحل اس دنیا میں کیوں پایا جاتا ہے؟
                            بالفرض اگر یہ آزمائش کے لئے کے لئے اترا گیا جز ہے تو اس الکوحل کا بادل دس کروڑ نوری سال پر کیا کررہا ہے جس کا حجم ہماری پوری نظام شمسی سے بھی سو گنا زیادہ ہے
                            اور اس سے شراب اور بئیر کی کھروبوں سے بھی ہزار گنا زیادہ بوتلیں تیار کی جاسکتی ہیں جس سے دنیا جیسے ہزار سمندر بن جائیں
                            kehan Hai Yeh Badal Jaldi Batao :P
                            :(

                            Comment


                            • #89
                              Re: ملاحدہ دور حاضر

                              Originally posted by Dr Faustus View Post
                              kehan Hai Yeh Badal Jaldi Batao :P
                              hahaha 4 crore light year kyon janab factory kholni a :)
                              ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                              سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                              Comment


                              • #90
                                Re: ملاحدہ دور حاضر

                                خدا کے ہونے کی وکالت کرنے والوں کے پاس چند بودی تاویلوں کے کچھ بھی نہیں جسے بھی وہ ثابت نہیں کرپاتے جیسے سورج دیکھو کون ہے جو ایسا سورج بنائے چاند دیکھو واہ کون ہے جو ایسا چاند بنائے واہ یہ پھول پودے دیکھو ہے کوئی جو انہیں بنائے
                                آپ ان سے پوچھ کر دیکھ لیجئے آپ کیسے کہ سکتے ہو یہ خدا نے ہی نے بنائے ہیں تو گھڑا ہوا سوال داغے گئے تو کون ہے جوبنائے یعنی انہیں خوب علم ہے کوئی چیز بغیر سبب وجود میں نہیں
                                آتی چونکہ یہ دنیاوی نظریہ سے خوب واقف ہوتے ہیں اس لئےیہ سوال کرکے سمجھتے ہیں اب یہ لاجواب ہوجائیں گئے مگر تشنگی کبھی ختم نہیں ہوتی جب تک وہ مطمن نہ ہوجائے
                                اب یہ اپنے جال میں خود پھنس جاتے ہیں ان سے سوال کیا جائے جب ہر چیز کا کوئی پیدا کرنے والا ہے تو خدا کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے
                                یقین کیجئے یہاں یہ دعویٰ شروع کردیں گئے نہیں وہ ازل سے ہے اس کا نہ کوئی بنانے والا ہے نہ پیدا کرنے والا
                                اب یہی بات سائنسدان کہیں یہ کائنات اتفاق سے وجود میں آئی اور اربوں سالوں کے چکر کے بعد یہاں تک پہنچی تو مجال ہے یہ مان جائیں ان دیکھا بنانے والا ہے مگر سامنے کی کائنات کچھ نہیں ہوگی
                                ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                                سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                                Comment

                                Working...
                                X