Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

اسلام آباد: گورنر پنجاب قاتلانہ حملے میں ج

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #31
    Re: اسلام آباد: گورنر پنجاب قاتلانہ حملے میں ج

    Senorita yahan pe sirf column he post na karay bulke apni zaati aaraah bhi rakam karay.
    :thmbup:

    Comment


    • #32
      Re: اسلام آباد: گورنر پنجاب قاتلانہ حملے میں ج

      [QUOTE=munda_Sialkoty;1368311]
      . Jahan tak mein ne understand kia he to aap ko meri baat se aik he basic aitraaz he aur wo yeh ke Blasphemy Law "Man Made Law" he.
      QUOTE]
      [RIGHT]
      جی حضور اور آپ سے اختلاف فقط اس بات پر ہی نہیں تھا بلکہ اس کی ایک دوسری بڑی وجہ آپکا بلا تحقیق و بلا دلیل ایک قانون کو قرآن و سنت کی بجائے مین میڈ قانون قرار دینا ہے دیکھیئے جب کسی بھی مسئلہ میں ہم عامۃ الناس عرف عام میں عوام کی جہالت کا رونا روتے ہیں تو پھر ایسے میں پڑھے لکھے طبقہ پر یہ ضروری ہوجاتا ہے وہ کسی بھی مسئلہ میں زبان کھولنے سے پہلے کچھ تحقیق کرلیا کرئے اور پھر اگر وہ معاملہ دین کا ہو تو کوئی بھی سٹیٹمنٹ پاس کرنے سے پہلے اپنے الفاظ کا انتہائی سطح تک ماپ اور تول لیا جائے تاکہ پڑھے لکھے اور عوامی طبقات میں فرق قائم کیا جاسکے اگر پڑھا لکھا طبقہ بھہ ہر معاملہ میں اپنی ٹانگ بلا سوچے سمجھے اڑانا ضروری خیال کرئے تو پھر کیا فرق رہ گیا ان میں اور عوام میں تو پھر خالی ہر بات میں فقط عوام کو دوش دینا چہ معنی دارد عوام تو کسی بھی مسئلہ میں اپنے جہل بسیط کی بنا پر محض جذبات میں آکر اکثر غلط راستے کا انتخاب کربیٹھتے ہیں لیکن پھر بھی وہ دینی معاملات مین اپنی رائے ہرگز نہیں دیتے ۔ جبکہ پڑھے لکھے طبقے کا یہ عالم ہے کہ اس کے اکثر افراد جہل مرکب کا شکار ہیں لہذا اسی بنیاد پر وہ کسی بھی معاملہ میں اپنی رائے کے اظہار کو فرض عین جانتے ہیں
      اب آتے ہیں قانون توہین رسالت کی جانب سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ کا قرآن گستاخان رسالت کے بارے میں کیا کہتا ہے ۔۔ ۔
      لہذا اس ضمن میں جماعۃ الدعوہ کہ امیر حمزہ اپنے تحقیقی مقالہ میں رقمطراز ہیں کہ ۔ ۔
      واضح گناہ قرار دیا ہے۔
      اس سے اگلی آیت میں اللہ نے اپنے نبی کو مخاطب کر کے فرمایا کہ وہ
      اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومن عورتوں کو حکم دے دیں کہ وہ پردے میں ملبوس ہو کر نکلیں تاکہ وہ اوباشوں کی ایذا سے محفوظ رہیں .... اس سے اگلی آیت میں انتباہ کیا کہ ایسی حرکتیں کرنے والے منافق اگر باز نہ آئے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غلبہ دیں گے اور دلوں میں کوڑھ رکھنے والے اور توہین آمیز خبریں پھیلانے والے مدینہ میں رہ نہ سکیں گے، کچھ قتل ہوں گے اور کچھ جلا وطن ہوں گے۔
      اس کے بعد اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح فیصلہ فرما دیا۔ توہین رسالت کرنے والوں کے بارے میں قرآن کا دو ٹوک اور واضح فیصلہ یوں ہے :
      یاد رہے ! بائبل میں بنو اسرائیل کے انبیاءکو کاہن بھی کہا گیا ہے جیسے عزرا
      کاہن یعنی عزیرعلیہ السلام .... ثابت ہوا کہ انبیاءکی توہین کا جرم جیسا کہ قرآن نے بتلایا پہلی قوموں میں بھی قتل ہے۔ نیز بائبل واضح کر رہی ہے کہ گستاخ رسول کو قتل کرنے کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ قتل کی سزا کے ڈر سے کوئی گستاخ توہین نبی کا ارتکاب نہیں کرے گا۔
      لفظ ایذا کی عملی تفسیر :
      تیسری دلیل :

      ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

      Comment


      • #33
        Re: اسلام آباد: گورنر پنجاب قاتلانہ حملے میں ج

        Last edited by Dr Fausts; 8 January 2011, 18:36.
        :(

        Comment


        • #34
          Re: اسلام آباد: گورنر پنجاب قاتلانہ حملے میں ج

          اسلام علیکم
          میں بہت توجہ اور تسلی سے دونوں صاحبان کی باتیں پڑھ رہا ہوں اور اپنے علم میں اضافہ محسوس کر رہا ہوں
          بس یہ خیال رہے کہ کہیں آپ میں سے کوئی فرد قرآنی احکامات کو توڑ موڑ کر نہ پیش کر بیٹھے اور نہ ہی خود کہیں توہین کا مرتکب ہو جائے
          اللہ جی آپ دوستوں کے علم میں اضافہ فرمائیں آمین
          :star1:

          Comment


          • #35
            Re: اسلام آباد: گورنر پنجاب قاتلانہ حملے میں ج

            Originally posted by munda_Sialkoty View Post
            Senorita yahan pe sirf column he post na karay bulke apni zaati aaraah bhi rakam karay.
            ..
            Attached Files

            Comment


            • #36
              Re: اسلام آباد: گورنر پنجاب قاتلانہ حملے میں ج

              اسلام علیکم سارہ جی
              بہت ہی عمدہ مضمون شئیر کیا
              بے شک میڈیا کئی باتوں کو اس طرح پھیلاتا ہے کہ جس کی کوئی مثال نہیں
              پہلے پاکستن میں ویلنٹائن ڈے اس طرح نہیں منایا جاتا تھا جس طرح میڈیا نے پرموٹ کر کے شروع کروادیا ہے نہ ہی اس طرح نئیو ائیر کی تقریبات ہی بپا ہوتی تھیں
              اسی طرح بعض علاقائی قتل و غارت کو سیاسی پارٹیوں اور اسلامی تنظیمیوں کا نام لے کر نشر کرنے سے نفرتیں دور دور تک پھیلا دی جاتی ہیں ۔
              اللہ جی ہم سب کا قبلہ درست فرمائیں اور اس قوم کو مزید انتشار و خلفشار سے بچائیں آمین
              Last edited by S.Athar; 9 January 2011, 11:32.
              :star1:

              Comment


              • #37
                Re: اسلام آباد: گورنر پنجاب قاتلانہ حملے میں ج

                Originally posted by S.A.Z View Post
                اسلام علیکم سارہ جی
                بہت ہی عمدہ مضمون شئیر کیا
                بے شک میڈیا کئی باتوں کو اس طرح پھیلاتا ہے کہ جس کی کوئی مثال نہیں
                پہلے پاکستن میں ویلنٹائن ڈے اس طرح نہیں منایا جاتا تھا جس طرح میڈیا نے پرموٹ کر کے شروع کروادیا ہے نہ ہی اس طرح نئیو ائیر کی تقریبات ہی بپا ہوتی تھیں
                اسی طرح بعض علاقائی قتل و غارت کو سیاسی پارٹیوں اور اسلامی تنظیمیوں کا نام لے کر نشر کرنے سے نفرتیں دور دور تک پھیلا دی جاتی ہیں ۔
                اللہ جی ہم سب کا قبلہ درست فرمائیں اور اس قوم کو مزید انتشار و خلفشار سے بچائیں آمین
                ameen...

