Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المؤمنین عایشہؓ کے غسل پر اعتراض اور اس کا ازالہ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المؤمنین عایشہؓ کے غسل پر اعتراض اور اس کا ازالہ


    "نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المؤمنین عایشہؓ کے غسل پر اعتراض اور اس کا ازالہ"


    منکر حدیث قسم کے لوگ ایک حدیث مبارکہ پر اس طرح کے الفاظ میں اعتراض کرتے ہے۔

    عائشہؓ فرماتی ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور میں ایک ہی برتن میں نہاتے تھے

    صحیح بخاری۔

    ازالہ:۔

    یہ روایت صحیح بخاری میں ان الفاظ سے منقول ہے۔

    عن عائشہ قالت کنت اغتسل أنا والنبیۖ من اناء واحد کلانا جنب

    (صحیح بخاری کتاب الحیض،رقم الحدیث 299)

    وکان یأمرنی فاتزرفیبا شرنی وأنا حائض

    (صحیح بخاری کتاب الحیض،رقم الحدیث 300)

    عائشہ فرماتی ہیں کہ میں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل فرماتے تھے اور ہم حالت جنابت میں ہوتے ۔اور آپ مجھے ازار باندھنے کا حکم دیتے اور مجھ سے حالت حیض میں اختلاط فرماتے

    اعتراض کرنے والے یہاں حدیث کا ترجمہ کرتے ہوئے تلبیس سے کام لیتے ہے اور ترجمہ کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور میں ایک برتن میں نہاتے تھے حالانکہ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ ایک برتن "سے" نہاتے تھے۔

    قارئین کرام !اس حدیث سے جس مسئلہ کی وضاحت ہوتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کے ساتھ غسل کرسکتا ہے آخر اس میں اعتراض کی کیا بات ہے ؟اگر ہم اس

    حدیث کا پس منظر دیکھیں تو اعتراض کی کوئی حقیقت باقی نہیں رہتی۔

    عن عائشہ زوج النبی ۖانھا اخبرتہ قالت کنت انام بین یدی رسول اللہ ۖورجلائی فی القبلة فاذا سجد غمزنی فقبضت رجلیَّ واذا قام بسطتھا۔۔۔۔والبیوت یومیئذلیس فیھا مصابیح

    (مؤطا امام مالک باب المرأةتکون بین الرجل یصلی۔۔۔۔رقم الحدیث288)

    ّام المؤمنین عائشہ فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لیٹی ہوتی تھی

    اور میرے پیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلے کی جانب ہوتے تھے پس جب آپ سجدہ کرتے تو میرے پیر کو دباتے میں اپنے پیر سمیٹ لیتی پھر جب آپ کھڑے ہوجاتے تو میں پیر پھیلالیتی، "
    والبیو ت یومئذ لیس فیھامصابیح" اور ان دنوں گھر میں چراغ نہیں ہوا کرتے تھے۔

    ایک اور روایت میں مزید وضاحت ملاحظہ فرمائیں۔

    عن عائشہ قالت:۔فقدت رسول اللہ ۖلیلة من الفراش فالتمستہ۔فوقعت یدی علی بطن قدمیہ وھو فی المسجدوھما منصوبتان

    (صحیح مسلم کتاب الصلوة باب مایقال فی الرکوع والسجود رقم الحدیث۔1090)

    عائشہ فرماتی ہیں:میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر پر نہیں پایا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ٹٹولنا شروع کیا تو میرے ہاتھ آپ ۖکے تلوؤں پر لگے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں تھے۔

    مندرجہ بالااحادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں عموماً اندھیرا رہا کرتا تھا ہفتوں چراغ نہیں جلتا تھا تو اس قدر اندھیرے میں ایک دوسرے کو دیکھنا محال تھا اور رہی بات پردہ پوش کی تو حدیث میں صراحت موجود ہے کہ

    ''
    من اناء بینی وبینہ واحد ''

    (صحیح مسلم کتاب الحیض باب قدر المستحب من الماء رقم الحدیث 732)

    کہ "
    ہم ایک برتن سے نہاتے تھے جو ہمارے درمیان رکھا ہوتا تھا" لہٰذا یہ برتن(ٹب) دونوں کے درمیان پردہ کا کام بھی کرتا تھا ۔

    اگر اعتراض اس بات پر ہے کہ یہ فحش الفاظ۔ احادیث رسول اللہ ۖکس طرح ہوسکتے ہیں یا اس طرح کی حدیث کو بنیاد بناکر غیر مسلم اسلام پر بے ہودہ اعتراض کرتے ہیں وغیرہ۔ تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے مشرکین شروع دن ہی سے اسی طرح اسلام و مسلمان کو طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے رہے ہیں

