Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

کیا کلمہ طیبہ حدیث میں موجود ہے

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #31
    Re: کیا کلمہ طیبہ حدیث میں موجود ہے

    Originally posted by Baniaz Khan View Post


    ہاں ٹھیک ہے ابھی مجھے اسی سے بات کرنے دو

    آپ کا شکریہ

    آپ نے قرآن سے اپنی بات پیش کی ہے

    میری آپ سے صرف اتنی گذارش ہے کہ

    کچھ عرصے کےلیے اس بات کو بند کردیں

    مجھے منکر سمجھیں ، کافر سمجھیں

    یا جو بھی سمجھیں

    مجھے اس سے غرض نہیں

    آپ کچھ عرصہ بعد اس ٹاپک کو مجھ سے ڈسکس کرلیجیے گا

    اللہ کے قرآن سے نبی کے فرمان تک

    ایک ایک بات کو پیش بھی کرونگا اور

    قرآن سے اس کو ثابت بھی کرونگا

    اور ایک بات اور میں حدیث کا انکار نہیں کررہا

    بلکہ اس مضمون سے اختلاف کررہا ہوں

    جس کو نبی پاک کا ارشاد کہا جارہا ہے

    اگر آپ میری پوسٹ کو ذرا غور سے دیکھتے تو یہ بات آسانی سے سمجھ آجاتی

    امید ہے آپ میری گذارش کو خاطر میں لائیں گے


    با نیز صاحب

    ٹھیک ہے مجھ سے بات کریں - پہلے اس سوال کا جواب دیں

    پھر آگے بات ہوتی ہے



    میرے بھائی آپ اس حدیث سے کیا سمجھتے ہیں . رجم کی سزا قرآن میں نہیں ہے


    عمر رض فرماتے تھے


    میں ڈرتا ہوں کہیں بہت زمانہ گزر جائے اور لوگ یہ کہنے لگيں کہ ہم کو اللہ کی کتاب میں رجم کا حکم نہیں ملتا پھر اللہ نے جو حکم ٹھرایا ہے اس کو چھوڑ کر گمراہ ہوجائيں، دیکھو سن لو! جو محض مسلمان ہوکر زنا کرے اور زنا پر گواھ قائم ہوجائيں یا عورت کا حمل ظاہر ہو یا زنا کرنیوالا اقرار کرے تو اس کو رجم کریں گے- سفیان نے کہا مجھے تو یہ حدیث اسی طرح یاد ہے، سن لو رسول اللہ ۖ نے زانی کو رجم کیا اور ہم نے بھی آپ کے بعد رجم کیا-

    (بخاری جلد سوم- کتاب المحاربین، حدیث: 1733)


    رجم کی سزا قرآن میں نہیں ہے

    لکن

    حدیث میں ہے

    کیا یہ سزا دی جا سکتی ہے آج کل


    Comment


    • #32
      Re: کیا کلمہ طیبہ حدیث میں موجود ہے

      پہلے میری بات کا اتنا جواب دے دو کہ

      جو چیز قرآن میں نہ ہو وہ حدیث میں کیسے آگئ





      Comment


      • #33
        Re: کیا کلمہ طیبہ حدیث میں موجود ہے

        Originally posted by Baniaz Khan View Post
        پہلے میری بات کا اتنا جواب دے دو کہ

        جو چیز قرآن میں نہ ہو وہ حدیث میں کیسے آگئ




        عموماً کہا جاتا ہے کہ : اسلام اللہ کے وعدے کے مطابق ، قرآن حکیم میں موجود ہے۔

        جبکہ اصولی طور پر یہ بات غلط ہے۔

        اسلام ، صرف قرآن حکیم میں موجود نہیں ہے بلکہ اُس "شریعتِ اسلامی" میں موجود ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی تھی اور جس کا حوالہ بھی ابوداؤد کی "مثلہ معہ" والی حدیث سے دیا جا چکا ہے۔

        اقتباس

        رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہے

        أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ

        لوگو ، یاد رکھو !

