Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

kia yeh insaaf hain

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #61
    Re: kia yeh insaaf hain

    Originally posted by *Kashish* View Post
    zaahir he burai chote level se hi sharo hoti he..aur anjam bura hi hota hai. Apko nahi lagta pakistan mai jo iss waqt aik "fashion" chal para hai west ki copies kerne ka..wo chahye koi RICH log hou yaa middle loug...wo saab WEST ki copy mai lage huye hain.

    jab ghar mai parents apni Ulaad ki tarbiyat se ghaafil rehain gai to... kisne kiya Muashre mai behtri kerni hai.
    :salam: i agree with u:salam:

    Burai ke Root Fashion ka jalwa ha372-haha

    Comment


    • #62
      Re: kia yeh insaaf hain

      ........

      Comment


      • #63
        Re: kia yeh insaaf hain

        Originally posted by ummid View Post
        ........
        u ne kia likha me is ko perhne ke leya kitne Number ke anak lagane pare ge

        Comment


        • #64
          Re: kia yeh insaaf hain

          Originally posted by shela View Post
          :salam: i agree with u:salam:

          Burai ke Root Fashion ka jalwa ha372-haha

          shela yeh koi mazaaq nahi hai .. aik dardnaaak haqeekat hai. aap ko nahi maloom kitni Nassalain tabah horahi hain...aur aap log issi tarah hunste raho
          Last edited by *Samra*; 4 April 2009, 17:01.

          Comment


          • #65
            Re: kia yeh insaaf hain

            Originally posted by *Kashish* View Post
            shela yeh koi mazaaq nahi hai .. aik dardnaaak haqeekat hai. aap ko nahi maloom kitni Nassalain tabah horahi hain...aur aap log issi tarah hunste raho
            Fashion ka jalwa Mazak ha or kia ha:khi:
            ek larki tight paint and short sleveles skurti pehan ke ghar se nikalte ha phir phir jab loog gandi nazroon se dekhte hain to Net ke dopate se jism chupane ke koshi kare to wo mazak ke lage ge or kia372-haha Bhai ek cheez jo hum muslims ker he nahi sakte to wo kerte how mazaheya he lagain gay
            same is the case with boys:khi: ab larki ke example main ne da de larke ke example koi larka he da :donno:

            log372-scarekidhar hain log me to akale hoo:khi:

            i know tha main bhi yaheen is donya main hoon or U bhi:eye:
            lakin main appni nasal ko to sanwar sakte hoo bacha sakte hoo because it is in my control but not others lakin jis terhan burai chote level se choro ho ker bhalte ha is terhain achae bhi chote level se choro ho ker phalte ha:dance2:

            Comment


            • #66
              Re: kia yeh insaaf hain

              Originally posted by shela View Post
              u ne kia likha me is ko perhne ke leya kitne Number ke anak lagane pare ge
              nothing to say girl...............

              Comment


              • #67
                Re: kia yeh insaaf hain

                حدود :․․․قصاص :․․․تعزیرات۔
                حدود
                شرعی اصطلاح میں ایسے جرم کی سزا کو کہا جاتاہے جس میں حق اللہ غالب ہو۔

                قصاص
                ایسی سزا جس میں حق العبد غالب ہو۔

                تعزیرات
                حدود وقصاص میں فرق ایک حد ۲:․․․ قصاص۔لیکن ان دونوں کے حکم میں یہ فرق ہے کہ: حدود ․․․پانچ جرائم کی سزائیں․․․ جس طرح ۔
                حدود اور تعزیر کا فرق
                تعزیر کے سلسلہ میں ایک وضاحت
                حدود اللہ کہ نفاذ کا حکم
                اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

                ﴿ اور وہ لوگ جو اللہ تعالى كے ساتھ كسى اور كو الہ نہيں بناتے اور نہ ہى وہ اللہ تعالى كے حرام كردہ كسى نفس كو ناحق قتل كرتے ہيں، اور نہ ہى زنا كا ارتكاب كرتے ہيں، اور جو كوئى يہ كام كرے وہ گنہگار ہے، اسے روز قيامت ڈبل عذاب ديا جائيگا، اور وہ ذليل ہو كر اس ميں ہميشہ رہے گا، ليكن جو شخص توبہ كر لے اور ايمان لے آئے اور اعمال صالحہ كرے، تو يہى وہ لوگ ہيں اللہ تعالى جن كى برائيوں كو نيكيوں ميں بدل ديتے ہيں، اور اللہ تعالى بخشنے والا رحم كرنے والا ہے، اور جو كوئى توبہ كر لے اور نيك و صالح اعمال كرے تو اس نے اللہ كى طرف توبہ كر لى ہے ﴾
                الفرقان ( 68 - 71 ).
                نوٹ:- جو حدود حكمران تك پہنچ جائيں ان كا جارى كرنا واجب ہو جاتا ہے، ليكن جو نہ پہنچے تو افضل يہى ہے كہ اس سے توبہ كر لى جائے اور اللہ تعالى كى پردہ پوشى كو پردہ ميں ہى رہنے ديا جائے.
                " جب شرعى حاكم كے پاس كسى حد كا معاملہ پہنچ جائے، اور كافى دلائل كے ساتھ وہ ثابت بھى ہو جائے تو اس حد كو لگانا واجب ہے، اور بالاجماع وہ حد توبہ سے ساقط نہيں ہو گى، غامدى قبيلہ كى عورت توبہ كرنے كے بعد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور مطالبہ كيا كہ اسے حد لگائى جائے، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كے بارہ ميں فرمايا تھا:
                " يقينا اس نے ايسى توبہ كى ہے اگر اہل مدينہ وہ توبہ كريں تو انہيں كافى ہو جائے "
                اور اس كے باوجود نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كو شرعى حد لگائى، ليكن حكمران كے علاوہ كسى اور كو يہ حق حاصل نہيں
                .
                ليكن جب سزا حكمران كے پاس نہ پہنچى ہو: تو مسلمان آدمى كو چاہيے كہ اللہ تعالى نے جس كو پردہ ميں ركھا ہے اسے پردہ ميں رہنے دے، اور وہ اللہ تعالى كے سامنے سچى اور پكى توبہ كرے، اميد ہے كہ اللہ تعالى اس كى توبہ قبول فرمائيگا "
                نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہےابن ماجہ)

