شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خود کش بمباری اور دہشت گردی کے خلاف 600 سے زائد صفحات پر مبنی تفصیلی فتویٰ جاری کر دیا ہے۔ اس فتوی کی تقریب رونمائی 2 مارچ 2010ء کو لندن میں ہوئی۔ اس سلسلہ میں منہاج القرآن انٹرنیشنل لندن کے زیراہتمام ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا، جس میں برطانوی میڈیا کے علاوہ دنیا بھر سے انٹرنیشنل میڈیا کے درجنوں نمائندے بھی موجود تھے۔ برطانیہ میں لیبر پارٹی کے وزیر شاہد ملک، ممبر یورپی پارلیمنٹ سجاد کریم، ایم پی محمد سرور، ایم پی جیمز فنٹر، عراق، جرمنی سمیت دیگر ممالک کے سفیروں، ہوم آفس، کامن ویلتھ آفس، میٹروپولیٹن پولیس، پروفیسرز، کرسچئین کمیونٹی کے مذہبی راہنماء اور برطانیہ میں اسلامی تنظیمات کے نمائندوں کی بڑی تعداد بھی پریس کانفرنس میں موجود تھے۔
شیخ االاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عرب، انگلش اور انٹرنیشنل میڈیا کے سامنے پر ہجوم پریس کانفرنس میں "خود کش بمباری اور دہشت گردی" کے خلاف فتوے کو اردو، انگریزی 2 کتب کی شکل میں پیش کیا۔ اس سے قبل انہوں نے دسمبر 2009ء میں دہشت گردی کے خلاف فتویٰ دینے کا اعلان کیا تھا، جو ابتدائی طور پر 150 صفحات کا تھا لیکن مزید تحقیقی و علمی کام کے بعد اس فتویٰ کی ضخامت 600 صفحات سے بھی بڑھ گئی۔ "خود کش بمباری اور دہشت گردی" کے خلاف یہ اپنی نوعیت کا واحد فتوی اور علمی و تاریخ دستاویز بھی ہے۔
پر ہجوم پریس کانفرنس میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ دنیا میں انتہاء پسندی اور دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی لہر نے عالمی امن کو تباہ کر دیا ہے۔ بدقسمتی سے دہشت گردوں کی ان کارروائیوں کو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ نتھی کیا جا رہا ہے۔ یہ سب ایک سوچی سمجھی سازش ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ آپ نے کہا کہ علماء کی اکثریت دہشت گردی کی مذمت کرتی ہے لیکن تاحال یہ مذمت صرف زبانی کلامی ہی تھی۔ کسی نے دہشت گردی کے خلاف فتوی جاری نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ منہاج القرآن نے "خود کش بمباری اور دہشت گردی" کے خلاف فتوی جاری کر کے دنیا کو بتا دیا ہے کہ دہشت گردوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اسلام ایک پر امن مذہب ہے، جس میں کسی بھی قسم کی دہشت گردی حرام ہے۔
آپ نے کہا کہ خود کش حملوں کو عملی شکل دینے والے اسلام سے خارج ہیں۔ انتہاء پسند عناصر نوجوان مسلمانوں کے نا پختہ ذہنوں کو برین واش کر رہے ہیں۔ جو نوجوان جنت کی خواہش ذہن میں رکھ کر دہشت گردوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں، وہ حقیقت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے عین مطابق خود کو اسلام سے خارج سمجھیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی دہشت گردی کے خلاف فتوے کا مطالعہ کرنے والے نوجوان کبھی دہشت گرد عناصر یا انتہاء پسند تحریکوں کے آلہ کار نہیں بنیں گے۔ آپ نے کہا کہ دہشت گردی کو اچھی یا بری نیت سے اصولی طور پر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ نیت کیسی بھی ہو، دہشت گردی اور خود کش بمباری کفر اور حرام ہے اور اسلام میں قطعا اس کی گنجائش نہیں ہے۔ اسلامی تعلیمات جو امن، احسان اور محبت کے پیغام پر مشتمل ہیں، انہیں آج تروڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ آپ نے کہا کہ اسلام نے تو دوران جنگ بھی آداب مقرر کر رکھے ہیں۔ اسلام نے جنگ میں بوڑھوں، عورتوں، بچوں، مریضوں، تجارتی مراکز، سکولوں اور ہسپتالوں کو بھی پوری طرح تحفظ فراہم کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلام کو بزور شمشیر پھیلانے والوں کا تعلق خوارج سے ہے۔ جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے امن مذاکرات سے بغاوت کرتے ہوئے اپنا باغی گروپ دہشت گرد گروپ قائم کیا تھا۔ موجودہ دور کے دہشت گرد بھی اسی گروہ سے ہیں۔ ان کے حلیے، ان کی شکلیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خوارج اور دہشت گردی کی بنیاد کو اپنی اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ آپ کا کہنا تھا کہ اسلام میں بے گناہ یا گنہگار کسی بھی صورت میں کسی انسان کے قتل کی گنجائش تک نہیں ہے۔ گنہگار کے لیے عدالتی نظام ہے جس کے ذریعے ریاست، عوام کے عدل و انصاف کے حصول کو یقینی بناتی ہے۔ کسی کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت اسلامی تعلمیات کے متصادم اور منافی ہے۔
