Announcement
Collapse
No announcement yet.
Unconfigured Ad Widget
Collapse
!عورت بمقابہ مرد !
Collapse
X
-
Originally posted by aabi2cool View Postaap apna hissa bhi daliye bismillah kijiyeee" Obstacles are what you see when you take your eyes off your goals "
Comment
-
Originally posted by Xenja View Postmey likhney lagi thi....leykin masla ye hua key mey ney lafz "barabar" pey deyhan hi nahi diya ... khair in short .. kya mey in general baat ker sakti huN covering both the points "barabar" and "Mukhtalif"?ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا
Comment
-
اسلام علیکم جی ہاں تو ہم بات کررہے تھے عورت اور مرد کی برابری کی جبکہ ہمارے فریق مخالف کا دعوٰ ی ہے کہ عورت ذات کبھی بھی مرد کی ہمسر نہیں ہوسکتی اور اس دعوٰے کی ان کہ پاس کوئی بھی دلیل نہیں بجز اس کہ خود ان تعلق اس صنف سے ہے کہ جس پر مرد کا اطلاق ہوتا ہے ۔ ہمارا یہ دعوٰی ہے کہ برتری تقاضہ کرتی ہے اکمال کا یعنی اگر آپ نے کسی شئے کی برتری ثابت کرنا ہے تو آپ کو اس کا اکمال ثابت کرنا پڑے گا اور اسی قضیئے کو ہم نے اپنی سب سے پہلی دلیل بنایا ہے کہ جب مرد ذات کا اکمال عورت کہ وجود کہ بغیر محال ہے تو پھر برتری کاہے کی ۔ ۔ ۔ ۔ خیر ہماری یہ دلیل تو اپنی جگہ مسلم اب ہم آتے ہیں عملی میدان میں خواتین کارہائے نمایاں کی طرف جیسا کہ ہم پہلے بھی ثابت کرچکے کہ ازل سے ہمارا معاشرہ مردوں کا معاشرہ رہا ہے اور ہمیشہ سے عورت کہ ساتھ استحصالی سلوک ہوتا آیا ہے ۔ ۔ عورت مرد کہ مقابلے مین فطری طور پر کمزور پیدا کی گئی اور اس پر طُرفہ یہ کہ مرد ہمیشہ سے اسے خفیف دیکھنے کا خواہش مند ہے اسی لیے مرد نے اسے دبانے اور کمزور کرنے کہ لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اب جس بھی میدان میں دیکھ لیں مرد نے اہنی پینچہ گیری ثابت کرنے کے لیے ہمیشہ سے عورت کی فطری صلاحیتوں کا گلا گھونٹتا آیا ہے مگر آفرین ہے عورت ذات پر کہ اس سب کہ باوجود اس نے ہمیشہ سے ہر میدان میں مردوں کا بھرپور مقابلہ کیا ہے اب ان عملی میدانوں میں ہم سب سے پہلے عسکری شعبے کو لیتے ہیں( کیونکہ اسے خالصتا مردوں کا شعبہ گردانا جاتا ہے) کہ وہاں تاریخی طور پر خواتین نے کیا کارہائے نمایان انجام دیئے ہیں ۔ ۔ آئیے ہم آپ کو لیے چلیں تاریخ جھروکوں میں . . . جب کبھی عورت کو اپنی قابلیت کے جوہر دکھانے کے لئے سازگار ماحول مل گیا ،اس نے وہ کرتب دکھائے کہ دنیا حیران وششدر ہو کر رہ گئی ۔ قریباً تین ہزار قبل مسیح میں رانی جیشومتی نام کی ایک قابل عورت ہو گزری ہے کہ جس نے اپنی، دُور اندیشی ، مدبری اور بہادری کہ وہ جوہر دکھائے کہ وہ کشمیری تاریخ میں ایک خودمختار حکمران کی حیثیت سے اُبھری ۔ محمد دین فوق اور کئی دیگر مورخوں کے خیال میں یہ کشمیری عورت دُنیا کی پہلی خودمختار حاکم تھی ۔ اسی طرح رانی سگنڈاور رانی دیدا جیسی نڈر مہارانیوں نے کئی علاقوں پر شان سے حکومت کی ۔ رانی کلنکا نے بھوجا اور جے سیما کے درمیان صلح کرانے میں غیر معمولی دانائی کا ثبوت دیا ہے ۔گیارہویں صدی عیسوی میں لکھی جانے کشمیری عورتوں نے ایثار اور قربانی کے بے مثال کارنامے انجام دیئے ہیں اور ستی جیسی مشکل ترین رسم بخوشی اپنائی ۔ کلہن کی راج ترنگنی میں سمکروردھن کی موت پر سریندرا وتی اور اس کی دوبیویوں کی اس کی چتا میں زندہ اپنے آپ کو جلانے کے واقعے کا دلدوز ذکرملتاہے ۔اسی طرح تریلو کی دیوی نے بھی اپنے شوہر لیسکر کی موت پر اس کے ساتھ ہی چتا میں اپنے آپ کو زندہ جلادیا ۔۔ ۔ اگر آپ تاریخ اسلام پر نظر دوڑائیں تو بھی آپکو خواتین کہ بے شمار جنگی کارنامے ملتے ہیں غزوہ اُحد کو ہی لے لیجئے اس میں حضرت ہندہ (جو کہ اس وقت تک ابھی مسلمان نہیں ہوئی تھیں) نے دیگر عرب خواتین کہ ساتھ بھرپور شرکت کی اور دوران غزوہ اپنی رزمیہ شاعری سےت نوجوانان عرب کو لڑنے کی ترغیب دیتی رہیں ۔ ۔ ۔۔ آگے چلیئے یہ ہے 1205ء میں سے 1240ء کہ بیچ کا زمانہ کہ جس میں تاریخ کی ایک اور عظیم فرمانروا رضیہ سلطان یا رضیہ سلطانہ (شاہی نام: جلالۃ الدین رضیہ) کا نام دمکتا ہوا ملتا ہے جو کہ جنوبی ایشیا پر حکومت کرنے والی واحد خاتون تھیں۔ وہ ترک سلجوق نسل سے تعلق رکھتی تھیں اور کئی دیگر مسلم شہزادیوں کی طرح جنگی تربیت اور انتظام سلطنت کی تربیت بھی حاصل کی۔
سلطنت دہلی کے خاندان غلاماں کے بادشاہ شمس الدین التمش ان کے والد تھے جنہوں نے اپنے کئی بیٹوں پر ترجیح دیتے ہوئے رضیہ کو اپنا جانشیں قرار دیا تاہم التتمش کے انتقال کے بعد رضیہ کے ایک بھائی رکن الدین فیروز نے تخت پر قبضہ کرلیا اور 7 ماہ تک حکومت کی۔ لیکن رضیہ سلطانہ نے دہلی کے لوگوں کی مدد سے 1236ء میں بھائی کو شکست دے کر تخت حاصل کرلیا۔ واضح رہے کہ رضیہ اپنے لئے سلطانہ کا لقب پسند نہیں کرتی تھیں کیونکہ اس کا مطلب ہے سلطان کی بیوی بلکہ اس کی جگہ خود کو رضیہ سلطان کہتی تھیں۔آگے چلیئے یہاں ہے تاریخ کی ایک اور عظیم بیٹی کاذکر کہ جس کہ کردار نے اقبال کی روح کو جھنجھوڑ کہ رکھ دیا جی ہاں ہم بات کررہے ہیں انیس سو بارہ میں طرابلس کی جنگ میں ایک عرب لڑکی فاطمہ بنت عبداللہ کی جو کہ غازیوں کو پانی پلاتے ہوۓ شہید ہوئي تو اقبال علیہ رحمہ نے اس کو درج زیل اشعار کی صورت میں خراج تحسین پیش کیا ۔ ۔۔
فاطمہ تو آبروے ملت مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تیری مشت خاک کا معصوم ہے
یہ سعادت حورصحرائي تری قسمت میں تھی
غازیاں دیں کی سقائي تری قسمت میں تھی
یہ جہاد اللہ کےرستے میں بے تیغ و سپر
ہے جسارت آفرین شوق شہادت کس قدر
