Re: Mara Intekhaab
چاند کے تمنائی
شہر دل کی گلیوں میں
شام سے بھٹکتے ہیں
چاند کے تمنائی
بے قرار سودائی
دل گداز تاریکی
جان گداز تنہائی
روح جاں کو ڈستی ہے
روح جاں میں بستی ہے
شہر دل کی گلیوں میں
تاک شب کی بیلوں پر
شبنمیں سر شکوں کی
بے قرار لوگوں نے
بے شمار لوگوں نے
یادگار چھوری ہے
اتنی بات تھوڑی ہے؟
۔
۔
۔
صد ہزار باتیں تھیں
حبلہ شکیبائی
صورتوں کی زیبائی
قامتوں کی رعنائی
ان سیاہ راتوں میں
اک بھی نہ یاد آئی
جا بجا بھٹکتے ہیں
کس کی راہ تکتے ہیں
چاند کے تمنائی
یہ نگر کبھی پہلے
اس قدر نہ ویراں تھا
کہنے والے کہتے ہیں
قریہ نگاراں تھا
خیر اپنے جینے کا
یہ بھی ایک ساماں تھا
۔
۔
۔
۔
آج دل میں ویرانی
ابر بن کے گھر ائی
اج دل کو کیا کہیے
باو فا نہ ھرجائی
پھر بھی لوگ دیوانے
اگئے ہیں سمجھانے
اپنی وحشت دل کے
بُن لیے ہیں افسانے
خوش خیال دنیا نے
گرمیاں تو جاتی ہیں
وہ رُتیں بھی آتی ہیں
جب ملول راتوں میں
دوستوں کی باتوں میں
جی نہ چین پائے گا
اور اُوب جائے گا
ابٹوں سے گونجے گی
شہر دل کی پہنائی
اور چاند راتوں میں
چاند کے شیدائی
ہر بہانے نکلیں گے
آزمانے نکلیں گے
ارزو کی گہرائی
ڈھونڈنے کو رسوائی
سرد راتوں کو
زرد چاند بخشے گا
بے حساب تنہائی
بے حجاب تنہائی
شہر دل کی گلیوں میں
ابن انشا ١٩٥٤
شہر دل کی گلیوں میں
شام سے بھٹکتے ہیں
چاند کے تمنائی
بے قرار سودائی
دل گداز تاریکی
جان گداز تنہائی
روح جاں کو ڈستی ہے
روح جاں میں بستی ہے
شہر دل کی گلیوں میں
تاک شب کی بیلوں پر
شبنمیں سر شکوں کی
بے قرار لوگوں نے
بے شمار لوگوں نے
یادگار چھوری ہے
اتنی بات تھوڑی ہے؟
۔
۔
۔
صد ہزار باتیں تھیں
حبلہ شکیبائی
صورتوں کی زیبائی
قامتوں کی رعنائی
ان سیاہ راتوں میں
اک بھی نہ یاد آئی
جا بجا بھٹکتے ہیں
کس کی راہ تکتے ہیں
چاند کے تمنائی
یہ نگر کبھی پہلے
اس قدر نہ ویراں تھا
کہنے والے کہتے ہیں
قریہ نگاراں تھا
خیر اپنے جینے کا
یہ بھی ایک ساماں تھا
۔
۔
۔
۔
آج دل میں ویرانی
ابر بن کے گھر ائی
اج دل کو کیا کہیے
باو فا نہ ھرجائی
پھر بھی لوگ دیوانے
اگئے ہیں سمجھانے
اپنی وحشت دل کے
بُن لیے ہیں افسانے
خوش خیال دنیا نے
گرمیاں تو جاتی ہیں
وہ رُتیں بھی آتی ہیں
جب ملول راتوں میں
دوستوں کی باتوں میں
جی نہ چین پائے گا
اور اُوب جائے گا
ابٹوں سے گونجے گی
شہر دل کی پہنائی
اور چاند راتوں میں
چاند کے شیدائی
ہر بہانے نکلیں گے
آزمانے نکلیں گے
ارزو کی گہرائی
ڈھونڈنے کو رسوائی
سرد راتوں کو
زرد چاند بخشے گا
بے حساب تنہائی
بے حجاب تنہائی
شہر دل کی گلیوں میں
ابن انشا ١٩٥٤
Comment