        قرآن ہی کی طرح ایک اور چیز (حدیث) مجھے اللہ کی طرف سے دی گئی ہے ۔

        ابو داؤد ، كتاب السنة ، باب : في لزوم السنة

        اب اگر کسی کے حلق سے یہ بات نہیں اترتی تو نہ اس کا کوئی علاج ہے اور نہ ہی اس شرعی حکم کو بدلا جا سکتا ہے۔


        یہ بھی ایک نرالا ہی مذاق ہے کہ کتبِ حدیث کو قرآن کی کسوٹی پر پرکھنے کی ضرورت ہے۔

        ویسے یہ تو کوئی بھی نہیں کہتا کہ جس طرح قرآن پر ایمان لایا ہے اسی طرح بخاری یا مسلم پر ایمان لایا جائے۔

        عمومی طور پر جو بخاری و مسلم کی سو فیصد صداقت پر ایمان لانے کی بات کی جاتی ہے وہ محدثین کے اس اجماع کے تحت کہی جاتی ہے کہ ان دونوں کتب کی تمام احادیث صحیح ہیں۔ اور اُن فرامینِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان لانے کا تقاضا کیا جاتا ہے جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) سے صحیح طور ثابت ہیں ، کسی کتاب کے تمام مواد پر ایمان لانے کو نہیں کہا جاتا۔ ورنہ تو ان دونوں کتب کا ایک معتد بہ حصہ اسناد پر مشتمل ہے اور کسی ایک محدث نے بھی یہ نہیں کہا کہ اسناد پر بھی اسی طرح ایمان لانا ہوگا جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے قول ، فعل و تقریر پر ۔

        اب اگر آج کے کوئی شیخ الاسلام اٹھ کر ایسا دعویٰ کر دیتے ہیں کہ اسناد پر ایمان لانا بھی ضروری ہے تو یہ ایک علیحدہ بحث ہے۔

        تو درج بالا اقتباس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ قرآن کی طرح صحیح حدیث پر بھی ایمان لانا ضروری ہے کیونکہ حدیث بھی شریعت میں شامل ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر دو طرح کی وحی کا نزول ہوا تھا ، ایک وحی جلی (وحی متلو) ، جس کو آج ہم قرآن کا نام دیتے ہیں اور دوسرے وحی خفی (وحی غیر متلو ، کہ جس کی تلاوت قرآن کی طرح نہیں کی جاتی)۔ ویسے وحی جلی و خفی کی بحث ، ایک علیحدہ بحث ہے ۔

        چونکہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہر حدیث کو قرآن سے پرکھا جائے گا۔

        مگر جب قرآن ہی میں کوئی ذکر نہ ہو تب ؟؟ تب کون سی کسوٹی استعمال میں لائی جائے گی ؟

        1

        ۔ قرآن میں حلال جانور کے طور پر ، ’
        بھیمۃ الانعام‘ کی تفسیر میں چند جانوروں کے نام گنائے گئے ہیں مثلاً اونٹ ، گائے ، بکری ، بھیڑ ، مینڈھا وغیرہ۔
        اب سوال یہ ہے کہ دنیا کے دیگر جانور مثلاً : کتا ، بلی ، چیتا ، شیر ، بندر ، ہرن ، ریچھ ، کوا ، کبوتر ، مینا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ یہ سب کیا ہیں ؟ حلال یا حرام؟ ان کی حرمت یا حلت کو قرآن سے کیسے پرکھا جائے گا؟

        براہ مہربانی ثبوت صرف اور صرف قرآن سے دیا جائے۔ آپ کی عقلی تُک بندیاں نہیں مانی جائیں گی۔ کیونکہ یہ دعویٰ تو آپ ہی کا ہے کہ ہر چیز کو قرآن سے پرکھا جائے گا۔ اگر آپ ثبوت نہ دے سکیں (اور یقیناً نہیں دے سکیں گے) تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہر حدیث کو قرآن سے پرکھا نہیں جا سکتا۔

        اور آپ کو ماننا ہوگا کہ ان احادیث کی بھی ضرورت ہے جن کی صحت و صداقت کو قرآن سے پرکھا نہیں جا سکتا۔ کیونکہ حدیث ہی میں ان جانوروں کے حلال و حرام ہونے کا وہ قاعدہ بیان کیا گیا ہے جس سے فوراً معلوم ہو جاتا ہے کہ کون سا جانور حلال ہے اور کون سا حرام ؟

        2

        ۔ بےشک قرآن میں نماز کی حالت کا ذکر ہے ، یعنی : کھڑے ہونے ، رکوع کرنے اور سجدہ کرنے کا ذکر۔

        اب سوال یہ ہے کہ نماز میں کیسے کھڑا ہوا جائے ؟ ہاتھ لٹکا کر یا ہاتھ باندھ کر؟ ایک پاؤں پر کھڑے ہوں یا دونوں پر؟ لغت میں رکوع کے معنی ہیں جھکنا۔ کیسے جھکا جائے ؟ آگے یا دائیں بائیں؟ اور جھک کر ہاتھ ڈنڈے کی طرح لٹکنے دیں یا رانوں پر رکھیں یا رانوں میں گھسا لیں ؟ سجدہ کی حالت میں ہاتھ کہاں رکھیں، کیسے رکھیں ، صرف ہتھیلی زمین پر رکھیں یا پوری کہنی؟ سجدہ ایک کریں یا دو ؟