                (ابن ماجہ، نسائی، مشکوٰۃ)
                گویا اسلامی سزاؤں کا نافذ ہونا باران رحمت سے زیادہ بارآور اور ثمر بار ہے۔
                ابتداء اسلام میں زنا کی سزا یہ تھی کہ زنا کرنے والی شادی شدہ عورتوں کو تا حیات گھروں میں بند کردیتے تھے۔ اور کنواری لڑکیوں یا غیر شادی شدہ مردوں کو زنا کرنے پر زجر و توبیخ اور ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی تھی۔

                (سورۃ النسآء۔ ۴۔۔ آیت۱۵۔ ۱۶)
                ابتداء اسلام میں زنا کی سزا یہی تھی لیکن بعد میں اس سزا کو منسوخ کردیا گیا۔ چنانچہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے سیکھ لو، مجھ سے سیکھ لو۔ اللہ تعالیٰ نے ان (زنا کرنے والوں ) کا راستہ مقرر کردیاہے۔ اگر کنوارہ شخص کنواری لڑکی سے زنا کرے تو اس کو سوکوڑے مارو اور ایک سال کے لیے شہر بدر کردو اور اگر شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت سے زنا کرے تو اس کو ایک سو کوڑے مارو اور رجم (سنگسار) کرو۔ (مسلم، ابوداؤد)
                زنا کی سزا کے بارے میں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
                (سورۃنور۔ ۲۴۔ آیت۔ ۲)
                زانی عورت اور زانی مرد ان دونوں میں سے ہرایک کو سو سودرے (کوڑے )مارو۔ اور اللہ تعالیٰ کے دین (شرعی سزا کے نفاذ) میں ان پر ترس نہ کھاؤ اگر تم اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو اور چاہیے کہ ان کو سزا دینے کے وقت مسلمانوں کا ایک گروہ موجود ہو۔ یہ سزا کنوارے اور زانی اور زانیہ کی ہے۔
                کوڑوں کی جسمانی سزا کے علاوہ بدکار مردوں اور بدکار عورتوں کی دوسری عبرتناک سزا معاشرتی مقاطعہ (بائیکاٹ) ہے کہ اب وہ اسلامی معاشرہ میں گھٹیا درجے کے افراد شمار ہوں گے۔ پاکباز اور شریف رشتوں سے محروم رہیں گے۔ گویا درودیوار ان سے نفرت کریں گے اور شریف لوگ انہیں منہ نہ لگائیں گے۔
                چنانچہ ارشاد ربانی ہے


                زنا کی سزا بھگتنے کے بعد یہ ان کے لیے دوسری معاشرتی سزا ہے کہ زانی، زانیہ یا مشرکہ سے اور زانیہ، زانی اور مشرک سے نکاح کریں گے۔ یعنی زانی اور زانیہ ان کے علاوہ اور کسی کے نکاح میں نہیں آسکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صریحاً فرمادیا ہے کہ یہ مؤمنوں پر حرام ہیں۔
                ...........(جاری ہے)
                ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                Comment


                • #68
                  Re: kia yeh insaaf hain

                  اسلام علیکم آپ بار بار سورہ نور کہ واقعہ کو کوٹ کررہی ہیں تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ صحیح اور مستند اسلامی ماخذات سے اس واقعہ کو خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی زبانی نقل کردیا جائے

                  بنی المصطلق قبیلۂ بنی خزاغہ کی ایک شاخ تھی جو ساحلِ بحیرہ احمر پر جدہ اور رابغ کے درمیان قُدید کے علاقے میں رہتی تھی۔ اس کے چشمے کا نام مریسیع تھا جس کے آس پاس اس قبیلے کے لوگ آباد تھے۔ اسی مناسبت سے احادیث میں اس مہم کا نام غزوۂ مریسیع بھی آیا ہے۔
                  شعبان 6ھ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اطلاع ملی کہ یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاریاں کررہے ہیں اور دوسرے قبائل کو بھی جمع کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ اطلاع پاتے ہی آپ ایک لشکر لے کر روانہ ہو گئے تاکہ فتنے کے سر اٹھانے سے پہلے ہی اسے کچل دیا جائے۔ اس مہم میں عبداللہ بن ابی بھی منافقوں کی ایک بڑی تعداد لے کر آپ کے ساتھ ہو گیا۔ ابن سعد کا بیان ہے کہ اس سے پہلے کسی جنگ میں منافقین اس کثرت سے شامل نہ ہوئی تھے۔ مریسیع کے مقام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اچانک دشمن کو جا لیا اور تھوڑی سے زد و خورد کے بعد پورے قبیلے کو مال اسباب سمیت گرفتار کرلیا۔ اس مہم سے فارغ ہو کر ابھی مریسیع ہی پر لشکر اسلام پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا کہ ایک روز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایک ملازم (جہجاہ بن مسعود غفاری) اور قبیلۂ خزرج کے ایک حلیف (سنان بن برجہنی) کے درمیان پانی پر جھگڑا ہو گیا۔ ایک نے انصار کو پکارا۔ دوسرے نے مہاجرین کو آواز دی۔ لوگ دونوں طرف سے جمع ہو گئے اور معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ لیکن عبداللہ بن ابی نے جو انصار کے قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتا تھا، بات کا بتنگڑ بنا دیا۔ اس نے انصار کو یہ کہہ کر بھڑکانا شروع کردیا کہ "یہ مہاجرین ہم پر ٹوٹ پڑے ہیں اور ہمارے حریف بن بیٹھے ہیں۔ ہماری اور ان قریشی کنگلوں کی مثال ایسی ہے کہ کتے کو پال تاکہ تجھی کو بھنبھوڑ کھائے۔ یہ سب تمہارا اپنا کیا دھرا ہے۔ تم لوگوں نے خود ہی انہیں لا کر اپنے ہاں بسایا ہے اور ان کو اپنے مال و جائیداد میں حصہ دار بنایا ہے۔ آج اگر تم ان سے ہاتھ کھینچ لو تو یہ چلتے پھرتے نظر آئیں"۔ پھر اس نے قسم کھا کر کہا کہ "مدینے واپس پہنچنے کے بعد جو ہم میں سے عزت والا ہے وہ ذلیل لوگوں کو نکال کر باہر کردے گا"۔