    جیساکہ حدیث میں ہے۔

    عن سلمان قال:قال بعض المشرکین وھم یستھزئ ون بہ لاری صاحبکم یعلمکم حتی الخرا ة قال سلمان اجل
    أمرناأن لانستقبل القبلة ولا نستنجی بأیماننا ولا نکتفی بدون ثلاثة أحجارلیس فیھا رجیع ولا عظم

    (مسند احمد 5/437رقم الحدیث 23593قال احمد شاکر اسنادہ صحیح۔)

    سلمان فارسی سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ بعض مشرکوں نے بطور استہزاء کے کہا کہ میں تمہارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جانتا ہوں کہ وہ تمہیں ہر چیز کی تعلیم دیتے ہے یہاں تک کہ قضائے حاجت کے طریقے بھی بتاتے ہے ۔تو سلمان فارسی نے جواب دیا ۔بالکل درست بات ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم قبلہ کی جانب منہ نہ کریں اور نہ ہی دائیں ہاتھ سے استنجا کریں اور تین ڈھیلوں سے کم پر اکتفاء نہ کریں نیز ڈھیلوں میں گوبر اور ہڈی نہ ہو ۔

    مذکورہ روایت میں صحابی رسول نے کس قدر فخر کے ساتھ طہارت پر مبنی مسائل کو بیان فرمایا اور ذرہ برابر بھی احساس کمتری کا شکار نہیں ہوئے. اعتراض کرنے والوں سے عرض یہ ہے کہ جس چیز کو آپ اسلام کا جرم سمجھ رہے ہیں ۔صحیح احادیث پر مبنی اس سرمائے پر ہم فخر کرتے ہیں اور'' ڈنکے کی چوٹ'' پر کہتے ہیں کہ دین اسلام ایک ایسا مکمل ضابطہ حیات ہے کہ ہمیں اپنی رہنمائی کے لئے باہر جانے کا تکلف نہیں کرنا پڑتا۔

    لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة

    (سورہ الاحزاب ۔آیت 21)

    یقینا تمہارے لئے اللہ کے رسول ۖمیں بہترین نمونہ ہے- ہی کا تقاضہ تھا کہ احادیث کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزو شب اعمال و اقوال خلوت وجلوت سے ضابطہ حیات تیار کروایا جارہا ہے ۔مسائل ڈھل رہے ہیں حرام وحلال جائز وناجائز میں احادیث وسنن کے ذریعے امتیاز کیا جارہا ہے آپ کو یہاں ہر وہ چیز دستیاب ہوگی جس سے تہذیب وتمدن اور انسانی ضابطہ حیات پر روشنی پڑتی ہو ۔ایسے بیش بہا سرمائے پر فخر کرنا چاہئے نہ کہ احساس کمتری کا شکار ہوکر ان پر اعتراضات شروع کردئیے جائیں ۔
    ان سب گزارشات سے بات واضح ہوئی

    اب ھم مولانہ مودودی رحمہ اللہ کا ایک تاریخی جواب اپنے جواب میں شامل کر دیتے ہے جو کہ حدیث مبارکہ ہر ہر ایک اعتراض کے جواب کے لئے کافی ہوگا۔

    مولانہ مودودی رحمہ اللہ رقم طراز ہے۔

    ایک حدیث میں حضرت عائشہ نے یہ بتایا ہے کہ زوجین ایک ساتھ غسل کر سکتے ہیں اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے خود ایسا کیا ہے۔ اس مسئلے کے معلوم کرنے کی ضرورت دراصل ان لوگوں کو پیش آئی تھی جن کے ہاں بیویاں اور شوہر سب نماز کے پابند تھے۔ فجر کے وقت ان کو بارہا اس صورت حال سے سابقہ پیش آتا تھا کہ وقت کی تنگی کے باعث یکے بعد دیگرے غسل کرنے سے ایک کی جماعت چھوٹ جاتی تھی۔ ایسی حالت میں ان کو یہ بتانا ضروری تھا تاکہ دونوں کا ایک ساتھ غسل کر لینا نہ صرف جائز ہے بلکہ اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ مدینے میں اس وقت بجلی کی روشنی والے غسل خانے نہیں تھے اور فجر کی نماز اس زمانے میں اول وقت ہوا کرتی تھی اور عورتیں بھی صبح اور عشا کی نمازوں میں مسجد جایا کرتی تھیں۔ ان باتوں کو نگاہ میں رکھ کر ہمیں بتایا جائے کہ اس حدیث میں کیا چیز ماننے کے لائق نہیں ہے۔


  • #2
    Re: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المؤمنین عایشہؓ کے غسل پر اعتراض اور اس کا ازا

    بس کردے یار

    تجھے تیرے خدا کاواسطہ ۔۔۔

    بس کردے





    Comment


    • #3
      Re: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المؤمنین عایشہؓ کے غسل پر اعتراض اور اس کا ازا

      (صحیح بخاری کتاب الحیض،رقم الحدیث 300)

