Originally posted by aabi2cool
View Post
از روئے شریعت ہر نئے کام کو محض اس لیے ناجائز و حرام قرار دیا جائے کہ وہ نیا ہے ؟
اگر شرعی اصولوں کا معیار یہی قرار دیا جائے تو پھر دین اسلام کی تعلیمات اور ہدایات میں سے کم و بیش ستر فیصد حصہ ناجائز و حرام ٹھرتا ہےکیونکہ اجتہاد کی ساری صورتیں اور قیاس ، استحسان،استنباط اور استدلال وغیرہ کی جملہ شکلیں سب ناجائز و حرام کہلائیں گی کیونکہ بعینہ ان سب کا وجود زمانہ نبوت تو درکنار زمانہ صحابہ میں بھی نہیں تھا
اسی طرح دینی علوم و فنون مثلا اصول، تفسیر ، حدیث ، فقہ و اصول فقہ اور انکی تدوین و تدریس اور پھر ان سب کوسمجھنے کے لیے صرف و نحو ، معانی ، منطق وفلسفہ اور دیگر معاشرتی و معاشی علوم جو تفہیم دین کے لیے ضروری اور عصر ی تقاضوں کے عین مطابق ابدی حیثیت رکھتے ہیں ان کا سیکھنا حرام قرار پائے گا کیونکہ اپنی ہیت کے اعتبار سے ان سب علوم و فنون کی اصل نہ تو زمانہ نبوی میں ملتی ہے اور نہ ہی زمانہ صحابہ میں انھیں تو بعد میں ضروریات کے پیش نظر علماء مجتہدین اسلام نے وضع کرلیا تھا ۔
اگر شرعی اصولوں کا معیار یہی قرار دیا جائے تو پھر دین اسلام کی تعلیمات اور ہدایات میں سے کم و بیش ستر فیصد حصہ ناجائز و حرام ٹھرتا ہےکیونکہ اجتہاد کی ساری صورتیں اور قیاس ، استحسان،استنباط اور استدلال وغیرہ کی جملہ شکلیں سب ناجائز و حرام کہلائیں گی کیونکہ بعینہ ان سب کا وجود زمانہ نبوت تو درکنار زمانہ صحابہ میں بھی نہیں تھا
اسی طرح دینی علوم و فنون مثلا اصول، تفسیر ، حدیث ، فقہ و اصول فقہ اور انکی تدوین و تدریس اور پھر ان سب کوسمجھنے کے لیے صرف و نحو ، معانی ، منطق وفلسفہ اور دیگر معاشرتی و معاشی علوم جو تفہیم دین کے لیے ضروری اور عصر ی تقاضوں کے عین مطابق ابدی حیثیت رکھتے ہیں ان کا سیکھنا حرام قرار پائے گا کیونکہ اپنی ہیت کے اعتبار سے ان سب علوم و فنون کی اصل نہ تو زمانہ نبوی میں ملتی ہے اور نہ ہی زمانہ صحابہ میں انھیں تو بعد میں ضروریات کے پیش نظر علماء مجتہدین اسلام نے وضع کرلیا تھا ۔
درج بالا اقتباس سے دو سوالات یوں اٹھتے ہیں کہ ۔۔۔
کیا "تفہیمِ دین کی ضرورت" اور "دین" ایک ہی اصطلاح ہے؟؟
اور کیا علماء مجتہدین اسلام نے درج بالا علوم و فنون کو وضع کرنے کے بعد یہ بھی فرمایا تھا کہ یہ یہ علوم و فنون بھی "شریعتِ اسلامیہ" میں شامل ہیں؟؟
اگر دونوں سوالات کا جواب نفی میں ہو ، (اور یقیناً نفی میں ہی ہے!) تو یہیں ثابت ہو جاتا ہے کہ "دین" ایک الگ امر ہے اور دین کو سمجھنے کے لیے جو وسائل اختیار کیے جاتے ہیں وہ ایک علیحدہ معاملہ ہے۔
ان وسائل کو اختیار کرنے کا معاملہ امت مسلمہ پر چھوڑا گیا ہے جیسا کہ اس کی دلیل میں صحیح مسلم کی حدیث ہے :
تم اپنے دنیاوی امور کو بہتر جانتے ہو ۔ (صحیح مسلم)۔
دین کو سمجھنے کے وسائل یعنی ۔۔۔ عصری تقاضے بدلتے رہتے ہیں ، علوم و فنون گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں ، صرف و نحو ، معانی ، منطق وفلسفہ وغیرہ میں تبدیلیاں آ سکتی ہیں ۔۔۔ لیکن "دین" نہیں بدل سکتا یعنی وہ "دین" جس کو "اسلامی شریعت" بھی کہتے ہیں اور "قرآن و حدیث" بھی۔
کیا "تفہیمِ دین کی ضرورت" اور "دین" ایک ہی اصطلاح ہے؟؟
اور کیا علماء مجتہدین اسلام نے درج بالا علوم و فنون کو وضع کرنے کے بعد یہ بھی فرمایا تھا کہ یہ یہ علوم و فنون بھی "شریعتِ اسلامیہ" میں شامل ہیں؟؟
اگر دونوں سوالات کا جواب نفی میں ہو ، (اور یقیناً نفی میں ہی ہے!) تو یہیں ثابت ہو جاتا ہے کہ "دین" ایک الگ امر ہے اور دین کو سمجھنے کے لیے جو وسائل اختیار کیے جاتے ہیں وہ ایک علیحدہ معاملہ ہے۔