آپ نے کہا کہ اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کی خاطر اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والے اسلام کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ اگر انہیں جہاد کرنا ہی ہے تو ملک میں تعلیم کی فراوانی کے لیے کریں۔ اس کے ساتھ بدکاری، ماشرتی برائیوں کے خاتمہ، رشوت، مہنگائی اور غربت کے خلاف جہاد کریں۔ جو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق بھی ہے۔ آپ نے بعض شدت پسند تنظیموں کا نام لیے بغیر نظام خلافت کے ہمدردوں اور جمہوریت کے مخالفین پر سخت تنقید کی اور کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے پہلے جمہوری نظام کے داعی ہیں۔ شیخ الاسلام نے اسلامی ممالک کی حکومتوں کو باور کروایا کہ دہشت گردوں کا قلع قمع کرنا، ان کا حکومتی اور دینی فریضہ ہے، خواہ اس کام کے لیے فوج کا استعمال کرنا پڑے۔ حکومت اس وقت تک فوجی کارروائی کو بھی نہ روکے جب تک دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ نہ ہو جائے۔ دین اسلام کے دشمن اور خارجی عناصر کو فوری مکمل قوت کے ساتھ کچل دیا جائے، جس سے دہشت گردی جڑ سے ختم ہو جائے گی۔ آپ نے کہا کہ آج مسلم دنیا کے نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد یا تو دہشت گردوں کے چنگل میں پھنس چکی ہے یا پھر ایسی خود کش بننے کے لیے تیار ہو چکی ہے۔ اس فتویٰ کا سب سے بڑا اور اہم فائدہ یہ ہوگا کہ وہ نوجوان اس کتاب کے ذریعے یہ جان سکیں گے یا وہ جنت کا انتخاب کر رہے ہیں دوزخ کا ایندھن بن رہے ہیں۔
اس موقع پر برطانیہ کے کمیونٹی وزیر شاہد ملک نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہمیشہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کا پرچار کیا ہے۔ ان کا فتویٰ برطانیہ سمیت دنیا بھر میں آباد مسلمانوں اور ان کی نسلوں کے لیے انقلابی تبدیلی کا باعث بنے گا۔ اس موقع پر انہوں نے حکومتی سطح پر اپنے مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی۔
اس نشست کے بعد میڈیا کے درجنوں نمائندوں نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے ڈھیروں سوالات کیے، جن کے آپ نے نہایت تسلی بخش جواب دیئے۔ یریس کانفرنس تین گھنٹے سے زائد جاری رہی۔ جس کے بعد انٹرنیشنل میڈیا کے نمائندوں نے شیخ الاسلام کے الگ الگ شارٹ انٹرویوز بھی کیے۔
رپورٹ: آفتاب بیگ۔ لندن
شیخ االاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عرب، انگلش اور انٹرنیشنل میڈیا کے سامنے پر ہجوم پریس کانفرنس میں "خود کش بمباری اور دہشت گردی" کے خلاف فتوے کو اردو، انگریزی 2 کتب کی شکل میں پیش کیا۔ اس سے قبل انہوں نے دسمبر 2009ء میں دہشت گردی کے خلاف فتویٰ دینے کا اعلان کیا تھا، جو ابتدائی طور پر 150 صفحات کا تھا لیکن مزید تحقیقی و علمی کام کے بعد اس فتویٰ کی ضخامت 600 صفحات سے بھی بڑھ گئی۔ "خود کش بمباری اور دہشت گردی" کے خلاف یہ اپنی نوعیت کا واحد فتوی اور علمی و تاریخ دستاویز بھی ہے۔
پر ہجوم پریس کانفرنس میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ دنیا میں انتہاء پسندی اور دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی لہر نے عالمی امن کو تباہ کر دیا ہے۔ بدقسمتی سے دہشت گردوں کی ان کارروائیوں کو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ نتھی کیا جا رہا ہے۔ یہ سب ایک سوچی سمجھی سازش ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ آپ نے کہا کہ علماء کی اکثریت دہشت گردی کی مذمت کرتی ہے لیکن تاحال یہ مذمت صرف زبانی کلامی ہی تھی۔ کسی نے دہشت گردی کے خلاف فتوی جاری نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ منہاج القرآن نے "خود کش بمباری اور دہشت گردی" کے خلاف فتوی جاری کر کے دنیا کو بتا دیا ہے کہ دہشت گردوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اسلام ایک پر امن مذہب ہے، جس میں کسی بھی قسم کی دہشت گردی حرام ہے۔
