Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

behtreen aqwaal

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Re: behtreen aqwaal

    ﺗﺎﺭﯾﺦﻣﯿﮟ 33 ﻓﺮﻋﻮﻥﮔﺰﺭﮮ ﮨﯿﮟ.
    ﻓﺮﻋﻮﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺼﺮ ﭘﺮ ﺗﯿﻦ ﮨﺰﺍﺭ ﺗﯿﻦ
    ﺳﻮﺳﺎﻝ ﺗﮏ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ..
    ﮨﺮﻓﺮﻋﻮﻥ ﮐﻮ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎ ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﺗﮏ
    ﺍﻗﺘﺪﺍﺭﻣﻼ ﺗﮭﺎ. ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻮﺳﯽﮐﮯ
    ﺳﺎﺗﮫﺁﺧﺮﯼ ﻓﺮﻋﻮﻥ ﮐﺎ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﮨﻮﺍ, ﯾﮧ
    ﭘﺎﻧﯽﻣﯿﮟ ﮈﻭﺑﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ
    ﮨﯽﻓﺮﻋﻮﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﻗﺘﺪﺍﺭ ﺑﮭﯽ ﮈﻭﺏ
    ﮔﯿﺎ.ﻓﺮﻋﻮﻥ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﯾﺖ ﻧﮯ
    ﺍﻥﻣﺤﻼﺕ ﮐﻮ ﮈﮬﺎﻧﭗ ﻟﯿﺎ. ﯾﮧ ﺭﯾﺖ
    ﮐﮯﭼﮭﻮﭨﮯ ﺑﮍﮮ ﭨﯿﻠﮯ ﺑﻦ ﮔﺌﮯ. ﺍﻥ ﭨﯿﻠﻮﮞﮐﮯ
    ﺍﺭﺩ ﮔﺮﺩ ﻟﮑﺴﺮ ﮐﺎ ﺷﮩﺮ ﺁﺑﺎﺩ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ . ﺍﻥ
    ﭨﯿﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﺍﯾﮏ ﭨﯿﻠﮯ ﭘﺮﺍﯾﮏ
    ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺳﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﺑﻨﺎ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ .1900
    ﮐﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﺪﺍﺋﯽﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺋﯽ
    ﻓﺮﻋﻮﻥ ﮐﺎ ﻣﺤﻞ ﺭﯾﺖﺳﮯ ﺑﺮﺁﻣﺪ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﭘﺘﺎ
    ﭼﻼ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻣﺴﺠﺪﻓﺮﻋﻮﻥ ﮐﮯ ﺧﺼﻮﺻﯽ
    ﺩﺭﺑﺎﺭ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮﺑﻦ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ. ﯾﮧ ﻣﺴﺠﺪ ﺁﺝ
    ﺗﮏ ﻗﺎﺋﻢﮨﮯ. ﺍﻭﭘﺮ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﭽﮯ ﻓﺮﻋﻮﻥ
    ﮐﺎﺩﺭﺑﺎﺭ ﮨﮯ.ﮐﻞ ﺷﺎﻡ ﺳﻮﺭﺝ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﻌﺎﺋﯿﮟ
    ﺳﻤﯿﭧﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ.ﮨﻢ ﻓﺮﻋﻮﻥ ﮐﮯ ﺳﻨﮕﯽ
    ﺳﺘﻮﻧﻮﮞﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﮐﮭﮍﮮ ﺗﮭﮯ . ﺳﻮﺭﺝ
