Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

~~ Where there is love there is life ~~ collection from the painful heart of pErIsH_BoY .>>>>>>

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • شہر ذات سے اقتباس



    بادشاہت کسی کو بھی پاگل کرسکتی ہے۔
    پاور اور پیسہ انسان کے خون کا رنگ بدلے نہ بدلے،
    لیکن اس کو پانی ضرور کردیتی ہے۔

    شہر ذات سے اقتباس
    عمیرہ احمد









    Comment


    • تو میری آنکھ کا وہ آنسو ہے

      تو میری آنکھ کا وہ آنسو ہے

      جس نے مُبہم کئے ہیں سب منظر

      جس نے نیندیں چُرا لی آنکھوں سے

      جو کہ اٹکا ہوا ہے پلکوں پر

      جس کے دَم سے دُھواں ہے سینے میں

      جس کی آتش جلا ےء جذ بوں کو

      جس کی قُربت بنی ہے اِک سُو زش

      جس نے زخمی کیا ہے نظروں کو

      تجھ کو احساس کب ۔۔ کہ اِس دل کے

      کتنے جذبے لُٹے ہیں راہوں میں

      کتنے صفحے پلٹ چکی ہوں تیرے

      کتنے کانٹے چُبھے ہیں سانسوں میں

      تُو میرے درد سے نہیں واقف

      تیرے دل کا زِیاں ہوا ہی نہیں

      میں نے چاہا پرستشوں میں تجھے

      تجھ کو اِس کا گُماں ہوا ہی نہیں

      تو جو ناآشنا ہے اب مجھ سے

      مجھ سے کتنی کہانیاں تھیں تیری

      کتنی صُبحیں کرینگی یاد مجھے

      کتنی شامیں نشانیاں تھیں تیری

      اب تو ایسے لگے ہے ، کہ جیسے

      مجھ سے کتنی عداوتیں ہیں تیری

      جتنا یکجا کروں ،، یہ بکھرینگی

      ریزہ ریزہ رفاقتیں ہیں تیری

      تم کو چُننے لگوں تو برسوں میں

      میرے لمحے بدلنے لگتے ہیں

      ہو کے مانوس میری عادت سے

      میرے آنسو پگھلنے لگتے ہیں

      تم سے مل کر مجھے یہ علم ہوا

      کتنا نازُک وفا کا پہلو ہے

      میں نے اکثر ہوا کی آہٹ میں

      جس کی دستک سنی ہے وہ تو ہے

      جس نے مُبہم کئے ہیں سب منظر

      تو میری آنکھ کا وہ آنسو ہے


      Comment


      • میں اس کا سوتیلا پیار

        گرہ


        لوٹنے والا لوٹ آیا ہے
        سارے شکوے بھول چکے ہیں
        ہم دونوں پھر پہلے والے میت ہوئے ہیں
        لیکن اب وہ میرے دکھ پر افسردہ ہو
        یا میری خوشیوں پر خوش ہو
        تو لگتا ہے
        میں اس کا سوتیلا دکھ ہوں
        میں اس کا سوتیلا پیار


        Comment


        • چلو چھوڑو

          چلو چھوڑو!
          محبت جھوٹ ہے
          عہدِ وفا اِک شغَل ہے بے کار لوگوں کا
          ’’طَلَب ‘‘ سوکھے ہوئے پتوں کا بے رونق جزیرہ ہے
          ’’ خلش ‘‘ دیمک زدہ اوراق پر بوسیدہ سطروں کا ذخیرہ ہے
          ’’ خُمارِ وصل ‘‘ تپتی دھوپ کے سینے پہ اُڑتے بادلوں کی رائیگاں بخشش!
          ’’ غبارِ ہجر ‘‘ صحرا میں سَرابوں سے اَٹے موسم کا خمیازہ

          چلو چھوڑو!
          کہ اب تک میں اندھیروں کی دھمک میں سانس کی ضربوں پہ
          چاہت کی بنا رکھ کر سفر کرتا رہا ہوں گا
          مجھے احساس ہی کب تھا
          کہ تُم بھی موسموں کے ساتھ اپنے پیرہن کے
          رنگ بدلوگی!

