Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

ª!ª حقیقت بدعت ª!ª

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #46
    Originally posted by aabi2cool View Post
    از روئے شریعت ہر نئے کام کو محض اس لیے ناجائز و حرام قرار دیا جائے کہ وہ نیا ہے ؟
    اگر شرعی اصولوں کا معیار یہی قرار دیا جائے تو پھر دین اسلام کی تعلیمات اور ہدایات میں سے کم و بیش ستر فیصد حصہ ناجائز و حرام ٹھرتا ہےکیونکہ اجتہاد کی ساری صورتیں اور قیاس ، استحسان،استنباط اور استدلال وغیرہ کی جملہ شکلیں سب ناجائز و حرام کہلائیں گی کیونکہ بعینہ ان سب کا وجود زمانہ نبوت تو درکنار زمانہ صحابہ میں بھی نہیں تھا

    اسی طرح دینی علوم و فنون مثلا اصول، تفسیر ، حدیث ، فقہ و اصول فقہ اور انکی تدوین و تدریس اور پھر ان سب کوسمجھنے کے لیے صرف و نحو ، معانی ، منطق وفلسفہ اور دیگر معاشرتی و معاشی علوم جو تفہیم دین کے لیے ضروری اور عصر ی تقاضوں کے عین مطابق ابدی حیثیت رکھتے ہیں ان کا سیکھنا حرام قرار پائے گا کیونکہ اپنی ہیت کے اعتبار سے ان سب علوم و فنون کی اصل نہ تو زمانہ نبوی میں ملتی ہے اور نہ ہی زمانہ صحابہ میں انھیں تو بعد میں ضروریات کے پیش نظر علماء مجتہدین اسلام نے وضع کرلیا تھا ۔
    درج بالا اقتباس سے دو سوالات یوں اٹھتے ہیں کہ ۔۔۔
    کیا "تفہیمِ دین کی ضرورت" اور "دین" ایک ہی اصطلاح ہے؟؟
    اور کیا علماء مجتہدین اسلام نے درج بالا علوم و فنون کو وضع کرنے کے بعد یہ بھی فرمایا تھا کہ یہ یہ علوم و فنون بھی "شریعتِ اسلامیہ" میں شامل ہیں؟؟
    اگر دونوں سوالات کا جواب نفی میں ہو ، (اور یقیناً نفی میں ہی ہے!) تو یہیں ثابت ہو جاتا ہے کہ "دین" ایک الگ امر ہے اور دین کو سمجھنے کے لیے جو وسائل اختیار کیے جاتے ہیں وہ ایک علیحدہ معاملہ ہے۔
    ان وسائل کو اختیار کرنے کا معاملہ امت مسلمہ پر چھوڑا گیا ہے جیسا کہ اس کی دلیل میں صحیح مسلم کی حدیث ہے ‫:
    تم اپنے دنیاوی امور کو بہتر جانتے ہو ۔ (صحیح مسلم)۔
    دین کو سمجھنے کے وسائل یعنی ۔۔۔ عصری تقاضے بدلتے رہتے ہیں ، علوم و فنون گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں ، صرف و نحو ، معانی ، منطق وفلسفہ وغیرہ میں تبدیلیاں آ سکتی ہیں ۔۔۔ لیکن "دین" نہیں بدل سکتا یعنی وہ "دین" جس کو "اسلامی شریعت" بھی کہتے ہیں اور "قرآن و حدیث" بھی۔
    اور اگر آپ کو اسی ضابطے پر اصرار ہوتو پھر درس نظامی کی موجودہ شکل بھی حرام ٹھرتی ہے جو کہ بحرحال دین کو سمجھنے کی ایک اہم شکل ہے اوراسے اختیار بھی دین ہی سمجھ کر کیا جاتا ہے
    جو کوئی درسِ نظامی کو اختیار کرتا ہے ، کیا وہ اسے دین سمجھتا ہے؟ ایسا تو کوئی بھی باشعور مسلمان نہیں کہتا۔
    اس کا دوسرا مطلب تو یہ ہوا کہ جو کوئی درسِ نظامی اختیار نہیں کرتا وہ دین پر نہیں چلتا؟؟
    کیا یہ غیرعقلی بات نہیں ہے۔ برصغیر کے کسی بھی عالم سے پوچھ لیں۔ کوئی بھی یہ نہیں کہے گا کہ "درسِ نظامی" درحقیقت "دینِ اسلام" ہے۔ بلکہ یہی کہے گا کہ "درسِ نظامی" ، دینِ اسلام کو سمجھنے کا وسیلہ یا ذریعہ ہے۔ دین تو قرآن و حدیث میں محفوظ ہے۔
    میں ایک بار پھر دہراؤں گا کہ "دین" ایک الگ چیز ہے اور دین کو سمجھنے کے لیے جو ذرائع یا وسائل اختیار کئے جاتے ہیں وہ ایک علیحدہ معاملہ ہے۔ ان ذرائع یا وسائل کو "دین" کا نام دنیا کا کوئی بھی عالم نہیں دیتا اور نہ دے ہی سکتا ہے۔
    کیونکہ موجودہ شکل میں درس نظامی کی تدریس ، تدوین اور تفہیم نہ تو زمانہ نبوی میں ہوئی اور نہ ہی صحابہ نے اپنے زمانے میں کبھی اس طرح سے دین کو سیکھا اور سکھایا لہذا جب ہر نیا کام بدعت ٹھرا اور ہر بدعت ہی گمراہی ٹھری تو پھر لازما درس نظامی اور دیگر تمام امور جو ہم نے اوپربیان کیئے وہ سب ضلالت و گمراہی کہلائیں گے
    جب ہم میں سے کوئی "درسِ نظامی" کی ہئیت کو راست "دین" سمجھتا ہی نہیں تو پھر اسے بدعت کون کہے گا بھلا ؟ بدعت تو وہ ہے کہ جسے دین میں ایجاد کیا جائے۔ یعنی جو دین قرآن و حدیث کی شکل میں محفوظ ہے اس میں ردّ و بدل یا اضافہ کیا جائے۔
    اسی طرح قرآن پاک کا موجودہ شکل میں جمع کیا جانا اس پر اعراب اور نقاط پھر پاروں میں اس کی تقسیم اور منازل میں تقسیم اور رکوعات اور آیات کی نمبرنگ
    یہ بھی بہرحال بدعت نہیں ہیں۔ اور اس پر میں حوالوں کے ساتھ آگے چل کر بات کروں گا۔ ان شاءاللہ۔
    اسی طرح مساجد مین لاوڈ اسپیکر کا استعمال مساجد کو پختہ کرنا اور انکی تزیئن و آرائش مختلف زبانوں میں خطبات اور اسی قسم کے جملہ انتظامات سب اسی زمرے میں آئیں گے۔
    یہ دنیاوی امور ہیں جس کی حلت سے متعلق صحیح مسلم کی حدیث بیان کی جا چکی ہے۔

    Comment


    • #47
      bazauq sab kaya aap apny aytrazaat mukmal kar chukay :cc:ya bahi khuch baqi hain plz bata deen tak main aap k aytrazaat ka tajzia yahaan bian karsakon.
      ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

      Comment


      • #48

        Comment


        • #49
          جب ہر نیا کام بدعت ٹھرا اور ہر بدعت ہی گمراہی ٹھری تو پھر لازما درس نظامی اور دیگر تمام امور جو ہم نے اوپربیان کیئے وہ سب ضلالت و گمراہی کہلائیں گے اسی طرح قرآن پاک کا موجودہ شکل میں جمع کیا جانا اس پر اعراب اور نقاط پھر پاروں میں اس کی تقسیم اور منازل میں تقسیم اور رکوعات اور آیات کی نمبرنگ اسی طرح مساجد مین لاوڈ اسپیکر کا استعمال مساجد کو پختہ کرنا اور انکی تزیئن و آرائش مختلف زبانوں میں خطبات اور اسی قسم کے جملہ انتظامات سب اسی زمرے میں آئیں گے۔
          درج بالا اقتباس میں اس فقرے پر ضرور اعتراض ہے
          جب ہر نیا کام بدعت ٹھرا اور ہر بدعت ہی گمراہی ٹھری
          دین میں ایجاد کیے جانے والے ہر نئے کام کو "بدعت" کہا جائے گا۔
          فرمانِ مصطفیٰ ہے ‫:
          من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد
          جس نے ہمارے اس دین میں ( اپنی طرف سے ) کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ، تو وہ مردود ہے ۔
          صحيح بخاري ، كتاب الصلح ، باب : اذا اصطلحوا على صلح جور فالصلح مردود ، حدیث : 2737
          صحیح مسلم ، كتاب الاقضية ، باب : نقض الاحكام الباطلة ورد محدثات الامور ، حدیث : 4590
          امرنا

          اسی مکتبِ فکر کے ایک اور نامور عالمِ دین مولوی عبدالسمیع رامپوری نے اس طرح وضاحت کی ہے :
          یہ صحیحین کی حدیث ہے یعنی : جس نے نکالی ہمارے اس دین میں ، وہ بات جو دین کی قسم سے نہیں یعنی کتاب و سنت کے مخالف ہے وہ بات اس کی رد ہے۔
          ‫(بحوالہ : انوار ساطع مع براھین قاطعہ ، ص:44)۔