                  یہ شوشہ ابھی تازہ ہی تھا کہ اسی سفر میں اُس نے ایک اور خطرناک فتنہ اٹھا دیا، اور فتنہ بھی ایسا کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے جاں نثار صحابہ کمال درجہ ضبط و تحمل اور حکمت و دانائی سے کام نہ لیتے تو مدینے کے نو خیز مسلمان معاشرہ میں سخت خانہ جنگی برپا ہو جاتی۔ یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کا فتنہ تھا۔ اس واقعے کو خود انہی کی زبانی سنیے جس سے پوری صورتحال سامنے آجائے گی۔ بیچ بیچ میں جو امور تشریح طلب ہوں گے انہیں ہم دوسری معتبر روایات کی مدد سے قوسین میں بڑھاتے جائیں گے تاکہ جناب صدیقہ رضی اللہ عنہا کے تسلسلِ بیان میں خلل واقع نہ ہو۔ فرماتی ہیں":
                  "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قاعدہ تھا کہ جب آپ سفر پر جانے لگتے تو قرعہ ڈال کر فیصلہ فرماتے کہ آپ کی بیویوں میں سے کون آپ کے ساتھ جائے۔
                  (اس قرعہ اندازی کی نوعیت لاٹری کی سی نہ تھی۔ دراصل تمام بیویوں کے حقوق برابر کے تھے۔ ان میں سے کسی کو کسی پر ترجیح دینے کی کوئی معقول وجہ نہ تھی۔ اب اگر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خود کسی کا انتخاب کرتے تو دوسری بیویوں کی دل شکنی ہوتی اور ان میں باہم رشک و رقابت پیدا ہونے کے لیے بھی یہ ایک محرک بن جاتا۔ اس لیے آپ قرعہ اندازی سے اس کا فیصلہ فرماتے تھے۔ شریعت میں قرعہ اندازی ایسی ہی صورتوں کے لیے ہے جبکہ چند آدمیوں کا جائز حق بالکل برابر ہو اور کسی کو کسی پر ترجیح دینے کے لیے کوئی معقول وجہ موجود نہ ہو، مگر حق کسی ایک ہی کو دیا جاسکتا ہو)۔
                  غزوۂ بنی المصطلق کے موقع پر قرعہ میرے نام نکلا اور میں آپ کے ساتھ گئی۔ واپسی پر جب ہم مدینے کے قریب پہنچتے، ایک منزل پر رات کے وقت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پڑاؤ کیا اور ابھی رات کا کچھ حصہ باقی تھا کہ کوچ کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ میں اٹھ کر رفع حاجت کے لیے گئی اور جب پلٹنے لگی تو قیام گاہ کے قریب پہنچ کر مجھے محسوس ہوا کہ میرے گلے کا ہار ٹوٹ کر کہیں گر پڑا ہے۔ میں اسے تلاش کرنے میں لگ گئی اور اتنے میں قافلہ روانہ ہو گیا۔ قاعدہ یہ تھا کہ میں کوچ کے وقت اپنے ہودے میں بیٹھ جاتی تھی اور چار آدمی اسے اٹھا کر اونٹ پر رکھ لیتے تھے۔ ہم عورتیں اس زمانے میں غذا کی کمی کے سبب بہت ہلکی پھلکی تھیں۔ میرا ہودہ اٹھاتے وقت لوگوں کو یہ محسوس ہی نہ ہوا کہ میں اس میں نہیں ہوں۔ وہ بے خبری میں خالی ہودہ اونٹ پر رکھ کر روانہ ہو گئے۔ میں جب ہار لے کر پلٹی تو وہاں کوئی نہ تھا۔ آخر اپنی چادر اوڑھ کر وہیں لیٹ گئی اور دل میں سوچ لیا کہ آگے جا کر جب یہ لوگ مجھے نہ پائیں گے تو خود ہی ڈھونڈتے ہوئے آجائیں گے۔ اسی حالت میں مجھ کو نیند آگئی۔ صبح کے وقت صفوان بن معطل سلمی اس جگہ سے گذرے جہاں میں سو رہی تھی اور مجھے دیکھتے ہی پہچان گئے،کیونکہ پردے کا حکم آنے سے پہلے وہ مجھے بار ہا دیکھ چکے تھے۔
                  (یہ صاحب بدری صحابیوں میں سے تھے، ان کو صبح دیر تک سونے کی عادت تھی، اس لیے یہ بھی لشکر گاہ میں کہیں پڑے سوتے رہ گئے تھے اور اب اٹھ کر مدینے جا رہے تھے۔ ابو داؤد اور دوسری کتب سنن میں یہ ذکر آتا ہے کہ ان کی بیوی نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ان کی شکایت کی تھی کہ یہ کبھی صبح کی نماز وقت پر نہیں پڑھتے۔ انہوں نے عذر پیش کیا کہ یا رسول اللہ یہ میرا خاندانی عیب ہے، دیر تک سوتے رہنے کی اس کمزوری میں کسی طرح دور نہیں کر سکتا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ اچھا جب آنکھ کھلے تو نماز ادا کر لیا کرو۔ بعض محدثین نے ان کے قافلے سے پیچھے رہ جانے کی یہی وجہ بیان کی ہے۔ مگر بعض دوسرے محدثین اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ نبی {[درود}} نے ان کو اس خدمت پر مقرر کیا تھا کہ رات کے اندھیرے میں کوچ کرنے کی وجہ سے اگر کسی کی کوئی چیز چھوٹ گئی ہو تو صبح اسے تلاش کرکے لیتے آئیں)۔
                  مجھے دیکھ کر انہوں نے اونٹ روک لیا اور بے ساختہ ان کی زبان سے نکلا "انا للہ و انا الیہ راجعون، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیوی یہیں رہ گئیں"۔ اس کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی اور میں نے اٹھ کر فوراً اپنے منہ پر چادر ڈال لی۔ انہوں نے مجھ سے کوئی بات نہ کی، لا کراپنا اونٹ میرے پاس بٹھا دیا اور الگ ہٹ کر کھڑے ہو گئے۔ میں اونٹ پر سوار ہو گئی اور وہ نکیل پکڑ کر روانہ ہو گئے۔ دوپہر کے قریب ہم نے لشکر کو جا لیا جبکہ وہ ابھی ایک جگہ جا کر ٹھیرا ہی تھا اور لشکر والوں کو ابھی یہ پتہ نہ چلا تھا کہ میں پیچھے چھوٹ گئی ہوں۔ اس پر بہتان اٹھانے والوں نے بہتان اٹھا دیے اور ان میں سب سے پیش پیش عبداللہ بن ابی تھا۔ مگر میں اس سے بے خبر تھی کہ مجھ پر کیا باتیں بن رہی ہیں۔
                  ہے ۔ ۔ ۔۔جاری ہے ۔ ۔ ۔۔ ۔
                  ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                  Comment


