Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

کیا چاروں امام برحق ہیں ؟

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #31
    Re: کیا چاروں امام برحق ہیں ؟

    Originally posted by Sub-Zero View Post

    آپ نے پوچھا مزاروں پر جا کر کیا کرنا چاہئے توو آپ کو بتایا کسی بھی مزار کی زیارت کرتے وقت بلکہ کسی بھی قبر کو دیکھ کر یہ ضرور سوچنا چااہئے کل کو ہمارا مقام بھی یہی ہے
    *مزار/درگاہ پر جانا سنت ہے کیونکہ وہ قبر ہوتی ہے باقی کسی بھی مستندد صحیح حدیث میں اس کی مناعمت نہیں
    bhai mai ne to tanz mai ap se sawal poocha tha magar ap ne to dil pr hi le lia or poora alif se ye tak mazaron pr hazri ka tareeqa bata dia, Allah na kre k mai kabhi ksi mazar k samne se bhi guzron...
    baharhal ap ne aik bat achi kahi hai hai k
    کسی بھی قبر کو دیکھ کر یہ ضرور سوچنا چااہئے کل کو ہمارا مقام بھی یہی ہے

    beshak hme qabr pr ibrat k lye jana chahye k kal hm bhi in ki tarah bebas or lachar hongay,, or un k haqq mai dua krni chahye magar ye bat yad rakhni chahye k qabron pr kuch (dua) dene ki gharz se jaen kuch lene (mangne) ki gharz se nhi
    *مزار/درگاہ پر جانا سنت ہے کیونکہ وہ قبر ہوتی ہے باقی کسی بھی مستندد صحیح حدیث میں اس کی مناعمت نہیں
    mazar or dargah pr jana sunnat hai ye bat sabit krye ahdees ki Roshni mai,
    agar wo sirf qabr hoti hain aam logon ki qabron ki tarah to qabrustan mai kyon nhi hoti?
    http://www.islamghar.blogspot.com/

    Comment


    • #32
      Re: کیا چاروں امام برحق ہیں ؟

      Originally posted by i love sahabah View Post
      Asalam o alikum to all muslims,

      لولی سے تو بات کرنا فضول ہے کیونکہ اس نے صرف کاپی پیسٹ ہی کرنا ہے کسی دوسرے کی کوئی پوسٹ پڑھنی ہی نہیں ہے


      میں محمد علی جواد صاحب سے کہوں گا کہ جناب یا تو آپ بات کو سمجھے ہی نہیں یا سمجھ کے جواب دینا نیں چاہتے.



      آپ کے مطابق تقلید حرام یا بدعت ہے جیسا کہ لولی نے ٹاپک سے ثابت کیا ہے، اب اگر احناف امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کریں تو وہ حرام ہے لیکن شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ اگر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی تقلید کریں تو وہ صحیح ہے یہ کہاں کا انصاف ہے.

      اگر شیخ رھمہ اللہ کا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی تقلید کرنا صحیح ہے تو احناف کا غلط کیوں.


      آپ نے کہا کہ آپ کے نزدیک صرف قرآن اور حدیث ہے اور کچھ نہیں تو جناب اوپر تو آپ کے لولی نے تمام امتیوں کے اقوال سے تقلید کو حرام قرار دیا ہے تو ان کی بات بھی تو غلط ہو سکتی ہے لیکن آپ ان کی بات کو تسلیم کر رہے ہو اس کی وجہ کیا ہے.
      اگر صرف قرآن اور حدیث کو تسلیم کرنا ہے تو امتی کے اقوال پیش کرنا کہاں کا انصاف ہے.
      اور یہ تو آپ لوگوں کا پرانا طریقہ ہے کہ جس بات کا جواب نہ آئے یا کوئی اہلحدیث عالم کا حوالہ دے دیا جائے تو اس کا انکار کر دو کہ ہم نہیں مانتے.



      اور میں لولی سے ایک اور فورم پہ کئی دن سے صرف یہ پوچھ رہا ہوں کہ اگر تقلید شرک اور حرام ہے تو شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کا تقلید کرنا کیا شرک ہے یا نہیں.
      آپ وضاحت کر دیں
      Meray bhai..aap meree baat ku nahi samjhay ...main tu samajh gaya tha...aap nay mere post sahi terhan nahi parhee...!