          اس مکتبِ فکر کے مشہور واعظ مولوی منور حسین عثمانی رضوی لکھتے ہیں ‫:
          بدعت کے اصطلاحی معنی ہیں : امورِ دینیہ میں جو کام ثواب کے لیے ایجاد کیا جائے
          ‫(بحوالہ : ردّ شرک و بدعت ، ص:327)۔

          مولوی صدیق حنفی بریلوی لکھتے ہیں ‫:
          ‫(بدعت) دین میں جو نیا کام بغرضِ ثواب جاری کیا جائے
          ‫(بحوالہ : بدعت کی حقیقت ، ص:41)۔

          اور ۔۔۔۔۔۔
          اس مکتبِ فکر کے مجدد ملت جناب احمد رضا خان ، تمباکو کی حلت و حرمت پر بحث کرتے ہوئے اسے حلال و مباح قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں : رہا اس کا بدعت ہونا ، یہ کچھ باعثِ ضرر نہیں کہ یہ بدعت کھانے پینے میں ہے نہ کہ امورِ دین میں ، تو اس کی حرمت ثابت کرنا ایک دشوار کام ہے۔۔۔۔۔۔۔
          ‫(بحوالہ : مندرجہ فتاوی رضویہ ، ص:41 ، ج:11)۔‫(بحوالہ : فتح الباری ، ص:230 ، ج:5)۔

          ‫2۔ علامہ شاطبی فرماتے ہیں ‫:
          طریقۃ فی الدین ( دین کے اندر نیا طریقہ )۔
          ‫(بحوالہ : الاعتصام ، ص:37 ، ج:1)۔

          ‫3۔ ملا علی قاری حنفی فرماتے ہیں ‫:
          ای فی دین الاسلام ( دینِ اسلام میں )۔
          ‫(بحوالہ : مرقاۃ ، ص:225 ، ج:1)۔

          ‫4۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں ‫:
          در دین ما ( دین کے اندر )۔
          ‫(بحوالہ : اشعۃ اللمعات ، ص:134 ، ج:1)۔

          ‫5۔ مولانا شمس الحق محدث عظیم آبادی فرماتے ہیں ‫:
          ای فی دین الاسلام ( دینِ اسلام میں )۔
          ‫(بحوالہ : عون المعبود ، ص:329 ، ج:4)۔

          ہم نے دیکھ لیا کہ معتبر ائمہ و علماء اس بات پر متفق ہیں کہ ‫:
          جو چیز دین میں نئی نکالی گئی ہو ، وہ بدعت ہے ‫!!

          ===
          مزید یہ کہ ۔۔۔ درج بالا اقباس میں لکھا ہے ‫:
          قرآن پاک کا موجودہ شکل میں جمع کیا جانا اس پر اعراب اور نقاط پھر پاروں میں اس کی تقسیم اور منازل میں تقسیم اور رکوعات اور آیات کی نمبرنگ
          قرآن پر جو اعراب ہیں ، اس کو اگر شرعی بدعت کہہ دیا جائے (جو کوئی بھی مسلمان قطعاً نہیں کہتا) تو اس کا لازمی مطلب یہ ہوا کہ قرآن محفوظ نہیں ہے اور اس میں اعراب کے ذریعے اضافہ کر دیا گیا ہے (نعوذباللہ)۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ ‫:
          إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
          ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔

          ( سورة الحجر : 15 ، آیت : 9 )

          اعراب لگانے کا یہ کام سن 86ھ میں حجاج بن یوسف نے سرانجام دیا۔
          تنزیل قرآن کے وقت عربی زبان ایسے کوفی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی جو زیر زبر وغیرہ حرکات کے بغیر لکھا جاتا اور اس میں نقطے بھی کم ہوتے تھے۔ اس طرح کی تحریر کو اہل عرب تو بآسانی پڑھ لیتے لیکن غیر عرب پڑھنے میں اکثر غلطیاں کر جاتے تھے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہی حجاج جیسے ظالم شخص سے اتنا اہم کام لیا۔
          کیا اللہ کی ایسی "مدد" کو بھی بدعت کہا جائے گا ؟؟ نعوذباللہ۔

          پاروں میں قرآن کی تقسیم اور منازل میں تقسیم اور رکوعات اور آیات کی نمبرنگ ۔۔۔ ان سب کا جواب بھی یہی ہے کہ ان تمام کو کوئی بھی دین میں اضافہ نہیں کہتا۔ اگر "اضافہ" کہا جائے تو یہ ماننا لازم آئے گا کہ قرآن محفوظ نہیں ہے بلکہ ہر دور میں انسان اس میں اضافہ کر سکتے ہیں اور کرتے آئے ہیں ۔۔۔ بتائیے کیا یہ بات کسی ایک بھی مسلمان کو قابلِ قبول ہو سکتی ہے؟؟

          مساجد مین لاوڈ اسپیکر کا استعمال مساجد کو پختہ کرنا اور انکی تزیئن و آرائش مختلف زبانوں میں خطبات اور اسی قسم کے جملہ انتظامات ۔۔۔۔
          یہ تمام کام بھی بطور "دین" شمار نہیں ہوتے۔ ورنہ تو برصغیر کے بہت سے دیہاتوں میں بیشمار مساجد غیر پختہ ہیں ، ان کی کوئی تزئین و آرائش نہیں ہوتی ، تو کیا ایسی مساجد دین کے خلاف ہیں ؟ کیا معاذاللہ انہیں ڈھا دینا چاہئے؟

          مختلف زبانوں میں خطبہ کے جواز کے لیے بھی صحیح مسلم کی یہی حدیث دلیل ہوگی ‫:
          نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : أنتم أعلم بأمر دنياكم
          ‫( تم اپنے دنیا کے کاموں کو مجھ سے زیادہ جانتے ہو )۔

          صحیح مسلم ، كتاب الفضائل ، باب : وجوب امتثال ما قاله شرعا دون ما ذكره صلى الله عليه وسلم من معايش الدنيا على سبيل الراى ، حدیث : 6277
          ظاہر ہے سرائیکی ، بنگالی یا سنہالی زبانیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دور میں موجود نہیں تھیں۔ اسی سبب ہی تو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ جامع ارشاد فرمایا کہ ہم اپنے دنیاوی امور کو بہتر جانتے ہیں۔
          Last edited by BaaZauq; 19 February 2008, 16:19. Reason: spelling correction

          Comment


          • #50
            Last edited by tauruskhan; 19 February 2008, 22:44.
            People should not be afraid of their governments. Governments should be afraid of their people

            Comment


            • #51
              اصطلاح شرع میں بدعت کا مفہوم واضح کرنے کے لیے ائمہ فقہ و حدیث نے اس کی تعریف یوں کی ہے کہ۔
              ہر وہ نیا کام جس کی کوئی اصل بالواسطہ یا بلاواسطہ نہ قرآن میں ہو نہ حدیث میں ہو اور اسے ضروریات دین سمجھ کر شامل دین کرلیا جائے یاد رہے کہ ضروریات دین سے مراد وہ امور ہیں کہ جس میں سے کسی ایک چیز کا بھی انکار کرنے سے بندہ کافر ہوجاتا ہے۔
              ایسی بدعت کو بدعت سئیہ کہتے ہیں اور بدعت ضلالہ کہتے ہیں
              آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پاک کل بدعة ضلالة سے بھی یہی مراد ہے ۔
              وہ کون سے ائمہ و فقہاء ہیں جنہوں نے بدعت کی درج بالا تعریف کی ہے؟ (خاص طور پر سرخ الفاظ)۔
              جب تک مکمل حوالہ جات فراہم نہ کیے جائیں ، ایسی تعریف کا کوئی اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔

              آئیے ہم مکمل حوالوں کے ساتھ ائمہ سلف کی جانب سے کی گئی "بدعت" کی تعریف آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس ضمن میں جتنی بھی عربی کتب کے حوالے دئے جا رہے ہیں وہ ساری کتب نیٹ پر الحمدللہ اب دستیاب ہیں ، لہذا کوئی بھی گوگل سرچنگ کے ذریعے انہیں ڈاؤن لوڈ کر کے خود چیک کر سکتا ہے۔ (ویسے میں خود بھی ڈاؤن لوڈ لنک دے سکتا ہوں لیکن اس فورم کے اصول کی خاطر پرہیز کر رہا ہوں)۔

              حافظ ابن کثیر
              والبدعة على قسمين: تارة تكون بدعة شرعية, كقوله: [[ فإن كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة ]], وتارة تكون بدعة لغوية, كقول أمير المؤمنين عمر بن الخطاب عن جمعه إياهم على صلاة التراويح واستمرارهم: نعمت البدعة هذه
              اور بدعت کی دو قسمیں ہیں : (1) بدعتِ شرعی ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ (2) بدعتِ لغوی ، جیسا کہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو تراویح اکٹھے پڑھنے پر فرمایا کہ : یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے۔
              تفسیر ابن کثیر
              ج:1 ، ص:302