                wese me saraah nahi hun:shyy:

                Comment


                • #38
                  Re: اسلام آباد: گورنر پنجاب قاتلانہ حملے میں ج

                  اسلام علیکم معزز قارئین کرام قانون توہین رسالت کی سزا کا فقط سزائے موت ہونا ہم قرآن پاک سے بخوبی ثابت کرچکے اب سیرت رسول یعنی احادیث نبویہ سے اس کا ثبوت زیل میں دیا جائے گا پھر ساتھ فقہاء کا مذہب بھی نقل کردیا جائے گا کہ فقہاء نے اس پر اجماع امت نقل کیا ہے ۔زیل میں محترم جناب محمد اسماعیل قریشی سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کی کتاب " ناموس رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قانون توہین رسالت " سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں یاد رہے کہ یہ وہی اسماعیل قریشی ہیں کہ جن کی بے پناہ جد و جہد ہے پاکستان کی تعزیراتی قانون میں اسلام کے اس قانون کو بطور حد شامل کروانے کے لیے ۔ ۔
                  ۔ ۔ ۔




                  قانون توہین رسالت احادیث کی روشنی میں

                  قرآں نے شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ واضح فیصلہ صادر کیا ہے کہ اس دنیا میں اس کے لیے سزاے موت مقرر ہے اور آخرت میں بھی اس کے لیے عذاب جہنم تیار ہے احادیث کی مستند کتاب سنن ابی داؤد جو صحاح ستہ میں شامل ہے

                  ،
                  توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں احادیث " کتاب الحدود " میں درج کی گئی ہیں جس سے صاف ظاہر ہے کہ توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا سزائے موت بطور حد مقرر ہے اور حد میں کوئی کمی بیشی نہیں کی جاسکتی -اس مرحلہ پر ضروری ہے کہ حد کی متعین تعریف پیش نظر ہو حد لغت میں کسی کام سے روک دینے کو کہتے ہیں اسی لیے دربان کو عربی میں حدار کہا جاتا ہے شریعت کی اصطلاح میں حد اللہ پاک کا حق ہے : العقوبتہ المقدرۃ حقا للہ تعٰالی اسی لیے حدود کو حقوق اللہ بھی کہا جاتا ہے ۔نیز حد اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ سزا ہے جس میں سوئی کی نوک کے برابر بھی کوئی کمی بیشی نہیں کی جاسکتی ۔ ۔ ۔ ۔



                  ۔ ۔ ۔ ۔
                  ۔اسلام کی مسلمہ تاریخ کی روسے گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا صرف اور صرف موت ہے۔ رحمة اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کا اعلان کیاتھا ۔ سوائے گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ ان کے بارے میں آپ نے یہ حکم دیا کہ اگر یہ لوگ خانہ کعبہ کے پردے میں بھی لپٹ جائیں ۔ تب بھی انہیں معاف نہ کیا جائے اور انہیں ہر صورت قتل کیاجائے ۔ ابن خطل کو خانہ کعبہ کے پردے پکڑنے کی حالت میں ہی قتل کیاگیا۔ اسی طرح دو گستاخ رسول ۖ عورتیں سارہ اور قریبہ بھی قتل کی گئیں۔ (تاریخ طبری ص١٠٤)اسی طرح 3ہجری میں کعب بن اشرف ایک گستاخ رسول کو حضرت محمد بن مسلمہ کی قیادت میں ایک کمانڈوآپریشن کے ذریعے جہنم واصل کیاگیا۔ (تاریخ طبری ،ص ٢١٣)


                  امیرالمؤمنین حضرت علی نے ایک یہودی عورت کے بارے میں بتایا کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کیا کرتی تھی۔ ایک شخص نے اسے قتل کردیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خون کا بدلہ قصاص و دیت کی صورت میں نہیں دلوایا سنن ابی داؤ د6/2-2 ایک شاعر جوکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کلام کے ذریعے ہدف طعن تشنیع بناتاتھا ، اسے قتل کردیا گیا۔ (کتاب البخاری۔ باب المغازی، صفحہ :٥٧٦،٥٧٧-