      عائشہ فرماتی ہیں کہ میں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل فرماتے تھے اور ہم حالت جنابت میں ہوتے ۔اور آپ مجھے ازار باندھنے کا حکم دیتے اور مجھ سے حالت حیض میں اختلاط فرماتے

      آپ شادی شدہ ہیں یا سائنس کے اسٹوڈنٹ آپ اس حدیث کی صداقت پہ کتنا یقین کرسکتے ہیں
      سمجھ سے باہر ہے بھائی میری تو
      ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
      سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

      Comment


      • #4
        Re: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المؤمنین عایشہؓ کے غسل پر اعتراض اور اس کا ازا

        Originally posted by Baniaz Khan View Post
        بس کردے یار

        تجھے تیرے خدا کاواسطہ ۔۔۔

        بس کردے


        salam. kia ghalt bat ki hai maian nay . kia bas ker doon.

        please detail to bataian merya bhai.

        Comment


        • #5
          Re: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المؤمنین عایشہؓ کے غسل پر اعتراض اور اس کا ازا

          لولی بھائی
          اب اس کی کسررہ گئی تھی۔۔گزشتہ ماہ کسی اور فورم پہ میں نے اسی قسم ک پوسٹ پڑھی تھی جو اتنی ہی واہیات تھی جس میں پیشاب وغیرہ سے متعلق حدیث وضاعت سے بیان کی گئی تھی
          جس کسی فرقے نے یہ مسئلہ اٹھایا۔۔اور جس کسی فرقے نے اس کی مزید وضاعت کی۔۔جس نے لکھا جس نے پوسٹ کیا



          سب کی سوچ کو اکیس توپوں کی سلامی


          قبول کریں جناب

          :(

          Comment


          • #6
            Re: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المؤمنین عایشہؓ کے غسل پر اعتراض اور اس کا ازا

            Originally posted by lovelyalltime View Post
            salam. kia ghalt bat ki hai maian nay . kia bas ker doon.

            please detail to bataian merya bhai.
            جس ہستی کے نام لیوا ہو۔۔۔

            جو پوری امت کی ماں ہے

            دونوں کی ہی توہین کر رہے ہو

            پر

            مانو گے نہیں

            میں نے ہی بکواس کی ہے تم تو دین کا کام کر رہے ہو





            Comment


            • #7
              Re: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المؤمنین عایشہؓ کے غسل پر اعتراض اور اس کا ازا

              Originally posted by Dr Faustus View Post
              لولی بھائی
              اب اس کی کسررہ گئی تھی۔۔گزشتہ ماہ کسی اور فورم پہ میں نے اسی قسم ک پوسٹ پڑھی تھی جو اتنی ہی واہیات تھی جس میں پیشاب وغیرہ سے متعلق حدیث وضاعت سے بیان کی گئی تھی
              جس کسی فرقے نے یہ مسئلہ اٹھایا۔۔اور جس کسی فرقے نے اس کی مزید وضاعت کی۔۔جس نے لکھا جس نے پوسٹ کیا



              سب کی سوچ کو اکیس توپوں کی سلامی


              قبول کریں جناب


              salam. aap ko kia itraz hai ais hadees per.

              Comment


              • #8
                Re: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المؤمنین عایشہؓ کے غسل پر اعتراض اور اس کا ازا

                Originally posted by Baniaz Khan View Post


                جس ہستی کے نام لیوا ہو۔۔۔

                جو پوری امت کی ماں ہے

                دونوں کی ہی توہین کر رہے ہو

                پر

                مانو گے نہیں

                میں نے ہی بکواس کی ہے تم تو دین کا کام کر رہے ہو

                sahih hadees pesh ki hai meray bhai.

                kon see toheen ki hai.

                Comment


                • #9
                  Re: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المؤمنین عایشہؓ کے غسل پر اعتراض اور اس کا ازا

                  Originally posted by Sub-Zero View Post
                  (صحیح بخاری کتاب الحیض،رقم الحدیث 300)

                  عائشہ فرماتی ہیں کہ میں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل فرماتے تھے اور ہم حالت جنابت میں ہوتے ۔اور آپ مجھے ازار باندھنے کا حکم دیتے اور مجھ سے حالت حیض میں اختلاط فرماتے

                  آپ شادی شدہ ہیں یا سائنس کے اسٹوڈنٹ آپ اس حدیث کی صداقت پہ کتنا یقین کرسکتے ہیں
                  سمجھ سے باہر ہے بھائی میری تو