      Mainy shorro main hi kaha tha...k humaray nazdeek final authority sirf Allah aur uss k Nabi 9s.a.w) kio zaat hai...Muhammad bin Abdul; Wahab (r.h) nahi... ager Abdul Wahab (r.h) say kise muamalay main ijtehadei ghalti hoee tu ye unn ka aur Allah ka muamala hai...aur ye bhi mumkin hai..unhoon na baad main apnay mauqqaf say rojo ker liya ho...(Walah alam)..!!

      Rahi baat ummtiyoon k aqwal ki...tu iss ki wajah ye hai...k taqleed shorr hi 04th century hijri main hoee (Nabi karim (s.a.w) ki wafat k 400 saal baad) ....iss pehlay iss ka koi tasswurr nahi tha...issee liya inn ummayton k aqwaal pesh kiye jatay hain k taqleed biddat aur haram hai..!!

      Ye baat bhi zehen main rakain k Nabi karim (s.a.w) nay bhi apni zindagi main iss baat ki indication day dee thee.."k meree wafat k baad tum bohut sa Iktelaaf deko gay tu..uss waqat sirf Quran aur mere sunnat ku mazbooti say paraky rehna....(Mutafiq Alh)...iss hdees main Ikhtelaaf ki soorat main kisee Imam ka zikarr nahi kiya k falan Imam ki taqleed kerna...!!

      Baqi Lovelly all time" nay aglee post main app ki uljhan ka muffasil jawab day diya hai...zara ghour say parhye ga..!!




      Allah-o-Akbar Kabeera, Wal Hamdulillaah-e-Kaseera, Subhan Allah-e-Bukratan-wa-Aseela

      Comment


      • #33
        Re: کیا چاروں امام برحق ہیں ؟

        Originally posted by lovelyalltime View Post




        تعظیم ، تقلید اور اتباع
        السلام علیکم محترم دوستو !

        اکثر احباب کہا کرتے ہیں کہ کچھ لوگ ہیں جو محمد بن عبدالوھاب یا شیخ الاسلام ابن تیمیہ یا امام ابن قیم رحمہم اللہ کی عزت و تعظیم کو ضروری سمجھتے ہیں۔
        اس کے جواب میں عرض ہے کہ یہ عزت و تعظیم محض اس سبب ہے کہ شرک و بدعات کے خلاف ان کی تحریروں نے اصل دین کی طرف لوگوں کو بلانے کا احیاء کیا ہے۔
        اس کے باوجود ۔۔۔ عزت و تعظیم کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان میں سے ہر ایک کی ہر اک بات کو ہم من و عن تسلیم کر لیتے ہیں۔ جبکہ ہمارے پاس ایک معیار موجود ہے کہ دین کی ہر ایک بات کو کتاب و سنت پر پیش کیا جانا چاہئے۔ اب اگر کسی بزرگ کی بات اس معیار پر پوری نہ اترے تو کیا اس کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ ‫:
        ہمارے نزدیک اس بزرگ کا کوئی مقام نہیں یا ہم ان کی ہر بات کو یکسر مسترد کرتے ہیں یا ہمارا ان کی بات کو نہ ماننا ، ان کی توہین کے زمرے میں آتا ہے ؟

        سنن نسائی کی ایک روایت سے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔

        مروان بن حکم سے روایت ہے کہ : میں حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کے پاس بیٹھا تھا ، انہوں نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو عمرہ اور حج دونوں (یعنی حجِ قران) کی لبیک کہتے ہوئے سنا تو حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو اس سے منع فرمایا ، اس پر حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے جواب دیا :
        بلى ، ولكني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبي بهما جميعا ، فلم أدع رسول الله صلى الله عليه وسلم لقولك
        میں آپ کے قول کے مقابلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو نہیں چھوڑ سکتا ۔
        النسائی ، كتاب الحج ، لمواقیت ، باب : القران
        (حدیث "حسن" ہے)

        وہ حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کا دورِ خلافت تھا اور اپنے دورِ خلافت میں آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو حکماً اس بات سے منع کیا تھا کہ عمرہ اور حج دونوں (یعنی حجِ قران) کی لبیک نہ پکاریں ( جس کی وجہ یہ تھی کہ آپ رضی اللہ عنہ کو پہلے اس کا علم نہ تھا) ، لیکن حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے آپ (رضی اللہ عنہ) کے قول کی کوئی پرواہ نہیں کی۔