                  ایک صحابی نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والی عورت کو قتل کردیا اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحقیق کی ۔ جب ثابت ہوگیا کہ وہ توہین کی مرتکب ہوتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، کہ تم سب گواہ رہو ، اس کا قتل ضائع ہوگیا، اس کا بدلہ نہیں دیا جائے گا۔ سنن ابی داؤد
                  عمل صحابہ کرام

                  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا فتویٰ

                  حضرت ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ


                  ...
                  کنت عند ابی بکر رضی اللہ عنہ ، فتغیظ علیٰ رجل ، فاشتد علیہ ، فقلت : ائذن لی یا خلیفۃ رسول اللّٰہ اضرب عنقہ قال : فاذھبت کلمتی غضبہ ، فقام فدخل ، فارسل الی فقال : ما الذی قلت آنفا ؟ قلت : ائذن لی اضرب عنقہ ، قال : اکنت فاعلا لو امرتک ؟ قلت : نعم قال : لا واللّٰہ ما کانت لبشر بعد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم
                  ( رواہ ابوداود ، کتاب الحدود باب الحکم فیمن سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم )


                  میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے پاس تھا آپ کسی شخص سے ناراض ہوئے تو وہ بھی جواباً بدکلامی کرنے لگا ۔ میں نے عرض کیا ۔ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ۔ مجھے اجازت دیں ۔ میں اس کی گردن اڑا دوں ۔ میرے ان الفاظ کو سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سارا غصہ ختم ہو گیا ۔ آپ وہاں سے کھڑے ہوئے اور گھر چلے گئے ۔ گھر جا کر مجھے بلوایا اور فرمانے لگے ابھی تھوڑی دیر پہلے آپ نے مجھے کیا کہا تھا ۔ میں نے کہا ۔ کہا تھا ۔ کہ آپ رضی اللہ عنہ مجھے اجازت دیں میں اس گستاخ کی گردن اڑا دوں ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرمانے لگے اگر میں تم کو حکم دے دیتا ۔ تو تم یہ کام کرتے ؟ میں نے عرض کیا اگر آپ رضی اللہ عنہ حکم فرماتے تو میں ضرور اس کی گردن اڑا دیتا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ۔ نہیں ۔ اللہ کی قسم ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ کسی کے لئے نہیں کہ اس سے بدکلامی کرنے والے کی گردن اڑا دی جائے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والے کی ہی گردن اڑائی جائے گی


                  روایت ہے کہ حضرت عباس نے اپنے ایک غلام کو جو گستاخ رسول تھا، قتل کروا دیا ۔


                  (حدیث:٩٧٠٤،صفحہ:٣٠٧،جلد:٥،مصنف :عبدالرزاق )


                  ابن وہب نے حضرت عبداللہ ابن عمر سے روایت کیا کہ ایک راہب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ۔ جب اس کا پتہ ابن عمر کو چلا تو آپ نے کہاکہ سامعین نے اس کو زندہ کیوں چھوڑا ۔

                  (کتاب الشفاء قاضی عیاض
                  )


                  ان کے علاوہ بھی اگر سیرت اور تاریخ اسلام کے واقعات پر اگر محض سرسری سی نظر ڈالی جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیان ہوجاتی ہے کہ زمانہ اقدس سے لیکر خلفائے راشدین اور ہر دور کے مسلمان حکمرانوں نے توہین رسالت کی سزا قتک کو ہی جاری و ساری رکھا ہے اور یہ امت میں اس تواتر کے ساتھ منقول ہے کہ جس پر ہر شیعہ سینی وہابی دیوبندی غیر مقلد سب بالاتفاق متفق و مجمع ہیں لہذ ایہی وجہ ہے کہ امت کے بڑے بڑے فقہاء نے اس پر مستقل کتابیں لکھیں اور اجماع امت نقل کیا مگر افسوس کہ آج کہ دور میں وہ لوگ جو کہ ہمیشہ ملاں کو اس بات کا طعنہ دیتے آئے ہیں کہ یہ مولوی کسی ایک مسئلہ میں بھی متفق نہیں ہوسکتے آج وہی طبقات فکر امت مسلمہ کہ اس متفق علیہ مسئلہ میں امت کو تقسیم کرنے کی ناپاک جسارت کررہے ہیں ۔۔ ۔