    ﮐﯽﺳﺮﺥ ﺷﻌﺎﺋﯿﮟ ﻧﯿﻞ ﮐﮯ ﭘﺎﻧﯿﻮﮞ
    ﻣﯿﮟﻏﺴﻞ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ. ﺷﺎﻡ ﻟﮑﺴﺮ
    ﮐﮯﺍﻓﻖ ﭘﺮ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﭘﺮ ﭘﮭﯿﻼ
    ﺭﮨﯽﺗﮭﯽ.. ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﭻ ﮨﺰﺍﺭ ﺳﺎﻝ ﭘﺮﺍﻧﮯ
    ﻣﺤﻞﮐﯽ ﮐﮭﮍﮐﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ .
    ﻣﯿﺮﮮﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯽ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺳﻮﺭﺝ
    ﮐﯽﺳﺮﺧﯽ ﻧﯿﻞ ﮐﮯ ﭘﺎﻧﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﻞﮔﺌﯽ.
    ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﻓﺮﻋﻮﻥ ﮐﺎﻣﺤﻞ
    ﺍﺫﺍﻥ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﮯ ﮔﻮﻧﺞ ﺍﭨﮭﺎ.ﻣﯿﮟ ﻧﮯ
    ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﺍﺫﺍﻧﯿﮟﺳﻨﯽ ﮨﯿﮟ.
    ﻟﯿﮑﻦ ﻓﺮﻋﻮﻥ ﮐﮯ ﻣﺤﻞﻣﯿﮟ ﺍﺫﺍﻥ ﮐﯽ
    ﺁﻭﺍﺯ
    ﮐﺎ ﺍﭘﻨﺎ ﮨﯽ ﺳﺮﻭﺭﺗﮭﺎ. ﻣﻮﺯﻥ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﮐﺎ
    ﺍﺗﺎﺭ ﭼﮍﮬﺎﺅﻣﺤﻞ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﭨﮑﺮﺍ
    ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ.ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻮﺍﺭﻭﮞ ﭘﺮ ﻟﮑﮭﯽ ﺗﺤﺮﯾﺮﻭﮞ
    ﮐﻮﭘﯿﻐﺎﻡ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ, ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﮨﺮ ﻓﺮﻋﻮﻥﮐﻮ
    ﺯﻭﺍﻝ ﮨﮯ. ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻟﻠﻪ ﮐﺎ ﭘﯿﻐﺎﻡﺩﺍﺋﻤﯽ ﮨﮯ .
    ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﺷﮭﺪ ﺍﻥ ﻻﺍﻟﮧﺍﻟﻠﻪ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ
    ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﻓﺎﻧﯽ ﮨﮯ. ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺫﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﺱ
    ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟﻓﺮﻋﻮﻥ ﮐﺎ ﻣﺠﺴﻤﮧ ﺍﺩﺍﺱ
    ﺩﮐﮭﺎﺋﯽﺩﯾﺎ. ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺍ ﺟﯿﺴﮯ
    ﻭﮦﺍﭘﻨﮯ ﮔﺰﺭﮮ ﺗﮑﺒﺮ ﭘﺮ ﻧﻮﺣﮧ ﮐﻨﺎﮞ ﮨﻮ.
    ﺍﺯ
    ﺟﺎﻭﯾﺪ ﭼﻮﺩﮬﺮﯼ , ﮐﺎﻟﻢ " ﻧﯿﻞ ﮐﮯﺳﺎﺣﻞﺳﮯ
    صفیہ
    اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
    اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