        کیا حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کا حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کے حکم کو نہ ماننا ، توہین کہلائے گا؟
        کیا حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے اس فعل سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے حضرت
        عثمان (رضی اللہ عنہ) کی عزت و تکریم نہیں کی ؟

        ایسی بہت سی مثالیں دورِ صحابہ میں مل جاتی ہیں۔ اور یہ تو صحابہ کا معاملہ تھا ۔۔۔ اب ذرا سوچ لیں کہ دوسرے ائمہ کرام یا بزرگانِ دین کس شمار و قطار میں ہیں؟

        ہمیں اس بات کو خوب یاد رکھنا چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے مقابلے میں کسی کے بھی قول کی کوئی اہمیت نہیں ہے چاہے وہ کتنے بھی بڑے امام کا ہو یا کتنی ہی مشہور کتاب میں درج ہو۔

        لہذا یہ تاثر دینا درست نہیں ہے کہ فلاں فلاں امام کی فلاں فلاں مشہور کتاب میں جو واقعہ درج ہے اس کو فریقِ مخالف نہ مان کر فلاں فلاں امام کو جھٹلاتا ہے۔










        jazakAllah bht zabr10 keep it up
        http://www.islamghar.blogspot.com/

        Comment


        • #34
          Re: کیا چاروں امام برحق ہیں ؟

          Originally posted by Sub-Zero View Post

          کس بات کا بہتان جب اللہ نے حدیث کا ذمہ ہی نہیں لیا تو نمبر دو بھائی حدیث لکھنا یا لکھوانا تو کجہ حفظ بھی نہیں کرائی جاتی تھیں
          یہ تو رسول پاک کی وفات کے کافی عرصے بعد خیال آیا اس میں بھی صحیح احادیث کے علاوہ ضعیف ہیں

          اور قرآن میں ایک لفظ تو کجا زیر زبر کا بھی اضافہ نہیں ہوا ، ہاں ترجمے ، تفسیر میں سب نے اپنی چلائی
          ہر وقت کا کوئی نا کوئی امام ہوتا ہے جو آپ کو قرآن و سنت کی تعلیم دیتا ہے یہ تعلیم نبی کی ہوتی ہے نصاب نبی کا ہوتا بس سکھانے والا امام ہوتا ہے
          دنیا میں نبی پاک اور اللہ کے احکاموں کی حکمرانی ہے اور کوئی مسلمان اس سے روگردانی کا سوچ بھی نہیں سکتا
          تقلید کی اماموں نے کس نے کہا نہیں کی رسول پاک کی تقلید کی ان سے سیکھا بڑے استاد سے ان سے چھوٹے استاد بنے پھر تمام دنیا

          خیر یہ ایشو اتنے بڑے بڑے نہیں جتنا ہوا بنا دیا گیا ہے
          Zara ye bhi perh lain...tak aap k ye mughalta door ho jaye k ...Ahdees Nabi karim (s.a.w) k zindagi main nahi lekkhee gaeenn..!!


          عہد رسالت میں کتابت حدیث


          کتاب
          نزہۃ القاری شرح صحیح البخاری

          (1) حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے سیکڑوں احادیث لکھیں ان کے مجموعے کا نام صادقہ تھا )بخاری۔ اصابہ۔ طبقات ابن سعد(

          (2) احادیث کا ایک مجموعہ حضرت انس نے لکھا تھا۔) بخاری۔ تدریب الراوی(

          قتادہ روایت کرتے ہیں۔

          کان یملی الحدیث حتی اذاکثر علیہ الناس جاء محمال من کتب القاھا ثم قال ھذہ احادیث سمعتھا و کتبتھا عن رسول اللّٰہ و عرصتھا علیہ ۔ تفسیر العلم ص 96,95۔

          حضرت انس حدیث لکھوایا کرتے تھے جب لوگوں کی کثرت ہوگئی تو وہ کتابوں کا صحیفہ لے کر آئے اور لوگوں کے سامنے رکھ کر فرمایا یہ وہ احادیث ہیں جنھیں میں نے رسول اللہ سے سنکر لکھی ہیں اور آپ کو پڑھ کر سنا بھی دی ہے۔

          (3) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی احادیث لکھوائی تھیں۔ یہ ذخیرہ انکے صاحبزادے کے پاس تھا (جامع بیان العلم)۔