                  قانون توہین رسالت پر مذاہب فقہاء امت

                  تمام فقہائے امت بھی اس بات پر متفق ہیں کہ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت و گستاخی اور توہین و تنقیص کا ارتکاب کریں، اگر وہ پہلے مسلمان تھے تو اب مرتد ہوگئے اور ان کی سزا قتل ہے۔ چنانچہ امام ابو یوسف کی کتاب الخراج میں ہے

                  جس مسلمان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی یا آپ کی کسی بات کو جھٹلایا، یا آپ میں کوئی
                  امام خاتمہ
                  المجتہدین تقی الدین ابی الحسن علی بن عبدالکافی السبکی



                  جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                  Last edited by aabi2cool; 9 January 2011, 15:20.
                  ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                  Comment


                  • #39
                    Re: اسلام آباد: گورنر پنجاب قاتلانہ حملے میں ج

                    گذشتہ سے پیوستہ

                    قانون توہین رسالت کے حوالہ سے چند دیگر اعتراضات کا محاکمہ
                    علامہ سلیم اللہ خان رقمطراز ہیں کہ۔ ۔







                    پڑا فلک کو دل جلوں سے کام نہیں
                    جلا کے راکھ نہ کردوں تو داغ نام نہیں
                    راجپال کو غازی علم دین نے حملہ کرکے ٹھکانے لگایا اور یوں جس انصاف کو فراہم کرنے میں عدالت پس وپیش سے کام لیتی رہی، ایک عام مسلمان نے بڑھ کر قانون اپنے ہاتھ میں لیا اور مجرم کو کیفر کردار تک پہنچایا۔


                    ۔


                    چناچہ اس اجمال کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حافظ حسن مدنی رقمطراز ہیں کہ ۔ ۔
                    ۔ ۔




                    1.چیف جسٹس گل محمد خاں سابق جج لاہور ہائی کورٹ

                    2.جسٹس عبد الکریم خاں کنڈی سابق جج پشاور ہائی کورٹ

                    3. جسٹس عبد الرزاق تھہیم سابق جج کراچی ہائی کورٹ

                    4.جسٹس عبادت یار خان سابق جج کراچی ہائی کورٹ

                    5.جسٹس ڈاکٹر فدا محمد خاں پی ایچ ڈی ،اسلامی قانون


                    گویا توہین رسالت کا حالیہ قانون تین مختلف سمتوں سے ہونی والی کاوشوں کے نتیجے میں پاکستان کے مجموعہ تعزیرات کا حصہ بنا ہے:

                    1. جناب محمد اسمٰعیل قریشی کی 1984ء میں وفاقی شرعی عدالت کو دی جانے والی درخواست اور اس پر وفاقی شرعی عدالت کا 1990 کا فیصلہ (یہی اس قانون کا اصل محرک ہے)

                    2. قومی اسمبلی میں آپا نثار فاطمہ کا پیش کردہ بل اور اس کے نتیجے میں محدود قانون سازی

                    3. آخر کار جون1992ء میں پاکستانی پارلیمان میں سزاے عمر قید کے خاتمے کا بل پیش ہونا اوراس کا منظور ہوجانا، گو کہ اس آخری مرحلہ کی ضرورت نہ تھی، کیونکہ شرعی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں مقررہ تاریخ گزرجانے کے بعدقانون خود ہی تبدیل ہوچکا تھا، تاہم پارلیمان کی قانون سازی نے اس ترمیم کی مزید تائید کر دی۔ اب اس قانون کو دستور 1973ء میں دیے ہوئے حق کے استعمال یا قومی اسمبلی کی 1992ء میں منظوری کا نتیجہ قراردیا جاسکتا ہے، ظاہر ہے کہ یہ ہر دو اقدامات کسی آمر کے ذریعے حاصل نہیں ہوئے۔

