Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

~~ Where there is love there is life ~~ collection from the painful heart of pErIsH_BoY .>>>>>>

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Re: GuriYa Aao sajan sy milwaoN......!!

    Awsome collection . Love it

    Comment


    • Re: GuriYa Aao sajan sy milwaoN......!!

      Hummm Nice Collection...... :)
      :sad Ak Jhoota Lafz Mohabbat Ka ..

      Comment


      • Re: GuriYa Aao sajan sy milwaoN......!!

        [MENTION=3]Aanchal[/MENTION]


        Comment


        • "merey phool... merey kaantey"

          کانٹوں کا اِک مکان مرے پاس رہ گیا


          کانٹوں کا اِک مکان مرے پاس رہ گیا
          اِک پھُول سا نشان مرے پاس رہ گیا

          سامان تو نے رکھ لیا جاتے ہوئے تمام
          لیکن ترا دھیان مرے پاس رہ گیا

          جاتے ہوئے یقین کی دولت وہ لے گیا
          اِک وہم اور گُمان مرے پاس رہ گیا

          سُورج چلا گیا مجھے صحرا میں چھوڑ کے
          کرنوں کا سائباں مرے پاس رہ گیا

          ہم کو بھُلانے پر ہے کہاں اُس کو اختیار
          کتنا حسیں گُماں مرے پاس رہ گیا

          فاخرہ بتول



          Comment


          • Re: "merey phool... merey kaantey"

            آج روٹھے ہوئے ساجن کو بہت یاد کیا


            آج روٹھے ہوئے ساجن کو بہت یاد کیا
            اپنے اجڑے ہوئے گلشن کو بہت یاد کیا

            جب کبھی گردش تقدیر نے گھیرا ہے مجھے
            گیسوئے یار کی الجھن کو بہت یاد کیا

            شمع کی جوت پہ جلتے ہوئے پروانے نے
            اک ترے شعلہء دامن کو بہت یاد کیا

            جس کے ماتھے پہ نئی صبج کا جھومر ہوگا
            ہم نے اس وقت کی دولھن کو بہت یاد کیا

            آج ٹوٹے ہوئے سپنوں کی بہت یاد آئی
            آج بیتے ہوئے ساون کو بہت یاد کیا

            ہم سر طور بھی مایوس تجلّی ہی رہے
            اس در یار کی چلمن کو بہت یاد کیا

            مطمئن ہو ہی گئے دام قفس میں ساغر
            ہم اسیروں نے نشیمن کو بہت یاد کیا

            • — — — — — — — — — — — — •


            Comment


            • Re: "merey phool... merey kaantey"

              اے عشق ہمیں برباد نہ کر



              اے عشق ہمیں برباد نہ کر

              اے عشق نہ چھیڑ آ آ کے ہمیں، ہم بھولے ہوؤں کو یاد نہ کر
              پہلے ہی بہت ناشاد ہیں ہم، تُو اور ہمیں ناشاد نہ کر
              قسمت کا ستم ہی کم نہیں کچھ، یہ تازہ ستم ایجاد نہ کر
              یوں ظلم نہ کر، بیداد نہ کر
              اے عشق ہمیں برباد نہ کر

              جس دن سے ملے ہیں دونوں کا، سب چین گیا، آرام گیا
              چہروں سے بہارِ صبح گئی، آنکھوں سے فروغِ شام گیا
              ہاتھوں سے خوشی کا جام چُھٹا، ہونٹوں سے ہنسی کا نام گیا
              غمگیں نہ بنا، ناشاد نہ کر
              اے عشق ہمیں برباد نہ کر

              راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتے ہیں، رو رو کے دعائیں کر تے ہیں
              آنکھوں میں تصور، دل میں خلش، سر دُھنتے ہیں آہیں بھرتے ہیں
              اے عشق، یہ کیسا روگ لگا، جیتے ہیں نہ ظالم مرتے ہیں
              یہ ظلم تو اے جلاد نہ کر
              اے عشق ہمیں برباد نہ کر