          (4) حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے ایک کتاب میں احادیث کو جمع فرمایا تھا جس کا نام ہی کتاب سعد بن عبادہ تھا۔ یہ کئی پستوں تک ان کے خاندان میں رہا۔ (مسند امام احمد(

          (5) سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نے بھی ایک مجموعہ مرتب فرمایا تھا۔

          (6) حضرت ابو ہریرہ نے بھی دفتر کے دفتر احادیث لکھی یا لکھوائی تھیں۔ (فتح الباری(

          ہمام ابن منبہ کا صحیفہ جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کے انھیں دفتروں سے نقل ہوا تھا اب چھپ بھی گیا ہے۔ جس کی اکثر احادیث بخاری مسلم مسند امام احمد میں بعینہ بلفظ موجود ہیں۔

          (7) سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے بھی ایک مجموعہ تیار کیا تھا۔ تہذیب۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہے۔

          بینما نحن حول رسول اللہ نکتب۔ (دارمی) ص 68

          اس وقت کم ہی لوگ حضور کے ارد گرد بیٹھے لکھ رہے تھے۔

          اس سے ظاہر ہوا کہ عام طور پر کچھ صحابہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ارشاد لکھا کرتے تھے ابن عباس اور ابن عمر کے صحائف کا ذکر ملتا ہے۔

          الجامع الاخلاق الراوی و آداب السامع ص 100 پر ہے۔

          یروی عن عبداللّٰہ بن عمر کان اذا خرج الی السوق نظر فی کتبہ و قد اکد الراوی ان کتبہ کانت فی الحدیث ۔

          عبداللہ بن عمر کے بارے میں یہ روایت ہے کہ وہ جب بازار جاتے تو اپنی کتابوں پر ایک نظر ڈال لیا کرتے۔ راوی نے بتاکید یہ بات کہی ہے کہ یہ کتابیں حدیث کی تھیں۔

          حضرت ابن عباس کے چند صحیفے تھے طائف کے کچھ لوگ حضرت ابن عباس کی خدمت میں ان کے چند صحیفے لے کر حاضر ہوئے تاکہوہ ان لوگوں کو ان میں تحریر کردہ احادیث سنا دیں اس وقت حضرت ابن عباس کی بینائی کمزور ہوچکی تھی وہ پڑھ نہ سکے فرمایا تم لوگ مجھے پڑھ کر سناؤ تمھارا سنانا اور میرا پڑھنا برابر ہے۔ طحاوی ج 2 384ترمذی ج 2 248

          ظاہر یہ ہے کہ یہ وہی صحیفے تھے جو انھوں نے عہد نبوی میں لکھے۔ اور اگر مان لیا جائے کہ وصال اقدس کے بعد کے لکھے ہوئے ہیں تو یہ اس کی دلیل ہوگی کہ عہد صحابہ میں احادیث لکھی گئیں اور منکرین تو مطلقاً عہد صحابہ میں بھی کتابت حدیث کے منکر ہیں۔

          نحن نکتب سے اشارہ ملتا ہے کہ اس خدمت کو ایک جماعت انجام دیتی تھی۔ اور اس کی تائید دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے۔

          کان عند رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم ناس من اصحابہ و انا معھم و انا اصغر القوم نقال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم من کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار ۔ فلما خرج القوم قلت کیف تحدثون عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم و قد سمعتم ماقال وانتم تنھکون فی الحدیث عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فضحکو او قالوا یا ابن اخینا ان کل ما سمعنا منہ عند نافی کتاب ۔ مجمع الزوائد ج 1 ص 1510

          خدمت اقدس میں کچھ صحابہ حاضر تھے، میں بھی تھا، میں سب سے کم عمر تھا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو مجھ پر قصداً جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے پھر جب لوگ باہر آئے تو میں نے ان سے کہا۔ حضور نے جو فرمایا وہ آپ لوگوں نے سنا اس کے باوجود اتنی کثرت سے آپ لوگ کیسے حدیثیں بیان کرتے ہیں وہ لوگ ہنسے اور کہا اے بھیجتے جو کچھ ہم نے حضور سے سنا ہے وہ سب ہمارے پاس لکھا ہوا ہے۔
          irum آ


          اس کے علاوہ جستہ جستہ بہت سے احکام و مسائل کے بارے میں یہ ثبوت موجود ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوائے۔