ان وسائل کو اختیار کرنے کا معاملہ امت مسلمہ پر چھوڑا گیا ہے جیسا کہ اس کی دلیل میں صحیح مسلم کی حدیث ہے :
تم اپنے دنیاوی امور کو بہتر جانتے ہو ۔ (صحیح مسلم)۔
دین کو سمجھنے کے وسائل یعنی ۔۔۔ عصری تقاضے بدلتے رہتے ہیں ، علوم و فنون گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں ، صرف و نحو ، معانی ، منطق وفلسفہ وغیرہ میں تبدیلیاں آ سکتی ہیں ۔۔۔ لیکن "دین" نہیں بدل سکتا یعنی وہ "دین" جس کو "اسلامی شریعت" بھی کہتے ہیں اور "قرآن و حدیث" بھی۔
اور اگر آپ کو اسی ضابطے پر اصرار ہوتو پھر درس نظامی کی موجودہ شکل بھی حرام ٹھرتی ہے جو کہ بحرحال دین کو سمجھنے کی ایک اہم شکل ہے اوراسے اختیار بھی دین ہی سمجھ کر کیا جاتا ہے
جو کوئی درسِ نظامی کو اختیار کرتا ہے ، کیا وہ اسے دین سمجھتا ہے؟ ایسا تو کوئی بھی باشعور مسلمان نہیں کہتا۔
اس کا دوسرا مطلب تو یہ ہوا کہ جو کوئی درسِ نظامی اختیار نہیں کرتا وہ دین پر نہیں چلتا؟؟
کیا یہ غیرعقلی بات نہیں ہے۔ برصغیر کے کسی بھی عالم سے پوچھ لیں۔ کوئی بھی یہ نہیں کہے گا کہ "درسِ نظامی" درحقیقت "دینِ اسلام" ہے۔ بلکہ یہی کہے گا کہ "درسِ نظامی" ، دینِ اسلام کو سمجھنے کا وسیلہ یا ذریعہ ہے۔ دین تو قرآن و حدیث میں محفوظ ہے۔
میں ایک بار پھر دہراؤں گا کہ "دین" ایک الگ چیز ہے اور دین کو سمجھنے کے لیے جو ذرائع یا وسائل اختیار کئے جاتے ہیں وہ ایک علیحدہ معاملہ ہے۔ ان ذرائع یا وسائل کو "دین" کا نام دنیا کا کوئی بھی عالم نہیں دیتا اور نہ دے ہی سکتا ہے۔
اس کا دوسرا مطلب تو یہ ہوا کہ جو کوئی درسِ نظامی اختیار نہیں کرتا وہ دین پر نہیں چلتا؟؟
کیا یہ غیرعقلی بات نہیں ہے۔ برصغیر کے کسی بھی عالم سے پوچھ لیں۔ کوئی بھی یہ نہیں کہے گا کہ "درسِ نظامی" درحقیقت "دینِ اسلام" ہے۔ بلکہ یہی کہے گا کہ "درسِ نظامی" ، دینِ اسلام کو سمجھنے کا وسیلہ یا ذریعہ ہے۔ دین تو قرآن و حدیث میں محفوظ ہے۔
میں ایک بار پھر دہراؤں گا کہ "دین" ایک الگ چیز ہے اور دین کو سمجھنے کے لیے جو ذرائع یا وسائل اختیار کئے جاتے ہیں وہ ایک علیحدہ معاملہ ہے۔ ان ذرائع یا وسائل کو "دین" کا نام دنیا کا کوئی بھی عالم نہیں دیتا اور نہ دے ہی سکتا ہے۔
کیونکہ موجودہ شکل میں درس نظامی کی تدریس ، تدوین اور تفہیم نہ تو زمانہ نبوی میں ہوئی اور نہ ہی صحابہ نے اپنے زمانے میں کبھی اس طرح سے دین کو سیکھا اور سکھایا لہذا جب ہر نیا کام بدعت ٹھرا اور ہر بدعت ہی گمراہی ٹھری تو پھر لازما درس نظامی اور دیگر تمام امور جو ہم نے اوپربیان کیئے وہ سب ضلالت و گمراہی کہلائیں گے
جب ہم میں سے کوئی "درسِ نظامی" کی ہئیت کو راست "دین" سمجھتا ہی نہیں تو پھر اسے بدعت کون کہے گا بھلا ؟ بدعت تو وہ ہے کہ جسے دین میں ایجاد کیا جائے۔ یعنی جو دین قرآن و حدیث کی شکل میں محفوظ ہے اس میں ردّ و بدل یا اضافہ کیا جائے۔
اسی طرح قرآن پاک کا موجودہ شکل میں جمع کیا جانا اس پر اعراب اور نقاط پھر پاروں میں اس کی تقسیم اور منازل میں تقسیم اور رکوعات اور آیات کی نمبرنگ
یہ بھی بہرحال بدعت نہیں ہیں۔ اور اس پر میں حوالوں کے ساتھ آگے چل کر بات کروں گا۔ ان شاءاللہ۔
اسی طرح مساجد مین لاوڈ اسپیکر کا استعمال مساجد کو پختہ کرنا اور انکی تزیئن و آرائش مختلف زبانوں میں خطبات اور اسی قسم کے جملہ انتظامات سب اسی زمرے میں آئیں گے۔
یہ دنیاوی امور ہیں جس کی حلت سے متعلق صحیح مسلم کی حدیث بیان کی جا چکی ہے۔
Comment