              یہ روگ لگا ہے جب سے ہمیں، رنجیدہ ہوں میں بیمار ہے وہ
              ہر وقت تپش، ہر وقت خلِش، بے خواب ہوں میں، بیدار ہے وہ
              جینے سے ادھر بیزار ہوں میں، مرنے پہ اُدھر تیار ہے وہ
              اور ضبط کہے فریاد نہ کر
              اے عشق ہمیں برباد نہ کر

              جس دن سے بندھا ہے دھیان ترا، گھبرائے ہوئے سے رہتے ہیں
              ہر وقت تصور کر کر کے شرمائے ہوئے سے رہتے ہیں
              کمہلائے ہوئے پھولوں کی طرح کمہلائے ہوئے سے رہتے ہیں
              پامال نہ کر، برباد نہ کر
              اے عشق ہمیں برباد نہ کر

              بے درد، ذرا انصاف تو کر، اس عمر میں اور مغموم ہے وہ
              پھولوں کی طرح نازک ہے ابھی، تاروں کی طرح معصوم ہے وہ
              یہ حسن، ستم، یہ رنج، غضب، مجبور ہوں میں، مظلوم ہے وہ
              مظلوم پہ یوں بیداد نہ کر
              اے عشق ہمیں برباد نہ کر

              اے عشق خدارا دیکھ کہیں، وہ شوخ حزیں بدنام نہ ہو
              وہ ماہ لقا بدنام نہ ہو، وہ زہرہ جبیں بدنام نہ ہو
              ناموس کا اس کے پاس رہے، وہ پردہ نشیں بدنام نہ ہو
              اس پردہ نشیں کو یاد نہ کر
              اے عشق ہمیں برباد نہ کر

              امید کی جھوٹی جنت کے، رہ رہ کے نہ دِکھلا خواب ہمیں
              آئندہ کی فرضی عشرت کے، وعدوں سے نہ کر بے تاب ہمیں
              کہتا ہے زمانہ جس کو خوشی، آتی ہے نظر کمیاب ہمیں
              چھوڑ ایسی خوشی کو یاد نہ کر
              اے عشق ہمیں برباد نہ کر

              کیا سمجھے تھےاور تو کیا نکلا، یہ سوچ کے ہی حیران ہیں ہم
              ہے پہلے پہل کا تجربہ اور کم عمر ہیں ہم، انجان ہیں ہم
              اے عشق، خدارا رحم و کرم، معصوم ہیں ہم، نادان ہیں ہم
              نادان ہیں ہم، ناشاد نہ کر
              اے عشق ہمیں برباد نہ کر

              وہ راز ہے یہ غم آہ جسے، پا جائے کوئی تو خیر نہیں
              آنکھوں سےجب آنسو بہتے ہیں، آ جائے کوئی تو خیر نہیں
              ظالم ہے یہ دنیا، دل کو یہاں، بھا جائے کوئی تو خیر نہیں
              ہے ظلم مگر فریاد نہ کر
              اے عشق ہمیں برباد نہ کر

              دو دن ہی میں عہدِ طفلی کے، معصوم زمانے بُھول گئے
              آنکھوں سےوہ خوشیاں مِٹ سی گئیں، لب کو وہ ترانے بُھول گئے
              ان پاک بہشتی خوابوں کے، دلچسپ فسانے بُھول گئے
              ان خوابوں سے یوں آزاد نہ کر
              اے عشق ہمیں برباد نہ کر

              اس جانِ حیا کا بس نہیں کچھ، بے بس ہے پرائے، بس میں ہے
              بے درد دلوں کو کیا ہے خبر، جو پیار یہاں آپس میں ہے
              ہے بے بسی زہر اور پیار ہے رس، یہ زہر چھپا اس رس میں ہے
              کہتی ہے حیا فریاد نہ کر
              اے عشق ہمیں برباد نہ کر

              آنکھوں کو یہ کیا آزار ہوا، ہر جذبِ نہاں پر رو دینا
              آہنگِ طرب پر جُھک جانا، آواز فغاں پر رو دینا
              بربط کی صدا پر رو دینا، مُطرب کے بیاں پر رو دینا
              احساس کو غم بنیاد نہ کر
              اے عشق ہمیں برباد نہ کر