          چلو چھوڑو!
          وہ سارے خواب کچّی بھُر بھُری مٹی کے بے قیمت گھروندے تھے
          وہ سارے ذائقے میری زباں پر زخم بن کر جم گئے ہوں گے
          تمہارے اُنگلیوں کی نرم پوریں پتھروں پر نام لکھتی تھیں میرا لیکن
          تمہاری اُنگلیاں تو عادتاً یہ جُرم کرتی تھیں

          چلو چھوڑو!
          سفر میں اجنبی لوگوں سے ایسے حادثے سرزد ہوا کرتے ہیں
          صدیوں سے

          چلو چھوڑو!
          میرا ہونا نہ ہونا اِک برابر ہے
          تم اپنے خال و خد کو آئینے میں پھر نکھرنے دو
          تم اپنی آنکھ کی بستی میں پھر سے اِک نیا موسم اُترنے دو!
          ’’ میرے خوابوں کو مرنے دو ‘‘
          نئی تصویر دیکھو
          پھر نیا مکتوب لکھّو
          پھر نئے موسم نئے لفظوں سے اپنا سلسلہ جوڑو
          میرے ماضی کی چاہت رائیگاں سمجھو
          میری یادوں سے کچّے رابطے توڑو

          چلو چھوڑو
          محبت جھوٹ ہے
          عہدِ وفا اِک شَغل ہے بے کار لوگوں کا


          Comment


          • Re: میں اس کا سوتیلا پیار

            wah bht khoob janab :)

            Comment


            • Re: شہر ذات سے اقتباس

              zabardust...........

              Comment


              • رات کی رانی

                رات کی رانی کی خوشبو سے کوئی یہ کہدے
                آج کی شب نہ مرے پاس آئے
                آج تسکینِ مشامِ جاں کو
                دل کے زخموں کی مہک کافی ہے
                یہ مہک،آج سرِشام ہی جاگ اُٹھی ہے
                اب یہ بھیگی ہُوئی بوجھل پلکیں
                اور نمناک ،اُداس آنکھیںلیے
                رت جگا ایسے منائے گی کہ خود بھی جاگے
                اور پَل بھر کے لیے،میں بھی نہ سونے پاؤں
                دیومالائی فسانوں کی کسی منتظرِ
                موسمِ گل راجکماری کی خزاں بخت،
                دُکھی رُوح کی مانند بھٹکنے کے لیے
                کُو بہ کُو ابرِ پریشاں کی طرح جائے گی
                دُورافتادہ سمندر کے کنارے بیٹھی
                پہروں اُس سمت تکے گی جہاں سے اکثر
                اُس کے گم گشتہ جزیروں کی ہَواآتی ہے!
                گئے موسم کی شناسا خوشبو
                یوں رگ وپے میں اُترتی ہے
                کہ جیسے کوئی چمکیلا،رُوپہلاسیال
                جسم میں ایسے سرایت کرجائے
                جیسے صحراؤں کی شریانوں میں پہلی بارش!
                غیر محسوس سروشِ نکہت
                ذہن کے ہاتھ میں وہ اِسم ہے
                جس کی دستک
                یاد کے بند دریچوں کوبڑی نرمی سے
                ایسے کھولے گی کہ آنگن میرا
                ہردریچے کی الگ خوشبو سے
                رنگ دررنگ چھلک جائے گا
                یہ دلاویز خزانے میرے
                میرے پیاروں کی عطا بھی ہیں
                مرے دل کی کمائی بھی ہیں
                ان کے ہوتے ہُوئے اوروں کی کیا ضرورت ہے
                رات کی رانی کی خوشبو سے کوئی یہ کہدے
                آج کی شب نہ میرے پاس آئے


                Comment


                • محبت اک نازک سی لڑکی ہے

                  تمہیں یہ کس نے کہہ دیا آخر کہ
                  ریسٹورنٹ کے نیم تاریک گوشے میں
                  بیٹھ کر مدھم سرگوشیوں میں
                  مسکراتے لبوں سے بات کرنا
                  اور آئس کریم کے کپ میں چمچ ہلاتے ہوئے
                  خواہشِ دل کو زباں پہ لے آنا محبت ہے؟

                  تمہین یہ کس نے کہہ دیا آخر کہ
                  جائز و ناجائز کے فلسفے کا عصا تھامے
                  اخلاقیات کی اپنی کسوٹی بنائے
                  جو از حد و بے حد کی دیوار سمائے
                  بلا دستک بے روح مکان جسم میں در آنا محبت ہے؟