          (1) 8 ھ میں جب مکہ فتح ہوا تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی حقوق اور مکہ کی حرمت کے مسائل بیان فرمائے اس پر ایک یمن کے باشندے نے خواہش ظاہر کی یہ احکام لکھوا کر عنایت فرمائیں آپ نے فرمایا۔ اکتبوہ لا بی شاہ یہ احکام ابوشاہ کے لئے لکھ دو۔ بخاری ابوداؤد۔

          (2) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے دیت (خون بہا) کے مسائل لکھوا کر بھجوائے۔ مسلم شریف ص495۔

          (3) حضور اقدس صلے اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ جہینہ کے پاس مردہ جانوروں کے احکام لکھوا کر بھجوائے۔ مشکوٰۃ ابوداؤد۔

          (4) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کے متعلق مسائل کو ایک جگہ لکھوایا تھا۔ جس کا نام کتاب الصدقہ تھا مگر عمال و حکام تک اسے روانہ نہ فرما سکے اور وصال ہوگیا۔ حضرت ابوبکرصدیق نے اپنے عہد میں اسی کے مطابق زکوٰۃ وصول کرنے کا حکم جاری کیا اور اسی کے مطابق وصول ہوتی تھی۔ ابو داؤد۔

          (5) اسی کتاب الصدقہ کا مضمون وہ ہے۔ جو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت انس کو دیا تھا۔ جس وقت انھیں بحرین کا عامل بنا کر بھیجا تھا۔ اس میں اونٹوں، بکریوں، اور سونے چاندی کی زکوٰۃ کے نصاب کی تفصیل تھی۔ بخاری ج 1 ص 194

          (6) حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حیات مبارکہ کے اخیر ایام میں کثیر احادیث کا ایک صحیفہ لکھوا کر عمرو بن حزم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بدست یمن بھجوایا تھا۔ موطا امام مالک ص 231 میں ہے کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اہل یمن کے پاس ایک مکتوب عمرو بن حزم کے ہاتھ بھیجا تھا۔ جس میں فرائض سنن اور دیات لکھے تھے۔

          (7) زکوٰۃ کے احکام پر مشتمل ایک صحیفہ ابوبکر بن حزم والیء بحرین کو لکھوایا تھا۔ یہ صحیفہ دیگر امراء کو بھی بھیجا گیا تھا۔ یہ مکتوب حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے ابن حزم سے لے لیا تھا۔) دارقطنی، مسند امام احمد(

          (8) زکوٰۃ وصول کرنے والے عاملین کے پاس کتاب الصدقہ کے علاوہ اور بھی تحریریں تھیں۔ )دارقطنی(

          (9) عمرو بن حزم کو یمن کا حاکم بناتے وقت فرائض۔ صدقات، دیات، طلاق، عتاق، نماز، مصحف شریف چھونے سے متعلق احکام پر مشتمل ایک تحریر لکھائی تھی۔ )مسند امام احمد، مستدرک، کنز العمال(

          (10) مختلف فرامین و احکام جو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قبائل کو بھیجے۔

          (11) معاہدات کی تحریریں مثلاً صلح حدیبیہ وغیرہ۔ ابن ماجہ طبقات ابن سعد۔

          (12) معاہدہ کی تحریریں مثلاً صلح حدیبیہ وغیرہ۔ ابن ماجہ، طبقات ابن سعد،

          (13) وہ والا نامے جو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے سلاطین و مراء کے پاس بھیجے۔

          (14) عبداللہ بن حُکم صحابی کے پاس حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ایک تحریر تھی جس میں مردہ جانوروں کے احکام مذکور تھے۔ معجم صغیر، طبرانی،

          (15) نمازَ روزہ، سود، شراب، وغیرہ کے مسائل وائل بن حُجر کو آنحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے لکھوائے تھے۔

          (16) اُشیم نامی مقتول کی بیوی کو اپنے مقتول شوہر کی دیت دلانے کا فرمان آنحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے لکھوایا تھا۔ یہ فرمان ضحاک بن سفیان صحابی کے پاس تھا۔ ابو داؤد، دارقطنی۔

          (17) رافع بن خدیج صحابی کے پاس ایک مکتوب گرامی تھا۔ جس میں مندرجہ تھا مدینہ بھی مثل مکہ حرم ہے۔ )مسند امام احمد(