                  • #69
                    Re: kia yeh insaaf hain

                    دوسری روایات میں آیا ہے کہ جس وقت صفوان کے اونٹ پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا لشکر گاہ پہنچیں اور معلوم ہوا کہ آپ اس طرح پیچھے چھوٹ گئی تھیں اُسی وقت عبداللہ بن ابی پکار اٹھا "خدا کی قسم! یہ بچ کر نہیں آئی ہیں، لو دیکھو، تمہارے نبی کی بیوی نے رات ایک اور شخص کے ساتھ گذاری اور اب وہ اسے علانیہ لیے چلا آرہا ہے (نعوذ باللہ)"۔)
                    "مدینے پہنچ کر میں بیمار ہو گئی اور ایک مہینے کے قریب پلنگ پر پڑی رہی۔ شہر میں اس بہتان کی خبریں اڑ رہی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کانوں تک بھی بات پہنچ چکی تھی، مگر مجھے کچھ پتہ نہیں تھا۔ البتہ جو چیز مجھے کھٹکتی تھی وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وہ توجہ میری طرف نہ تھی جو بیماری کے زمانے میں ہوا کرتی تھی۔ آپ گھر میں آتے تو بس گھر والوں سے یہ پوچھ کر رہ جاتے کہ کیسی ہیں یہ؟۔ خود مجھ سے کوئی کلام نہ کرتے۔ اس سے مجھے شبہ ہوتا کہ کوئی بات ہے ضرور۔ آخر آپ سے اجازت لے کر میں اپنی ماں کے گھر چلی گئی تاکہ وہ میری تیمارداری اچھی طرح کر سکیں۔
                    ایک روز رات کے وقت حاجت کے لیے مدینے کے باہر گئی۔ اس وقت ہمارے گھروں میں بیت الخلا نہ تھے اور ہم لوگ جنگل ہی جایا کرتے تھے۔ میرے ساتھ مسطح بن اثاثہ کی ماں بھی تھیں جو میرے والد کی خالہ زاد بہن تھی۔
                    (دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پورے خاندان کی کفالت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے ذمے لے رکھی تھی، مگر اس احسان کے باوجود مسطح بھی ان لوگوں میں شریک ہو گئے تھے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے خلاف اس بہتان کو پھیلا رہے تھے)
                    راستے میں ان کو ٹھوکر لگی اور بے ساختہ ان کی زبان سے نکلا غارت ہو مسطح۔ میں نے کہا اچھی ماں ہو جو بیٹے کو کوستی ہو، اور بیٹا بھی وہ جس نے جنگ بدر میں حصہ لیا ہے۔ انہوں نے کہا "بٹیا! کیا تجھے اس کی باتوں کی کچھ خبر نہیں؟ پھر انہوں نے سارا قصہ سنایا کہ افترا پرداز لوگ میرے متعلق کیا باتیں اڑا رہے ہیں۔
                    (منافقین کے سوا خود مسلمانوں میں سے جو لوگ اس فتنے میں شامل ہو گئے تھے ان میں مسطح، حسان بن ثابت مشہور شاعر اسلام، اور حمنہ بنت حجش، حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی بہن کاحصہ سب سے نمایاں تھا۔)
                    یہ داستان سن کر میرا خون خشک ہو گیا، وہ حاجت بھی بھول گئی جس کے لیے آئی تھی، سیدھی گھر گئی اور رات بھر رو رو کر کاٹی۔"
                    آگے چل کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: "میرے پیچھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم کو بلایا اور ان سے مشورہ طلب کیا۔ اسامہ رضی اللہ عنہ نے میرے حق میں کلمۂ خیر کہا اور عرض کیا "یا رسول اللہ! بھلائی کے سوا آپ کی بیوی میں کوئی چیز ہم نے نہيں پائی۔ یہ سب کچھ کذب اور باطل ہے جو اڑایا جارہا ہے"۔ رہے علی رضی اللہ عنہ تو انہوں نے کہا کہ "یا رسول اللہ! عورتوں کی کمی نہیں ہے۔ آپ اس کی جگہ دوسری بیوی کر سکتے ہیں، اور تحقیق کرنا چاہیں تو خدمت گار لونڈی کو بلا کر حالات دریافت فرمائیں"۔ چنانچہ خدمت گار کو بلایا گیا اور پوچھ گچھ کی گئی۔ اس نے کہا کہ "اس خدا کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے ان میں کوئی برائی نہیں دیکھی جس پر حرف رکھا جاسکے۔ بس اتنا عیب ہے کہ میں آٹا گوندھ کر کسی کام کو جاتی ہوں اور کہہ جاتی ہوں کہ ذرا آٹے کا خیال رکھنا، مگر وہ سو جاتی ہیں اور بکری آ کر آٹا کھا جاتی ہے"۔ اسی روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ میں فرمایا "مسلمانو! کون ہے جو اس شخص کے حملوں سے میری عزت بچائے جس نے میرے گھر والوں پر الزامات لگا کر مجھے اذیت پہنچانے کی حد کردی ہے۔ بخدا میں نے نہ تو اپنی بیوی ہی میں کوئی برائی دیکھی ہے، اور نہ اس شخص میں جس کے متعلق تہمت لگائی جاتی ہے۔ وہ تو کبھی میری غیر موجودگی میں میرے گھر آیا بھی نہیں"۔ اس پر اسید بن حضیر (بعض روایات میں سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ) نے اٹھ کر کہا "یا رسول اللہ! اگر وہ ہمارے قبیلے کا آدمی ہے تو ہم اس کی گردن مار دیں اور اگر ہمارے بھائی خزرجیوں میں سے ہے تو آپ حکم دیں، ہم تعمیل کے لیے حاضر ہیں"۔ یہ سنتے ہی سعد رضی اللہ عنہ بن عبادہ، رئیسِ خزرج، اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے "جھوٹ کہتے ہو، تم اسے ہر گز نہیں مار سکتے۔ تم اس کی گردن مارنے کا نام صرف اس لیے لے رہے ہو کہ وہ خزرج میں سے ہے۔ اگر وہ تمہارے قبیلے کا آدمی ہوتا تو تم کبھی یہ نہ کہتے کہ ہم اس کی گردن مار دیں گے"۔ اسید نے جواب میں کہا کہ "تم منافق ہو اس لیے منافقوں کی حمایت کرتے ہو"۔ اس پر مسجد نبوی میں ہنگامہ برپا ہو گیا، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر پر تشریف رکھتے تھے۔ قریب تھا کہ اوس اور خزرج مسجد میں ہی لڑ پڑتے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو ٹھنڈا کیا اور پھر منبر سے اتر آئے"۔