آپ نے کہا کہ خود کش حملوں کو عملی شکل دینے والے اسلام سے خارج ہیں۔ انتہاء پسند عناصر نوجوان مسلمانوں کے نا پختہ ذہنوں کو برین واش کر رہے ہیں۔ جو نوجوان جنت کی خواہش ذہن میں رکھ کر دہشت گردوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں، وہ حقیقت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے عین مطابق خود کو اسلام سے خارج سمجھیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی دہشت گردی کے خلاف فتوے کا مطالعہ کرنے والے نوجوان کبھی دہشت گرد عناصر یا انتہاء پسند تحریکوں کے آلہ کار نہیں بنیں گے۔ آپ نے کہا کہ دہشت گردی کو اچھی یا بری نیت سے اصولی طور پر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ نیت کیسی بھی ہو، دہشت گردی اور خود کش بمباری کفر اور حرام ہے اور اسلام میں قطعا اس کی گنجائش نہیں ہے۔ اسلامی تعلیمات جو امن، احسان اور محبت کے پیغام پر مشتمل ہیں، انہیں آج تروڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ آپ نے کہا کہ اسلام نے تو دوران جنگ بھی آداب مقرر کر رکھے ہیں۔ اسلام نے جنگ میں بوڑھوں، عورتوں، بچوں، مریضوں، تجارتی مراکز، سکولوں اور ہسپتالوں کو بھی پوری طرح تحفظ فراہم کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلام کو بزور شمشیر پھیلانے والوں کا تعلق خوارج سے ہے۔ جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے امن مذاکرات سے بغاوت کرتے ہوئے اپنا باغی گروپ دہشت گرد گروپ قائم کیا تھا۔ موجودہ دور کے دہشت گرد بھی اسی گروہ سے ہیں۔ ان کے حلیے، ان کی شکلیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خوارج اور دہشت گردی کی بنیاد کو اپنی اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ آپ کا کہنا تھا کہ اسلام میں بے گناہ یا گنہگار کسی بھی صورت میں کسی انسان کے قتل کی گنجائش تک نہیں ہے۔ گنہگار کے لیے عدالتی نظام ہے جس کے ذریعے ریاست، عوام کے عدل و انصاف کے حصول کو یقینی بناتی ہے۔ کسی کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت اسلامی تعلمیات کے متصادم اور منافی ہے۔
آپ نے کہا کہ اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کی خاطر اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والے اسلام کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ اگر انہیں جہاد کرنا ہی ہے تو ملک میں تعلیم کی فراوانی کے لیے کریں۔ اس کے ساتھ بدکاری، ماشرتی برائیوں کے خاتمہ، رشوت، مہنگائی اور غربت کے خلاف جہاد کریں۔ جو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق بھی ہے۔ آپ نے بعض شدت پسند تنظیموں کا نام لیے بغیر نظام خلافت کے ہمدردوں اور جمہوریت کے مخالفین پر سخت تنقید کی اور کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے پہلے جمہوری نظام کے داعی ہیں۔ شیخ الاسلام نے اسلامی ممالک کی حکومتوں کو باور کروایا کہ دہشت گردوں کا قلع قمع کرنا، ان کا حکومتی اور دینی فریضہ ہے، خواہ اس کام کے لیے فوج کا استعمال کرنا پڑے۔ حکومت اس وقت تک فوجی کارروائی کو بھی نہ روکے جب تک دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ نہ ہو جائے۔ دین اسلام کے دشمن اور خارجی عناصر کو فوری مکمل قوت کے ساتھ کچل دیا جائے، جس سے دہشت گردی جڑ سے ختم ہو جائے گی۔ آپ نے کہا کہ آج مسلم دنیا کے نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد یا تو دہشت گردوں کے چنگل میں پھنس چکی ہے یا پھر ایسی خود کش بننے کے لیے تیار ہو چکی ہے۔ اس فتویٰ کا سب سے بڑا اور اہم فائدہ یہ ہوگا کہ وہ نوجوان اس کتاب کے ذریعے یہ جان سکیں گے یا وہ جنت کا انتخاب کر رہے ہیں دوزخ کا ایندھن بن رہے ہیں۔
اس موقع پر برطانیہ کے کمیونٹی وزیر شاہد ملک نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہمیشہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کا پرچار کیا ہے۔ ان کا فتویٰ برطانیہ سمیت دنیا بھر میں آباد مسلمانوں اور ان کی نسلوں کے لیے انقلابی تبدیلی کا باعث بنے گا۔ اس موقع پر انہوں نے حکومتی سطح پر اپنے مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی۔
اس نشست کے بعد میڈیا کے درجنوں نمائندوں نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے ڈھیروں سوالات کیے، جن کے آپ نے نہایت تسلی بخش جواب دیئے۔ یریس کانفرنس تین گھنٹے سے زائد جاری رہی۔ جس کے بعد انٹرنیشنل میڈیا کے نمائندوں نے شیخ الاسلام کے الگ الگ شارٹ انٹرویوز بھی کیے۔
رپورٹ: آفتاب بیگ۔ لندن
Comment