                  عقل وحی کے تابع یا وحی عقل کے ؟

                  انکار معجزہ، انکار حدیث ان باطل عقائد کےپیچھے جو اہم وجہ چھپی ہے وہ ہے ہی یہی کہ اپنی عقل کو اس قدر مقام دے دیا گیا کہ اسے وحی الہٰی کے جانچنے کا اصل معیار قرار دے دیا گیا۔ ایمان کی برتری کا سب بڑا دشمن ہی یہی غلط عقیدے کا جال ہے کہ وحی الہٰی عقل کے تابع ہے اور تمام وحی کا انحصار عقل کی سمجھ بوجھ پر ہے۔ انکار حدیث کے فتنے میں عقل پرستی کا جو بھوت سوار ہے دراصل یہ بھی مغرب کی علمی مرعوبیت ہی کا شاخسانہ ہے۔ اسی لیے یہاں بھی عقل ہی کو کل سمجھ لیا گیا ہے، اور جب عقل کو کل سمجھ لیا جائے گا تو نظریات کا وہی جال ہوگا جوجال عقل پرستوں کا یعنی ڈارون کا ہوا ان کی (Theory) اس قدر تار عنکبوت سے بھی ابتر تھی کہ چند سالوں بعد ہی ان کی عقل کے نتائج کو زمین بوس کر دیا گیا اور آج اسی سائینس کو ماننے والے اس نظریے کو غلط بھی سمجھ رہے ہیں اور لوگوں کو اس غلط نظریہ کا رد کرنے پر بھی اپیل کر رہے ہیں۔

                  مگر ایک مسلمان اور غیر مسلم کے زاویہ فکر اور تفکر خوض و فکر میں ایک نمایاں فرق موجود ہے وہ یہ ہے کہ اسلام عقل کے استعمال کو بڑھاوا دیتا ہے مگر عقل کی کمزوریاں اور اس کی بعض کوتاہ حدود کا معترف بھی ہے۔ اسی لیے ایک مسلمان وحی کے مقابلے میں ہر گز عقل کو بروئے کار نہیں لاتا۔ جیسے ہی اسے قرآن و صحیح حدیث سے کوئی حکم ملتا ہے وہ سر تسلیم اپنے سر کو خم کر دیتا ہے اور اپنی ناقص عقل کو خالق کائنات کے تابع کر دیتا ہے مگر ایک غیر مسلم وحی کے ہوتے ہوئے بھی وہ اسی بات پر اڑا رہتا ہے کہ جدید تحقیق کے تناظر میں جوبات ثابت ہوگی وہی قابل قبول ہوگی۔ تھوڑی دیر کے لیے اگر ہم مغربی محققین کی یہ روش پر غور کرتے ہیں تو یہ بات کھل کر عیاں ہوتی ہے کہ ان کی کتب میں عقل پرستی کو وحی پر غالب رکھا ہے اور ایمانی طور پر ان کی مذہبی کتابوں نے انہیں اس قدر محدودیت اور احساس کمتری کا نشانہ بنایا کہ آج وہ خود اسی ششو پنج میں مبتلا ہیں کہ آیا حق کیا ہے۔۔۔

                  مگر اسلام نے اپنے ماننے والوں کو جو ضابطہ حیات بخشا ہے اسی تعلیم کی پاداش میں ایک مسلم اپنی سمجھ اور عقل پر وحی کو فوقیت دیتا ہے اور وہ اس فعل پر اطمینان ، یقین اور قلب سلیم جیسی نعمت سے مالا مال ہو جاتا ہے۔ عقلی تشریحات و توجیہات ، معروضی حد بندیاں اور منطقی صغرے اور کبرے مزید فائدے کے لیے تو ہو سکتے ہیں اور اسلام میں ان کی ایک حد تک اجازت بی ہے مگر اسلام میں جو اصل کسوٹی قرار پائی ہے وہ بنیادی طور پر وحی الہٰی قرآن و صحیح حدیث ہی ہے۔

                  انکار حدیث کے فتنے نے سب سے بڑا گل ہی یہی کھلایا کہ اس نے ہر فرد کو اتنا تعقل پسند بنا دیا کہ ہر شخص جس آیت کو چاہتا ہے اس کی من مانی تشریح کرتا ہے اور جس حدیث کی چاہتا ہے بناوٹی تاویل دے کر اس کا رد کر دیتا ہے، اور دراصل یہی تعقل پسندی کا دوسرا نام انکار حدیث ہے۔ لہٰذا دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس کی زیر نگرانی میں انسان تدبر اور تفکر کے سمندر میں غوطے لگائے اگر اس سے باہر نکلنے کی کوشش کرے گا تو اسی سمندر میں وہ اپنی جان کھو بیٹھے گا۔