        ذرا بتائیے کی ان تمام چیزوں کو قرآن کی کس آیت یا آیات سے پرکھا جا سکے گا؟؟

        چونکہ آپ تشفی بخش جواب دے نہیں سکتے لہذا مان لیجئے کہ : ان احادیث کی بھی ضرورت ہے جن کی صحت و صداقت کو قرآن سے پرکھا نہیں جا سکتا۔

        3

        ۔ قرآن میں حکم ہے کہ
        چوری کرنے والے مرد و عورت کے ہاتھ کو کاٹ دو۔

        ہمیں بتایا جائے کہ آپ قرآن کی کس آیت سے ثابت کریں گے کہ ۔۔۔۔۔۔
        دونوں ہاتھ کاٹے جائیں یا ایک ہاتھ ؟ کہاں سے کاٹیں ؟ بغل سے یا کہنی سے یا کلائی سے یا ان کے بیچ سے ؟
        قرآن سے کیسے پرکھا جائے گا؟

        4

        قرآن کہتا ہے

        جب تم سفر پر جاؤ تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کچھ کم کر کے پڑھو بشرطیکہ تم کو خوف ہو کہ کافر تم کو ایذا دیں گے۔

        (النساء : 101)

        یعنی قرآن میں "نمازِ قصر" ایسے سفر کے ساتھ مشروط ہے جس میں کافروں کی ایذا کا خوف بھی ہو۔

        اب صرف ایک مثال سعودی عرب سے۔ یہ تو ساری دنیا مانتی ہے کہ یہاں ملک کے مختلف علاقوں سے عمرہ یا حج کی غرض سے مکہ کی طرف سفر کرنے والوں کو "کافروں کی ایذا" کا کوئی خوف نہیں۔ پھر بھی ہر کوئی اس سفر کے دوران "نمازِ قصر" اس لیے ادا کرتا ہے کہ حالتِ امن میں بھی "نمازِ قصر" کی چھوٹ صحیح مسلم کی حدیث سے ثابت ہے۔

        ملاحظہ فرمائیں


        یعلی بن امیہ نے کہا کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا : اللہ تو فرماتا ہے کہ کچھ مضائقہ نہیں اگر قصر کرو تم نماز میں اگر تم کو خوف ہو کہ کافر لوگ ستائیں گے۔ اور اب تو لوگ امن میں ہو گئے

        ( یعنی اب قصر کیا ضروری ہے ؟ )

        تو حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ مجھے بھی یہی تعجب ہوا تھا جیسے تم کو تعجب ہوا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کو پوچھا۔

        آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

        صَدَقَةٌ ، تَصَدَّقَ اللَّهُ بِهَا عَلَيْكُمْ ، فَاقْبَلُوا صَدَقَتَهُ

        یہ اللہ نے تم کو صدقہ دیا تو اس کا صدقہ قبول کرو (یعنی بغیر خوف کے بھی ، سفر میں قصر کرو)۔

        صحیح مسلم ، كتاب صلاة المسافرين وقصرها ، باب : صلاة المسافرين وقصرها

        ذرا بتائیے کہ اس صحیح حدیث کو قرآن سے کیسا پرکھا جائے گا؟

        5

        ۔ قرآن صاف کہتا ہے کہ :
        زینت ( و آرائش) کی پاکیزہ چیزیں اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی ہیں ۔۔۔

        (الاعراف : 32)

        پھر تو سونا (gold) مردوں کے لیے حلال ہوا۔

        لیکن جامع ترمذی کی ایک مشہور صحیح حدیث بتاتی ہے کہ ۔۔۔

        حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

        حُرِّمَ لِبَاسُ الْحَرِيرِ وَالذَّهَبِ عَلَى ذُكُورِ أُمَّتِي ، وَأُحِلَّ لِإِنَاثِهِمْ

        ریشم کا لباس اور سونا ، میری امت کے مَردوں پر حرام اور ان کی عورتوں کے لیے حلال کیا گیا ہے۔

        ترمذی ، كتاب اللباس ، باب : ما جاء في الحرير والذهب‏

        ترمذی کی اس حدیث کو آپ قرآن سے پرکھیں گے تو اسے جھوٹ کہنا ہوگا اور غالباً منکرینِ حدیث ساری شریعتِ اسلامیہ کے خلاف ہو کر ہاتھوں میں سونے کی چوڑیاں یا گلے میں سونے کی چین پہنیں گے کہ اس کی اجازت انہیں قرآن سے ملتی ہے