                  بلکہ محبت تو دور دراز کے کسی
                  وحشی قبیلے میں
                  بسنے والی کوئی چالاک دیوی جو
                  تہماری انا کو اپنے طلسم سے
                  یوں قید کرتی ہے کہ
                  تم اپنا سارا زعم بھول جا تے ہو
                  محبت من کا سچا سودا ہے
                  جسے بازار میں بیچا نہیں کرتے
                  محبت اک نازک سی لڑکی ہے
                  جسے رُلایا نہیں کرتے
                  محبت کو یوں ضائع نہیں کرتے



                  Comment


                  • تمہیں وعدے کی سُولی پر چڑھایا ہے


                    تمہارے جی میں جو آئے، وہ کہہ ڈالو
                    تمہیں مجھ سے شکائت ہے
                    تمہیں مجھ سے محبت کر کے پچھتاوا بہت ہے
                    تمہارے خواب ٹُوٹے ہیں
                    تمہارے راستے کو میں نے کاٹا ہے
                    تمہیں میں نے اذیّت ناک لمحوں سے گزارا ہے
                    تمہیں وعدے کی سُولی پر چڑھایا ہے
                    تمہیں میں نے ستایا ہے
                    تمہیں میں نے رُلایا ہے
                    تمہیں مجھ سے محبت کر کے پچھتاوا بہت ہے
                    تمہیں مجھ سے یہ کہتے تھے
                    محبت کرنے والے تو شکائت ہی نہیں کرتے
                    وہ تِتلی کی طرح پھولوں کی چاہت میں
                    ہلاکت خیز لمحوں سے گزرتے ہیں
                    مگر وہ شکر کرتے ہیں
                    کوئی پوچھے تو کہتے ہیں، کہ اچھے ہیں
                    ہمیں کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں ہم کو
                    تمہیں مجھ سے یہ کہتے ہو
                    تمہیں مجھ سے محبت کر کے پچھتاوا بہت ہے
                    تمہارے سینے میں لاوا بہت ہے
                    تمہارے جی میں جو آئے، وہ کہہ ڈالو
                    تمہیں یہ حق پہنچتا ہے
                    تمہیں میں نے رُلایا ہے
                    تمہیں وعدے کی سُولی پر چڑھایا ہے



                    Comment


                    • کھڑکی کے شیشوں سے بوچھاڑ ٹکرا رہی ہے


                      بہت تیز بارش ہے
                      کھڑکی کے شیشوں سے بوچھاڑ ٹکرا رہی ہے
                      اگر میز سے سب کتابیں ہٹا دوں تو چائے کے برتن رکھے جا سکیں گے

                      یہ بارش بھی کیسی عجب چیز ہے
                      یوں بیک وقت دل میں خوشی اور اداسی کسی اور شے سے کہاں
                      تم جو آؤ تو کھڑکی سے بارش کو اک ساتھ دیکھیں
                      ابھی تم جو آؤ تو میں تم سے پوچھوں کہ دل میں خوشی اور اداسی
                      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر جانتی ہوں کہ تم کیا کہو گے

                      مری جان
                      اک چیز ہے تیز بارش سے بھی تند
                      جس سے بیک وقت ملتی ہے دل کو خوشی اور اداسی
                      محبت

                      مگر تم کہاں ہو؟
                      یہاں سے وہاں رابطے کا کوئ بھی وسیلہ نہیں ہے
                      بہت تیز بارش ہے اور شام گہری ہوئ جا رہی ہے
                      نجانے تم آؤ نہ آؤ
                      میں اب شمع دانوں میں شمعیں جلا دوں
                      کہ آنکھیں بجھا دوں؟


                      Comment


                      • اداس شام کی ایک نظم

                        اداس شام کی ایک نظم

                        وصال ُرت کی یہ پہلی دستک ہی سرزنش تھی
                        کہ ہجر موسم نے رستے رستے سفر کا آغاز کیا
                        تمہارے ہاتھوں کا لمس جب میری وفا کی ہتھیلوں پر حنا بنے گا
                        تو سوچ لوں گی
                        رفاقتوں کا سنہرا سورج غروب کے امتحان میں
                        ہمارے باغوں سے گر کبھی تتلیوں کی خوشبو نہ گزر پائے تو یہ نہ کہنا کہ تتلیوں نے گلاب رستے بدل لیے ہیں
                        اگر کوئی شام یوں بھی آئے کے ہم تم لگے پرائے
                        تو جان لینا
                        کہ شام بے بس تھی شب کی تاریکیوں کے ہاتھوں
                        تمہاری خواہش کی مٹھیاں بے دھانیوں میں کبھی کھلیں تو یقین کرنا
                        کہ میری چاہت کے جگنوؤں نے
                        تمھارے ہاتھوں کے لمس تازہ کی خوہشوں میں
                        بڑے گھنیرے اندھیرے کاٹے
                        مگر یہ خدشے ، یہ وسوسے تو تکلفاًَ ہیں