                  عقل کی وجہ سے بے عقلی کا ثبوت

                  جو عقل کا استعمال اس حد تک اپنے اوپر لاگو کر دے کہ عقل کو وحی کے مقابل کھڑا دے تو یقیناً ایسی عقل ہی بے عقلی کا ثبوت مہیّا کرتی ہے، کیونکہ محدود لا محدود میں سما سکتا ہے، لیکن لا محدود ، محدود میں کبھی بھی سما نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر عقل انسانی پر اتنا اندھا اعتماد قائم ہو جائے تو یہ عقل حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چیلنج کرتی ہے اور پھر اسی عقل کی اندھی تقلید بندے کو عقل کا اندھا بنا دیتی ہے۔ موجودہ منکرین حدیث یہ بیان تراشتے ہیں کہ متعدد احادیث صحیحہ ہماری عقل سے بالاتر ہیں جس کی وجہ سے ہم ان احادیث کا انکار کر تے ہیں جو جدید تحقیقات یا عقل عام (Common Sense) سے متصادم ہوتی ہیں۔ اسلام کو چھوڑ کر باقی ادیان کے ماننے والوں کو یہ عقل پسندی کا نعرہ گوارہ ہو سکتی ہے کیونکہ ان کے ہاں الہامی ہدایات نہ صرف تحریف شدہ ہیں بلکہ ان پر عمل کرنا ہر دور میں خصوصاً آج کے دور میں محال ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ محرف الہامی تعلیمات پر ایمان کم لاتے ہیں اور اس کی جگہ پر اپنی عقل کے گھوڑے زیادہ دوڑاتے ہیں۔ جب کہ ہمارے ہاں دین اسلام نہ صرف ایک مکمل دین و ضابطہ حیات ہے بلکہ وہ تحقیق و بہترین دین کے اعتبار سے غیر محرف اور اعلیٰ تحقیقی معیاروں پر بھی محفوظ ہے۔ اسی لیے کتاب و سنت کے ماننے والوں کو عقل برتری پر مبنی رجحانات ہر گز زیب نہیں دیتے۔

                  وہ حدیث جن کا انکار کیا گیا صرف عقل کی وجہ سے

                  حالت حیض میں مباشرت

                  وحی کے مقابلے میں عقل کا استعمال قرآن شریف میں مذکور ہے کہ

                  ﴿وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِيْضِ ۭ قُلْ ھُوَ اَذًى ۙ فَاعْتَزِلُوا النِّسَاۗءَ فِي الْمَحِيْضِ ۙ﴾

                  (البقرة: ۲۲۲)

                  ’’یہ آپ سے حیض کی بابت سوال کرتے ہیں ، آپ کہہ دیجیے یہ ایک تکلیف ہے پس دور رہو دوران حیض اپنی عورتوں سے۔‘‘

                  آیت مبارکہ میں دو حکم ہیں

                  اول: حیض کی حالت میں عورتوں سےدور رہیے۔

                  دوم: اور ان کے قریب بھی نہ جائیں۔۔

                  مگر حدیث میں اس آیت کی واضح خلاف ورزی ہے کہ

                  ’’عن عائشة کان یامرنی فاتزر فیباشرنی وانا حائض۔‘‘

                  (صیح بخاری، کتاب الحیض، رقم الحدیث ۲۹۰)

                  ’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حکم دیتے میں ازار باندھ لیتی ، پھر مجھ سے مباشرت کرتے اور میں اس وقت حیض سے ہوتی۔‘‘

                  مندرہ بالا قرآن مجید کی آیت اور حدیث کو آپس میں متصادم ٹھہرا کر اس کی من مانی تشریح کر دی گئی، اور پھر اس امر کا تقاضا کر دیا کہ حدیث من گھڑت اور عقل کی کسوٹی سے کوسوں دور ہے۔ انہی اسباب کے تحت بخاری شریف کی حدیث نا قابل یقین ہوگئی۔

                  قارئین کرام! عقل کو کسوٹی بنا کر اور اپنی سمجھ بوجھ کو وحی الہٰی کے تابع نہ کر کے اللہ کے فرمان اور اس کے رسول کے فرمان کو الگ الگ کہہ کر ٹھکرا دیا گیا ، مگر حقیقت میں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہر گز قرآن مجید کے خلاف نہیں ہے۔

                  وحی کے تابع عقل

                  اگر یہاں بھی ہم وحی کے تابع اپنی عقل کو کرتے ہیں تو یہ انکار ان شاء اللہ اقرار میں اور بے سمجھی سمجھداری میں تبدیل ہوگی۔

                  مندرجہ بالا حدیث پر سب سے زیادہ قابل اعتراض بات یہ ہے کہ اس میں حالت حیض میں مباشرت کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ جب کہ قرآن میں اس امر سے اجتناب کا حکم صادر فرمایا گیا ہے۔ اسی غلط فہمی کی اصل وجہ یہ ہے کہ مباشرت مطلب اردو زبان میں مجامعت سمجھا جاتا ہے ۔ اس کے برعکس عربی میں مباشرت کا اور معنی بنتا ہے اور وہ ہے جلد کا جلد سے لگنا ، چھونا وغیرہ۔ عربی میں ہر گز مباشرت کا مطلب صحبت کرنا یا مجامعت کرنا نہیں ہے۔

