Re: behtreen aqwaal
جمعہ کی نماز کے بعد میں اسی بوسیدہ سی مسجد میں بیٹھ کر نماز پڑھتا رہا۔کچھ نفل میں نے حضرت بی بی فاطمہ کی روح مبارک کو ایصال ثواب کی نیت سے پڑھے پھر میں نے پوری یکسویٴ سے گڑ گڑا کر یہ دعا مانگی :“یا اللہ میں نہیں جانتا کہ یہ داستاں صحیح ہے یا غلط لیکن میرا دل گواہی دیتا ہے کہ تیرے آخری رسولﷺ کے دل میں اپنی بیٹی خاتون جنت کے لیےٴ اس سے بھی زیادہ محبت اور عزت کا جزبہ موجزن ہو گا۔اس لیے میں اللہ تعالی سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ حضرت فاطمہ کی روح طیبہ کو اجازت مرحمت فرمایں کہ وہ میری ایک درخواست اپنے والد گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں پیش کر کے منظور کروا لیں
۔درخواست یہ ہے کہ میں اللہ کی راہ کا متلاشی ہوں۔سیدھے سادھے مروجہ راستوں پر چلنے کی سکت نہیں رکھتا۔اگر سلسلہ اویسیہ واقعی ہی افسانہ نہیں بلکہ حقیقت ہے تو اللہ کی اجازت سے مجھے اس سلسلہ سے استفادہ کرنے کی ترکیب اور توفیق عطا فرمایء جاےء۔ اس بات کا میں نے اپنے گھر میں یا باہر کسی سے ذکر تک نہ کیا۔چھے سات ہفتے گزر گیے اور میں اس واقعے کو بھول بھال گیا۔پھر اچانک سات سمندر پار کی ایک جرمن بھابی کا خط ماصول ہوا۔وہ مشرف بہ اسلام ہو چکی تھیں اور نہایت اعلی درجہ کی پابند صوم و صلوة خاتون تھیں۔انہوں نے لکھا تھا۔
The other night I had the good fortune to see ‘Fatima’ daughter of Hazrat Muhammad (PBUH) in my dream,she talked to me most graciously and said, ‘tell your brother-in-law Qudrat ullah Shahab that I have submitted his request to my exalted Father who has very kindly accepted it’.
یہ خط پڑھتے ہی میرے ہوش و حواس پر خوشی اور حیرت کی دیوانگی سی طاری ہو گیء۔مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ میرے قدم زمین پر نہیں پڑ رہے بلکہ ہوا میں چل رہے ہیں۔ یہ تصور کہ اس برگزیدہ محفل میں ان باپ بیٹی کے درمیان میرا ذکر ہوا،میرے روییں روییں پر ایک تیز و تند نشے کی طرح چھا جاتا تھا۔کیسا عظیم باپ صلی اللہ علیہ وسلم اور کیسی عظیم بیٹی۔دو تین دن میں اپنے کمرے میں بند ہو کر دیوانوں کی طرح اس مصرع کی مجسم صورت بنا بیٹھا رہا۔ مجھ سے بہتر ذکر میرا ہے کہ اس محفل میں ہے۔
(قدرت الله شہاب صاحب کی شہرہ آفاق کتاب " شہاب نامہ "سے ایک اقتباس)
جمعہ کی نماز کے بعد میں اسی بوسیدہ سی مسجد میں بیٹھ کر نماز پڑھتا رہا۔کچھ نفل میں نے حضرت بی بی فاطمہ کی روح مبارک کو ایصال ثواب کی نیت سے پڑھے پھر میں نے پوری یکسویٴ سے گڑ گڑا کر یہ دعا مانگی :“یا اللہ میں نہیں جانتا کہ یہ داستاں صحیح ہے یا غلط لیکن میرا دل گواہی دیتا ہے کہ تیرے آخری رسولﷺ کے دل میں اپنی بیٹی خاتون جنت کے لیےٴ اس سے بھی زیادہ محبت اور عزت کا جزبہ موجزن ہو گا۔اس لیے میں اللہ تعالی سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ حضرت فاطمہ کی روح طیبہ کو اجازت مرحمت فرمایں کہ وہ میری ایک درخواست اپنے والد گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں پیش کر کے منظور کروا لیں
۔درخواست یہ ہے کہ میں اللہ کی راہ کا متلاشی ہوں۔سیدھے سادھے مروجہ راستوں پر چلنے کی سکت نہیں رکھتا۔اگر سلسلہ اویسیہ واقعی ہی افسانہ نہیں بلکہ حقیقت ہے تو اللہ کی اجازت سے مجھے اس سلسلہ سے استفادہ کرنے کی ترکیب اور توفیق عطا فرمایء جاےء۔ اس بات کا میں نے اپنے گھر میں یا باہر کسی سے ذکر تک نہ کیا۔چھے سات ہفتے گزر گیے اور میں اس واقعے کو بھول بھال گیا۔پھر اچانک سات سمندر پار کی ایک جرمن بھابی کا خط ماصول ہوا۔وہ مشرف بہ اسلام ہو چکی تھیں اور نہایت اعلی درجہ کی پابند صوم و صلوة خاتون تھیں۔انہوں نے لکھا تھا۔
The other night I had the good fortune to see ‘Fatima’ daughter of Hazrat Muhammad (PBUH) in my dream,she talked to me most graciously and said, ‘tell your brother-in-law Qudrat ullah Shahab that I have submitted his request to my exalted Father who has very kindly accepted it’.
یہ خط پڑھتے ہی میرے ہوش و حواس پر خوشی اور حیرت کی دیوانگی سی طاری ہو گیء۔مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ میرے قدم زمین پر نہیں پڑ رہے بلکہ ہوا میں چل رہے ہیں۔ یہ تصور کہ اس برگزیدہ محفل میں ان باپ بیٹی کے درمیان میرا ذکر ہوا،میرے روییں روییں پر ایک تیز و تند نشے کی طرح چھا جاتا تھا۔کیسا عظیم باپ صلی اللہ علیہ وسلم اور کیسی عظیم بیٹی۔دو تین دن میں اپنے کمرے میں بند ہو کر دیوانوں کی طرح اس مصرع کی مجسم صورت بنا بیٹھا رہا۔ مجھ سے بہتر ذکر میرا ہے کہ اس محفل میں ہے۔
(قدرت الله شہاب صاحب کی شہرہ آفاق کتاب " شہاب نامہ "سے ایک اقتباس)
Comment