              علامہ ابن حزم
              والبدعة كل ما قيل أو فعل مما ليس له أصل فيما نسب إليه صلى الله عليه وسلم وهو في الدين كل ما لم يأت في القرآن ولا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
              بدعت اسے کہتے ہیں جس کی اصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہو اور دین میں قرآن و سنت سے اس پر کوئی دلیل نہ ہو
              الاحکام فی اصول الاحکام
              ج:1 ، ص:22


              امام ابن رجب
              والمراد بالبدعة ما أحدث مما لا أصل له في الشريعة يدل عليه وأما ما كان له أصل من الشرع يدل عليه فليس ببدعة شرعا وإن كان بدعة لغة
              بدعت سے مراد نوایجاد چیز جس کی شریعت میں کوئی اصل نہ ہو جو اس پر دلالت کرے ، بہرحال جس کی شریعت میں کوئی اصل ہو جو اس پر دلالت کرے وہ شرعی بدعت نہیں اگرچہ وہ لغت کے اعتبار سے بدعت ہو۔
              جامع العلوم والحکم
              ج:2 ، ص:304


              علامہ شاطبی
              طريقة في الدين مخترعة تضاهي الشرعية يقصد بالسلوك عليها المبالغة في التعبد لله سبحانه
              دین کے اندر ایسا نوایجاد طریقہ جو شریعتِ اسلامیہ کے مشابہ ہو اور اس پر عمل کرنے سے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مبالغہ کرنا مقصود ہو
              الاعتصام
              ج:1 ، ص:16


              علامہ ابن الاثیر
              کل محدثۃ بدعۃ انما یرید ماخالف اصول الشریعۃ ولم یوافق السنۃ
              کل محدثۃ بدعۃ (کی حدیث) کا معنی یہ ہے کہ جو چیز اصولِ شریعت کے خلاف ہو اور سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق نہ ہو
              النهاية في غريب الحديث والأثر
              ج:1 ، ص:89


              علامہ ابن منظور
              والبدعۃ : الحدث وما ابتدع من الدین بعد الاکمال
              بدعت نئی چیز کو کہتے ہیں جو دین میں اس کی تکمیل کے بعد نکالی گئی ہو
              لسان العرب
              ج:"ب" ، ص:276

              مغالطے کا ازالہ اور فھو رد کا صحیح مفھہوم
              صحیح مسلم کی روایت ہے من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد مسلم شریف۔
              یعنی جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا کوئی امر موجود نہیں تو وہ مردود ہے ۔
              اس حدیث میں لیس علیہ امرنا سے عام طور پر یہ مراد لیا جاتا ہےکہ کو ئی بھی کام خواہ نیک یا احسن ہی کیوں نہ ہو مثلا میلاد النبی ،ایصال ثواب،وغیرہ اگر ان پر قرآن و حدیث سے کوئی نص موجود نہ و تو تو یہ بدعت او مردود ہیں ۔ یہ مفہوم سرا سر باطل ہے کیونکہ اگر یہ معنی لے لیا جائے کہ جس کام کہ کرنے کا حکم قرآن اور سنت میں نہ ہو وہ حرام ہے تو پھر مباحات کا کیا تصور اسلام میں باقی رہ گیا ؟ کیونکہ مباح تو کہتے ہی ا سے ہیں کہ جس کہ کرنے کا شریعت میں حکم نہ ہو
              یعنی یعنی ۔۔۔۔۔ اگر کوئی کہے ۔۔۔
              کو ئی بھی کام خواہ نیک یا احسن ہی کیوں نہ ہو مثلا میلاد النبی ،ایصال ثواب،وغیرہ اگر ان پر قرآن و حدیث سے کوئی نص موجود نہ و تو تو یہ بدعت او مردود ہیں
              تو ایسا قول (یا مفہوم) آپ کے نزدیک سراسر باطل ہے؟؟
              اور اس کی وجہ میں آپ فرماتے ہیں : کیونکہ اگر یہ معنی لے لیا جائے کہ جس کام کہ کرنے کا حکم قرآن اور سنت میں نہ ہو وہ حرام ہے تو پھر مباحات کا کیا تصور اسلام میں باقی رہ گیا ؟ کیونکہ مباح تو کہتے ہی اسے ہیں کہ جس کہ کرنے کا شریعت میں حکم نہ ہوسب سے پہلے تو ہم کو بتائیے گا کہ : کیا میلاد النبی ، ایصال ثواب، وغیرہ "مباح" کی تعریف میں آتے ہیں؟ آپ کے درج بالا قول سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مباحی کام ہیں۔
              تو آئیے ذرا "مباح" کی تعریف بھی اصولِ فقہ سے دیکھ لیں۔

              مباح کی تعریف ‫:
              لا یثاب علیہ ولا یعاقب
              اردو مفہوم : کرنے پر ثواب نہیں اور نہ کرنے پر عذاب نہیں۔


              حوالہ جات ‫:
              التوضيح في حل غوامض التنقيح
              ج:1 ، ص:13

              اصول السرخسی
              ج:1 ، ص:115

              فتاویٰ شامی
              ج:1 ، ص:123 اور 653


              تو جب اصولِ فقہ کی رو سے میلاد النبی یا ایصالِ ثواب جیسے اعمال پر کوئی ثواب یا کوئی فائدہ ملتا ہی نہیں ہے تو خواہ مخواہ قیمتی وقت یا مال کا زیاں کیوں کیا جاتا ہے؟؟
              اور پھر ہمیں یہ بھی ضرور بتائیے کہ کیا عبادات اور عقائد میں بھی "مباح" کا تصور ہے؟
              اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ نعوذباللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض عبادات اور کچھ عقائد کا علم نہیں دیا اور ان کو آنے والی امت مسلمہ کے قیاس پر چھوڑ دیا۔ ثم نعوذباللہ۔
              علاوہ ازیں ۔۔۔۔
              آپ نے "مباح" کی تعریف میں لکھا ہے : مباح تو کہتے ہی اسے ہیں کہ جس کہ کرنے کا شریعت میں حکم نہ ہو۔
              پہلے تو آپ کو واضح کرنا ہوگا کہ کس امام یا کس فقیہہ یا کس عالمِ دین نے "مباح" کی ایسی تعریف بیان کی ہے؟
              اس کے بعد یہ بتائیے کہ اگر میلاد النبی یا ایصالِ ثواب ، عبادت نہیں ہیں تو پھر ان کے کرنے پر ثواب کی امید کس دلیل پر ہے؟ کیونکہ ثواب یا عذاب کا بیان تو شارع علیہ السلام کا حق ہے۔
              اور اگر میلاد النبی یا ایصالِ ثواب ، عبادات میں ہی شمار ہوتے ہیں تو اس کی دلیل میں قرونِ ثلاثہ سے کوئی ثبوت تو فراہم کیجئے ‫!!
              Last edited by BaaZauq; 20 February 2008, 14:02. Reason: formatting.......

              Comment


              • #52
                السلام علیکم ، برادر محترم ‫aabi2cool
                اِس تھریڈ کی پوسٹ نمبر 7 تا 13 کا مواد مجھے یونیکوڈ میں درکار ہے۔ کیا آپ مجھ پر مہربانی کرتے ہوئے اپنی ان پوسٹس کا امیج والا مواد یہیں دوبارہ یونیکوڈ میں کاپی کر دیں گے؟ میں آپ کا بہت شکرگزار رہوں گا۔

                اور ہاں ، جمعرات اور جمعہ کو میری دیگر مصروفیات ہوتی ہیں لہذا اگر میں یہ دو دن غیرحاضر رہا تو امید ہے آپ کچھ خیال نہیں کریں گے ، شکریہ۔