                  امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں

                  ’’ان المباشرة فی الاصل التقاء البشرتین‘‘

                  (نیل الاوطار ، شرح منتقی الاخبار، باب تقبیل الصائم، ج۳)

                  ’’مباشرت اصل میں دو جسموں کے ملنے کو کہتے ہیں۔‘‘

                  صاحب عون المعبود نے بھی اسی معنی کو راجح قرار دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں

                  ’’ معنی المباشرة ھٰھنا المسّ بالیدین من التقاء البشرتین‘‘

                  ’’یعنی مباشرت سے یہاں صرف ہاتھ سے چھونا اور دو جسموں کا ملنا ہے۔‘‘

                  عربی لغت کی مایہ ناز تصنیف لسان العرب ج۱، صفحہ ۴۱۳ میں ابن منظور نے واضح طور پر فرمایا کہ

                  ’’جس حدیث میں مباشرت کا لفظ یا بوسہ و کنار کے الفاظ موجود ہیں اس سے اصل مراد مس کرنا ہے اور اس سے مراد صحبت وغیرہ کرنا نہیں ہے۔‘‘

                  لہٰذا مباشرت کا اصلی اور حقیقی معنی یہی ہوگا کہ جسم سے جسم کا چھونا اور یہ بات ہر گز قرآنِ مجید کے خلاف نہیں ہے قرآن نے جس چیز سے روکا وہ جماع کرنا ہے اور حدیث میں واضح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے نفس پر قابو رکھتے اور تم میں سے کون ہے کہ اتنا اپنے نفس پر قابو رکھے؟ لہٰذا یہاں سے بھی یہ واضح ہوا کہ مباشرت بمعنی (مس) چھونے کے ہیں ۔ صحیح البخاری میں کئی ایک ایسے مقامات ہیں جن میں یہ لفظ اپنے اصلی معنی مستعمل ہوا ہے۔ مثلاً کتاب النکاح کے باب کے عنوان امام بخاری نے یوں قائم فرمایا کہ


                  ’’لا مباشرة المراة المراة‘‘

                  یعنی کوئی عورت دوسری عورت کے ساتھ نہ سوئے یا اس کے ساتھ نہ چمٹے۔

                  لہٰذا واضح ہوا کہ صحیح حدیث قرآن مجید سے ہر گز متصادم نہیں ہے۔

                  Comment


                  • #10
                    Re: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المؤمنین عایشہؓ کے غسل پر اعتراض اور اس کا ازا

                    یہ فضول کی بحث یہی ختم کردی جائے کیونکہ یہ تمام مسائل بہت ہی باریک اور شادی شدہ لوگوں کے لئے ہیں مباشرت کا مطلب جو بھی ہے بہرحال مجھے سمجھ نہیں آرہی یہ اور دوسری اس قسم کی
                    احادیث پھلائی کیوں گئی اس لئے کہ بہت ضروری ہوجائے اگر ضبط نا ہو تو اس قسم کا اورل سیکس کیا جائے ۔۔ اگر میں غلطی پہ نہیں تو اس کی بقیہ احادیث بھی یہی بتاتی ہے یہ مکمل قسم سیکس کی نہیں مگر یہ ہے یہ مکمل سیکس جیسا
                    ملاظہ ہو کچھ مکمل احادیث

                    صحیح مسلم۔ جلد:۱/پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۶۷۴/ حدیث مرفوع
                    ۶۷۴۔ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَإِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ إِسْحَقُ أَخْبَرَنَا وَقَالَ الْآخَرَانِ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ کَانَ إِحْدَانَا إِذَا کَانَتْ حَائِضًا أَمَرَهَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَأْتَزِرُ بِإِزَارٍ ثُمَّ يُبَاشِرُهَا۔

                    ۶۷۴۔ ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، اسحق بن ابراہیم، اسحق، جریر، منصور، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ہم میں سے اگر کوئی حائضہ ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو ازار باندھنے کا حکم فرماتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے ساتھ مباشرت فرماتے۔

                    صحیح مسلم۔ جلد:۱/پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۶۷۵/ حدیث مرفوع
                    ۶۷۵۔ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ عَنْ الشَّيْبَانِيِّ ح و حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ وَاللَّفْظُ لَهٗ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَقَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ کَانَ إِحْدَانَا إِذَا کَانَتْ حَائِضًا أَمَرَهَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَأْتَزِرَ فِي فَوْرِ حَيْضَتِهَا ثُمَّ يُبَاشِرُهَا قَالَتْ وَأَيُّکُمْ يَمْلِکُ إِرْبَهُ کَمَا کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْلِکُ إِرْبَهُ۔

                    ابوبکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، شیبانی، علی بن حجر سعدی، علی بن مسہر، ابواسحق، عبدالرحمن بن اسود، سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے
                    کہ ہم میں سے جب کسی کو حیض آتا تو اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ازار باندھنے کا حکم کرتے جب اس کا خون حیض جوش مار رہا ہوتا پھر اس کے ساتھ رات گزارتے سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا تم میں سے کون ہے جو اپنی خواہش پر ایسا ضبط کر سکے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی خواہش پر کنٹرول حاصل تھا۔