    Comment


    • Re: behtreen aqwaal

      دو نوجوان عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں “یا عمر یہ ہے وہ شخص”
      عمر رضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے ہیں ” کیا کیا ہے اس شخص نے ؟”
      “یا امیر المؤمنین ۔ اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے”
      عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں “کیا کہہ رہے ہو ۔ اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے ؟”
      عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں ” کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے ؟”
      وہ شخص کہتا ہے “ہاں امیر المؤمنین ۔ مجھ سے قتل ہو گیا ہے انکا باپ”
      عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں ” کس طرح قتل ہوا ہے ؟”
      وہ شخص کہتا ہے “یا عمر ۔ انکا باپ اپنے اُونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا ۔ میں نے منع کیا ۔ باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا ”
      عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ” پھر تو قصاص دینا پڑے گا ۔ موت ہے اسکی سزا ”
      نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں ۔ نہ ہی اس شخص سے اسکے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے، نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے، نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں، معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے ؟ ان سب باتوں سے بھلا عمر رضی اللہ عنہ کو مطلب ہی کیا ۔ کیونکہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر رضی اللہ عنہ پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ کو روک سکتا ہے۔ حتٰی کہ سامنے عمر کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو ۔ قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔
      وہ شخص کہتا ہے ”ا ے امیر المؤمنین ۔ اُس کے نام پر جس کے حُکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحرا میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجئے تاکہ میں ان کو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے ۔ میں اسکے بعد واپس آ جاؤں گا”
      عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ”کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحرا میں جا کر واپس بھی آ جائے گا؟”
      مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اسکا نام تک بھی جانتا ہو۔ اسکے قبیلے ۔ خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے ۔ کون ضمانت دے اسکی ؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے ؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔ اور کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ سے اعتراض کرے یا پھر اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہو جائے اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے۔
      محفل میں موجود صحابہ پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے۔ اس صورتحال سے خود عمر رضی اللہ عنہ بھی متأثر ہیں۔ کیونکہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں ؟ یا پھر اسکو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا،
      خود عمر رضی اللہ عنہ بھی سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں اس صورتحال پر، سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں ”معاف کر دو اس شخص کو ”
      نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں ”نہیں امیر المؤمنین ۔ جو ہمارے باپ کو قتل کرے اسکو چھوڑ دیں ۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا ”
      عمر رضی اللہ عنہ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں ”اے لوگو ۔ ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے؟”
      ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں ”میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی”
      عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں “ابوذر ۔ اس نے قتل کیا ہے”
      ابوذر رضی اللہ عنہ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں “چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو”
      عمر رضی اللہ عنہ “جانتے ہو اسے ؟”
      ابوذر رضی اللہ عنہ ” نہیں جانتا ”
      عمر رضی اللہ عنہ ” تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو ؟”
      ابوذر رضی اللہ عنہ ”میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا ۔ انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا ”
      عمر رضی اللہ عنہ ”ابوذر دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا ”
      ابوذر رضی اللہ عنہ اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں ” امیر المؤمنین ۔ پھر اللہ مالک ہے”
      عمر رضی اللہ عنہ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے ۔ کچھ ضروری تیاریوں کیلئے ۔ بیوی بچوں کو الوداع کہنے ۔ اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے اور پھر اس کے بعد قصاص کی ادائیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے۔
      اور پھر تین راتوں کے بعد عمر رضی اللہ عنہ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے ۔ انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا۔ عصر کے وقت شہر میں )الصلاۃ جامعہ( کی منادی پھر جاتی ہے ۔ نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے ۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔
      عمر رضی اللہ عنہ سوال کرتے ہیں ” کدھر ہے وہ آدمی ؟”
      ابوذر رضی اللہ عنہ مختصر جواب دیتے ہیں “مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین”
      ابوذر رضی اللہ عنہ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ محفل میں ہُو کا عالم ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے ؟
      یہ سچ ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں بستے ہیں، عمرؓ رضی اللہ عنہ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمر رضی اللہ عنہ دیر نہ کریں کاٹ کر ابوذر رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیں ۔ لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے ۔ اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے ۔ کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا ۔ نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے ۔ حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے۔
      مغرب سے چند لحظات پہلے وہ شخص آ جاتا ہے ۔ بے ساختہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے۔ ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے
      عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں ” اے شخص ۔ اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا۔ نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا ”
      وہ بولا ” امیر المؤمنین ۔ اللہ کی قسم ۔ بات آپکی نہیں ہے بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے ۔ دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں ۔ اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحرا میں تنہا چھوڑ کر ۔ جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان ۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں ۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے”
      عمر رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کی طرف رخ کر کے پوچھا ” ابوذر ۔ تو نے کس بنا پر اسکی ضمانت دے دی تھی ؟”
      ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا ” اے عمر ۔ مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے”
      سید عمرؓ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ کیا کہتے ہو اب؟
      نوجوانوں نے جن کا باپ مرا تھا روتے ہوئے کہا ” اے امیر المؤمنین ۔ ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں ۔ ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے”
      عمر رضی اللہ عنہ اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو ان کی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر نے لگے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمايا ۔۔۔
      ” اے نوجوانو ۔ تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے”
      ” اے ابو ذر ۔ اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے”
      ” اور اے شخص ۔ اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے”
      ” اور اے امیر المؤمنین ۔ اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے”
      اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
      اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

