Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

اسلام آباد: گورنر پنجاب قاتلانہ حملے میں ج

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #46
    Re: اسلام آباد: گورنر پنجاب قاتلانہ حملے میں ج

    اسلام علیکم
    ""آبگینہ جی"""۔:shyy:
    بہت ہی مفید مضمون شئیر کرنے کا بہت بہت شکریہ اور مجھے فخر ہونے لگا ہے اپنے آبی بھائی پر جنہوں نے یہ تمام باتیںپہلے ہی ہمارے رو برو لا کر رکھ دیں
    اللہ جی پروانہ رُسل ﷺ کے جانثاروں کی قربانی قبول فرمائیں اور اِن کے دشمنوں کو بے نام و نشاں کر دیں آمین
    Last edited by S.Athar; 10 January 2011, 12:02.
    :star1:

    Comment


    • #47
      Re: اسلام آباد: گورنر پنجاب قاتلانہ حملے میں ج

      قانونِ توہین رسالت: منظوری اورخاتمے کے مابین مضمون نگار۔۔۔۔۔حافظ حسن مدنی
      ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

      Comment


      • #48
        Re: اسلام آباد: گورنر پنجاب قاتلانہ حملے میں ج

        یہ سچ ہے کے محترم جناب محمد اسماعیل قریشی ایڈووکیت سپریم کورٹ کی رٹ پیٹیشن پر عدالت میں معاونت کے لیے ڈاکٹر طاہر القادری صاحب جو اپنے منطقی زور استدلال سے کسی بھی مسئلہ کو مبرھن کرنے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں پیش ہوئے مگر ان کے ساتھ دیگر تمام مکاتب فکر نے بھی اس مسئلہ میں نمایاں خدمات انجام دیں جن میں جماعت اہل حدیث کہ جناب حافظ صلاح الدین صاحب کا نام قابل زکر ہے اور انکے علاوہ محمد اسماعیل قریشی صاحب نے اپنی کتاب میں جن نمایاں ناموں کا ذکر کیا ہے وہ درج زیل ہیں ۔
        مفتی غلام سرور قادری
        مولانا محمد عبد الفلاح
        مولانا فضل ہادی
        مولانا سبحان محمود
        مولانا سعید الدین شیر کوٹی
        مولانا سید محمد متین ہاشمی
        اور جناب سید ریاض الحسن نوری
        اب آخر میں ہم آپکی آسانی کے لیے محترم جناب محمد اسماعیل قریشی کی کتاب "ناموس رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قانون توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم " سے محترم جناب طاہر القادری صاحب کے دلائل کے متعلق چند اقتباسات نقل کریں گے ۔

        محترم محمد اسماعیل قریشی رقمطراز ہیں کہ ۔ ۔
        ۔
        پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری پاکستان اور بیرون پاکستان کی ایک معروف علمی اور دینی شخصیت ہیں فیڈرل شریعت کورٹ میں صاحب موصوف نے صدر اور حکومت پاکستان کہ خلاف توہین رسالت کی سزا کے بارے میں ہماری شریعت پیٹیشن اور اس میں اٹھائے گئے نکات کی اور ہماری آئینی اور قانونی بحث کی نہ صرف مکمل تائید اور حمایت کی بلکہ اپنے منطقی زور استدلال سے عدالت کی بھی بھرپور قوت کے ساتھ معاونت کی مگر راقم الحروف اور معاونین علمائے عدالت کا پروفیسر صاحب موصوف سے جرم توہین رسالت کے سلسلہ میں صرف "نیت" اور "ارادے" (intention and motive) کے مسئلہ پر دیانت درانہ اور تحقیقی اختلاف رہا ہے ۔
        (یاد رہے اسماعیل قریشی صاحب نے اس اختلاف کی تفصیلات ذکر نہیں کیں مگر عرض کہ جناب محترم ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اس مسئلہ میں مجرم کی نیت کو جانچنے کے قائل نہیں جبکہ اسماعیل قریشی کا مؤقف اس کے خلاف ہے۔ آبی ٹوکول)
        اب زیل میں ڈاکٹر صاحب کے دلائل مختصرا پیش کیے جاتے ہیں ۔ ۔