                    حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ "اس بہتان کی افواہیں کم و بیش ایک ماہ تک شہر میں اڑتی رہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سخت اذیت میں مبتلا رہے۔ میں روتی رہی۔ میرے والدین انتہائی پریشان اور رنج و غم میں مبتلا رہے۔ آخر کار ایک روز حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے اور میرے پاس بیٹھے۔ اس پوری مدت میں آپ کبھی میرے پاس نہ بیٹھے تھے۔ حضرت ابوبکر اور ام رومان (حضرت عائشہ کی والدہ) نے محسوس کیا کہ آج کوئی فیصلہ کن بات ہونے والی ہے۔ اس لیے وہ دونوں بھی پاس آکر بیٹھ گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عائشہ! مجھے تمہارے متعلق یہ خبریں پہنچی ہیں، اگر تم بے گناہ ہو تو امید ہے اللہ تمہاری براءت ظاہر فرما دے گا اور اگر تم واقعی کسی گناہ میں مبتلا ہوئی ہو تو اللہ سے توبہ کرو اور معافی مانگو، بندہ جب اپنے گناہ کا معترف ہو کر توبہ کرتا ہے تو اللہ معاف کر دیتا ہے۔ یہ بات سن کر میرے آنسو خشک ہو گئے۔ میں نے اپنے والد سے عرض کیا آپ رسول اللہ کی بات کا جواب دیں۔ انہوں نے فرمایا بیٹی، میری کچھ سمجھ ہی میں نہیں آتا کہ کیا کہوں؟ میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ آپ ہی کچھ کہیں۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ میں حیران ہوں، کیا کہوں؟ اس پر میں بولی آپ لوگوں کے کانوں میں ایک بات پڑ گئی ہے اور دلوں میں بیٹھ چکی ہے، اب اگر میں کہوں کہ میں بے گناہ ہوں، اور اللہ گواہ ہے کہ میں بے گناہ ہوں، تو آپ لوگ نہ مانیں گے، اور اگر خواہ مخواہ ایک ایسی بات کا اعتراف کروں جو میں نے نہیں کی، اور اللہ جانتا ہے کہ میں نے نہیں کی، تو آپ لوگ مان لیں گے۔ میں نے اس وقت حضرت یعقوب علیہ السلام کا نام یاد کرنے کی کوشش کی مگر نہ یاد آیا۔ آخر میں نے کہا اس حالت میں میرے لیے اس کے سوا اور کیا چارہ ہے کہ وہی بات کہوں جو حضرت یوسف علیہ السلام کے والد نے کہی تھی کہ 'فصبر جمیل (اشارہ ہے اس واقعے کی طرف جبکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے سامنے ان کے بیٹے بن یامین پر چوری کا الزام بیان کیا گیا تھا:سورۂ یوسف رکوع 10) یہ کہہ کر میں لیٹ گئی اور دوسری طرف کروٹ لے لی۔ میں اس وقت اپنے دل میں کہہ رہی تھی کہ اللہ میری بے گناہی سے واقف ہے اور وہ ضرور حقیقت کھول دے گا۔ اگرچہ یہ بات تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ میرے حق میں وحی نازل ہوگی جو قیامت تک پڑھی جائے گی۔ میں اپنی ہستی کو اس سے کم تر سمجھتی تھی کہ اللہ خود میری طرف سے بولے۔ (اللہ و اکبر میرے ماں باپ آپ پر قربان اے مومنوں کی ماں کیا مرتبہ ہے آپکا کہ منافقوں کی دشنام طرازیوں کا جواب آپکی طرف سے آپ کا رب دیتا ہے اللہ اکبر ،اللہ الصمد۔ ازآبی ٹوکول ) مگر میرا یہ گمان تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کوئی خواب دیکھیں گے جس میں اللہ تعالیٰ میری براءت ظاہر فرما دے گا۔ اتنے میں یکا یک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر وہ کیفیت طاری ہو گئی جو وحی نازل ہوتے وقت ہوا کرتی تھی، حتیٰ کہ سخت جاڑے کے زمانے میں بھی موتی کی طرح آپ کے چہرے سے پسینے کے قطرے ٹپکنے لگتے تھے۔ ہم سب خاموش ہو گئی۔ میں تو بالکل بے خوف تھی مگر میرے والدین کا حال یہ تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ وہ ڈر رہے تھے کہ دیکھیے اللہ کیا حقیقت کھولتا ہے جب وہ کیفیت دور ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بے حد خوش تھے۔ آپ نے ہنستے ہوئے پہلی بات جو فرمائی وہ یہ تھی کہ مبارک ہو عائشہ، اللہ نے تمہاری براءت نازل فرما دی اور اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دس آیات سنائیں (یعنی آیت نمبر 11 تا نمبر 21)۔ میری والدہ نے کہا کہ اٹھو اور رسول اللہ کا شکریہ ادا کرو۔ میں نے کہا کہ میں نہ ان کا شکریہ ادا کروں گا نہ آپ دونوں کا، بلکہ اللہ کا شکر کرتی ہوں جس نے میری براءت نازل فرمائی۔ اور حدیث میں ہے کہ میرے عذر کی یہ* آیتیں اترنے کہ بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مردوں اور ایک عورت کو تہمت کی حد (یعنی حد قذف ) لگائی یعنی حسان بن ثابت ،مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت حجش کو ۔ ۔ ۔
                    واضح رہے کہ یہ کسی ایک روایت کا ترجمہ نہیں بلکہ حدیث ،تفسیر اور سیرت کی کتابوں میں جتنی روایات حضرت عائشہ سے اس سلسلے میں مروی ہیں ان سب کو جمع کرکے ان کا خلاصہ نکالا گیاہے۔
                    اول تو یہ سمجھیئے کہ یہ سارا واقعہ قرآن پاک میں سورہ نور میں بعینہ مذکور نہیں ہے بلکہ سورہ نور میں فقط ام المومنین صدیقہ کائنات حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی پاکی بیان کی گئی ہے اور حدود اللہ کا بیان ہوا ہے کہ زنا کی کیا حد ہے اور حد قذف یعنی تہمت لگانے والے پر کیا حد جاری ہوگی اس کہ علاوہ باقی سارا واقعہ احادیث ،سیرت اور تاریخ کی مختلف کتابوں میں بیان ہوا ہے آپ نے جو یہ بار بار فرمایا کہ حضور نبی کریم نے جھوٹا الام لگانے والوں کو معاف فرمادیا یہ محض الزام ہے کسی تاریخ یا حدیث یا تفسیر کی مستند کتاب سے ایسا ثابت نہیں اگر ہے تو برائے مہربانی اس کا نام بتائیے وگرنہ میں بار بار کہہ چکا کہ قرآن و سنت کو محض اپنے فہم سے سمجھنا چھوڑ دیجیئے کہ یہ سرا سر گمراہی ہے ۔ ۔ ۔۔جاری ہے ۔ ۔ ۔۔
                    ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                    Comment