                    سیکولر لادین اور ملحدانہ نظریات کی حامل سوچ کی طرف سے ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ قانون یعنی قانون ِتوہین رسالت جنرل ضیاء الحق مرحوم کا نافذ کردہ ہے لہذا اس لحاظ سے یہ انسان کے ہاتھوں کا بنایا ہوا قانون ہے کہ جس میں ترمیم ہوسکتی ہے لاحول ولا قوۃ الا باللہ ۔ ۔ ۔ یہ بیچارے اپنی ملحدانہ سوچ کے اس قدر مارے ہوئے ہیں کہ ایک قانون کے بطور تعزیر پاکستان کے آئین میں شمولیت اور نفاذ کو اسکے بننے یا ماخذ سے تعبیر کررہے ہیں ان بیچاروں کی عقلیں اتنا نہیں سمجھ پاتی کہ اس قانون کا اصل ماخذ قرآن و سنت ہی ہیں جبکہ پاکستان جو دنیا کے نقشہ میں ایک نو مولد اسلامی ریاست تھی اس کے تعزیراتی قانون میں اس اس قانون کا بطور حد کے اضافہ پاکستان کے آئین و قانون میں ایک تعزیری دفعہ کا اضافہ تو کہلا سکتا ہے مگر اس سے قرآن و سنت کی حدود میں کوئی اضافہ ہرگز نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی کمی و بیشی ہوتی ہے بلکہ جب تک یہ قانون پاکستان کہ آئین و قانون کا حصہ نہ تھا تب بھی بطور حد کہ اسلامی قانون کا حصہ تھا اور اگر خدانخواستہ دنیا کی کسی اسلامی ریاست میں اسے بطور قانون اگر نہ بھی نافذ کیا جائے تو تب بھی یہ اسلامی قانون ہی رہے گا اور کہلائے گا ۔
                    کیونکہ کسی بھی قانون کو اسکے اصل اوریجن و ماخذ کے مطابق بطور قانون دیکھا اور سمجھا اور مانا جاتا ہے نہ کہ اسکی تنفیذ و عدم تنفیذ کو معیار قرار دیکر اس قانون کے اصل مخارج کا انکار کیا جاتا ہے اور اگر کوئی ایسا کرئے تو عقل اس پر بجز ماتم کے اور کچھ نہیں کرسکتی


                    ۔۔



                    [right]
                    اسی قانون کہ پس منظر میں آزادی رائے کہ اظہار پر جناب علامہ سلیم اللہ خان رقمطراز ہیں کہ ۔ ۔


                    Last edited by aabi2cool; 9 January 2011, 15:22.
                    ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                    Comment


                    • #40
                      Re: اسلام آباد: گورنر پنجاب قاتلانہ حملے میں ج

                      @aabi bhai JazakAllah

                      Comment


                      • #41
                        Re: اسلام آباد: گورنر پنجاب قاتلانہ حملے میں ج

                        اسی اجمال کی مزید تفصیل جناب حافظ حسن مدنی کے قلم سے ۔ ۔

                        دیگر ممالک میں قانونِ توہین رسالت کے مماثل قوانین
                        کہا جاتا ہے کہ اس قانون سے پاکستانی میں مذہبی انتہاپسندی میں اضافہ ہوتا ہے اور دنیا بھر میں پاکستان کا تشخص ایک کٹر اور شد ت پسند ملک کے طورپر نمایاں ہوتا ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہےکہ پاکستان میں توہین رسالت کے قانون کو بلاوجہ مطعون اور پاکستان کے مذہبی اقدامات کے بارے غیرمعمولی حساسیت کا مظاہرہ بلاوجہ ہی کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے قانون میں صرف مسلمانوں کے نبی آخر الزمان کو ہی یہ تحفظ وتقدس حاصل نہیں بلکہ تمام انبیا اور جملہ اَدیان کو یہاں قابل سزا جرم قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان میں مذہبی جذبات کے احترام کا یہ تحفظ صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ عیسائیوں کو بھی حاصل ہے، اس کے بعد اس الزام کی بھی کیا حیثیت رہ جاتی ہے کہ یہ قانون اقلیتوں کے خلاف یا مذہبی امتیاز پر مبنی ہے۔دفعہ 295سی کے الفاظ ملاحظہ فرمائیے:








                        یاد رہے کہ امریکہ میں دیگر مذاہب اور ان کی مقدس شخصیات کی توہین قابل مؤاخذہ جرم نہیں، البتہ توہین مسیح کی سزا موت کی سزاکے خاتمہ کے بعد عمر قید کردی گئی ہے۔

                        ایسے ہی جب برطانیہ میں جب شاتم رسول سلمان رشدی کو تحفظ دینے کا واقعہ پیش آیا تو برطانیہ اس کی حفاظت کے لئے کھڑا ہوگیا ۔ برطانیہ کے مسلمان باشندوں نے یہ مطالبہ کیا کہ برطانیہ میں توہین مسیح کے قانون کے ساتھ توہین محمدﷺ کی شق کو بھی شامل کرلیا جائے تو برملا اس سے انکار کیا گیا او رواضح جانبداری دکھائی گئی کہ برطانیہ صرف عیسائیوں کے حقوق کا ہی محافظ ہے۔ یہ ہے مذہبی غیرجانبداری کا دعویٰ کرنے والوں کا مکروہ چہرہ!




                        کیا قانون توہین رسالت انسانیت کے منافی ہے کہ عنوان کہ تحت جناب حافظ صاحب رقمطراز ہیں کہ ۔ ۔


                        اوپر بیان کردہ حقائق کے بعد یہ امر بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ جب توہین مسیح کا قانون مغرب کے اکثر ممالک میں نافذ العمل ہے اور یورپی ممالک کی عدالتیں ان کے فیصلوں کو نافذ کرتی اور یہ بھی قرار دیتی ہیں کہ یہ قانون انسانی حقوق کے خلاف نہیں ہے تو پھر پاکستان میں کیوں کر اس کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا جاسکتا ہے؟

                        یورپ کے بعض ممالک مثلاً ڈنمارک، اسپین، فن لینڈ، جرمنی، یونان، اٹلی ، آئرلینڈ، ناروے ، آسٹریا، نیدر لینڈ وغیرہ میں بھی مذہبی جذبات کی توہین پر سنگین سزائیں موجود ہیں اور برطانیہ میں تو ملکہ کی توہین کو بھی اس میں شامل کرلیا گیا ہے۔ اس کےبعد پاکستان میں اس قانون کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دینے کی کیا تک ہے؟

                        جناب علامہ سلیم اللہ خان رقمطراز ہیں کہ ۔ ۔



                        )


                        اوپری اقتباس سے جہاں یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ قانون نویں صدی ہجری میں بھی مسلمانوں کی ریاستوں میں نافذ تھا وہیں ہم عرض کرتے چلیں کہ اگر پوری اسلامی تاریخ کا بھی اگر سرسری مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روشن ہوجائے گی کہ جہاں جہاں جس بھی دور میں اسلامی ریاستیں رہیں وہاں وہاں اس قانون کو بطور حد کے ہی نافذ کیا جاتا رہا اور اسکی سزا بالاتفاق سزائے موت پر ہی تمام فیصلے کیئے جاتے رہے چاہے یعنی صحابہ سے لیکر بنو امیہ و بنو عباسیہ اور پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز اور پھر انکے بعد تابعین تبع تابعین سے لیکر مسلسل خلافت عثمانیہ تک اور پھر اکسے مغلیہ سلطنت میں بھی یہی قانون رہا حتٰی کہ مغلیہ دور کہ انتہائی ملحد بادشاہ اکبر کہ جس نے دین الٰہی ایجاد کیا تھا اسکے دور میں بھی اس جرم کی سزا پر ایک ہندو کو قتل کیا گیا ۔ ۔
                        ۔


