Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

! میری بیاض سے !

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #61
    Originally posted by aabi2cool View Post
    بہ پاسِ خاطرِ سرکار کیا نہیں کرتے


    ہیں دل فگار مگر دل بُرا نہیں کرتے



    غبارِ راہ سے آگے نکل گئے ہوتے
    جو رک کے پاؤں سے کانٹے جدا نہیں کرتے



    اب اور پاؤں نہ پھیلائے اس تھکن سے کہو
    کہ ہم سفر میں زیادہ رکا نہیں کرتے

    شکستِ شیشۂ دل کی صدا ہی سن لیتے

    وہ تُند خُو جو کسی کی سنا نہیں کرتے

    BOHAT KHOOBSURAT ASHAAR:rose
    Last edited by saraah; 19 March 2009, 15:31.
    شاہ حسین جیہناں سچ پچھاتا' کامل عِشق تیہناں دا جاتا

    Comment


    • #62
      آنکھوں کو التباس بہت دیکھنے میں تھے
      کل شب عجیب عکس میرے آئینے میں تھے

      ہربات جانتے ہوئے دل مانتا نہ تھا
      ہم جانے اعتبار کے کس مرحلے میں تھے

      وصل و فراق دونوں ہیں اک جیسے ناگزیر
      کچھ لُطف اسکے قرب میں، کچھ فاصلے میں تھے

      چھو لیں اسے کہ دور سے بس دیکھتے رہیں
      تارے بھی رات میری طرح مخمصے میں تھے

      جگنو، ستارے، آنکھ، صبا ، تتلیاں، چراغ
      سب اپنے اپنے غم کے کسی سلسلے میں تھے

      امجد کتابِ جان کو وہ پڑھتا بھی کس طرح
      لکھنے تھے جتنے لفظ ابھی حافظے میں تھے

      ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

      Comment


      • #63
        کوئی حالت نہیں یہ حالت ہے
        یہ تو آشوب ناک صورت ہے

        انجمن میں یہ میری خاموشی
        بردباری نہیں ہے وحشت ہے

        تجھ سے یہ گاہ گاہ کا شکوہ
        جب تلک ہے بسا غنیمت ہے

        خواہشیں دل کا ساتھ چھوڑ گئیں
        یہ اذیت بڑی اذیت ہے

        لوگ مصروف جانتے ہیں مجھے
        یاں مرا غم ہی میری فرصت ہے

        طنز پیرایہِ تبسم میں
        اس تکلف کی کیا ضرورت میں

        ہم نے دیکھا تو ہم نے یہ دیکھا
        جو نہیں ہے وہ خوبصورت ہے

        وار کرنے کو جانثار آئیں
        یہ تو ایثار ہے عنایت ہے

        گرمجو شی اور اس قدر کیا بات
        کیا تمھیں مجھ سے کچھ شکایت ہے

        اب نکل آؤ اپنے اندر سے
        گھر میں سامان کی ضرورت ہے

        ٓآج کا دن بھی عیش سے گزرا
        سر سے پا تک بدن سلامت ہے
        ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

        Comment


        • #64
          منتیں ہیں خیال کی تیرے
          خوب گزری ترے خیال کے ساتھ

          میں نے اک زندگی بسر کردی
          تیرے نادیدہ خدو خال کے ساتھ

          ------------------------------

          ساری عقل و ہوش کی آسائشیں
          تم نے سانچے میں جنوں کے ڈھال دیں

          کرلیا تھا میں نے عہدِ ترک ِ عشق
          تم نے پھر بانہیں گلے میں ڈال دیں

          ------------------------------

          دل میں جنکا نشان بھی نہ رہا
          کیوں نہ چہروں پہ اب وہ رنگ کھلیں

          اب تو خالی ہے روح جذبوں سے
          اب بھی کیا ہم تپاک سے نہ ملیں

          ------------------------------

          میرے اور اس کے درمیاں اب تو
          صرف اک روبرو کا رشتہ ہے

          ہائے وہ رشتہ ہائے خاموشی
          اب فقط جستجو کا رشتہ ہے
          ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

          Comment


          • #65

            Comment


            • #66

              Comment


              • #67
                Originally posted by Nazish huma View Post
                mujhe aap ki poetry bohat achi lagi... keep it up
                Originally posted by Nazish huma View Post
                jo rukay to koh-e-gara thy hum jo chaly to jan say guzar gaye..... Rah-e-yar hum nay qadam qadam tujhe yadgar bana diya
                bohat khoob aap ki pasandeedgi ka shukriya magar ye meri poetry naheen hy balk meri pasnd ka mukhtlif shora,a ka kalaam hy . . ..
                :salam:
                Last edited by aabi2cool; 28 March 2009, 13:57.
                ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                Comment