              ہر دم ابدی راحت کا سماں دِکھلا کے ہمیں دلگیر نہ کر
              للہ، حبابِ آبِ رواں پر نقش بقا تحریر نہ کر
              مایوسی کے رمتے بادل پر امید کے گھر تعمیر نہ کر
              تعمیر نہ کر، آباد نہ کر
              اے عشق ہمیں برباد نہ کر

              جی چاہتا ہے اِک دوسرے کو یوں آٹھ پہر ہم یاد کریں
              آنکھوں میں بسائیں خوابوں کو اور دل میں خیال آباد کریں
              خِلوت میں بھی ہوجلوت کا سماں، وحدت کو دوئی سےشاد کریں
              یہ آرزوئیں ایجاد نہ کر
              اے عشق ہمیں برباد نہ کر

              دنیا کا تماشا دیکھ لیا، غمگین سی ہے، بے تاب سی ہے
              امید یہاں اِک وہم سی ہے، تسکین یہاں اِک خواب سی ہے
              دنیا میں خوشی کا نام نہیں، دنیا میں خوشی نایاب سی ہے
              دنیا میں خوشی کو یاد نہ کر
              اے عشق ہمیں برباد نہ کر

              اختر شیرانی


              • — — — — — — — — — — — — •




              Comment


              • Re: "merey phool... merey kaantey"

                سای گل میں رہوں محوِ خراماں ہمدم



                سای گل میں رہوں محوِ خراماں ہمدم
                رنگ سرمایہ ہے خوشبو مرا ساماں ہمدم

                خامشی چیختی رہتی ہے مرے اندر ہی
                کر نہیں پاتی سخن تجھ سے مری جاں ہمدم

                میں تری راہ بھی دیکھوں تو کہاں تک دیکھوں؟
                نہ کوئی وعدہ مرے پاس نہ پیماں ہمدم؟

                ہاں! کبھی تجھ کو بتائیں گے ہمیں دکھ کیا ہے
                ہاں! دکھا دیں گے کبھی زخمِ دل و جاں ہمدم

                میرے دل کی یہ زمیں خشک نہ ہو جائے کہیں
                اس لیے رکھتی ہوں تر دید و داماں ہمدم

                رازِ ہستی میں سمجھ ہی نہیں پائی اب تک
                کس طرح پھر میں کروں خود کو نمایاں ہمدم؟

                مجھ کو مرغوب ہیں تنہائیاں میری ناہید
                مجھ کو بھاتا نہیں اب مجمعِ یاراں ہمدم



                ناہید ورک
                • — — — — — — — — — — — — •


                Comment


                • Re: "merey phool... merey kaantey"

                  ہوئی ہیں گویا گلاب آنکھیں



                  ہوئی ہیں گویا گلاب آنکھیں
                  ہیں مانگیں مجھ سے حساب آنکھیں

                  ہیں دھانی جذبوں کی تانے چادر
                  بسی ہیں مجھ میں جو خواب آنکھیں

                  روانیِ بحر بھول جا!
                  جو دیکھ لو یہ چناب آنکھیں!

                  عجب ہے یہ دورِ آگہی بھی
                  سراب سورج سراب آنکھیں

                  یہی ہے تکمیلِ حسن ناہید
                  کہ زرد عارض، پر آب آنکھیں



                  ناہید ورک
                  • — — — — — — — — — — — — •


                  Comment


                  • Re: "merey phool... merey kaantey"

                    پچھلی رت کے شوخ زمانے یاد آئے


                    پچھلی رت کے شوخ زمانے یاد آئے
                    دل میں چبھتے خار سہانے یاد آئے

                    آج پھر ہم کو ترا ملنا یاد آیا
                    آج پھر کیا کیا نہ فسانے یاد آئے

                    شوخ ہواں کے آنچل میں تھم تھم کر
                    شام سے ہی درد پرانے
                    یاد آئے

                    بات چھڑی جب مہ خانے کی محفل میں
                    ان کی آنکھوں کے پیمانے یاد آئے

                    ایک تیرے نہ ہونے سے اس وقت ہم کو
                    نجانے کتنے زخم پرانے یاد آئے

                    برکھا رت میں پچھلے پہر ناہید تجھے
                    کس کے بھولے لہجے سہانے یاد آئے


                    ناہید ورک
                    • — — — — — — — — — — — — •


                    Comment


                    • Re: "merey phool... merey kaantey"