                    • #70
                      Re: kia yeh insaaf hain

                      AABI BHAI AAP THEEK JA RAHAY HAIN....VERY GOOD.....:thmbup:

                      :jazak:
                      شاہ حسین جیہناں سچ پچھاتا' کامل عِشق تیہناں دا جاتا

                      Comment


                      • #71
                        Re: kia yeh insaaf hain

                        خلاصۃ البحث
                        اسلام علیکم بات شروع ہوئی تھی میڈیا پر دکھائی جانے والی مبینہ طالبانی ویڈیو سے بڑھتے بڑھتے شرعی حدود اور نہ نفاذ تک پہنچی جس میں محترمہ زونیش صاحبہ سے ہمارا یہ اختلاف ٹھرا کہ انکے نزدیک اسلام کا عَفْو و دَرْگُزَر کا دین ہے لہزا اس کا یہ تقاضا ٹھرا کہ حدود اللہ کی تنفیذ میں بھی عَفْو و دَرْگُزَر سے کام لینا چاہیے جبکہ ہم نے حدوداللہ کی روشنی میں عرض یہ کرنا چاہی کہ بلا شبہ اسلام عَفْو و دَرْگُزَر کا دین ہے مگر یہ معاملہ اس وقت تک ہے کہ جب کہ کوئی بھی قضیہ فریقین کہ درمیان ہو لیکن جب معاملہ فریقین یا ان دونوں میں سے کوئی ایک اسلامی عدالت میں پیش کردے تو اب اس معاملے اسلامی تعلیمات کہ مطابق انصاف کہ سارے تقاضوں کو پورا کیا جائے گا کیونکہ اب معاملہ عدالت میں آن پہنچا اور عدالت کا تو کام ہی عدل مہیا کرنا ہوتا ہے اور عدل کی تعریف یہ ہے کہ ہر چیز کو ٹھیک ٹھیک اس کہ مقام پر رکھ دیا جائے کہ جس مقام کہ لیے وہ وضع کی گئی ہو ۔ ۔ ۔لیکن جہاں تک بات ہے عَفْو و دَرْگُزَر کی تو اس کا تعلق عدل سے نہیں بلکہ فضل سے ہے اور حدود میں یہ معاملہ اس وقت تک ہوتا کہ جب تک معاملہ خود بندے اور اللہ کہ درمیان رہے اور وہ بندہ توبہ کرلے تو اللہ کہ فضل سے قوی امید ہے کہ اس کا گناہ معاف کردیا جائے گا خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو کیونکہ " جب انسان اپنے پروردگار كے سامنے پكى اور سچى خالص توبہ كر ليتا ہے تو اللہ سبحانہ و تعالى نے وعدہ كيا ہے كہ وہ توبہ كرنے والے كى توبہ قبول كريگا، بلكہ وہ اس كے عوض ميں اسے نيكياں عطا فرمائيگا، جو كہ اللہ تعالى كے جود و كرم ميں شامل ہوتا ہے ۔۔
                        اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
                        ﴿ اور وہ لوگ جو اللہ تعالى كے ساتھ كسى اور كو الہ نہيں بناتے اور نہ ہى وہ اللہ تعالى كے حرام كردہ كسى نفس كو ناحق قتل كرتے ہيں، اور نہ ہى زنا كا ارتكاب كرتے ہيں، اور جو كوئى يہ كام كرے وہ گنہگار ہے، اسے روز قيامت ڈبل عذاب ديا جائيگا، اور وہ ذليل ہو كر اس ميں ہميشہ رہے گا، ليكن جو شخص توبہ كر لے اور ايمان لے آئے اور اعمال صالحہ كرے، تو يہى وہ لوگ ہيں اللہ تعالى جن كى برائيوں كو نيكيوں ميں بدل ديتے ہيں، اور اللہ تعالى بخشنے والا رحم كرنے والا ہے ﴾الفرقان ( 68 - 70 ).
                        اور توبہ كى شروط ميں گناہ كو فورى طور پر چھوڑ دينا، اور جو ہو چكا ہے اس پر ندامت كا اظہار كرنا، اور آئندہ اس كام كو نہ كرنے كا عزم كرنا شامل ہے، اور اگر اس كا تعلق كسى آدمى كے حقوق سے ہو تو پھر اس شخص سے معافى طلب كرنا بھى توبہ كى شروط ميں شامل ہوتا ہے ۔
                        آپ ہم درج زیل میں عفو و درگزر کی جتنی بھی مثالیں آپ نے نقل کی ہیں اسلامی تاریخ میں ان سب کا تنقیدی جائزہ لیں گے ۔ ۔ آپ نے فرمایا کہ ۔ ۔ ۔ ۔
                        main yhe nhe kahti k gonah per saza na di jaye mager bhai ager tuba ker le jaye teb saza nhe dyni chaye ? 100 korey teb marny chaye jeb zani merd aur zani ouret gonah sy baaz na aye ya tuba na kery