        کیا شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توبہ قبول ہے ۔
        گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسئلہ توبہ
        :
        رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخ کا وجود اس لائق نہیں کہ وہ زمین پر موجود رہے بلکہ اس فی الفور واصل جہنم کرنا ضروری ہوتا ہے ۔
        سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا عمل اس پر شاہد و عادل ہے کہ انھوں نے جب دیکھا کہ اس شخص کو محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ منظور نہیں تو انھوں نے اسے توبہ کرنے کے لیے نہیں کہا بلکہ فی الفور اندر سے تلوار لاکر اس کا سر تن سے جدا کردیا ۔اور اس پر اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نہیں کہا کہ اسے توبہ کا موقع فراہم کیا جانا چاہیے تھا بلکہ ان کے فیصلے کی تحسین فرماتے ہوئے تاقیامت امت مسلمہ کو سنت فاروقی پر عمل کرنے کا حکم دیا بلکہ اسے علامت ایمان قرار دیا۔
        ( اس بارے میں یہی دلائل امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مضمون میں تفصیل کہ ساتھ آچکے ہیں۔اس لیے انکا یہان اعادہ نہیں کیا گیا از مصنف )
        عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچانے کہ بعد جب تائب ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو علم ہونے کہ باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ملاقات نہ فرمائی بلکہ تاخیر فرمائی تاکہ کوئی مسلمان اسے قتل کردے ۔

        شیخ ابن تیمیہ
        اس روایت کو نقل کرنے کہ بعد لکھتے ہیں کہ ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل اس بارے میں نص ہے کہ اسکی توبہ قبول نہیں ہوئی ۔

        اگر اسے فی الفور قتل نہ کیا جاسکے اور وہ توبہ کرلے تو اس کی توبہ پر توجہ نہیں دی جائے گی بلکہ اس پر حد جاری ہوگی کہ جس طرح دیگر جرائم میں ہوتا ہے ۔ اس سلسلے میں فقہاء اسلام کی تصریحات ملاحظہ ہوں۔

        فقہاء اسلام کی تصریحات :

        (فقہاء اسلام کی تصریحات میں امام شامی ،امام ابن ھمام کی ان آراء کا یہاں تزکرہ نہیں کیا جائے گا کہ جن کا حوالہ علامہ احمد سعید کاظمی کے مضمون میں ہوچکا ان کے علاوہ فتاوی جات درج زیل ہیں۔ از مصنف کتاب )

        امام صدر شہید حنفی کا فتوٰی بھی ہے ۔

        ہم اس کی توبہ اور اسلام لانے کو قبول نہیں کریں گے بلکہ اسے قتل کردیں گے ۔
        " اسکی توبہ نہ اللہ کے ہاں مقبول ہے اور نہ لوگوں کہ ہاں اور اسکا حکم سوائے قتل کے کچھ نہیں۔ اس پر تمام متاخرین علماء کا اجماع ہے ۔اور یہی رائے اکثر متقدمین کی ہے ۔(خلاصۃ الفتاوٰی 386:4)

        گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم دیگر مرتدین سے الگ ہے :
        گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم گستاخی کی وجہ سے مرتد ہوجاتا ہے مگر چونکہ اس کا جرم دیگر جرائم سے بڑھ کر ہے کیونکہ اس نے اس ہستی کی عزت و ناموس پر ہاتھ ڈالا جو اس کائنات میں سب سے بڑھ کر ہے ۔لہذا یہ جرم دیگر مرتدین کے جرم سے زیادہ سنگین تر ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دیگر مرتدین پر اسلام پیش کیا جائے گا اور اگر وہ اسے قبول کرلیں تو انھے چھوڑ دیا جائے گا مگر گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اسلام نہیں پیش کیا جائے گا ۔
        یہ معاملہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی تعطیم و توقیر سے متعلق ہے اور غیرت الٰہیہ کا تقاضا اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایسا ہی ہے۔
        امام بن نجیم حنفی : رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کرنے والے شخص کو مرتد قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دیگر مرتدین سے اس کا حکم جدا ہے کیونکہ دیگر مرتدین کی توبہ قبول کی جائے گی مگر گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توبہ قابل قبول نہیں۔