      Comment


      • Re: behtreen aqwaal

        دھوکے کا گھر

        ﺍﻣﺎﻡ ﻏﺰﺍﻟﯽ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ
        ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺗﮭﺎ. ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﻍ ﺗﮭﺎ. ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺌﯽ ﺣﺼﮯ
        ﺗﮭﮯ. ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﺌﮯ
        ﺍﺱ ﭨﻮﮐﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺍﻭﺭ ﻋﻤﺪﮦ ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﭘﮭﻞ ﻟﮯ
        ﺁﺅ.ﻣﮕﺮ ﺷﺮﻁ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺲ ﺣﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺅ ﺍﻭﺭ
        ﻭﮨﺎﮞ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﮭﻞ ﭘﺴﻨﺪ ﻧﮧ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺍﺱ
        ﺣﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺁﻧﺎ. ﻭﮦ ﺁﺩﻣﯽ ﺑﺎﻍ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺣﺼﮯ ﻣﯿﮟ
        ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﻭﮨﺎﮞ ﺍﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﮭﻞ ﭘﺴﻨﺪ ﻧﮧ ﺁﯾﺎ. ﺍﺳﯽ
        ﻃﺮﺡ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺣﺼﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﯿﺎ, ﻟﯿﮑﻦ
        ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﮏ ﺑﮭﯽ ﭘﮭﻞ ﺍﺳﮑﮯ ﺩﻝ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺑﮭﺎﯾﺎ. ﺟﺐ ﻭﮦ
        ﺁﺧﺮﯼ ﺣﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺗﻮ ﺣﯿﺮﺕ ﺫﺩﮦ ﮨﻮﺍ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ
        ﻭﮨﺎﮞ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺷﺮﻁ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ
        ﻭﺍﭘﺲ ﺍﻥ ﺣﺼﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ
        ﺟﮩﺎﮞ ﭘﮭﻞ ﺗﮭﮯ. ﻣﺠﺒﻮﺭﺍً ﻭﮦ ﺧﺎﻟﯽ ﭨﻮﮐﺮﯼ ﻟﮯ ﮐﺮ
        ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﺍ. ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﻣﯿﺮﮮ
        ﻟﺌﮯ ﮐﯿﺎ ﻻﺋﮯ ﮨﻮ? ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ .. ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ
        ﻻﯾﺎ...
        ﺍﻣﺎﻡ ﻏﺰﺍﻟﯽ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ
        ﺳﮯ ﻣﺮﺍﺩ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﯽ ﺫﺍﺕ ﮨﮯ . ﺑﺎﻍ ﺳﮯ ﻣﺮﺍﺩ
        ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺣﺼﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺮﺍﺩ ﺍﻧﺴﺎﻥ
        ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺍﯾﺎﻡ ﮨﯿﮟ. ﭨﻮﮐﺮﯼ ﺳﮯ ﻣﺮﺍﺩ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﺎ
        ﻧﺎﻣﮧ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﮨﮯ ... ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﮐﻞ ﺳﮯ
        ﻧﯿﮏ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﻞ ﺳﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻮﮞ
        ﮔﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﮐﻞ ﮐﻞ ﮐﺮﺗﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻣﻮﺕ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﻏﻮﺵ
        ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﺩﻥ ﮔﺰﺭ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﻭﺍﭘﺲ
        ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﮯ.. ﺗﻮ ﯾﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺧﺎﻟﯽ ﺩﺍﻣﻦ ﭼﻼ ﺟﺎﺗﺎ
        ﮨﮯ .. ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﺩﮬﻮﮐﮯ ﮐﺎ ﮔﮭﺮ ﮨﮯ.
        اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
        اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

        Comment


        • Re: behtreen aqwaal

          ایک بار حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کی کہ آپ کو میرا کون سا فعل سب سے زیادہ پسند ھے تاکہ میں اس کو زیادہ کروں۔ جواب ملا کہ جس طرح کوئی بچہ اپنی ماں سے مار کھانے کے باوجود بار بار اُسی کی طرف دوڑتا ھے تم بھی اسی طرح ہماری جانب بار بار پلٹتے ہو تمہارا یہ فعل ھماری نظر میں پسندیدہ ترین ہے۔
          پس طالبِ خدا کو بھی یہی لازم ھے کہ گو کیسی ھی مصیبت و سختی و ذلّت و خواری پیش آئے لیکن بہر حال خدا کی طرف متوجّہ رھے۔
          اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
          اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

          Comment


          • Re: behtreen aqwaal

            ھم ہمیشہ اپنے اندر کی تلخی کا پہلا شکار خود ہی ھوتے ھیں....!
            اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
            اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

            Comment


            • Re: behtreen aqwaal

              اگر ہم غور سے دیکھیں توفطرت کےہرعنصراورہرادامیں بچھڑنے کی اہمیت اوراس کا اشارە موجود ہوتا ہے.....وہی نوخیزپتےجودرختوں کی شاخوں سےجنم لیتے ہیں،پت جھڑ کےموسم میں اپنی ماوٴں سے بچھڑ جاتے ہیں!
              اقتباس: اندھیرے میں جگنو
              اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
              اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