                        سب سے پہلے تو آپ کا یہ فرمانا ہی بے بنیاد اور بلا تحقیق ہے ۔ کیونکہ شريعت نےجن گناہوں پرحد ركھي ہے ان گناہوں کہ ارتکاب کہ بعد اس حد كا لاگو کیے جانے ہی كي بنا پر وہ حد گناہ كا كفارہ بن جاتي ہے اور اس كا گناہ ختم ہوجاتاہے. چناچہ حديث ميں ہےكہ عبادہ بن صامت رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتےہيں رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا: ميرےساتھ اس بات پر بيعت كرو كہ تم اللہ تعالي كےساتھ شرك نہيں كروگے اور نہ ہي چوري اور زنا كاري كرو گے اور نہ ہي اپني اولاد كوقتل كروگےاور نہ ہي اپني جانب سےبہتان بازي كروگے اور نيكي ميں نافرماني نہيں كروگے اورجوكوئي بھي تم ميں سے اس كي وفاداري كرےگا اللہ تعالي اسےاجروثواب سےنوازےگا، اور جوبھي اس ميں سے كسي ايك كا مرتكب ہوگا اسےدنيا ميں سزا دي جائےگي جواس كےليےكفارہ ہوگي اورجوكوئي بھي ان ميں سےكسي ايك كامرتكب ہوا اوراللہ تعالي نےاس كي پردہ پوشي كردي اس كامعاملہ اللہ كےساتھ ہے اگروہ چاہےتواس سےوہ گناہ معاف كردے اور اگرچاہےتواسےسزا دے .
                        صحيح بخاري ( 18 ) صحيح مسلم ( 1709 )
                        اس لیے سچي توبہ بھي گناہوں كا كفارہ بنتي ہے اور "توبہ كرنےوالا ايسےہي ہے جيسے كسي كا كوئي گناہ نہ ہو" بلكہ اللہ تعالي تواس كي برائيوں كونيكيوں سے بدل ڈالتےہيں.مگر یہ اس وقت ہے کہ جب کسی بھی حد کی پامالی کرنے والے نے اپنے گناہ کا اعتراف اسلامی عدالت کہ سامنے نہ کیا ہو کیونکہ جب وہ اعترف گناہ عدالت کہ سامنے کرلے گا تو اب اس پر اسلامی ریاست کہ حاکم کا حد جاری کرنا واجب ہوجائے گا لہزا اگر کوئی بھی شخص توبہ كرنےميں سچائي اور كثرت سےاستغفار كرے اور اپنے معاملے کو اپنے اور اللہ کہ درمیان رکھے تو اس پرگناہ كا اعتراف كرنا لازم نہيں كہ اس پر حد جاري كي جاسكے، بلكہ انشاء اللہ اس کہ لیے خالی توبہ ہي كافي ہے مگر یاد رہے جب تک کہ وہ معاملہ اس کہ اس کہ رب کہ درمیان ہو ۔ ۔ ۔


                        k sooreh noor main he yeh wakia derj hain jeb hazret ayesha razi tala un ha per tuhmet ka ilzam laga tha aur rpori is wakiya ki tafshish ki agi the . . . . .

                        lakin jeb tumat lagny waly ny kud qabol kia k us nay jhoti tuhmet lagi hain teb

                        humry pak nabi pbum ny us insan ko maaf kia jeb k quran pak main irshaad howa k
                        tuhmet lagyny waly ko 80 kore marain ajin agercha wo tuba ker ly pher b
                        آپ نے یہ واقعہ بھی بلاسند اور بے بنیاد بیان کیا ہے اس کی حقیقت ہم پیچھے کھول آئے ہیں کہ خود حضرت عائشہ نے فرمایا کہ واقعہ افک میں جو مسلمان غلط فہمی کی وجہ سے منافقین کہ پرپیگنڈہ کا حصہ بن گئے تھے یعنی حضرت حسان بن ثابت ،مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت حجش ان سب کو حد قذف لگائی گئی تفصیل کہ لیے دیکھیئے تفسیر ابن کثیر ۔ ۔ ۔