                Comment


                • #53
                  مباح بدعت کی قبولیت اور قرآن

                  یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیےکہ ضروری نہیں ہےکہ ہر بدعت قرآن و حدیث سےمتصادم ہی ہو بلکہ بےشمار بدعات ایسی ہیں جو کہ نہ تو کتاب و سنت کےمنافی ہیں اور نہ ہی شریعت کی روح کےخلاف اسی لیے انھیں بدعت مباحہ کہا جاتا ہےجو بدعت شریعت کےخلاف ہو اسےبدعت سئیہ کہتےہیں اگر اس بنیادی امتیاز کو نظر انداز کرکےہر نئی چیز کو بغیر اس کی ماہیت ، افادیت ،مقصدیت اور مشروعیت کےتجزیئےکےبدعت قرار دےدیا جائےتو عہد خلافت راشدہ سےلیکر آج تک کےلاکھوں شرعی اجتہادی اور اجتماعی فیصلے ، احکام مذہبی رسوم اورمعاملات معاذاللہ ضلالت و گمراہی قرار پائیں گےاور ہمیشہ کے لیےدینی معاملات میں اجتہاد ، استحسان، مصالح و استصلاح کا دروازہ بند ہوجائےگاجس سےلا محالہ بدلتےہوئےحالات میں اسلام کا قابل عمل رہنا بھی نا ممکن ہوجائےگا۔ پس اگر کوئی عمل نہ کتاب میں مذکور ہو نہ اس امت کےرسول نےایسا کرنےکا حکم دیا ہو بعد ازاں امت کے صلحاءکسی نئےعمل یعنی بدعت مباحہ کو وضع کرکےرضائےالٰہی ک حصول کےلیےاپنا لیں تو
                  انما الاعمال بالنیات کےتحت وہ عمل بھی عنداللہ مقبول اور باعث اجرو ثواب ہوگا اور اس کو بدعت حسنہ یا مستحسن عمل کہیں گےہماری اس بات کی تائید خود قرآن پاک کی اس آیت سےہوتی ہے۔۔۔ارشاد باری ہی۔
                  ثم قفینا علی اثارھم برسلنا وقفینا بعیسی بن مریم واتینہ الانجیل وجعلنا فی قلوب الذین اتبعوہ رافۃ ورحمۃ ورھبانیۃ ن ابتدعوھا ما کتبنھا علیھم الابتغا رضوان اللہ فما رعوھا حق رعیا یتھا فاتینا الذین اٰمنو منھم اجرھم وکثیر منھم فاسقون۔الحدید
                  ترجمہ۔پھر ہم نےان کےپیچھےاس راہ پر اپنےرسول بھیجےاور ان کےپیچھےعیسٰی ابن مریم کو بھیجا ، انھیں انجیل عطا کی اور ہم نے انکےصحیح پیروکاروں کےدلوں میں نرمی اور رحمت رکھی اور رھبانیت کی بدعت انھوں نےخود وضع کی ہم نےان پر فرض نہ کی تھی ہاںمگر انھوں نےیہ صرف اللہ پاک کی رضا چاہتے ہوئے وضع کی لیکن وہ اسکے جملہ تقاضوں کا خیال نہ رکھ سکے پس ان میں سےجو لوگ ایماندار تھےہم نےانھیں انکا اجر عطا کیا مگر ان میں سےا کثر نافرمان تھے۔
                  اس آیت کےالفاظ اور معنٰی پر غور کرنےسےہماری بات کی تائید ہوتی ہےکہ کوئی ایساکام کہ جس کےکرنےکانہ تو اللہ پاک نےحکم دیا ہو اور نہ اس کےرسول نےاور لوگ محض حصول ِرضائےالہٰی کےلیےاس عمل کو اختیارکرلیں تو انھیں اس عمل پر ثواب بھی ملتا ہےدیکھیےآیت کےالفاظ میں ابتدعوھابدعت سےمشتق ہی۔یہ الفاظ بتارہےہیں کہ شریعت عیسوی میں اصلا رہبانیت مشروع نہ تھی بلکہ امت عیسوی نےخود بطور بدعت اس کو اختیار کر لیا تھا۔دیکھیےماکتبنٰھا کےالفاظ کیسےواشگاف انداز میں یہ اعلان کررہےہیں کہ اس بدعت یعنی رہبانیت کا کوئی حکم اللہ پاک نہیں دیا تھا اور نہ ہی اس کےرسول نےکوئی ایسا کام کرنےکا کہا تھا۔اس لیےاللہ پاک نےامت عیسوی سےرہبانیت کی فرضیت کی نفی تو اس آیت میں کی ہےلیکن اس کی مشروعیت کی نفی نہیں کی یعنی اس کو حرام و ناجائز نہیں ٹھرایا۔یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ شریعت عیسوی میں رہبانیت کا جو تصور تھا اس کا کوئی حکم اللہ یا اسکےرسول نےنہیں دیا تھاہاں مگر امت عیسوی نےاسےبطور خودرضائےالہٰی کےحصول کی خاطر اپنالیا تھا۔ جس پر اللہ پاک نےاُن کےاس عمل کو سند قبولیت سےنوازااور یوں رہبانیت مشروع ہوکر شریعت عیسوی کا حصہ بنی۔ ہماری اس بات کی تائید ایک حدیث مبارکہ پر غور کرنےسےبھی ہوتی ہےکہ جس میں نبی کریم نےفرمایا کہ اسلام میں رہبانیت نہیں۔یہ اس لیے فرمایا کہ پہلی شریعت میںرہبانیت تھی اب سوچنےکی بات یہ ہے کہ اگر پہلی شریعت میں رہبانیت تھی تو کہاں سےآئی کیا اللہ پاک نےحکم دیا تھا مگر اللہ پاک تو فرما رہےہیں کہ ماکتبنھا علیھم یعنی کےہم نےان پر فرض نہ کی۔ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہےکہ ہر وہ حکم جو منزل من اللہ یا مقرر من الرسول نہ ہو لیکن اللہ اور اس کےرسول نےکسی ایسےعمل سےروکا بھی نہ ہو اسےاگر نیک نیتی سے مستحسن انداز میں داخل شریعت کرلیا جائے بشرطیکہ وہ عمل بذات خود صحیح ہو اور کسی بھی شرعی امر کےخلاف نہ ہو تو ایسےعمل کو نہ صرف شرف قبولیت عطا ہوتا ہےبلکہ اس پر اجر وثواب کا بھی وعدہ خداوندی ہے۔ جیسا کہ رھبانیت امت عیسوی میں۔ اگر آپ الابتغاءرضوان اللہ کے الفاظ پر غور کریں تو یہی بات سمجھ میں آئےگی کہ عیٰسی علیہ السلام کےپیرو کاروں نےوہ عمل یعنی رھبانیت حصول رضائےالہٰی کےلیےہی ایجاد کی تھی اسی لیےاللہ پاک نےاس امر کو مستحسن قرارد ےکر کر قبول کرلیا پس ثابت ہوا کہ کوئی عمل فی نفسہ اگر بدعت بھی ہو تو وہ تب بھی رضائے الٰہی کےحصول کا زریعہ بن سکتا ہے۔ اب اگر آپ اسی آیت کےاگلےالفاظ پر غور کریں جوکہ یہ ہیں کہ ۔
                  فما رعوھا حق رعایتھا یعنی انھوں نےاس عمل یعنی رھبانیت کا اس طرح حق ادا نہیں کیا جیسا کےاسکا تقاضہ تھا۔
                  تو آپ کو یہ بات بھی بڑی واضح طور پر سمجھ میں آجائےگی کہ اگر امت کسی مستحسن عمل کو اپنا لیتی ہےمگر پھر اس کو ادا کرنےکوتاہی سےکام لیتی ہےتو پھر اللہ پاک ناراض بھی ہوتے ہیں اس اس آیت کےان الفاظ نے رھبانیت کی بدعت کی فی نفسہ مذمت نہیں کی بلکہ اس بدعت کو ٹھیک طرح سے ادا نہ کرنےکی مذمت کی۔۔۔۔اس سے آگےکہ الفاظ واشگاف اعلان کررہےہیں کہ جن لوگوں نےا س یعنی بدعت رھبانیت کےتقاضےکو پورا کیا اللہ پاک نےنہ صرف انھیں شرف قبولیت بخشا بلکہ اجر بھی عطا فرمایا دیکھیے ۔۔
                  فاتینا الذین امنو منھم اجرھم میں منھمکےالفاظ بتا رہےہیں کہ انھی میں سےجن لوگوں نےاس بدعت رھبانیت کےجملہ تقاضوں کو ٹھیک ٹھیک نبھایا اللہ پاک نے انہیں اجر بھی عطا کیا ۔
                  مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں تصور بدعت کےمتعلق دو امور بڑے نمایاں ہوکر سامنے آتےہیں ۔ ایک یہ کہ اگر رضائے الہٰی کی خاطر کوئی نیا کام جسےعرف عام میں بدعت کہا جائےاور جو فی نفسہ خلاف شریعت نہ ہو تو اسلام اسے قبول کرتا ہےبلکہ امر مستحسن کےطور پر اس پر اجر وثواب کا بھی عندیہ دیتا ہےاور ایسےامور شریعت میں مشروع ہوتے ہیں اور انھیں مطلقا ناجائز اور حرام و بدعت سیہ قرار دیا زیادتی کے مترادف ہے۔ دوسری بات جو اس آیت کی روشنی میں ہمیں سمجھ میں آتی ہےوہ یہ کہ جس مقصد کے لیے وہ بدعت حسنہ وضع کی گئی ہو اس سے وہ مقصد بجا طور پر پورا ہونا چاہیے ، ایسا نہ ہو کہ بدعت حسنہ کا سہارا لیکر کسی کام کو روا تو رکھ لیا جائےمگر اسکی اصل روح مقصدیت اور افادیت کو نظر انداز کردیا جائےاور اسےمحض رسمیت کےطور پر روا رکھا جائےجیسا کہ بے عملی کی وجہ سے اکثر ہوتا ہے تو یہ اقدام نافرمانی کہلائےگا۔