اس کے علاوہ بھی تاریخ عالم میں اگر عمیق نگاہ دوڑائی جائے تو بے شمار ایسے واقعات مل جائیں گے کہ جس میں آپ کو صاف صاف پتا چل جائے گا کہ جنگی میدانوں مجموعی طور پر خواتین نے کس قدر بھرپور کردار ادا کیا صرف ایک اور آخری مثال سول وار کہ حوالے سے پیش خدمت ہے کہ 1861ء سے 1865ء تک لڑی جانے والی امریکی سول وار میں خواتین نے نرسزاور ڈاکٹرز بن کر بھی اپنے سپاہیوں کی مدد کی۔ یہ تو تھے عسکری میدانوں میں خواتین کا کارہائے نمایاں اب ہم درج زیل میں سیاست کہ میدانوں میں کامیاب خواتین کا زکر کریں گے ۔ ۔ ۔۔
ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا
Comment
-
دنیا کی سیاست میں خواتین کا بے مثال کرداردنیا کی خواتین وزراء اعظم
دنیا کی باہمت خواتین کی فہرست میں وہ خواتین بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنی سیاسی جدوجہد سے عنان حکومت تک رسائی حاصل کی۔ ان باہمت خواتین نے سیاست کے میدان میں عملی جدوجہد کرکے خواتین کے حقوق کو بلند کیا۔ دنیا کے مختلف ممالک کی یہ وزراء اعظم آج تاریخ کا حصہ بن گئیں ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی سیاسی خدمات کو رشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ خواتین وزراء اعظم کی فہرست یوں ہے :
سریماؤ باندرانیکی سری لنکا
1956ء میں لنکن وزیر اعظم بننے والے سیاسی رہنما باندرانیکی کی اہلیہ اور سری لنکا کی ممتاز خاتون رہنما ہونے کی حیثیت سے تین بار ملک کی وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھال چکی ہیں۔
اندرا گاندھی
بھارت1966ء سے 1967 ء اور اس کے بعد 1980ء سے 1984ء تک دو دفعہ بھارت کی وزیر اعظم رہیں۔ اندرا گاندھی کا شمار بھی دنیا کی ان خواتین میں ہوتا ہے جو اپنی سیاسی بصیرت اور خواتین کے حقوق کی بحالی کے لیے دنیا بھر میں جانی جاتی ہیں۔
۔ گولڈا میر
اسرائیل17 مارچ 1969ء میں وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالا اور 1974ء تک اس عہدہ پر رہیں۔ انہیں دنیا کی تیسری خاتون وزیراعظم ہونے کااعزاز حاصل ہے۔
۔ ایلزبتھ دومیٹن
جنوبی افریقہ1975ء سے 1976ء تک وزیراعظم رہیں اور انہوں نے ملک میں سیاہ فاموں کے لیے ایک تحریک چلائی جس میں سیادفام عورتوں کو مساوی حقوق دینے کے حوالے سے قانون سازی بھی شامل ہے۔
مارگریٹ تھیچر
برطانیہ4 مئی 1979ء سے 28 نومبر 1990ء تک برطانیہ کی وزیراعظم رہیں۔
Maria de Lourdes Pintasilgo (پرتگال)
یکم اگست 1979ء سے 3 جنوری 1980ء پر تگال کی وزیراعظم رہیں۔
Mary Eugenia Charles (ڈومنیکا)
21 جولائی 1980 ء سے 14 جون 1995ء ڈومینکا کی وزیراعظم رہیں۔
Gro Harlem Brundtland (ناروے)
ناروے کی تین بار وزیراعظم رہیں۔ (1981ء تا 1896ء۔ 1986ء تا 1989ء۔ 1990ء تا 1996ء) اور اس وقت ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کی صدر ہیں۔
Milka Planinc (یوگوسلوایا)
1982ء سے 1986ء تک یوگو سلوایا کی وزیراعظم رہیں۔
۔ بینظیر بھٹو پاکستان
1988ء تا 1990ء اور 1993ء سے 1996ء دو بار ملک کی وزیر اعظم رہیں اور ملک کی پہلی خاتون سربراہ مملکت ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔
۔ Kazimiera Danute Prunskieneلتھونیا 1990 ء تا 1991ء تک لتھونیا کی وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل کیا۔
12۔ خالدہ ضیاء (بنگلہ دیش) دوبار (1991ء تا 1996ء اور 2001ء تا 2006ئ) وزارت اعظمیٰ کے منصب پر رہیں۔
دیگر خاتون وزراء کی تفصیل درج ذیل ہے :
13۔ Edith Cresson (فرانس) 1991 ء تا 1992ء
14۔ Hanna Suchocka (پولینڈ) 1992ء تا 1993ء
15۔ Kim Campbell (کینیڈا) 1993ء
16۔ Tansu C,iller (ترکی) 1993ء تا 1996ء
17۔ Sylvie Kinigi (برنڈی) 1993ء تا 1994ء
18۔ Agathe Uwilingiyimana (روانڈا) 1993ء تا 1994ء
19۔ Chandrika Kumaratunga (سری لنکا) 1994ء
20۔ Reneta Indzhova (بلغاریہ) 1994ء تا 1996ء
21۔ Claudette Werleigh (ہیٹی) 1995 ء تا 1996ء
22۔ Sheikh Hasina Wajid(بنگلہ دیش) 1996ء تا 2001ء
23۔ Janet Jagan (گیانا) 1997ء
24۔ Jenny Shipley (نیوزی لینڈ) 1997ء تا 1999ء
25۔ Irena Degutiene (لتھونیا) 1999ء
26۔ Nyam-Osoriyn Tuyaa (مونگولیا) //
27۔ Helen Elizabeth Clark (نیوزی لینڈ) //
28۔ Mame Madior Boye (سینیگال) 2001ء تا 2002ء
29۔ Chang Sang (جنوبی کوریا) 2002ء
30۔ Maria das Neves Ceita Baptista de Sousa (ساؤ ٹوم اینڈپرنسپی) 2002ء تا 2003ء
31۔ Anneli Tuulikki Ja"a"tteenma"ki (فن لینڈ) 2003ء
32۔ Beatriz Merino Lucero (پیرو) 2003ء
33۔ Lui'sa Dias Diogo (موزمبقے) 2004ء
34۔ Radmila Sekerinska (مقدونیہ) 2004ء
35۔ Yuliya Tymoshenko (یوکرائن) 2005ء اور 2007 میں دو بار
36۔ Maria do Carmo Silveira (ساؤ ٹوم اینڈپرنسپی) 2005ء تا 2006ء
37۔ Angela Merkel (جرمنی) 2005ء تا تاحال
38۔ Portia Simpson-Miller (جمیکا) 2006ء تا 2007ء
39۔ Han Myung Sook (جنوبی کوریا) 2006ء تا 2007ء
40۔ Zinaida Greceanii (مولدوا) 2008ء
دنیا کی ان خواتین وزراء اعظم نے اپنے ملک میں جمہوریت کے فروغ اور انسانی حقوق کی بحالی کے ساتھ ساتھ حقوق نسواں کی آواز کو بلند کیا۔ حقوق نسواں کے لحاظ سے ان کی کاوشیں دنیا کے لیے ناقابل فراموش ہیں۔شاہی خاندانوں کی خواتین ملکہ
دنیا بھر کے شاہی خاندانوں میں ان خواتین کو بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے جنہوں نے اپنے شاہی خاندانوں کی ایک ملکہ کی حیثیت سے نمائندگی کی۔ 1980ء سے لے کر 2008ء تک ان ملکہ خواتین کی تعداد 11 ہے۔
1۔ Wilhelmina (ہالینڈ) 2۔ Salote Tupou III (ٹونگا)
3۔ Charlotte (لیگزمبرگ) 4۔ Juliana (ہالینڈ)
5۔ Elizabeth II (برطانیہ)
6۔ Sisovath Monivong Kossomak Nearireath (کمبوڈیا)
7۔ 'MaMohato Tabitha 'Masentle Lerotholi (لیستھو)
8۔ Margrethe II (ڈنمارک) 9۔ Beatrix (ہالینڈ)
10۔ Dzeliwe Shongwe (سوئٹزرلینڈ) 11۔ Ntombi Thwala (سوئٹزرلینڈ)
دنیا کی 40 وزراء اعظم کے علاوہ دنیا بھر کی صدور کی تعداد بھی 40 ہی ہے۔دنیا کی موجودہ خواتین سربراہان مملکت