              Comment


              • Re: behtreen aqwaal



                ﮐﺘﻨﺎ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﮯ ﻧﺎ ﮐﮧ ﺟﺐ ﮨﻢ ﺍللہ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ
                ﺩﻝ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ
                ﺑﮭﯽ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺑﺎﺕ ﺳﻨﺘﺎ ﮬﮯ ...
                اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
                اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

                Comment


                • Re: behtreen aqwaal



                  ﻣﺤﺒﺖ" ﺍﺷﺘﮩﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ،
                  ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﺍﻇﮩﺎﺭ
                  ﻣﺎﻧﮕﺘﯽ ﮨﮯ...!
                  اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
                  اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

                  Comment


                  • Re: behtreen aqwaal


                    ﻣﻄﻠﺐ ﺍﻭﺭ ﻏﺮﺽ ﮐﮯ ﺭﺷﺘﮯ "ﮐﻮﺋﻠﮯ" ﮐﯽ
                    ﻃﺮﺡ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
                    ﺟﺐ ﮐﻮﺋﻠﮧ ﮔﺮﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﺟﻼ ﺩﯾﺘﺎ
                    ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﭨﮭﻨﮉﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﺎﻟﮯ
                    ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ"
                    اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
                    اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

                    Comment


                    • Re: behtreen aqwaal


                      ﻣﺮﺩ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻣﺤﺒﺘﯿﮟﮔﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﻟﭩﮑﺎ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮭﺮﺗﺎ-ﻭﮦ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﭘﺴﻨﺪ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ , ﯾﺎ ﯾﮧﮐﮩﮧ ﻟﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺫﺍﺕ ﺳﮯﻣﺤﺒﺖ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ-ﻭﮦ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﺍﭘﻨﯽﺿﺮﻭﺭﺕ ﮐﻮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ-
                      اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
                      اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

                      Comment


                      • Re: behtreen aqwaal


                        اگر دوستی میں ایک دوسرے پہ اعتبار نہ ہو تو وہ دوستی نہیں منافقت ہے
                        اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
                        اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

                        Comment


                        • Re: behtreen aqwaal


                          کچھ لوگ آپ کی زندگی میں تجسس کے لیے داخل ہوتے ہیں۔ تجسس ختم راستہ الگ
                          اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
                          اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

                          Comment


                          • Re: behtreen aqwaal


                            دھند اور محبت میں ایک چیز مشترک ہے سب کچھ سامنے ہوتا ہے مگر نظر کچھ نہیں آتا.
                            اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
                            اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

                            Comment


                            • Re: behtreen aqwaal


                              بچپن سے یہ سنتے آئے تھے کہ اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردو، کئی دفعہ کیا لیکن اطمینان،سکون اور چین پھر بھی نہیں ملتا تھا، حیرت بھی ہوتی تھی کہ جب اللہ کے سپرد معاملہ کردیا پھر پریشانی کیوں؟
                              ایک دن حضرت سلطان باہو رحمۃاللہ علیہ کا ملفوظ نظر سے گزرا کہ جب معاملہ اللہ کے سپرد کرو تو معاملہ اور اللہ کے درمیان سے خود نکل جایا کرو۔
                              ایسا لگا کہ گویا آنکھوں اور دل پر سے پردہ ہٹ گیا ہو، میں معاملہ تو سپرد کرتا تھا لیکن خود بیچ میں ہی رہتا تھا، یہ ہو جائے گا،وہ ہوجائے گا،ایسا نہ ہوجائے،ویسا نہ ہوجائے۔
                              عمل بھی کرنا ہے اور اسباب بھی اختیار کرنے ہیں لیکن
                              معاملہ کا نتیجہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دینا ہے،یہی سپردگی اور معاملہ فہمی ہے اور پھر اس پر راضی ہو جانا ہے۔
                              اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
                              اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

                              Comment


                              • Re: behtreen aqwaal


                                خُدا ہماری ہر دعا کو سنتا ہے اور جواب بھی دیتا ہے لیکن جواب ہمیشہ 'ہاں' نہیں ہوتا کبھی کبھی جواب "ابھی نہیں" یا "اس سے بہتر" ہوتا ہے
                                اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
                                اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

                                Comment

                                Working...
                                X