                      کھل رہی ہے رفتہ رفتہ زلف شام یاد پھر



                      کھل رہی ہے رفتہ رفتہ زلف شام یاد پھر
                      ڈوبتا ہے اس اندھیرے میں دل برباد پھر

                      اپنے اپنے انتخاب آرزو کی بات ہے
                      شاد ہوتا ہے کوئی دل اور کوئی ناشاد پھر

                      گہرے نیلے جنگلوں سے گھوم کر نکلے تو تھا
                      سامنے اک قریۂ بے خواب و بے آباد پھر

                      رَم بہت کرنے لگا ہے یہ غزالِ آرزو
                      پھیلتا جاتا ہے آنکھوں میں وہ دشتِ یاد پھر

                      اس قدر نالاں وہ گر الفت کی یکسانی سے ہے
                      کس لیے ہوتا نہیں اس قید سے آزاد پھر

                      سیم سی اک پھیلتی جاتی ہے دیواروں پہ کیوں
                      بھر گئی تعبیر سے کیا خواب کی بنیاد پھر

                      بات تک کرنے کو گر اس شہر میں کوئی نہیں
                      کون سنتا ہے دلِ بیمار کی فریاد پھر

                      نیند میں چلنے لگی بھیگی ہوئی ٹھنڈی ہَوا
                      خواب کے ہمراہ آئی اک پرانی یاد پھر

                      تن کو چھوتی ہیں کچھ ایسے فروری کی بارشیں
                      یہ خرابہ ہونے والا ہے ابھی آباد پھر

                      سامنے ہے پھر سے رنگا رنگ پھولوں کی بہار
                      دے رہی ہوں اپنے باغِ آرزو کو داد پھر


                      ثمینہ راجا
                      • — — — — — — — — — — — — •


                      Comment


                      • Re: "merey phool... merey kaantey"

                        سنا ہے شہر والوں سے میرا ساحر نہیں بدلہ





                        سنا ہے شہر والوں سے میرا ساحر نہیں بدلہ
                        کے وہ آنکھیں نہیں بدلیں کے وہ پیکر نہیں بدلہ

                        حسین آنکھوں کو پڑھنے کے ابھی تک شوق ہیں مجھ کو
                        محبت میں اجڑ کر بھی میرا اندر نہیں بدلہ

                        میں پتھر سے ہوئی ہیرا مجھے ایسا تراشا ہے
                        بدل ڈالا مجھے لیکن میرا آذَر نہیں بدلہ

                        میں پہروں سوچتی ہوں یہ جو مجھ کو بھول بیٹھا وہ
                        سبب ناجانے کیا ہوگا ، وہ کچھ کہہ کر نہیں بدلہ

                        بھٹکی شام سے کہنا پُرانے در دریچے ہیں
                        اکیلی رات سے کہہ دو ہمارا گھر نہیں بدلہ

                        میری قسمت نے جو لکھا زخم آخر نہیں بدلہ
                        فقط بازو ہی بدلے ہیں مگر نشتر نہیں بدلہ

                        اسے کہنا شکستہ ذات ہونے سے محبت مر نہیں جاتی
                        آئینے ٹوٹ جانے سے کبھی منظر نہیں بدلہ

                        تمھارے دائروں میں اک عمر سے محو گردش ہوں
                        میرا مرکز نہیں بدلہ میرا محور نہیں بدلہ

                        میری جان ڈوب کے ابھری ہے میری سانس بھی جیسے
                        میرا ماتم نہیں بدلہ میرا مہشر نہیں بدلہ

                        سنا ہے آج بھی سب لوگ اسے ہی سجدہ کرتے ہیں
                        ماتھے ہی بدلتے ہیں مگر وہ ڈر نہیں بدلہ

                        ابھی تک اپنے لفظوں سے وہ بازی جیتا جاتا ہے
                        وہی انداز ہیں اس کے . . . . میرا شطیر نہیں بدلہ


                        • — — — — — — — — — — — — •


                        Comment


                        • Re: "merey phool... merey kaantey"

                          گُریز شب سے، سحر سے کلام رکھتے تھے



                          گُریز شب سے، سحر سے کلام رکھتے تھے
                          کبھی وہ دن تھے کہ زُلفوں میں شام رکھتے تھے