دنیا کی موجودہ خواتین سربراہان مملکت میں سے میری میکلسی (آئرلینڈ) ویرا ویک فیربرگا (لیٹویا)، ہیلن کلارک (نیوزی لینڈ)، تاجرا کے ہلنن (فن لینڈ)، گلوریا میپاگل ارویو (فلپائن)، خالدہ ضیاء (بنگلہ دیش)، لوزا ڈیگو (موزاگامبے)، ماریا ڈو کمیرو سلویرا (ساؤ ٹوم اینڈ پرنسپی)، اینجلا مورکل (جرمنی)، مائیکل بچلٹ (چلی)، ایلن جانسن سرلیف(لائبریا) اور پیٹروشیا سمپسن ملر (جمیکا) شامل ہیں۔
شیریں عبادی
مسلم خواتین کا جہاں ذکر ہوگا تو یہ فہرست ایران کی عظیم انقلابی رہنما شیریں عبادی کے بغیر ادھوری رہ جائیگی۔ شیریں عبادی جن کو ایران کی جرات مند اور بہادر خاتون ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ان کی گراں قدر خدمات کی وجہ سے آج بھی مسلم دنیا کے علاوہ دنیا بھر کی جواں ہمت خواتین میں شمار کی جاتی ہیں۔
تاریخی پس منظر میں جب ہم دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں جو بھی انقلابات آئے ان میں خواتین کا اہم اور مرکزی کردار رہا ہے۔ انقلاب فرانس سے لے کر انقلاب چین اور ایران تک سب جگہ خواتین نے فرنٹ لائن کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ جنگی فتوحات میں بھی عورتوں نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا۔ اسرائیل نے گزشتہ سال جب لبنان پر حملہ کیا توملک میں موجود ہزاروں لوگوں نے ہمسایہ ملک ہجرت کرنے کی بجائے مخالف فوج کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ جرأت مند لبنانی خواتین گھروں سے باہر نکل کر دشمن کو للکار رہی تھیں۔ عوام کے لیے اپنی خواتین کی طرف سے یہ بہادری کا رویہ فتح کا باعث بنا جنہوں نے اپنی فوج کی ہمت بندھائی اور پھر اسرائیل کو رسوا ہو کر لبنان سے نکلنا پڑا۔ اس طرح کی مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے جب خواتین کے جذبوں سے فتوحات ملیں۔
دنیا کے انقلابات میں بھی خواتین کا نمایاں مقام رہا ہے۔ یورپ میں Nicaraguan کو 1821ء میں سپین سے آزادی کی منظوری ملی اور 1950ء میں Nicaraguan کو ایک آزاد ملک قرار دیدیا گیا۔ اس انقلاب میں خواتین نے آزادی کے لیے وہ تاریخی کرادرادا کیا جو آج تک یورپی تاریخ کا اہم باب ہے۔ اس انقلاب میں Nicaraguan کی خواتین نے جنگ میں بھی اپنی فوج کے شانہ بشانہ لڑائی کی تھی۔ ملک کی 30 فیصد خواتین فوج کا حصہ بھی ہیں ان کے جذبات اور بھی جوشیلے ہیں۔بھارت میں اندرا گاندھی ایک مسیحا کی حیثیت رکھتی تھیں انھوں نے اپنی بے پناہ سیاسی بصیرت قوتِ ارادی ارو قوتِ فیصلہ کہ بل بوتے پر ایک عورت ہو کر جس ہوشیاری سے ایک ہاری ہوئی بازی پاکستان سے مذاکرات کے میز پر جیتی وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔
تو دوسری طرف سکھ مذہب کے نویں گرو گرو تیغ بہادر کی اہلیہ اور دسویں اور آخری سکھ گرو، گرو گھوبند سنگھ کی ماں ماتا گجری جی کی خدمات بھی سکھ مذہب کے لیے امن و آشتی کے علاوہ بہادری و جرات کی علامت تھیں۔ ان کی خدمات کو سکھ مذہب کے پیرو کا رآج بھی عبادت کی حیثیت دیتے ہیں۔ مذاہب عالم کے پس منظر میں جب ہم دیکھتے ہیں تو عیسائیت اور چرچ کے لیے عیسائی خواتین کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں۔ 1812ء کی جنگ میں برطانوی اور امریکی خواتین نے وہ کردار ادا کیا جو آج بھی تاریخ کی کتب میں بہادری کی داستان کے طور پر رقم ہے۔ اگست 1811ء کی جنگ میں لیفٹینینٹ جوزیہ بیکن کی اہلیہ مسز لیڈیا بی بیکن نے جنگی مورچوں میں جا کر اپنی بہادر فوج کا حوصلہ بڑھایا۔
پاکستان میں خواتین رہنما
اس ساری تفصیل کے باوجود تیسری دنیامیں افریقی و ایشائی ممالک کی خواتین کی حالت زار بھی دگرگوں ہے۔ ہمارے اپنے ملک میں خواتین آج بھی استحصال کا شکار ہو کر اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ اس کی واحد وجہ تعلیم اور شعور کا نہ ہونا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی میں خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے سرکاری سطح پر بھی بہت کام ہوا جس کے بعد ملکی آبادی میں 58 فیصد حصہ رکھنے والی خواتین اسمبلی کی ایک تہائی نمائندگی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔
اگر ہم پاکستان کی آئینی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ پہلی آئین ساز اسمبلی 1947ء میں 69 اراکین پر مشتمل تھی اور جس میں صرف دو خواتین بیگم جہاں آراء (مغربی پاکستان) اور بیگم شائستہ اکرام اللہ (مشرقی پاکستان) شامل تھیں۔ تاہم اب یہ تعداد قومی اسمبلی میں 60اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں 179 تک پہنچ گئی ہے۔
پہلی قومی اسمبلی 1962ء میں 156ء اراکین میں سے 6 خواتین تھیں جن کے نام یہ ہیں۔
1۔ بیگم مجیب النساء اکرم (مغربی پاکستان) 2۔ بیگم شمس النہار محمود ( مشرقی پاکستان)
3۔ بیگم خدیجہ جے اے خان (مغربی پاکستان) 4۔ بیگم رقیہ انور (مشرقی پاکستان)
5۔ بیگم سراج النساء چوہدری (مشرقی پاکستان) 6۔ بیگم زریں سرفراز (مغربی پاکستان)
دوسری قومی اسمبلی میں 156 اراکین میں سے 6 خواتین رکن بھی شامل تھیں۔ ان میں
1۔ بیگم ذولی آزاد (مشرقی پاکستان) 2۔ بیگم مجیب النساء اکرم (مغربی پاکستان)
3۔ بیگم خواجہ جی اے خان (مغربی پاکستان) 4۔ بیگم زریں سرفراز (مشرقی پاکستان)
5۔ بیگم مریم شام الدین احمد (مشرقی پاکستان) 6۔ بیگم سیدہ رضیہ فیض (مشرقی پاکستان) شامل ہیں۔
1977ء میں جب ملک کی تیسری قومی اسمبلی وجود میں آئی تو اس وقت 144 اراکین میں سے خواتین کی نمائندگی ایک بار پھر 6 ہی تھی۔
1۔ شیریں وہاب (پنجاب) 2۔ نرگس نسیم سندھو (پنجاب)
3۔ بیگم نسیم جہاں (پنجاب) 4۔ مس زاہد سلطانہ (پنجاب)
5۔ ڈاکٹر اشرف عباسی( سندھ) 6۔ جینفرجہاںزیب قاضی موسیٰ (بلوچستان)