          (18) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کچھ احکام لکھوا کر دیئے تھے جو ان کے پاس تھا۔ بخاری ج 1 ص21۔

          (19) حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ کو لکھا تم نے جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے سنا ہے وہ لکھ کر بھیج دو۔ چنانچہ انھوں نے کچھ احادیث لکھوا کر بھیجیں۔ بخاری ج 2 ص 1083۔
          irں


          Allah-o-Akbar Kabeera, Wal Hamdulillaah-e-Kaseera, Subhan Allah-e-Bukratan-wa-Aseela

          Comment


          • #35
            Re: کیا چاروں امام برحق ہیں ؟

            Originally posted by Sub-Zero View Post

            کس بات کا بہتان جب اللہ نے حدیث کا ذمہ ہی نہیں لیا تو نمبر دو بھائی حدیث لکھنا یا لکھوانا تو کجہ حفظ بھی نہیں کرائی جاتی تھیں
            یہ تو رسول پاک کی وفات کے کافی عرصے بعد خیال آیا اس میں بھی صحیح احادیث کے علاوہ ضعیف ہیں
            اور قرآن میں ایک لفظ تو کجا زیر زبر کا بھی اضافہ نہیں ہوا ، ہاں ترجمے ، تفسیر میں سب نے اپنی چلائی
            ہر وقت کا کوئی نا کوئی امام ہوتا ہے جو آپ کو قرآن و سنت کی تعلیم دیتا ہے یہ تعلیم نبی کی ہوتی ہے نصاب نبی کا ہوتا بس سکھانے والا امام ہوتا ہے
            دنیا میں نبی پاک اور اللہ کے احکاموں کی حکمرانی ہے اور کوئی مسلمان اس سے روگردانی کا سوچ بھی نہیں سکتا
            تقلید کی اماموں نے کس نے کہا نہیں کی رسول پاک کی تقلید کی ان سے سیکھا بڑے استاد سے ان سے چھوٹے استاد بنے پھر تمام دنیا

            خیر یہ ایشو اتنے بڑے بڑے نہیں جتنا ہوا بنا دیا گیا ہے
            کیارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث کی کتابت بھی کروائی؟


            رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر احادیث لکھوائیں چند حوالے ملاحظہ فرمائیں

            (1) عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب الصدقۃ تحریر کروائی امام محمد بن مسلم فرماتے ہیں آپ کی یہ کتاب عمر رضی اﷲ عنہ کے خاندان کے پاس تھی اور مجھے عمر رضی اﷲ عنہ کے پوتے سالم نے یہ کتاب پڑھائی اور میں نے ا س کو پوری طرح محفوظ کرلیا ۔ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اﷲ علیہ نے ا س کتاب کو عمر رضی اﷲ عنہ کے پوتوں سالم اور عبداﷲ سے لے کر لکھوایا۔ (ابو داؤد کتاب الزکوۃ)

            (2) ابو راشد الحزنی فرماتے ہیں کہ عبداﷲ بن عمرو بن عاص نے میرے سامنے ایک کتاب رکھی اور فرمایا یہ وہ کتاب ہے جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوا کر مجھے دی تھی (ترمذی ابواب الدعوات)

            (3) موسی بن طلحہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس وہ کتاب ہے جو معاذ کیلئے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوائی تھی(الدارقطنی فی کتاب الزکوۃ) خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے اس کتاب کو منگوایا اور اس کو سنا(مصنف ابن ابی شیبہ نصب الرایہ کتاب الزکوۃ جلد 2صفحہ 352)

            (4) جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن حزم کو یمن کا عامل بنا کر بھیجا تو اہل یمن کیلئے ایک کتاب بھی لکھوا کر دی جس میں فرائض سنت اور دیت کے مسائل تحریر تھے امام زہری فرماتے ہیں کہ میں نے اس کتاب کو پڑھا یہ کتاب ابوبکر بن حزم کے پاس تھی سعید بن مسیّب نے بھی اس کتاب کوپڑھا (نسائی جلد دوم صفحہ 218)