                        اب آخر میں ہم اپنے معزز قارئین کرام پر یہ واضح کرتے چلیں کہ ہمارے دیرینہ دوست جناب منڈا سیالکوٹی سے جب ہماری اس امر پر ٹیلی فونک گفتگو ہوئی تو انھون نے ہم سے فرمایا کہ اگر ہم اس قانون کا ثبوت مولانا مودودی یا پھر ڈاکٹر ذاکر نائک کے حوالہ سے دے دیں تو انھے قابل قبول ہوگا مجھے انتہائی افسوس ہے کہ انٹرنیٹ سے ڈاکٹر ذاکر نائک کا کوئی حوالہ مجھے اس ضمن میں میسر نہ آسکا البتہ مولانا مودودی کا ایک اقتباس ہم محمد اسماعیل قریشی کی کتاب ناموس رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قانون توہین رسالت سے پیش خدمت فرمائے دیتے ہیں ۔ ۔

                        مولنا رقمطراز ہیں کہ ۔ ۔
                        رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقدیس کے متعلق مسلمانون کہ جذبات کا صحیح اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے کے لیے اسلام میں قتل کی سزا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے والے کا خون مباح قرار دیا گیا ہے۔نسائی میں کئی طریقوں سے ابو برزہ الاسلمی کی یہ روایت منقول ہوئی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایک شخص پر ناراض ہوئے تو میں نے کہا کہ میں اس کی گردن ماردوں ؟؟؟؟ یہ سنتے ہی آپ رضی اللہ عنہ کا غصہ دور ہوگیا اور آُ نے جھڑک کر مجھے فرمایا کہ ما ھِذا لا حد بعد رسول اللہ یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ کسی کا درجہ نہیں (کہ اس کی توہین کرنے والے کو قتل کیا جائے ۔۔۔ مزید آگے بھی انھون نے مختلف روایت سے استدلال کرتے ہوئے اس سزا کا اسلامی سزا ہونا اور بالاتفاق ہونا تسلیم کیا ہے تفصیل کے دیکھیئے ۔ ۔
                        محمد اسماعیل قریشی سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کی کتاب ناموس رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قانون توہین رسالت مطبوعہ تراب مبین پرنٹرز ۔ ۔ ۔ والسلام
                        Last edited by aabi2cool; 9 January 2011, 15:25.
                        ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                        Comment


                        • #42
                          Re: اسلام آباد: گورنر پنجاب قاتلانہ حملے میں ج

                          :garmi:
                          Last edited by aabi2cool; 9 January 2011, 17:30.
                          ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                          Comment


                          • #43
                            Re: اسلام آباد: گورنر پنجاب قاتلانہ حملے میں ج

                            Originally posted by AbgeenA View Post
                            ameen...

                            wese me saraah nahi hun:shyy:
                            او تیرے کی ایہہ کی ہوگیا
                            :think:
                            لگتا ہے انٹرویو کے جوابات لکھ لکھ کے مت ماری گئی ہے
                            Last edited by S.Athar; 9 January 2011, 17:38.
                            :star1:

                            Comment


                            • #44
                              Re: اسلام آباد: گورنر پنجاب قاتلانہ حملے میں ج

                              Originally posted by aabi2cool View Post
                              :garmi:

                              آپ کو سانس چڑھنا بھی چاہئے گرمی لگنی بھی چاہئے آج آپ نے بہت محنت کی ہے
                              بہت
                              ہی معلوماتی اور دلائل سے بھرپور تحریر "ریپوٹیشن بہت معمولی لگ رہی ہے آپ کو دیتے ہوئے"
                              اللہ جی آپ کے علم میں روز بروز اضافہ فرمائیں آمین
                              Last edited by S.Athar; 9 January 2011, 17:42.
                              :star1:

                              Comment


                              • #45
                                Re: اسلام آباد: گورنر پنجاب قاتلانہ حملے میں ج

                                ...
                                Attached Files

                                Comment

                                Working...
                                X