        " ہر ارتداد برابر ہوتا ہے اگر مرتد اسلام کی طرف راغب ہوجائے تو اسے چھوڑ دیا جائے گا مگر اس سے کچھ مسائل مستثنٰی ہیں ان میں پہلا یہ ہے کہ جو گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہو اسے نہیں چھورا جائے گا اور اسکی توبہ نہیں قبول کی جائے گی " ۔ (بحرالرائق 135:5)

        امام شامی اسیے شخص کے جرم کو دیگر مرتدین کہ جرم سے زیادہ سنگین تر قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :

        " شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارتداد دوسرے ارتداد کی طرح نہیں ہے کیونکہ دیگر ارتداد انفرادی عمل ہوتے ہیں اور اس میں کسی دوسرے کا حق متعلق نہیں ہوتا اس لیے اسکی توبہ قابل قبول ہوتی ہے مگر شاتم اگر توبہ کرلے تو بھی صحیح مذہب کے مطابق اسے حدا قتل ہی کیا جائے گا۔ " ۔(تنقیح حامدیہ 157)

        امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں :
        حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سب وشتم کرنا اسلام سے اعراض (ارتداد) کی بنسبت بدرجہ ہا بدتر ہے (الصارم المسلول 892)

        گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم زندیق ہے اس کا عمل قابل معافی نہیں ۔
        امام خیر الدین رملی حنفی فتاوٰی بزازیہ میں رقمطراز ہیں ۔
        شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بہر طور حدا قتل کرنا ضروری ہے ۔اس کی توبہ بالکل قبول نہیں کی جائے گی خواہ یہ توبہ گرفت کے بعد ہو یا پھر وہ اپنے طور پر تائب ہوجائے کیونکہ ایسا شخص زندیق کی طرح ہوتا ہے جسکی توبہ قابل توجہ ہی نہیں اور یہ بات ذہن نشین رہے کہ اس میں کسی مسلمان کے اختلاف کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اس جرم کا تعلق حقوق العباد سے ہے یہ صرف توبہ سے ساقط نہیں ہوسکتا جس طرح دیگر حقوق چوری اور زنا وغیرہ توبہ سے ساقط نہیں ہوتے اور جس طرح حد تہمت توبہ سے ساقط نہیں ہوتی یہی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ،امام اعطم ،اہل کوفہ اور امام مالک کا مذہب ہے ۔(تنبیہ الولاۃ والحکام 32

        علماء اور عدالتوں پر لازم ہے کی وہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کے پیش نظر ایسے شخص کے قتل کا حکم جاری کریں۔

        امام محمد بن عبداللہ صاحب تنویر الابصار عدم قبول توبہ کے بارے میں فرماتے ہیں ۔

        میری رائے کہ مطابق یہی قول قوی ہے کہ جو شخص صاحب شرع کو برا کہتا ہے اسکی توبہ قبول نہیں کی جائے گی ۔فتاوٰی اور قضاء کی صورت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبہ کے پیش نظر علماء اور عدالت پر لازم ہے کہ وہ اس کے قتل کا حکم دیں ۔

        پھر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب لکھتے ہیں کہ آیا :