            Comment


            • #36
              Re: کیا چاروں امام برحق ہیں ؟

              بھائی اگر کچھ دیر کے لئے مان بھی لیا جبکہ ایسا نہیں تو وہ حدیث اس طرح کیوں روایت ہوئی فلاں نے روایت کی فلاں نے سنا
              ایک بھی حدیث سیدھی ہے جو بغیر راوی کے ہو چاہے صحیح حدیث ہو کسی کو حضرت عائشہ کسی کو حضرت انس یعنی سب نقل ہوئی اصل کوئی نہیں
              دوسری بات اگر کچھ احادیث لکھنے کی کوشش ہوئی بھی تو رسول اللہ نے اسے منسوخ کیا تاکہ قرآن اور حدیث گڈمڈ نا ہوجائیں


              بروایت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کہتا ہے کہ :
              "يا عبادي اني حرمت الظلم على نفسي وجعلته بينكم محرما فلا تظالموا ، يا عبادي كلكم ضال الا من هديته فاستهدوني اهدكم ، يا عبادي كلكم جائع الا من اطعمته فاستطعموني اطعمكم ،يا عبادي كلكم عار الا من كسوته فاستكسوني اكسكم ، يا عبادي انكم تخطئون بالليل والنهار وانا اغفر الذنوب جميعا فاستغفروني اغفر لكم " ـ
              ( ریاض الصالحین ص ۵۸۔ )
              ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
              سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

              Comment


              • #37
                Re: کیا چاروں امام برحق ہیں ؟

                Originally posted by Sub-Zero View Post
                بھائی اگر کچھ دیر کے لئے مان بھی لیا جبکہ ایسا نہیں تو وہ حدیث اس طرح کیوں روایت ہوئی فلاں نے روایت کی فلاں نے سنا
                ایک بھی حدیث سیدھی ہے جو بغیر راوی کے ہو چاہے صحیح حدیث ہو کسی کو حضرت عائشہ کسی کو حضرت انس یعنی سب نقل ہوئی اصل کوئی نہیں
                دوسری بات اگر کچھ احادیث لکھنے کی کوشش ہوئی بھی تو رسول اللہ نے اسے منسوخ کیا تاکہ قرآن اور حدیث گڈمڈ نا ہوجائیں


                بروایت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کہتا ہے کہ :
                "يا عبادي اني حرمت الظلم على نفسي وجعلته بينكم محرما فلا تظالموا ، يا عبادي كلكم ضال الا من هديته فاستهدوني اهدكم ، يا عبادي كلكم جائع الا من اطعمته فاستطعموني اطعمكم ،يا عبادي كلكم عار الا من كسوته فاستكسوني اكسكم ، يا عبادي انكم تخطئون بالليل والنهار وانا اغفر الذنوب جميعا فاستغفروني اغفر لكم " ـ
                ( ریاض الصالحین ص ۵۸۔ )

                سلام بھائی. کیا حال ھیں آپ کے . اگر احادیث کے بارے میں ایک الگ تھریڈ شروح کر دیں تو اچھا ھو گا

                یہاں تقلید پر بات کریں تو اچھا ہے. میں الگ تھریڈ شروح کرنے والا ہوں احادیث پر . میں ایک الگ تھریڈ حدیث پر شروح کرنے والا ہوں . انشاللہ اس میں ڈیٹیل میں بات ھو گی

                Comment


                • #38
                  Re: کیا چاروں امام برحق ہیں ؟

                  Originally posted by Muhammad Ali Jawad View Post
                  Meray bhai..aap meree baat ku nahi samjhay ...main tu samajh gaya tha...aap nay mere post sahi terhan nahi parhee...!

                  Mainy shorro main hi kaha tha...k humaray nazdeek final authority sirf Allah aur uss k Nabi 9s.a.w) kio zaat hai...Muhammad bin Abdul; Wahab (r.h) nahi... ager Abdul Wahab (r.h) say kise muamalay main ijtehadei ghalti hoee tu ye unn ka aur Allah ka muamala hai...aur ye bhi mumkin hai..unhoon na baad main apnay mauqqaf say rojo ker liya ho...(Walah alam)..!!

                  Rahi baat ummtiyoon k aqwal ki...tu iss ki wajah ye hai...k taqleed shorr hi 04th century hijri main hoee (Nabi karim (s.a.w) ki wafat k 400 saal baad) ....iss pehlay iss ka koi tasswurr nahi tha...issee liya inn ummayton k aqwaal pesh kiye jatay hain k taqleed biddat aur haram hai..!!