چوتھی قومی اسمبلی بھی 1977ء میں بنی توخواتین نشستوں کو 6 سے 10 کر دیا گیا۔ اس بار اسمبلی میں جانے والی ممبران میں بیگم نصرت بھٹو، بیگم کلثوم سیف اللہ، بلقیس بیگم، بلقیس حبیب اللہ، دلشادبیگم، نفیسہ خالد، نرگس نسیم، سیما عثمان فتح، نسیم سلطانہ اور مبارک بیگم شامل تھیں۔ اس کے بعد 2002ء اور اب موجودہ قومی اسمبلی میں بھی خواتین کی تعداد 60 ہی برقرار ہے۔محترمہ بے نظیر بھٹو کا نام بھی تاریخ پاکستان میں خواتین کی جدوجہد کے باب میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان سے قبل پاکستانی سیاست میں محترمہ فاطمہ جناح سمیت تحریک پاکستان کی دیگر خواتین نے اہم کردار ادا کیا۔ رواں سال حکومت پنجاب نے زندگی کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں سرانجام دینے والی 13 خواتین کو مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے نام سے ایوارڈز دیئے ہیں۔ ان خواتین میں سعدیہ خانم، شمیم اختر،شگفتہ جہاں، ڈاکٹر شہناز آفتاب، ڈاکٹر نیلم ناز، بشریٰ اعجاز، زبیدہ سید، سیدہ بصارت کاظم، سمیراحمید، ڈاکٹر درثمین احمد، رافعہ سلیم اور محترمہ شاہدہ پروین شامل ہیں۔
یہ تو تھا تاریخی اور حالیہ ادوار کی چند خواتین کا سیاسی کردار اب مجھے بتائیے کہ وہ کونسا میدان ہے کہ جس میں خواتین مردوں سے کم ہیںساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا
Comment
-
Originally posted by munda_sialkoty View PostAik laakh 24 hazaar peghambar, hun bool :lol
Originally posted by munda_sialkoty View Postwaise aabid tu ne to hum sub ko la'jawaab ker ke apnay aap ko aik behtareen aurat sabit ker diya
Originally posted by munda_sialkoty View PostYaar aurat govt. school ki master nahi ban saktiساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا
Comment
-
Originally posted by aabi2cool View Postislamic point og view se aap dalil peesh anhene karsakty . .
yaar aysa zulam na karo behas ko shuru honay se pehly hi khatam na karo plz
head misstres to mard bhi naheen ban sakta:D:
Mere saathiyooo yalgaar karo:thmbup:
Comment
-
Originally posted by aabi2cool View Post
یہ تو تھا تاریخی اور حالیہ ادوار کی چند خواتین کا سیاسی کردار اب مجھے بتائیے کہ وہ کونسا میدان ہے کہ جس میں خواتین مردوں سے کم ہیں
mey ney sirf in general baat kerni hai tau mey thorey sey lafzoN mey apni baat poori ker leyti huN :-)
Aurat aur Mard aik doosrey sey mukhtalif heiN :-
genetically of course phir uss key baad emotionally ..apni sochoN mey ..apni aproach mey .... psychologicaly different heiN... and different hein issi liye dono ki responsibilities diff. heiN
but when it comes to rights Aurat aur Mard barabar heiN ...
bas mey ney itna hi kehna tha 372-shock" Obstacles are what you see when you take your eyes off your goals "
Comment
-
Comment