        الحمدللہ ، درج بالا دلائل سے ثابت ہوا کہ ۔۔۔۔

        قرآن کی عظمت و جلالت ، بےشک اپنی جگہ ۔۔۔ لیکن ہر حدیث کو بہرحال قرآن سے پرکھا نہیں جا سکتا اور نہ ہی آج تک کسی نامور مفسر یا محدث نے ایسا بےتکا کلیہ پیش فرمایا ہے۔

        Comment


        • #34
          Re: کیا کلمہ طیبہ حدیث میں موجود ہے

          کوئی نہیں جی

          مندرجہ بالا پوسٹ سے آپ کےلیے ہی کچھ ثابہت ہوسکتا ہے


          آپ قرآن سے یہ بات ثابت کرو کے رسول ص کو قرآن کے علاوہ بھی کوئی چیز دی گئی ہے
          یعنی کہ کتاب وغیرہ


          خدا تو قرآن میں یہی کہتا ہے کہ تم پر یہ قرآن نازل ہوا

          اور صرف ایک کتاب کا ذکر ہے


          آپ کہ پہلی ہی بات سے ساری پوسٹ غلط ثابت ہوتی ہے


          اس لیے مزید بات کی گنجائش نہیں





          Comment


          • #35
            Re: کیا کلمہ طیبہ حدیث میں موجود ہے

            Originally posted by Baniaz Khan View Post


            آپ قرآن سے یہ بات ثابت کرو کے رسول ص کو قرآن کے علاوہ بھی کوئی چیز دی گئی ہے





            وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ



            اور (نبی) انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے




            ( سورة آل عمران : 3 ، آیت : 164 )

            اس آیت میں کتاب کا لفظ تو "قرآن" کے لیے استعمال ہوا ہے بےشک۔ لیکن یہ "حکمت" کیا چیز ہے؟ یہ کہاں ملے گی؟ کس کتاب میں ملے گی؟ کیا کسی لغت میں ؟ یا ہر انسان اپنی اپنی عقل یا کسی لغت کے سہارے اپنی

            اپنی ذاتی حکمت پر مبنی زندگی گزار سکتا ہے؟؟





            بھاگ با نیز بھاگ

            سیدھی طرح کہہ دے کہ احادیث کی کوئی اہمیت نہیں







            Comment


            • #36
              Re: کیا کلمہ طیبہ حدیث میں موجود ہے

              Originally posted by lovelyalltime View Post





              وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ



              اور (نبی) انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے




              ( سورة آل عمران : 3 ، آیت : 164 )

              اس آیت میں کتاب کا لفظ تو "قرآن" کے لیے استعمال ہوا ہے بےشک۔ لیکن یہ "حکمت" کیا چیز ہے؟ یہ کہاں ملے گی؟ کس کتاب میں ملے گی؟ کیا کسی لغت میں ؟ یا ہر انسان اپنی اپنی عقل یا کسی لغت کے سہارے اپنی

              اپنی ذاتی حکمت پر مبنی زندگی گزار سکتا ہے؟؟





              بھاگ با نیز بھاگ

              سیدھی طرح کہہ دے کہ احادیث کی کوئی اہمیت نہیں








              Hikamat yani k wisdom

              ye bhot asan c bat hai samj mae any wali ...



              ---------------------

              aap hikmat kisy kehty ho ... Quran k elawa doosri kitabo ko ..


              matam hi kia ja sakta hai phir aap ki Aqal ka ..


              bhai mere Hikmat yani Danai ki batein ,,,,, Sahoor ki batien





              Comment


              • #37
                Re: کیا کلمہ طیبہ حدیث میں موجود ہے

                Originally posted by Baniaz Khan View Post



                Hikamat yani k wisdom

                ye bhot asan c bat hai samj mae any wali ...



                ---------------------

                aap hikmat kisy kehty ho ... Quran k elawa doosri kitabo ko ..


                matam hi kia ja sakta hai phir aap ki Aqal ka ..


                bhai mere Hikmat yani Danai ki batein ,,,,, Sahoor ki batien


                Comment


                • #38
                  Re: کیا کلمہ طیبہ حدیث میں موجود ہے

                  Originally posted by lovelyalltime View Post

                  agr mere kehny k bawjood bhi aap muje yahi samjty ho tou bhai

                  jo tumhara dil kry tum samjo ..

                  tumhara mazhab tum ko sikhata hi yahi hai ...


                  bye bye





                  Comment

                  Working...
                  X