                        ہم اپنے جذبوں کو منجمدرائیگانیوں کے سپرد کر کے
                        یہ سوچ لے گے
                        کہ ہجر موسم تو وصل کی پہلی شام سے ہی
                        سفر کا آغاز کر چکا تھا

                        نوشی گیلانی



                        Comment


                        • انا

                          انا

                          انا کے ساتھ کچھ لمحے بتانا ٹھیک ہے لیکن
                          انا کے ساتھ سب لمحے بتانا سخت مشکل ہے
                          کماں میں اس کی تیروں کا ذخیرہ کم نہیں ہوتا
                          خطا اس کا نشانہ ہو
                          یہ ممکن ہی نہیں جاناں!
                          انا کے ہاتھ سے ٹوٹے ہوئے تارے
                          کبھی جڑتے نہیں دیکھے
                          سمندر کے کنارے جس طرح ملتے نہیں دیکھے
                          انا کے ساتھ کچھ لمحے بتانا ٹھیک ہے لیکن
                          انا کے ساتھ سب لمحے بتانا سخت مشکل ہے



                          Comment


                          • تم میرے معیار پر پوری نہیں اترتی

                            بہت عرصے سے میں تلاش میں تھی

                            ایک مخلص دوست کی

                            جو بھرم رکھ سکے ان سب باتوں کا

                            جو لفظ دوستی میں محفوظ ہیں

                            جیسے

                            سمندر کی گہرائی

                            کرن سا اجلا پن

                            مگر میں تلاش کے سفر میں رہی

                            کوئی میرے معیار پر پورا نہ اترا

                            پھر یوں ہوا کہ اچانک

                            مجھے گہرا اجلا سا اک شخص ملا

                            میں نے اس سے کہا

                            مجھ سے دوستی کرلو!!

                            مگر

                            اس نے آشکار کر دی مجھ پر

                            میری حقیقت

                            یہ کہہ کر کہ

                            تم میرے معیار پر پوری نہیں اترتی

                            اورمیں۔۔۔

                            میں تلاش کے سفر میں رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔


                            Comment


                            • سُنو، اک بات مانو گے؟

                              کئی برسوں سے جس پل کو
                              میں دل کی جھیل کی تہہ میں
                              سُلا کے بُھول بیٹھی تھی
                              وہی پل جاگ اُٹھا تو، کنول بن کر چمک اُٹھا
                              میں چونک اُٹھی کہ یہ سب کس طرح سے ہو گیا یکدم
                              وہ پل جاگا تو جیسے خون کی ساری ہی شریانیں
                              کسی نے کھینچ کر رکھ دیں
                              لگا پانی کا رستہ بُھول کر مچھلی نے گویا چُن لیا صحرا
                              بغاوت کا ارادہ کر لیا سانسوں کے طوفاں نے
                              یہ دھڑکن گُنگُنا اُٹھی
                              لگا پیروں سے لے کے سر تلک شعلے بھڑک اُٹھے
                              لہو کی ساری بوندوں نے سُلگنے کی قسم کھا لی
                              پِگھلتا ہی گیا جذبوں کا سونا موم کی صورت
                              ان آنکھوں میں محبت کے ہزاروں دِیپ جل اُٹھے
                              میری چُندھیا گئی پلکیں
                              تھکا ماندہ نظر آیا فلک کا چاند آخرکار
                              ستارے پڑ گئے مدھم
                              سُنو، اک بات مانو گے؟
                              تم اپنی ساری چاہت کو میری جاگیر کر ڈالو
                              وفا ہوں میں، مجھے پیروں کی تم زنجیر کر ڈالو
                              مجھے اب خواب سے تعبیر کر ڈالو


                              Comment


                              • Bas aik andaza

                                BAS AIK ANDAZA

                                Baras guzry tmhen soye huy..
                                Uth jao..sunti ho..uth jao..
                                Myn aaya hun..
                                Myn andazy sy smjha hun..
                                Yahan soi hui ho tm..
                                Yahan..roo-e-zameen k..is muqam-e-aasmani tar ki hd men..
                                Baad hay-e-tund ny..
                                Mery liye bs ik andaza he chhoda hy..

                                (John Elia)


                                Comment

                                Working...
                                X