                  ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                  Comment


                  • #54
                    شریعت اسلام اور تصور حلال و حرام
                    اسلام کےدامن میں کوئی تنگی یا محدودیت نہیں ہےبلکہ یہ ایک آسان واضح اور قابل عمل دین شریعت مطہرہ میں کوئی شئےاس وقت ناجائز قرار پاتی ہےجب اس کو قرآن و سنت یا اجماع ازروئےشرع ناجائز قرار دیں ۔ جس کو قرآن و سنت نےصراحت کےساتھ جائز نہیں کہا اسےاز روئےشرع ناجائز بھی نہیں کہا جاسکتا وہ اس لیےکہ شرعیت کا اصول حلال چیزوں کو گنوانےاور انکی گنتی پر نہیں بلکہ قرآن پاک کا یہ اصول ہےکہ اس نےجہاں بھی حلال و حرام کی تقریر بیان کی ہےتو حرام اشیاءکی فہرست گنوا دی ہے اور اس کےعلاوہ ہر شئےکو اصلا مباح قرار دیا ہے اسی اصول پر شریعت کا مشہور قاعدہ ہےکہ الاشیا فی الا صل اباحہ اور ہماری اس بات کی تائید متعدد قرآنی آیات سےہوتی ہےاب آپ سورہ مائدہ کی ان ابتدائی آیات پر ہی غور کرلیں کہ جن میں بڑےواضح الفاظ سےہماری بات کی تائید ہورہی ہے ۔۔۔
                    یاایھالذین امنو اوفوا بالعقود احلت لکم بھیمۃ الانعام الا ما یتلی علیکم ۔۔۔۔
                    اے ایمان والو پورےکرو اپنےعہدوں کو حلال کیےگئےتمہارےلیےچوپائےسوائےانکےکہ جن کا حکم پڑھ کرسنایا جائےگا ۔۔۔الانعام١
                    اب اس آیت پر غور کریں کہ مطلق سب جوپایوں کو حلا ل قرار دیا گیا یعنی یہ نہیں کہا گیا کہ فلاں بھی حلال ہے فلاں بھی حلال اور فلاں بھی حلال ہے اور جب باری آئی حرام جانوروں کی تو الا جو کہ حرف استثنا ءہے۔ اسے ادا فرما کر یہ یہ کہا گیا کہ حرام وہ ہیں جوکہ
                    ما یتلی علیکم کےتحت آئیں گےیعنی جن کا حکم آگے پڑھ کر سنایا جائے گا یعنی جو آگےجاکر تلاوت کیے جائیں گےاور پھر آپ ان سےاگلی آیات دیکھیں تو ان میں حرام جانوروں کی فہرست ہے۔۔۔ میں آپ کو شریعت مطہرہ کہ اس اصول کی ایک آسان مثال اس طرح دوں گاکہ جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ حلال اشیا ءبے شمار ہیں اس لیےدین انکی فہرست نہیں گنواتا جب کہ حرام اشیا چونکہ حلال کےمقابلےمیں کم ہیں ا س لیےدین انکے نام لیکر لیکر گنواتا ہےجیسےکہ ایک کلاس میں پچاس بچے ہوں اور ان میں سےتین بچے فیل ہوجائیں تو استاد اُن فیل ہونے والےتینوں بچوں کےنام لیکر بتا دےگا کہ باقی سب بچے پاس ہیں اب اگر وہ ایسا نہ کرےبلکہ ایک ایک پاس ہونے والےبچےکا زکر کرئےتو اس کا ایسا کرنا ادب و حکمت کےبھی خلاف ہوگا اور فصاحت و بلاغت کےبھی منافی ہوگا۔۔۔
                    اسی لیےہم عرض کررہےتھےکہ کسی عمل کو محض بدعت کہہ دینےسے وہ حرام نہیں ہوجاتا کیونکہ لغوی اعتبار سے کسی عمل کا بدعت ہونا فقط اتنا ثابت کرئے گا کہ اس پر قرآن و حدیث اور عمل صحابہ سےکوئی سند نہیں ہے لہذا ایسا ہر عمل اباحت کے دائرےمیں آجائےگا پس ثابت ہوا کہ کسی عمل کا محض نیا ہونا حرمت کی دلیل نہیں بن سکتا بلکہ کسی بھی نئےعمل کی حلت و حرمت کو جاننے کےلیےاسےدلیل شرعی کی طرف لوٹایا جائےگا اگر وہ عمل موافق شرع ہو تو بدعت حسنہ اور اگر خلاف شرع ہوتو بدعت سئیہ نبی کریم ور صحابہ کا کسی کام کو نہ کرنا اس کی حرمت کی دلیل نہیں ہوتا۔
                    اور اگر اسی کو قاعدہ مان لیا جائے تو پھر ہر وہ عمل کہ جس کا قرآن میں ذکر نہیں اسے بدرجہ اولیٰ بدعت کہا جانا چاہیےکیونکہ اگر حضور یا صحابہ کےترک سےکوئی فعل بدعت قرار پا سکتا ہےتو پھر قرآن پاک جو کہ کلام الٰہی ہےاس کےترک سے س فعل کو بطریق اولٰی بدعت قرار دیا جانا چاہیے۔
                    اسی لیے اصل ضابطہ یہ ہے کہ قرآن نےجو چیزیں حرام کی ہیں وہ بیان کردیں ہیں اور جن کے بارےمیں خاموشی اختیا ر کی ہےوہ جائز ہیں قرآن اپنا یہ قاعدہ یوں بیان کرتا ہےکہ۔۔
                    قد فصل لکم ما حرم علیکم الانعام 119
                    یعنی اس نےتم پر جو چیزیں حرام قرار دیںان سب کو تفصیلا بیان کردیا ۔
                    اور اسی طرح ایک اور مقام پر یوں فرمایا کہ۔۔
                    واحلال لکم ما ورا ذالکم النساء 24۔
                    یعنی اور اسکےسوا تمہارےلیےسب حلال ہے ۔
                    یہاں ذالکم میں کم کی ضمیر کا مرجع وہ اشیاء ہیں کہ جنکا بیان اس کی آیت کے ماقبل میں ہے یعنی یہاں کم کی ضمیر بیان شدہ چیزوں کی طرف لوٹ رہی ہے۔۔
                    ان دونوں آیات سےہمارے بیان کردہ قرآنی اصول کی بڑی وضاحت کےساتھ تصریح ہوتی ہےکہ جس چیز کو قرآن نےحرام کیا اس کی فہرست یعنی تفصیل کردی اور اس کےسوا چونکہ باقی چیزوں کی فہرست نہیں اس لیے وہ سب مباح یعنی جائز قرار پائیں گی، پس ثابت ہوا کہ ترک ذکر حرمت کی نہیں بلکہ اباحت کی دلیل ہے۔ اور اسی اصول کی وجہ سےکسی بھی چیز کو حرام ٹھرانے والے کے لیے ضروری ہےکہ وہ اسکی دلیل لائے اور اسی لیے فقہا نےلکھا کہ دلیل ہمیشہ حرمت کی طلب کی جائےگی کیونکہ اصل تمام اشیاءمیں اباحت ہے ۔
                    تصور بدعت کی مزید وضاحت از روئے حدیث ۔
                    پہلی حدیث۔۔۔۔ جو کوئی اسلام میں اچھا طریقہ ایجاد کرےاسےاپنےعمل اور ان کےعملوں کا بھی ثواب ہے جو اس پر عمل کریں بغیر اس کےان کا اجر کم ہو اور جو شخص اسلام میں برا طریقہ ایجاد کرےاس پر اپنی بد عملی کا گناہ ہےاور انکی بد عملیوں کا بھی کہ جو اس پر کاربند ہوئے بغیر اسکےان کےگناہوں میں سےکچھ کم ہو۔ مسلم شریف۔
                    اس حدیث پر غور کرنےسےصاف معلوم ہوتا ہےکہ اس کا حکم قیامت تک کہ مسلمین کے لیے ہے ۔
                    اور آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےیہ اصول اور قاعدہ بیان فرمادیا ہےکہ جو کوئی بھی کسی نیک عمل کو دین میں رائج کرئےگا اسے خود اس کا ثواب ملے گا اور دوسرے لوگ جو کہ اس کے اس عمل میں اس کےساتھ شریک ہوں گے ان کا ثواب بھی بغیر انکے ثواب میں سےکچھ کمی کےاسے ہی ملےگا جو کہ اس نیک عمل کا ایجاد کرنے والا ہوگا اور اسےان سب کا ثواب اس لیے ملےگا کہ اس نےاس نیک عمل کو ایجاد کیا تھا لہذا بحیثیت موجد اسےتمام عمل کرنے والوں کا ثواب بھی ملے گا۔ اور بالکل اسی طرح سےجو کوئی بری رسم یا طریقہ اسلام میں نکالےگا اسے اس کا گناہ اور دیگر جو اس پر عمل کریں انکو بھی اس کا گناہ اور ان سب کےگنا ہ کا مجموعہ اس بدعت کےایجاد کرنے والےکو ہوگا کیونکہ اس نے اس برےطریقہ کو ایجاد کیا ۔۔۔ یہ حدیث بدعت کےحسنہ اور سئیہ ہونےپر کتنی واشگاف دلیل ہےاب اس کا انکار کوئی خود سر ہی کرسکتا ہے۔
                    دوسری حدیث۔۔۔ من ابتدع بدعۃضلالۃ ۔۔۔۔۔۔۔مشکوٰۃ باب الاعتصام۔
                    یعنی جو شخص گمراہی کی بدعت نکالےجس سے اللہ اور رسول راضی نہ ہوں اس پر ان سب کے برابر گنا ہ ہوگا جو اس پر عمل کریں گے اور یہ ان کےگناہوں سےکچھ کم نہ کرےگا۔ مشکواۃ باب الاعتصام۔
                    اس مسئلہ میں مخالفین کےمسلمہ امام جنھیں یہ لوگ شہید جانتے ہیں یعنی اسماعیل دہلوی وہ اس حدیث کی تشریح میں لکھتےہیں کہ جو بدعت مردود ہے وہ بدعت مقید ضلالت سےہے ۔ رسالہ چہاردہ مسائل بحوالہ اسماعیل دہلوی۔
                    اب اگر اس حدیث کےشروع کےالفاظ پر اگر غور کیا جائےتو آپ لوگ بنظر انصاف دیکھیےکہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےاپنےالفاظ بدعت کی تقسیم پر دال ہیں اور آقا کریم نےیہاں واضح طور پر بدعت ضلالت کا لفظ استعمال کیا ہے۔
                    بدعت کا تصور آثار صحابہ کی روشنی میں
                    جیسا ک گذ شتہ بحث میں ہم نے یہ ثابت کیا کہ بدعت اپنے لغوی مفہوم کےاعتبار سےہر نئےکام کو اور نئی چیز کو کہا جائےگا اب یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارےاس تصور کی کوئی نظیر عہد صحابہ سےبھی ملتی ہےیا نہیں اس کےلیےہم انتہائی اختصار کےساتھ صرف سید نا صدیق اکبر اور سیدنا عمر فاروق کےعمل مبارک کو بطور استدلال پیش کریں گے
                    آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےوصال مبارک بعد جب سیدنا صدیق اکبر نےمنصب خلافت سنبھالا تو اس وقت جھوٹی نبوت کےدعویدار مسیلمہ کذاب کےساتھ جنگ میں سات سو حفاظ کرام صحابہ شہید ہوگئےجب حضرت عمر فاروق نے یہ دیکھا تو آپ کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ کہیں قرآن کا وجود خطر ےمیں نہ پڑھ جائےچناچہ آپ صدیق اکبر کی خدمت میں حاضر ہوئےاور عرض کی اے خلیفہ رسول حفاظ صحابہ جنگوں میں شہید ہوتے جارہے ہیں کہیں کل کو حفاظت قرآن امت کے لیےمسئلہ نہ بن جائے اس لیےمیری ایک تجویز ہےکہ قرآن کو ابھی سےایک کتابی صورت میں جمع کردیا جائےاس طرح حفاظت کا بہتر انتظام ہوسکےگا ۔جس پر صدیق اکبر نےفرمایا کہ۔۔۔
                    کیف ما افعل شیا ءمالم یفعلہ رسول اللہ؟
                    یعنی میں وہ کام کیسےکروں جو رسول اللہ نےنہیں کیا۔
                    جس پر عمر فاروق نےجو جواب دیا وہ ہماری بیان کردہ تقسیم کی نا صرف واضح تائید ہے بلکہ بڑا ایمان افروز ہے آپ رضی اللہ عنہ نےفرمایا اےخلیفۃ الرسول یہ درست ہےکہ یہ کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےنہیں کیا مگر۔۔۔۔
                    ھو اللہ خیر یعنی یہ کام بڑا خیر والا ہے۔۔۔ بخاری
                    ساری بحث کو لکھنا مقصود نہیں مقصود صرف وہ تصور سمجھانا تھا جو کہ ہم نے پیش کیا کہ ہر نیا کام جس کو رسول اللہ نے نہ کیا ہوتا تھا صحابہ بھی اس کو بدعت ہی تصور کرتے تھےمگر اگر وہ کام فی نفسہ اچھا ہوتا تو پر اس کا م کو روا رکھتے تھے۔۔ اسی طرح باجماعت تراویح والہ معاملہ ہے جسےحضرت عمر نےرائج کیا جب بعض صحابہ کو اچھنبا ہوا تو آپ نے فرمایا نعمۃ البدعۃ ھذہ ا س روایت میں حضرت عمر کےان الفاظ نےواشگاف طور پر بدعت کی تقسیم کا قاعدہ بیان کردیا اب اگر کوئی محض اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سےاسے نہ مانےتو منوا دینا ہمارےبس میں نہیں۔۔۔
                    وما علینا الاالبلاغ۔۔
                    والسلام آپ سب کا خیر اندیش عابد عنائت۔
                    ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                    Comment