                • #68
                  Originally posted by aabi2cool View Post
                  انجمن میں یہ میری خاموشی
                  بردباری نہیں ہے وحشت ہے


                  خواہشیں دل کا ساتھ چھوڑ گئیں
                  یہ اذیت بڑی اذیت ہے

                  لوگ مصروف جانتے ہیں مجھے
                  یاں مرا غم ہی میری فرصت ہے




                  wahhhhh
                  شاہ حسین جیہناں سچ پچھاتا' کامل عِشق تیہناں دا جاتا

                  Comment


                  • #69
                    گرانئ شبِ ہجراں دو چند کیا کرتے
                    علاجِ درد ترے درد مند کیا کرتے

                    وہیں لگی ہے جو نازک مقام تھے دل کے
                    یہ فرق دستِ عدو کے گزند کیا کرتے

                    جگہ جگہ پہ تھے ناصح تو کُو بکُو دلبر
                    اِنھیں پسند، اُنھیں ناپسند کیا کرتے

                    ہمیں نے روک لیا پنجۂ جنوں ورنہ
                    ہمیں اسیر یہ کوتہ کمند کیا کرتے

                    جنھیں خبر تھی کہ شرطِ نواگری کیا ہے
                    وہ خوش نوا گلۂ قید و بند کیا کرتے

                    گلوئے عشق کو دارو رسن پہنچ نہ سکے
                    تو لوٹ آئے ترے سر بلند ، کیا کرتے !
                    ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                    Comment


                    • #70
                      سوکھے ہوئے کچھ پھول بھی گلدان میں رکھنا
                      ہے حسن کا انجام یہی دھیان میں رکھنا

                      پھر شوق سے مجرم مجھے گرداننا لیکن
                      انصاف کی مسند کھلے میدان میں رکھنا

                      ایسا نہ ہو پڑ جائے کہیں میری ضرورت
                      لازم نہ سہی پر اسے امکان میں رکھنا

                      حیرت کدہِ زیست سے کترا کے گزرنا
                      ہر عکس مگر دیدہِ حیران میں رکھنا

                      اک حکم کہ جس سے ہوئی سالار کو پھانسی
                      لازم تھا اسے عدل کی میزان میں رکھنا

                      تعبیر بتادے گا ترے خواب کی تجھ کو
                      اک یوسفِ کنعان کو زندان میں رکھنا

                      یہ کارِ وفا کیش کب آسان ہے اختر
                      آباد کسی کو دلِ ویران میں رکھنا

                      اختر عبدالرزاق
                      ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                      Comment


                      • #71

                        ہر قدم اک نئے آزار پہ رکھ دیتا ہوں
                        خار سے بچتا ہوں انگار پہ رکھ دیتا ہوں

                        پھول پھینکے کوئی دیوار کے پیچھے سے اگر
                        پھر اٹھا کر اسے دیوار پہ رکھ دیتا ہوں

                        جنگجو ایسا کہ خود ہارتا ہوں ہر بازی
                        اور الزام میں تلوار پہ رکھ دیتا ہوں

                        وہ جو اک بار چبھا تھا کبھی دل میں میرے
                        دل کو ہر بار اسی خار پہ رکھ دیتا ہوں

                        روز اک خواہشِ نو لے کے نکلتا ہوں مگر
                        پھر سلگتے ہوئے انبار پہ رکھ دیتا ہوں

                        حاکمِ شہر ہے اس بات پہ نالاں مجھ سے
                        میں جھکاتا نہیں سر، دار پہ رکھ دیتا ہوں

                        روز بِکتا ہوں ضرورت کے عوض میں اختر
                        اور قیمت بھی خریدار پہ رکھ دیتا ہوں

                        اختر عبدالرزاق
                        ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                        Comment


                        • #72
                          کچھ نہیں تھا پر یوں لگتا ہے کہ اب کچھ تو ہے
                          بے سبب اُس کو یوں تکنے کا سبب کچھ تو ہے

                          کچھ تو ہے جو مجھے بے چین کیے دیتا ہے
                          اس کے عارض ہیں ، کہ آنکھیں ہیں، کہ لب،کچھ تو ہے

