اسلام علیکم
الیکشن2013 سر پہ ہیں ایسا ہے کہ انے والے دن شاید حیرت انگیر واقعات کے دن ہو۔۔یہ دن ہمارے ھق میں کتنے مہربان یا کتنے نامہربان ہونگے۔۔یہ ہم پہ منصر ہے اب ہمیں خود ہی جواب دہ اور خود ہی جواب طلب ہونا ہے۔۔
ایسا ہے کہ جمہوریت کا مزاج بولنے کی سیلقہ شعاری اور سننے کی بردبادی سے عبارت ہے جمہوریت ہر اس فرد کو لب کشائی کی دعوت دیتی ہے جو کچھ کہنا چاہتا ہے۔۔جمہوریت کی صورت میں ہم ایک ایسی فضا کو قبول کرتے ہیں جس میں ہم سے کھل کر اختلاف کیا جا سکے۔۔۔جو لوگ جمہوریت کی حمائت کرتے ہیں وہ گویا یہ چاہتے ہیں کہ معاملے دلیل سے طے ہوں نہ کہ اطقت سے۔۔مخالف دلیلوں کو سنا جائے اور دعووں پہ نظر ثانی کی جائے۔۔
اس نظام کے زیر اثر ہم میں سے سے پہلے اس امکان کو قبول کرنے کی آمادگی پیدا ہونی چاہیے کہ صداقت شاید ہمارے ساتھ نہ ہو دوسرے کے ساتھ ہو۔۔جمہوریت ان لوگوں کے لیے یقینا ایک نامناسب ترین نظام ہے جو اپنے قول کو قول فیصل سمجھتے ہیں اور دوسروں کی بات سننے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔۔
کامل صداقت انسانوں کی دست رس سے ہمیشہ دور رہی ہے ہاں اس کی کچھ شبہاتیں ہیں جن پہ قناعت کرنی پڑتی ہے یہ شباہتیں مختلف دائیروں میں بکھری ہوئی ہیں۔۔سیاست کے دائرے میں صداقت کی گہری شباہت ایک ایسے نظام میں پائی جاتی ہے جو انسانوں کی مسرت کو اپنی اساس قرار دیتا ہو۔اس زمین پر اور اس زندگی میں انسان کی مسرت کیا ہے جموریہت اس امر کے تعین کے لیے ایک مناسب ماحول پیدا کرتی ہے۔۔
اگر ہمیں جمہوریت اور جمہپوریت کی قدریں عزیز ہیں تو پھر ہمیں جمہوریت کے ان تقاضوں کو بھی محسوس کرنا پڑے گا اور اس مدت کو فرض شناسی کے ساتھ گزارنا ہوگا جو تاسیس جمہوریت کے لیے مقرر کی گئی ہیں ورنہ سب کچھ محض مذاق ہو کر رہ جائے گا۔۔قوم کو ایک بہترین موقع مل رہا ہے جس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے کاش ہم اس سے پوری طرھ فائدہ اٹھائیں اور اپنی اس بدترین سر نوشت کو بدل سکیں جو ایک مدت سے ہمارا مقسوم رہی ہیں
وما علینا البلاغ
بےتاب تابانی عفی عنہہ
الیکشن2013 سر پہ ہیں ایسا ہے کہ انے والے دن شاید حیرت انگیر واقعات کے دن ہو۔۔یہ دن ہمارے ھق میں کتنے مہربان یا کتنے نامہربان ہونگے۔۔یہ ہم پہ منصر ہے اب ہمیں خود ہی جواب دہ اور خود ہی جواب طلب ہونا ہے۔۔
ایسا ہے کہ جمہوریت کا مزاج بولنے کی سیلقہ شعاری اور سننے کی بردبادی سے عبارت ہے جمہوریت ہر اس فرد کو لب کشائی کی دعوت دیتی ہے جو کچھ کہنا چاہتا ہے۔۔جمہوریت کی صورت میں ہم ایک ایسی فضا کو قبول کرتے ہیں جس میں ہم سے کھل کر اختلاف کیا جا سکے۔۔۔جو لوگ جمہوریت کی حمائت کرتے ہیں وہ گویا یہ چاہتے ہیں کہ معاملے دلیل سے طے ہوں نہ کہ اطقت سے۔۔مخالف دلیلوں کو سنا جائے اور دعووں پہ نظر ثانی کی جائے۔۔
اس نظام کے زیر اثر ہم میں سے سے پہلے اس امکان کو قبول کرنے کی آمادگی پیدا ہونی چاہیے کہ صداقت شاید ہمارے ساتھ نہ ہو دوسرے کے ساتھ ہو۔۔جمہوریت ان لوگوں کے لیے یقینا ایک نامناسب ترین نظام ہے جو اپنے قول کو قول فیصل سمجھتے ہیں اور دوسروں کی بات سننے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔۔
کامل صداقت انسانوں کی دست رس سے ہمیشہ دور رہی ہے ہاں اس کی کچھ شبہاتیں ہیں جن پہ قناعت کرنی پڑتی ہے یہ شباہتیں مختلف دائیروں میں بکھری ہوئی ہیں۔۔سیاست کے دائرے میں صداقت کی گہری شباہت ایک ایسے نظام میں پائی جاتی ہے جو انسانوں کی مسرت کو اپنی اساس قرار دیتا ہو۔اس زمین پر اور اس زندگی میں انسان کی مسرت کیا ہے جموریہت اس امر کے تعین کے لیے ایک مناسب ماحول پیدا کرتی ہے۔۔
اگر ہمیں جمہوریت اور جمہپوریت کی قدریں عزیز ہیں تو پھر ہمیں جمہوریت کے ان تقاضوں کو بھی محسوس کرنا پڑے گا اور اس مدت کو فرض شناسی کے ساتھ گزارنا ہوگا جو تاسیس جمہوریت کے لیے مقرر کی گئی ہیں ورنہ سب کچھ محض مذاق ہو کر رہ جائے گا۔۔قوم کو ایک بہترین موقع مل رہا ہے جس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے کاش ہم اس سے پوری طرھ فائدہ اٹھائیں اور اپنی اس بدترین سر نوشت کو بدل سکیں جو ایک مدت سے ہمارا مقسوم رہی ہیں
وما علینا البلاغ
بےتاب تابانی عفی عنہہ
Comment