                        turjuma9 aur wo log gusay ko zabet ker jatain hain logo k qasoor maaf ker dyatain hain aur allah ihsaan kerny walon ko dost rakhta hain



                        ek aur jaga irshad howa
                        (kuda tum ko adel aur ihsaan ka hukm dayta hain ) mery bhai saza sy zayda us per tuba kerny wala aur us tuba ko qabol ker k maaf kenry waly ka derja blund kia gaya hain us k jo afu dergozer sy kam na lay aur sakht tareen saza dain


                        آپکی پیش کردہ ان آیات کا تعلق براہراست حدود اللہ کہ نفاذ سے متعلق نہیں ہے بلکہ آپس کہ روز مرہ کہ باہمی معاملات سے متعلق ہے ۔ ۔
                        جاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔


                        Last edited by aabi2cool; 4 April 2009, 19:30.
                        ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                        Comment


                        • #72
                          Re: kia yeh insaaf hain

                          Originally posted by aabi2cool View Post
                          خلاصۃ البحث
                          کہ بلا شبہ اسلام عَفْو و دَرْگُزَر کا دین ہے مگر یہ معاملہ اس وقت تک ہے کہ جب کہ کوئی بھی قضیہ فریقین کہ درمیان ہو لیکن جب معاملہ فریقین یا ان دونوں میں سے کوئی ایک اسلامی عدالت میں پیش کردے تو اب اس معاملے اسلامی تعلیمات کہ مطابق انصاف کہ سارے تقاضوں کو پورا کیا جائے گا کیونکہ اب معاملہ عدالت میں آن پہنچا اور عدالت کا تو کام ہی عدل مہیا کرنا ہوتا ہے اور عدل کی تعریف یہ ہے کہ ہر چیز کو ٹھیک ٹھیک اس کہ مقام پر رکھ دیا جائے کہ جس مقام کہ لیے وہ وضع کی گئی ہو ۔ ۔ ۔لیکن جہاں تک بات ہے عَفْو و دَرْگُزَر کی تو اس کا تعلق عدل سے نہیں بلکہ فضل سے ہے اور حدود میں یہ معاملہ اس وقت تک ہوتا کہ جب تک معاملہ خود بندے اور اللہ کہ درمیان رہے اور وہ بندہ توبہ کرلے تو اللہ کہ فضل سے قوی امید ہے کہ اس کا گناہ معاف کردیا جائے گا خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہوجاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔


                          ABSOLUTELY RIGHT......:jazak:
                          شاہ حسین جیہناں سچ پچھاتا' کامل عِشق تیہناں دا جاتا

                          Comment


                          • #73
                            Re: kia yeh insaaf hain

                            Originally posted by zoniash View Post
                            pegham ky seb dosto ko zoniesh ka salam

                            main ny aj abi abi ek holaknak dardnak menzer dekha hain aur muje samjh nhe arhi k main kia keron kasyse berdast keron dil ker raha hain k apne jism k he tokery ker don sawat main 17 year ki lerki ko sare aam korey mary ja rahin hain us ki cheekhain mery dimag ki neson ki phar dain g us ki maa jis ko zinda aag laga dyni chaye jo apni beti ka yehon sare aam leta k korey marwa rahi hain mamta mer gai hain ya insan he nhe wo jo apni beti ki cheekahin b sun nhe pa rahi aur jeb wo massom lerki ihtajaj kerny k liya hath rakhti hain to us ki maa us k hath paker leti hain ek merd ny us ko tangon sy paker rakh ta ky wo ihtajaj b na ker saky kahan gaya ya rub to kahan gaya mery pore wajod main senata chah gaya hain aur loog bygret ben k sara tamasha dakh rahain
                            main pochna chati hon k ek judge ko bahal kerwany k liya sare log road py nekal aye mager kia koi ahin aysa is zulm k khilaaf awaz uthaye baher neklay such main aj mery dil sy yeh dua nekli hain k
                            allah sawat main azaab laye sare log mer jain kiyon k ayse gandy zalim logo ko jeenay ka koi haq nhe jo zulm ko dkahty to hain mger us ko rokny ki hemt nhe kerty allah berbad ker dy ayse logo ko ameen
                            me is bare me kuch nahi kahoonga k ye jayez ha i ya najayez q k me ab is darje tak nahi puhancha k islami qanoon k bare me kuch keh sakoon lekin jaha tak swat k logo ki baat hai une majboor kiya gaya hai jab army waha kuch nahi karsakti to awam kya karengi aap ki thread parr kar mere dil se bhi aik bad duwa nikli hai k aise halat allah pak un sab logo ko dikaye jo aisi batain karte hai.
                            Hamare ooper jo zulam ho raha hai us k khilaaf bholne k bajaye aap hamare khilaaf bol rahi hai nehayat afsoos ki bat hai.

                            Comment


                            • #74
                              Re: kia yeh insaaf hain

                              Originally posted by ummid View Post
                              nothing to say girl...............
                              kuch to kahen akhir Ummid per donya kayem ha:eye:

                              Comment


                              • #75
                                Re: kia yeh insaaf hain

                                Originally posted by zoniash View Post
                                yeh he baat main samjhany ki khoshish ker rahi hon mager abicool ki samjh main nhe arah main un ki yeh he smjhan chah rahi k kuda k bandy nabi pak PBUM ny aibo per perda dalny ka hukam fermya hain un ki hayat taiba per nazer dalin to ek b aysa wakia nhe milta kia teb gonah nhe hoty thy ya szain nhe milti the mager kabi aysa wakia samny aya kabi b kisi sahabi k door main b nhe khabi b kisi ny b is saza per implement kia?quran pak humre liya rehnumai hain mager is per amel kerny ka tareeka to humry nabi pak PBUM ny he bataya na humain .

                                Whats u wants to say ?:mm:
                                kah Allah ne jo sazain mukarar ke hain us ke implementation na pehle hote theen or na aj hone chaheya, its mean Islam is a theoratical not practical""''
                                kuch samagh nahi aya:(

                                Comment

                                Working...
                                X