        کوئی عدالت یا حکومت اس سزا کو معاف نہیں کرسکتی ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
        آخری بات یہ ہے کہ کیا کوئی عدالت یا حکومت اس کو معاف کرسکتی ہے ؟
        گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قتل بطور حد لازم ہے اور حد کوئی ساقط نہیں کرستا حد کی تعریف ہی یہ ہے کہ اس میں انسان کوئی تغیر و تبدل نہیں کرسکتا بلکہ یہ اللہ پاک کی طرف سے مقرر ہوتی ہے اور عدالت اور حکومت پر اسکا اجراء لازم ہوتا ہے جبکہ اس کو ساقط کرنا کسی کہ اختیار میں نہیں ۔
        یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اسے کوئی معاف نہین کرسکتا جس طرح دیگر افراد کے حقوق وہی معاف کرسکتے ہیں ۔

        امام خیر الدین اسی امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے رقمطراز ہیں :
        شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قتل بطور حد لازم ہے جو توبہ سے ساقط نہیں ہوسکتا اور اس بارے میں کسی مسلمان کہ اختلاف کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ ایسا حق ہے جس کہ ساتھ عبد خاص ( حضور صلی اللہ علیہ وسلم) کا حق متعلق ہے اس لیے فقط توبہ سے ساقط نہیں ہوگا جیسے دوسرے لوگوں کہ ہر قسم کے حقوق کے لیے خود حق دار کا معاف کرنا ضروری ضروری ہے۔
        (تنبیہ الولاۃولحکام )

        جب چوری ،زنا اور شراب جیسے جرائم پر لاگو حد کوئی عدالت اور حکومت منسوخ نہیں کرسکتی اور نہ ہی اس کا ارتکاب کرنے والون کو معاف کرسکتی ہے تو پھر اتنے عظیم جرم کی سزا کو کیسے معاف کیا جاسکتا ہے ۔

        قارئین کرام یہ تھا محمد اسماعیل قریشی کی کتاب "ناموس رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قانون توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم " میں سے ڈاکٹر طاہر القادری کہ فیڈرل شریعت کورٹ میں بیان کیے گئے دلائل کا مختصر بیان جس کسی کو تفصیل درکار ہو تو وہ محترم جناب ڈاکٹر طاہر القادری کی کتاب" تحفظ ناموس رسالت " کا مطالعہ فرمائے نیز آپ سب کی معلومات کہ لیے عرض کردوں کہ جناب محترم ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی فقط اس ایک مسئلہ میں امت اور دین اسلام کے لیے عدالتی خدمات نہیں ہیں بلکہ شادی شدہ زانی کی اسلامی سزا رجم کے سلسہ میں 14 گھنٹوں سے زائد دورانیہ کے عدالتی دلائل اور مسئلہ ختم نبوت کے سلسلہ میں قادیانیوں کہ دائر کردہ مقدمہ میں انکے خلاف اس مؤقف کہ قادیانی اسلامی شعار کا استعمال نہیں کرسکتے پر بھرپور دلائل بھی موجود ہیں کہ اس مقدمہ میں عدالت کی کاروائی فقط ڈاکٹر صاحب کی کینڈا یا غالبا ناروے سے تشریف آوری میں تاخیر کی وجہ سے معطل رہی تھی اور جب جناب پاکستان پہنچے تو اپنی منطقی قوت استدلال سے مسلمانوں کو ایک ہارا ہوا مقدمہ جتوایا موصوف چونکہ خود بھی ماہر قانون دان تھے کہ موصوف کی پی ایچ ڈی ہی اسلامی سزاؤں اور انکی تشریحات کہ موضوع پر ہے نیز موصوف ایک ماہر وکیل اور ایک ماہر استاد بھی رہے ہیں کہ ان سے لاء کالج میں پڑھ کر آج یقینا کئی وکلاء ججز کی کرسیون پر براجمان ہونگے ۔



        جزاکم اللہ خیرا ۔ ۔ ۔ ۔ والسلام
        ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

        Comment


        • #49
          Re: اسلام آباد: گورنر پنجاب قاتلانہ حملے میں ج

          .......................!!!!!

          Comment

          Working...
          X