                    • #55
                      lijiye janab aap ki khawahish puri kardi gai.....aap se guzarish hy k jab apni baat mukaml karleen to mujhy plz bata dijiye ga w/salaam aap ka kahir andeesh aabi
                      ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                      Comment


                      • #56
                        Originally posted by aabi2cool View Post
                        lijiye janab aap ki khawahish puri kardi gai.....aap se guzarish hy k jab apni baat mukaml karleen to mujhy plz bata dijiye ga w/salaam aap ka kahir andeesh aabi
                        بہت بہت شکریہ بھائی۔
                        جی میں ضرور اپنی بات کے خاتمے پر یہاں لکھ دوں گا کہ میری بات مکمل ہو چکی ہے۔

                        Comment


                        • #57

                          Comment


                          • #58
                            ~~~~~LOVE~IS~A~PART~OF~LIFE~NOT~LIFE~~~~~

                            Comment


                            • #59
                              مباح بدعت کی قبولیت اور قرآن
                              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہماری اس بات کی تائید خود قرآن پاک کی اس آیت سےہوتی ہے۔۔۔ارشاد باری ہی۔
                              ثم قفینا علی اثارھم برسلنا وقفینا بعیسی بن مریم واتینہ الانجیل وجعلنا فی قلوب الذین اتبعوہ رافۃ ورحمۃ ورھبانیۃ ن ابتدعوھا ما کتبنھا علیھم الابتغا رضوان اللہ فما رعوھا حق رعیا یتھا فاتینا الذین اٰمنو منھم اجرھم وکثیر منھم فاسقون۔الحدید
                              ترجمہ۔پھر ہم نےان کےپیچھےاس راہ پر اپنےرسول بھیجےاور ان کےپیچھےعیسٰی ابن مریم کو بھیجا ، انھیں انجیل عطا کی اور ہم نے انکےصحیح پیروکاروں کےدلوں میں نرمی اور رحمت رکھی اور رھبانیت کی بدعت انھوں نےخود وضع کی ہم نےان پر فرض نہ کی تھی ہاںمگر انھوں نےیہ صرف اللہ پاک کی رضا چاہتے ہوئے وضع کی لیکن وہ اسکے جملہ تقاضوں کا خیال نہ رکھ سکے پس ان میں سےجو لوگ ایماندار تھےہم نےانھیں انکا اجر عطا کیا مگر ان میں سےا کثر نافرمان تھے۔
                              اس آیت کےالفاظ اور معنٰی پر غور کرنےسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ بے عملی کی وجہ سے اکثر ہوتا ہے تو یہ اقدام نافرمانی کہلائےگا۔
                              ===
                              سب سے پہلی بات تو یہ کہ درج بالا اقتباس کا جواب کافی لمبا ہے لہذا اس کا مطالعہ اطمینان اور سہولت سے کرنے کی گذارش ہے۔

                              دوسری اہم بات ۔۔۔۔
                              اس موضوع پر اعتراض کرنے سے قبل بلاشبہ ہم نے صاحبِ مضمون سے ، ان کے تقاضے کے مطابق کچھ اصول و ضوابط تو طے نہیں کیے تھے لیکن ۔۔۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ جو صاحب، گفتگو سے قبل اصول و ضوابط طے کر لینے کی بات کرتے ہوں وہ خود اپنے مقالے میں بعض اہم اصولوں کی قطعاً پاسداری کر نہیں پاتے ‫!
                              قرآن کا ترجمہ ہو یا تفسیر ، ہم اور آپ اس طرح کسی فورم پر بیٹھ کر بنا حوالہ پیش کرنے کی جراءت نہیں کر سکتے۔ ضروری ہے کہ قرآن کا ترجمہ یا تفسیر یا حدیث کی تشریح کرتے ہوئے مترجم / مفسر / شارح کا بھی حوالہ دیا جائے۔

                              ذیل کی ساری بحث سورہ الحدید کی آیت نمبر 27 پر مبنی ہے۔
                              حیرت کی بات تو یہ ہے کہ تقریباً تمام مفسرین نے اس آیت کو "بدعت" کے خلاف پیش کیا ہے ، مگر مقالہ نگار کی ہمت کی داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے اجماع کو یکسر نظرانداز کر کے اجماع کے عین مخالف راہ کو منتخب کیا ہے۔ راقم کے علم اور مطالعے کے مطابق ، یہ کوشش مقالہ نگار کی ذاتی کوشش نہیں بلکہ تقریباً یہی تشریح ، ایک مکتبِ فکر کی مشہور کتاب "جاءالحق" میں مفتی احمد یار خان نعیمی گجراتی نے عرصہ قبل کی تھی اور جس کے جواب میں کئی علماء کرام نے مختلف کتابوں میں اس غلط تفسیر/تشریح کی نشاندہی کر رکھی ہے۔
                              بہرحال ہمارا سب سے پہلا اعتراض تو آیت کے ترجمہ پر ہے جو یوں کیا گیا ہے‫:
                              پھر ہم نےان کےپیچھےاس راہ پر اپنےرسول بھیجےاور ان کےپیچھےعیسٰی ابن مریم کو بھیجا ، انھیں انجیل عطا کی اور ہم نے انکےصحیح پیروکاروں کےدلوں میں نرمی اور رحمت رکھی اور رھبانیت کی بدعت انھوں نےخود وضع کی ہم نےان پر فرض نہ کی تھی ہاں مگر انھوں نےیہ صرف اللہ پاک کی رضا چاہتے ہوئے وضع کی لیکن وہ اسکے جملہ تقاضوں کا خیال نہ رکھ سکے پس ان میں سےجو لوگ ایماندار تھےہم نےانھیں انکا اجر عطا کیا مگر ان میں سےا کثر نافرمان تھے۔
                              ہمارا مطالبہ ہے کہ "جملہ تقاضوں" کے الفاظ جس قرآنی الفاظ کا ترجمہ ہیں ان کی نشاندہی کی جائے ورنہ خطرہ ہے کہ اس فورم کا کوئی قاری قرآن کے ترجمے میں تحریفِ معنوی کا الزام عائد نہ کر جائے۔
                              ہم ذیل میں مختلف مکاتبِ فکر کے پانچ اردو ترجمے پیش کر رہے ہیں تاکہ قارئین کو بھی کچھ اندازہ ہو کہ کس طرح من مانے ترجمے کے ذریعے اپنے موقف کی تائید میں تحریفِ معنوی کا ارتکاب کیا گیا ہے۔