                  Ye baat bhi zehen main rakain k Nabi karim (s.a.w) nay bhi apni zindagi main iss baat ki indication day dee thee.."k meree wafat k baad tum bohut sa Iktelaaf deko gay tu..uss waqat sirf Quran aur mere sunnat ku mazbooti say paraky rehna....(Mutafiq Alh)...iss hdees main Ikhtelaaf ki soorat main kisee Imam ka zikarr nahi kiya k falan Imam ki taqleed kerna...!!

                  Baqi Lovelly all time" nay aglee post main app ki uljhan ka muffasil jawab day diya hai...zara ghour say parhye ga..!!


                  تمام مسلمانوں کو السلام و علیکم

                  جواد صاحب میں اب بھی یہی کہوں گا کہ آپ میری بات نہیں سمجھے



                  آپ نے کہا کہ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ سے اگر اجتہادی غلطی ہوئی تو یہ اللہ اور ان کا معاملہ ہے تو جناب بلکل صحیح بات ہے لیکن یہی بات آپ کو احناف کے خلاف لکھتے ہوئی یاد نہیں آتی اس کی کیا وجہ ہے.
                  احناف کے عالم کی غلطی بھی تو اس کا اور اللہ کا معاملہ ہے لیکن وہاں آپ کے علماء کفر اورشرک کا فتوی لگا دیتے ہیں اور وہاں ان کو یہ بات یاد نہیں آتی


                  آپ نے کہا کہ شاید محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے رجوع کر لیا ہو تو جناب اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آپ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ تقلید کرتے تھے اور شاید انہوں نے رجوع کر لیا ہو تو جناب شاید سے کام نہیں چلے گا اگر محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے رجوع کیا ہے تو دکھا دیں کہ کہاں کیا ہے

                  اور اگر انہوں نے رجوع نہیں کیا بلکہ وہ تقلید کرتے تھے تو کیا ان کا تقلید کرنا صحیح تھا یا غلط اور تقلید کرنے پہ کیا فتوی لگے گا

                  آپ نے کہا کہ تقلید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے 400 سال کے بعد شروع ہوئی تو جناب یہ بتائیں کہ احادیث کی کتب کب لکھی گئی.
                  بخاری اور مسلم بھی تو کئی سو سال بعد لکھی گئی اور آپ نے خود کہا کہ آپ کے ئے صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات حجت ہے تو پھر ان امتیوں کی بات حجت کیسے بن گئی. آپ ہر معاملے میں ان امتیوں کے محتاج ہیں لیکن اگر بات کوئی حنفی کر دے یا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کر دیں تو آپ کے علماء فتوی پہلے لگاتے ہیں باقی بات بعد میں کرتے ہیں.
                  امام بخاری رحمہ اللہ بھی امتی ہیں اور امام شافعی رحمہ اللہ کے مقلد ہیں لیکن ان پہ تقلید کرنے پہ کوئی فتوی نہیں صرف احناف پہ فتوی لگایا جاتا ہے اس کی وجہ کیا ہے

                  دوسری بات کہ جو میں کئی بار لولی سے پوچھ رہا ہوں اور اب بھی یہی پوچھوں گا کہ
                  تقلید کرنے کی وجہ سے آپ کے علماء کا فتوی صرف احناف پہ کیوں لگتا ہے.

                  اگر احناف تقلید کریں تو آپ کے علماء شرک اور حرام کا فتوی لگاتے ہیں اور تقلید کا بلکل انکار کرتے ہیں لیکن محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ یا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ اگر تقلید کریں تو یہ ان کا اور اللہ کا معاملہ بن جاتا ہے اس دوغلی پالیسی کی وجہ کیا ہے.


                  بھائی ایک سیدھا سی اور آسان سی بات ہے کہ اگر تقلید شرک ہے یا حرام ہے جیسا کہ لولی نے ثابت کیا اور آپ کے علماء کہتے ہیں تو جناب جو بھی تقلید کرے یہ فتوی سب پہ لگے گابھلے وہ حنفی ہو، حنبلی ہو شافعی ہو یا مالکی لیکن آپ کے علماء فتوی صرف احناف پہ لگاتے ہیں اور جب ان کو بتایا جاتا ہے کہ امام احمد بن حنبل رھمہ اللہ کے مقلد بھی موجود ہیں بلکہ سعودیہ کا سرکاری مذہب ہی حنبلی ہے تو ان پہ کوئی فتوی نہیں.

                  Comment

                  Working...
                  X