                          میں نہیں کہتا مجھے اس سے محبت ہے مگر
                          جو بھی ہوتا ہے محبت میں وہ سب کچھ تو ہے

                          ایک آواز کہ صحرا سے بلاتی ہے مجھے
                          سوچتا ہوں یہ جنوں ہے کہ طلب، کچھ تو ہے

                          جب اندھیروں سے اجالوں کی کرن پھو ٹتی ہے
                          دل یہ کہتا ہے پسِ پردہِ شب، کچھ تو ہے

                          تم تو کہتے تھے سب انسان برابر ہیں یہاں
                          پھر یہ کیوں پوچھتے ہیں لوگ نسب ، کچھ تو ہے

                          سن رہے ہیں کہ ہے آزادیِ اظہار یہاں
                          پھر بھی پھرتے ہیں سبھی مہر بہ لب، کچھ تو ہے

                          اختر عبدالرزاق
                          Last edited by aabi2cool; 12 April 2009, 17:23.
                          ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                          Comment


                          • #73

                            Comment


                            • #74
                              غزل

                              سر کھپائیں نہ زمانے والے
                              ہم سمجھ میں نہیں آنے والے

                              بارِغم ، بارِجنوں ، بارِخرد
                              ہم تو ہیں بوجھ اٹھانےوالے

                              کیا کہیں جان کہاں ہاری تھی
                              کب یہ قصے ہیں سنانے والے

                              کبھی مجنوں ،کبھی فرہادہوئے
                              بستیاں چھوڑ کے جانے والے

                              ہم سے دیوانے کہاں ملتے ہیں
                              بات کرتے ہیں زمانے والے

                              عکس ٹھہرے ہیں تری دنیا کا
                              آئینوں سے نکل آنے والے

                              صبح سے شام کے بازار میں ہیں
                              موجِ خوں سے گزر آنے والے

                              یار لے آئے سجا کر پھر سے
                              تیغ پر زخم پرانے والے

                              دیکھ اے شمع شبستان وفا
                              جل اٹھے اشک بجھانے والے

                              اب وہ گیسو نہ پریشاں ہوں گے
                              اب وہ بادل نہیں چھانے والے

                              ہوشیار اے سگ ِکوئے جاناں
                              آ گئے ریچھ نچانے والے

                              عمر بھر حال فراموش رہے
                              حال فردا کا بتانے والے

                              دل کی دہلیز پہ رکتے ہی نہیں
                              نیند آنکھوں سے چرانے والے

                              آنکھ اک بار اٹھا کرتی ہے
                              پردہ چہرے سے اٹھانے والے

                              ایک کردار کے حامل نکلے
                              مرہم و زخم لگانے والے

                              دل پہ اک زخم بڑھا دیتے ہیں
                              روز احسان جتانے والے

                              گھر میں رہنا ہمیں دشوارہوا
                              اب کمانے لگے کھانے والے

                              کوئی باہر سے نہ آیا بابر
                              لٹ گئے گھر میں گھرانے والے

                              بابر جاوید
                              ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                              Comment


                              • #75
                                میں تیرے راگ سے اس طرح بھرا ہوں جیسے
                                کوئی چھیڑے تو اک نغمہ عرفاں بن جاؤں

                                ذہن ہر وقت ستاروں میں رہا کرتا ہے
                                کیا عجب مین بھی کوئی کرمکِ حیراں بن جاؤں

                                رازِ بستہ کو نشاناتِ خفی میں پڑھ لوں
                                واقفِ صورتِ ارواحِ بزرگاں بن جاؤں

                                دیکھنا اوجِ محبّت کہ زمیں کے اُوپر
                                ایسے چلتا ہوں کہ چاہوں تو سُلیماں بن جاؤں

                                میرے ہاتھوں میں دھڑکتی ہے شب و روز کی نبض
                                وقت کو روک کے تاریخ کا عنواں بن جاؤں

                                غم کا دعویٰ ہے کہ اس عالمِ سرشاری میں
                                جس قدر چاک ہو، اُتنا ہی گریباں بن جاؤں

                                تجھ کو اس شدّتِ احساس سے چاہا ہے کہ اب
                                ایک ہی بات ہے گلشن کہ بیاباں بن جاؤں

                                تو کسی اور کی ہو کر بھی مرے دل میں رہے
                                میں اجڑ کر بھی ہم آہنگ ِ بہاراں بن جاؤں


                                مصطفیٰ زیدی
                                ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                                Comment

                                Working...
                                X