                              ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِم بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ
                              ( سورة الحديد : 57 ، آیت : 27 )


                              احمد رضا خان فاضل بریلوی
                              پھر ہم نے ان کے پیچھے اسی راہ پر اپنے اور رسول بھیجے اور ان کے پیچھے عیسیٰ بن مریم کو بھیجا اور اسے انجیل عطا فرمائی اور اس کے پیروؤں کے دل میں نرمی اور رحمت رکھی اور راہب بننا تو یہ بات انہوں نے دین میں اپنی طرف سے نکالی ہم نے ان پر مقرر نہ کی تھی ہاں یہ بدعت انہوں نے الله کی رضا چاہنے کو پیدا کی پھر اسے نہ نباہا جیسا اس کے نباہنے کا حق تھا تو ان کے ایمان والوں کو ہم نے ان کا ثواب عطا کیا، اور ان میں سے بہتیرے فاسق ہیں
                              محمود الحسن دیوبندی
                              پھر پیچھے بھیجے اُن کے قدموں پر اپنے رسول ، اور پیچھے بھیجا ہم نے عیسیٰ ، مریم کے بیٹے کو اور اس کو ہم نے دی انجیل ، اور رکھ دی اس کے ساتھ چلنے والوں کے دل میں نرمی اور مہربانی ، اور ایک ترک کرنا دنیا کا جو انہوں نے نئی بات نکالی تھی ، ہم نے نہیں لکھا تھا یہ اُن پر ، مگر کیا چاہنے کو اللہ کی رضامندی ، پھر نہ نباہا اس کو جیسا چاہئے تھا نباہنا ، پھر دیا ہم نے اُن لوگوں کو جو اُن میں ایماندار تھے اُن کا بدلہ اور بہت اُن میں نافرمان ہیں
                              فتح محمد جالندھری
                              پھر ان کے پیچھے انہی کے قدموں پر (اور) پیغمبر بھیجے اور ان کے پیچھے مریمؑ کے بیٹے عیسیٰ کو بھیجا اور ان کو انجیل عنایت کی۔ اور جن لوگوں نے ان کی پیروی کی ان کے دلوں میں شفقت اور مہربانی ڈال دی۔ اور لذات سے کنارہ کشی کی تو انہوں نے خود ایک نئی بات نکال لی ہم نے ان کو اس کا حکم نہیں دیا تھا مگر (انہوں نے اپنے خیال میں) خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے (آپ ہی ایسا کرلیا تھا) پھر جیسا اس کو نباہنا چاہیئے تھا نباہ بھی نہ سکے۔ پس جو لوگ ان میں سے ایمان لائے ان کو ہم نے ان کا اجر دیا اور ان میں بہت سے نافرمان ہیں
                              سید مودودی
                              ان کے بعد ہم نے پے در پے اپنے رسول بھیجے ، اور ان سب کے بعد عیسیٰ ابن مریم (ع) کو مبعوث کیا اور اس کو انجیل عطا کی ، اور جن لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی ان کے دلوں میں ہم نے ترس اور رحم ڈال دیا۔ اور رہبانیت انہوں نے خود ایجاد کر لی ، ہم نے اُسے ان پر فرض نہیں کیا تھا، مگر اللہ کی خوشنودی کی طلب میں انہوں نے آپ ہی یہ بدعت نکالی اور پھر اس کی پابندی کرنے کا جو حق تھا اسے ادا نہ کیا۔ اُن میں سے جو لوگ ایمان لائے ہوئے تھے اُن کا اجر ہم نے ان کو عطا کیا ، مگر ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں۔
                              محمد جوناگڑھی
                              ان کے بعد پھر بھی ہم اپنے رسولوں کو پےدرپے بھیجتے رہے اور ان کے بعد عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو بھیجا اور انہیں انجیل عطا فرمائی اور ان کے ماننے والوں کے دلوں میں شفقت اور رحم پیدا کر دیا ہاں رہبانیت (ترکِ دنیا) تو ان لوگوں نے ازخود ایجاد کر لی تھی ہم نے ان پر اسے واجب نہ کیا تھا سوائے اللہ کی رضا جوئی کے۔ سو انہوں نے اس کی پوری رعایت نہ کی ، پھر بھی ہم نے ان میں سے جو ایمان لائے تھے انہیں ان کا اجر دیا اور ان میں زیادہ تر لوگ نافرمان ہیں۔
                              ===
                              فاضل مقالہ نگار کے ترجمہ اور تشریح پر اعتراض تو بعد میں کیا جائے گا ۔۔۔ فی الحال ہم اس تناقض کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں جو الفاظ کی ہیرا پھیری میں چھپایا گیا ہے۔
                              کہا گیا ہے کہ : اللہ تعالیٰ نے مبتدعین کو اجر و ثواب دیا۔
                              سوال یہ ہے کہ انہیں کس چیز کا اجر ملا؟ بدعت کی ایجاد پر یا بدعت پر عمل کرنے پر؟ مقالہ میں تو لکھا ہے کہ بدعت پر عمل کرنے کا اجر دیا گیا۔
                              حالانکہ قرآن کی اسی آیت کی تشریح کے ذیل میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ : اس بدعت (رھبانیت) پر تو انہوں نے عمل ہی نہیں کیا جیسا کہ آپ خود احمد رضا خان فاضل بریلوی کے ترجمہ میں دیکھ سکتے ہیں کہ ‫:
                              پھر اسے نہ نباہا جیسا اس کے نباہنے کا حق تھا
                              اس کے باوجود مقالہ نگار کی ضد ہے کہ مبتدعین کو اجر ملا ہے۔ تو اسی آیت کے آخر میں جو اللہ تعالیٰ نے
                              وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ
                              کہہ کر مذمت کی ہے وہ کن لوگوں کے متعلق ہے؟ کیونکہ فسق کا فتویٰ تو کسی دین کے فرض اور واجب رکن کے ترک پر ہی لگایا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ خود اسی مکتبِ فکر کے علماء نے لکھا ہے کہ بدعات کے ساتھ فرض و واجب کا سا معاملہ کرنا بدعتِ سئیہ ہے۔ (بحوالہ : شرح صحیح مسلم ـ غلام رسول سعیدی)۔
                              لہذا ثابت ہوا کہ مبتدعین کو اجر ملنے کا جو مفہوم پیش کیا گیا ہے وہ اپنی مرضی کا خودساختہ مفہوم ہے ، آیت کا سیاق و سباق تو ایسے مفہوم کی قطعاً تائید نہیں کرتا۔

                              درحقیقت ۔۔۔ اجر ملنے کی جو بات آیتِ مقدسہ کے درج ذیل ٹکڑے میں کی گئی ہے ‫:
                              فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ
                              مفسرین کرام کے مطابق ، اس کا تعلق "ابتدعوھا" سے نہیں بلکہ
                              وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ
                              سے ہے۔ اور آیتِ قرآنی کا مفہوم یہ ہے کہ جن لوگوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خالص اتباع کی اور دینِ عیسوی پر چلے اور نیک اعمال بجا لائے اور حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تصدیق کر کے ایمان والوں میں شامل ہوئے ، ان کو اللہ تعالیٰ نے اجر سے نوازا۔ مکمل تفصیل و تشریح کے لیے "تفسیر ابن کثیر" ملاحظہ فرمائیں۔
                              آیتِ قرآنی کے اس مفہوم کی تائید میں لیجئے ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔۔۔

                              قرآن میں ایک دوسرے مقام پر بھی فرمایا گیا ہے ‫:
                              سب ایک سے نہیں کتابیوں میں ، کچھ وہ ہیں کہ حق پر قائم ہیں اللہ کی آیتیں پڑھتے ہیں رات کی گھڑیوں میں اور سجدہ کرتے ہیں اللہ اور پچھلے دن پر ایمان لاتے ہیں اور بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نیک کاموں پر دوڑتے ہیں، اور یہ لوگ لائق ہیں
                              (سورہ آل عمران ، 113 اور 114)۔ (ترجمہ : احمد رضا خان فاضل بریلوی)۔