                    صحیح مسلم۔ جلد:۱/پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۶۷۶/ حدیث مرفوع
                    ۶۷۶۔ حَدَّثَنَا يَحْيٰی بْنُ يَحْيٰی أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ عَنْ الشَّيْبَانِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ عَنْ مَيْمُونَةَ قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُبَاشِرُ نِسَاءَهُ فَوْقَ الْإِزَارِ وَهُنَّ حُيَّضٌ۔

                    ۔ یحیی بن یحیی، خالد بن عبد اللہ، شیبانی، عبد اللہ بن شداد، میمونہ، ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی عورتوں کے ساتھ مباشرت کرتے ازار کے اوپر سے اس حال میں کہ حائضہ ہوتیں۔


                    ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                    سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                    Comment


                    • #11
                      Re: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المؤمنین عایشہؓ کے غسل پر اعتراض اور اس کا ازا

                      اسلام و علیکم

                      میرے بھائیوں صحیح احدیث رسول صل الله علیہ وسلم پر اعتراض کرنے سے پہلے آپ کو الله کے عذاب سے ڈرنا چاہییے -کیا آپ کو معلوم نہیں کہ قرآن کی طر ح صحیح حدیث بھی دین اسلام میں حجت ہے - اس دین کی یہی تو خصوصیت ہے کہ یہ انسان کی زندگی کے ہر پہلو اور گوشے کو واضح کرتا ہے- اور یہ کام قرآن کے ساتھ نبی کریم صل الله علیہ وسلم کی حدیث ہی کر سکتی ہے- اگر حضرت عا یشہ رضی الله عنھ نے غسل کے اس طریقے کو تمام امّت کے لئے واضح کر دیا تو اس میں اس طر ح کے واہیات اور کفر پر مبنی ریمارکس دینے کی کیا ضرورت ہے ؟؟

                      کفّار مکّہ بھی الله پر اعتراض کرتے تھے -کہ دیکھو الله اپنی کتاب میں مچھروں کی مثال دیتا ہے کیا یہ بھی کوئی چیز ہے ذکر کرنے کی ؟؟ -الله نے اس پر ان کو صاف جواب دیا -



                      إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي أَنْ يَضْرِبَ مَثَلًا مَا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ ۖ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلًا ۘ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ


                      بے شک الله نہیں شرماتا اس بات سے کہ کوئی مثال بیان کرے مچھر کی یا اس چیز کی جو اس سے بڑھ کر ہے سو جو لوگ مومن ہیں وہ اسے اپنے رب کی طرف سے صحیح جانتے ہیں اور جو کافر ہیں سو کہتے ہیں الله کا اس مثال سے کیا مطلب ہے الله اس مثال سے بہتوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہتوں کو اس سے ہدایت کرتا ہے اوراس سے گمراہ تو بدکاروں ہی کو کیا کرتا ہے



                      لہذا لولی صاحب کو چھوڑ کر باقی ممبرز سے درخواست ہے کہ اپنی عقل کو معیار بنانے کے بجایے اصول حدیث کو سامنے رکھیں اور پھر تحقیق کریں جیسا کہ لولی صاحب اپنی پوسٹ میں کرتے ہیں -

                      الله ہم سب کو اپنی ہدایت سے نوازے اور کفر سے بچاے - آ مین


                      Allah-o-Akbar Kabeera, Wal Hamdulillaah-e-Kaseera, Subhan Allah-e-Bukratan-wa-Aseela

                      Comment


                      • #12
                        Re: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المؤمنین عایشہؓ کے غسل پر اعتراض اور اس کا ازا

                        Originally posted by Muhammad Ali Jawad View Post
                        اسلام و علیکم

                        میرے بھائیوں صحیح احدیث رسول صل الله علیہ وسلم پر اعتراض کرنے سے پہلے آپ کو الله کے عذاب سے ڈرنا چاہییے -کیا آپ کو معلوم نہیں کہ قرآن کی طر ح صحیح حدیث بھی دین اسلام میں حجت ہے - اس دین کی یہی تو خصوصیت ہے کہ یہ انسان کی زندگی کے ہر پہلو اور گوشے کو واضح کرتا ہے- اور یہ کام قرآن کے ساتھ نبی کریم صل الله علیہ وسلم کی حدیث ہی کر سکتی ہے- اگر حضرت عا یشہ رضی الله عنھ نے غسل کے اس طریقے کو تمام امّت کے لئے واضح کر دیا تو اس میں اس طر ح کے واہیات اور کفر پر مبنی ریمارکس دینے کی کیا ضرورت ہے ؟؟