                          تمھارے ہاتھ لگے ہیں تو جو کرو سو کرو
                          وگرنہ تم سے تو ہم سو غلام رکھتے تھے

                          ہمیں بھی گھیر لیا گھر زعم نے تو کھُلا
                          کُچھ اور لوگ بھی اِ س میں قیام رکھتے تھے

                          یہ اور بات ہمیں دوستی نہ راس آئی
                          ہُوا تھی ساتھ تو خُوشبو مقام رکھتے تھے

                          نجانے کون سی رُت میں بھچڑ گئے وہ لوگ
                          جو اپنے دل میں بہت احترام رکھتے تھے

                          وہ آ تو جاتا کبھی ، ہم تو اُس کے رستوں پر
                          دئے جلائے ہوئے صبح و شام رکھتے تھے


                          نوشی گیلانی
                          • — — — — — — — — — — — — •


                          Comment


                          • Re: "merey phool... merey kaantey"

                            وفا کا درس کبھی خود کو بےوفا دیتا



                            وفا کا درس کبھی خود کو بےوفا دیتا
                            دل اس کو پیار کے جذبوں کی انتہا دیتا

                            وفا نہ کرتا محبت کا کوئی بھی وعدہ
                            وہ چشم ِنم میں کوئی خواب ہی جگا دیتا

                            تمام لفظ مری شاعری کے بج اٹھتے
                            وہ بھول کر جو مرے شعر گنگنا دیتا

                            کوئی خوشی مجھے دینی تھی خیر کیا اس نے
                            مجھے وہ جینے کا تھوڑا سا حوصلہ دیتا

                            وہ میرا ساتھ نبھائے گا ، لوٹ آئے گا
                            میں مان لیتی اگر آکے وہ بتا دیتا


                            فاخرہ بتول
                            • — — — — — — — — — — — — •


                            Comment


                            • Re: "merey phool... merey kaantey"


                              جب سے واقف میں ہوئی ہوں کسی ہرجائی سے



                              جب سے واقف میں ہوئی ہوں کسی ہرجائی سے
                              تب سے محروم ہیں لب، قوتِ گویائی سے

                              وہ محبت سے بچا لیتے ہیں دامن اکثر
                              خوف کھاتے ہیں جو اُس راہ کی رسوائی سے

                              پی لیا زہر، اصولوں کو نیا خون دیا
                              کس قدر عشق تھا سقراط کو سچائی سے

                              جب سے رنگین ہوئیں اُنگلیاں اپنی، تب سے
                              ڈر سا لگتا ہے گلابوں کی پذیرائی سے

                              کوئی پوچھے کہ ہے کیا تم سے تعلق میرا
                              اُس کو بتلا دو، جو آنکھوں کا ہے بینائی سے

                              اے بتول اپنے تقدس کی تھیں کلیاں بھی گواہ
                              سارے الزام ملے اُس کی شناسائی سے


                              فاخرہ بتول
                              • — — — — — — — — — — — — •


                              Comment


                              • Re: "merey phool... merey kaantey"

                                پتّوں کی طرح شاخ پہ مرنا پڑا مجھے



                                پتّوں کی طرح شاخ پہ مرنا پڑا مجھے
                                موسم کے ساتھ ساتھ گزرنا پڑا مجھے

                                اک شخص کے سلوک کی سب کو سزا ملی
                                ساری محبتوں سے مکرنا پڑا مجھے

                                اُس سے بچھڑ کے زندگی آسان تو نہیں
                                پھر بھی یہ تلخ فیصلہ کرنا پڑا مجھے

                                کچھ دن تو میں چٹان کی صورت ڈٹی رہی
                                پھر ریزہ ریزہ ہو کے بکھرنا پڑا مجھے

                                آساں نہیں تھا ٹوٹتی سانسوں کو جوڑنا
                                اس سلسلے میں جاں سے گزرنا پڑا مجھے

                                ویسے میں اپنے آپ سے ناراص تھی قمر
                                اس نے کہا تو بننا سنورنا پڑا مجھے


                                ریحانہ قمر
                                • — — — — — — — — — — — — •


                                Comment

                                Working...
                                X