                              اور یہی مضمون سورہ الحدید کی اگلی آیت (28) میں بیان ہوا ہے کہ اگر تم محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان لاؤ گے تو دوہرا اجر پاؤ گے ، ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے کا اور دوسرا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تصدیق کرنے کا۔ اس آیت کی تفسیر میں امام المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : جن مومنوں کا یہاں ذکر ہے اس سے مراد اہلِ کتاب کے مومن ہیں اور انہیں دوہرا اجر ملے گا ۔۔۔۔ (بحوالہ : صحیح بخاری ، کتاب العلم ، باب تعلیم الرجل امتہ و اھلہ)۔

                              تمام مفسرین کرام نے "اجرھم" کی یہی تفسیر بیان کی ہے کہ ۔۔۔
                              اجر ان لوگوں کو ملا جو دینِ عیسوی پر قائم رہے نہ کہ متدعین کو۔

                              احناف کی دو تفسیروں سے اسی حقیقت کا ثبوت ملاحظہ کیجئے ‫:
                              يريد : أهل الرحمة والرأفة الذين اتبعوا عيسى
                              اجر ان لوگوں کو ملا جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے رحمت و رافت ڈالی تھی جو عیسیٰ علیہ السلام کی اتباع کرتے تھے
                              تفسیر الکشاف (علامہ زمخشری‫)
                              ج:4 ، ص:382

                              أي أهل الرأفة والرحمة الذين اتبعوا عيسى عليه السلام و الذين آمنوا بمحمد صلى الله عليه وسلّم
                              اجر ان لوگوں کو ملا جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے رحمت و رافت ڈالی تھی اور دینِ عیسوی کے متبع تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے
                              تفسیر مدارک التنزیل (علامہ نسفی حنفی‫)
                              ج:6 ، ص:225

                              شریعت عیسوی میں رہبانیت کا جو تصور تھا اس کا کوئی حکم اللہ یا اسکےرسول نےنہیں دیا تھاہاں مگر امت عیسوی نےاسےبطور خودرضائےالہٰی کےحصول کی خاطر اپنالیا تھا۔ جس پر اللہ پاک نےاُن کےاس عمل کو سند قبولیت سےنوازااور یوں رہبانیت مشروع ہوکر شریعت عیسوی کا حصہ بنی۔
                              درج بالا اقتباس میں یہ وضاحت مطلوب ہے کہ : سورہ الحدید کی متذکرہ آیت سے کیسے یا کس طرح ظاہر ہوتا ہے کہ رہبانیت کو اللہ تعالیٰ نے سند قبولیت سے نوازا اور یوں رہبانیت مشروع ہوکر شریعت عیسوی کا حصہ بنی؟
                              آخر کس مفسر نے ایسا فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رہبانیت والی "بدعت" کو سند قبولیت سے نوازا؟
                              ہاں ، اگر قرآن کی من مانی تشریح کرنا ہی مقصود ہے تو پھر ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ یہاں پر صرف وہ حدیث یاد دلانا کافی ہوگا جس میں : قرآن میں اپنی رائے سے کچھ کہنے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہنم کی وعید سنائی ہے۔
                              ہمارا دعویٰ ہے کہ کوئی بھی تفسیر ۔۔۔ ابن کثیر ، فتح القدیر، قرطبی ، جلالین ، طبری ، بغوی ، مجاہد ، ابن ابی حاتم ، مقاتل ، خازن ۔۔۔وغیرہ دیکھ لیں ، کسی میں بھی ایسا قطعاً دیکھنے کو نہیں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ نے رہبانیت والی "بدعت" کو سند قبولیت سے نوازا ہو ‫!
                              اگر واقعی ایسا ہے تو پھر ثبوت دیجئے ورنہ من مانی تشریح سے اللہ کے لیے باز آ جائیے۔
                              آئیے ذرا دیکھتے ہیں کہ مفسرین حضرات نے رہبانیت کی اس بدعت کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

                              اللہ تعالیٰ کے فرمان : إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ
                              میں دو قول ہیں۔
                              اول : اس بدعت سے ان کا مقصود رضائے الٰہی تھا۔
                              دوم : ہم نے ان پر اسے (بدعت کو) واجب نہ کیا تھا بلکہ فرض تو ان پر رضائے الٰہی کا حصول تھا۔
                              حوالہ : تفسیر ابن کثیر ، جلد:5 ، ص:509 اور تفسیر طبری بحوالہ متذکرہ آیۃ۔

                              دوسرے معنی کو تسلیم کیا جائے تو صاف پتا چلتا ہے کہ رہبانیت والی بدعت کی نکیر کی جا رہی ہے اور جو اصل فرض (شریعتِ حقہ پر چل کر رضائے الٰہی کا حصول) ہے اس کو بیان کیا جا رہا ہے۔
                              اگر بالفرض مفسرین کے بیان کردہ اس دوسرے معنی کو نہ مانا جائے تب بھی یہ قطعاً نہیں کہا جا سکتا کہ اس آیت کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے بدعت (رھبانیت) کو سندِ قبولیت عطا کی ہو۔ بلکہ تمام مفسرین کے مطابق یہاں اس آیت میں مبتدعین کے دلی خیال اور ایجادِ بدعت کی وجہ اور دین میں اختراعات کا پسِ منظر بیان کیا جا رہا ہے کہ شریعت سازی میں ان کی نیت فقط رضائے الٰہی کا حصول تھا۔ (مکمل تفصیل کے لیے "تفسیر ابن کثیر" ملاحظہ فرمائیں)۔
                              اور یہ اعتراف تو ہم بھی کریں گے کہ مبتدعین کے عوام سادہ لوح ہوتے ہیں ، وہ ان بدعات کو "دین" سمجھ کر کرتے ہیں اور اس سے ان کا مقصود اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہوتا ہے۔
                              اور یہیں سے ہمارا اصولی اور بنیادی اختلاف شروع ہوتا ہے۔

                              وہ حکم جو منزل من اللہ یا مقرر من الرسول نہ ہو لیکن اللہ اور اس کےرسول نےکسی ایسےعمل سےروکا بھی نہ ہو اسےاگر نیک نیتی سے مستحسن انداز میں داخل شریعت کرلیا جائے بشرطیکہ وہ عمل بذات خود صحیح ہو اور کسی بھی شرعی امر کےخلاف نہ ہو تو ایسےعمل کو نہ صرف شرف قبولیت عطا ہوتا ہےبلکہ اس پر اجر وثواب کا بھی وعدہ خداوندی ہے۔
                              اس اقتباس سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ شریعت میں مداخلت کی اجازتِ عام ہے۔
                              اب سوال یہ ہے کہ کیا : کیا عقائد یا عبادات میں کچھ چیزیں ایسی بھی چھوٹ گئی ہیں جو قرون ثلاثہ میں تو نہ رہیں مگر اب ہمیں ان کو شریعت میں داخل کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے؟؟
                              اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ عبادات اور عقائد کے کچھ معاملات کھلے چھوڑ دئے گئے ہیں تاکہ بعد کی نسلیں ان میں اضافہ کر سکیں؟؟
                              کیا ایسی تشریح قابلِ قبول ہو سکتی ہے؟؟
                              اس کا ایک دوسرا مطلب تو یہ بھی ہوا کہ ہمیں قرون ثلاثہ کی عظیم ہستیوں پر اعتماد و اعتبار ہی نہیں ہے۔
                              عبادت کے جس کسی طریقے کو آج ہم مستحسن سمجھ کر نیک نیتی سے شریعت میں داخل کر لیں تو کیا یہی طریقہ صحابہ کرام ، تابعین عظام اور تبع تابعین کو نہیں سوجھا ہوگا؟؟
                              حالانکہ اللہ تعالیٰ تو قرآن میں فرماتا ہے کہ میں نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا (سورہ الذاریات)۔ تو کیا قرآن کو سب سے زیادہ بہتر جاننے والی قرون ثلاثہ کی عظیم و مبارک ہستیاں عبادت کے ایک ایک چھوٹے سے چھوٹے طریقہ کو نہیں جانتی تھیں؟؟ کیا کوئی ایک طریقۂ عبادت ایسا بھی چھوٹ گیا ہے کہ چودہ سو سال بعد ہمیں اس کا خیال آیا ہو؟؟
                              ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں جو ایسا خیال بھی دل میں لائیں۔

                              اور اللہ ہی ہم تمام کو ہدایت دینے والا ہے ‫!!

                              جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                              Comment


                              • #60
                                Originally posted by BaaZauq View Post
                                السلام علیکم
                                معذرت چاہتا ہوں۔ مصروفیت کے سبب پوسٹ نہ کر سکا۔
                                ان شاءاللہ کل ضرور لکھوں گا۔
                                mohtaram aur kitna antizaar karwain gay aap :taubahameen aap to serf chand ikhtilafaat karnay aay thy magar ab to lagta hy poray munazray ka iltizaam kar rakha hy aap nay bus kareen ab kahan kahan se dalil dhoondh dhoondh kar larahy hain in sab ka jawab dena mery bus ki baat naheen bhai:khi:
                                ab aap apni baat khatam akro to hum bhi khuch boleen na
                                ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                                Comment

                                Working...
                                X