                        کفّار مکّہ بھی الله پر اعتراض کرتے تھے -کہ دیکھو الله اپنی کتاب میں مچھروں کی مثال دیتا ہے کیا یہ بھی کوئی چیز ہے ذکر کرنے کی ؟؟ -الله نے اس پر ان کو صاف جواب دیا -



                        إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي أَنْ يَضْرِبَ مَثَلًا مَا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ ۖ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلًا ۘ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ


                        بے شک الله نہیں شرماتا اس بات سے کہ کوئی مثال بیان کرے مچھر کی یا اس چیز کی جو اس سے بڑھ کر ہے سو جو لوگ مومن ہیں وہ اسے اپنے رب کی طرف سے صحیح جانتے ہیں اور جو کافر ہیں سو کہتے ہیں الله کا اس مثال سے کیا مطلب ہے الله اس مثال سے بہتوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہتوں کو اس سے ہدایت کرتا ہے اوراس سے گمراہ تو بدکاروں ہی کو کیا کرتا ہے



                        لہذا لولی صاحب کو چھوڑ کر باقی ممبرز سے درخواست ہے کہ اپنی عقل کو معیار بنانے کے بجایے اصول حدیث کو سامنے رکھیں اور پھر تحقیق کریں جیسا کہ لولی صاحب اپنی پوسٹ میں کرتے ہیں -

                        الله ہم سب کو اپنی ہدایت سے نوازے اور کفر سے بچاے - آ مین


                        میں باز آیا ایسی حدیثوں سے جن کو پڑھ کے ہی جی متلانے لگے

                        اور عقل کو عقیدے کا غلام بنانے والی سوچ قرون وسطی کے کلیسا سے ماخوذ ہے۔۔اور عقل کو عقدیے کے زیر تابع سمجھ کر جو ہم نے بھگتا وہ سب کے سامنے ہے مجھے ڈیٹل مں جانے کی ضرورت نہیں بہتر ہوگا اس کا ثبوت اریخ کے اوراق سے ڈھوںڈا جائے

                        :(

                        Comment


                        • #13
                          Re: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المؤمنین عایشہؓ کے غسل پر اعتراض اور اس کا ازا

                          Originally posted by Dr Faustus View Post


                          میں باز آیا ایسی حدیثوں سے جن کو پڑھ کے ہی جی متلانے لگے

                          اور عقل کو عقیدے کا غلام بنانے والی سوچ قرون وسطی کے کلیسا سے ماخوذ ہے۔۔اور عقل کو عقدیے کے زیر تابع سمجھ کر جو ہم نے بھگتا وہ سب کے سامنے ہے مجھے ڈیٹل مں جانے کی ضرورت نہیں بہتر ہوگا اس کا ثبوت اریخ کے اوراق سے ڈھوںڈا جائے


                          islam zindagi guzarnay ka poora poora tariqa batata hai . ab yeh apni apni soch hai keh woh kis andaz say sochta hai.

                          Comment


                          • #14
                            Re: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المؤمنین عایشہؓ کے غسل پر اعتراض اور اس کا ازا

                            Originally posted by lovelyalltime View Post
                            islam zindagi guzarnay ka poora poora tariqa batata hai . ab yeh apni apni soch hai keh woh kis andaz say sochta hai.
                            Aur Mr Jehan Islam Nahii un ko zindagi guzarnay ka tariqa kis na sikhya wo to HUm sa Zaida Civilized Hain
                            hunnnnnnn FLash Cmmode Tak pa Amircan Stander Likha hota wo apna nahi bana sakay Aur
                            Chalay Islam Ka Thaika dar banay...
                            :(

                            Comment


                            • #15
                              Re: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المؤمنین عایشہؓ کے غسل پر اعتراض اور اس کا ازا

                              ہر زمانے کے اپنے اصول و ضوابطہ ہوتے کیا آپ جانتے ہیں استنجہ کے متعلق مباشرت و حیض کے متعلق اتنی زیادہ تعداد میں احادیث کیوں ہیں
                              اس کا جواب ہے عرب جاہل تھے مگر بات بات پہ ان کو سوال کرنے کی عادت تھی اور رسول خدا معصوم سے نبی ہر بات کا جواب دیتے
                              کبھی ان کا سوال ہوتا باتھ روم میں کونسا پیر پہلے رکھیں اچھا کوئی دعا بھی پڑھ لیں ، اچھا ڈھیلے پاکیزگی کے لئے کتنے لیں اب یہ وہ
                              پانی کیسے پئے ، کھانا کیسے کھائیں اتنے سوال وہ کرتے تھے کہ عام نبی ہوتے تو ان کا سر پھاڑ دییتے
                              اس طرح کی احادیث بھی اسی طرح منظر عام پر آگئی ورنہ ان کا مقصد زیادہ چھپا ہوا ہی تھا
                              ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                              سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                              Comment

                              Working...
                              X